Waladat Basaadat Aur Besat Rehmat -e-Alam SAWSheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)

Waladat Basaadat Aur Besat Rehmat -e-Alam SAW

Munara, Chakwal, Pakistan
21-09-2022

۱ا          ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ  تُرْحَمُوْنَ  (العمران:132)  ترجمہ:  ” اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول  ﷺ کی تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:قال محمد الرسول اللہ ﷺ:لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من ولدہ و والدہ والناس اجمعین(روایۃ المسلم)۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا،یہاں تک کہ میں، اسے، اس کے والدین، اولاداور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
 معزز قارئین کرام! ماہ مبارک ربیع الاول میں نہ صرف وطن عزیز بلکہ پوری دنیا میں نبی کریم ﷺ سے اظہار محبت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ خصوصی طور پرولادت باسعادت کے حوالے سے بے شمار محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے جب ارشاد فرمایا کہ  وَمَآاَرْسَلْنٰکَ اِلَّا َحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء:107)  یہاں ایک بات بہت واضع ہوجاتی ہے کہ ایک ذات اللہ جل شانہ کی ہے۔جو خالق ہے،واحد ہے، لاشریک ہے اور اس کی ذات کے علاوہ جو کچھ ہے،وہ مخلوق ہے۔ خالق نے مخلوق کی طرف اپنی رحمت کا سبب اپنے ذاتی کلام میں بیان فرمادیا کہ آپﷺ کی ذات مخلوق پر رحمت باری کے نزول کا سبب بنتی ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا جو تسلسل ہے۔ روز مرہ کی جو ضروریات ہیں کہ شاید انہی کی تکمیل اللہ کی رحمت ہے۔آپ تھوڑا اس سے پہلے سوچ لیں کہ یہ جو حیات ہے۔ اس کی ضروریات کے لیے ہم روز مرہ کی زندگی میں آنے والے یا پیش ہونے والے واقعات کو رحمت سے یا تکلیف سے منصوب کرتے ہیں۔یہ حیات بھی تو اللہ کی دی ہوئی ہے او رمحمد الرسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہے۔ایک لحظے کو اللہ جل شانہ کی رحمت کو انقطاع آ جائے یہ چیزیں رک نہ جائیں واپس عدم ہوجائیں۔کسی شے کا کوئی وجود باقی نہ رہے۔
جب ولادت باسعادت کی بات آتی ہے تو اس میں فقط ہمارا حصہ نہیں ہے۔یہ مخلوق خدا پر اللہ کا احسان ہے۔یہ ہوائیں قائم ہیں تو اللہ کی رحمت ہے۔یہ فضائیں قائم ہیں تو اللہ کی رحمت ہے۔ یہ طلوع و غروب ہے۔یہ آسمان وزمین ہے۔یہ ستارے چاند اور سورج ہیں۔ یہ خاک کا ایک ایک ذرہ مرہون منت ہے اللہ کی رحمت کا۔ اللہ نے آپ ﷺکی ذات کو باعث رحمت ارشادفرمایا تو اس حصے میں فقط ہم شامل نہیں ہیں۔خالق کے علاوہ تمام مخلوق کو آپ ﷺ کی ولادت منانی چاہیے۔لیکن جب با ت ولادت کی آتی ہے تو اللہ جل شانہ نے باقی تمام مخلوق سے کٹ کر اپنے حبیب سے بندہ مومن کو ایک الگ رشتہ عطافرمایا۔ 
قرآن کریم میں جب ارشاد آتا ہے۔کہ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ (آل عمران:164)  جو بندہ مومن پر عمومی مخلوق سے ہٹ کر خصوصی احسان ہے اور واحد حصہ ہے جسے اللہ نے اس شان سے بیان فرمایا کہ اے بندہ مومن! تما م احسانا ت سے بڑھ کرتجھ پر میرا یہ احسان ہے کہ میں نے اپنا حبیب ﷺتم ہی میں سے مبعوث فرمایا۔یہ جو اَحْسَنِ  تَقْوِیْمٍ (التین:4)  ہے۔یہ جو بشر ہے،جسے اللہ جل شانہ نے اپنا نائب مقرر فرمایا ہے اس کے لیے بے شمار تخلیق ہے۔چاند کا چڑھنا ہو،سورج کا طلوع ہونا ہو۔اپنے گرد وبیش حشرات الارض دیکھیں،چرند پرند دیکھیں،جانور،چوپائے دیکھیں،ان سب کا محور انسانی زندگی ہے۔یہ بشر ہے جو اللہ کا خلیفہ ہے، انسان کواللہ جل شانہ نے تمام مخلوقات سے ہٹ کر ایک ایسی سوچ اور خرد کا حصہ عطا فرمایا جو باقی کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں جب با ت پہنچتی ہے تو سمجھ آتی ہے کہ تفریق کیسے ہو گی؟ عمومی جو جاندار ہے،اس کی بھی پیدائش ہے،اس کی بھی افزائش ہے،اس کا بھی گھرانہ ہے،اس کا بھی کھانا پینا ہے،اس کی بھی صحت اور بیماری ہے اور اس کی بھی زندگی اور موت ہے۔ اگر اشرف المخلوق میں آکر پھر بندہ مومن کی حیثیت سے یہی حصہ ہم بھی اختیار کر جائیں کہ پیدا ہوئے،پلے بڑھے،روزگار کئے، شادی بیاہ ہوئی، خاندان بنے، اسی دنیا کی صبح شام میں وقت پورا ہوااور آخرت کو چلے گئے۔ ایک عمومی جاندار اوراس اشرف الخلق کا پھرفرق کیا ہوا؟ اللہ نے اسے خصوصی حصہ عطا فرمایا کہ یہ ایک سوچ رکھتا ہے، ایک سمجھ رکھتا ہے،چیزوں کو دیکھ کر اس کا ایک ادراک قائم کرتا ہے۔ایک وصف ایسا ہے جو خالق نے باقی کسی مخلوق کو نہیں عطا فرمایا۔لیکن یاد رکھیے! وہ جتنا بھی وصف ہو،اتنا بڑھ نہیں سکتا کہ ذات باری تعالیٰ سے آشنائی کرسکے۔وہاں پھر کوئی ذریعہ، کوئی ایسا حصہ درکار ہے جو ہمیں وہاں سے وہ شناسائی عطا فرما دے کہ ہمیں،ہمارا مقصد تخلیق نصیب ہوجائے۔ ہمارے لیے اشرف الخق کا حصہ عظمتوں کا سبب بن جائے۔ نبی کریم ﷺ وہ ذات ہے جو ہمیں اللہ جل شانہ سے شناسا فرماتے ہیں۔قرآن کریم کلام ذات باری تعالیٰ ہے۔ حق ہے، ایک ایک نقطے اور ایک ایک زبر زیر کے فرق کے بغیر آج بھی ہمار ے پاس موجود ہے۔ لیکن یہ ہمیں کہاں سے نصیب ہوا؟اللہ واحد و لاشریک ہے۔یہ ہمیں کہاں سے نصیب ہوا؟یہ زندگی اختتام پزیر ہو گی، حیات برزخیہ ہو گی،اعمال کی چانچ پڑتال ہو گی۔ یہ بات ہمیں کہاں سے نصیب ہوئی؟ روز محشر ہوگا،شاہ وگدا ایک ہی لائین میں کھڑے ہو نگے۔وہاں کوئی دنیاوی حیثیت کام نہیں آئے گی  وہاں فقط بات ہوگی۔  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ  اللّٰہِ اَتْقٰئکُمْ ط(الحجرات:13)  یہ حصے ہمیں کہاں سے نصیب ہوئے؟ واحد جگہ ہے آقائے نامدار محمد الرسول اللہ ﷺ۔آج ہم اگر اپنے معاشرے کا خیال کریں، اپنی تفرقہ بازیوں کا خیال کریں،اپنے اندر فساد کے حصوں کا خیال کریں،لسانی اور علاقائی جھگڑوں کا خیال کریں۔نہ صرف وطن عزیز بلکہ ساری دنیا کی امت مسلمہ اگر اتفاق واتحاد چاہتی ہے، اگر وہ عہدرفتہ کی وہ عظمتیں چاہتی ہے جو اسے اللہ نے داردنیا میں بھی عطا فرمائی ہیں۔ فقط ایک در ہے اور وہ در محمد الرسول اللہ ﷺ۔آج کا یہ بعثت کا موضوع حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں عطا فرمایا اور ہم نے وطن عزیز کے گوشے گوشے میں جہاں تک ممکن تھا اپنی وجودی استطاعت سے بڑھ کر کوشش کی۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے اورکمزور الفاظ سے کوشش کی کہ بندہ مومنین تک یہ پیغام پہنچا یا جائے کہ آپ کا رشتہ فقط ولادت کا نہیں ہے۔ اللہ نے اس سے بڑھ کر آپ کو، آپ ﷺکا امتی ہونے کا جو رشتہ عطا فرمایا ہے۔وہ ایسا رشتہ ہے جہاں سے تمہیں وہ حصے نصیب ہوں گے جو تجھے تیری عظمتوں کو پہنچائیں گے۔جو تجھے تیرے خالق سے شناسائی عطا فرمائیں گے۔تو بات جب یہاں آتی ہے۔تو احکامات دین کی آتی ہے۔ان حصوں کی آتی ہے۔جو عمومی زندگی سے ذاتی زندگی تک اور اجتماعی معاملات تک ہماری راہنمائی کا سبب ہیں۔ وہ قرآن و سنت کا پہلو جسے اللہ کے حبیب ﷺ نے ذاتی طور پر اختیار فرمایا۔ وہ حصے جس کی تربیت آپ ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کی فرمائی۔اجماع امت ہم تک پہنچانے کا اللہ نے سبب بنایا اور رہتی دنیا اورروز محشر تک ایک ایک چاہنے والے تک یہ سبب موجود رہے گا۔آج ہم کیوں اسے بھول چکے ہیں؟آج اگر ہم اپنے معاشرے کا اگر خیال کریں تو یہ جو تفریق ہے،یہ جو بہن بھائیوں میں جھگڑے ہیں،یہ جووالدین اور اولاد کی دوری ہے۔
ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ کس حد تک خرابی کا تدارک ہو سکتا ہے؟ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ہمارے عمل سے کتنی بہتری آئے گی؟یہ سارا میرے اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ ہاں! ہم مکلف ہیں اپنے کردارکے،ہم مکلف ہیں اس چھ فٹ پاکستان کے کہ کیاہم نے اس ماہ مبارک کے دوران اظہار محبت کے انداز پرغور کیا؟کیا ہم نے اس میں نظم ونسق نافذ کیا؟جو اللہ کے حبیب ﷺ نے اپنی ذات پر نافذ کیا،جو اللہ کے حبیب ﷺ نے ہمارے لیے پسند فرمایا،اللہ نے ہمارے لیے پسند فرمایاتو پھر بات سمجھ آئے گی کہ ان محافل میں آنا کیا ہے؟ان محافل میں سوچنا کیا ہے؟اس میں شریک ہونے والے کی اگر یہ نیت ہو گی تو بھی حاضرین محفل میں گزشتہ ایک ہفتے سے آپ لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔میں دعا گو ہوں ہر اس حصے کے لیے جسے کوئی نہیں جانتا کہ اس نے اپنے پروگرام کے لیے کتنی محنتیں کیں؟ کہاں تک اس نے اپنے اسباب اختیار کیے؟لیکن یاد رکھنا ہمارا یہ عمل کسی ذات کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہر ایک کا عمل بھی جانتا ہے اور ہر ایک کی نیت سے بھی واقف ہے۔
  اللہ کریم ہماری زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی عطافرمائے جو اس وطن عزیز کے لیے ضروری ہے۔اللہ ہمیں روز محشر کی وہ فکر عطا فرمائے جس روز حساب کتاب کے لیے عمومی بندہ بھی کھڑا ہوگا اور وہ لوگ بھی کھڑے ہوں  جو صاحب اقتدار ہیں اور اس نے کتنے حصے کا دینا ہے؟ جہاں تک اس کی دسترس ہے۔وہا ں سوائے اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کے کوئی شے کام نہیں آئے گی۔ میں اپنی بات کو اختتام کرتے ہوئے چند مصرے فارسی کے، اسی محبت میں،اسی موضوع سے متعلق،اپنے احبا ب سے عرض کرتا ہوں۔کیا خوب بیان کیا شاعر نے فرماتے ہیں:
غریبم یا رسول اللہ ﷺ  غریبم 
ندارم  در  جھاں  جز تو   حبیبم
مرض  دارم  زعصیاں   لا دوائے 
مگر   الطاف   تو    باشد  طبیبم 
     بریں  نازم   کہ  ھستم    امت  تو 
گنھگارم ولیکن  خوش  نصیبم 
ترجمہ :  کیا خوب لکھا، فرماتے ہیں۔یا رسول اللہ ﷺ میں بہت غریب ہوں۔دنیا میں میرا آپ ﷺ کے سوا کوئی محبوب نہیں۔(میں اپنے گریبان کو جھانک کر یہ فقرہ عرض کرتا ہوں) کہ میراگناہوں کا مرض لادوا ہے مگر آپﷺ کی مہربانی اس کی طبیب ہوسکتی ہے۔مجھے اس بات پر ناز ہے کہ آپ ﷺکی امت ہوں،گنہگار ہوں لیکن بہت خوش نصیب ہوں۔اللہ جل شانہ شاعرکا یہ کلام ہمیں حقیقی معنوں میں نصیب فرمائے۔امین

Waladat Basaadat Aur Besat Rehmat -e-Alam SAW by Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA) - Feature Articles
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Awaisiah Naqshbandia, Lataif, Rohani Tarbiyat, Zikr Qalbi, Allah se talluq, Dalael us Salook