Eid Ul AzhaQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

Eid Ul Azha

Munara, Chakwal, Pakistan
18-07-2021

اسلام میں دو ہی تہوار ہیں۔ ایک رمضان المبارک کے تشکر کے طور پر جسے ہم یوم عید کہتے ہیں اور دوسرا تہوار عید قربان یا عید الاضحی ہے۔ عیدالاضحی حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کی عظیم قربانی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم اثیار کی نہ صرف یاد گار ہے بلکہ اس میں حکمت الہٰی یہ پوشیدہ ہے کہ جو اجر، جو برکات،جوکیفیات اور جس طرح کی رحمتیں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کو قربان کرتے ہوئے نازل ہوئیں تھیں۔اُن میں امتِ محمدیہ علی صاحبہ الصلوہ والسلام کو بھی شریک بنا دیاگیا۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اسی برس سے تجاوز کر رہی تھی کہ اللہ کریم نے اِس عمر میں آپ کوبیٹاعطا فرمایا۔پہلے تو آپ کو یہ حکم ملا کہ اپنی زوجہ محتر مہ اور معصوم بچے کو وہاں چھو ڑ آؤ جہاں آج بیت اللہ شریف ہے۔حضرت جبرائیل امین ؑ نے رہنمائی کی اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں وہاں چھوڑ آئے۔ اس وقت وہاں سینکڑوں میلوں تک کسی آبادی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔حضرت حاجرہ ؓ کا پانی کی تلاش میں بے تاب وبے قرار ہو کر پہاڑوں پر دوڑنا،حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی بے تابی، آب زم زم کا وہاں سے نمودار ہونا۔
حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کے بارے قرآن ِحکیم بتاتا ہے۔”فلما بلغ معہ السعی“۔ ((37:102 یعنی جب وہ اس قابل ہوئے کہ انگلی پکڑ کر ساتھ چل سکیں تو اللہ نے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام اسے میری راہ میں قربان کر دیں۔قربانی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ لفظ ”خلیل اللہ“ ہے۔یوں تو سارے نبی اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔ہر ولی اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ ہر مسلمان اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اللہ سے دشمنی تو صرف کافر کے نصیب میں ہے لیکن بعض لوگ اِس دوستی میں اِس حد تک آگے چلے گئے کہ یہی اُن کا نشان بن گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ جس اللہ کے بندے کی عمر اسی برس سے تجاوز کر رہی ہو۔اُس عمر میں فرزند عطا ہو۔ جس کی پیشانی میں نورِ نبوت درخشاں ہو پھر اس بچے کی عمر کا وہ حصہ جو بچپنے والا ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ حکم دیا جائے کہ اِسے میری راہ میں قربان کر دو۔اِس کیلئے کتنی محبت چاہئے حکم دینے والے کے ساتھ؟ کہ آدمی اس کی گردن پر چھری رکھ دے۔
یہ وہ نظارہ ہے جو رب العالمین نے اُن فرشتوں کو بھی کرایا جو کہتے تھے کہ تخلیق ِآدم سے کیا فائدہ ہو گا؟ یہ زمین پر فساد ہی کریں گے۔اللہ کریم نے اُنھیں دکھا دیا کہ ان میں ایسے بھی ہیں کہ جو سب کچھ میرے اشارے اور میرے نام پر میری خوشی اور میری رضا کیلئے انتہا ئی عزیز ترین متاع اپنے ہاتھوں لٹا سکتے ہیں۔جب آپ علیہ السلام نے بسمِ اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر سیدنا اسمعٰیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلا دی۔ خون کے فوارے ابلنے لگے۔ لاشہ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو دیکھا سیدنا حضرت اسمعٰیل علیہ السلام ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں اور دنبہ کٹا پڑا ہے۔ پریشان ہو گئے۔یا اللہ کیا میری قربانی قبول نہیں ہوئی؟ تو اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا۔  ”قد صدقت الریا یا ابراہیم“  ((37:105  ”اے ابراہیم!بے شک آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا“۔ یہ میری مرضی کہ میں نے حضرت اسمٰعیل کو بچا دیا اور دنبہ ذبح کرا دیا  ”وفدینہ بذبح عظیم“ ((37:107 میں نے اس کے بدلے بے شمار قربا نیاں قبول کر لیں۔ چنانچہ یہ ذبح عظیم ہے۔ اس میں اُس وقت سے لیکر قیامت تک جتنے لوگ شہید ہونگے۔ وہ مکہ مکرمہ، مدنیہ منورہ، غزواتِ نبوی علیہ الصلوۃ والسلام اور اُس کے بعد ہوئے۔کوئی لاشہ جو بدر واُحد میں تڑپا یا کربلا میں خانوادہ نبوی ﷺ کے چراغ اور جگر گوشے ہوں یا آج افغانستان، کشمیر، فلسطین، عراق اور پاکستان میں ہو رہے ہیں۔ بطفیلِ محمدﷺ ہر شہید کو ذبح اور قربانی کی لذت میں شریک کر دیا اور اُس قربانی کو حج کا رکن بھی قرار دے ِ دیا۔اب شہید تو شہید ہو کر لطف لے گئے۔ حجاج کرام نے مکہ مکرمہ، منٰی میں جا کر اپنی قربانیاں پیش کر کے ثواب لے لیا۔عامۃ المسلمین کہاں جائیں؟ اللہ نے فرمایا جو مسلمان روئے زمین پرجہاں بھی ہو، جو جانور اُسے پسند ہو،خوبصورت اورپیارا لگے، میری راہ میں قربان کر دے، میں اُسے بھی ذبحِ عظیم میں شامل کر دونگا،وہی برکات، انوارات اوروہی رحمتیں اُس پر وارد ہونگی جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا حضرت اسمعٰیل علیہ السلام پر اس وقت وارد ہوئیں تھیں۔ 
لہذا قربانی محض رسم نہیں ہے۔ یہ اس طرح بھی نہیں ہے کہ خانہ پرُی کی جائے۔اگر ہم نے پورے خلوص سے قربانی کی تو صرف دنبہ قربان نہیں ہوگا، صرف جانور ذبح نہیں ہو گا، بلکہ اللہ ہمیں توفیق دے گاکہ ہم اُس کی اطاعت کے لیے اپنے مفادات قربان کر سکیں۔ عبادات کے اوقات میں آرام اور حلال کے مقابلے میں حرام قربان کر سکیں۔ ہم میں عاداتِ ابراہیمی ؑ آنا شروع ہو جائیں تو یہ قربانی کا ایک نتیجہ ہے۔جسے ہم پرکھ سکتے ہیں کہ کیا ہماری قربانی رسمی تھی یا خلوص کے ساتھ تھی؟ ہمارے دل میں جذبہ آیایا نہیں۔ہر ایک کا حال اللہ جانتا ہے یا کسی حد تک انسان خود اندازہ کر سکتا ہے۔ قربانی کرتے وقت سوچو کہ میں کیاقربان کرنے چلا ہوں؟ یہ کس نے حکم دیا تھا؟ یہ سنتِ ابراہیمی تھی بطفیلِ محمد ﷺرب ِکریم نے انعام میں عطا کر دی کہ امتِ مرحومہ اس سعادت سے محروم نہ رہے پھر اسے یومِ عید قرار دے دیا۔ فرمایا پہلے دوگانہ ادا کرو پھر قربانی کرو اور سوچ کر کرو کہ اے اللہ تو کتنا کریم ہے، مجھے اجر وہ دے رہا ہے گویا میں بیٹا ذبح کر رہا ہوں، جبکہ میں ایک جانور ذبح کر رہا ہوں۔ اُس درد کو محسوس کرو کہ اگر بیٹا ذبح کرنا ہوتا تو تمہارے دل کا کیا عالم ہوتا؟ربِ کریم نے اس چھوٹی سی قربانی پر اتنا بڑا دردِدل عطا کر دیا۔اب یہ تو اپنے شعور کی بات ہے کہ ہم وہ کیفیت، قرب اور دردِ دل کتنا حاصل کرتے ہیں؟ حقیقی قربانی تو ان لوگوں کی ہے جو سب کچھ اللہ کے لئے قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔جو راہ حق میں کام آئے۔ خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طنیت را۔کیا پاک مزاج لوگ تھے۔ہم بہرحا ل جانور ذبح کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ قربانی قبول ہو گی؟ اس میں ہمارا خلوص اور سرمایہ مشتبہ ہوتا ہے۔ ہمارے طریقے خلاف سنت بلکہ رسومات پر مبنی ہوتے ہیں اور عبادت تو وہی ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ کے طریقے اور حکم سے ہو۔اپنی مرضی سے نہیں۔سو ہم سے ہزاروں کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔
 قارئین گرامی!قربانی کی حقیقت کو وہ لوگ پا گئے جو محض بقائے دین اور احیا ئے دین کے لئے واقعی قربانی دے رہے ہیں اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ آخری کتاب قرآن حکیم ہے۔ جب تک اللہ نے دنیا کو قائم رکھنا ہے۔ تب تک نبوت بھی رہے گی۔ یہ دین بھی رہے گا۔ لیکن دنیا عالم اسباب ہے۔اس میں کس کس کو اس سعادت سے سرفراز کرتا ہے؟ یہ اس کی پسند ہے۔ ہماری کوشش یہ ہو کہ جب جانور قربان کریں تو یہ دعا بھی کریں کہ اے اللہ!  نہ صرف ان جانورں کی قربانی ہم سے قبول فرما بلکہ ہماری ذاتی قربانی بھی قبول فرما۔قربانی کی عید تو شاید ڈھائی دن کی ہے لیکن قربانی کا موسم ڈھائی دن کا نہیں ہے۔یہ ڈھائی دِن کی عید جانوروں کی قربانی کی ہے۔ جان و مال کی قربانی، عشق و محبت کی قربانی،درددل کی قربانی کا موسم اپنے جوبن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ خوش نصیب ہوں گے جن کے دل میں اللہ سے عشق ہو گا۔اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ہو گئی۔ اللہ انہیں چن لے گا۔
اللہ کریم ہماری قربا نیوں کو قبول فرمائے دین ِبرحق پر زندہ رکھے اور دین ِبرحق پر موت نصیب فرمائے اور دین دار بندوں کے ساتھ حشر فرمائے۔آمین  

Eid Ul Azha by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Articles
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Awaisiah Naqshbandia, Lataif, Rohani Tarbiyat, Zikr Qalbi, Allah se talluq, Dalael us Salook