Hazrat Umer Bin Abdul Aziz Reh.Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)

Hazrat Umer Bin Abdul Aziz Reh.

Munara, Chakwal, Pakistan
01-07-2020

ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۔ (الرحمن :60)  ’’بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہے ۔‘‘
نیکی کے لفظی معا نی بھلا ئی ،عمدگی ،کا ر خیر اور احسا ن کے ہیں ۔حضرت جی  ؒکا فرما ن ہے کہ اگر تم خلوص ِدل سے دامانِ رسالت ؐ تھا مو گے، اتباعِ رسالت ؐ کرو گے ،اطا عت ِالٰہی کرو گے تو یہ بھلا ئی ہے ،نیکی ہے۔ 
 اس آیۂ کریمہ میں اللہ سبحا نہٗ تعا لیٰ فرما رہے ہیں کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا  اور کچھ ہو سکتا ہے ! گو یا اطا عت ِالٰہی کرنے وا لے یقیناًانعام پا تے ہیں اور تا ریخ کے آسمان پر ایسے بے شمار وا قعات درخشا ں ستا روں کی طرح منور ہیں ۔
  فرد کی نیکی کا صلہ تو فرد کو ملتا ہی ہے لیکن اس نیکی کو کرنے وا لے کی قوتِ ایمانی اور تعلق مع اللہ اس کی نیت و ارادے میں وہ خلوص پیدا کرتے ہیں کہ بسااوقات اس نیکی کے ثمر سے نسلیں بلکہ قو میں فیضیاب و سرفراز ہو تی ہیں ۔
دورِ فاروقی تھا۔ حضرت عمرِ فاروق ؓ رات کےوقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں عوام النا س کی حا لت ِزارجا ننے کے لیے (جسے آج کلGround reality جاننا کہتے ہیں ) معمو ل کے دورے پہ ہیں ۔اتنے میں ایک مکان سے ماں بیٹی کی گفتگو سنا ئی دیتی ہے ۔ماں کہہ رہی ہے دودھ میں پا نی ملا دو ،بیٹی جواب دیتی ہے خلیفہ نے ملا وٹ سے منع کیا ہے ۔ما ں تسلی دیتی ہے خلیفہ دیکھ تو نہیں رہا ۔معیت ِباری پہ پختہ ایمان بیٹی سے بے سا ختہ کہلوا تا ہے ’’ اماں! اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘لہجے کے تیقن نے حضرت عمر ِفاروق ؓ کو سرشار کر دیا اور اسی وقت قصد کر لیا کہ اس لڑکی کو اپنی بیٹی بنا ئیں گے ۔گھر جا کربیٹے عاصم سے فرما یا ’’اس سے نکا ح کر لو ۔بخدا  اس سے ایک شہسوار پیدا ہو گا جو تمام عرب کی قیا دت کرے گا۔ ‘‘ امام مالک کے شا گرد الامام الفقیہہ ابو محمد عبد اللہ بن الحکم ایک اور  روا یت بھی بیان فر ما تے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرِ فاروق ؓسو کر اٹھے ،آنکھیں ملیں ،منہ پہ ہا تھ پھیرا  اور کئی با ر فرما یا ’’یہ کون ہے جو عمر کی اولا د سے ہو گا ، جس کا نام عمر ہو گا اور جو عمر کے طریقہ پر چلے گا۔ ‘‘ـــــ
 اور پھر روئے زمین کو ان ؓ کی راہ پہ چلنے و الے ایک اور عمر ؒکے قدوم چو منے کا شرف حا صل ہوا ۔عمربن عبد العزیز ؒ!!!۔۔۔جن کی وا لدہ حضرت عمرِ فاروق ؓ کی پو تی تھیں اور قبیلہ بنی ہلال کی وہی لڑکی ان کی نانی ۔گو رنرِ مصر کے بیٹے ،خلیفۂ وقت کے بھتیجے اور مدینہ منورہ کے حاکم مقرر ہو نے وا لے عمربن عبد العزیز ؒ!! جو نوجوانی میں خوش لبا سی ،خوش اطوا ری ،خوش ذوقی اور خوش خصا لی میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔اعلیٰ درجہ کی عنبر کی خو شبو جن کی را ہگزر کا پتہ دیتی لیکن مزاج میں تنعم اور چا ل میں با نکپن رکھنے وا لے عمر بن عبد العزیز ؒپہ مدینہ کی گو رنری کے دوران بھی شکم پروری ،شہوت پرستی یا غلط فیصلے کے اشتباہ تک کی گنجا ئش نہ تھی ۔
جب خلیفۂ وقت سلمان بن عبد الملک نے خلا فت سے گریزاں انھیں عمر بن عبد العزیز ؒ کو یہ کہہ کر اپنا جا نشین چنا کہ’’بخدا میں ایسی نا مزدگی کروں گا جس میں شیطا ن کا کو ئی حصہ نہ ہو گا ۔‘‘تو چشم ِفلک نے دیکھا کہ سلطنت کی گو د کے پر وردہ ،عطر بیزی میں مشہورعمربن عبد العزیز، عمرؓ بن خطا ب کے رستے پہ گا مزن ہو گئے ۔انوا ع و اقسام کے کھانے ترک کر دیے ،تمام جا ئیداد،غلام ، لو نڈی ،چو پا ئے ،قیمتی ساز و سا مان ،سوا ری، لبا س اور عطو ر بیچ کر رقم اللہ کی راہ میں دے دی۔اپنی خیبر کی جا گیر کی دستا ویز یہ فرما کر چا ک کر ڈا لی کہ ’’ میں اسے اس حالت میں چھوڑتا ہوں جس میں رسو ل اللہ ﷺ  چھوڑ کر گئے ۔پہلے خلیفہ کی تمام خصوصی اشیا ءبیت الما ل میں جمع کرا دیں ،خدام کو اپنی آمد پہ کھڑا  ہو نے سے منع فرما دیا ،سلام میں پہل کرنے کو روا ج دیا ،خلا فت کے بعد تا دم ِمرگ نہ کو ئی سوا ری خریدی ،نہ کسی عورت سے نکاح کیا اور نہ ہی نئی با ندی رکھی ۔بنو امیہ کے امراء کے قبضے میں نا جا ئز املاک اور زمینیں وا پس کرا ئیں اور انھیں ملنے وا لے عطیا ت بند کروا دیے۔ اپنے عمال وامرائے لشکر کے لیے فیصلے کرنے ،جزا و سزا  اور قتا ل کے ایسے اصول و ضو ابط و آداب مقرر فرما ئے جو آج بھی کسی حاکم کے لیےمشعل راہ بن سکتے ہیں ۔غربا ءو مسا کین کو بیت المال کا حق دار ٹہرا یا۔یہ آپ ہی کا دورِ حکومت تھا جس میں جب خمس کے غلام زیا دہ ہو جا تے تو انھیں نا بینا اور اپا ہج افراد میں تقسیم کر دیا جا تا ۔عوام میں خوشحا لی کا یہ عا لم تھا کہ صدقہ لینے وا لا کو ئی نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ پھر ان رقوم سے غلام آزاد کرا ئے جا نے لگے ۔آ پؒ نے چو پا یوں تک کے لیے ہدا یات جا ری کروا ئیں کہ لگام بھا ری نہ ہو ،بو جھ زیا دہ نہ ہواور لو ہے کی خول وا لی چھڑی سے نہ ہا نکا جا ئے ۔

 

آپ ؒ کے با رے میں امام با قر  ؒ فرما تے ہیں’’ہر قوم میں شرفاء ہو تے ہیں بنو امیہ میں عمر بن عبد العزیز ؒتنہا مجموعہ شرفا ءہیں ۔آپ قیا مت کے دن تن تنہا ایک قوم بن کر اٹھیں گے ۔‘‘ امام احمد بن حنبل ؒ کا ارشا د ہے ’’اگر آپ کسی کے دل میں عمربن عبد العزیز ؒکی محبت کا جذبہ مو جزن دیکھیں کہ وہ آپ ؒ کے اوصاف ِحمیدہ کی تشہیر کرتا رہتا ہے تو یقین کر لیجیے کہ اس کا انجام خیر و برکت سے بھر پور ہے ۔‘‘
حضرت انس بن مالک ؓ عراق سے مدینہ تشریف لا ئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جو اس وقت حا کم ِمدینہ تھے ،کے پیچھے نماز پڑ ھنے کے بعد فرما یا، ماصلیت خلف امام بعد رسول اللہ ﷺ اشبہ صلٰوۃ بصلٰوۃ رسول  اللہ ﷺ من امامکم ھذا (رسو ل اللہ  ﷺکے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز رسو ل اللہ ﷺ سے اتنی مشا بہت رکھتی ہو جتنی کے تمہارے اس امام کی )زما نہ ٔ خلا فت میں آپ ؒ نے امرا ئے لشکر اور گو رنروں کو تحریر اًحکم صادر فرمایاکہ لو گوں کو نماز کی پا بندی کر وا ئیں ۔آپ ؒ کا فرما ن تھا ”جو شخص نماز کو ضا ئع کرتا ہے وہ با قی احکامِ شریعہ کو سب سے زیا دہ ضا ئع کرنے وا لا ہے ۔‘‘اہل حرب کے لیے فرما یا ’’گناہ دشمن کی سا زشوں سے زیا دہ خو فنا ک ہیں ۔کسی انسان کی عدا وت سے اتنا نہ ڈرو جتنا کہ اپنے گنا ہوں سے ۔“
  محض دو سال چا ر مہینے اور چند دن کے دور ِخلا فت میں آپؒ نے احیائے دین کے لیے وہ جد جہد کی اور عدل و انصاف کا یوں بو ل با لا کیا کہ زما نہ ٔ خلفا ئے راشدین کی یا دیں تا زہ ہو گئیں ۔کتاب و سنت کو یوں روا ج دیا کہ وہ لوگ جو عہدِ ولیدمیں عما رتوں اور عہدِ سلیمان میں طعام و عیش و طرب کو مو ضوع گفتگو بنا یا کرتے تھے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے دور میں ایک دوسرے سے پو چھا کرتے تھے’آج کی شب تم نے کتنا قرآن پڑھا ؟‘یا’ تم مہینے میں کتنے رو زے رکھتے ہو ؟‘
حاکم ِمدینہ منورہ ،مشیرِ خاص خلیفہ اور خلا فت جیسے مناصب کا با رِگراں کاندھوں پہ اٹھا نے اور نہا یت احسن طریقے سے فروغِ اسلام اور احیا ئے دین کی جدو جہد سے سرخرو ہونے کے بعد جب شہا دت سے سرفراز ہو ئے تو آپ کی عمر مبا رک فقط چا لیس سال تھی ۔جس خادم کے ذریعےآپ کو زہر دیا گیا ،اسے بلوایا، وجہ پو چھی تو اس کے یہ کہنے پر کہ ’ مجھے دھو کا اور فریب دیا گیا ‘آپ نے اس سے کچھ تعرـض نہ کیا اور چھوڑ دیا البتہ اس سلسلے میں اسے دی جا نے وا لی اشرفیاںاس سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیں ۔ صاحب العقد الفرید لکھتے ہیں ’اگر عمر ؒ پہ زہر سبقت نہ کرتا تو اللہ کا خو ف سبقت کر جا تا ـ۔‘ایک صبح زو جہ محترمہ نے رات کی گریہ زاری میں تڑپ کی شدت کا سبب پو چھا تو فرمایا ’’ میں نے غور کیا تو پا یا میں اس امت کے سیاہ و سفید کا مالک ہوں ۔پھر مجھے یقین ہوا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ زمین کے طول و عرض میں پھیلے ان لو گو ں،جن میں مظلوم ،بے حال اور بھوکے بھی ہیں ،با رے مجھ سے سوال کریں گے اور   رسول اللہ ﷺ وکیل استغا ثہ ہوں گے تو ان ﷺکے سا منے کون سی حجت پیش کی جا سکے گی اور اللہ تعالیٰ میرا کون سا عذر سنیں گے ! تو میرے خوف میں اضا فہ ہو تا چلا گیا۔ ‘‘
  تا ریخ ِعا لم گو اہ ہے کہ ایک صالح ، متقی ، خوف ِالٰہی اور انا بت ِبا ری کا حا مل شخص جہاں تک بھی با اختیا ر ہو، اس کا ورع و تقوی وہاں تک اثر انداز ہو تا ہے ۔یہ اختیا ر ملکی ،صو با ئی ،علا قا ئی ، خا نگی یا خالصتاًذاتی سطح تک ہی کیوں نہ ہو ۔انسا ن کتنے ہی محدود اختیا رات رکھتا ہو اپنے وجود کی سلطنت کا تو حا کم ہو تا ہی ہے ۔وہ اپنے قلب و نظر اور اعضا ء و جوا رح پہ شریعت خیر الانا م ﷺنا فذ کر دیتا ہے ۔جس وجود کا ایک ایک خلیہ کیفیا ت و برکا تِ رسا لت کا حا مل ہوان کے بحر قلوب میں ٹھا ٹھیں ما رتے حب ِالٰہی اور عشق ِرسول ﷺ کے جذبے کی تلا طم خیز مو جیں قلوب کی گہرا ئیو ں سے اٹھتی ہیں تو اعضا ء و جوا رح کو متا ثر کرتی ہیں اور پھر بات یہاں نہیں رکتی ۔ایسے با برکت وجود اپنے گردو پیش کو متا ثر کیے بغیر نہیں رہتے اور بات پھر اختیا رات کی حدود تک چلی جا تی ہے ۔
اب اور اس وقت ہمارے پا س یہ اختیا ر ہے کہ ہم اس زندگی کی حقیقت کو کس حد تک سمجھتے اور اس میں کیے جا نے وا لے ہر عمل کی ایک روز ہو نے وا لی جوابدہی کا کتنا ادراک کرپا تے ہیں !ہم کہ جو آج ،من حیث القوم ،اپنی اپنی ذمہ دا ریوں کو پس پشت ڈالتے ہو ئے ہا تھ پہ ہا تھ دھرے منتظرِ فردا ہیں یہ کیو ں فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری تا ریخ ،ہمارے ہی آباء کے نقوش ِکف ِپا سے آج بھی درخشا ں ہے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے نشانِ منزل ہے ۔ 

 

Hazrat Umer Bin Abdul Aziz Reh. by Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA) - Editorials on July 1,2020
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Naqshbandiah Owaisia, Tasawuf, Sufi meditation, Rohani tarbiyat, Shaikh, Ziker Qalbi Khafi