UmmatiSheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)

Ummati

Munara, Chakwal, Pakistan
01-11-2020

امتی کا لفظی مطلب ـ’لوگ‘ یا ’فرقے کے آدمی‘ ہے جبکہ اصطلاحی مفہوم میں امتی نبی ؑ کے پیرو کار کو کہا جا تا ہے۔
تخلیق ِانسانی کے ساتھ ہی جو پہلی چیز انسان کے حصے میں آئی وہ رشتہ ہے۔خالق اور مخلو ق کا رشتہ۔ اللہ جل و شانہ کی ذات      والا صفات ایسی ہے کہ اس کی ہر صفت انسان کو اپنے خالق ِ حقیقی کے ساتھ بندگی کا ایک رشتہ عطا کر تی ہے۔روئے زمین پہ اتارے جانے کے بعد معا شرتی تشکیل و کاروبارِ حیات چلانے کے لیے بھی رشتہ ہی بنیاد بنا لیکن ہر رشتے کی اپنی بھی کو ئی نہ کو ئی بنیاد ہو تی ہے وہ نسب و رفاقت بھی ہو سکتی ہے اور اصول و قوانین بھی۔
  ایک ابدی اور لازوال رشتہ ایسا بھی ہے جو سارے کا سارا ایمان و یقین کی بنیاد پر استوا ر کیا گیا۔ ایک ایسا رشتہ کہ جس پر دنیوی و اُخروی کامیابی و کامرانی کا دارومدار ہے۔انسان کو زندگی گزارنے،مقصد حیات سمجھنے اور اس پر پورا اُترنے کے لیے یقینا ایک ہادی و رہبر کی ضرورت تھی۔مالک کل کائنات نے پہلا انسان ہی اپنا نبی ؑ بنا کر،پیدائش سے پہلے ہی نسل انسانی کی اس ضرورت کو پورا فرما دیا۔گو یا روئے زمین پہ بننے والایہ پہلا رشتہ تھا۔ حضرت آدم ؑ کا کنبہ،خاندان میں تبدیل ہوا،خا ندان قبیلے اور قبیلہ قوم میں۔آپ ؑ کے پیروکار پہلی امت بنے اور اہل ایمان کا پہلا گروہ۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی میں اضافہ ہوا اوروہ بہت سے قبیلوں اور قوموں میں بٹتی ہو ئی زمین میں پھیل گئی۔وہ ذات بے ہمتا ایسی رحیم و کریم ہے کہ اس نے انسان کی بنیادی ضرورت کو پو را فرماتے ہوئے ہر قوم میں اپنے نبی ؑ مبعوث فرمائے۔یوں امتیں بنیں جو اپنے اپنے ایمان و یقین اور پھر عمل کے لحاظ سے مختلف تھیں۔ایمان و یقین کا فرق اعمال پہ اثر انداز ہوااور اعمال نتا ئج کے اختلاف کا سبب بنے لہٰذا انعام یا فتہ قومیں بھی گزریں اور مغضوب الیہ بھی۔یہاں تک کہ دانائے سبلؐ، ختم الرسل ؐ،مو لا ئے کل ؐ اللہ رب العزت کا آخری پیغام لے کر تشریف لائے۔قیامت تک کے لیے ہر خطۂ زمین پہ بسنے والے ہر فرد،ہر قوم کے لیے اللہ کے آخری نبی، آخری رسول  ﷺ۔سردارِ انبیا ء،حبیب ِکبریا  وجہ وجود کا ئنات! جن کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں کی زینت بنا اور انبیا و رسل ؑنے جن کا امتی  ہو نے کی آرزو کی۔
  جس نے بھی دل کی گہرائیوں سے   لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیا وہ اس اعزاز سے نوازا گیا۔اس کا رشتہ محمد رسول اللہ ﷺ سے جڑ گیا۔وہ آپؐ کا امتی کہلا نے کا شرف پا گیا۔ روزِ قیامت آپ  ﷺ کی شفا عت کا مستحق ٹھہرا۔وہ ان لوگوں میں شامل ہو گیا جنھیں قرآن حکیم نے وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہہ کر پکارا۔وہ ُ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [التوبۃ 9:88] میں شمار ہو نے لگا۔ ایسی امت کا حصہ بن گیا جسے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ۔۔۔[ال عمران3:110] فرما یا گیا لیکن قا رئین کرام! یہاں غو ر طلب بات یہ ہے کہ یہ فلاح،یہ کامرا نی،یہ شرف،یہ کامیابی اور یہ خوش بختی پا نے کے لیے   لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ  کا محض اقرار باللسان ہی نہیں، تصدیق بالقلب بھی ضروری ہے اور یہ مسلمہ بات ہے کہ تصدیق بالقلب،اعمال و افعال تک ضرورآتی ہے۔محکم یقین،عمل ِپیہم بن کے رہتا ہے۔اس کے لیے ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا۔۔۔ [البقرۃ2:218]کے مرا حل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بندہ خو اہشات نفس،دنیوی حرص و نمود،معا شرتی غیر شرعی رسوم اور عزت و ذلت کے خود سا ختہ معیا ر ترک کر کے قال اللہ وقال الرسول کو مشعل راہ بنائے تو امتی کہلا نے کا مستحق ہو تا ہے۔جن خوش بختوں نے یقین کامل کی دولت پا ئی وہ ہر رسم،ہر رواج مٹا کر،گھر بارلٹا کر،میدان جہاد میں قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا۔۔۔     [ال عمران3:195]سے گزر کر بار گاہِ الہٰی میں سرخرو ہو ئے اورجنت کی بشا رت سے سرفراز ہوئے۔وہ  جَنّٰتِ عَدْنٍکے وعدے ہی سے نہیں نوا زے گئے بلکہ ان سے  وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔۔۔[التوبۃ9:72] جیسی نعمت کا وعدہ بھی کیا گیا جو ہر نعمت سے بڑی نعمت ہے۔
قا رئین کرام! ہمیں تو اس عظیم ہستی کا امتی ہو نے کا شرف حاصل ہے جو رحمتہ للعالمین ہیں،جو بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ [التوبۃ9:128] ہیں۔جو ہمارے اس دنیا میں آنے سے چودہ سو سال پہلے ہماری اُخروی حیات کے لیے متفکر اور دعاگو  رہے۔جنھوں نے راتیں جاگ کر ہماری فلاح چا ہی۔ہمارے لیے لازم ہے کہ نبی اور امتی کے اس ابدی ولازوال رشتے کے احساس کو ہمیشہ قلوب میں زندہ رکھیں۔ہمیشہ مدنظر رہے کہ بارگا ہِ رسالت امر ہے اور امتی سرا پا اطا عت،با رگا ہِ رسالت مرکز ہے اور امتی دا ئرہ،بارگا ہِ رسالت     بحر رحمت و شفقت ہے اور امتی سر تا پا عجز و ادب۔امتی ہو نے کا حق صرف وہ اداکر سکتا ہے جس کی تصدیق با لقلب ایسی پختہ،مضبوط،سچی اور کھری ہو کہ جہاں فرمان رسالتؐ سامنے آجا ئے وہاں خو یش،قبیلہ،وطن،شوکت و ثروت حتیٰ کہ اپنی ذات کی بھی کو ئی حیثیت نہ رہے۔اپنی ہستی، ذات رسول اکرم  ﷺ کے سامنے فنا ہو گی تو بقا پا ئے گی۔اپنی ذات کی نفی کے بغیر رشتہ ٔایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ذرا غور تو کیجیے کہ ہما را یہ رشتہ جڑا ہو ا کس ہستی ٔمبارک سے ہے!اورکیا ان  ﷺپر قربا ن کر نے کے لیے کچھ باقی رہ جا نا چاہیے؟ان  ﷺ کی ہاں،ہماری ہاں ہو،ان  ﷺ کی ناں ہماری ناں ہو تب امتی کہلا نے کا مزہ ہے۔ان  ﷺکی خوشی،ان  ﷺ کی رضا،ان  ﷺ کی خو شنودی،ان  ﷺکی چاہ مقصد ِحیات بنے تو حیات،حیات کہلانے کی مستحق ہو گی۔
تو آئیے! ابھی سے اس عظیم نعمت کو پانے کے لیے،اس ہستی ٔمبارک سے رشتہ استوار کر نے کے لیے،امتی ہو نے کا حق ادا کرنے کے لیے اللہ رب العزت کے حضور گزشتہ غفلتوں پہ معافی طلب کرتے ہوئے ایک عزم ِنو کے ساتھ دلوں میں ذکر ِالہٰی کی قندیل روشن کریں۔ قلوب میں اللہ اللہ کی کرنیں پھو ٹیں گی تو تصدیق بالقلب کا نو ر جا گزیں ہو سکے گا۔ایسا نور جو با رگا ہِ رسا لت تک راہیں بنا ئے گا ہی نہیں ان پہ چلا ئے گا بھی اور ہمیں ان شفیع الزمان  ﷺ کا سچا امتی بننے کے قا بل بنا ئے گا۔
Ummati by Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA) - Editorials on November 1,2020
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Naqshbandiah Owaisia, Tasawuf, Sufi meditation, Rohani tarbiyat, Shaikh, Ziker Qalbi Khafi