Latest Press Releases


صالح عمل کی قبولیت کی دلیل یہ ہے کہ مزید نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے


جیسے وجود کے لیے خوراک کی ضرورت ہے ایسے ہی روح کے لیے ایمان اور عبادات کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایمان اور عبادات نہ ہوں تو روح کمزور ہو جاتی ہے۔جہاں عقیدہ نہ ہوپھر ہر شئے ہونے کے باوجود بھی زندگی بے معنی لگتی ہے۔ہر بندے میں اللہ کریم نے یہ استعداد رکھ دی ہے کہ وہ حق اور ناحق کو پہچان سکے۔ہم اللہ کریم کو اتنا ہی جان سکتے ہیں جتنا اُس نے انبیاء ؑ کے زریعے ہمیں اپنے بارے بتایا ہے مخلوق میں یہ استعداد نہیں کہ اللہ کی ذات کو خود سے جان سکے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ وسر براہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے روز خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ بیت اللہ شریف میں اللہ کریم نے بے شمار برکات رکھی ہیں۔حج کرنے والاگناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے  جیسے آج پیدا ہوا ہے۔برکات میں قرب ا لٰہی اور رحمت الٰہی بھی شامل ہے۔اللہ کریم نے مخلوق کو جس عبادت کا حکم فرمایا ہے اس کا فائدہ مخلوق کو ہی ہے اللہ کریم تو بے نیاز ہیں اور مخلوق محتاج ہے۔ایمان کے بعد جو عبادات نصیب ہوتی ہیں اس سے بندگی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔اللہ کا قرب نصیب ہوتاہے۔انسان اس کائنات میں ایک اکائی ہے اس حضرت انسان پر اللہ کریم نے بہت زیادہ احسانات فرمائے ہیں۔اس کی ہر طرح سے رہنمائی فرمائی ہے۔جس سے سہولت بھی ملتی ہے اور اجروثواب بھی عطا ہوتا ہے۔اللہ کریم نے جب انسان کو پیدا فرمایا ہے تو اس کی راہنمائی کے لیے زندگی گزارنے کے اصول اور ضابطے بھی ارشاد فرمائے ہیں۔جو اللہ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے گا وہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیاب ہوگا۔ورنہ ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوں نے زندگی بیت اللہ شریف میں بسر کی لیکن ایمان بھی نصیب نہ ہوا۔بیت اللہ شریف کی حاضری اگر رواجات کی نذر کر دیں گے تو کیا حاصل؟ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Saleh amal ki qabuliat ki Daleel yeh hai ke mazeed naik aamaal ki tofeq naseeb hoti hai - 1

بیت اللہ شریف کرہ ارض پر ایسا مقام ہے جہاں تجلیات باری کا نزول ہو رہا ہے


بیت اللہ شریف کرہ ارض پر ایسا مقام ہے جہاں تجلیات باری کا نزول ہو رہا ہے۔اللہ کریم نے یہ مرکزیت کل عالم اسلام کو عطا فرمائی ہے . بیت اللہ شریف کی حاضری بندہ مومن کے باطن کو پاکیزہ کر دیتی ہے۔آج ہم نے اس مقدس عمل کو رواجات کی نذ ر کر دیا ہے ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال حج و عمرہ کے لیے جاتے ہیں اس کے باوجود ہمارے لین دین میں ایمانداری اور کھرا پن نہیں ہے۔بیت اللہ شریف موجود ہے اور طواف جاری ہے یہ طواف بقائے دنیا کا سبب ہے جس دن طواف رکے گا اُس دن اس دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ کا دوروزہ ماہانہ روحانی تربیتی اجتماع پر خواتین و حضرات کی بڑی تعداد سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ رواجات کو عبادات میں داخل کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اس لیے ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ جب ہم حرم شریف جاتے ہیں تو اس کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھیں۔عبادات میں توجہ بڑی بنیادی بات ہے۔جس عبادت میں توجہ نہیں ہو گی وہ نتائج نہیں دے گی۔کسی بھی نیک عمل سے مزید وری تقوی نصیب ہوتا ہے۔مزید نیکی کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔کثیر تعداد ایسی ہے جو ان با برکت مقدس مقامات سے ہو کر آتی ہے کیا ہمارے کردار سے اس کی برکات عیاں ہوتی ہیں؟ جتنے بھی اسلامی ملک ہیں ان میں اسلامی احکامات کو جب ہم دیکھتے ہیں کوئی سمجھ نہیں آتی کہ ہماری بیت اللہ شریف کی حاضری میں کہاں کمی رہ جاتی ہے کہ اس کے اثرات ہماری زندگیوں میں نظر نہیں آتے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ماننے کے ساتھ صدق نہیں ہے۔ہم ایمان میں یقین کے اُس درجہ تک نہیں پہنچ سکے جو درکار ہے۔ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن ہمارے اندر برائی بھی موجود ہے اور بے حیائی بھی۔ہم پر نماز کے نتائج اور اس کے اثرات مرتب کیوں نہیں ہو رہے؟ ہمیں اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں جو کر رہا ہوں کیا میرے اندر بھی یہی بات ہے یا اندر کچھ اور ہے نہاں خانہ دل میں کیا ہے؟حرمین شریف میں جسے موت نصیب ہوئی قیامت کے روز جب اُٹھے گا اسے دوزخ کا خوف نہ ہوگا ایسی برکات ہیں ان مقدس مقامات کی لیکن ہم پر ان کی حاضری سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملک و قوم کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی
Bait Ullah shareef kurrah arz par aisa maqam hai jahan tjlyaat e baari ka nuzool ho raha hai - 1

ریاستِ اسلامی ہر ایک کو زندہ رہنے اور عقیدہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔


آج معاشرے میں انصاف کے حصول کے لیے بھی ظلم کیا جا رہا ہے۔جیسے آگ کو آگ سے بجھانے کی کوشش ہو جو کہ نا ممکن عمل ہے۔
 اللہ کریم نے ہمیں دین اسلام عطا فرمایا اس حق کا اقرار کرلینے کے بعد بھی ہم شرمندہ شرمندہ سے مسلمان ہیں۔ ادیان باطلہ کے ماننے والے ہم سے زیادہ یقین کے ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں حالانکہ دین اسلام ہر بندے کو عقیدہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔آج کا بہت بڑا دھوکہ یہ ہے کہ انسانیت ہی مذہب ہے جبکہ اسلام نے انسانیت کے اسلوب سکھائے اگر انسانیت میں سے اسلام کو نکال دیا جائے تو پیچھے صرف حیوانیت رہ جاتی ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سر براہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے روز خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ریاستِ اسلامی ہر ایک کو زندہ رہنے اور عقیدہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔کسی پر کوئی ذبردستی نہیں کی جاتی۔جہاں ان کی جان،مال اور عزت کی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے وہاں ان کی عباد ت گاہوں کی بھی ریاست ذمہ دارہے۔ہمیں اپنی حیثیت اپنا اقتدار بہت عزیز ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ بڑے بڑے مقتدر لوگ دنیا میں آئے اور فنا ہو گئے ہمیں بھی اس فانی جہان کو چھوڑ کر ایک دن جانا ہے۔یہ حکومتیں یہ طاقتیں یہ اقتدارو اختیارات ہی سب کچھ نہیں ہے جس کو ہم نے زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے اور اسی کے پیچھے زندگی گزار دی ہے۔عوام چیخ و پکار کر رہی ہے کوئی سننے والا نہیں کسی کو عوام کے درد دکھائی نہیں دے رہے سب اپنی طاقت میں مگن ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی غلطی کی اصلاح کے لیے انصاف کا پہلو اختیار نہیں کرتے بلکہ مزید ظلم کر رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اس لیے ہے کہ غلطی دور ہو جائے۔ایسے کرنے سے نتائج تکلیف دہ ہی ہوں گے۔ اس طرح کوئی مثبت تبدیلی تو آنے سے رہی۔ہمیں ضرورت ہے کہ ہم وہ راستہ اختیار کریں جو نبی کریم ﷺنے ہمارے لیے پسند فرمایا ہے۔اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
  یاد رہے کہ 8،9 نومبر بروز ہفتہ اتوار مرکز دارالعرفان منارہ میں ماہانہ روحانی اجتماع منعقد کیا گیا ہے جس میں پاکستان بھر سے سالکین سلسلہ عالیہ اپنی تربیت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔شیخ المکرم مد ظلہ العالی اتوار دن گیارہ بجے خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعابھی ہوگی۔دعوت عام ہے کہ اپنے دلوں کو برکات نبوت ﷺ سے منور کرنے کے لیے تشریف لائیے
Ryastِ islami har aik ko zindah rehne aur aqeedah rakhnay ka haq deti hai . - 1

حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کی کامیاب روحانی تربیتی دورۂ کینیڈا و امریکہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی

تزکیۂ نفس، اخلاصِ قلب، سیرتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی اور نسلِ نو کے لیے خاندانی نظام کی بحالی پر زور
اسلام آباد: شیخِ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی اپنے کامیاب روحانی تربیتی دورۂ کینیڈا و امریکہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور ڈویژن کے ذمہ داران، صاحبِ مجازین، سالکینِ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ، عقیدت مندوں، دوستوں اور احباب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اپنے محبوب شیخ المکرم کا پُرجوش انداز میں خیرمقدم کیا۔
حضرت امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنے اس دورہ کے دوران کینیڈا کے شہروں برامپٹن (Brampton)، اجکس (Ajax)، مسی ساگا (Mississauga, Ontario) اور امریکہ کے شہروں شکاگو (Chicago)، ووسٹر، میساچوسٹس (Worcester, MA)، ورنن، کنیکٹیکٹ (Vernon, CT)، کیانزبرگ، نیو جرسی (Keansburg, NJ)، کیٹنزویل، میری لینڈ (Catonsville, MD)، ویسٹ چیسٹر، پنسلوینیا (West Chester, PA) اور بالٹی مور (Baltimore, MD) میں بعثتِ رحمتِ عالم ﷺ کانفرنسز اور متعدد روحانی پروگراموں میں خطاب فرمایا۔
ان پروگراموں میں ذکر الله، تزکیہ نفس، تصوف و سلوک، اورطریق سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کی تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی، جن سے مقامی احباب، سالکینِ سلسلہ، خواتین و حضرات اور بالخصوص نسلِ نو کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔
اپنے خطابات میں حضرت شیخِ المکرم  نے فرمایا کہ انسان کی اصل پہچان اس کا دل ہے۔ جب دل اللہ کی یاد سے روشن ہو جاتا ہے تو بندے کے فیصلے بھی اللہ کی رضا کے مطابق ہونے لگتے ہیں۔ صوفیائے کرام ہمیشہ دلوں کی اصلاح پر محنت کرتے ہیں تاکہ اعمال خالصتاً اللہ کے لیے ہوں۔
انہوں نے فرمایا کہ ایمان کی روشنی اور دلی خلوص ہی معاشرتی سکون کی بنیاد ہیں۔ آج کا انسان جدت اور ترقی کے باوجود اضطراب، anxiety disorders اور ڈپریشن کا شکار ہے، کیونکہ اس نے اپنے معاملات کو دین سے جدا کر لیا ہے۔ حقیقی اطمینان صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے۔
انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں سے نکل کر مضبوط بننے کی ضرورت ہے تاکہ اقوامِ عالم میں ان کی بات سنی جائے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کمزور ہمیشہ مسائل کا شکار رہتا ہے۔
انہوں نے خاندانی نظام اور رشتوں کے احترام پر خصوصی زور دیا۔ فرمایا کہ والدین، اولاد اور خاندان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اقدار نسلِ نو تک منتقل کریں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، اور سیرتِ نبوی ﷺ پر اجتماعی مطالعے کی روایت قائم کریں۔ قرآنِ کریم زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے اسے صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ سمجھ کر عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
انہوں  نے مزید فرمایا کہ اگرچہ جدید دور سہولتیں فراہم کر رہا ہے، مگر اس نے انسان کو تنہائی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کے اس دور میں نظم و ضبط، خاندانی نظام، اور رشتوں کے احترام پر ازسرِنو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دورے کے دوران حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی نے مختلف مسلم کمیونٹیز، مذہبی و سماجی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور امتِ مسلمہ کے اتحاد، عالمی امن اور روحانی اصلاح جیسے اہم موضوعات پر رہنمائی فرمائی۔ آپ کے خطبات نے کینیڈا و امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی اصل روح، محبت، اخوت اور تربیت محمدی ﷺ کو تازہ کر دیا۔
یہ روحانی تربیتی دورہ محبت، اتحادِ مسلمہ اور ذکرِ الٰہی کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ بنا، جس نے نہ صرف شمالی امریکہ بلکہ دنیا بھر میں مقیم درد دل رکھنے والے مسلمانوں کے قلوب پر گہرا روحانی اثر چھوڑا۔
آخر میں حضرت شیخ المکرم مدظلہ العالی نے اسلام آباد ایئرپورٹ استقبال کے لیے آنے والے احباب سے گرم جوشی سے خصوصی مصافحہ فرمایا، جبکہ احباب و دوستوں نے اظہارِ محبت کے طور پر پھولوں کے گلدستے پیش کیے
Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan ki kamyaab Rohani tarbiati Daura canada o America mukammal karne ke baad watan wapsi - 1

ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے


بندگی کا تعلق اپنے اللہ سے ایسا ہو جائے کہ بندہ اپنے اعمال اپنی سوچوں کا ہر وقت محاسبہ کرتا رہے کہ ایسا عمل نہ ہو جائے جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ایسا کوئی کام نہ کروں جس کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے. انہوں نے کہا کہ ہر دن ہماری سوچوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔زندگی کا ایسا کون سا اصول اور ضابطہ ہو گا جو اعتدال پر بھی ہو جس میں ذات بھی ہو خاندان بھی ہو اور معاشرہ بھی ہو اور سب کے لیے ہو کسی ایک کمیونٹی کی بات نہ آئے۔صرف انسانیت کے لیے نہیں بلکہ پوری خلق کے لیے کارآمد ہو۔اُس اصول کی ضرورت ہے جو مستحکم بھی ہو اور سب کے لیے قابل عمل بھی ہو۔وہ کیسے حاصل کریں؟ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو انسانیت کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن کریم میں ہماری زندگی کی تمام ضروریات کی تکمیل کا طریقہ موجود ہے۔اس کے علاوہ قرآن کریم کا گھر میں ہونا برکت ہے،قرآن کریم کو دیکھنا برکت ہے،قرآن کریم کو چھونا برکت ہے،قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا برکت ہے اصل مقصد قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا بالٹی مور فاطمہ مسجد امریکہ میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب
انہوں نے مزید کہا کہ آپ سوچیں اگر ہماری نیت سے لے کر عمل تک ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہو وہ کیسی زندگی ہو گی۔اس کے معاشرے پر اثرات کیسے ہوں گے۔پھر ہمیں یہ توقع نہیں ہو گی کہ میں نے کسی کے ساتھ اچھائی کی ہے تو بدلے میں وہ بھی میرے ساتھ اچھائی کرے۔کیونکہ ہم تو وہ عمل اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ کو پسند ہے کہ اچھائی کی جائے۔انسانی مزاج ہے ہو نہیں سکتا کہ اگر آپ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ اچھائی کریں اور ہ وہ آپ کے ساتھ برا کرے۔اصول ہے کہ اگر آپ کسی کو عزت دیں واپس وہ عزت آپ کو ملے گی   ہماری ضرورت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کریں۔اپنے بچوں کو سنائیں۔ہفتے میں ایک دن ایسا رکھ لیں جس میں سیرت پاک پر بات ہو جس میں اپنے بچوں کو ساتھ بٹھائیں،آج کی جدت سہولت تو دے رہی ہے لیکن ساتھ ہر ایک کو تنہا بھی کر رہی ہے ہر ایک اپنے کسی حصار میں ہے۔ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zaat se nikal kar makhlooq ke baray sochna yeh hamein islam batata hai - 1

ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنانے کی ضرورت ہے


بعثت رحمت عالم ﷺ سے انسانیت کی ایسی راہنمائی ہوئی کہ بندہ مومن جب اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے تو اس سے مخلوقات کو بھی فلاح نصیب ہوتی ہے۔زندگی تو بسر کرنی ہے کیوں نہ اس راہ کو اختیار کیا جائے جس کا حکم اللہ کریم نے ہمیں دیا ہے۔اللہ کریم نے بنی نوع انسان کو وہی کرنے کا حکم دیا ہے جس کو انسان سمجھ بھی سکتا ہے اور عمل بھی کر سکتا ہے۔اس کا یہ عمل کرنا اس کے ظاہر اور باطن کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا دونوں کے لیے کامیابی کا راستہ ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا نیو جرسی امریکہ میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ جب کوئی اپنی زندگی کے مقصد کو جانے گا نہیں تو عمل کیسے کرے گا؟ نبی کریم ﷺ کا اُمتی ہونا ہمارے لیے شرف کی بات ہے۔ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنانے کی ضرورت ہے انسان کے بنائے قوانین تو انسان خود کچھ عرصے بعد تبدیل کر رہا ہوتا ہے اور جواز یہ ہوتا ہے کہ اس دور سے مطابقت نہیں رکھتے پھر انسان کے بنائے قوانین میں ذاتی پسند و نا پسند کا دخل ہوتا ہے جبکہ اللہ کریم کے بنائے گئے قوانین صدیوں سے چلے آرہے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور قیامت تک کسی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ایسے جامع و اکمل ہیں۔انسانی فطرت کے عین مطابق۔لیکن جب انسان اپنی پسند کے مطابق قوانین بناتا ہے تو اس سے معاشرے میں فساد  پیدا ہوتا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں آج کی اس جدت میں نظم پر اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہمارا خاندانی نظام،رشتے ناطے ان میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کیا جو اقدار ہمیں اپنے بڑوں سے ملیں ہم اپنے بچوں میں منتقل کر رہے ہیں۔کوشش کریں اپنے بچوں کو وقت دیں ان کے ساتھ کم از کم ایک وقت کا کھانا تو کھائیں ان سے اپنے فیملی رسم و رواجات شئیر کریں خاندانی نظام کی اہمیت پر بات کریں رشتوں کے احترام کے بارے بات کریں انہیں احساس دلائیں کہ رشتے کتنے اہم ہوتے ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں
Hamein Allah aur Allah ke rasool SAW ke banaye hue qawaneen ko apnane ki zaroorat hai - 1

محبت رسول ﷺ صرف دعوی کا نام نہیں اس محبت میں وہ خلوص چاہیے جو آپ ﷺ کے اتباع تک لے جائے


حضرت آدم ؑ کا وجود جب مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں (حضرت محمدﷺ) اس وقت بھی اللہ کا رسول تھا۔امام الا نبیاء کو مبعوث فرما کر اللہ کریم فرماتے ہیں کہ بندہ مومن پر میرا یہ سب سے بڑا احسان ہے۔انسان کی تخلیق میں ہے کہ اس نے کسی نہ کسی کو سجدہ ریز ہونا ہے۔  بندہ مومن در در سجدے کرنے کی بجائے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتا ہے جو اسے ہر چوکھٹ سے آزاد کر دیتا ہے۔جو نظریات مخلو ق نے اپنے قائم کیے وہ اقوام ہمیشہ ناکام رہیں اور کامیابی ان کا مقدر ہوئی جنہوں نے اللہ اور اللہ کے نبی ؑ کی بات کو بنیاد بنایا۔خالق کائنات بہتر جانتے ہیں کہ میرے بندے کو کیا پسند ہے؟اس کے لیے کیا بہتر ہے اللہ کریم ایک ایک پہلو میں تربیت فرما رہے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کا  conecticut  امریکہ میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ قلب انسانی وجود میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے جو کیفیات کا بھی گھر ہے۔ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے پاس دنیا کی ہر شئے ہے لیکن دلی اطمینان نصیب نہیں ہے اور ایسے بھی دیکھے جن کے پاس ایک وقت کا کھانامیسرہے لیکن دوسرے وقت کا نہیں ان کو قلبی اطمینا ن نصیب ہے۔دلی اطمینا ن کے لیے نور ایمان شرط ہے۔جب اس دل میں نور ایمان آتا ہے پھر میری پسند،میری مرضی یہ بات ختم ہو جاتی ہے ہر شئے اللہ کی طرف چلی جاتی ہے جیسے میرے اللہ کو پسند،بندہ اللہ کی پسند میں ڈھل جاتا ہے۔صحت آئے یا بیماری اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تنگدستی ہو یا فراخی اسی کی بارگاہ پر رہتا ہے۔گلے شکوے نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ اس کا دل مطمئن رہتا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ محبت رسول ﷺ صرف دعوی کا نام نہیں اس محبت میں وہ خلوص چاہیے جو آپ ﷺ کے اتباع تک لے جائے۔جو ہمیں اپنے اللہ کے روبرو کر دے۔اس کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے جو اللہ اللہ کرنے سے نصیب ہوتا ہے جسے شعبہ تصوف کہتے ہیں۔اللہ کے نام کی تکرار بندے کو اللہ کے روبرو کر دیتی ہے۔ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کی بھی ضرورت ہے آج کی سکرین ہم سے ہماری اولادیں چھین رہی ہے ہمیں انہیں بتانا ہوگا کہ والدین کی اہمیت کیا ہے خاندانی نظام کیا ہوتا ہے۔
  یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کینیڈا اور امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں مختلف شہروں میں کانفرنسز سے خطابات کر رہے ہیں۔اس کے بعد Baltimore،Catonsville،West chester اور Downingtown میں پروگرامز ہوں گے جن میں حضرت شیخ المکرم خطاب فرمائیں گ
Mohabbat rasool SAW sirf daawa ka naam nahi is mohabbat mein woh khuloos chahiye jo aap SAW ke itebaa tak le jaye - 1

ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے


بندگی کا تعلق اپنے اللہ سے ایسا ہو جائے کہ بندہ اپنے اعمال اپنی سوچوں کا ہر وقت محاسبہ کرتا رہے کہ ایسا عمل نہ ہو جائے جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ایسا کوئی کام نہ کروں جس کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے . انہوں نے کہا کہ ہر دن ہماری سوچوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔زندگی کا ایسا کون سا اصول اور ضابطہ ہو گا جو اعتدال پر بھی ہو جس میں ذات بھی ہو خاندان بھی ہو اور معاشرہ بھی ہو اور سب کے لیے ہو کسی ایک کمیونٹی کی بات نہ آئے۔صرف انسانیت کے لیے نہیں بلکہ پوری خلق کے لیے کارآمد ہو۔اُس اصول کی ضرورت ہے جو مستحکم بھی ہو اور سب کے لیے قابل عمل بھی ہو۔وہ کیسے حاصل کریں؟ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو انسانیت کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن کریم میں ہماری زندگی کی تمام ضروریات کی تکمیل کا طریقہ موجود ہے۔اس کے علاوہ قرآن کریم کا گھر میں ہونا برکت ہے،قرآن کریم کو دیکھنا برکت ہے،قرآن کریم کو چھونا برکت ہے،قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا برکت ہے اصل مقصد قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا بالٹی مور فاطمہ مسجد امریکہ میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب
انہوں نے مزید کہا کہ آپ سوچیں اگر ہماری نیت سے لے کر عمل تک ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہو وہ کیسی زندگی ہو گی۔اس کے معاشرے پر اثرات کیسے ہوں گے۔پھر ہمیں یہ توقع نہیں ہو گی کہ میں نے کسی کے ساتھ اچھائی کی ہے تو بدلے میں وہ بھی میرے ساتھ اچھائی کرے۔کیونکہ ہم تو وہ عمل اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ کو پسند ہے کہ اچھائی کی جائے۔انسانی مزاج ہے ہو نہیں سکتا کہ اگر آپ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ اچھائی کریں اور ہ وہ آپ کے ساتھ برا کرے۔اصول ہے کہ اگر آپ کسی کو عزت دیں واپس وہ عزت آپ کو ملے گی   ہماری ضرورت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کریں۔اپنے بچوں کو سنائیں۔ہفتے میں ایک دن ایسا رکھ لیں جس میں سیرت پاک پر بات ہو جس میں اپنے بچوں کو ساتھ بٹھائیں،آج کی جدت سہولت تو دے رہی ہے لیکن ساتھ ہر ایک کو تنہا بھی کر رہی ہے ہر ایک اپنے کسی حصار میں ہے۔ذات سے نکل کر مخلوق کے بارے سوچنا یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zaat se nikal kar makhlooq ke baray sochna yeh hamein islam batata hai - 1

زندگی میں سکھ اور سکون کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے معاملات زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھال لیں۔


بندہ مومن کا ایک ایک لمحہ اس کیفیت میں گزرتا ہے کہ وہ زندگی کو حقائق کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے،تخیلاتی دنیا میں نہیں رہتا۔حقائق سے آگاہی زندگی کو آسان بنا دیتی ہے۔اگر زندگی دین کے مطابق نہ گزرے تو پھر زندگی میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔اسی کو ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔زندگی میں سکھ اور سکون کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے معاملات زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھال لیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا امریکہ کے شہر ووسٹر میں خواتین و حضرات سے خطاب۔
  انہوں نے کہاکہ اللہ کریم نے جس کو جس حیثیت میں جس زمانہ میں پیدا فرمایا اس کا عین وہی مقام ہے۔ہر کوئی امتحان میں ہے کسی کا دکھ میں ہے کسی کا خوشی میں،کسی کا صحت میں امتحان ہے کسی کا بیماری میں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں حالتوں میں وہ صابر اور شاکر رہا؟آج کی جدت یقینا یہ ہماری ضروریات کی تکمیل کے بہتر زرائع ہیں۔دین اسلام اس سے منع نہیں فرماتا لیکن زندگی کی اس تیزی میں کوئی اس طرح کھو جائے کہ اسے یہ خیال ہی نہ رہے کہ یہ فانی جہان ہے ایک دن سب چھوڑ کر چلے جانا ہے اور پھر ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے یہ احساس ہونا چاہیے کہ جو بھی استعداد اللہ نے مجھے دی ہے وہ میرے پاس امانت ہے اسے اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنا ہے۔جیسے ہم کسی بھی ملک کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے وہاں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں ایسے ہی نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو زندگی میں اختیار کرنا چاہیے تا کہ میرے کردار سے مجھے بھی فائدہ ہو اور مخلوق بھی مستفید ہو۔
  انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے ہر عمل سے معاشرے میں بہتری آئے۔زندگی کے بے شمارپہلو ہیں دین اسلام نے ایک ایک پہلو میں راہنمائی فرما ئی ہے۔زندگی رکتی نہیں زندگی تو چل رہی ہے۔اللہ نے جو استعداد دی ہے اس کا مثبت استعمال کریں تا کہ معاشرے میں نکھار آئے۔دنیا میں جہاں بھی جس شعبے میں بھی کسی نے ترقی کی ہے آپ تحقیق کر لیں اس کے اصول نبی کرم ﷺ کے بتائے گئے ہوں گے۔اللہ کریم ہمیں دین اسلام کے سنہری اصولوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Zindagi mein sukh aur sukoon ka aik hi rasta hai ke –apne mamlaat zindagi ko deen islam ke mutabiq dhaal len . - 1

قیام صلوۃ اس کیفیت اور حال میں ادا کی جائے کہ اس میں خشوع و خضوع شامل ہو


قیام صلوۃ اس کیفیت اور حال میں ادا کی جائے کہ اس میں خشوع و خضوع شامل ہو۔ خشو ع و خضو ع سے ہر رکن کی ادائیگی کرنے سے بندہ مومن کی طرف اللہ کریم متوجہ ہو جاتے ہیں۔اللہ کریم کے متوجہ ہونے سے بندہ حفاظت الٰہی میں آجاتا ہے۔برائی سے بچنا اور نیکی کی طرف چلنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہو رہی تو نماز کی ادائیگی میں کوئی کمی ہے کہیں غلطی ہو رہی ہے۔یہاں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ میرے اعمال اُمت میں کہیں تفریق تو نہیں پیدا کر رہے؟ اور معاملات کی درستگی نہ ہے تو نماز کو ہم نے محض رواجاً اختیار کیا ہوا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا اسلامک سنٹر شکاگو میں خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ جب اللہ کی واحدانیت پر پختہ یقین نصیب ہو پھر خواہشات،چاہتیں اور وساوس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بندہ ان کو رد کرتا جاتا ہے کہ کوئی چاہت،کوئی خواہش ایسی نہ ہو جس میں اللہ کریم کی نافرمانی ہو۔ہمارا ظاہر اور باطن ایسا ہو جیسا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔اگر ایمان کی یہ بنیاد پختہ ہو جائے تو مخلوق کی محتاجی ختم ہو جاتی ہے بندہ ہر چیز سے آزاد ہو جاتا ہے توکل الی اللہ نصیب ہو جائے تو۔یہ حصہ نصیب ہو جائے تو جب موت کا فرشتہ بھی آئے تو بندہ تیار ہوتا ہے۔اس کیفیت کے لیے اسی زندگی میں عمل کرنا ہے۔ جب تک اس زندگی میں اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ سے زندگی مزین نہیں ہوگی ہم یہ کیفیت حاصل نہیں کر سکتے۔روز محشر جب مائیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اللہ کریم  بندہ مومن سے فرماتے ہیں تم نے اس دن بالکل نہیں گھبرانا کیوں کہ تم نے اپنی زندگی میرے توکل پر گزاری مجھ پر بھروسہ کیا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخرمیں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Qiyam salaat is kefiyat aur haal mein ada ki jaye ke is mein Khashoo o Khazoo shaamil ho - 1