Latest Feature Articles


نشان منزل (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ)


اسلام وہ حقیقت ہے کہ منکر بھی جسے انکار کے باوجود کلی طور پر جھٹلا نہیں سکتا،اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور تمام فطری تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا فرماتا ہے اس لیے دنیاوی کامیابیوں کے پیچھے بھی ”تحقیق“باآوازبلند یہ ثابت کرتی نظر آتی ہے کہ انسان اسلام کے وضع کردہ اصولوں کے بغیر دنیاوی ترقی کی منازل بھی طے نہیں کر سکتا۔جب اس کے ظاہری پہلو سے بڑھ کر باطنی پہلو پہ توجہ مبذول ہو تو سمجھ آتی ہے کہ یہ عظیم اور انمول مگر واحد ذریعہ ہے جو بشر کو بندہ بناتا ہے اور بندے کو تراش کر بندگی کی لذتوں سے آشنا کر دیتا ہے۔بتوفیق الٰہی یہ آشنائی گرہیں کھولتی جاتی ہے کہ خالق کون ہے؟مخلوق کی کیا حیثیت ہے؟کارگہہ حیات کیا ہے اورامتحان کیا ہے؟زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے؟مردود کون ہے اور مقرب ہونا کیا ہے؟فنا کی حدود کیا ہیں اور حیات ابدی کیا ہے؟
اللہ پاک نے انبیا ورسل علیھم السلام کو مخلوق کی تربیت کا فریضہ سونپا اور ان عظیم ہستیوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کو امام الانبیاؑ مبعوث فرمایا۔اگر کل بشریت کو دوحصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک جماعت انبیاء ورسل علیھم السلام کی اور دوسری غیر انبیا کی ہو گی۔امت محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کریم نے بے شمار عظمتوں میں سے ایک ایسی منفردعظمت عطا فرمائی ہے کہ جس کا ذکر بھی کلام ذاتی میں فرمایاکہ کل بشریت میں دو ہستیاں ایسی ہیں جنہیں معیت ذاتی نصیب ہوئی۔
تما م انبیاء  ؑ کو ہمیشہ معیت نصیب رہتی ہے لیکن وہ معیت صفاتی ہوتی ہے۔اہل اللہ کو جو معیت نصیب ہے وہ بندے کی صفات سے مشروط ہوتی ہے۔انبیاء ؑ میں نبی اکرمﷺ اور غیر انبیاء میں حضرت ابو بکر صدیقؓ  وہ ہستیاں ہیں جن کی ذات ہائے مقدسہ کو اللہ کریم کی ذاتی معیت نصیب ہے۔فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاَ ]التوبۃ9:40[  پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وقت ہجرت نبی اکرمﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے کندھوں پہ سوار تھے تو عالم خلق کو حضورﷺ سے تعلق حضرت صدیق اکبرؓ کے وجود مبارک سے نصیب تھا۔عشق نبویﷺ کی بات ہو یا اطاعت رسولﷺ کی،بندگی کی عظمتیں ہوں یا نبیﷺ کی تربیت کا عملی نمونہ اگر نشانِ منزل کے طور پر چناؤ کرنا ہو تو سر فہرست نام مبارک آئے گا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی پیدائش عام الفیل سے تین سال بعد بمطابق 50ق ھ574/ ء کو عثمان بن ابی قحافہ کے گھر مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔آپؓ کی والدہ ماجدہ کانام ام الخیر سلمیٰ اور قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم تھا۔آپؓ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر جا کر نبی کریم ﷺ سے ملتا ہے۔آپؓ کی ازواج مبارکہ کی تعداد چار،تین بیٹے اور تین ہی بیٹیاں تھیں۔آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا آپ ؓ اہل مکہ میں متمول اور قابل احترام حیثیت کے مالک تھے۔آپ ؓ کا دور خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھا۔آپؓ نے 22جمادی الثانی 13ہجری بمطابق23اگست 634ء کو تریسٹھ برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں دار فانی سے پردہ فرمایا۔
آپؓ  ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیْلِ  ]الفتح48:29[   کی شان کے مطابق نبی کریم ﷺکی خدمت میں بچپن ہی سے مامور فرما دئیے گئے۔بالغ افراد میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر پہلی ہی دعوت پرمشرف بااسلام ہوئے۔آپﷺ کی مکی زندگی سے لے کر وصال نبوی ﷺکے دن پیشانی مبارک پر بوسہ دینے تک ہمہ وقت حاضر خدمت اور تعمیل حکم میں سر تسلیم خم رہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا مگر ابو بکر صدیقؓکے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اللہ جل شانہ ہی عطا فرمائے گا۔آپؓ واحدہستی ہیں جنہیں مسلسل چار نسل تک شرف صحابیت نصیب ہوا۔والد محترم حضرت ابی قحافہ،آپؓ،صاحبزادے حضرت عبدالرحمن اور پوتے حضرت ابو عتیق محمدؓ۔آپؓ کے پہلے نام عبد الکعبہ کی تبدیلی عبد اللہ کے ساتھ،صدیق اور عتیق کے القابات دربار رسالت سے نصیب ہوئے۔آپؓ نے وصال نبویﷺ کے امتحان میں ثابت قدم رہتے ہوئے نو زائدہ اسلامی ریاست کو انتہائی قلیل دور خلافت میں مضبوط بنیاد پر کھڑا کر دیا۔آپؓ تدوین قرآن،ابتداتسخیرِ عراق وشام،منکرین زکوٰۃکا سد باب نیزانسداد فتنہ ارتداد کا سبب بھی ہوئے۔
آپؓ کے وصال ِمبارک کے مہینے میں لکھتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ آج ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں کہ جن لوگوں کی زندگیاں حصولِ زر کے لیے ساز وآواز میں گزریں وہ تو قومی سرمایہ گردانے گئے ااور ان کی پیدائش وموت کے دن ہمیں خوب یادرہتے ہیں مگر وہ ہستیاں جن کی زندگیاں نشان ِمنزل بنیں ان کی یادیں ہم فراموش کیے بیٹھے ہیں۔       
 
 

علم غیب اور علم لدنی

لوگوں میں یہ بحث چلتی رہتی ہے اور میرے خیال میں یہ فضول بحث ہے کہ علم غیب کیا ہے اور آدم علیہ السلام کو کائنات کی ہر چیز کے بارے میں بتا دیا گیا توو ہ بھی عالم الغیب ہوگئے۔یہ درست نہیں ہے۔علم غیب وہ ہوتاہے جو بغیر کسی سبب کے جانا جائے اور جو جانتا ہو وہ عالم الغیب ہے۔ یہ شان صرف اللہ کی ہے جو بغیر کسی کے بتائے جانتاہے‘ بغیرکسی کے دکھائے دیکھتاہے‘ کسی معاملے میں کسی کا محتاج نہیں ہے‘ ہر چیز کو ہر وقت ہر آن جانتاہے‘ یہ صرف اللہ کی خصوصیت ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو‘ اللہ کے مقرب بندوں کو علوم عطا کیے جاتے ہیں۔ا ب جس کی خبر دی جائے‘ بتا یا جائے وہ غیب نہیں رہتا۔بتانے والے نے بتا دیاتو غیب ختم ہوگیا۔ ہاں‘ آپ کہہ دیں کہ اس بندے کو اللہ نے غیب پر مطلع کردیا یا غیب کی خبر دے دی تو وہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان ہے کہ بے شمار ایسے غیب ہیں جونبیوں اور رسولوں کو بتائے جاتے ہیں۔
لوگو! اللہ کی شان اس سے بلند ہے کہ تم سب کو غیب پر اطلاع دے لیکن جسے چاہتاہے اس کے لئے چن لیتاہے‘یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو‘ اپنے رسولوں کو‘ اپنے نبیوں کو‘ اوریہ بھی طے شدہ بات ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو جتنے ضروری علوم دیے گئے ان سب سے زیادہ علوم آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کو عطا فرمائے۔ ہر نبی کو اس کی اپنی ضرورت اور اس کی امت کی ضرورت کے مطابق احکام ِشریعت اور دنیا و آخرت کے علوم عطا فرما ئے گئے۔ نبی کریمﷺ چونکہ سارے نبیوں کے بھی نبی ہیں۔ساری امتوں کے بھی‘ ان کے نبیوں کے واسطے سے نبی ہیں‘ امام الانبیاء ہیں اور بعثت سے ہمیشہ کے لئے آپ کی نبوت جاری وساری ہے توان سارے زمانوں میں جو ہوناچاہیے تھا‘جو درست ہے‘ جو غلط ہے وہ سارے علوم نبی کریمﷺ کو عطا فرمائے گئے لیکن وہ علم غیب نہیں ہے وہ اطلاع علی الغیب ہے۔ غیب پر مطلع فرما دیا گیا۔یہ بحث فضول ہے کہ علم غیب کسے ہوتاہے؟ علم غیب خاصہ ہے اللہ تعالیٰ کا۔ وہ بغیر کسی کے بتائے‘ بغیر کسی ذریعے‘ بغیر کسی واسطے کے جانتاہے اورجو غیب نبی جانتے ہیں وہ اطلاع علی الغیب ہوتی ہے کہ اللہ انہیں غیب پر مطلع فرما دیتاہے۔انبیاء علیہم السلام کو فرما دیتا ہے‘ اولیاء اللہ کو فرمادیتاہے‘ اس کی اپنی مرضی کہ جسے چاہے بتاد ے۔  
حضرت آدم علیہ السلام کو تما م چیزوں کا علم دے دیا۔اولاد آدم جتنی چیزیں ایجادکرتی جارہی ہے‘جتنی تحقیقات کرتی جارہی ہے‘ آج انسان نے سب سے چھوٹا ایٹم کا ذرہ  چیر کر دریافت کر لیاکہ اس کے اندر بھی مثبت ومنفی نظام جاری ہے۔ اس کے اندر ایک کارخانہ ہے جس میں مثبت بھی ہے اور منفی بھی ہے۔ سب سے چھوٹے ذرے کوچیر اجائے توایک دھماکہ ہوتاہے جسے ایٹمی دھماکہ کہتے ہیں۔ ہر ایٹم کا سینہ چیرنے سے یہ دھماکہ ہوجاتاہے۔ بنی آدم نے جو آج آکر دریافت کیا‘ یہ آدم علیہ السلام کو وہاں بتا دیا گیا۔جوجو علوم انسان نے دریافت کیے ہیں یا جو آئندہ کرے گا وہ سارے موروثی علم ہیں جو آدم علیہ السلام کو عطا فرمادیے گئے۔اور پھر فرشتوں سے کہا یہ کائنات کی چیزیں تمہارے سامنے ہیں  ذرا ان کے بارے مجھے بتاؤ ان چیزوں کے نام کیا ہیں۔ یہ کس کام آتی ہیں‘ ان میں کون سی چیز نفع بخش ہے‘ کون سی نقصان دہ ہے‘ اگر تم خبر رکھتے ہوکہنے لگے اے اللہ ہمیں کوئی خبر نہیں  ہمیں صرف وہ خبر ہے جو آپ نے ہمیں بتایا۔ آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ بارش برسانی ہے تو یہ ہم نہیں جانتے کہ بارش سے ہو تا کیا ہے۔ جس کو یہ بتایا کہ فصل اگانی ہے اسے یہ خبر نہیں کہ اس سے آگے کیا ہوتاہے‘ اس میں نفع کیا ہے‘ نقصان کیاہے۔
اب ان چیزوں سے ہمارا تعلق نہ واسطہ‘ ان کے بارے میں ہم تو کچھ نہیں جانتے تیری ذات جانتی ہے اور تیری ذات دانا تر ہے۔ تو حکیم ہے‘ تو ہی جانتاہے۔فرمایا اے آدم علیہ السلام اب تُو ان چیزوں کی خصوصیات اور ان کے نام بتا۔ علم اللہ کی طرف سے آتاہے اس کے لئے کوئی وقت درکار نہیں ہوتا‘کوئی عرصہ نہیں لگتا۔ اس نے دے دیا اور لینے والے کو وصول ہوتا گیا‘ اس کو علم لدنی کہتے ہیں۔ اس طرح فرشتوں پر علم کے حساب سے حضرت آدم علیہ السلام کی برتری ظاہر کی۔ صوفیاء اپنا خلیفہ یا نائب اس کو بناتے ہیں جس پر انہیں اعتماد ہو کہ اس فن میں اس کے پاس صرف عمل نہیں علم بھی ہے۔ مجاہدہ اور عمل تو ضروری بات ہے لیکن مجاہدہ تو سارے لوگ کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے تو سارے لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن اسے جاننا‘ اس کی باریکیوں کو سمجھنا فضیلت کا سبب ہے اور خلافت کے لئے صرف عمل ہی نہیں‘ علم بھی ضروری ہے اوریہ علم کتابوں سے نہیں ملتا۔حضرت آدم علیہ السلام نے کونسی کتاب پڑھی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کتنے لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن جس مسئلے پر صحابہ کرام کی رائے آجائے تو سارے لکھنے پڑھنے والے خاموش ہو جاتے ہیں‘ اس لئے کہ انہوں نے محمدرسول اللہ ﷺ سے سن کر جواب دیا‘ جو جاننا ہے وہ محض لکھنے پڑھنے کا نام نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے‘ اللہ چاہے تو کسی کو اپنی طرف سے علم کا خزانہ عطا کردے۔
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں قران کریم میں فرمایا گیا کہ ”ہم نے اسے اپنی طرف سے علم عطا کردیا۔“(سورۃ الکھف:65) اسے علم لدنی کہتے ہیں۔ اصطلاح میں جس نے کسی مدرسے میں یا کسی استاد سے تو نہ پڑھا ہو لیکن اللہ اسے علوم کے خزانے عطا فرما دے تو اسے علم لدنی عطا ہوگیا۔ ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے اسماء گرامی اولیا اللہ میں ملتے ہیں اور ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جوخود تو پڑھے لکھے نہیں تھے یا معمولی پڑھے لکھے تھے مگر بڑے بڑے علماء ان کی خدمت میں حاضر ہو کر مسائل کا حل دریافت کرتے تھے‘ اس لئے کہ اللہ نے انہیں علوم عطا کردیے۔ بات یہاں بھی یہی تھی حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء سکھائے اور فرشتوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ آپ ان چیزوں کے بارے میں بتائیں۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ ہمیں تو کوئی علم نہیں۔ہاں وہ باتیں جانتے ہیں جو آپ نے بتائیں اور آپ کی یہ شان ہے‘ آپ علیم بھی ہیں‘اور حکیم بھی ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو ارشاد ہو ا”اے آدم ان چیزوں کے بارے‘ ان کے اسماء کے بارے‘ان کی خصوصیات کے بارے میں آپ بیان کریں۔“ جتنا اللہ نے چاہا اتنا انہوں نے بیان کردیا۔ فرمایا:میں نے تم سے نہیں کہا تھاکہ ز مینوں اور آسمانوں کے سارے غیب میں جانتاہوں جس بات کا اظہارتم نہیں کرتے‘ تمہارے دلوں میں کیاہے وہ بھی میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو‘ میں وہ بھی بہت اچھی طرح سمجھتاہوں۔اللہ کریم ہم سب کی حفاظت فرمائے۔(آمین)

اسلام کے معاشی اصول

دنیا میں اسلام نے اس وقت معاشی نظام دیا جب کوئی معاشی نظام نہیں تھا اور دنیا کا لین دین لوٹ کھسوٹ دھوکا دہی‘ چوری اور ڈاکے پر تھا۔ طاقت کے بل پر جوکچھ کوئی چھین لیتا وہ اس کا ہو جاتا۔ تجارت میں بھی ہزار ہا فریب اور دجل تھے۔ اسلام نے ایک مبسوط معاشی نظام دیا اور یہ نظام معیشت صرف اس وقت کے لئے نہیں تھا بلکہ تب سے لے کر جب تک دنیا قائم ہے وہ معاشی اصول عالمگیر اور لازوال ہیں۔ یعنی اسلامی اصولوں میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی ہے۔ زمانے نے بڑی کروٹیں بدلیں۔ چودہ صدیوں میں بہت تبدیلیاں آئیں لیکن گذشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں میں اتنی پے در پے تبدیلیاں آئیں کہ اس سے پہلے سوچی بھی نہیں جا سکتی تھیں۔ آج دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے اور اسے گلوبل ولیج کہتے ہیں۔ بندے کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا سیٹ ہے اور روئے زمین پر وہ جہاں چاہتا ہے بات کر لیتا ہے‘ اس پہ دنیا میں کہیں کچھ ہو رہا ہے‘ دیکھ لیتا ہے۔ اسی طرح لین دین کے بھی نئے طریقے آ گئے۔ اب ایک آدمی کمپیوٹر پہ بیٹھا ہے اور وہ دنیا میں کاروبار کر رہا ہے۔ کوئی سفر نہیں کرتا‘ کہیں آتاجاتا نہیں‘ بنک سے ادائیگی ہو جاتی ہے‘ جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ بھیج دیتے ہیں اور یہاں بیٹھے بیٹھے ڈیلیوری لے لیتا ہے۔ اتنی جدیدیت آئی کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن اسلام کے لین دین کے اصول ایسے مضبوط‘ ایسے قابل عمل اور نا قابل تبدیل ہیں کہ یہ ساری تبدیلیاں ان اصولوں کو متاثر نہیں کرسکتیں۔ اس لئے کہ جتنی تبدیلیاں آتی ہیں‘ اصولوں میں نہیں‘ ذرائع میں آتی ہیں۔ مثلاً حج کے ارکان تو اللہ کریم نے چودہ صدیاں پہلے ارشاد فرما دیئے اور آج بھی وہی ہیں۔ آج یہ تبدیلی آ گئی کہ ایک آدمی یہاں سے صبح عمرہ کرنے جاتا ہے اور دوسرے دن واپس آ جاتا ہے۔ اب سواری کے ذریعے بدلے ہیں لیکن اسلام نے جو اصول دیئے تھے‘ وہ نہیں بدلے‘ نہ وہ متاثرہوئے ہیں۔ اسی طرح لین دین کے جو اصول تھے وہ آج بھی وہی ہیں اور قیامت تک وہی رہیں گے۔
لین دین میں ادھار تو آجاتا ہے‘ فرمایا:  اے ایمان والو! جب تم لین دین کرتے ہو تو اس میں ادھار بھی آ جاتا ہے‘ تو جو معیاد مقرر کرتے ہو‘ جتنا پیسہ دیتے ہو‘ جس دن لوٹانا ہے‘ اسے لکھ لو۔ ایک تحریر بنا لو کہ میں اس شخص کو یہ چیز دے رہا ہوں‘ اس کے بدلے اس نے مجھے اتنے پیسے دینے ہیں یا اتنا مال دینا ہے یا متبادل دینا ہے اور کب دینا ہے‘ کس صورت میں دینا ہے‘ یہ لکھ لو۔اور جو لکھنے والا ہے وہ پوری دیانت داری سے لکھے۔ اس لکھنے میں کوئی لفظ ایسا داخل نہ کرے جس میں دینے والے یا لینے والے کو نقصان پہنچتا ہو یا جو ان کا معاملہ آپس میں طے ہوا ہے اس میں کوئی تبدیلی آتی ہو‘ یا بات بدل جاتی ہو۔ وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر پوری دیانت داری سے لکھے اور کوئی لکھا پڑھا آدمی دستاویز لکھنے سے انکار بھی نہ کرے۔ یہ نہ کہے کہ بھئی لین دین تمہارا ہے‘ میں نہیں لکھتا اس لئے کہ  اللہ نے اسے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت دی ہے‘ اسے انکار نہیں کرنا چاہیے‘ اسے لکھنا چاہیے۔ دیکھیں اسلام نے کن باریکیوں تک اسے طے فرما دیا کہ جس کے ذمے رقم پڑ رہی ہے‘ جس نے ادا کرنی ہے وہ خود بول کر لکھوائے‘ کا تب اندازے سے نہ لکھے چونکہ رقم اسے ادا کرنی ہے اوروقت مقررہ کا اسے پتہ ہے۔ لہٰذا جس کے ذمے ادائیگی ہے وہ خود بولے کہ اتنی چیز ہے‘ اتنی رقم ہے یا یہ جنس ہے۔ میں نے فلاں ابن فلاں کو ادا کرنی ہے‘ فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو‘ فلاں دن کو ادا کروں گا۔
ادھار کا ایک اور طریقہ ہے‘ ہم چیز لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فصل پر پیسے دیں گے‘ گندم ہو گی تو پیسے دیں گے‘ یہ جائزنہیں ہے۔ یعنی جب لکھتے ہو تو وقت دن مہینہ اوقات معین کرو۔ اس کی فصل ہو یا نہ ہو‘ اس کو فصل سے پیسے آئیں یا نہ آئیں‘ اس کا باغ بکے یا نہ بکے‘ یہ درست نہیں ہے۔ جب لین دین کرتے ہو تو وہ تحریر کیا جائے اور اس میں جس کے ذمے دینا ہے وہ خود بول کر کاتب کو لکھوائے کہ میرے ذمے اس شخص کی اتنی رقم ہے فلاں مہینے کی فلاخ تاریخ کو میں اسے ادا کروں گا۔ اگر وہ لکھوا نہ سکتا ہو‘ اتنی سمجھ نہ رکھتا ہو یا ضعیف آدمی ہو یابولنے کی قدرت نہ رکھتا ہو‘ جیسے کوئی گونگا ہو یا کوئی غیرملکی ہے کہ جس زبان میں لکھنے والا لکھ رہا ہے وہ اس زبان سے ہی واقف نہیں ہے تو وہ اپنی زبان میں بولے گا اور لکھنے والا اپنی زبان میں لکھے گا۔ اس صورت میں اس کا کوئی ولی ہوپھراس کا کوئی ولی ہو‘ اس کا کوئی وارث ہو۔ اس کا باپ بیٹا‘ کوئی بھائی یا جسے وہ اپنا وکیل مقرر کرتا ہے‘ وہ بھی اس میں آ  جاتا ہے کہ میرا یہ نمائندہ ہے‘ میری جگہ یہ بولے گااور کاتب لکھ لے گا۔
لکھنے کے بعد اس پر تم مسلمانوں میں سے دو مرد گواہ ہوں جو عادل ہوں‘ عاقل اوربالغ ہوں چونکہ شہادت کے لئے عدل شرط ہے۔ کوئی ایسا آدمی جس کے ذمے چوری یا ڈاکہ ہو‘ کوئی ایسا آدمی جس کے ذمے جھوٹ بولنے کی تہمت ہو‘ وہ شہادت کے قابل نہیں ہے۔ اگر دومرد اس وقت موقع پر میسر نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں ضرور ہوں۔ گواہی دینے والا ایک مرد ہو اور دو عورتیں ہوں تو اس طرح بھی دوگواہوں کی شرط پوری ہو گئی۔ اس پہ ہمارے ہاں بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ عورت کو برابری کے حقوق نہیں دیئے اور قرآن نے عورت کی شہادت آدھی قرار دے دی۔ قرآن حکیم نے جہاں یہ حکم دیا ہے کہ عورتیں دو ہوں وہاں اس کی مصلحت بھی خود ارشاد فرما دی ہے۔اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔ عورت اور مرد اللہ کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔ دونوں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ جزا و سزا دونوں کے لئے ہے۔ جنت بھی عورت اور مرد دونوں کے لئے ہے اور دوزخ بھی مرد اورعورت دونوں کے لئے ہے۔ کیوں بھول جائے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے مرد ا ور عورت کے وجود میں فرق ہے۔ ان کے اوصاف میں فرق ہے اوران کی ذمہ داریوں میں فرق ہے۔ چونکہ کاروبار‘ رزق کمانا اور بچوں کا پیٹ پالنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ عورت اس میں بہت کم مداخلت کرتی ہے جب تک وہ مجبور نہ ہو جائے۔ کوئی مرد کمانے والا نہ رہے تو عورت اس میدان میں آ سکتی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اسلام نے روکا نہیں ہے۔ چونکہ عورتوں کو اس شعبے سے سابقہ ہی کم پڑتا ہے‘ تو ایک دفعہ گواہ بنانے کے بعد شاید برسوں گزر جائیں اور اسے یاد رہے یا نہ رہے۔ مرد کاچونکہ روز کا یہ کام ہے‘ اسے یاد رہتا ہے۔ فرمایا یہ اس لئے نہیں کہ عورت کوئی کم تر مخلوق ہے‘ یہ اس لئے ہے کہ یہ شعبہ عورت کا نہیں ہے‘ خواتین ہوں تو دو رکھو۔اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری خاتون اسے یاد دلا دے۔ 

معرفت باری تعالٰی

حدیث قدسی ہے کنت کنزاً مخفیاً فاحببتُ ان اعرفُ فخلقت الخلقکہ میں ایک ایسی شان رکھتا تھا جیسے کوئی پوشیدہ خزانہ ہو‘ میری مخلوق میں سے کسی کو جرأ ت نہیں تھی کہ وہ میرے جمال جہاں آرا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا‘ میری مخلوق میرے حکم کی تابع تھی لیکن میری ذات‘میری عظمت اور میری شان سے تعلق استوار کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ فاحببت ان اعرف۔ پھر میری ذات کو یہ بات پسند آئی کہ کوئی تو میرا جاننے والا بھی ہونا چاہئے۔ اس ساری مخلوق میں کوئی تو ایسا ہو جس کا میرے ساتھ تعلق ہو‘ محبت کا الفت کا‘ جو میرے لئے تڑپے‘ جو میرے لئے بے قرار ہو‘ جو میرے جمال کا منتظر ہو‘ جو میرے قرب کا متقاضی ہو‘ جو مجھے دیکھنا چاہے‘ جو مجھ سے بات کرنا چاہئے‘ جو میرے ہجر میں تڑپے‘ جو میرے وصال کے لئے بے قرار ہو‘ کوئی تو ایسا بھی ہونا چاہئے۔ اُس کے لئے میں نے اس مخلوق کو‘ نوع انسانی کو بنا دیا۔ ساری مخلوق میں بنی نوع انسان میں نبوت عطا فرمائی اور نبوت ہی وہ عظیم دروازہ ہے جس سے معرفت الٰہی کے سوتے پھوٹتے ہیں اور بندے کو یہ جرأ ت نصیب ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے طفیل وہ اللہ کا طالب بن جاتا ہے‘ وہ اللہ کا قرب چاہتا ہے‘ وہ اللہ کا وصال چاہتا ہے‘ وہ اُس کی دوری سے گھبراتا ہے۔ ایک ایسی بہترین مخلوق پیدا فرمائی جس کی خدمت میں ساری کائنات کو لگا دیا۔ جتنے ستارے یا سیارے آسمان کی وسعتوں میں تیرتے پھرتے ہیں اُن سب کا کچھ نہ کچھ اثر زمین پہ مرتب ہوتا ہے۔ کسی سے کھیتیاں اُگتی ہیں‘ کسی سے بارشیں برستی ہے‘ کسی کے اثرات سے پھل پکتے ہیں‘ کسی کے اثر سے اُن میں مٹھاس آتی ہے‘ وہ سارے روئے زمین پر مختلف چیزوں کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔ فرمایا:  جو کچھ میں نے زمین میں تخلیق فرمایا وہ سب تمہاری خدمت کے لئے ہے اور  الذریت 56:جنوں اور انسانوں کو میں نے اپنی اطاعت کے لئے‘ اپنے قرب کے لئے‘ اپنی محبت کے لئے پیدا فرمایا۔ ورنہ ساری مخلوق تو اُس کی اطاعت میں ہمہ وقت کمربستہ ہے لیکن وہ اطاعت حکم کی ہے اور انسان ایسی مخلوق ہے جو حاکم کا قرب چاہتاہے‘ اُس کی اطاعت اس لئے کرتا ہے کہ اُسے اُس ذات کا قرب نصیب ہو جائے‘ وصال نصیب ہو‘ اُسے دیکھے‘ اُس سے بات کرے‘ اُس سے اپنی طلب‘اپنے دکھ‘ اپنی تڑپ‘ اپنی محبت کا اظہار کرے۔ وہ ہستی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش کر دیا۔ کیسا عجیب فرش ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اُسے وہ سمو لیتا ہے۔ ہم بستیوں کی بستیاں جلا دیتے ہیں‘ زمین اُسے ڈھانپ لیتی ہے۔ ہم بے شمار غلاظتیں پھیلاتے ہیں‘ زمین سب کو سمو لیتی ہے اور اس کے بدلے میں ہمیں بہترین اور خوبصورت رزق عطا کرتی ہے۔ آج تک دنیا سے گزرنے والے لوگوں کو دیکھو‘ اگر زمین اپنا سینہ فراخ کر کے نہ سماتی تو آج کسی کے لئے سانس تک لینا ممکن بھی نہ ہوتا۔ سب کچھ سما لیتی ہے۔ اتنی نرم ہے کہ آپ اُسے سوئی سے کھودنا شروع کر دیں تو کھودتے چلے جائیں گے لیکن اتنی مضبوط ہے کہ سینکڑوں منزلہ عمارت اس کے سینے پہ کھڑی کر دو تو اٹھا کر کھڑی ہے۔ کوئی مر جائے تو اُسے قبول کر لیتی ہے‘ جو زندہ ہے اُسے رزق دیتی ہے اور کتنی مخلوق ہے کہ زمین کا سینہ پھاڑ پھاڑ کر طرح طرح کی نعمتیں حاصل کر رہی ہے۔ اپنے لئے رزق حاصل کر رہے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں‘ کب سے یہ کھیتیاں اُگ رہی ہیں‘ کب سے یہ پھل پک رہے ہیں‘ کب سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور زمین دیے جا رہی ہے‘ دیے جا رہی ہے‘ لیکن کوئی چیز ختم ہونے میں نہیں آتی۔ کب سے شروع ہے اب تک گھاس اُگنا ختم ہو گئی ہوتی‘ فصلیں ہونا ختم ہو گئی ہوتیں‘ پھل اُگنا ختم ہو گئے ہوتے لیکن نہیں ہو رہے۔ اُس کے اپنے خزانے ہیں اور تمہارے لئے اُس نے اتنی نعمتوں اور اتنے خزانوں کا منہ کھول دیا ہے کہ تم کبھی بھی اُس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ صاحب خرد کو دعوت فکر ہے کہ کوئی بیٹھ کر سوچے تو سہی کہ اللہ کی کتنی نعمتیں ہیں جو بے تحاشا استعمال کی جا رہی ہیں اور کون منعم حقیقی ہے جو دیئے جا رہا ہے‘ پھر وہ بارشیں برساتا ہے پھر تمہارے لئے نئے نئے پھل‘ نئے نئے پودے‘ نئی نئی غذا‘ نئی نئی چیزیں پیدا فرماتا ہے۔ فرمایا: تم جانتے ہو کہ یہ سارا کام صرف وہ ایک ہستی انجام دے رہی ہے لیکن تم اُس کے شریک بنا لیتے ہو۔ اُس کے برابر لوگوں کو اور اُس کے برابر دوسروں کو سمجھنے لگتے ہو۔ 

 


مصارف زکٰوۃ

صدقات دوقسم کے ہیں۔نفل صدقات اور فرض صدقات،فرض صدقات میں سر فہرست زکوٰۃ ہے۔ اسلام کا معاشی نظام دنیا کے تمام نظاموں سے منفرد اور بہترین نظام ہے کہ اللہ کا عطاکردہ ہے اللہ اپنی مخلوق کا بھی خالق ہے اور ان کی ضروریا ت کا بھی خالق ہے ان کی خواہشات و آرزوؤں کو بھی جانتا ہے اور ان کی تکمیل کے بھی وہ ذرائع صحیح ہیں جو اللہ کریم نے مقرر فرمائے ہیں نفلی صدقہ مومن و کافر ہر ایک کو دیا جاسکتا ہے لیکن فرض صدقات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں زکوٰ ۃ صرف مسلمانوں سے لی جائے گی کہ غیر مسلم پر زکوٰۃ بھی فرض نہیں مسلمانوں سے ہی لی جائے گی اور مسلمانوں کو ہی دی جائے گی۔جس کے پاس کوئی رقم جو چالیس روپے سے زائد ہو اور ایک سال تک اس کے پاس محفوظ رہے اس کی ضرورت میں استعمال نہ آئے تو اس میں سے اسے ایک روپیہ زکوٰۃ کے لیے دینا فرض ہے۔گویا سومیں سے اڑھائی فیصد ٹیکس وہ ہے جو زائد ہے از ضرورت رقم پر لگے گا اور غریب مسلمانوں پر ہی خرچ ہوگا۔اس کے آٹھ مصارف ہیں جو خود اللہ کریم نے مقرر فرما دیے۔وہ کسی کی تقسیم نہیں ہے اللہ کی اپنی تقسیم ہے حتیٰ کہ اللہ کریم نے اسے انبیاء علیہم الصلوٰۃ پر بھی نہیں چھوڑا اپنی طرف سے ان کی تقسیم مقرر فرما دی اور یہ بہتر معاشی نظام ہے۔چونکہ اسلام ارتکازِ دولت کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی دولت ایک جگہ جمع ہوتی جائے، امیر امیر تر ہوتے جائیں اور غریب غریب تر ہوتے جائیں۔دنیا کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ بھی یہی ہے۔دنیامیں ایسے نظام موجودہیں کہ جس کے پاس پہلے دولت ہے وہ اور جمع کرتا جاتا ہے اور جو پہلے تہی دست ہے وہ اور غریب ہوتا چلا جاتا ہے۔یہ صرف اسلام ہے جس نے زکوٰۃ کا نظام دیا ہے جس کے سبب جوزائد از ضرورت دولت ہے وہ چالیس تیس برس میں واپس گردش میں آجاتی ہے۔ اگر ڈھائی فیصد ایک سال آئے گی تو چالیس سالوں میں گویاوہ ساری واپس گردش میں آجاتی ہے۔اسی معاشرے میں گردش کرے گی پھر اس کے نفلی صدقات کی بہت ترغیب دی بہت سے گناہوں کا کفارہ نفلی صدقات کی صورت میں فرمایا اور بہت سی خطاؤں سے تلافی کے لیے غلام آزاد کرنے کرنے کی ترغیب دی۔ اسلام غلامی کے بھی خلاف ہے اور غلاموں کو آزاد کرنے پر اللہ کریم نے بڑے اجرکا وعدہ فرمایا ہے حتیٰ کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے ایک مدمصارفِ زکوٰۃ میں مقرر کی لیکن اس اطلاق صرف مسلمان غلاموں پرہی ہو گا۔
زکوٰۃ کے مصارف:
انما الصدقت للفقرائزکوٰۃ کا سب سے پہلا مصرف فقیر کی امداد ہے۔ فقیر اسے کہتے ہیں جو بالکل تہی دست ہو۔جس کے پاس نہ گھر ہو نہ ٹھکانہ،نہ روزگار ہو نہ کوئی ذریعہ معاش تو سب سے پہلا حق محتاجوں یعنی فقراء کا ہے۔
والمسکین اس کے بعد غریبوں کا حق ہے۔ اصطلاح قرآن میں غریب و مسکین وہ ہو گا جس کے پاس مکان،جھونپڑا یا ٹھکانہ بھی ہے، گھر بھی ہے،کچھ مزدوری بھی کرتا ہے لیکن اس کی ضروریا ت پوری نہیں ہوتیں اس کی اتنی آمدن نہیں ہے کہ اپنی ضروریات آسانی سے پورا کرسکے تو وہ غرباء کے ضمن میں آئے گا وہ بھی مستحق ہے کہ زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جائے۔
  والعملین علیھا تیسرے وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کو جمع کرنے پر مقرر کیے جائیں گے اور جو زکوٰۃ کو جمع کرنے پر مقرر کیے جائیں یہ ضروری تو نہیں کہ وہ فقیر ہوں یا محتاج ہوں کوئی بھی اس کام پر لگ سکتا ہے اس پر مفسرین کرام، علماء فقہاء حضرات نے بڑی لمبی بحثیں فرمائی ہیں۔ مفتی محمد شفیع ؒ نے ان مباحث کو معارف القرآن میں یکجا کردیا ہے سب کا محاصل یہ ہے کہ عاملین کو زکوٰۃجمع کرنے پر تنخواہ نہیں دی جاتی۔ زکوٰ ۃ جمع توایک عبادت ہے، عبادت پہ اجرت نہیں ہوتی لیکن ان کا وقت لیا جاتا ہے وہ اور کوئی اور کام نہیں کر سکتے،کاروبارنہیں کر سکتے،مزدوری نہیں کرسکتے۔شب و روز اسی میں مصروف رہتے ہیں تو جو اجر ت انھیں دی جاتی ہے تو یہ ان کے اس وقت کی اجرت ہے جو ان سے لیا جاتا ہے۔اسی سے علماء نے آئمہ مساجد جو قرآن و حدیث پڑھاتے ہیں ان کی تنخواہوں کا جواز پیدا فرمایا ہے کہ قرآن پڑھانے کی تو اجرت جائز نہیں ہے نماز پڑھانے کی اجرت بھی جائز نہیں ہے خود امام پر بھی تو نماز فرض ہے اس نے بھی پڑھنی ہے دوسروں کو پڑھادی تو اور ثواب ہوگااس پر تنخواہ کس بات کی۔ علماء یہیں سے اخذ کرتے ہیں کہ اگر کسی پابند کر دیا جاتا ہے کہ اس نے پانچوں نمازیں یہیں پڑھنی ہیں جمعہ کا خطاب یہاں مسجد میں دینا ہے تو اس کا جو وقت لیا جاتااس وقت کی اجرت دی جاتی ہے عبادت کی اجرت نہیں ہے نماز تو خود اس پر فرض تھی۔
والمولفۃ قلوبھم اور وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہو۔کسی نے اسلام قبول کیا یا کوئی پہلے سے مسلمان ہے لیکن انتا کمزور ہے، اتنا غریب ہے کہ اس کی کمزوری کافائدہ اٹھا کر غیر مسلم اسے پریشان کر تے ہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اور اس کو  محتاجی سے بچانے کے لیے فرض صدقات میں اللہ نے اس کا حق مقرر کردیا ہے کہ اسے بھی زکوٰۃ میں سے حصہ دیا جائے گا۔
وفی الرقابغلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے نہ صرف فرض صدقات میں ان کا حصہ رکھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی ترغیب دلانے کے لیے، گناہوں کے کفارے کے طورپر اور نیکی و ثواب حاصل کرنے کے لیے غلاموں کی آزادی کو ذریعہ قرار دیا حتیٰ کہ اگر کسی سے سہواً قتل ہوجائے تو اس کی سزا بھی غلام آزاد کرنا قرار دیا۔
والغرمینمقروض لوگوں کی مدد کی جائے مقروض یہ نہیں کہ بالکل فقیرو محتاج ہی ہو کوئی صاحب حیثیت بھی ہے لیکن اس کی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ اپنے اخراجات پورے کرکے قرضہ بھی اتار سکے آمدن اتنی ہی ہے کہ اس کا گزارہ ہورہا ہے لیکن پیسے اتنے نہیں بچتے کہ وہ قرض اتار سکے تو وہ بھی اس کا مستحق ہے اس کا قرض اتارنے میں زکوٰۃ میں سے اس کی مدد کی جائے۔
و فی سبیل اللہ اور اللہ کی راہ۔فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے فی سبیل اللہ سے مراد ہے کہ معاشرے کا کوئی ایسا اصلاحی کام جس سے معاشرے کی دینی اعتبار سے اصلاح ہوتی ہو یاجہاں ملکی دفاع کی بات آجائے یا کافروں سے مقابلہ آجائے۔
وابن السبیل مسافر زکوٰۃ کا مستحق ہے خواہ وہ اپنے گھر میں کتنا ہی امیر آدمی ہو لیکن اگر دوران سفر وہ بھی ضرورت مند ہوجائے تو وہ بھی مسکین ہے، محتاج ہے جیسے کسی نے اس کی جیب کاٹ لی، اس کا زادِ راہ ختم ہوگیا تو مسافرکی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے۔
زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ہیں ان کے علاوہ کسی جگہ زکوٰۃ کو پیسہ صرف نہیں ہوسکتا۔جن لوگوں لو اللہ نے صاحب نصاب بنایا ہے اور توفیق دی ہے جب وہ زکوٰۃ دیتے ہیں تو ان کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ زکوٰۃ کہاں دے رہے ہیں اور کیا یہ زکوٰۃ کا مصرف ہے بھی یا نہیں۔ہم اگر دیتے بھی ہیں تو جان چھڑاتے ہیں کہ اتنے پیسے کسی پکڑا دیے اس طرح نہیں کرنا چاہیے،احتیاط چاہیے کہ جب تک وہ اپنے مصرف تک نہیں پہنچے گی دینے والے پر اسی طرح فرض رہے گی۔فرض تب ادا ہوگا جب زکوٰۃ اپنے مصرف تک پہنچ جائے گی یا کسی شخص کو آپ دیتے ہیں تو اس پر آپ کو اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ یہ شخص مصارف زکوٰۃ پر میری زکوٰۃ خرچ کرے گا۔

حکمت و دانش

 قرآن حکیم کے نزدیک دانش مندی یہ ہے کہ آدمی میں یہ فکر زندہ ہو جائے کہ وہ دنیا اور آخرت کو جانچ سکے اور کام کرتے وقت دیکھے کہ میں جو کام کر رہا ہوں‘ دنیوی اعتبار سے اس کا نفع و نقصان کیا ہے اور آخرت کے اعتبار سے کیا ہے۔ اگر کسی میں یہ شعور آ جائے تو قرآن حکیم کہتا ہے کہ اس کے پاس حکمت ہے۔ اللہ نے اسے دانائی دے دی‘ اسے دانش دے دی اور اللہ نے جسے دانش و حکمت دے دی‘ اسے بہت بڑی بھلائی دے دی‘ اسے بہت بڑی نعمت دے دی۔ جانوروں کی طرح زندگی نہ گزاری جائے۔ اس طرح زندگی نہ گزاری جائے کہ جدھر اسے ہوس لے جائے ادھر بھاگتا رہے بلکہ جو چیز‘ جو موقع‘ جو محل‘ جو کام‘ جو فیصلہ سامنے آئے‘ آخرت و دنیا‘ دونوں کے اعتبار سے اس پر نظر کرے۔ یہ کام کروں گا تو اس کا اثر آخرت میں کیا ہو گا اور یہ کام کروں گا تو اس کا دنیا میں نفع و نقصان کیا ہو گا؟ آخرت کے فائدوں کو دنیا کے فائدوں پر ترجیح دے تو یہ حکمت ہے‘ یہ دانائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جسے دانش دی گئی‘ دانائی دے دی گئی۔  اسے بہت بڑی نعمتیں مل گئیں۔ سب سے بڑی خیر مل گئی۔ اس لئے کہ نصیحت بھی وہی حاصل کرتے ہیں جن کو یہ خیر کثیر ملتی ہے‘ دانش ملتی ہے۔ جو عقل مند ہوتے ہیں‘ جو صاحب عقل و خرد ہوتے ہیں‘ نصیحت بھی انہیں پر اثر کرتی ہے۔ نصیحت سے سبق بھی وہی لوگ حاصل کرتے ہیں۔
مفسرین کرام نے حکمت کا معنی فہم دین کیا ہے۔ لغوی اعتبار سے حکمت کا معنٰی ہے کہ ایک شخص کسی کام کرنے کا صحیح طریقہ اور اس کا سبب سمجھتا ہو۔ یہ کام کیوں کرنا ہے‘ وجہ معلوم ہو اور کیسے کرنا ہے‘ وہ سلیقہ بھی آتا ہو۔ قرآن حکیم نے حکمت و دانش اس بات کو قرار دیا ہے کہ کوئی عظمت رسالت سے دلی طور پر آشنا ہو جائے‘ کسی کو یہ شعور نصیب ہو جائے کہ واقعی محمد رسول اللہﷺ وہ ہستی ہیں جن کا اتباع ضروری ہے اور یہ محض حکماً نہیں۔ اس کا دل بھی یہ فیصلہ کرے کہ صحیح بات یہی ہے۔ دین کیا ہے؟ دین نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعین کردہ اوامر و نواہی کا مجموعہ ہے۔ آپﷺ نے جو کرنے کا حکم دیا ہے‘ وہ کرنا دین ہے۔ کسی کام سے حضورﷺ نے روک دیا ہے تو رک جانا دین ہے۔ اللہ کریم کا احسان ہے کہ ہمیں یہ نعمت نصیب ہے کہ ہم آپﷺکو اللہ کابرحق سچا نبی‘ رسول‘ امام الانبیاء اور خاتم المرسلین مانتے ہیں۔ آپﷺ کی اطاعت کو فرض جانتے ہیں اور اپنی جان تک لگا دینا سعادت سمجھتے ہیں۔ حضورﷺ کے اتباع میں اور آپﷺ کی غلامی کے ساتھ ہمارا دماغ‘ ہمارے دل اور دل کی گہرائیوں کا تجزیہ بھی اس بات کو تسلیم کر لے کہ یہی زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔ہمارے سامنے احکام شریعت آتے ہیں تو دل میں بے شمار اوہام آتے ہیں کہ ایسا کیوں کرنا ہے لیکن ہم کرتے بھی ہیں‘ اللہ توفیق دیتا ہے اور ہم اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ شریعت کا ایک حکم ہے‘ہم اسے مانتے بھی ہیں لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کرنا ہے؟ اس پر ہم خاموش ہو جاتے ہیں کہ یہ سوال کسی سے پوچھا تو وہ کہے گا کیا فضول بات کرتے ہو۔ اپنے آپ کو چپ کرا دیتے ہیں کہ چھوڑو اس کے پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ بس ہم مسلمان ہیں اور ہماری مجبوری ہے کہ ہمیں ایسا ہی کرنا ہے۔ کچھ خوص نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس سے آگے چلے جاتے ہیں۔ اللہ کریم ایسا فہم و شعور عطا کر دیتا ہے کہ ان کا دل‘ ان کا دماغ‘ ان کا شعور و لا شعور‘ سب مل کر یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ کرنا وہی چاہئے جو محمد رسول اللہﷺ نے کرنے کا حکم دیا ہے اور جس کو یہ فہم و ادراک نصیب ہو جائے تو سمجھیں اسے اللہ نے حکمت عطا کر دی۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن بہت بڑا فرق ہے۔ جب ہم نے حکم کی تعمیل کی‘  اللہ قبول فرمائے تو مقصد پورا ہو گیا۔ تعمیل تو کر دی لیکن دل میں ایک بات رہ گئی کہ یہ ماننا تو  میری مجبوری تھی کہ مسلمان ہوں اور میں آپﷺ اور اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتا اس لئے میں نے مانا اور اطاعت کی لیکن ایسا کیوں کرنا چاہیے۔ 
انسان بعض دفعہ یہ سوچتا ہے کہ دن میں پانچ دفعہ نماز کیوں پڑھے‘ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے! وہ پڑھتا بھی ہے‘ عمل بھی کرتا ہے لیکن خوش نصیب وہ ہے جسے ان سب احکام کی وجہ بھی سمجھ میں آ جائے۔ جس کا فہم و ادراک بھی یہ کہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘ جو اللہ نے فرمایا وہ صحیح ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ جو حضورﷺ نے فرمایا‘ وہ نہ صرف صحیح ہے بلکہ صرف وہی صحیح ہے اور ویسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس بات کی سمجھ بھی آ جائے‘ عقل بھی اسے تسلیم کر لے‘ دل بھی اسے مان جائے تو یہ حکمت ہے‘ یہ دانائی ہے۔ اللہ جس پہ احسان کرنا چاہتا ہے‘ جسے نوازنا چاہتا ہے‘ جس پہ اپنی بے انتہا مہربانیاں کرنا چاہتا ہے‘ اسے یہ حکمت و دانش عطا کر دیتا ہے اور جسے یہ حکمت نصیب ہو گئی اسے بے پناہ دولت مل گئی‘ بے پناہ بھلائی مل گئی‘ بے حساب خیر مل گئی۔ پھر اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی اور نصیحت بھی وہی حاصل کرتے ہیں جو صاحب خرد ہوتے ہیں جو دانش مند ہوتے ہیں‘ صاحب عقل ہوتے ہیں۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّات۔ دین کاسارا دارومدار اس بات پر ہے کہ دل کی گہرائی میں کیا نیت ہے۔ اعمال کی کوالٹی اس پر منحصر ہے کہ اس عمل میں کتنا خلوص ہے یا کتنی گہرائی ہے۔ اس ارادے‘ اس فیصلے پہ منحصر ہے جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں ہے اور دل کو خرد آشنا کرنے کے لئے‘ اللہ کی رحمت سے لبریز کرنے کے لئے‘ حکمت و دانائی سے آشنا کرنے کے لئے اللہ کریم نے جگہ جگہ کتاب اللہ میں ذکر دوام اور ذکر خفی‘ ذکر قلبی کا حکم دیا ہے۔ جب تک قلب خود ذاکر نہیں ہو گا‘ عظمت باری سے آشنا نہیں ہو گا‘ برکات نبوت کی لذت کو نہیں چکھے گا‘ اسے وہ مزا نہیں آئے گا جو محض ہمارے کہنے سے عمل کر رہا ہو گا اور خود کو اس میں ابھی کچھ تحفظات ہوں گے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ سارے کا سارا تصوف اور اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اتباع شریعت میں ہمارے وجود اور ہمارے دماغ کے ساتھ ہمارا دل بھی شامل ہو جائے اور اگر ایسا ہو جائے تو اللہ کریم کا بہت بڑا انعام ہے کہ پھر وجود کا ذرہ ذرہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔