Aurat Ka MuqaamQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

Aurat Ka Muqaam

Munara, Chakwal, Pakistan
01-03-2020

ارشاد باری تعالیٰ ہے  وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی (الیل:3) اور اس بات کی قسم جس نے مذکر اور مونث پیدا فرمائے۔بڑی عجیب قدرت باری ہے کہ اس نے تمام مخلوق میں نر اور مادہ پیدا فرما دیے۔ پرندوں، کیڑوں مکوڑوں اور انسانوں میں حتیٰ کہ درختوں تک میں نراور مادہ درخت ہیں۔بیٹا پیدا ہوتا ہے۔وہی اس کی والدہ ہے،وہی اس کا والد ہے، وہی چھت ہے،وہی گھر ہے، وہی کمرے ہیں، وہی غذا ہے، وہی لباس ہے۔ بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بھی وہی والدین ہیں، وہی ماں ہے، وہی باپ ہے۔ لیکن بیٹے کا کردار اپنا ہے۔ بیٹی کا کردار اپنا ہے۔ بیٹے کی جسمانی ساخت اپنی ہے، بیٹی کی اپنی ہے۔ بیٹے کا قد کاٹھ اپنا ہے، بیٹی کا اپنا ہے۔ بیٹے کا لباس اپنا ہے، بیٹی کا اپنا ہے۔ استعداد کار کام کرنے کی۔ طاقت مرد میں اور ہے،خاتون میں اور ہے۔ کام کرنے کا فطری رحجان مرد کا اپنا ہے، خاتون کا اپنا ہے۔ ذمہ داریاں مردکی اپنی ہیں، خاتون کی اپنی ہیں۔ اجر دونوں کو اس ایک احکم الحاکمین نے دینا ہے۔ لیکن ایک جیسے کام پر نہیں دینا اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر دینا ہے۔ مثلاً باپ کے ذمے ہے کہ وہ حلال رزق جائز وسائل سے پیدا کرکے اولاد کو پالے۔ ماں کے ذمے ہے کہ جو رزق باپ لاتا ہے اس کی حفا ظت کرے،اسے ضائع نہ کرے اور بچوں کو پیار سے پالے اور اچھی تربیت کرے۔اب کام دونوں کے مختلف ہیں۔ایک کا کام لانا ہے اوردوسرے کا کام خرچ کرنا ہے۔ اجر دونوں کو ملے گا۔اپنی اپنی ذمہ داری کس خلوص سے کس حد تک پوری کی؟ جیسے آپ کے پاس ملازمین ہیں یا فوج ہے تو فوج میں ایک افسر ہے اور دوسرا سپاہی۔ایک سپاہی کی اپنی ذمہ داری ہے، افسر کی اپنی ذمہ داری ہے۔ سپاہی کو اگر انعام ملے گا تو اس کی اپنی جو ذمہ داری ہے اسے اچھی طرح ادا کرنے پر ملے گا۔ افسر کو انعام ملے گا جو اس کی اپنی ذمہ داری ہے وہ پوری کرنے پر ملے گا۔ایسا نہیں ہوتا کہ سپاہی نے افسر کا کام کیاتو اسے انعام ملا۔ یا افسر نے سپاہی کی ڈیوٹی دی تواسے انعام ملا۔ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح مرد وعورت اجر میں برابر ہیں۔ مالک دونوں کا ایک ہے لیکن یہ تخلیق انسانی بتا رہی ہے کہ ہر شخص کے ہر کام کے نتائج اپنے ہیں۔ اگر کوئی خاتون ہے تو وہ خواتین کے ہی کام بخوبی ادا کرسکتی ہے 
 آج کل تہذیب جدید کا ایک مسئلہ چل نکلا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ جب چھٹی صدی عیسوی کے آخر اور ساتویں صدی کی ابتداء میں طلوع اسلام ہوا اور آقائے نامدار ﷺمبعوث ہوئے تو اس وقت اس فقرے کے علمبردارکہاں تھے؟ آپ جانتے ہیں؟یہ عورت کوانسان ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں خاوند مر جاتا تو زندہ عورت کو اس کے ساتھ جلا دیا جاتا۔یعنی عورت کی قیمت یہ تھی کہ اگر کوئی عورت بیوہ رہ جاتی،اگرخاوند کے ساتھ جلتی نہیں تھی اوردوسری شادی تووہ کر ہی نہیں سکتی تھی لیکن اس کی زندگی موت سے بد تر ہو جاتی تھی۔ اس سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ اسے کوئی کھانا دینا پسند نہیں کرتاتھا۔ کپڑے اچھے نہیں پہن سکتی تھی۔میں افریقہ کے ایک سیاح کی ڈائری پڑھ رہا تھا اس نے لکھا میں ایک جگہ پہنچاتو ایک بوڑھیا گوشت پکا رہی تھی۔ اس نے مجھے دیا کہ یہ بہت مزے دار گوشت ہے یہ بوٹی سب سے لذیذ ہے تو میں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کا گوشت ہے جو بڑا شوق سے پکا رہی ہو؟ تو کہنے لگی کہ ہمارا قبیلے کی ایک عورت تھی، جوان۔ اس کی چار، پانچ سال شادی رہی۔ اس کے ہاں اولاد نہیں تھی تو میاں نے گھر سے نکال دیا۔ شادی کے بعد والدین تو گھر میں آنے نہیں دیتے تو وہ جنگل میں چلی گی۔میرے بیٹے اس کا شکار کر کے لائے تھے۔یہ اس کا گوشت ہے اور یہ جو بوٹی میں تمہیں دے رہی ہوں یہ بازو کی مچھلی کی بوٹی ہے۔ یہ بڑی لذیذ ہوتی ہے۔ چائینہ میں اب تک وہ تصاویر تاریخ کا حصہ ہیں کہ جب بچی پیدا ہوتی تو اسے لوہے کا جوتا پہنا دیا جاتاتا کہ یہ بڑی ہو کر چلنے پھرنے کے قابل ہی نہ رہے۔بڑی ہو جائے لیکن پاؤں اتنے ہی رہیں اور یہ آزادی سے چل پھر نہ سکے، کہیں آ جا نہ سکے۔ ہماری محتاج اور غلام ہی رہے۔ وسط ایشائی ریاستوں میں جو جب چاہتا،جسے چاہتا، چھین لیتا،پکڑ کر لے جاتا۔ یہ جو حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ان کی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ بات بات پر عورتوں کوزندہ جلایا کرتے تھے اور کہتے تھے یہ witch ہے،جادوگرنی ہے۔ اسے جلادو۔ ایک کھمبا سا گاڑھ کر عورتوں کو اس کے ساتھ باندھ دیتے اور اس کے نیچے لکڑیاں رکھ کر آگ جلا کر تماشا دیکھا کرتے۔ یہ کہاں سے آ گئے،حقوق کے علمبردار؟ عورت کو انہوں نے کیسے برابر کردیا؟ 
یہ بڑا عجیب دھوکہ ہے کہ جو خاتون کی ذمہ داریاں تھیں وہ تو فطری تھیں۔ اسے تو کوئی بدل نہیں سکتا۔عورت تو وہ ہے۔ اس کا جسم عورتوں والا ہے۔ اس کا مزاج عورتوں والا ہے۔ اس کی قوت عورتوں والی ہے۔ بچے اسی نے پیدا کرنے ہیں۔ اب برابری کیا ہے؟ مرد کی ذمہ داریاں بھی اس پر ڈال دیں کہ تم بازار میں نکلو۔ تم روزی کماؤ۔ تم مشقت کرو۔کیا ہوا؟یعنی عورت کے کام تو تم نے ہی کرنے ہیں۔ تم مرد کے کام بھی کرو۔ برابر ہو گئی کون سی برابری ہے؟ برابرکرو نا۔ ایک بچہ خاتون کے پیٹ سے پیدا ہو،دوسرا مرد کے پیٹ سے پیدا ہو،اگلا پھر خاتون سے پیدا ہوگا، اگلا مرد سے۔ برابری، برابری ہونی چاہیے۔ جو چیزیں فطری ہیں، تخلیقی ہیں۔ان میں برابری کا مفہوم اسلام میں یہ ہے کہ جو چیز جس کام کے لیے ہے پوری دیانت داری سے وہ کام اس سے لیا جائے۔ دونوں سے برابر سلوک کیا جائے۔جو جس کا کام نہیں ہے اس کا بوجھ اس پر نہ ڈالا جائے۔ جو جس کا حق بنتا ہے بلاتکلف اسے پہنچایا جائے۔ اس کے حصول میں دونوں برابر ہیں۔ ایک سپاہی اور ایک جرنیل برابر ہیں۔ سپاہی کو سپاہی کی تنخواہ بلا تکلف مل جائے۔ جرنیل کو جرنیل کی تنخواہ بلاتکلف مل جائے۔یہ برابری نہیں ہو سکتی کہ جرنیل اور سپاہی کی تنخواہ ایک برابر کردی جائے۔ کوئی کرسکتا ہے ہمارے معاشرے میں؟ورنہ توآپ ہاتھ کی ان دو انگلیوں کو برابر نہیں کرسکتے۔کیا کریں گے؟اس انگلی کو کاٹ دیں گے، انگلی برابر ہو جائے۔ دو آنکھوں کی نظر برابر نہیں ہوتی، فرق ہوتا ہے۔ دو کانوں کی سماعت برابر نہیں ہوتی، سر کے سارے بال برابر نہیں ہوتے، دو ہاتھوں کی قوت برابر نہیں ہوتی، دائیں کی اور ہے بائیں کی اور ہے۔ آپ کس طرح برابری کریں گے؟ دائیں ہاتھ سے وہ کام لیا جائے جو دائیں ہاتھ کاہے۔بائیں ہاتھ سے وہ کام لیا جائے جو بائیں ہاتھ کا ہے۔ یہ برابری ہے۔اس برابری کو صرف نام برابری کا دے کر نظام قدر ت کو Disturb  کرنا اس میں مدخل ہونا۔اس کو برباد کرنا۔یہ عورت کو کچھ دینا نہیں اسے تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ دھوکہ ہے۔ فراڈ ہے اور خاتون کو رسوا کردیا گیا۔کیا عزت بچی خاتون کی؟ آپ مغرب کواور غیر مسلم اقوام کوتو چھوڑیں۔ میں اپنے ملک کے اخبارات روزانہ دیکھتا ہوں۔ میں سر ورق اٹھاتا ہوں یا ویکلی(weekly) ایڈیشن دیکھتاہوں۔ میرا تاثر یہ ہے، ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔ میری رائے خراب ہو۔ میرا تاثر یہ ہے کہ خواتین کی تصاویر اس طرح لگی ہوتی ہیں۔گویا یہ قوم بیبیوں کو نیلام کرنا چاہتی ہے۔ کوئی شرم نہیں ہے،کوئی حیا نہیں ہے،کوئی اللہ کا خوف نہیں ہے، کوئی آخرت کی فکر نہیں ہے۔ عورت کا معنی ہے، پوشیدہ چیز، چھپائی گئی چیز، پردے میں رکھی گئی چیز،جو فرد اخباروں کی زینت بن گیا،وہ عورت کیسے رہا؟ انہی اخباروں میں اگلے روز پکوڑے بک رہے ہوتے ہیں،انہی میں اگلے لوگ روز جوتے لپیٹ کر لوگ لے جا رہے ہوتے ہیں  عورت کو انسانیت کا درجہ اسلام نے دیا۔ اسلام دین فطرت ہے اورجو استعداد اللہ نے کسی میں پیدا کی ہے۔اس کے مطابق ذمہ داری نبھانے کااللہ حکم دیتا ہے۔ مَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی کہ قدرت اس بات پر گواہ ہے کہ جسے مرد بنایا ہے۔ اس سے وہی کام ہوں گے۔جو مرد کی ذمہ داری فطرت نے رکھی ہے۔  وَالْاُنْثٰٓی جسے مادہ بنادیا ہے۔ ماں ایک ہے، باپ ایک ہے، ایک پیٹ سے پیدا ہوئے،ایک گھر میں پلے بڑھے۔لیکن خاتون کی ذمہ داریاں اپنی ہیں، مرد کی ذمہ داریاں اپنی ہیں۔ اس کا قد کاٹھ اپنا ہے،عورت کا اپنا ہے۔مرد کی جسمانی قوت اپنی ہے، خاتون کی اپنی ہے۔ مرد کی ذہنی قوت اپنی ہے، عورت کی اپنی ہے۔ ہر چیز مزاج تک اپنے اپنے ہیں۔اسلام نے خاتون کو مرد کے برابر کے حقوق دیے ہیں۔ عورت اورمرد برابر ہیں یعنی برابر اس بات میں ہیں کہ مرد اپنی ذمہ داری پوری کرے،عورت اپنی ذمہ داری پوری کرے،اس میں برابر ہیں۔ مرد سے وہ کام لیا جائے جو مردوں کے ذمے ہے۔خاتون کو وہ ذمہ داری دی جائے جو خواتین کے ذمے ہے۔ دونوں برابر ہیں۔ مرد کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ عورت کے ساتھ وہ عزت واحترام کا سلوک کیا جائے جس کی وہ مستحق ہے۔ برابری کا یہ مطلب ہے کہ دونوں سے جو ان کی ذمہ داری قدرت نے لگائی ہے۔ وہ کام پوری دیانت داری سے لیا جائے اور جو ان کا حق بنتا ہے وہ برابر، برابر دونوں کو بغیر کسی تکلف کے دیا جائے۔ یہ برابری ہے۔ 

Aurat Ka Muqaam by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Articles
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Awaisiah Naqshbandia, Lataif, Rohani Tarbiyat, Zikr Qalbi, Allah se talluq, Dalael us Salook