Latest Press Releases


قرآن کریم کی بے حرمتی کے ارتکاب نے امت مسلمہ کے دلوں کو شدید تکلیف پہنچائی ہے


قرآن کریم کے ساتھ بندہ مومن کا ایسا مضبوط تعلق ہو کہ ہماری زندگیاں عملی طور پر قرآن کریم کے احکامات کے مطابق ہوں تو کسی کو جرات نہ ہو گی کہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کا ارتکاب کر سکے۔ہم دعوی ایمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہمارے سامنے آئے روز اس طرح کی گستاخیاں اور بے حرمتی ہو رہی ہے جسے اقوام عالم شخصی آزادی کا نام دے دیتی ہے۔یاد رکھیں کہ کوئی بھی آزادی اس کی اپنی حدود تک ہے جب کسی دوسرے کے دائرہ میں مداخلت ہو گی تو اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔دنیا کو اس کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔دین اسلام ہمیشہ اتحاد اور اتفاق کا درس دیتا ہے۔دعا ہے کہ امت مسلمہ ایک جان ہو کر قرآن کے ہر حکم کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
انہوں نے قربانی کے فلسفہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قربانی کی وہ کیفیت جو اللہ کریم نے حضرت ابراھیم ؑ کو عطا فرمائی اُس کا ایک ذرہ بھی اگر ہمیں نصیب ہوجائے تو قربانی کا یہ فلسفہ پوری حیات کا سبق دیتا ہے۔جہاں قربانی کرنے کا حکم موجود ہے وہی قربان ہونے کا سبق بھی ملتا ہے۔اللہ کریم ہمیں قربانی کی حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں تو اس عید پر کی گئی قربانی کے اثرات ہمیں اگلی عید تک لے کر جاتے ہیں اوراللہ کرے ہر قربانی پر ہمیں یہ کیفیت نصیب ہو کہ ہم اپنی انا،اپنی ضد،اپنی خواہشات،اپنی پسند اللہ کریم کے حکم پر قربان کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیرت پاک ﷺ ہمارے سامنے خوبصورت مشعل راہ ہے جس میں آسان ترین زندگی گزارنے کا انداز ہے عبادات انسان کو اس قابل بناتی ہیں کہ نورِ حق نصیب ہوتا ہے۔حج فرائض میں سے ہے صاحب استعداد پر زندگی میں حج ایک بار فرض ہے۔بیت اللہ شریف پر تجلیات باری ہر لحظہ برس رہی ہوتی ہیں حاجی دو چادروں میں بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہیں یہ وہی کیفیت ہے جو روز محشر ہوگی تب بھی ہر کوئی دو ان سلی چادروں میں اللہ کے حضور پیش ہوگا۔حاجی کو اللہ کریم ایسے معاف فرماتے ہیں گویا آج پیدا ہوا ہے لیکن اگر اس کے باوجود بھی کردا ر میں بہتری نہیں آئی تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے حج اللہ کے لیے نہیں کیا بلکہ اپنی شہرت کے لیے یا کسی ذاتی غرض کے لیے کیا ہے عبادات صرف وہ قبول ہوتی ہیں جو خالص اللہ کے لیے ہوں اگر اس بات کی ہمیں سمجھ آجائے کہ ہر شئے اس کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو زندگیاں آسان ہو جائیں۔
  یاد رہے کہ دارالعرفا ن منارہ میں 40 روزہ سالانہ روحانی اجتماع کا انعقاد کیا گیا ہے جو 8 جولائی سے 13 اگست تک جاری رہے گا جس میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی روزانہ دن گیارہ بجے صحبت شیخ میں خصوصی خطاب فرمائیں گے۔اللہ والوں کی اس بستی میں اپنے دلوں کو برکات نبوت ﷺ سے منور کرنے کے لیے تشریف لائیے۔ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے
Quran kareem ki behurmati ke irtikaab ne ummat Musalmah ke dilon ko shadeed takleef pohanchai hai - 1

قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی خواہشات اور مرضی کو احکام خداوندی پر قربان کر دیں


 دنیا بھر سے لاکھوں مسلمانوں نے فریضہ حج کی ادائیگی کی اور عید الاضحی کے موقع پر کروڑوں مسلمانوں نے جانوروں کی گردن پر چھری چلا کر سنتِ ابراھیمی کو ادا کیا اور آپﷺ کی اتباع میں حکم کی بجا آوری کی۔حج بندہ مومن کو ایسے پاک کر دیتا ہے کہ جیسے آج اس دنیا میں آیا ہو۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ دین اسلام میں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہے اور اس میں یہ بات زہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ انفاق سے مراد صرف روپیہ پیسہ نہیں بلکہ اللہ کریم کی طرف سے دی گئی جسمانی،ذہنی استعداد کو اللہ کریم کی راہ میں استعمال کرنا بھی انفاق فی سبیل اللہ کے تحت آئے گا۔اسی طرح جہاد کرنا بھی انفاق فی سبیل اللہ میں آئے گا۔کہ بندہ مومن اپنی جسمانی قوت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے کن حالات میں اس کی فرضیت اور اطلاق ہے اس کی وضاحت قرآن و حدیث میں بڑی واضح ہے۔جہاد بالسیف اور جہاد بالنفس۔نفس کے ساتھ جہاد کو جہادِا کبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ ساری زندگی کا جہاد ہے نفس کے ساتھ مقابلہ زندگی بھر کا عمل ہے۔ لیکن جہاد بالسیف کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم بحیثیت مجموعی ہلاکت کی طرف جا رہے ہیں۔جہاد ظلم کو روکنے کا نام ہے۔جہاد انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ہے جہاد میں انسانیت کی بقا ہے جہاد کو یہ سمجھ لینا کہ شاید اس سے مرا دلوگوں کی گردنیں ہی کاٹنا مقصد ہے تو درست نہیں ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Qurbani ka falsafah yeh hai ke hum zindagi ke har shoba mein apni khwahisaat aur marzi ko ehkaam khuda wandi par qurbaan kar den - 1

حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ برطانیہ کے کامیاب روحانی تربیتی دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے


 حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان  برطانیہ کے کامیاب روحانی تربیتی دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔انہوں نے برطانیہ کے مختلف شہروں جن میں لندن،مانچسٹر،برمنگھم،بولٹن،بریڈفورڈ،شیفلڈ،نیوکیسل اور گلاسگو شامل ہیں سراجا منیرا کے عنوان پرسلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے تحت بہت بڑے بڑے پروگرامات کیے۔ جن میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کے خصوصی لیکچر تھے۔
  اس کے علاوہ وہاں کی کمیونٹی سے انفرادی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔جس میں لوگوں نے شرعی مسائل کے حوالے سے راہنمائی بھی حاصل کی۔اس کے علاوہ خصوصا قلبی ذکرکے حوالے سے سوالات کیے اور راہنمائی لی۔۔حضرت سال بھر میں چار ماہ غیر ملکی دوروں میں مصروف رہتے ہیں۔
hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan mad Zulla العالی Sheikh silsila نقشبندیہ اویسیہ Bartania ke kamyaab Rohani tarbiati doray ke baad watan wapas pahonch gaye - 1

ہمارا ایمان و یقین اگر اس حد تک پختہ ہوجائے کہ جو کچھ ہے اللہ کریم کی طرف سے ہے تو ہماری زندگیاں سہل ہو جائیں


 خواہشات کی تکمیل کے لیے ہم ایک جنگ کر رہے ہیں باہم تضادات پیدا ہو چکے ہیں دست و گریباں ہیں اگر یہ سمجھ آ جائے یہ یقین نصیب ہو جائے کہ جو کچھ ہے اللہ کی طرف سے ہے ہماری زندگی آسان ہو جائے۔کتنی بڑی خوش بختی ہے کہ اللہ کریم اپنی مخلوق کو مخاطب فرماتے ہیں اے لوگوکتنا بڑا شرف ہے۔ہمیں جسے ہم جیسا دوسرا بلانا پسند نہ کرے کائنات کا خالق اسے اپنی طرف متوجہ کرے محتاج ہم ہیں وہ تو مالک ہے وہ بے نیاز ہے۔ دین اسلام ہماری ضرور ت ہے انفرادی زندگی سے لے کر قومی معاملات ہر موقع کی راہنمائی دین اسلام میں موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے نافذ کیا جائے اس کے قوانین کا نفاذ ہو تا کہ ہم دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔
  انہوں نے کہا کہ عبادات اگر بیماریوں کے لیے کریں گے نیت ضروریات کی تکمیل ہوگی تو عبادت کا درجہ تو ختم ہو جائے گا۔عبادات سودے بازی کا نام نہیں ایسی عبادات لے کر جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو کیا جواب دیں گے کہ یا اللہ ہم تیرے ساتھ سودے کرتے رہے۔وہ تو ایسا غفورالرحیم ہے کہ کوئی غلطی کا سوچے عمل نہ کرے تو گرفت نہیں فرماتا لیکن اگر کوئی نیک عمل کی نیت کرے بے شک ابھی اس نے وہ نیکی کی نہیں اللہ کریم اس کی اس نیت پر اجر عطا فرماتے ہیں۔تو کیا یہ بندگی کا تقاضہ بنتا ہے کہ سب کچھ اس کا دیا ہوا ہے پھر ہم اس کے ساتھ سودے کرتے رہیں۔مسلمان کا تو ہر لمحہ ایسا ہونا چاہیے کہ غیر مسلم دیکھے تو وہ بھی اس پر رشک کرے۔اور ہماری کوئی بھی نالائقی وہ ہمارے کلام کی ہو یا ہمارے عمل کی ہو وہ صرف ہماری ذات تک نہیں رہتی بلکہ اعتراض ہماری بنیاد تک ہمارے عقیدے تک جاتا ہے اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں اور ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ہمیں دین اسلام کی بہاریں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائیں 
  یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ برطانیہ کے روحانی تربیتی دورے پر تھے یہ گلاسگو میں ان کا آخری پروگرام تھا جو سراجا منیرا کے موضوع پر منعقد ہوا اس سے پہلے لندن،برمنگھم،مانچسٹر،بولٹن،بریڈ فورڈ،نیو کیسل،شیفلڈ،ڈنڈی میں سراجا منیرا کانفرنسز میں خطاب کیے۔
Hamara imaan o yaqeen agar is had tak pukhta hojaye ke jo kuch hai Allah kareem ki taraf se hai to hamari zindaganian sahal ho jayen - 1

نماز صرف مسجد کی حاضری نہیں بلکہ اللہ کے حضورخشوع و خضوع کے ساتھ حاضر ہونے کا نام ہے


 نماز پڑھتے وقت کیا ہمارا دل بھی نماز میں شامل ہے۔کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ میں اپنے اللہ کے روبرو کھڑا ہوں۔کہیں ہم نماز کے دوران اپنی دوکان کا حساب کتا ب،اپنی دوستی دشمنی کے بارے تو نہیں سوچ رہے ہوتے۔نماز میں بندہ مومن کو ایک حضوری کی کیفیت نصیب ہوتی ہے۔کیا ہماری نماز قرآن کریم کے اس ارشاد پر پوری اتر رہی ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔عبادت غیر مشروط اطاعت کا نام ہے۔ہم اپنی نمازوں کا سودا تو نہیں کر رہے ہوتے کیا میں نمازکے بدلے کوئی امید لگائے بیٹھا ہوں کہ میرا فلاں کام ہو جائے،نماز پڑھوں تو کاروبار اچھے سے چلے اگر وہ نتائج جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں حاصل نہیں ہو رہے تو ہمیں اپنی عبادات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں کمی ہے۔عبادات میں بھی خلوص کی ضرورت ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ حج کی ادائیگی امت کے اتحاد اور اتفاق کی بہت بڑی مثال ہے۔لاکھوں لوگ مختلف علاقوں سے مختلف رنگ ونسل کے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ایک امام کے پیچھے ایک آواز پر لبیک کہہ رہے ہوتے ہیں۔ایک آواز اللہ اکبر پر رکوع و سجود کر رہے ہوتے ہیں۔اور یہ مثال ہر سال ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے لیکن وہاں سے جب اپنے گھروں میں آتے ہیں تو اتنی تلخی کیوں ہو جاتی ہے۔دنیا کی محبت اگر ایک محبو ب کے دو عاشق ہوں تو وہاں تلخی ہوتی ہے انہیں رقیب کہتے ہیں لیکن جب بات بحیثیت مسلمان آتی ہے تو یہ رقیب بھی جان سے پیارا ہو جاتا ہے۔دین اسلام ہمیں تمام مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔جب ہم اپنی انا چھوڑ کر خود کو اللہ کے سپرد کریں گے تو نتائج اور ہوں گے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی دین ترغیب اوران کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دین اسلام کی تعلیم دلوائیں تا کہ وہ بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں جن کے لیے ہم دن رات ایک کر رہے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے سے بچائیں قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ کامیاب وہ ہے جس نے خود کو اور اپنی اولاد کو دوزخ کی آگ سے بچا لیا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Namaz sirf masjid ki haazri nahi balkay Allah ke hazoor Khashu o Khazu ke sath haazir honay ka naam hai - 1

قرآن کریم کی ہر بات اصول کا درجہ رکھتی ہے


 اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا بندہ مومن پر لازم ہے۔دین اسلام اپنی پسند یا اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا نام نہیں ہے کہ ہم دعوی ایمان بھی رکھتے ہوں اور پھر اپنی پسند کے مطابق زندگی بسر کریں یہ درست نہیں ایمان والوں کو چاہیے وہ مرد ہو یا عورت کہ جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ان تک پہنچے پھر اپنی پسند اور اپنی مرضی کو چھوڑ کر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق عمل کریں۔
  انہوں نے کہا کہ دعا عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔بندہ اپنے اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔دعا کا تعلق براہ راست دل سے ہے اور دل ہی ہے جو کیفیات قلبی کا امین ہے۔دل انسانی وجود کا بادشاہ ہے جو فیصلہ یہ کرتا ہے ہم اسی پر عمل کرتے ہیں باقی اعضاء اس کے تابع ہیں نہاں خانہ دل سے جو فیصلہ صادر ہوتا ہے اس پر عمل ہو تا ہے۔نور ایمان بھی اسی دل میں ہے اسی لیے صوفیاء دل پر محنت کراتے ہیں۔ہمیں اپنے معاملات،اپنی دوستی دشمنی،لین دین دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس میں سچائی ہے کیا اس میں کھرا پن ہے کیا ہمارے اعمال صالح ہیں ہم جو ماننے والے ہیں کیا ہمارا دعوی اور ہمارے اعمال مطابقت رکھتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کے نام میں بڑی برکت ہے۔تصوف سے بندے کو حقائق نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔قلب اطہر محمد الرسول اللہ ﷺ سے منسلک ہونا یہ اس پہلو میں نہیں ہے کہ مجھ جیسا کوئی نہیں بلکہ بندہ خود کی بھی نفی کرتا ہے اور صرف اللہ کا نام رہ جاتا ہے۔ میں ختم ہو جاتی ہے۔دین اور دنیا کوئی الگ چیز نہیں ہے دنیا وی علوم حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے دنیا کے کام چھوڑنے نہیں ہیں بلکہ دنیا کے امور کو دین کے مطابق کرنا ہی اسلام ہے۔اللہ کریم ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت سے نوازے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں 
آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی۔
ٰٓ یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان برطانیہ کے دورے پر ہیں جہاں برطانیہ کے مختلف شہروں میں سراجا منیرا کانفرنسز کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان خصوصی خطاب فرمائیں گے۔  لندن،بولٹن اور مانچسٹر کے پروگرام ہو گئے ہیں اس کے علاوہ ابھی کئی شہروں کے پروگرامز باقی ہیں۔ 
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی۔
Quran kareem ki har baat usool ka darja rakhti hai - 1

الفاظ و بیاں سے کیفیات ِ قلبی کی حقیقت بیان نہیں ہو سکتی


 اسلام نے جو حقوق و فرائض کی تقسیم فرمائی ہے وہ ہماری ضرورت ہے۔ہماری زندگیوں کو خوشگوار بنانے کا سبب ہے۔یہ راستہ صرف اس دنیا میں نہیں بلکہ ابدی کامیابی کی طرف بھی لے کر جاتا ہے۔اللہ کریم ہر چیز کے مالک ہیں اپنی ضروریات اللہ کریم کے سامنے رکھیے اُس سے مانگا جائے وہ اس بات کو پسند فرماتا ہے۔وہ ضرورت بھی پوری فرماتا ہے اور اجرو ثواب بھی عطا فرماتا ہے۔نماز وہ عبادت ہے جو اللہ کریم سے ملاقات کا سبب ہے اُس کے حضور بندہ دن میں پانچ بار پیش ہوتا ہے جو بھی بات ہو وہ اللہ کریم کے سامنے پیش کریں وہ سب کی سننے والا ہے۔نماز وہ تعلق مع اللہ عطا کرے گی کہ بندہ بے حیائی اور برائی سے اجتناب کرے گا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا بے نماز ہم میں سے نہیں،نماز تو بندہ مومن کی پہچان ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا لندن (انگلینڈ) میں سراجا منیرا کانفرنس کے موقع پر خواتین و حضرات کی بڑی تعداد سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ذکر کی تین اقسام ہیں عملی ذکر،لثانی ذکر اور قلبی ذکر۔عملی ذکر میں ہر وہ نیک عمل جو ہم کرتے ہیں عملی ذکر میں داخل ہو گا۔دوسرے نمبر پر لثانی اذکار ہیں جن میں تسبیحات آتی ہیں جیسے درودشریف،تلاوت کوئی نیک بات یہ سب لثانی ذکر میں شمار ہو گا اور اس کے علاوہ ذکر خفی ہے جس میں نہاں خانہ دل سے اللہ کریم کو یاد کیا جائے۔ذکر خفی نصیب ہو تو یہ احساس زندہ ہوتا ہے کہ میں ہمہ وقت اپنے اللہ کے روبروہوں۔نبی کریم ﷺ کی حدیث جبریل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کریم کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اللہ کریم کو دیکھ رہے ہواگر یہ درجہ نصیب نہیں تو کم از کم یہ کیفیت ضرور ہو میرے اللہ کریم مجھے دیکھ رہے ہیں۔ذکر قلبی سے بندہ مومن کو یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اپنی اولاد کو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دیجیے۔آج کے معاشرے میں ہم اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ہم اتنی محنت اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں انہیں آخرت کی کامیابی کے لیے بھی تیار کیجیے۔اس جدت کے دور میں ایک گھر میں رہتے ہوئے ہر کوئی اکیلا محسوس کر رہا ہے ہر ایک کے ہاتھ میں سکرین ہے کوئی کسی سے بات تک نہیں کر رہا ہر کوئی اس سکرین پر لگا ہے۔ہمیں اپنی ضرورت کے طریقے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جو اقدار ہمیں اپنے بڑوں سے ملی ہیں کیا ہم وہ اپنے بچوں میں منتقل کر رہے ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کی خصوصی دعا بھی فرمائی
Alfaaz o bayan se kaifiyat qalbi ki haqeeqat bayan nahi ho sakti - 1

قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے یہ وہ کتاب ہے جو جامع ہے،اکمل ہے


  قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے یہ وہ کتاب ہے جو جامع ہے،اکمل ہے،اس میں کوئی  شک یا شبہ کی گنجائش نہیں جسے اللہ کریم نے اپنی عبادت کو پیدا فرمایا اس کے لیے تعلیم فرمائی جا رہی ہے۔قرآن کریم کو دیکھنا،چھونا عبادت ہے لیکن اصل مقصد اس کو پڑھنا سیکھنا اور اپنے آپ پر نافذ کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے۔یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔انسانی مزاج ہے کہ یہ مل جل کر رہتا ہے اس کے اعمال کا اثر نہ صرف اس کی اپنی ذات کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔تو جب انسانی زندگی اللہ کریم کے احکامات کے مطابق بسر ہوگی پھر سارے معاشرے میں بہتری آئے گی۔یہی وہ کتاب ہے جو ہماری رہنمائی فرماتی ہے کہ زندگی کو کیسے گزارنا ہے اور صدیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ جو عمل قرآن کریم کی راہنمائی میں کیا جائے گا اس کے اثرات مثبت ہوں گے اور وہ عمل کرنے میں بھی انتہائی آسان ہوگا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا لندن (انگلینڈ)  ہنسلو جامع مسجد میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ جس طرح زندگی میں کامیابی کے لیے ہم اپنی ترجیحات کا دھیان رکھتے ہیں سارا دن محنت کرتے ہیں آپ کو درست سمت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہماری زندگی کامیاب گزرے اور ایک دن بھی ضائع نہیں کرتے اسی طرح جب آخرت کی بات آئے گی تو اللہ کریم فرماتے ہیں اس کتاب میں ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جو متقی ہیں جو اللہ کریم سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ان کی انگلی تھا م کر یہ کتاب ان کو لے کر چلتی ہے۔جیسے ارشاد ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اب اگر معاشرے سے صرف بے حیائی اور برائی ختم ہو جائے تو یہی معاشرہ جنت جیسا ہو جائے ہر ایک سلامتی میں ہو سکھ میں سکون میں ہو۔اپنی زندگیوں کو قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کے حکم کے تحت لے آئیں گے تو دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔ اللہ کریم صحیح شعور عطافرمائیں 
آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے دعا بھی فرمائی۔
Quran kareem Allah kareem ka zaati kalaam hai yeh woh kitaab hai jo jame hai, Akmal hai - 1

راجہ پرویز اشرف سپیکر قومی اسمبلی کی دارالعرفان منارہ آمد


 حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کو ان کے بیٹے کی شادی کی مبارک باد دی اور حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ کے مزار مبارک پر حاضری دی اور فاتح پڑھی۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کے ساتھ خصوصی نشست میں ملکی موجودہ حالات کی بہتری بارے تفصیلی بات ہوئی 
  راجہ پرویز اشرف صاحب نے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ کی دینی خدمات اور شعبہ تصوف میں بے پناہ خدمات کو سراہا۔اس موقع پر سابقہ انٹیرئیر سٹیٹ منسٹر تسنیم احمد قریشی ،راجہ عظیم،راجہ رضوان ڈنڈوت بھی موجود تھے۔اس کے علاوہ معززین علاقہ کی بھی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی
Raja Pervez Ashraf speaker qaumi assembly ki Dar ul Irfan Munara Aamid - 1

نماز اللہ کریم سے ہم کلامی ہے اور یہ بہت بڑا انعام ہے


 معاشرے میں اس وقت تلخی اورباہم انتشارپھیل چکا ہے اس لیے قرآن مجید کے اس حکم پرعمل کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں بیہودہ بات ہو رہی ہو وہاں سے سنجیدگی سے گزر جائیں اور اس بحث وتکرار کا حصہ نہ بنیں۔ اپنے بچوں کو سکرین سے ہٹا کر خود وقت دیں اور دین کی تعلیم اور اس کی ترغیب دیں کیا روز محشر کوئی پسند کرے گا کہ اس کے لخت جگر کو دوزخ کی آگ کے حوالے کر دیا جائے۔ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال اختیار کرنے کی ضرورت ہے توبہ یا تائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دیا جائے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع سے خطاب 
  انہوں نے کہا کہ نماز اللہ کریم سے ہم کلامی ہے اور یہ بہت بڑا انعام ہے ہمیں اپنا رخ اللہ کریم کی طرف کرنے کی ضرورت ہے کہ بندہ جب دعوی ایمان رکھے پھر اپنے آپ کو اللہ کریم کے سپرد کردے۔اللہ کریم سے توفیق مانگی جائے اور بندہ اپنے معاملات کی نسبت اللہ کریم کی طرف رکھے۔انانیت اور اپنی ذات تک محدود نہ رکھے بلکہ اپنے ہر کام کی نسبت اللہ کریم کی طرف ہونی چاہیے۔اللہ اللہ مضبوط کریں ذکراذکار مضبوط کریں مراقبات راسخ ہوں۔بندہ جہاں سے گزرے تو لوگ آپ کو دیکھ کر نمازی ہوتے جائیں نیکی کی رغبت پیدا ہوتی جائے یہ بندے کا کمال نہیں بلکہ اللہ اللہ کا ہے اسم ذات کا ہے۔اپنے اعمال کا،اپنے کلام کا اپنی نگاہ کا خیال رکھا جا سکتا ہے تو حکم دیا گیا ہے۔اگر ہم خیال نہیں رکھ رہے تو یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے۔ہماری مرضی کا دخل ہے۔جتنی اللہ اللہ کرو گے توفیق عمل نصیب ہوگی۔
 اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Namaz Allah kareem se hum kalami hai aur yeh bohat bara inaam hai - 1