Latest Feature Articles


مردان حق


مسلمان کیا ہے؟مسلمان عالم انسانیت کاایک ایسافردہے، جس کی گردن اللہ کریم کی بارگاہ میں خم رہتی ہے،اللہ کریم کے علاوہ کسی کے سامنے جھکناگوارانہیں کرتا۔سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ کریم کے علاوہ کسی بھی بارگاہ میں اس کاسرجھکے۔ حق پرقائم رہتا ہے،باطل سے سمجھوتے کرکے زندگی نہیں گزارتا۔یہ جودو لفظ ہیں مسلمان اور مجاہد، یہ دونوں ہم معنی ہیں،ایک ہی فردہے۔ جب وہ مسلمان ہے تووہ مجاہدبھی ہے اور غلبہ حق کے لیے اس کی ساری قوتیں ہمیشہ وقف رہتی ہیں۔اس کی زندگی، اس کی اولاد،اس کامال، اس کے سارے وسائل،احقاق حق اورابطال باطل کے لیے ہوتے ہیں۔ایک مسلمان جہاں رہتا ہے،جب تک رہتاہے۔ وہ حق کاعلمبدار اور باطل کا مخالف ہوتا ہے۔ 
جہاں تک صوفیاء کاتعلق ہے۔انہوں نے دوسروں سے ہزاروں گنا بڑھ کر قربانیاں دیں۔ یہ ایسے مردان حق تھے کہ کافر توکافر، بدکارمسلمان حکمرانوں کی بھی بات سنناگوارانہ کی،ان سے بھی مقابلہ کرتے رہے۔ یہیں برصغیرمیں دیکھ لیں۔آپ ملتان کی تاریخ پڑھیں اورپھر اس میں غوث بہاول الدین زکریا رحمۃ اللہ کا کردار پڑھیں۔اجمیر کی ریاستی تاریخ پر نگاہ ڈالیں توپورے برصغیر میں ہندوؤں کی سب سے قابل فخرریاست اور سب سے طاقت ور ریاست اجمیر تھی۔خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جب وہاں وارد ہوئے تو آپ کی عمرنوے سال تھی۔تیس سال بعد، ایک سوبیس سال کی عمر میں آپ کا وصال ہواتوسوالاکھ کے لگ بھگ اجمیرکے لوگ آپ کے جنازے میں شریک تھے۔یہ کیا گوشہ نشینی سے یا مسکنت سے کام ہوتا ہے؟جہاں اسلام کا نام لینا جرم تھا۔وہاں کی نصف سے زیادہ آبادی کو تیس برسوں میں حضرت نے مسلمان کردیا۔ہندوستان پر اوراجمیرمیں آنے والے مسلمان حملہ آوروں میں ہمیشہ مقابلہ ہوتا رہا۔ فتح تو اسے ایک ولی اللہ نے کیا۔لڑائیاں ہوتی رہیں،ہارتے رہے جیتتے رہے۔اسی طرح ہمارے پاس پنجاب میں داتا صاحب معروف ہیں۔ لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ایک شخص کہاں سے چل کر کہاں پہنچا؟جب یہ لوگ ہندوستان تشریف لائے تو یہ آج والا ہندوستان نہیں تھا۔ برصغیر بین الاقوامی طاقت کامرکزتھا۔یہاں کی حکومتیں مضبوط ہوتی تھیں۔ یہاں کے مال ودولت کے چرچے تھے۔ جس مغرب میں آج ہم مزدوری کرنے کے لیے جاتے ہیں،یہ اہلِ مغرب برصغیرمیں مزدوری کرنے کے لیے آتا تھا۔مغرب کے لوگ خودکو خوش نصیب سمجھتے تھے کہ یہاں انہیں روزگار مل جائے۔اس وقت کے ان طاقتور حکمرانوں کے مقابلے میں ہزاروں میل دورسے یہاں آکر ان لوگوں نے بیٹھ کرحق کی تبلیغ کی اورباطل کوللکار ا۔مسلمان اگر مردحق اور مجاہدہے تو ایک ولی اللہ تو اس سے کروڑوں گنا زیادہ مرد حق، زیادہ کام کرنے والا،زیادہ جم کر رہنے والا،زیادہ حق کاساتھ دینے والااور باطل کے لیے ہمیشہ لرزاں براندام رکھنے والافرد ہوتا ہے۔ولایت کی نشانی یہ ہے کہ باطل جہاں بھی ہو،اس سے خطرہ محسوس کرتا ہو۔یہ جو تصوف میں مسکنت اور گوشہ نشینی آ گئی اور لوگوں نے چلے کاٹنے شروع کردیے۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ تصوف کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب توجہ کامل نہ ملی تو ان لوگو ں نے مجاہدے کرکے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی   اس سے منازل ومقامات نہیں ملتے، مشاہدات ہو جاتے ہیں۔ان لوگوں کو کسی نے ایک لطیفہ قلب سکھایا، انہوں نے چلہ کشی کرکے،بھوکے رہ کر،راتوں کوجاگ کر، گوشہ نشینی اختیار کر کے،انہیں کچھ انوارات نظر آناشروع ہوگے تو انہوں نے سمجھا کہ بات بن گئی۔اسی کوولایت کی انتہاسمجھے رکھا۔آپ بے شمار تصانیف میں دیکھیں گے (حالانکہ انہیں خود پتہ نہیں ہوتا)کہ فلاں بزرگ نے فلاں جگہ سے فلاں بزرگ سے فنا بقا ء کرلیا اورسلوک کی انتہا کو پہنچ گیا۔حالانکہ فنا بقاء توسلوک کا ابجد ہے، الف،ب،جیم ہے۔یہاں سے بات شروع ہوتی ہے۔فنا فی اللہ اور بقا با اللہ کی کیفیت سے جوگزرتا ہے۔ وہ سلوک کے دروازے پرقدم رکھتا ہے۔سلوک نہ ختم ہونے والی چیزہے۔  قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ  (بنی اسرائیل:85)انسانی روح عالم امر سے ہے۔ اگر کوئی اتنی ترقی کرتا ہے کہ وہ ترقی کرتا کرتا عالم امرمیں پہنچ جاتا ہے تو گھر پہنچا۔ یعنی بڑی محنت کی تو اپنے گھر پہنچا،اپنے مقام پرپہنچا۔اب اس سے آگے چلے گا توترقی ہو گی۔آگے اس کی انتہا کیا ہے؟ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ وہاں آپ پہنچ گے، اس سے آگے کوئی جگہ نہیں، آگے اللہ کریم بیٹھے ہیں۔نہیں!یہ ترقی ہوتی رہتی ہے۔زندگی میں، موت کے بعد برزخ میں،میدان حشر میں، جنت میں بھی مسلسل ترقی ہوتی رہے گی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔اس لیے کہ سلوک کی کوئی انتہانہیں ہے۔
مسلمان ایک مرد مجاہد ہے۔ جہاں سے گزرے فضا کو چیرتا ہواگزرے۔پتہ چلے کوئی ہستی ہے،کوئی وجود ہے،جس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے اللہ اس کے ساتھ ہے۔آپ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں پڑھیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سے کون پارسا ہوگا؟ساری دنیا کے اولیاء، اقطاب اور غوث جمع کرلو،انؓکی جوتیوں پرنچھاورہوسکتے ہیں۔لباس پرانے تھے،تلواروں پردوپٹیاں رکھ کراوپرکپڑاباندھ لیتے تھے۔جوتوں کوگرہیں لگا لیتے تھے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے عظیم انسان کے لباس میں تیرہ تیرہ پیوند لگے ہوتے تھے لیکن جہاں جاتے تھے ہرچیز لرزاں براندام ہوجاتی تھی۔قیصرکے پاس صحابہ کرامؓ میں سے جوسفیرپہنچاتو قیصر نے اسے دیکھ کر حیران ہو کر کہاکہ تمہاری تلوار پرتودولکڑیا ں رکھ کر اوپر کپڑے سے گانٹھ لگی ہوئی ہے۔تم کیا لڑو گے؟ انہوں نے فرمایا! قیصرمیانیں نہیں لڑا کرتیں، تلواریں لڑاکرتی ہیں۔تم میان کی بات کر رہے ہو۔تم نے میری تلوار کی کاٹ دیکھی نہیں۔ایک ایک شخص بڑے بڑے حکمرانوں کو لرزاں براندام کردیتا تھا۔ان کی وجاہت، ان کے چہرے کی عظمت،انوارات و تجلیات  سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ(الفتح 29:)  ان کے چہروں پر تجلیاتِ باری رقصاں ہوتی تھیں۔ مخاطب پر رعب طاری ہوجاتا تھا۔وہ بندے کااپنا نہیں ہوتا تھا، تجلیات باری کاامین ہوتا تھا۔
اسی طرح جہاد اور فساد میں بڑا فاصلہ ہے۔ہرجھگڑاجہاد نہیں ہے،ہرلڑائی جہاد نہیں ہے،دہشت گردی جہاد نہیں ہے، یہ فساد ہے۔ جہاد وہ ہے۔ جہاں حضور ﷺ کے حکم کے مطابق، باطل کے مقابلے میں جم کرکام کیا جائے۔ بات کرنا زبانی جہاد ہے۔ لکھنا قلمی جہاد ہے۔ لڑنا عملی جہاد ہے۔جہاں غلط ہورہاہووہاں حق کی حمایت میں جم جانا، یہ جہاد ہے۔خواہ مخواہ لوگوں کوقتل کرتے پھرنا اور دہشت پھیلانا۔یہ جہاد نہیں ہے۔ اہل ِمغرب نے جہاد کے اصل تعین،اس کے مفہوم کو مسخ کردیا ہے۔جہاداورفسادکوخلط ملط کردیاہے۔فساد الگ چیز ہے۔اسلام فساد کے خلاف ہے۔اسلام، فساد کو سرے سے برداشت ہی نہیں کرتا۔اسلام امن کا داعی ہے اور جہاد فساد کے خلاف قیام امن کی سعی کانام ہے۔جان دینی پڑے،زبان سے کام ہوجائے،ہاتھ سے کام ہوجائے۔اس کے لیے الگ الگ مواقعے اور الگ الگ صورتحال ہے۔ لیکن ہر مسلمان مجاہد ہے۔ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی زندگی جہاد ہو۔ نبی کریم ﷺ جب میدان کارزار سے واپس تشریف لائے تو فرمایا       رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہادالاکبر اوکماقال رسول اللہ ﷺ کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے ہیں۔ میدان کارزار میں دادشجاعت دینا۔ایک جذبہ ہوتا ہے، ایک جوش ہوتا ہے، ایک کام ہوتا ہے، ہربندہ کرجاتا ہے۔لیکن ساری زندگی حق پرقائم رہنا اور باطل سے ٹکراتے رہنا حضور ﷺ نے فرمایا یہ جہاد اکبر ہے۔یہ بڑا جہاد ہے کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا،بولنا چالنا،لین دین سارا حق کے مطابق ہو اور ہرہرعمل میں باطل کا ابطال ہورہاہو۔تب یہ پوری زندگی جہاد اکبر ہے۔مومن کی زندگی، مجاہد کی زندگی ہے۔ مومن کی حیات، مجاہد کی حیات ہے اور مومن کی موت، مجاہد کی شہادت ہے۔ 
اولیاء اللہ کی حقیقی کرامت یہ تھی کہ انہوں نے وہاں ڈیرے لگائے،جہاں باطل کی قوت زور پر تھی، وہاں باطل کوشکست دی۔ ایک فرد پہنچا تو ایک سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں ہو گئے۔ لوگوں کوحق پرچلنا سکھایا۔اللہ کی مخلوق کواللہ کے غضب سے بچایا اورا نہیں جہنم میں گرنے سے بچاکر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔جن اولیاء اللہ کو ہم عظیم سمجھتے ہیں ان کی سوانح ُپڑھیں۔وہ لاکھوں لوگوں کوجہنم سے بچانے کاسبب بنے۔جب باطل قوتیں زورں پرتھیں۔ حکومتیں بھی باطل کی طرف تھیں۔دنیاوی طاقتیں بھی اسی طرف تھیں تواس میدان میں ان سے افراد کو چھین کر،برائی سے چھین کر، شیطان سے چھین کر،انسانوں میں سے جو شیطان تھے ان کے شکنجے سے چھین کر، اللہ کریم کی بارگاہ میں لے آنا، یہ بڑی کرامت ہے۔ اللہ کریم توفیق ارزاں فرمائے۔ ہرفرد ایک قوت ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کریم ہے، ہرفردباطل کے لیے خطرہ ہے  تب وہ حقیقی مسلمان ہے۔ تب وہ صوفی بھی ہے۔ مجاہدبھی ہے۔ مسلمان بھی ہے۔اگر باطل اس سے خطرہ محسوس کرتا ہے تو پھر وہ حق پرہے۔ باطل کے لیے قابل برداشت ہے تو پھر وہ نہ اُدھر کاہے اور نہ اِدھر کاہے۔سادہ سی بات ہے۔ اسی میں ساری ولائیت بھی ہے اور سارے درجات بھی ہیں۔انجام اللہ کریم کے دست قدرت میں ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے بڑے مراقبات طے کیے ہوں۔لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو زندگی میں سب کچھ ہار کر مرتے وقت ایمان بھی ہار گئے۔ایسے لوگ بھی ہیں جو زندگی بھر تو کچھ نہ کرسکے لیکن موت سے پہلے کوئی ایسا عمل کیا جو اللہ کریم کو اتنا پسند آگیاکہ بڑے بڑے مجاہدے کرنے والوں سے آگے نکل گئے۔رحمت الہٰی سے بات بنتی ہے اور بات وہی بنے گی کہ جو اللہ کریم کے غضب سے بچ گیاوہ ساری کامیابیاں پاگیا۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعوربھی اورتوفیق عمل بھی عطافرمائے۔اٰمین۔

ولادت با سعادت اور بعثت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم


۱ا          ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ  تُرْحَمُوْنَ  (العمران:132)  ترجمہ:  ” اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول  ﷺ کی تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:قال محمد الرسول اللہ ﷺ:لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من ولدہ و والدہ والناس اجمعین(روایۃ المسلم)۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا،یہاں تک کہ میں، اسے، اس کے والدین، اولاداور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
 معزز قارئین کرام! ماہ مبارک ربیع الاول میں نہ صرف وطن عزیز بلکہ پوری دنیا میں نبی کریم ﷺ سے اظہار محبت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ خصوصی طور پرولادت باسعادت کے حوالے سے بے شمار محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے جب ارشاد فرمایا کہ  وَمَآاَرْسَلْنٰکَ اِلَّا َحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء:107)  یہاں ایک بات بہت واضع ہوجاتی ہے کہ ایک ذات اللہ جل شانہ کی ہے۔جو خالق ہے،واحد ہے، لاشریک ہے اور اس کی ذات کے علاوہ جو کچھ ہے،وہ مخلوق ہے۔ خالق نے مخلوق کی طرف اپنی رحمت کا سبب اپنے ذاتی کلام میں بیان فرمادیا کہ آپﷺ کی ذات مخلوق پر رحمت باری کے نزول کا سبب بنتی ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا جو تسلسل ہے۔ روز مرہ کی جو ضروریات ہیں کہ شاید انہی کی تکمیل اللہ کی رحمت ہے۔آپ تھوڑا اس سے پہلے سوچ لیں کہ یہ جو حیات ہے۔ اس کی ضروریات کے لیے ہم روز مرہ کی زندگی میں آنے والے یا پیش ہونے والے واقعات کو رحمت سے یا تکلیف سے منصوب کرتے ہیں۔یہ حیات بھی تو اللہ کی دی ہوئی ہے او رمحمد الرسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہے۔ایک لحظے کو اللہ جل شانہ کی رحمت کو انقطاع آ جائے یہ چیزیں رک نہ جائیں واپس عدم ہوجائیں۔کسی شے کا کوئی وجود باقی نہ رہے۔
جب ولادت باسعادت کی بات آتی ہے تو اس میں فقط ہمارا حصہ نہیں ہے۔یہ مخلوق خدا پر اللہ کا احسان ہے۔یہ ہوائیں قائم ہیں تو اللہ کی رحمت ہے۔یہ فضائیں قائم ہیں تو اللہ کی رحمت ہے۔ یہ طلوع و غروب ہے۔یہ آسمان وزمین ہے۔یہ ستارے چاند اور سورج ہیں۔ یہ خاک کا ایک ایک ذرہ مرہون منت ہے اللہ کی رحمت کا۔ اللہ نے آپ ﷺکی ذات کو باعث رحمت ارشادفرمایا تو اس حصے میں فقط ہم شامل نہیں ہیں۔خالق کے علاوہ تمام مخلوق کو آپ ﷺ کی ولادت منانی چاہیے۔لیکن جب با ت ولادت کی آتی ہے تو اللہ جل شانہ نے باقی تمام مخلوق سے کٹ کر اپنے حبیب سے بندہ مومن کو ایک الگ رشتہ عطافرمایا۔ 
قرآن کریم میں جب ارشاد آتا ہے۔کہ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ (آل عمران:164)  جو بندہ مومن پر عمومی مخلوق سے ہٹ کر خصوصی احسان ہے اور واحد حصہ ہے جسے اللہ نے اس شان سے بیان فرمایا کہ اے بندہ مومن! تما م احسانا ت سے بڑھ کرتجھ پر میرا یہ احسان ہے کہ میں نے اپنا حبیب ﷺتم ہی میں سے مبعوث فرمایا۔یہ جو اَحْسَنِ  تَقْوِیْمٍ (التین:4)  ہے۔یہ جو بشر ہے،جسے اللہ جل شانہ نے اپنا نائب مقرر فرمایا ہے اس کے لیے بے شمار تخلیق ہے۔چاند کا چڑھنا ہو،سورج کا طلوع ہونا ہو۔اپنے گرد وبیش حشرات الارض دیکھیں،چرند پرند دیکھیں،جانور،چوپائے دیکھیں،ان سب کا محور انسانی زندگی ہے۔یہ بشر ہے جو اللہ کا خلیفہ ہے، انسان کواللہ جل شانہ نے تمام مخلوقات سے ہٹ کر ایک ایسی سوچ اور خرد کا حصہ عطا فرمایا جو باقی کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں جب با ت پہنچتی ہے تو سمجھ آتی ہے کہ تفریق کیسے ہو گی؟ عمومی جو جاندار ہے،اس کی بھی پیدائش ہے،اس کی بھی افزائش ہے،اس کا بھی گھرانہ ہے،اس کا بھی کھانا پینا ہے،اس کی بھی صحت اور بیماری ہے اور اس کی بھی زندگی اور موت ہے۔ اگر اشرف المخلوق میں آکر پھر بندہ مومن کی حیثیت سے یہی حصہ ہم بھی اختیار کر جائیں کہ پیدا ہوئے،پلے بڑھے،روزگار کئے، شادی بیاہ ہوئی، خاندان بنے، اسی دنیا کی صبح شام میں وقت پورا ہوااور آخرت کو چلے گئے۔ ایک عمومی جاندار اوراس اشرف الخلق کا پھرفرق کیا ہوا؟ اللہ نے اسے خصوصی حصہ عطا فرمایا کہ یہ ایک سوچ رکھتا ہے، ایک سمجھ رکھتا ہے،چیزوں کو دیکھ کر اس کا ایک ادراک قائم کرتا ہے۔ایک وصف ایسا ہے جو خالق نے باقی کسی مخلوق کو نہیں عطا فرمایا۔لیکن یاد رکھیے! وہ جتنا بھی وصف ہو،اتنا بڑھ نہیں سکتا کہ ذات باری تعالیٰ سے آشنائی کرسکے۔وہاں پھر کوئی ذریعہ، کوئی ایسا حصہ درکار ہے جو ہمیں وہاں سے وہ شناسائی عطا فرما دے کہ ہمیں،ہمارا مقصد تخلیق نصیب ہوجائے۔ ہمارے لیے اشرف الخق کا حصہ عظمتوں کا سبب بن جائے۔ نبی کریم ﷺ وہ ذات ہے جو ہمیں اللہ جل شانہ سے شناسا فرماتے ہیں۔قرآن کریم کلام ذات باری تعالیٰ ہے۔ حق ہے، ایک ایک نقطے اور ایک ایک زبر زیر کے فرق کے بغیر آج بھی ہمار ے پاس موجود ہے۔ لیکن یہ ہمیں کہاں سے نصیب ہوا؟اللہ واحد و لاشریک ہے۔یہ ہمیں کہاں سے نصیب ہوا؟یہ زندگی اختتام پزیر ہو گی، حیات برزخیہ ہو گی،اعمال کی چانچ پڑتال ہو گی۔ یہ بات ہمیں کہاں سے نصیب ہوئی؟ روز محشر ہوگا،شاہ وگدا ایک ہی لائین میں کھڑے ہو نگے۔وہاں کوئی دنیاوی حیثیت کام نہیں آئے گی  وہاں فقط بات ہوگی۔  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ  اللّٰہِ اَتْقٰئکُمْ ط(الحجرات:13)  یہ حصے ہمیں کہاں سے نصیب ہوئے؟ واحد جگہ ہے آقائے نامدار محمد الرسول اللہ ﷺ۔آج ہم اگر اپنے معاشرے کا خیال کریں، اپنی تفرقہ بازیوں کا خیال کریں،اپنے اندر فساد کے حصوں کا خیال کریں،لسانی اور علاقائی جھگڑوں کا خیال کریں۔نہ صرف وطن عزیز بلکہ ساری دنیا کی امت مسلمہ اگر اتفاق واتحاد چاہتی ہے، اگر وہ عہدرفتہ کی وہ عظمتیں چاہتی ہے جو اسے اللہ نے داردنیا میں بھی عطا فرمائی ہیں۔ فقط ایک در ہے اور وہ در محمد الرسول اللہ ﷺ۔آج کا یہ بعثت کا موضوع حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں عطا فرمایا اور ہم نے وطن عزیز کے گوشے گوشے میں جہاں تک ممکن تھا اپنی وجودی استطاعت سے بڑھ کر کوشش کی۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے اورکمزور الفاظ سے کوشش کی کہ بندہ مومنین تک یہ پیغام پہنچا یا جائے کہ آپ کا رشتہ فقط ولادت کا نہیں ہے۔ اللہ نے اس سے بڑھ کر آپ کو، آپ ﷺکا امتی ہونے کا جو رشتہ عطا فرمایا ہے۔وہ ایسا رشتہ ہے جہاں سے تمہیں وہ حصے نصیب ہوں گے جو تجھے تیری عظمتوں کو پہنچائیں گے۔جو تجھے تیرے خالق سے شناسائی عطا فرمائیں گے۔تو بات جب یہاں آتی ہے۔تو احکامات دین کی آتی ہے۔ان حصوں کی آتی ہے۔جو عمومی زندگی سے ذاتی زندگی تک اور اجتماعی معاملات تک ہماری راہنمائی کا سبب ہیں۔ وہ قرآن و سنت کا پہلو جسے اللہ کے حبیب ﷺ نے ذاتی طور پر اختیار فرمایا۔ وہ حصے جس کی تربیت آپ ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کی فرمائی۔اجماع امت ہم تک پہنچانے کا اللہ نے سبب بنایا اور رہتی دنیا اورروز محشر تک ایک ایک چاہنے والے تک یہ سبب موجود رہے گا۔آج ہم کیوں اسے بھول چکے ہیں؟آج اگر ہم اپنے معاشرے کا اگر خیال کریں تو یہ جو تفریق ہے،یہ جو بہن بھائیوں میں جھگڑے ہیں،یہ جووالدین اور اولاد کی دوری ہے۔
ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ کس حد تک خرابی کا تدارک ہو سکتا ہے؟ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ہمارے عمل سے کتنی بہتری آئے گی؟یہ سارا میرے اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ ہاں! ہم مکلف ہیں اپنے کردارکے،ہم مکلف ہیں اس چھ فٹ پاکستان کے کہ کیاہم نے اس ماہ مبارک کے دوران اظہار محبت کے انداز پرغور کیا؟کیا ہم نے اس میں نظم ونسق نافذ کیا؟جو اللہ کے حبیب ﷺ نے اپنی ذات پر نافذ کیا،جو اللہ کے حبیب ﷺ نے ہمارے لیے پسند فرمایا،اللہ نے ہمارے لیے پسند فرمایاتو پھر بات سمجھ آئے گی کہ ان محافل میں آنا کیا ہے؟ان محافل میں سوچنا کیا ہے؟اس میں شریک ہونے والے کی اگر یہ نیت ہو گی تو بھی حاضرین محفل میں گزشتہ ایک ہفتے سے آپ لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔میں دعا گو ہوں ہر اس حصے کے لیے جسے کوئی نہیں جانتا کہ اس نے اپنے پروگرام کے لیے کتنی محنتیں کیں؟ کہاں تک اس نے اپنے اسباب اختیار کیے؟لیکن یاد رکھنا ہمارا یہ عمل کسی ذات کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہر ایک کا عمل بھی جانتا ہے اور ہر ایک کی نیت سے بھی واقف ہے۔
  اللہ کریم ہماری زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی عطافرمائے جو اس وطن عزیز کے لیے ضروری ہے۔اللہ ہمیں روز محشر کی وہ فکر عطا فرمائے جس روز حساب کتاب کے لیے عمومی بندہ بھی کھڑا ہوگا اور وہ لوگ بھی کھڑے ہوں  جو صاحب اقتدار ہیں اور اس نے کتنے حصے کا دینا ہے؟ جہاں تک اس کی دسترس ہے۔وہا ں سوائے اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کے کوئی شے کام نہیں آئے گی۔ میں اپنی بات کو اختتام کرتے ہوئے چند مصرے فارسی کے، اسی محبت میں،اسی موضوع سے متعلق،اپنے احبا ب سے عرض کرتا ہوں۔کیا خوب بیان کیا شاعر نے فرماتے ہیں:
غریبم یا رسول اللہ ﷺ  غریبم 
ندارم  در  جھاں  جز تو   حبیبم
مرض  دارم  زعصیاں   لا دوائے 
مگر   الطاف   تو    باشد  طبیبم 
     بریں  نازم   کہ  ھستم    امت  تو 
گنھگارم ولیکن  خوش  نصیبم 
ترجمہ :  کیا خوب لکھا، فرماتے ہیں۔یا رسول اللہ ﷺ میں بہت غریب ہوں۔دنیا میں میرا آپ ﷺ کے سوا کوئی محبوب نہیں۔(میں اپنے گریبان کو جھانک کر یہ فقرہ عرض کرتا ہوں) کہ میراگناہوں کا مرض لادوا ہے مگر آپﷺ کی مہربانی اس کی طبیب ہوسکتی ہے۔مجھے اس بات پر ناز ہے کہ آپ ﷺکی امت ہوں،گنہگار ہوں لیکن بہت خوش نصیب ہوں۔اللہ جل شانہ شاعرکا یہ کلام ہمیں حقیقی معنوں میں نصیب فرمائے۔امین


یوم دفاع پاکستان

طلوع وغروب ہویاستاروں، سیاروں کا گردش میں آنا ہو۔یہ سب کچھ ایک مربوط نظام پیدا کرتا ہے، جس کے زمین پر بے شماراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں ماہ و سال کی،شمار کی، اس وقت کی جو گزر گیا،لیکن اس شمار کے تحت جب ایام بدلتے ہیں تو واقعات اجاگر کرتے رہتے ہیں،جن کی یاداشت انسانی ذہنوں اور قلوب میں گونجتی رہتی ہے۔جیسے آج 6 ستمبر ہے،اسی طرح ایک 6 ستمبر ایسی بھی تھی جس میں کچھ واقعات رونما ہوئے۔ایک نوزائیدہ ریاست کو ضم کرنے کی کوشش کی گئی، اسے زیر کرنے کی کوشش کی گئی،اسے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا اظہار آج ہم کررہے ہیں۔
 ہماری نیت کیا ہے؟ہماری سوچ کیا ہے؟کس درجے کا اظہار ہے؟ کیا ظاہر ہے؟کیا باطن ہے؟ ایسا اس زمین و آسمان نے دیکھا اوراس کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ کے نام پر،اللہ کی مخلوق نے اپنی جانیں، اپنے وطن عزیز پر نچھاو ر کیں۔ یہ ممالک کی ضدانسانی فطرت کی عکاسی کرتی ہے کہ جب وہ حق پر نہیں ہوتا تو اپنی پسند کا نفاذاورکمزور کو محکوم کرناچاہتا ہے۔ جب نفس انسانی مضبوط ہوتا ہے، خواہشات انسانی کا اطلاق اسے پسند آتا ہے تو پھر شیطان بھی اسے بے شمار راہیں دکھاتا ہے۔ جو جدید ترین ہتھیار ہم بنا رہے ہیں،یہ کس لیے بنا رہے ہیں؟ اس کا نقصان حضرت انسان نے ہی اٹھانا ہے،کتنی جنگیں ہوئیں؟لیکن کیا اس سے اجتناب کر لیا جائے کہ میں اس سے باہر ہوں تو پھر غزوات و سرایہ کے بارے میں کیا کہو گے؟حق کا نافذ ہونا اورظلم کا روکا جانااور مظلوم کی دسترس کرنا اسلام کے احکاما ت میں سے ہے۔ 
وطن عزیز ریاست مدینہ کے بعدآج تک اس دنیا میں پہلاملک ہے جو اسلام کے نام پرمعرض وجود میں آیا۔تحریک پاکستان کے وقت بڑا زور لگایا گیا،لوگوں نے بڑے نعرے دیے لیکن تحریک تقسیم ہند میں مضبوطی نہیں آ سکی۔لیکن بات جب لاالہ اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی آئی تو بے شمار مخلوق نے اپنی جانیں قربان کیں۔تب جاکریہ وطن عزیز معرض وجود میں آیا۔وہ خلش، وہ تکلیف جو ایک کافر کے ذہن کی ہے کہ اسلام کے نام پر یہ ملک کیوں معرض وجود میں آیا ہے؟اس کا دنیا کے نقشوں پر شمار کیوں ہے؟ اسی نیت کے تحت 5  اور6  ستمبر 1965کی درمیانی رات کو پہلا حملہ لاہور کے باڈر پرکیا گیا تھا۔ یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی،ان 17 دنوں کو مرکزی طور پر اگر آپ دیکھیں تو تین جگہوں پر لڑائی کا مرکز ملتا ہے۔ ایک حملہ لاہوربی آربی نہر پر دوسرا سیالکوٹ کی طرف چونڈہ باڈرپر اورتیسرا حملہ فضائیہ کاتھا۔
 اللہ کریم نے افواج پاکستان کو وہ حوصلہ عطا فرمایاکہ انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں اور نذرانے دے کراس ملک کی حفاظت کی اور فضائیہ کی تاریخ میں چند سیکنڈمیں اتنے زیادہ جہازوں کاگرانا آج تک ایک ریکارڈ ہے۔جو ایم ایم عالم (اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے) نے قائم کیا۔ اللہ جل شانہ کا کرم اور احسان ہے کہ دشمن دعویٰ کررہا ہے کہ ناشتہ لاہو ر جا کرکریں گے اور انٹرنیشیل میڈیا کہہ رہا ہے کہ لاہور فتح ہوگیا۔ یہاں اہل لاہور کوانتظامیہ کہہ رہی ہے کہ شہر خالی کردوکہیں تمہارا اس جنگ میں نقصان نہ ہوجائے۔ اللہ کریم نے اس عوام کو اس جذبے سے سرشار کیا ہے کہ صرف شہر خالی کرنے کی بات کسی نے نہ سنی بلکہ شہر سے لے کر باڈر تک مخلوق کو خود فوج روکتی تھی کہ تم آگے نہ جاؤ لیکن جہاں تک جو ہو سکا،کسی نے راشن پہنچایا تو کسی نے زخمیوں کو سنبھالنے کی کوشش کی اور جتنی فضائیہ کی لڑائی تھی وہ مخلوق گھر کے چھتوں پر کھڑے ہو کر دیکھ رہی تھی۔ یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس وطن عزیز کو جہاں اللہ کریم نے لوگوں کو ایسے جذبے سے سرشار کیا ہے۔ جس کے تعین کی ضرورت ہے اس کے راستے کی کمی بیشیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ یہا ں صحیح العقیدہ اور عمل کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ اپنے وطن سے محبت یا اپنی قوم سے محبت، صرف ایک دن کی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ کسی مخصوص دن میں قید کی جاسکتی ہے۔یہ وہ عمل ہے جو مسلسل ہے،جو زندگی کے ساتھ ہے، ہم اس دھرتی پر اپنا وقت پورا کرر ہے ہیں۔یہاں آج بھی ایسے لوگوں کے مزار ملتے ہیں جواپنی وردیوں میں سلامت ہیں۔اسی چونڈہ کے باڈر کے قریب دیہاتی ٹریکٹر چلا رہے تھے۔ٹریکٹر کے بلیڈ سے کوئی چیز اٹکی تو دیکھا وہ کسی شہید کی ٹانگ تھی وردی میں بھی تھااور جہاں بلیڈ لگا وہاں سے اس کا خون رسا،مٹی میں لت پت، زخموں سے چور شہید،صحیح سلامت،کسی مٹی کے ذرے نے، کسی چیونٹی نے اس کے وجود کو چھوا تک نہیں۔ مٹی میں موجودہے لیکن مٹی نے چھوا تک نہیں،مٹی اپنا اثر ظاہر نہیں کر سکی اور کتنے ہی شہداء کے ایسے مزار ہیں جنہیں میدان کارزار سے قبرستانوں میں دفن کیا گیا۔
 جنگ عظیم کے بعد دوسری دفعہ ٹینک کی اتنی بڑی تعداد سیالکوٹ میں چونڈہ کے باڈر پر حملہ کر رہی تھی،کوئی مقابلہ نہیں تھا۔جہاز کو دیکھیں تو اگرایک جہاز پاکستان کا ہے تو مقابلے میں دشمن کے 5 جہازتھے۔اسی طرح جب ٹینک کی بات آتی ہے تو مقابلے میں ٹینک نہیں تھے لیکن بندہ مومن کے سینے میں، جہاں ایمان جلوہ افروز ہے پھر اسے ٹینک نہیں روک سکے۔اس یونٹ میں کتنے بندے تھے جنہوں نے اپنے سینوں کے ساتھ بم باندھے اوراللہ کانام لے کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے؟ دشمن کوسمجھ نہیں آئی کہ ہمارے ساتھ ہواکیا ہے؟ وہ جو ناشتہ لاہور جم خانہ میں کرنا چاہتے تھے، نہ انہیں ناشتے کا ہوش رہااور نہ دوپہر کے کھانے کی بات رہی۔اس قوم میں جذبہ ہے لیکن اس دن کو مناکر،اس کا اظہارکرکے اسے قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔اگر اسے دنوں میں قید کریں گے،تواریخ میں قید کریں گے تو ملک کی تعمیر کون کرے گا؟
یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اس کے پاسبان ہیں، اللہ کے نام پر دین اسلام کی سربلندی کے لیے بناہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی اکائی یہ چار ہاتھ کا میرا وجود جو میرے پاس ہے اس پر تومیں اللہ کے دین کو نافذ کروں ہمارا اٹھایاگیا کوئی بھی قدم اس ملک کو مزید تقسیم نہ کرے۔یہ ملک بھی ہمارا ہے، اس کے ادارے بھی ہمارے ہیں اور ہم پورا ہی تب ہوتا ہے جب ساری عوام اس میں شامل ہو۔ اللہ کریم یہ اپنایت کا جذبہ من حیث القوم ہم سب میں عطا فرمائے۔اٰمین

عدل کی اہمیت

نظام حیات کادارو مدار عدل پر قائم ہے۔جب سورج طلوع ہوتا ہے تواس کے غروب ہونے تک، ہر لمحے کا ایک موسم معین ہے۔گرمی ہے یاسردی ہے، روشنی ہے یا تاریکی۔ اس کی ایک حد (limit)ہے اگر اس حد (limit)کا توازن بگڑتا ہے تو ساری دنیا ڈسٹرب(disturb) ہوتی ہے۔بارشیں برستی ہیں بادل برستے ہیں۔ان کی حدود (limits)  ہیں۔جب وہ حدودسے کم ہوتی ہیں تو لوگ قحط سالی سے مرتے ہیں اور جب حدود سے تجاوز کرتی ہیں تو لوگ سیلابوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضرورت اور اپنے معیار کے مطابق ہو۔ جب اس سے ہٹے گی تو ناانصافی بن جاتی ہے تو معاشروں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔
دل خون سپلائی کرتا ہے۔ اگر یہ جسم کے آخری ذرے (Cell) تک اس کی ضرورت کے مطابق نہ پہنچے تو وجود شل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ انگلیاں مر جائیں گی، ہاتھ بے کار ہوجائے گا، بازو ختم ہو جائے گا، بینائی چلی جائے گی، دماغ خراب ہوجائے گا۔جہاں ضرورت سے زائد جائے گا وہ بھی خراب ہوجائے گا۔ضرورت سے کم جائے گا،وہ بھی خراب ہو گا۔ ضرورت کے مطابق جائے گا،یہ عدل ہے۔
معاشرے میں زندگی کے لیے بنیادی عدل، تعلیم ہے۔ بحیثیت انسان زندہ ہونے کے لیے جس طرح آپ بدن کو غذا دیتے ہیں،کھانا،پانی دیتے ہیں، اس سے زیادہ ضروری تعلیم ہے۔ایک جانور کی زندگی اور انسان کی زندگی میں کیا فرق ہے؟ جانور کچھ نہیں جانتا،انسان بہت کچھ جانتا ہے۔عدل یہ ہے کہ ایک گداگر کے بچے سے لے کر،(president) پریذیڈنٹ یا وزیراعظم کے بچے تک، کوایک طرح کی تعلیمی سہولیات میسر ہوں۔عدل یہ ہے کہ جرم اگر صدر صاحب سے سرزد ہوتو وہ بھی اسی عدالت میں اسی اندازمیں پیش ہوں اور ایک عام آدمی سے ہو تواس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو۔عدل یہ ہے کہ جیل، جیل ہو۔امیر،فقیر،غریب،حکمران،محکوم، اے،بی کلاس نہیں۔اے کلاس ہے تو سب کے لیے اے کلاس ہونی چاہیے۔بی ہے تو سب کے لیے بی،سی ہے تو سب کے لیے سی ہو۔ یہ کیا ہے کہ ایک آدمی جرم کرے تواسے صوفے بھی لگا دو، دو تین بندے مشقتی بھی دے دو،خدمت گزار بھی دے دو۔ دوسرا اس سے کم درجے کا جرم کرے تواسے ہتھکڑی،بیڑی لگا دو۔ یہ کیا ہے؟ یہ عد ل نہیں ہے۔
عدل کی دوسری بنیادیہ ہے کہ فوری ہو، اس میں تاخیر نہ ہو،تاخیر ہوتوعدل نہیں ہےJustice) (delayed is justice denayed  جس عدل میں تاخیر ہووہ عدل نہیں ہے۔ میرا ایک جماعت کا ساتھی تھا،حافظ قرآن، نیک آدمی تھا،لیکن پرچے(FIR) میں نام آگیا۔ جیسا ہمارے ہاں رواج ہے۔ اللہ بہتر جانے مجرم تھا یا نہیں تھا۔سندھ، میر پور کارہنے والا تھا۔ سیشن کورٹ نے سزائے موت کر دی،ہائی کورٹ نے سزائے موت کر دی،سپریم کورٹ میں اپیل گئی،سپریم کورٹ نے کہا نہیں،یہ بندہ بے گناہ ہے۔سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ گرفتار ہونے سے بری ہونے تک سترہ برس (seventeen years) لگے۔ سپریم کورٹ سے بری ہوا، جیل سے رہا ہوا، گھر آ یا، دس دن رہا، گیارویں دن ہارٹ اٹیک(Heart Attack) آیا، فوت ہوگیا۔ اس کی زندگی کے سترہ سال جیل میں گزر گئے۔ زمینیں بک گئیں،عزتیں نیلام ہو گئیں،بچے آوارہ ہو گئے، خاندان اجڑ گیااور انصاف مل گیا کہ آپ تو بے گناہ ہیں،آپ کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ باعزت بری ہوگیا۔کیا یہ انصاف ہے؟ جائیداد کے جھگڑے ہوتے ہیں۔دادا دعویٰ دائر کرتا ہے۔دادا مرجاتا ہے باپ مر جاتا ہے پوتوں کے نصیب میں کہیں ہو تو فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔
عدل وہ ہے جوبلا تاخیر ہو بلاتمیز ہو۔فرد کا لحاظ بھی نہ کیا جائے کہ یہ کون ہے؟ ملزم ہے جو بھی ہے۔ملزم کو بطور(as a) ملزم ٹریٹ(Treat) کیا جائے۔بطور ملزم ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ خواہ وہ بادشاہ ہے، فقیر ہے، امیر ہے۔تاخیر نہ کی جائے،جتنا جلدی ممکن ہو سکے،اس کا فیصلہ کیا جاسکے۔ سزا ہونی ہے،سزا ہوجائے۔بری ہونا ہے تو بری ہو جائے۔عدل کے لیے بلالحاظ ہو، فوری ہو،بلا طمع ہواور پھر ہم الحمد اللہ مسلمان ہیں۔اسلام نام ہی عدل کا ہے۔اسلام کی ہر بات میں عدل ہے۔والدین کے ساتھ رشتہ،بیوی کے ساتھ رشتہ، اولاد کے ساتھ تعلق، بہن بھائیوں،پڑوسیوں، علاقے، قوم، ملک، بین الاقوامی،ہر جگہ عدل کی ضرورت ہے۔عدل فرد سے شروع ہوکر معاشرے تک جاتا ہے۔روزی کے وسائل ہیں۔وہاں عدل چاہیے۔جس میں جو استعداد ہے اسے وہ مواقع ملنے چائیں اور اسے اس طرح کی روزی ملنی چاہیے۔یہ نہیں کہ آپ فلاں کے رشتہ دار ہیں تو آپ کو یہ جاب مل جائے گی۔آپ فلاں کے رشتہ دار نہیں ہے تو بے شک پڑھے لکھے ہوں،وہ جاب نہیں ملے گی۔جس میں جو اہلیت ہے، اسے وہ نعمت ملنی چاہیے۔بلکل اسی طرح آپ روز مرّہ کی غذا میں عدل چھوڑ دیں تو آپ بیمار ہوجاتے ہیں۔عدل یہ ہے کہ غذا حلال ہو،صالح ہواورآپ کی طبیعت کے مطابق ہو، بدن کی طلب کے مطابق ہو۔اس سے زیادہ اس میں ٹھونس دیں گے، وہ بیمارہوجائے گا۔تھوڑی دیں گے وہ خراب ہوجائے گا۔ اس کے مزاج سے ملتی ہو، آپ کا مزاج گرم ہے۔ آپ گرم پھل کھاتے رہیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں میری خیر ہے، دوسرے کو عدل کرنا چاہیے۔ساری پبلک(Public) کہتی ہے، ہماری خیر ہے، حکمرانوں کو عدل کرنا چاہیے۔تمہاری خیر کیسے ہے؟ بائیس کروڑ بندے ہوں اوربائیس بندے حکمران ہیں۔جب بائیس کروڑاافراد عدل نہیں کریں گے تو اس پر اکیس،بائیس بندے کیا عدل کریں گے؟اگر ہم عدل چاہتے تو پہلے ہمیں خود عدل قبول کرنا ہوگا۔اپنی زندگی میں عدل لانا ہو گا اپنے تعلقات میں،اپنی معیشت میں، اپنے کاروبار میں،اپنی دوستی، دشمنی میں، ہمیں عدل لانا،توازن لانا ہوگا۔جب ہم بدلیں گے تو ہر چیز کو بدلنا پڑ جائے گا۔ہم خو د نہیں بدلتے تو پھردوسروں کو کیا بدلیں گے؟حکمران بھی تو ہم ہی میں سے ہیں، جیسا ہم سوچتے ہیں،وہ بھی سوچتے ہیں۔اگر ہم خو د عدل پر قائم ہوجائیں تو یقینا جب ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، تب ہی ہم عدل کاخیال رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ جس کو ووٹ دینا ہے۔ اس میں اہلیت ہے،دیانت دار ہے،امین ہے، یہ ساری چیزیں دیکھنی ہیں۔ کیا ہم دیکھتے ہیں؟جب ہم چوروں کو ووٹ دیتے ہیں تو عدل کی امید کیوں رکھتے ہیں؟اپنے ساتھ ہم نے خود ناانصافی کی تو دوسروں سے انصاف کی امید ہم کیوں رکھتے ہیں؟ہمارے ہاں سارے انقلاب، سارے نعرے اور سارے ہجوم صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ دوسرا سیدھا ہوجائے۔(اسی طرح  ہمارے میڈیا(Media)پر جتنے بھی ٹالک شو (Talk Show)ہوتے ہیں وہ بھی بدقسمتی سے اسی طرح کے ہی ہوتے ہیں) خو د درست ہو جاؤ،خود عدل کرو،ان شاء اللہ معاشرے میں عدل آجائے گا۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر بائیس کروڑ بندے ہیں اور آپ نے اپنے آ پ پر اسلام نافذکرلیا، عدل اپنا لیا تو آپ نے پاکستان کے بائیس کروڑویں حصے پر اسلام نافذکردیا۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ سارے ٹھیک ہوجائیں۔آپ جس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کا ہوتوآپ اس طرح بن جائیں توپاکستان کا بائیس کروڑواں حصہ ٹھیک ہوجائے گا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔

اختلافات کا حل


اللہ جل شانہ نے قرآنِ پاک کی سورۃ الانفال کی آیہ مبارکہ 60میں ہمارے لئے اصولِ زندگی ارشاد فرمائے ہیں۔
وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْـخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْج لَا تَعْلَمُوْنَـهُـمْ ۚ  اللهُ يَعْلَمُهُـمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُـمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o
اورجہاں تک تم سے ہو سکے ان کے لئے (فوجی) قوت اور پلے ہوئے گھوڑوں (سامانِ جنگ) سے تیار رہو کہ جو اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اس سے ان پر رعب جمائے رکھو ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تم پورا پورا دیا جائے گااور تمہارے ساتھ کو ئ زیادتی نہ ہو گی۔ 
ہمارے مسائل بے شمار ہیں جن میں سے بہت سے مسائل کی بنیاد ہمارا اختلافِ رائے اور اس کا طریقۂ اظہار ہے۔ایسا خوبصورت ملک ِ خداداد جس میں ہر قسم کے موسم، ہر فصل، ہر خطۂ زمین، ہر قسم کے معدنیات اور پھر ذہانت کا بے بہا خزانہ بھی موجود ہے فقط راہ کے تعین کا فقدان روبہ ترقی ہونے میں حائل ہے۔ 
اللہ کریم نے بنی نوعِ انسان کو ایک وقار اور مقام عطا فرما رکھا ہے چہ جائیکہ ایک انسان نورِ ایمان سے بھی سرفراز ہو۔ میری گزارش ہے کہ آراء کے اظہار کو حدود و قیود میں رکھا جائے اور باہمی اختلافات کو بھُلا کر بحیثیت قوم کے سوچا جائے کیونکہ دینِ اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ مسلمان کی سوچ کبھی بھی فقط اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اجتماعی بنیاد پر سوچتا ہے۔ وطنِ عزیز کے ہر ادارے کو دیکھ لیں خواہ وہ عدلیہ ہو، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہو، پارلیمنٹ ہو، وہاں کون کام کر رہا ہے؟ کون ہے وہاں؟ ہم ہیں۔شہداء اور غازی کون ہیں؟ ہمارے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں جو وطنِ عزیز کی ناموس پر جانیں لٹا رہے ہیں۔ کون ہیں؟ ہم ہیں۔ ہم میں سے ہی کسی کی بہو کا سہاگ ہے، کسی بہن کا بھائی ہے، کسی ماں کا بیٹا ہے۔ بحیثیت عوام بھی، ہم ہیں۔ بحیثیت ادارے بھی ہم ہی ہیں۔ ضرورت محض اپنی کوتاہیوں پہ نظر رکھنے کی ہے۔ سورۃ النساکی آیہ مبارکہ 59 میں اللہ کریم نے واضح ارشاد فرمایا ہے
يٰآ يُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ  فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِط  ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبر ؐ کی اطاعت کرو اورا ن کی جو تم میں سے اہل حکومت ہیں۔پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اسے اللہ اور اس کے پیغمبر کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام اچھاہے۔ 
ایک طرف اگرحکمران کی اطاعت ضروری ہے تو اس سے اختلاف کا حق بھی حاصل ہے۔ اگر محسوس ہو کہ حکمران غلطی پہ ہے تو اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہو تو یہاں بھی اللہ کی رضا مقدم ہو۔ اس ختلاف کا حل بھی اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے حکم کے مطابق تلاش کرنا چاہیے۔
معزز قارئین کرام! تضادات اس وقت بڑھتے ہیں جب ہم اپنی آراء کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مَیں دعا گو ہوں کہ اللہ کریم ہمیں بحیثیت مسلمان اس بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ وطنِ عزیز ہمارا ہے جس کے لئے ہمارے اجداد نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔ 1947ء میں یہ ملک وجود میں آیا ہے جس کے لیے 1857ء سے لوگ قربانیاں دیتے آ رہے تھے۔ اس وطنِ عزیز کے نام پر کتنے لوگ جان جانِ آفرین کے سپرد کر کے دفن ہوئے، یہ شمار فقط وہ جانتا ہے جو اس کا صلہ دینے والا ہے پھر بقائے وطن کے لئے 1965ء کی لڑائی پر غور کیجیے۔ وہ ہمارے ہی بیٹے تھے جو اپنے سینوں پہ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے کہ ان ٹینکوں کو روکنے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ آپ کسی بھی شہید جسد ِ خاکی کتنے ہی عرصے بعد دیکھ لیں، سلامت ہو گا۔ یہ ان پہ انعامِ باری ہے۔
یہ وطن، انعامِ باری تعالی ہے جس کے شکر ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہے، اس کی نسلوں کے کردار کی تعمیر و تشکیل۔ ہمیں اپنے بچوں کو دین و دنیا، دونوں کے علوم سے بہرہ مند کرنا ہے۔ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹ کر صراطِ مستقیم پہ چلانا ہے۔ اتباعِ رسالت ﷺ پہ گامزن کرنا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹنا ہے۔
معزز قارئین کرام! ہر شعبہ زندگی کو درست کرنے کے لئے نفاذ قانون کا اطلاق لازم ہے۔ جب کوئی معاملہ پیش آئے، قانون وہ بنیادی شئے جو چیزوں میں استحکام لاتا ہے۔ ہمارے پاس 1973ئکا آئین ہے جس پہ نہ صرف قومی سطح پہ بلکہ مذہبی جماعتوں کا کثیر اتفاق ہے۔ اگر اسی آئین کو کلی طور پر نافذ کر دیا جائے تو ہمارے 80%سے زائد مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم اپنی ضرورت کے تحت اس میں ترمیم کرتے رہتے ہیں۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ذاتی ضروریات کو قومی ضروریات پہ فوقیت دی جائے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود غریب آدمی دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہے۔ سستا بیج، سستی کھاد ہی نہیں ایک شفاف نظام کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ نظام اور اس کا عادلانہ نفاذ زرعی پیداوار کو فروغ بھی دے گا، اشیائے خورد و نوش کی سمکلنگ کا سد ِ باب کی کرے گا۔ شدتِ مزاج کبھی، کسی مسئلے کا حل نہیں رہابلکہ اس کا نتیجہ اکثر ندامت کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ملک ہمارا ہے، قوم ہماری ہے، ادارے ہمارے ہیں۔ ضرورت ہے تو  ہم میں سے ہر ایک کو ادائیگی فرض کے احساس کی۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے حصے کا کردار کرنے کی توفیق ارزاں عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں باہمی اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے۔ یہ خطۂ ارضِ وطن، مدینہ منورہ کے بعد، دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ معرضِ وجود میں آئ۔ اسے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ انشآئاللہ۔ خو ش بخت وہ ہو گا جو اپنے خون سے اس مٹی کو سینچے گا۔

اللہ کریم کا اپنے بندوں کے نام پیغام


قرآن کریم،اللہ کریم کا اپنے بندوں کے نام ایک پیغام ہے۔ آپ کو اپنے کسی عزیز،کسی چاہنے والے، کسی محبوب کی چٹھی آتی ہے۔کبھی آپ نے بغیر سمجھے رکھی؟ان پڑھ کو بھی مل جائے تو کسی پڑھے لکھے کی تلاش میں بے قرار ہوجاتاہے کہ وہ مجھے اس چٹھی کا مضمون تو سمجھائے۔اس میں کیا ہے؟اللہ تعالیٰ کا پیغام ہو، اللہ کریم کی چٹھی ہو،لانے والے محمد رسول اللہ ﷺ ہوں، امام الانبیاء(بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر) وہ ہستی ہم تک اللہ کریم کاپیغام پہنچائے،ہم اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کریں۔ ہم میں سے ہر مسلمان کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کے لفظ، لفظ کو سمجھنے کی کوشش کرے او ر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایاہے کہ  وَلَقَدْ  یَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْر (القمر:22) ہم نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سہل کر دیاہے۔ ادبی مقامات میں اس مقام پر ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، لغت کے اعتبار سے ان بلندیوں پر ہے کہ کوئی اسے چھو نہیں سکتا ہے،جملوں اورفقروں کی ساخت اور الفاظ کے چناؤ اورانتخاب کے اعتبار سے یکتا و بے مثل ہے۔لیکن کو ئی سمجھنا چاہے تو وہ قادر کریم فرماتا ہے کہ میں نے سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے۔ہرمسلمان پر یہ واجب ہے کہ قرآن کریم کو سمجھے۔ خود پڑھنا نہیں جانتا تو  فَسْءَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِاِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ (النحل:43) تمہیں پڑھنا نہیں آتا توپڑھے لکھے لوگوں سے جا کر پوچھو، لیکن پوچھو ضرور کہ اس میں کیا لکھا ہے؟
آج دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ میرے دوستوں!اس زمانے کو یاد کرو جب قرآن کا نزول ہو رہا تھا۔ مکہ کی سرزمین تھی، قبائلی راج تھا، سرداروں کی حکومت تھی،بندہ مار دینا یا چھوڑ دینا، ان کی مر ضی پر موقوف تھا۔بتوں کے پجاری اور شرک میں مبتلا تھے۔مکی سورتوں کو الگ کر لیجئے، جو قرآن کریم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا، اس سارے کو دیکھ جائیے۔وہ بات ہی عقیدے کی کرتا ہے، بتوں کے باطل ہونے کی کرتا ہے۔اللہ کی توحید کی کرتا ہے اور مشرکین کے سامنے کرتا ہے۔
میں بڑی تحقیق کرچکا ہوں۔ اس قرآن کریم کو بیان کرنا یہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کاکام تھا۔کوئی دوسرا نہیں کرسکتاتھا۔ آپ تاریخ میں دیکھئے، مکے کے اس ماحول او ر اس منظر کو آنکھوں کے سامنے لائیے پھر اللہ کے رسول ﷺکو یکتا وتنہا دیکھئے کہ صرف اللہ کریم کی ذات ان کے ساتھ ہے۔اس بوڑھے آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب اس روئے زمین پر صرف ایک بندہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کا نام لے رہاتھاپھر آ پ کے ساتھ ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے دس۔آپ ﷺ کے جانثار شہید ہوئے۔آپ ﷺکو سفر ہجر ت پرمجبور ہونا پڑا،کفر کی طاقتوں نے وہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ بدرو احد ہوا، خندق ہو ا، مدینہ منورہ پر حملے ہوئے۔کوشش کی گئی کہ سب کچھ مٹا دیا جائے لیکن وہ حق کی آواز کو خاموش تو کیا کرتے اسے پھیلنے سے نہ روک سکے او ر مسلسل تئیس برس نبی کریم ﷺ نے اس قرآن کریم کا ایک، ایک لفظ عام آدمی تک پہنچانے کے لیے وہ وہ مصیبتیں اٹھائیں جن کو آپ سن کر برداشت بھی نہ کرسکیں۔کیوں آج ہم نے اسے سمجھنا چھوڑ دیا ہے؟
 اقوام عالم کی تاریخ دیکھ لو، ہر ملک کی تاریخ میں جونصاب تعلیم ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد جو شروع سے بچے کو سکھائی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ تم کون ہو؟ تم کس قوم سے متعلق ہو؟ تمہارا ماضی کیا ہے؟تمہاری تہذیب کیا ہے؟ تمہیں کس بات پر فخر کرنا چاہئے؟ اور کس بات کو تم نے زندگی میں ثابت کرنا ہے۔ یہ تعلیم کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہمارے نصابِ تعلیم میں مسلمانوں کی یہ بنیاد سرے سے غائب ہے۔ہمیں وہ الف، ب، جیمA,B,C  سکھاتا ہے۔ یہ نہیں بتاتا کہ تم کون ہو؟اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
 انگریز کی تعلیم نے رکھانہ کہیں کا     مذہب کا نہ ملت کا دنیا کا نہ دین کا
ہماراتعارف کیا ہے؟ ہمارا تعار ف اللہ کا قرآن ہے۔قرآن کریم جو کرنے کا کہتا ہے، وہ ہمیں کرنا ہے۔ جس سے روکتا ہے، اس سے ہمیں رکنا ہے۔جہاں بیٹھنے کا کہتا ہے، وہاں ہمیں بیٹھنا ہے۔جہاں ہمیں کھڑا ہونے کاحکم دیتا ہے، وہاں کھڑا ہونا ہے۔ جو سوچنے کا کہتا ہے، ا س کی فکر کرنی ہے اور جس سے روک دیتا ہے، اسے بھول جانا ہے۔ مسلمان کا تعارف قرآن ہے۔قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9) یہ قیامت تک رہے گا۔ مسلمانوں!جو قرآن کو چھوڑ دے گا،وہ مٹ جائے گا۔ جو قرآن کے ساتھ رہے گا، وہ باقی رہے گا۔قرآن کو رہنا ہے، دین کو رہنا ہے، اسلام کو رہنا ہے۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا۔یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب قائم ہو گی؟فرمایا حتی لا یقول اللہ اللہ۔جب کوئی اللہ، اللہ کہنے والا نہیں رہے گا،قیامت آجائے گی۔جب دین نہیں رہے گا، جب قرآن نہیں رہے گا توکائنات مٹ جائے گی۔اس کے بعد سورج طلو ع نہیں ہوگا۔ مغرب سے نکلے گا۔ کائنات تباہ ہوجائے گی۔سو قرآن کریم رہے گا۔حکومتیں آئیں گی،حکومتیں جائیں گی،افراد آئیں گے، افراد جائیں گے، قومیں بنیں گی، قومیں مٹیں گی،سلطنتیں بنیں گی، سلطنتیں مٹ جائیں گی۔اللہ کا پیغام رہے گااور میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جو بھی اللہ کے کلام کو تھام لے گا،وہ باقی رہے گا،اس کانام باقی رہے گا۔دنیا میں بھی اس کو عزت ملے گی، قبر میں بھی راحت ملے گی،آخرت میں بھی راحت ملے  گی۔میری دلی خواہش یہ ہے کہ میرے مسلمان بھائی قرآن کریم کو سمجھیں۔میں نہیں کہتا کہ تم کیا بن جاؤ؟ میں نہیں کہتا تم کیا نہ بنو؟ میں کہتا ہوں جو قرآن کریم کہتا ہے،جو اللہ کریم کہتا ہے،وہ بن جاؤ۔خود سمجھو، جاننے کی کوشش کرواور اللہ کریم کے پیغام پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔اللہ کریم آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ہمارے گناہوں،خطاؤں سے درگزر فرمائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اس ملک کو ہمیشہ، ہمیشہ قائم رکھے اور اس پر عدل اور انصاف کی حکومت قائم فرمائے۔ امین 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت



 نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فاروق  ؓکہا تھا وہ عظیم ہستی یکم محرم الحرام 24 ہجری کو روضہ اطہرﷺ میں حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلو میں آسودہئ خاک ہوئی۔روش زمانہ جو عہد نبوت میں اصلاح پزیر ہوئی تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اسی طرح روبہ کمال رہی اسی لئے محققین لکھتے ہیں کہ خلافت شیخین (سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) علی منہاجِ نبوۃ تھی یعنی اس میں وہ طریقہ، وہ سلیقہ،وہ برکتیں،وہ رحمتیں،وہ جذبہ ایمان اسی طرح روبہ کمال رہا جس طرح عہد نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃوالسلام میں تھاذوالحجہ کے آخر میں حضرت عمر ؓ کومسجد نبوی ﷺ میں دوران نماز فیروز نامی ایک غلام جو مسلمان نہیں تھا،نے آپ کو زخمی کیا زخم اتناکاری، پیٹ اس بری طرح سے پھٹا، دو دھاری خنجر کے زخم تھے کہ دودھ اگر آپ کے منہ میں ڈالا جاتا تو زخموں سے باہر نکل جاتاحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمؓ ایک معروف زخموں میں بہت ماہر یہودی جراح کو لینے کے لئے تشریف لے گئے۔ (تلو ا ر  کا زمانہ تھا،زخم لگتے تھے اور عجیب وغریب مرہمیں اور طریق ِجراحت ایجاد تھے اس وقت) اس نے ملازم سے گھوڑا تیار کرنے کا کہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں اس طرح تو دیر لگ جائے گی تم اپنا یہ بغچہ اٹھاؤ اور میرے پیچھے بیٹھ جاؤابھی راستے میں ہی تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دیکھا......گھوڑا روکا.....جراح سے کہا کہ تمہیں تکلیف تو ہو گی لیکن ابھی تم گھر کے قریب ہو میں تمہیں اتار دیتا ہوں تم واپس چلے جاؤ، مجھے مدینہ منورہ جلدی پہنچنا ہے جراح نے کہا کہ عجیب بات ہے آپ نے مجھے گھوڑا لینے دیانہ تیار ہونے دیا لباس تک تبدیل نہیں کرنے دیا اور اب مجھے کہہ رہے ہو کہ واپس چلے جاؤ......!فرمایا تمہاری ضرورت نہیں رہی اس نے کہا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میری ضرورت نہیں رہی؟ فرمایا یہ بکریاں کسی دوسرے آدمی کی ہیں اور جس فصل میں گھس گئی ہیں یہ کسی اور بندے کی ہے اور یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ فاروق اعظمؓ دنیا سے اٹھ چکے ہیں.....وہ حیران ہو گیا واپس چلا گیا لیکن اس نے وقت نوٹ کر لیا اور جب بعد میں اس نے تصدیق کی اور اسے پتہ چلا کہ واقعی اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دارِفانی سے رخصت ہو چکے تھے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا ایک وجود حدِّ فاصل تھا نیکی اور برائی کے درمیان ایک وجود کی یہ برکت تھی کہ کسی کا جانور کسی دوسرے کی فصل میں نہیں گھستا تھا۔
نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر جو میرے بعدہیں ان کا ہے پھر جو ان کے بعدہیں ان کا ہے یہ تین زمانے خیرالقرون کہلاتے ہیں ایک عجیب زمانہ جس میں حاضر ہونے والا ہر فردِوبشر شرف صحابیت سے سرفراز ہواایک نگاہ میں اُسے سارے کمالات حاصل ہو گئے اُس کا دل، ضمیر اور سوچ بدل گئی وہ قبائل جو لوٹ کر کھانا اپنا روزگار اور قتل وغارت گری جن کا شعار تھا، محنت کر کے کھانے لگے اور اس میں سے دوسروں کو بھی کھلانے لگے جو چوری اور ڈاکے میں مشہورتھے وہ عدل میں معروف ہو گئے جو جہالت میں دنیا بھر میں مشہور تھے وہ ترویج علم کے منارہ نور بن گئے اور روئے زمین کے عادل ترین حکمران قرارپائے سیاسیات اور حکومت کے امور میں بھی وہ سنگ میل ثابت ہوئے۔
آقائے نامدار حضرت محمدرسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی ایک ہستی وصال الہٰی پا کر برزخ میں جلوہ افروز ہوئی لیکن آپﷺ بھی ایک انسان تھے انسان تو روز آتے جاتے ہیں کیا فرق پڑا.......؟اتنا بڑا فرق پڑا کہ وحی الہٰی ختم ہو گئی قیامت تک کسی پر دوبارہ نازل نہیں ہو گی اللہ کی طرف سے وحی لانے والا جبریل امین جس کی خدمت حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمین پر جلوہ افروز ہونے سے شروع ہوئی اور جو ہر عہدمیں ہر زمانے میں ہر قوم میں مبعوث ہونے والے انبیاء کی طرف اللہ کی ہدایات لاتا رہا اور کیسا عجیب زمانہ تھا کہ لوگ سوال زمین پر کرتے تھے جواب عرشِ الہٰی سے آتاتھامسئلہ نبی علیہالصلوٰۃ والسلام کی خدمت عالی میں پیش ہوتا جواب کے لئے حضرت جبریل امین تشریف لاتے کہ اللہ کریم اس کا جواب یہ فرمارہے ہیں صرف ایک ہستی کے پردہ فرمانے سے قیامت تک کے لئے سلسلہ وحی منقطع ہو گیاتو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک فرد کے اٹھنے سے کچھ نہیں ہوتا.........؟فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایک فرد تھے، ایک انسان تھے چھوٹے سے ایک عام عرب قبیلے، بنو عدی کا ایک عام سا فرد، خطاب کا بیٹا، لیکن صحبت پیغمبر نے کن عظمتوں اور کن بلندیوں تک پہنچایا؟ عمرسے فاروقؓ بنا دیا......حق وباطل میں امتیاز کرنے والا........تفریق کرنے والا........سچ اور جھوٹ کوالگ الگ کرنے والا......ظلم اور انصاف کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والا......    
بیت المقدس کی فتح کے وقت نصرانیوں کے علماء نے شرط لگائی تھی کہ آپ اپنے امیر کو لے آئیں ہم دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ یہ خلیفہ دوم ہے اور اس کے ہاتھ پر شہر فتح ہونا ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے ہم لڑیں گے نہیں اور اگر وہ بندہ نہیں ہے تو ہم لڑیں گے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تشریف لے گئے اور انہوں نے دیکھا تو شہر خالی کر دیا کیو نکہ حضورﷺ کی ذات تو بہت بلند ہے آپ ﷺ کے خدام کے بارے میں بھی ان کے پاس حلیے، قد، عادات و خصائل اور لباس تک کی پیش گوئیاں موجود تھیں فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ جمعہ کے خطبے میں کہ دیا کہ لوگو! اگر مجھ سے حضورﷺ کا اتباع اور آپ ﷺ کی سنت اور صحیح طریقہ چھوٹ جائے تو کیا کرو گے؟ ایک بدوی کھڑا ہو گیا اور اس نے میان سے تلوار نکال لی اور کہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اگر دائیں بائیں ہوں گے ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے ابھی ہم میں جان ہے اگر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تو بھی قرآن سمجھنا جانتے تھے کہ انہوں نے براہ راست حضرت محمدرسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا۔
 سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرض تھا ان کے پیٹ میں ایسی بیماری تھی کہ جوَ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور مدینہ منورہ میں ایسا قحط پڑا کہ گندم کی روٹی کسی کو میسر نہیں تھی آپ جوکھاتے تھے اور بیمار رہتے تھیکام نہیں کر سکتے تھے حرج ہوتا تھا طبیب نے عرض کی کہ حضرت ایک آدمی کے لئے تو گندم ملنا محال نہیں ہے جو آپ نہ کھائیں خلافت کانقصان بھی ہوتا ہے اپنے دفتری امور پورے نہیں کر سکتے اور اس پر مزید یہ کہ ایذا ہوتی ہے، مروڑ اٹھتے ہیں، تکلیف ہوتی ہے فرمانے لگے بات تو تیری ٹھیک ہے لیکن جو بندے اللہ نے میرے سپرد کر دیئے ہیں یہ جوَ کھائیں اور میں غلہ کھاؤں توکل کیاتم اللہ کے حضورمیری طرف سے جواب دو گے؟ہے تجھ میں جرأت؟ جب تک عام شہری کو غلہ نہیں ملتا عمر کو حق حاصل نہیں کہ وہ غلے کی روٹی کھائے ایک دفعہ آپ نے فرمایاکہ دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھوکا رہ گیا تو عمر ابن خطابؓ پکڑا جائے گا کہ تجھے سلطنت اس لئے تو نہیں دی جاتی کہ میری مخلوق پر ظلم ہو اور وہ بھوکے بلک بلک کر مر جائیں سفر آخرت کے وقت کسی نے عرض کیا کہ آپ اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنا جانشین بنایئں اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کام کے اہل بھی تھے وہ عہد صحابہؓ کے مانے ہوئے فقیہہ تھے آج بھی انہی کی سند اختیار کی جاتی ہے مشورہ دینے والے سے فرمایا میدان حشر میں جواب دینے کے لئے خطاب کی اولاد میں سے میں اکیلا کافی ہوں کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میرا سارا خاندان میدان آخرت میں پکڑا ہوا کھڑا ہوں اس جواب دہی کے لئے کہ تو نے میرے بندوں کے ساتھ کیا کیا؟
جو انداز عہد فاروقیؓ میں حکومت کو دئے گئے آج تک کوئی ان پر اضافہ نہ کر سکا محکموں کی تقسیم،مختلف شعبوں میں مختلف درجے، حکومت میں گورنر اور وزیر اور پھر صوبے، ضلعے،تحصیلیں،گاؤں،زمین کی پیمائش،زمین کا لگان،مالیہ، ملکیت،بنیادی محکمے، بحری بیڑے کی تشکیل، فوج اور فوج کی چھاؤنیاں، پولیس اور اس کا طریقہ کار، عدلیہ اورانکے حکام کی حدودیہ سارا وہ نظام ہے جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب دیا تھا عہد فاروقیؓ میں ویلفیئر سٹیٹ منظم ہو چکی تھی کہ بیت المال اورمال زکوٰۃ، تعلیم اور علاج،بے روزگاروں کے و ظائف، بیماروں، بیوگان اور یتیم بچوں کی سن بلوغت تک کفالت مومن تو مومن کافر جو معذورین تھے ان پر نہ صرف جزیہ معاف کر دیا جاتابلکہ انہیں بیت المال سے وظیفہ دیاجاتاجو Structure سیدنا فاروق اعظم ؓنے بنایا تھا آج تک دنیا کی کوئی حکومت اس پر اضافہ کر سکی نہ کوئی تبدیلی سوشلسٹ، جمہوری یاشہنشاہیت پسند، ہر حکومت کے لئے فاروقی نظا م نمونہ ہے دنیا کی ساری حکومتوں کی تاریخ دیکھ لیجیئے سب کی مجبوری ہے کہ اس نظام کو Followکریں سب کا طریقہ کار وہی ہے نام اپنا اپنا دیتے رہتے ہیں اللہ کریم نے اتنی وسعت نظری کسی کو دی ہی نہیں کہ اس میں تبدیلی کر سکے ایک شخص نے اپنے عہد حکومت میں چھبیس لاکھ مربع میل،گھوڑے کی پیٹھ پر یا پیدل چل کر علاقہ فتح کیا اس کے سپاہیوں نے پینتیس ہزار بڑے بڑے شہر آباد کئے جن میں نامور قلعے بھی تھے چھبیس لاکھ مربع میل علاقے میں کسی بوڑھے کی آہ، کسی بچے کے رونے کی صدا نہیں آتی کسی عورت کی چیخ سنائی نہیں دیتی کوئی کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی یا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی سپاہی نے میرے ساتھ ظلم کیا۔ 
مغرب میں سے سب سے پہلے برطانیہ نے ویلفیئر سٹیٹ بنائی جارج ہفتم کے زمانے میں اس کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد برطانیہ میں ملکائیں آ گئیں جس پروفیسر نے اس کی بنیاد رکھی ایک ملاقات میں اس نے بتایا کہ مجھے بادشاہ نے اس کمیٹی کا سربراہ بنایا تھاجسے برطانیہ کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تومیں نے بڑے غور اورگہری نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا، اس کی مختلف تفسیریں اور تراجم پڑھے پھر میں نے تاریخ سے عہد فاروقیؓ کو نکالا ان کے نظام کو پڑھا تو مجھے سمجھ آئی کہ قرآن سے تو مجھے اشارے ملے ہیں ان کی عملی تعبیرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعین کر دی لہٰذا میں نے عہد فاروقیؓ کا نظام جوں کا توں لا کر بادشاہ کے سامنے رکھ دیا فرق صرف یہ رہا کہ اس عہد میں زکوٰۃ فرض تھی اور ان کی آمدن کی مد زکوٰۃ تھی جب کہ ہم نے اپنی آمدنی کی مد مختلف ٹیکسوں پر رکھی زکوٰۃ بھی ایک ٹیکس تھی اور ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق ٹیکس لگائے لیکن اس کی ساری تقسیم اسی طرح ہوتی ہے اور آج بھی برطانیہ اپنی عام زبان میں اس ویلفیئر سٹیٹ کے سسٹم کو دی عمرز لاز ہی کہتے ہیں جب اس قانون کا حوالہ دینا ہوتو وہ کہتے ہیں کہ This is according to Umer's Laws.......so and soاللہ کا عظیم بندہ جس کے بنائے ہوئے طرزِ حکومت اور ویلفیئر کے تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا اس لئے نہ کر سکا کہ سارا نظام ہی وہ تھا جو اللہ کی کتاب میں نازل ہوا۔
 


عید الاضحی


اسلام میں دو ہی تہوار ہیں۔ ایک رمضان المبارک کے تشکر کے طور پر جسے ہم یوم عید کہتے ہیں اور دوسرا تہوار عید قربان یا عید الاضحی ہے۔ عیدالاضحی حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کی عظیم قربانی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم اثیار کی نہ صرف یاد گار ہے بلکہ اس میں حکمت الہٰی یہ پوشیدہ ہے کہ جو اجر، جو برکات،جوکیفیات اور جس طرح کی رحمتیں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کو قربان کرتے ہوئے نازل ہوئیں تھیں۔اُن میں امتِ محمدیہ علی صاحبہ الصلوہ والسلام کو بھی شریک بنا دیاگیا۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اسی برس سے تجاوز کر رہی تھی کہ اللہ کریم نے اِس عمر میں آپ کوبیٹاعطا فرمایا۔پہلے تو آپ کو یہ حکم ملا کہ اپنی زوجہ محتر مہ اور معصوم بچے کو وہاں چھو ڑ آؤ جہاں آج بیت اللہ شریف ہے۔حضرت جبرائیل امین ؑ نے رہنمائی کی اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں وہاں چھوڑ آئے۔ اس وقت وہاں سینکڑوں میلوں تک کسی آبادی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔حضرت حاجرہ ؓ کا پانی کی تلاش میں بے تاب وبے قرار ہو کر پہاڑوں پر دوڑنا،حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی بے تابی، آب زم زم کا وہاں سے نمودار ہونا۔
حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کے بارے قرآن ِحکیم بتاتا ہے۔”فلما بلغ معہ السعی“۔ ((37:102 یعنی جب وہ اس قابل ہوئے کہ انگلی پکڑ کر ساتھ چل سکیں تو اللہ نے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام اسے میری راہ میں قربان کر دیں۔قربانی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ لفظ ”خلیل اللہ“ ہے۔یوں تو سارے نبی اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔ہر ولی اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ ہر مسلمان اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اللہ سے دشمنی تو صرف کافر کے نصیب میں ہے لیکن بعض لوگ اِس دوستی میں اِس حد تک آگے چلے گئے کہ یہی اُن کا نشان بن گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ جس اللہ کے بندے کی عمر اسی برس سے تجاوز کر رہی ہو۔اُس عمر میں فرزند عطا ہو۔ جس کی پیشانی میں نورِ نبوت درخشاں ہو پھر اس بچے کی عمر کا وہ حصہ جو بچپنے والا ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ حکم دیا جائے کہ اِسے میری راہ میں قربان کر دو۔اِس کیلئے کتنی محبت چاہئے حکم دینے والے کے ساتھ؟ کہ آدمی اس کی گردن پر چھری رکھ دے۔
یہ وہ نظارہ ہے جو رب العالمین نے اُن فرشتوں کو بھی کرایا جو کہتے تھے کہ تخلیق ِآدم سے کیا فائدہ ہو گا؟ یہ زمین پر فساد ہی کریں گے۔اللہ کریم نے اُنھیں دکھا دیا کہ ان میں ایسے بھی ہیں کہ جو سب کچھ میرے اشارے اور میرے نام پر میری خوشی اور میری رضا کیلئے انتہا ئی عزیز ترین متاع اپنے ہاتھوں لٹا سکتے ہیں۔جب آپ علیہ السلام نے بسمِ اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلا دی۔ خون کے فوارے ابلنے لگے۔ لاشہ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو دیکھا سیدنا حضرت اسمعٰیل علیہ السلام ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں اور دنبہ کٹا پڑا ہے۔ پریشان ہو گئے۔یا اللہ کیا میری قربانی قبول نہیں ہوئی؟ تو اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا۔  ”قد صدقت الریا یا ابراہیم“  ((37:105  ”اے ابراہیم!بے شک آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا“۔ یہ میری مرضی کہ میں نے حضرت اسمٰعیل کو بچا دیا اور دنبہ ذبح کرا دیا  ”وفدینہ بذبح عظیم“ ((37:107 میں نے اس کے بدلے بے شمار قربا نیاں قبول کر لیں۔ چنانچہ یہ ذبح عظیم ہے۔ اس میں اُس وقت سے لیکر قیامت تک جتنے لوگ شہید ہونگے۔ وہ مکہ مکرمہ، مدنیہ منورہ، غزواتِ نبوی علیہ الصلوۃ والسلام اور اُس کے بعد ہوئے۔کوئی لاشہ جو بدر واُحد میں تڑپا یا کربلا میں خانوادہ نبوی ﷺ کے چراغ اور جگر گوشے ہوں یا آج افغانستان، کشمیر، فلسطین، عراق اور پاکستان میں ہو رہے ہیں۔ بطفیلِ محمدﷺ ہر شہید کو ذبح اور قربانی کی لذت میں شریک کر دیا اور اُس قربانی کو حج کا رکن بھی قرار دے ِ دیا۔اب شہید تو شہید ہو کر لطف لے گئے۔ حجاج کرام نے مکہ مکرمہ، منٰی میں جا کر اپنی قربانیاں پیش کر کے ثواب لے لیا۔عامۃ المسلمین کہاں جائیں؟ اللہ نے فرمایا جو مسلمان روئے زمین پرجہاں بھی ہو، جو جانور اُسے پسند ہو،خوبصورت اورپیارا لگے، میری راہ میں قربان کر دے، میں اُسے بھی ذبحِ عظیم میں شامل کر دونگا،وہی برکات، انوارات اوروہی رحمتیں اُس پر وارد ہونگی جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا حضرت اسمعٰیل علیہ السلام پر اس وقت وارد ہوئیں تھیں۔ 
لہذا قربانی محض رسم نہیں ہے۔ یہ اس طرح بھی نہیں ہے کہ خانہ پرُی کی جائے۔اگر ہم نے پورے خلوص سے قربانی کی تو صرف دنبہ قربان نہیں ہوگا، صرف جانور ذبح نہیں ہو گا، بلکہ اللہ ہمیں توفیق دے گاکہ ہم اُس کی اطاعت کے لیے اپنے مفادات قربان کر سکیں۔ عبادات کے اوقات میں آرام اور حلال کے مقابلے میں حرام قربان کر سکیں۔ ہم میں عاداتِ ابراہیمی ؑ آنا شروع ہو جائیں تو یہ قربانی کا ایک نتیجہ ہے۔جسے ہم پرکھ سکتے ہیں کہ کیا ہماری قربانی رسمی تھی یا خلوص کے ساتھ تھی؟ ہمارے دل میں جذبہ آیایا نہیں۔ہر ایک کا حال اللہ جانتا ہے یا کسی حد تک انسان خود اندازہ کر سکتا ہے۔ قربانی کرتے وقت سوچو کہ میں کیاقربان کرنے چلا ہوں؟ یہ کس نے حکم دیا تھا؟ یہ سنتِ ابراہیمی تھی بطفیلِ محمد ﷺرب ِکریم نے انعام میں عطا کر دی کہ امتِ مرحومہ اس سعادت سے محروم نہ رہے پھر اسے یومِ عید قرار دے دیا۔ فرمایا پہلے دوگانہ ادا کرو پھر قربانی کرو اور سوچ کر کرو کہ اے اللہ تو کتنا کریم ہے، مجھے اجر وہ دے رہا ہے گویا میں بیٹا ذبح کر رہا ہوں، جبکہ میں ایک جانور ذبح کر رہا ہوں۔ اُس درد کو محسوس کرو کہ اگر بیٹا ذبح کرنا ہوتا تو تمہارے دل کا کیا عالم ہوتا؟ربِ کریم نے اس چھوٹی سی قربانی پر اتنا بڑا دردِدل عطا کر دیا۔اب یہ تو اپنے شعور کی بات ہے کہ ہم وہ کیفیت، قرب اور دردِ دل کتنا حاصل کرتے ہیں؟ حقیقی قربانی تو ان لوگوں کی ہے جو سب کچھ اللہ کے لئے قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔جو راہ حق میں کام آئے۔ خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طنیت را۔کیا پاک مزاج لوگ تھے۔ہم بہرحا ل جانور ذبح کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ قربانی قبول ہو گی؟ اس میں ہمارا خلوص اور سرمایہ مشتبہ ہوتا ہے۔ ہمارے طریقے خلاف سنت بلکہ رسومات پر مبنی ہوتے ہیں اور عبادت تو وہی ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ کے طریقے اور حکم سے ہو۔اپنی مرضی سے نہیں۔سو ہم سے ہزاروں کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔
 قارئین گرامی!قربانی کی حقیقت کو وہ لوگ پا گئے جو محض بقائے دین اور احیا ئے دین کے لئے واقعی قربانی دے رہے ہیں اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ آخری کتاب قرآن حکیم ہے۔ جب تک اللہ نے دنیا کو قائم رکھنا ہے۔ تب تک نبوت بھی رہے گی۔ یہ دین بھی رہے گا۔ لیکن دنیا عالم اسباب ہے۔اس میں کس کس کو اس سعادت سے سرفراز کرتا ہے؟ یہ اس کی پسند ہے۔ ہماری کوشش یہ ہو کہ جب جانور قربان کریں تو یہ دعا بھی کریں کہ اے اللہ!  نہ صرف ان جانورں کی قربانی ہم سے قبول فرما بلکہ ہماری ذاتی قربانی بھی قبول فرما۔قربانی کی عید تو شاید ڈھائی دن کی ہے لیکن قربانی کا موسم ڈھائی دن کا نہیں ہے۔یہ ڈھائی دِن کی عید جانوروں کی قربانی کی ہے۔ جان و مال کی قربانی، عشق و محبت کی قربانی،درددل کی قربانی کا موسم اپنے جوبن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ خوش نصیب ہوں گے جن کے دل میں اللہ سے عشق ہو گا۔اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ہو گئی۔ اللہ انہیں چن لے گا۔
اللہ کریم ہماری قربا نیوں کو قبول فرمائے دین ِبرحق پر زندہ رکھے اور دین ِبرحق پر موت نصیب فرمائے اور دین دار بندوں کے ساتھ حشر فرمائے۔آمین  


شب برات

آج شب برات ہے،شعبان المعظم کی پندرہویں رات ہے۔ بعض اوقات، بعض لمحات، بعض راتوں کے لئے حدیث شریف میں فضائل آئے ہیں، ان کی برکات زیادہ ہیں۔ان میں عبادت کا اہتمام لوگ کرتے ہیں۔لیکن ایک بات یاد رہے،بنیاد فرائض ہیں۔اگرکوئی فرائض کی پرواہ نہیں کرتا اور صرف شب براتیں منا لیتا ہے،تویہ دین نہیں ہے۔جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے اور شب برأت بھی ہم پٹاخے چلا کر، خرافات سے مناتے ہیں۔اگر یہ رات عباد ت کی ہے، فیصلوں کی رات ہے۔بعض احادیث میں ملتا ہے۔ بعض متقدمین نے تفسیر میں بھی نقل فرمایا ہے کہ دنیا میں کام کرنے والے فرشتوں کو ایک سال کے لئے اس رات میں فیصلے عطا کردئیے جاتے ہیں۔لیکن کیا اللہ کریم اپنے فیصلوں میں کسی کا محتاج ہے؟کوئی ایسا فیصلہ ہے جو اللہ پر ہاوی ہے اور اللہ کریم مجبور ہے،ایسی تو کوئی بات نہیں۔وہ جب چاہے جو چاہے فیصلہ کرے۔ہر لمحہ اس کی عبادت کا ہے اور ہم نے عباد ت کا مفہوم سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے۔عبادت کا مطلب اطاعت الہٰی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ نماز اور نفلیں عبادت ہیں۔بازار جانا بھی عبادت ہے، روزگار کمانا بھی عبادت ہے،مزدوری کرنا بھی عبادت ہے، بال بچے پالنا بھی عبادت ہے، والدین کی خدمت بھی عبادت ہے،اولاد کی تربیت بھی عبادت ہے۔زندگی کا ہرکام یا اللہ کی عبادت ہے یا جرم ہے۔دو حالتوں میں سے زندگی کا کوئی کام خالی نہیں ہے۔اگر اللہ کے حکم کے مطابق ہے، نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اتباع میں ہے، نبی کریم ﷺ کی غلامی میں ہے تو ہرکام عبادت ہے۔مزدوری عبادت ہے، سفر عبادت ہے،قیام عبادت ہے،سونا عبادت ہے، جاگنا عبادت ہے، بات کرنا عبادت ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی حدود کے اندر ہو۔ عبادت کا مطلب اطاعت ہے۔جو عبادات فرض کی گئی ہیں جیسے نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ، یہ اللہ کا خصوصی انعام ہے۔یہ حضور حق میں حاضری ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں رو برو کھڑے ہونا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ باربار بارگاہ عالی میں حاضر ہونے سے بندے کا اللہ سے تعلق بڑھتا ہے،آشنائی بڑھتی ہے، دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لہٰذاعبادات کا حاصل یا جسے آپ ثواب کہتے ہیں۔ ہمیں اس کو سمجھنے میں بھی غلطی لگتی ہے اور کہہ دیا جاتا ہے یہ اُدھاری مزدوری ہے۔جی اس کا ثواب مرنے کے بعد ملے گا۔یہ غلط کہاجاتا ہے۔ہر شے کا ثواب نقد ملتا ہے اورعبادا ت کا ثواب کیا ہے؟ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ  الْفَحْشَآءِ  وَالْمُنْکَر (العنکبوت:45) اگر آپ اللہ کی عبادات کرتے ہیں تو اس کا ثواب یہ ہے کہ آپ کا کردار صحیح ہو جاتا ہے۔ بار بار حاضری سے،سربسجود ہونے سے، سجدے کی قربت سے،اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ دل پر ایک کیف نصیب ہوتا ہے،ایک حضوری نصیب ہوتی ہے۔معیت الہٰی نصیب ہوتی ہے۔ ایک احساس نصیب ہوتا ہے کہ میرا پروردگار ہر جگہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے ساتھ ہے، میرے کردا ر سے واقف ہے۔ لہٰذا بندہ مسلسل اللہ کی اطاعت کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی سے بچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ کی حضور ی کا کیف گناہ سے بچنے کا سبب بن جاتا ہے۔اگر اللہ کی عبادت بھی کئے جا رہا ہے، نمازیں بھی پڑھے جارہا ہے، جھوٹ بولے جارہا ہے۔نمازیں بھی پڑھے جارہا ہے، سود کھائے جارہا ہے۔ نمازیں بھی پڑھے جارہا ہے، برائی کئے جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ عبادت نہیں کررہا، کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے یا اس کا عقیدہ درست نہیں ہے یا عمل سنت کے مطابق نہیں ہے۔ حضور ﷺ کے اتباع میں نہیں ہے۔ کہیں کوئی کمی ہے کہ اس پر نتیجہ مرتب نہیں ہو رہا۔یہی حال ان مبارک ساعتوں کا بھی ہوتا ہے۔لیلۃ القدر ہے یا شب برأت  ہے۔ اگر ان مبارک ساعتوں میں عبادت نصیب ہوتی ہے یا شب بیداری نصیب ہوتی ہے تو اس کا حاصل کیا ہے؟ کیوں شب بیداری کرے؟کیوں رات کو نفلیں پڑھیں؟اور پھر ایسے بندے نے نفلیں کیا پڑھنی ہیں جو فرائض کا تارک ہے؟ نوافل تو زائد ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس اصل سرمایہ ہی نہ رہے تو زائد کیا رہے گا؟ ان کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شب برأت کو شب بیداری کرتا ہے یا نوافل ادا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ وہ فرائض کا تارک نہیں رہے گا۔ اللہ اسے توفیق دے دے گاکہ وہ فرائض قائم کر لے گا، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق مل جائے گی، اللہ کا اطاعت گزار بندہ بن جائے گا۔
 لیکن ہمار ی بد نصیبی یہ ہے کہ ہم احکامِ الہٰی اور شریعت کو چھوڑ کر رسوما ت کے پیروکار ہوگئے ہیں۔ہم رواجات کو ترجیع دیتے ہیں اور ہماری ہر ادا میں ایک عجیب طلب پنہا ہوتی ہے کہ میرا ایسا کرنے سے میرے بارے لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ مجھے پارسا مانتے ہیں کہ نہیں لوگ مجھے نیک مانتے ہیں یا نہیں،لوگوں نے مانا تو کیا ہوگا؟ لوگوں نے نہ مانا تو کیا ہوگا؟اللہ کے ایسے نبی ؑدنیا سے گزرے جنہیں بحیثیت نبی ؑکسی نے تسلیم نہیں کیا بلکہ ظلماً شہید کردیا۔کیا ان کی شان میں کمی آ جائے گی کہ دنیا میں تمہیں کسی نے نہیں مانا؟لوگوں نے تمہیں اچھا نہیں کہا اس لئے تم اچھے نہیں ہو، ہرگز نہیں۔ جنہوں نے نہیں ماناان لوگوں کا نقصان ہوا، ان کا ایمان ضائع ہوا۔انبیاء کی شان میں کوئی کمی نہیں آئی۔حق وہ ہے جو عنداللہ ہے،بارگاہ رسالتﷺ میں قبول ہو، عنداللہ قبول ہوتو وہ قبولیت ہے۔نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِ (العمران:03)فرمایا اللہ نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی۔اللہ ایک ہے، جو زندہ ہے، جو قائم ہے اور وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔باقی ساری کائنات اس کی دی ہوئی حیات سے زندہ رہتی ہے۔اس کے قائم رکھنے سے قائم رہتی ہے اور وہی مالک مختیار ہے،جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی  بِالْحَقِ حق کے ساتھ، واقعیت کے ساتھ،اس کا ایک ایک حرف حق ہے۔ جو حرف بہ حرف سچ ہے۔ جواپنے اندر واقعیت رکھتا ہے یعنی ایسا ہی واقعہ ہو گا جیسا قرآن نے بتا دیا۔اس کے سارے اصول قواعد وابط نزول سے لے کرقیام قیامت تک قابل عمل اور قابل اتباع ہیں۔
آج اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ ساتھ ہمارا رشتہ کمزور ہو گیا ہے۔ اس لئے ہمیں سمجھنے میں دقت ہوتی ہے۔ایک دن میرے پاس ایک مہمان آئے۔ ان کے ساتھ دو نوجوان بچے تھے۔ انہوں نے کندھوں تک بال رکھے ہوئے تھے۔ سر کے بالوں کو کندھوں تک بڑھانا سنت نبوی ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ سر مبارک کے بال بڑھتے رہتے، جب کندھوں تک پہنچ جاتے تو حضور ﷺ کان مبارک کی لوؤں تک کٹوا دیتے اور پھر تب تک بال مبارک بڑھتے رہتے۔جب تک کہ وہ شانوں تک پہنچ جاتے۔ مجھے بہت اچھے لگے بال بڑے پیارے لگے،سنت کے مطابق تھے۔ لیکن بچوں نے کیوں رکھے ہوئے ہیں؟کیا سنت سمجھ کر،نہیں بچوں نے اس لئے رکھے ہوئے تھے کہ اہل مغرب اس طرح رکھتے ہیں،یہ ہماری بدنصیبی ہے۔ اگر سنت سمجھ کر رکھتے تودہشت گردکہلاتے،قدامت پسند کہلاتے اور تہذیب سے گئے ہوئے لوگ کہلاتے، غیر مہذب کہلاتے۔نبی کریم ﷺ کی سنت ہے داڑھی مبارک،صرف نبی کریم ﷺ کی ہی نہیں، حضر ت آدم علیہ السلام سے حضور نبی کریم ﷺ تک تمام انبیاء کی سنت ہے۔ہرنبی ؑنے داڑھی رکھی کسی نبی ؑنے شیو نہیں کی۔چونکہ بش کی داڑھی نہیں ہے، اس لئے داڑھی رکھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ آج اگر بش داڑھی رکھ لے تو آپ کا یہ سارا جدید طبقہ داڑھی رکھ لے گا۔ لیکن سنت سمجھ کر رکھی جائے تو غیر مہذب ہوجاتا ہے اور سنت سمجھ کر بال بڑھا لویا بال رکھ لو تو غیر مہذب ہوجائے گالیکن تہذیب مغرب نے چونکہ بال بڑھائے ہوئے ہیں اس لیے وہ بڑھانا تہذیب ہوگئی۔جب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں تو شب برأت منانے سے ہمارا کیا بگڑا؟چار نفلیں پڑھنے سے کیاہو گا؟یہ نوافل سجاوٹ ہوتے ہیں۔جیسے یہ ممبر پڑا ہے، اس پر آپ دو پھول لگا دیتے ہیں، دو بلب لگا دیتے ہیں کوئی اور خوبصورت چیز لگا دیتے ہیں تو یہ سج جائے گا۔ لیکن اصل کا موجود ہے تو وہ سجے گااور اگر اصل کا وجود ہی نہ ہوتو سجاوٹ آپ کہاں لگائیں گے؟ شب برأت ہو یا لیلۃالقدر ہو، یہ ساری نفلی عبادتیں، اس زندگی کی سجاوٹ ہیں جو سنت کے مطابق ہو۔اس شخص کے لئے جو فرائض کا پابند ہو۔ اس شخص کے لئے جو حلال و حرام میں تمیز کرتا ہو۔ اس شخص  کے لئے جو اللہ پر اور اللہ کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہو۔اگر درمیان سے اصل چیز ہی نکال دو تو سجاوٹ کس کام آئے گی؟ ہم مکان سجاتے ہیں،اس میں خوبصورت لائیٹیں لگاتے ہیں، اچھے پنکھے لگاتے ہیں،اچھا رنگ وروغن کرتے ہیں،مکان سج جاتا ہے۔ لیکن اگر مکان ہی نہ ہو تو سجاوٹ کس کام کی؟رنگ کے ڈبے خرید کر رکھ لو،بتیاں خرید کر رکھ لو، پنکھے خرید کر رکھ لو،قالین خرید کر رکھ لو،صوفے خرید کر رکھ لو،مکان تو ہے نہیں یہ سارے اخراجات کس کام کے؟
 میرے بھائی! یہ شب برأت بھی اور اس کی شب بیداری اور اس کے نوافل بھی تب ہیں کہ جب ہم اصل کوقائم کریں۔اب رواج یہ آگیاہے کہ اصل کو تو بھول جاؤ، جانے دو،سال بھر سجدہ نہ کرو۔ ایک شب برات کو جاگ لو۔یاد رکھیں ان مبارک راتوں کی عبادت کا بھی ثواب یہ ہے کہ رات کو جاگیں تو صبح عملی زندگی میں توفیق عمل ارزاں ہو جائے۔پھرآپ سمجھیں کہ رات کا جاگنا قبول ہوگیااور اگر صرف رات کو جاگے اور ٹوٹل پورا کرلیاکہ اب اتنی حوریں مجھے مل گئیں۔اتنے محل مجھے جنت میں مل گئے۔ اتنے مکانات مجھے مل گئے۔ میرے بھائی سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے۔ یہ کاروبار نہیں ہے کہ ایک رات آپ نے پیسہ لگایا اور اس پر منافع آ گیا اور کافی ہے۔سال بھر کھا لیں گئے۔ نہیں، یہاں وہ بات نہیں ہے۔عبادت کانتیجہ توفیق عمل ہے اوراگر توفیق عمل ارزاں نہیں ہوتی تو عبادت قبول نہیں ہے۔ 

قرارداد پاکستان کے اہم محرکات


وطن عزیز انگریز وں نے مسلمانوں سے لیا تھا اور اصول بھی یہی ہے کہ کوئی قوم جس سے وہ ملک لیا گیا ہو۔اگر اس ملک کی سلطنت چھوڑی جاتی ہے، حکومت چھوڑی جاتی ہے توواپس اس کے سپرد کی جاتی ہے۔لیکن حالات ایسے نہیں تھے۔انگریز برصغیر سے اس لیے گیاکیونکہ اس پر ہندو اور مسلم آبادیوں کا پریشر تھا۔ جب جنگ عظیم برپا ہوئی اس جنگ عظیم نے انگریز کو اس حد تک کمزور کردیا کہ نہ صرف یہاں سے بلکہ دنیا کے بے شمار خطوں سے اسے اپنی فوج واپس بلانا پڑی، وہ کمانڈ نہیں کرسکتاتھا، کنٹرول نہیں کرسکتا تھا۔ علامہ اقبال نے آلہ آباد کے جلسے میں دوقومی نظریہ پر بات کی کہ ہندو مذہب الگ ہے۔ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے۔ آج جہاں مینار پاکستان ہے اور اللہ شاہد ہے، شاید میں غلط ہوں، میں سمجھتا ہوں ہمارے بچوں کی کثیر تعدادجو سوائے اس کے کہ یہ ایک  Monumentہے،یہ ایک خوبصورت جگہ ہے، یہ ایک سیر گاہ ہے۔ اس سے آگے کچھ جانتے ہوں کہ اس کی تعمیر میں،اس کی بنیادوں میں کتنی اللہ کی مخلوق ہے۔ جن کا خون اور ہڈیاں صرف ہوئیں؟ہماری آج کی نسل اس کی تعمیرکے فلسفے سے اس طرح آشنا ہی نہیں ہے کہ جس کشت خون پر،جن ظلموں کو سہتے ہوئے افراد نے اس کی بنیادوں میں اپنی زندگیوں کا حصہ ڈالا۔
  بات میں نظریہ پاکستان کے حوالے سے کرنا چاہ رہا ہوں۔23 مارچ 1940کوجو مطالبہ اور Discussion آل مسلم لیگ جو متحدہ مسلم لیگ تھی کے پلیٹ فارم سے دیا گیا۔ میں نے مختلف جگہ سے چنداقتباسات اکھٹے کئے۔ کس نظریے پر ہم نے یہ وطن عزیز حاصل کیاہے؟میں تھوڑا سا وہ حصہ جو اس سے متعلق ہے اختصار سے عرض کرتا ہوں۔ 
  The Lahore Resolution    قراد داد لاہو ر 
The Muslim League helds its annual session at Lahore on 22 to 24 March 1940. The Lahore resolution was moved by Mulvi Fazul Ul Haq and second by Chuhdory Khaleeq Uz Zaman that finally approved on March 24, 1940. Jinah rightly expressed his viewable remarks about the politics circumstances of India 
The muslims stands he said:                                                                                
 آگے وہ الفاظ ہیں جو محترم قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں۔وہ فرماتے ہیں۔
 '' The Indian problem is not tunal but international no consitution can work without recognizing this reality, muslims of India will not accept a constitution that established a Government of Hindu majority on them, if Hindus and Muslims are placed under one democrative system this would means HinduRaj''    
  آگے یہ تحریر لمبی ہے۔اس لئے میں آپ کے سامنے صرف قرار داد کا متن عرض کرتا ہو ں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ
۱۔   وفاقی نظام جو کہ انڈین ایکٹ 1935کے تحت ہو وہ مسلمانوں کونامنظور ہے۔ 
۲۔  کوئی نیا تبدیل کردہ آئینی منصوبہ قابل قبول نہیں۔ جب تک اس کی منصوبہ بندی مسلمانوں کی رضامندی اور منظوری سے نہ ہو۔
۳۔  شمال،  مغرب اور مشرق میں ملحقہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ علیحدہ آزاد مسلمان مملکت بنائی جائے۔ جہاں کا آئین خود مختیار اور آزاد ہو۔
۴۔  مسلم اقلیت کے حقوق کی حفاظت کو اہمیت دی جائے۔
یہ وہ نقاط ہیں جو اس قرارداد کامتن ہیں۔ اس کے ساتھ میں نے عموما ً میڈیا پر یہ دیکھا ہے۔سنا ہے کہ جب وطن عزیز معرض وجود میں آیاتو نفاذاسلام کے لیے جو آج بحث وتمہید ہور ہی ہے۔تب وہ کیوں نہیں ہوئی۔ لیکن اس وقت اس سلسلے میں جو اخذ کردہ نقاط 1956 میں آئین کا حصہ بنے۔ حاضرین محفل ایک لمحے کو ان کو بھی سن لیجئے:
۱۔   حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اس نے مملکت پاکستان کے سپرد کی، اپنے بندوں کے توسط سے ان اصولوں حدود کے درمیان جو کہ اس نے بیان فرمائے جو کہ ایک متبرک ذمہ داری ہے۔
۲۔  مملکت اپنی طاقت اور حاکمیت اپنے منتخب کردہ بندوں سے چلائے گی۔
۳۔  اسلامی قوانین، جمہوریت،آزادی، مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کاپوری طرح عمل ہوگا۔ 
۴۔  مسلمان اپنی ذاتی اور اجتماعی طرز زندگی قرآن اور سنت کے مطابق طے کریں گے۔
۵۔  اقلیتوں کو اپنا مذہب اور تہذیب اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔
۶۔   پاکستان میں ایک فیڈریشن ہوگی۔
۷۔   بنیادی حقوق کی ضمانت ہوگی۔
۸۔اور آخری آٹھوں پوانٹ جسے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ قراد داد مقاصد کے متن کو سامنے رکھتے ہوئے۔ عدلیہ آزاد ہوگی۔
یہاں تک جب آپ اور میں پہنچے ہیں تو ضمناً وہ محرکا ت آپ کے سامنے عرض کردوں کہ جن محرکات کی بناء پر حالات اس نہج کو پہنچے۔   تومتحدہ ہندستان میں پاکستان کو الگ اسلامی بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے جومحرکات میں پہلا محرک ہے وہ فرقہ وارانہ فسادات ہے، ملک آزاد ہو گیا، لاکھوں جانیں قربان ہو گئیں اور آج پھر وہی فرقہ وارانہ فسادات؟ پاکستان بنانے کا دوسرا محرک معاشرتی تقسیم تھایعنی معاشرے میں جو مقام ومرتبے کی تقسیم تھی۔چونکہ ہندو مذہب میں انسانوں میں بے شمار درجے ترتیب دئیے گئے ہیں اوریہ ممکن بھی نہیں ہے کہ جو ہندو اعلیٰ درجے کا ہے،اس کے ساتھ کسی ادنیٰ درجے کے ہندو کا ہاتھ یا اس کا کپڑا یا اس کی کوئی چیزمس کر سکے۔ یعنی معاشرتی حالات اور معاشرتی حالات میں وہ حیثیتوں کی تقسیم۔پاکستان کی تعمیر میں تیسرا محرک مسلم زبان و ثقافت ہے۔زبان وثقافت وہ تقابل جو ہمیں قرب عطا کرتا ہے دین محمد الرسول اللہ ﷺ اوراس وطن عزیز میں اپنی ثقافت دیکھیں، ثقافت کے نام پر آج ان اکہترسالوں میں جو بیج ہم نے بویا ہے اس کا درخت کہاں کھڑا ہے؟ کتنا اس کی چھاؤں میں ہم گرمی سے محفوظ ہیں؟ پھر بات آئی دو قومی نظریہ کی جو حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ نے آلہ آباد کے اپنے خطبہ میں بیان کیا۔ جس نظریے پر ہم نے وطن عزیز حاصل کیا۔ میں یہ سمجھتا ہو کہ جن نظریات پر ہم نے اپنی قوم کو جوان کیا ہے۔ اس میں جذبات بھی بہت شدت رکھتے ہیں۔ Aggression بہت زیادہ ہے اور پھر اوپر سے یہ جتنے points  تھے ان میں کتنی خوشحالی ہم نے حاصل کی ہے؟جو دعوی حق، جو کلمہ حق، جو محبت محمد الرسول اللہ ﷺ کے دعوے دار ہیں اور جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں ہمارے کردار کا حصہ کہاں تک جا رہا ہے؟ چہ جائیکہ معاشرے کی بات کی جائے۔ پھر آگے جو پانچواں پوانٹ ہے وہ آتا ہے 1937 کی کانگرسی وزارتیں کا۔چونکہ انگریزمسلمانوں کو یہ ملک نہیں دینا چاہتا تھا۔اس نے کانگرس کو طاقت دی۔ کانگرس طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے۔Reaction  میں ایک حصہ یہ بھی شامل ہے۔چھٹا اور آخری پوانٹ جو میں نے تحقیق کرتے ہوئے محرکات میں اخذ کیا ہے وہ ہے اسلامی نظام کا قیام۔ 
یہ وہ ساری گزارشات ہیں جو 22 تا 24 مارچ 1940 کو علامہ اقبال پارک میں، جس کی یاداشت کے لیے 1960 میں مینار پاکستان تعمیر کیا گیا،جو صرف اس لیے تعمیر نہیں کیا گیا کہ میرے اور آپ کے بچے وہاں سیر کو جائیں۔اس لیے تعمیر کیا گیا کہ ہماری آنے والی نسل اپنے والدین سے یہ سوال کرے کہ بابا یہ کیا ہے؟اوراس کی تعمیر کا مقصد کیا ہے؟وہا ں پر یہ پیش کی گئی اور تقریباً ایک لاکھ افراد کا مجمہ تھا جنہوں نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔ 
تاریخی اعتبار سے برصغیر وہ خطہ ہے جہاں دنیا بھر سے جو بھی اقوام اس قابل ہوئیں کہ اپنے ملک سے نکل کر کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کر سکیں۔یہاں پر ہر طرف سے مختلف اوقات میں حملہ آور آئے۔ کیا وجہ تھی؟ یہ وہ خطہ زمین ہے جسے اللہ جل شانہ نے ہرطرح کے موسموں سے نوازا ہے۔ہر طرح کے زمین کے زیروبم سے نوازا ہے اور اس خطہ زمین کے زیرزمین حصے میں ہر وہ شے ہے جو رب العالمین نے اس دنیا میں پیدا فرمائی۔اس خطہ زمین کا گرم پانیوں کے ساتھ بھی جوڑ ہے اور برفستان کے ا ن حصوں میں جو دنیا کے Heighest peak  کے ساتھ بھی اس کا جوڑ ہے۔ اس میں دنیا کی زندگی بسر کرنے کے لیے،ضروریات زندگی کو اکھٹا کرنے کے لیے،ضروریات زندگی کو پیدا کرنے کے لیے،بے پناہ وسائل پیدا کیے۔جب بھی یہاں کوئی ایسا حاکم آیا کہ جس نے ملک تعمیر کیا تو اس نے یہاں پر اتنی ترقی کی کہ دنیا کی اقوام جو اس قابل ہوئیں کہ کہیں سے اگر ہمیں کچھ حاصل ہو سکتاہے۔ حملہ آور ہو کریاچالاکی سے یہاں سے حاصل کرے، وہ اس خطہ زمین تک آئے۔یہ دنیا کی تاریخ ہے۔جتنی بھی یہاں فوج کشی کی گئی، ان سب کا مقصد یہی تھا کہ یہاں سے جو مال و زر ہے وہ اکھٹا کیا جائے۔جس وقت تک ان کے اندر قوت قائم تھی کہ تسلط قائم رکھ سکتے تھے۔تب تک ہر حملہ آور قوم نے یہاں تسلط قائم رکھا۔ 
انگریزکمزور ہوا۔یہ بات صرف 1947 کی نہیں ہے۔ جنگ آزادی لڑنے والوں کے بڑے کارنامے ہیں۔آپ تاریخ کھولیں ان کی باتیں سن کر انسانی وجود کا خون گرم ہوجاتا ہے۔ جنہیں ہم ہی میں سے میر جعفر اور میر صادقوں نے انگریز کے سامنے بیچا اور انہوں نے ڈاکو کہہ کرانہیں قتل کیا اور پھانسیاں لگائیں۔ ان کی زندگیوں کے حالات دیکھو۔وہ اپنے ملک،قوم، اپنے دین کی آزادی کے لیے کس طرح لڑے؟اگر 1857 کی جنگ آزادی کو دیکھ لیں توکتنے لوگ تیغ تیغ ہوئے؟کتنے لوگوں کے سینوں پربندوق کی گولی آکرٹھنڈی ہوئی؟ پھر چلتے چلتے بات جب دو قومی نظریہ پر آئی۔ علمائے کرام بھی ساتھ ہوگئے۔جن میں سے کچھ علماء جیسے ابو کلام آزاد رحمۃاللہ جیسے لوگ، انہوں نے اس بات کی مخالفت بھی کی کہ ایسا نہ کرو،آپ کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے۔ پریس والے اگر تلاش کریں تو وہ اخبار بھی کسی نہ کسی لائبریری میں ضرور مل جا ئے گا، پورا صفحہ چھپا تھا۔ جب مولانا آزاد لاہور آئے اور ریلوئے سٹیشن پر لوگوں نے  hesitaion  کی،ان کے خلاف نعرہ بازی کی گئی تو وہ ٹرین سے باہر آگئے۔ انہوں نے فرمایاتم لوگ نعرے لگا رہے ہو۔ میں دین کا مخالف نہیں ہوں۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ ان لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھی جس مقصد کو تم جارہے ہو،اس کا حصول مجھے نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ میں شاید زندہ رہوں یا نہ رہوں، یہ بات یاد رکھنا۔
وطن عزیز دین اسلام کے نام پر بننے والی مدینہ منورہ کے بعد یہ دوسری حکومت ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ ہمارے لیے1947  کی ہجرت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ ہجرت ایسے تھی جیسے کوئی ایک شہر سے دو سرے شہر آگئے ہوں۔ہم ان ٹرینوں کے شاہد نہیں ہیں کہ جس ٹرین کا صرف ایک ڈرئیور سلامت پاکستان پہنچا۔ باقی سارے مرد وزن، بچے، بوڑھے، جوان ہر کوئی تیغ تیغ ہوکر راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ بچوں کو نیزوں پر چڑھا کر پاکستان کے نعرے لگوائے گے کہ یہ لواپنا پاکستان۔ حکومتی حساب کتاب کے مطابق چراسی ہزار ہماری بچیاں ہندووں اور سکھوں کے گھروں میں رہ گئیں۔قابل احترام خواتین و حضرات! ایک لمحے کو سوچوتو سہی کہ میں اور آپ اس طرح ہجرت کررہے ہوں۔ نہ ہمارا گھر ہو، نہ ہمارا مال محفوظ ہو، نہ ہماری جان محفوظ، نہ ہماری عزت محفوظ، نہ ہمارے والدین محفوظ، نہ ہماری بیوی محفوظ، نہ ہماری بیٹی محفوظ، نہ ہمارے جگر گوشے محفوظ،نہ اپنے سینے محفوظ ہوں، اس لمحے کو خیال تو کر کے دیکھو۔تصور بھی اگر کرو گے تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
  آج جو ظلم ہوتا ہے، اس کا ظلم تو ایک طرف اس ظلم کی تشہیر پورے ملک میں ہم کر رہے ہوتے ہیں۔مجھے اندازہ نہیں ہے میں یہاں آیاہوں تو سلامت گھرواپس جاؤں گا یا نہیں۔کیا اندازہ ہے کہ کسی گاڑی میں بیٹھیں گے تو ساتھ بیٹھنے والا جیب نہ کاٹ لے؟کیا اندازہ ہے کہ کسی چوکی پر جو حکومت کے اہلکار بیٹھا ہے وہ کیا سوال کرے گا؟ وہ اہلکارجو ہماری مدد کے لیے ہیں، جو ٹیکس عوام دیتی ہے، اس سے انہیں تنخواہ ملتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ کو خوف محسوس نہ ہو۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟ کہ ہم عام آدمیوں کے لیے قانون اور ہو۔ ہمارے بچے تو بھوک سے مریں اور صاحب اقتدارطبقے کے مور مر جائیں تو بھی اس کے لیے ذمہ دار معطل ہوجائیں۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟کہ امیر کا مقام او ر ہو غریب کا مقام اور ہو۔ امیر کی عزت او ر ہو غریب کی عزت اور ہو۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟
ہمیں فرقہ وارانہ،نسلی فسادات میں الجھایادیا گیا۔ہمارا معاشرہ ایک دوسرے کو  زیر کرنے میں مصروف ہے۔ آج لوگوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺکا فرمان کیا ہے؟ ہم اپنی تخلیق کے مقصد سے کتنے دور جا چکے ہیں؟ محمد الرسول اللہ ﷺ اللہ جل شانہ سے شناسائی عطا کرنے کاواحد ذریعہ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْھِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الممتحنۃ:(6 بحثیت بندہ مومن راہنمائی کے لیے حضرت محمد ﷺمبعوث ہوئے ہیں۔ہم عاشقان رسول ﷺ کہلاتے ہیں۔ ہم آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ عشق کرتے ہیں۔ہمارے اعمال جو ہم عملی زندگی میں اختیار کرتے ہیں کیا اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری محبت محمد الرسول اللہ ﷺ سے ہے؟ یاد رکھیے جب مسلمان معاشرے حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دیتے ہیں توقومیں تقسیم ہو جاتی ہیں اور اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ ایک ددسرے کے گلے کاٹتے ہیں۔ جب کہ اللہ جل شانہ نے اس دارفانی میں جو بھی مخلوق پیدا کی ہے ان سب میں انسان کواشرف المخلوقات بنایاہے۔
آج کے اس 23مارچ1940 کے دن کے حوالے سے میری صرف اتنی گزارش ہے کہ میرے اور آپ کے پاس ایک اختیار ہے خدارا اس کا خیال کر لو۔میں اور آپ بائیسواں کروڑواں پاکستان ہے۔ میں، آپ کے سامنے اس پاکستان کی بائیسوایں کروڑواں اکائی بیٹھا ہوں۔ میں اور آپ ایک، ایک پاکستان ہیں۔معاشرے افراد سے بنتے ہیں۔خداراہ اس پاکستان کا خیال کرو۔ انشاء اللہ رب العالمین ہمارے اس وطن عزیزکی بھی حفاظت فرمائے۔اللہ جل شانہ مجھے، آپ کو آج کی اس محفل میں حاضر ہونا قبول فرمائے۔یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اور آپ بائیس کروڑواں پاکستان ہیں۔ اس پر اللہ کا قانون نافذ ہو۔ اس کو اس نہج پر چلائیں کہ اللہ کریم مجھے اور   آپ کواس چھ فٹ کے بدن پر نفاذِ اسلا م کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
         کبھی  نور  بانٹتا  تھا  تیرا قافلہ جہان میں             مگر  آج  تیرا مسلم ظلمت میں گھر گیا ہے
          اسے  اک  نظر عطا کر اسے خود سے آشنا کر         یہی  ہے  علاج  اس کا ورنہ یہ مٹ رہا ہے