Al-IlmSheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)

Al-Ilm

Munara, Chakwal, Pakistan
01-05-2022

 یَرفَعِ اللَّہُ الَّذینَ آمَنوا مِنکُم وَالَّذینَ أوتُوا العِلمَ دَرَجاتٍ (المجادلہ:۱۱) 
’’اللہ تم میں ایمان والوں اورجن لوگوںکو علم عطا ہواہَے،کے درجات بلند فرمائیںگے۔‘‘ 
لکھنا،پڑھنا اورجانناعلم کا عمومی مفہوم سمجھا جاتا ہَے۔ حروف،کہ جن کی آوازیں متعین کی جاتی ہیں،سے بننے والے الفاظ کااصل مقصد دراصل وہ پیغام ہوتاہَے جو ان کے ذریعے دیا جاتاہَے۔انسان فطری استعداد کو بروئے کار لا کر  پڑھتا اور سمجھتا ہَے یوں قوموں کے تجربات او ر  ان کے جمع شدہ علوم حاصل کئے اور اگلی نسلوں تک منتقل کئے جاتے ہیں۔
 لیکن قارئینِ کرام! جب تک پڑھے یا سنے جانے والے جملوں کی کیفیات پوری طرح دل میں نہ اتر جائیں وہ ’علم‘  نہیں کہلاتا یہیں سے ’علم‘ ا ور ’خبر‘کی تفریق ہوتی ہَے۔          
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہَے کہ عِلم کے دو حصے ہیں ایک وہ جو دل میں اترتا ہَے اور دوسرا وہ جو زبان تک رہتا ہَے۔ دل میں اترنے والا عِلم نافع ہَے، اللہ کا انعام ہَے اور جو زبان تک رہتا ہَے وہ علم بندے پر اللہ کی حجت ہَے۔ روزِ قیامت وہ بہانہ نہیں کر پائے گا یہی علم اس پر گواہی بن جائے گا کہ تجھے تو علم تھا۔
متقدمین کے مطابق ’العلم‘یعنی پورا علم یہ ہَے کہ علمِ دین اور علمِ دنیا، دونوں ہوں۔ دین کا شعور بھی ہو اور دنیوی علم پہ دسترس بھی ہو۔ دنیوی علوم جنہیں ظاہری علوم بھی کہا جاتا ہَے دماغ کی سلامتی کے محتاج ہیں اور محض بدن کے کام آنے والے علوم ہیں۔ یہاں بھی محض ڈگریوں کا بوجھ علم نہیں کہلائے گا بلکہ علمائے حق کے مطابق اگر دنیوی علوم کی کیفیات بھی دل میں اتر جائیں اور ہر نئی تحقیق، ہر رمزِ کائنات، ہرسلجھتی گتھی، ہرشَے کی اصل عظمتِ باری کا ادراک بخش دے تو حقیقت میں وہ ’علم‘ہَے۔ اسی طرح مال و دولت کے حصول کا طریقہ جاننا اشیاء کا عِلم ہَے اور اس کے انجام سے باخبر ہونا حقیقتِ اشیاء کا علم ہَے۔ جو حقیقتِ اشیاء سے واقف ہَے، عنداللہ وہی عالم ہَے۔
عِلم کی دوسری اور ترتیب میں پہلی قسم، علمِ دین ہَے جوعلمائے حق کے مطابق سراسر معرفتِ الٰہی ہَے۔ انسان پر اللہ کریم کا سب سے بڑا احسان علم القرآن ہَے۔  
خالقِ کائنات سے تعارف،عظمتِ باری کا ادراک، مقامِ رسالت کی پہچان، حقیقتِ حیات سے آشنائی، مقصدِ حیات سے شناسائی، اشیائے دنیا کی بیثباتی، دائمی و ابدی زندگی کا شعور، احتسابِ اعمال کی فکر،اعمالِ بد کا انجام اور اعمالِ صالح پہ نوید کے ساتھ ساتھ ہر خطۂ زمین، ہر شعبۂ زندگی ہر مکتبۂ فکر اورہر طبقۂ حیات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اکمل و جامع ضابطہ حیات ولائحہ عمل۔  
لیکن قارئینِ کرام! صاحبِ عِلم وہی ہوگا جو ان جملوں، ان باتوں کی کیفیات کو پائے گا۔ جِس کے لیے سلامتی ٔ قلب درکار ہَے ورنہ مستشرقین کی مثال ہمارے سامنے ہَے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہَے:  وَتِلکَ الأَمثالُ نَضرِبُہا لِلنّاسِ وَما یَعقِلُہا إِلَّا العالِمُونَ (العنکبوت:43)
’’اورہم ان مثالوں کو لوگوں (کو سمجھانے) کے لئے بیان فرماتے ہیں اوربس علم والے لوگ ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
جانے گا وہ، سمجھ وہ پائے گا جس کے پاس دلِ زندہ ہوگا اور جاننے کے اعلیٰ ترین درجے کووہ پائے گا جوقلبِ روشن رکھتا ہوگا اور وہی حقیقت میں ’عالم‘ ہوگا۔
 دلچسپ بات یہ ہَے کہ علومِ باطنی ایسی نعمت ہَے کہ جب یہ عطا ہوتی ہَے تو علومِ ظاہری بھی کھنچے چلے آتے ہیں لیکن علمِ ظاہر میں یہ طاقت نہیں کہ علمِ باطن کو کھینچ لائے۔ذرائع علم کئی ہیں۔ کچھ فطری طور پہ حاصل ہوتے ہیں جو علومِ فطری کہلاتے ہیں۔ کچھ باقاعدہ سیکھناپڑتے ہیں جنہیں اکتسابی علوم کہا جاتا ہَے جِن کا عمومی ذریعہ پڑھنا اور لکھنا ہَے۔ سورۃالعلق میں ارشادِ ربانی ہَے:  الَّذی عَلَّمَ بِالقَلَمِ (العلق: 4) 
’’جِس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘۔ 
اکتسابی علوم وقت، استاد اور استعداد پہ انحصار کرتے ہیں جبکہ حصولِ علم کا ایک اور بہت بڑا ذریعہ علمِ لَدُنّی ہَے۔ یہ علم اللہ کریم کی طرف سے آتا ہَے۔ یہ کسی دنیوی استاد، وقت اورعرصے کا محتاج نہیں۔ بس اللہ کریم نے عطا فرما دیا اور لینے والے کو ملتا چلا گیا۔ اس ذریعہ میں وہ ذاتِ علیم، خوش بخت قلوب میں علوم کے خزانے انڈیل دیتی ہَے اور ایسا ایک لمحہ میں بھی ہو سکتا ہَے۔ سورۃ الکھف کی آیہ مبارکہ 65 میں ہَے: فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا....(الکھف:65) 
’’تو(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جِس کو ہم نے اپنی خاص رحمت دی تھی اور ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم بخشا تھا۔‘‘
علمِ لدُنّی سے حاصل ہونے والے خزانے علمِ اکتسابی سے بہت بالاتر ہوتے ہیں۔ اکتسابی علم کا حامل ان رازوں کے بھیدوں کو پا ہی نہیں سکتا جو علمِ لدُنّی سے فیض یاب ہونے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ فہم و ادراک کے وہ پٹ وا کرتا، سوچ کو ایسی گہرائی عطا کرتا اور عقل کوعقلِ سلیم تک یوں لے جاتا ہَے کہ کسی دوسرے کے لئے پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہَے۔  
الحمدللہ امتِ محمدیہ ﷺ میں علمِ لدنی کے حامل لوگ زیادہ ہیں کیونکہ اس امت پر اللہ کی رحمتیں بھی زیادہ ہیں۔
 عِلم کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہَے کہ پہلی وحی ہی میں بات حصولِ علم کی ہوئی ’اقرا‘،انتقالِ علم کی ہوئی: الَّذی عَلَّمَ بِالقَلَمِ (العلق: 4) گویا تعلیم و تعلم کی ہوئی۔
عِلم صفتِ باری تعالیٰ ہَے وہ علیم ہَے وہ صاحبِ علم لوگوں کوافضلیت بخشتا ہَے۔
 ہَل یَستَوِی الَّذینَ یَعلَمونَ وَالَّذینَ لا یَعلَمونَ (الز مر:9)
’’بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
حصولِ علم اسے اس قدر محبوب ہَے کہ اس کے لیے اس نے خود دعا تعلیم فرمائی:  وَقُل رَبِّ زِدنی عِلمًا (طہ:114)
’’اے میرے پروردگار!میرا علم بڑھا دیجئے۔‘‘ 
حدیثِ پاک ہَے: ’’میں طالب علم کو مرحبا (خوش آمدید) کہتا ہوں۔ فرشتے طالبِ علم کو اپنے پروں سے سایہ کر دیتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے او پر پر پھیلائے رہتے ہیں، تا آں کہ وہ آسمان دنیا تک چلے آتے ہیں اپنی محبت کے باعث، ان کے لیے جو علم حاصل کرتے ہیں۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)
نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:  ’’الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن، حیثما وجدہا،فہو احق بہا.‘‘(سنن ابن ماجہ)
’’حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہَے۔ـ‘‘
اللہ کریم ہمیں علم حقیقی کو پانے کی سعی کرنے اور اس سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
رَبِّ اشرَح لی صَدری (طہ:25)
ــ’’اے میرے پرورد گار! میرا سینہ کھول دیجئے۔‘‘
Al-Ilm by Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA) - Editorials on May 1,2022
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Naqshbandiah Owaisia, Tasawuf, Sufi meditation, Rohani tarbiyat, Shaikh, Ziker Qalbi Khafi