Latest Press Releases


حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کی کامیاب روحانی تربیتی دورۂ کینیڈا و امریکہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی

تزکیۂ نفس، اخلاصِ قلب، سیرتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی اور نسلِ نو کے لیے خاندانی نظام کی بحالی پر زور
اسلام آباد: شیخِ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی اپنے کامیاب روحانی تربیتی دورۂ کینیڈا و امریکہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور ڈویژن کے ذمہ داران، صاحبِ مجازین، سالکینِ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ، عقیدت مندوں، دوستوں اور احباب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اپنے محبوب شیخ المکرم کا پُرجوش انداز میں خیرمقدم کیا۔
حضرت امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنے اس دورہ کے دوران کینیڈا کے شہروں برامپٹن (Brampton)، اجکس (Ajax)، مسی ساگا (Mississauga, Ontario) اور امریکہ کے شہروں شکاگو (Chicago)، ووسٹر، میساچوسٹس (Worcester, MA)، ورنن، کنیکٹیکٹ (Vernon, CT)، کیانزبرگ، نیو جرسی (Keansburg, NJ)، کیٹنزویل، میری لینڈ (Catonsville, MD)، ویسٹ چیسٹر، پنسلوینیا (West Chester, PA) اور بالٹی مور (Baltimore, MD) میں بعثتِ رحمتِ عالم ﷺ کانفرنسز اور متعدد روحانی پروگراموں میں خطاب فرمایا۔
ان پروگراموں میں ذکر الله، تزکیہ نفس، تصوف و سلوک، اورطریق سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کی تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی، جن سے مقامی احباب، سالکینِ سلسلہ، خواتین و حضرات اور بالخصوص نسلِ نو کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔
اپنے خطابات میں حضرت شیخِ المکرم  نے فرمایا کہ انسان کی اصل پہچان اس کا دل ہے۔ جب دل اللہ کی یاد سے روشن ہو جاتا ہے تو بندے کے فیصلے بھی اللہ کی رضا کے مطابق ہونے لگتے ہیں۔ صوفیائے کرام ہمیشہ دلوں کی اصلاح پر محنت کرتے ہیں تاکہ اعمال خالصتاً اللہ کے لیے ہوں۔
انہوں نے فرمایا کہ ایمان کی روشنی اور دلی خلوص ہی معاشرتی سکون کی بنیاد ہیں۔ آج کا انسان جدت اور ترقی کے باوجود اضطراب، anxiety disorders اور ڈپریشن کا شکار ہے، کیونکہ اس نے اپنے معاملات کو دین سے جدا کر لیا ہے۔ حقیقی اطمینان صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے۔
انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں سے نکل کر مضبوط بننے کی ضرورت ہے تاکہ اقوامِ عالم میں ان کی بات سنی جائے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کمزور ہمیشہ مسائل کا شکار رہتا ہے۔
انہوں نے خاندانی نظام اور رشتوں کے احترام پر خصوصی زور دیا۔ فرمایا کہ والدین، اولاد اور خاندان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اقدار نسلِ نو تک منتقل کریں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، اور سیرتِ نبوی ﷺ پر اجتماعی مطالعے کی روایت قائم کریں۔ قرآنِ کریم زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے اسے صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ سمجھ کر عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
انہوں  نے مزید فرمایا کہ اگرچہ جدید دور سہولتیں فراہم کر رہا ہے، مگر اس نے انسان کو تنہائی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کے اس دور میں نظم و ضبط، خاندانی نظام، اور رشتوں کے احترام پر ازسرِنو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دورے کے دوران حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی نے مختلف مسلم کمیونٹیز، مذہبی و سماجی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور امتِ مسلمہ کے اتحاد، عالمی امن اور روحانی اصلاح جیسے اہم موضوعات پر رہنمائی فرمائی۔ آپ کے خطبات نے کینیڈا و امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی اصل روح، محبت، اخوت اور تربیت محمدی ﷺ کو تازہ کر دیا۔
یہ روحانی تربیتی دورہ محبت، اتحادِ مسلمہ اور ذکرِ الٰہی کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ بنا، جس نے نہ صرف شمالی امریکہ بلکہ دنیا بھر میں مقیم درد دل رکھنے والے مسلمانوں کے قلوب پر گہرا روحانی اثر چھوڑا۔
آخر میں حضرت شیخ المکرم مدظلہ العالی نے اسلام آباد ایئرپورٹ استقبال کے لیے آنے والے احباب سے گرم جوشی سے خصوصی مصافحہ فرمایا، جبکہ احباب و دوستوں نے اظہارِ محبت کے طور پر پھولوں کے گلدستے پیش کیے
Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan ki kamyaab Rohani tarbiati Daura canada o America mukammal karne ke baad watan wapsi - 1

ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے


بندگی کا تعلق اپنے اللہ سے ایسا ہو جائے کہ بندہ اپنے اعمال اپنی سوچوں کا ہر وقت محاسبہ کرتا رہے کہ ایسا عمل نہ ہو جائے جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ایسا کوئی کام نہ کروں جس کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے. انہوں نے کہا کہ ہر دن ہماری سوچوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔زندگی کا ایسا کون سا اصول اور ضابطہ ہو گا جو اعتدال پر بھی ہو جس میں ذات بھی ہو خاندان بھی ہو اور معاشرہ بھی ہو اور سب کے لیے ہو کسی ایک کمیونٹی کی بات نہ آئے۔صرف انسانیت کے لیے نہیں بلکہ پوری خلق کے لیے کارآمد ہو۔اُس اصول کی ضرورت ہے جو مستحکم بھی ہو اور سب کے لیے قابل عمل بھی ہو۔وہ کیسے حاصل کریں؟ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو انسانیت کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن کریم میں ہماری زندگی کی تمام ضروریات کی تکمیل کا طریقہ موجود ہے۔اس کے علاوہ قرآن کریم کا گھر میں ہونا برکت ہے،قرآن کریم کو دیکھنا برکت ہے،قرآن کریم کو چھونا برکت ہے،قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا برکت ہے اصل مقصد قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا بالٹی مور فاطمہ مسجد امریکہ میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب
انہوں نے مزید کہا کہ آپ سوچیں اگر ہماری نیت سے لے کر عمل تک ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہو وہ کیسی زندگی ہو گی۔اس کے معاشرے پر اثرات کیسے ہوں گے۔پھر ہمیں یہ توقع نہیں ہو گی کہ میں نے کسی کے ساتھ اچھائی کی ہے تو بدلے میں وہ بھی میرے ساتھ اچھائی کرے۔کیونکہ ہم تو وہ عمل اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ کو پسند ہے کہ اچھائی کی جائے۔انسانی مزاج ہے ہو نہیں سکتا کہ اگر آپ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ اچھائی کریں اور ہ وہ آپ کے ساتھ برا کرے۔اصول ہے کہ اگر آپ کسی کو عزت دیں واپس وہ عزت آپ کو ملے گی   ہماری ضرورت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کریں۔اپنے بچوں کو سنائیں۔ہفتے میں ایک دن ایسا رکھ لیں جس میں سیرت پاک پر بات ہو جس میں اپنے بچوں کو ساتھ بٹھائیں،آج کی جدت سہولت تو دے رہی ہے لیکن ساتھ ہر ایک کو تنہا بھی کر رہی ہے ہر ایک اپنے کسی حصار میں ہے۔ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zaat se nikal kar makhlooq ke baray sochna yeh hamein islam batata hai - 1

ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنانے کی ضرورت ہے


بعثت رحمت عالم ﷺ سے انسانیت کی ایسی راہنمائی ہوئی کہ بندہ مومن جب اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے تو اس سے مخلوقات کو بھی فلاح نصیب ہوتی ہے۔زندگی تو بسر کرنی ہے کیوں نہ اس راہ کو اختیار کیا جائے جس کا حکم اللہ کریم نے ہمیں دیا ہے۔اللہ کریم نے بنی نوع انسان کو وہی کرنے کا حکم دیا ہے جس کو انسان سمجھ بھی سکتا ہے اور عمل بھی کر سکتا ہے۔اس کا یہ عمل کرنا اس کے ظاہر اور باطن کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا دونوں کے لیے کامیابی کا راستہ ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا نیو جرسی امریکہ میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ جب کوئی اپنی زندگی کے مقصد کو جانے گا نہیں تو عمل کیسے کرے گا؟ نبی کریم ﷺ کا اُمتی ہونا ہمارے لیے شرف کی بات ہے۔ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنانے کی ضرورت ہے انسان کے بنائے قوانین تو انسان خود کچھ عرصے بعد تبدیل کر رہا ہوتا ہے اور جواز یہ ہوتا ہے کہ اس دور سے مطابقت نہیں رکھتے پھر انسان کے بنائے قوانین میں ذاتی پسند و نا پسند کا دخل ہوتا ہے جبکہ اللہ کریم کے بنائے گئے قوانین صدیوں سے چلے آرہے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور قیامت تک کسی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ایسے جامع و اکمل ہیں۔انسانی فطرت کے عین مطابق۔لیکن جب انسان اپنی پسند کے مطابق قوانین بناتا ہے تو اس سے معاشرے میں فساد  پیدا ہوتا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں آج کی اس جدت میں نظم پر اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہمارا خاندانی نظام،رشتے ناطے ان میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کیا جو اقدار ہمیں اپنے بڑوں سے ملیں ہم اپنے بچوں میں منتقل کر رہے ہیں۔کوشش کریں اپنے بچوں کو وقت دیں ان کے ساتھ کم از کم ایک وقت کا کھانا تو کھائیں ان سے اپنے فیملی رسم و رواجات شئیر کریں خاندانی نظام کی اہمیت پر بات کریں رشتوں کے احترام کے بارے بات کریں انہیں احساس دلائیں کہ رشتے کتنے اہم ہوتے ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں
Hamein Allah aur Allah ke rasool SAW ke banaye hue qawaneen ko apnane ki zaroorat hai - 1

محبت رسول ﷺ صرف دعوی کا نام نہیں اس محبت میں وہ خلوص چاہیے جو آپ ﷺ کے اتباع تک لے جائے


حضرت آدم ؑ کا وجود جب مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں (حضرت محمدﷺ) اس وقت بھی اللہ کا رسول تھا۔امام الا نبیاء کو مبعوث فرما کر اللہ کریم فرماتے ہیں کہ بندہ مومن پر میرا یہ سب سے بڑا احسان ہے۔انسان کی تخلیق میں ہے کہ اس نے کسی نہ کسی کو سجدہ ریز ہونا ہے۔  بندہ مومن در در سجدے کرنے کی بجائے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتا ہے جو اسے ہر چوکھٹ سے آزاد کر دیتا ہے۔جو نظریات مخلو ق نے اپنے قائم کیے وہ اقوام ہمیشہ ناکام رہیں اور کامیابی ان کا مقدر ہوئی جنہوں نے اللہ اور اللہ کے نبی ؑ کی بات کو بنیاد بنایا۔خالق کائنات بہتر جانتے ہیں کہ میرے بندے کو کیا پسند ہے؟اس کے لیے کیا بہتر ہے اللہ کریم ایک ایک پہلو میں تربیت فرما رہے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کا  conecticut  امریکہ میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ قلب انسانی وجود میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے جو کیفیات کا بھی گھر ہے۔ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے پاس دنیا کی ہر شئے ہے لیکن دلی اطمینان نصیب نہیں ہے اور ایسے بھی دیکھے جن کے پاس ایک وقت کا کھانامیسرہے لیکن دوسرے وقت کا نہیں ان کو قلبی اطمینا ن نصیب ہے۔دلی اطمینا ن کے لیے نور ایمان شرط ہے۔جب اس دل میں نور ایمان آتا ہے پھر میری پسند،میری مرضی یہ بات ختم ہو جاتی ہے ہر شئے اللہ کی طرف چلی جاتی ہے جیسے میرے اللہ کو پسند،بندہ اللہ کی پسند میں ڈھل جاتا ہے۔صحت آئے یا بیماری اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تنگدستی ہو یا فراخی اسی کی بارگاہ پر رہتا ہے۔گلے شکوے نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ اس کا دل مطمئن رہتا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ محبت رسول ﷺ صرف دعوی کا نام نہیں اس محبت میں وہ خلوص چاہیے جو آپ ﷺ کے اتباع تک لے جائے۔جو ہمیں اپنے اللہ کے روبرو کر دے۔اس کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے جو اللہ اللہ کرنے سے نصیب ہوتا ہے جسے شعبہ تصوف کہتے ہیں۔اللہ کے نام کی تکرار بندے کو اللہ کے روبرو کر دیتی ہے۔ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کی بھی ضرورت ہے آج کی سکرین ہم سے ہماری اولادیں چھین رہی ہے ہمیں انہیں بتانا ہوگا کہ والدین کی اہمیت کیا ہے خاندانی نظام کیا ہوتا ہے۔
  یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کینیڈا اور امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں مختلف شہروں میں کانفرنسز سے خطابات کر رہے ہیں۔اس کے بعد Baltimore،Catonsville،West chester اور Downingtown میں پروگرامز ہوں گے جن میں حضرت شیخ المکرم خطاب فرمائیں گ
Mohabbat rasool SAW sirf daawa ka naam nahi is mohabbat mein woh khuloos chahiye jo aap SAW ke itebaa tak le jaye - 1

ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے


بندگی کا تعلق اپنے اللہ سے ایسا ہو جائے کہ بندہ اپنے اعمال اپنی سوچوں کا ہر وقت محاسبہ کرتا رہے کہ ایسا عمل نہ ہو جائے جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ایسا کوئی کام نہ کروں جس کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے . انہوں نے کہا کہ ہر دن ہماری سوچوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔زندگی کا ایسا کون سا اصول اور ضابطہ ہو گا جو اعتدال پر بھی ہو جس میں ذات بھی ہو خاندان بھی ہو اور معاشرہ بھی ہو اور سب کے لیے ہو کسی ایک کمیونٹی کی بات نہ آئے۔صرف انسانیت کے لیے نہیں بلکہ پوری خلق کے لیے کارآمد ہو۔اُس اصول کی ضرورت ہے جو مستحکم بھی ہو اور سب کے لیے قابل عمل بھی ہو۔وہ کیسے حاصل کریں؟ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو انسانیت کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن کریم میں ہماری زندگی کی تمام ضروریات کی تکمیل کا طریقہ موجود ہے۔اس کے علاوہ قرآن کریم کا گھر میں ہونا برکت ہے،قرآن کریم کو دیکھنا برکت ہے،قرآن کریم کو چھونا برکت ہے،قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا برکت ہے اصل مقصد قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا بالٹی مور فاطمہ مسجد امریکہ میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب
انہوں نے مزید کہا کہ آپ سوچیں اگر ہماری نیت سے لے کر عمل تک ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہو وہ کیسی زندگی ہو گی۔اس کے معاشرے پر اثرات کیسے ہوں گے۔پھر ہمیں یہ توقع نہیں ہو گی کہ میں نے کسی کے ساتھ اچھائی کی ہے تو بدلے میں وہ بھی میرے ساتھ اچھائی کرے۔کیونکہ ہم تو وہ عمل اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ کو پسند ہے کہ اچھائی کی جائے۔انسانی مزاج ہے ہو نہیں سکتا کہ اگر آپ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ اچھائی کریں اور ہ وہ آپ کے ساتھ برا کرے۔اصول ہے کہ اگر آپ کسی کو عزت دیں واپس وہ عزت آپ کو ملے گی   ہماری ضرورت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کریں۔اپنے بچوں کو سنائیں۔ہفتے میں ایک دن ایسا رکھ لیں جس میں سیرت پاک پر بات ہو جس میں اپنے بچوں کو ساتھ بٹھائیں،آج کی جدت سہولت تو دے رہی ہے لیکن ساتھ ہر ایک کو تنہا بھی کر رہی ہے ہر ایک اپنے کسی حصار میں ہے۔ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zaat se nikal kar makhlooq ke baray sochna yeh hamein islam batata hai - 1

زندگی میں سکھ اور سکون کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے معاملات زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھال لیں۔


بندہ مومن کا ایک ایک لمحہ اس کیفیت میں گزرتا ہے کہ وہ زندگی کو حقائق کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے،تخیلاتی دنیا میں نہیں رہتا۔حقائق سے آگاہی زندگی کو آسان بنا دیتی ہے۔اگر زندگی دین کے مطابق نہ گزرے تو پھر زندگی میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔اسی کو ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔زندگی میں سکھ اور سکون کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے معاملات زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھال لیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا امریکہ کے شہر ووسٹر میں خواتین و حضرات سے خطاب۔
  انہوں نے کہاکہ اللہ کریم نے جس کو جس حیثیت میں جس زمانہ میں پیدا فرمایا اس کا عین وہی مقام ہے۔ہر کوئی امتحان میں ہے کسی کا دکھ میں ہے کسی کا خوشی میں،کسی کا صحت میں امتحان ہے کسی کا بیماری میں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں حالتوں میں وہ صابر اور شاکر رہا؟آج کی جدت یقینا یہ ہماری ضروریات کی تکمیل کے بہتر زرائع ہیں۔دین اسلام اس سے منع نہیں فرماتا لیکن زندگی کی اس تیزی میں کوئی اس طرح کھو جائے کہ اسے یہ خیال ہی نہ رہے کہ یہ فانی جہان ہے ایک دن سب چھوڑ کر چلے جانا ہے اور پھر ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے یہ احساس ہونا چاہیے کہ جو بھی استعداد اللہ نے مجھے دی ہے وہ میرے پاس امانت ہے اسے اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنا ہے۔جیسے ہم کسی بھی ملک کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے وہاں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں ایسے ہی نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو زندگی میں اختیار کرنا چاہیے تا کہ میرے کردار سے مجھے بھی فائدہ ہو اور مخلوق بھی مستفید ہو۔
  انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے ہر عمل سے معاشرے میں بہتری آئے۔زندگی کے بے شمارپہلو ہیں دین اسلام نے ایک ایک پہلو میں راہنمائی فرما ئی ہے۔زندگی رکتی نہیں زندگی تو چل رہی ہے۔اللہ نے جو استعداد دی ہے اس کا مثبت استعمال کریں تا کہ معاشرے میں نکھار آئے۔دنیا میں جہاں بھی جس شعبے میں بھی کسی نے ترقی کی ہے آپ تحقیق کر لیں اس کے اصول نبی کرم ﷺ کے بتائے گئے ہوں گے۔اللہ کریم ہمیں دین اسلام کے سنہری اصولوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zindagi mein sukh aur sukoon ka aik hi rasta hai ke –apne mamlaat zindagi ko deen islam ke mutabiq dhaal len . - 1

قیام صلوۃ اس کیفیت اور حال میں ادا کی جائے کہ اس میں خشوع و خضوع شامل ہو


قیام صلوۃ اس کیفیت اور حال میں ادا کی جائے کہ اس میں خشوع و خضوع شامل ہو۔ خشو ع و خضو ع سے ہر رکن کی ادائیگی کرنے سے بندہ مومن کی طرف اللہ کریم متوجہ ہو جاتے ہیں۔اللہ کریم کے متوجہ ہونے سے بندہ حفاظت الٰہی میں آجاتا ہے۔برائی سے بچنا اور نیکی کی طرف چلنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہو رہی تو نماز کی ادائیگی میں کوئی کمی ہے کہیں غلطی ہو رہی ہے۔یہاں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ میرے اعمال اُمت میں کہیں تفریق تو نہیں پیدا کر رہے؟ اور معاملات کی درستگی نہ ہے تو نماز کو ہم نے محض رواجاً اختیار کیا ہوا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا اسلامک سنٹر شکاگو میں خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ جب اللہ کی واحدانیت پر پختہ یقین نصیب ہو پھر خواہشات،چاہتیں اور وساوس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بندہ ان کو رد کرتا جاتا ہے کہ کوئی چاہت،کوئی خواہش ایسی نہ ہو جس میں اللہ کریم کی نافرمانی ہو۔ہمارا ظاہر اور باطن ایسا ہو جیسا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔اگر ایمان کی یہ بنیاد پختہ ہو جائے تو مخلوق کی محتاجی ختم ہو جاتی ہے بندہ ہر چیز سے آزاد ہو جاتا ہے توکل الی اللہ نصیب ہو جائے تو۔یہ حصہ نصیب ہو جائے تو جب موت کا فرشتہ بھی آئے تو بندہ تیار ہوتا ہے۔اس کیفیت کے لیے اسی زندگی میں عمل کرنا ہے۔ جب تک اس زندگی میں اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ سے زندگی مزین نہیں ہوگی ہم یہ کیفیت حاصل نہیں کر سکتے۔روز محشر جب مائیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اللہ کریم  بندہ مومن سے فرماتے ہیں تم نے اس دن بالکل نہیں گھبرانا کیوں کہ تم نے اپنی زندگی میرے توکل پر گزاری مجھ پر بھروسہ کیا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخرمیں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Qiyam salaat is kefiyat aur haal mein ada ki jaye ke is mein Khashoo o Khazoo shaamil ho - 1

انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ کریم نے اپنی معرفت اور پہچان سے نوازا


 انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ کریم نے اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا اور انابت الٰہی عطا فرمائی۔ اس کے حصول کے لیے وہ درد چاہیے جو صرف ذکر قلبی کی تکرار سے نصیب ہوتا ہے۔قلب وجود کا بادشاہ ہے جب کسی بات پر دل کرے پھر وجود اسے روک نہیں سکتا بلکہ دل کے حکم کو بجا لاتا ہے۔اسی لیے صوفیا ساری محنت قلوب پر کراتے ہیں جب دل اللہ کی یاد میں لگ جائے پھر اس کے فیصلے بھی اللہ کی اطاعت میں ہوتے ہیں اللہ کی پسند پر ہوتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا اجکس کینڈا میں کانفرنس سے خطاب 
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے دلوں میں دوستوں اور رشتوں کے لیے وہ خلوص نہیں ہے جو پہلے زمانے کے لوگوں میں تھا۔آج جب لوگ اپنے والدین کو اولڈ ہوم میں چھوڑ کر آتے ہیں تب بھی ان سے والدین کا رشتہ تو ہوتا ہے۔جب دلوں میں خلوص نہ ہو پھر رشتے نام کے رہ جاتے ہیں دل میں اس رشتہ کا احساس ختم ہوچکا ہوتا ہے۔حقیقت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔اللہ کریم فرماتے ہیں کہ ایمان والوں کے سامنے جب میری آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان تقویت پاتے ہیں اور ان کے دل ڈر جاتے ہیں تو یہ کیفیات بھی دل سے متعلق ہیں جب دلوں میں نور ایمان  ہوگا اس میں خلوص ہوگا پھر اس کے فیصلے بھی اللہ کی رضا کے مطابق ہوں گے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہماری عبادات کا دارومدار بھی نیت پر ہے اور نیت دل کا فعل ہے روز محشر ایسا انصاف ہو گا کہ تمام اعمال نیت پر پرکھے جائیں گے کہ کسی بھی عمل کے پیچھے دلی ارادہ کیا تھا؟اس لیے دلوں کی صفائی کا نسخہ بھی نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرما دیا کہ ہر چیز کا زنگ اتارنے کے لیے ایک پالش ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔شعبہ تصوف میں اللہ اللہ کرائی جاتی ہے جس سے کیفیفات محمد الرسول اللہ ﷺ نصیب ہوتی ہیں جن سے بندے کا دل خالص ہوتا ہے اور وہ اپنے عمل کو خالص اللہ کے لیے کرتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت محمد الرسول اللہ ﷺ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Insaan woh wahid makhlooq hai jisay Allah kareem ne apni Maarfat aur pehchan se nawaza - 1
Insaan woh wahid makhlooq hai jisay Allah kareem ne apni Maarfat aur pehchan se nawaza - 2

قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے


 قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے۔رہتی دنیا تک یہ اصول اور ضابطے قابل عمل ہیں۔اور ان پر کیے گئے فیصلے اتنے متوازن ہوتے ہیں کہ اس میں فریقین کے درمیان فتح و شکست نہیں ہوتی بلکہ فریقین کے درمیان ایسا انصا ف ہوتا ہے کہ دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا جمعتہ المبارک کے روزہ جامع اسلامیہ کینڈا میں خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ جتنی ہم دنیا،دنیا کے علوم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اچھی بات ہے لیکن دنیا فانی ہے آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے اس کے لیے بھی اسی دنیا میں تیار ی کرنی ہے۔جدت زندگی نہیں ہے زندگی کے زرائع ہیں۔کہ آپ اپنی ضروریات کو اچھے انداز سے پورا کر سکیں۔میں خود ضروریات دین کو جانو اس پر عمل کروں یہ وہ بنیادی درسگاہ ہے جس سے ہمارے بچوں کو راہنمائی ملے گی۔ہمارے خاندانی نظام کی مضبوطی انہی اصولوں میں ہے جو دین اسلام ارشاد فرماتا ہے۔دین اسلام کے اصول اور ضابطے ایسے ہیں جو دوسروں کی خوشی کا بھی سبب بنتے ہیں۔
  آخر میں انہوں نے جامع اسلامیہ کے مولانا صاحب اور انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کیا اور بحیثیت امت اتفاق و اتحاد کی خصوصی دعا بھی فرمائی
Quran kareem mein jo qawaneen Allah kareem ne irshad farmaiye hain un mein masawaat hai - 1

قرآن کریم کے معانی و مفاہیم وہ سمجھے جائیں گے جو نبی کریم ﷺ نے سمجھائے ہیں


قرآن کریم کے معانی و مفاہیم وہ سمجھے جائیں گے جو نبی کریم ﷺ نے سمجھائے ہیں۔باقی دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں ان کے معانی و مفاہیم اپنی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھے جا سکتے ہیں۔دنیا کی زندگی میں کوئی خواہش کرتا ہے تو اس کا تعلق قلبی انسانی سے ہے۔ خوشی ایک کیفیت ہے اور اس کا تعلق بھی انسانی قلب کے ساتھ ہے ،اگر کہیں تلخی ہے،غم ہے تو اس کاگھر بھی قلب انسانی ہے۔ جتنا دل مطمئن ہوگا اتنا زندگی کے بہر میں سکون نصیب ہوگا اور دلوں کا قرار یادِ الٰہی میں ہے۔
ٓامیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ کا مسجد اقصٰی برامپٹن کینڈا میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
انہوں نے کہا کہ انسانی مزاج ہے کہ مجھ جیسا کوئی نہ ہو،میری حیثیت،میری اولاد،میری کامیابی،میرا مقام،میرا ورع و تقوی کتنے ہی پہلو ہیں کہ آپ ان پر بات کرتے جائیں تو بات ذات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔جب بندہ ذات ہی پر انحصار کرتا ہے توخواہشات ایسے ایسے رنگ دکھاتی ہیں۔یہ دنیا یہ جہان کل زندگی نہیں ہے۔دین اسلام ان حقائق سے آگاہ فرماتا ہے اللہ کریم سے وہ تعلق نصیب ہوتا ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ تکلیف اور خوشی اللہ کی طرف سے ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندہ مومن دونوں پہلوؤں میں کامیاب ہے تکلیف آئے تو صبر کرتا ہے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے دونوں حالتوں میں رجوع الی اللہ کرتا ہے۔اللہ کریم کی ذات رب ہے جو ہر ایک کی ہر ضرورت ہر وقت پوری فرماتا ہے اس نے ہماری ضرورت کی تکمیل کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے ہماری راہنمائی کے لیے کتابیں نازل فرمائیں۔بندہ،بندگی کے معنوں سے آشنا نہ ہو سکتا اگر اللہ کریم اپنے برگزیدہ بندوں انبیاء کو مبعوث نہ فرماتے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں اور ہمیں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Quran kareem ke ma-ani o Mafaheem woh samjhay jayen ge jo nabi kareem SAW ne samjhaye hain - 1