Hazrat Umer Farooq RA Ki ShahadatQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

Hazrat Umer Farooq RA Ki Shahadat

Munara, Chakwal, Pakistan
19-08-2020
 اسلامی سال کی ابتدا محرم سے ہوتی ہے بے شمار قربانیوں سے یہ سال شروع ہوتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکم محرم 24 ھ کو شہادت کے بعدروضہ اطہر میں دفن کئے گئے اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت خانوادہ نبوت کی مظلومانہ شہادت ایک عظیم داستان ہے جو اسلامی کیلنڈرکی ابتدا کو نور شہادت سے منور کر دیتی ہے۔ 14 صدیوں میں سال کا کوئی دن، کوئی رات ایسی نہ ہو گی جو شہادت سے عبارت نہ ہولیکن عجیب بات یہ ہے کہ سال کاآخری مہینہ ذوالحجہ آتا ہے اور ذوالحجہ بھی سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یادگار لئے ہوئے ہے ہمیں سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی قربانی میں بھی تمام انسانی محبتیں،تمام انسانی جذبے اور تمام انسانی رشتے قربان ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اسی طرح شہادت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایک اتنا ہی عظیم واقعہ ہے جس کے اثرات تاریخ انسانی پر مرتب ہوئے اور روش زمانہ جو عہد نبوت میں اصلاح پزیر ہوئی تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اسی طرح روبہ کمال رہی اسی لئے محققین لکھتے ہیں کہ خلافت شیخین (سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) علی منہاجِ نبوۃ تھی یعنی اس میں وہ طریقہ، وہ سلیقہ، وہ برکتیں، وہ رحمتیں، وہ جذبہ ایمان اسی طرح روبہ کمال رہا جس طرح عہد نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃوالسلام میں تھا لیکن ایک فرد کی شہادت نے تاریخ انسانی کو اس کمال سے محروم کر دیا۔
 نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر جو میرے بعدہیں ان کا ہے پھر جو ان کے بعدہیں ان کا ہے انہیں قرون ثلاثہ کہا جاتا ہے یہ تین زمانے خیرالقرون کہلاتے ہیں ایک عجیب زمانہ جس میں حاضر ہونے والا ہر فردِبشر شرف صحابیت سے سرفراز ہواایک نگاہ میں اسے سارے کمالات حاصل ہو گئے اس کا دل بدل گیا، اس کا ضمیر بدل گیا اور اس کی سوچ بدل گئی وہ قبائل جو لوٹ کر کھانا اپنا روزگار سمجھتے تھے اور قتل وغارت گری جن کا شعار تھا، جسے وہ اپنی بہادری کے طور پر فخریہ پیش کیا کرتے تھے وہ محنت کر کے کھانے لگے اور اس میں سے دوسروں کو بھی کھلانے لگے جو چوری اور ڈاکے میں مشہورتھے وہ عدل میں معروف ہو گئے جو جہالت میں دنیا بھر میں مشہور تھے وہ ترویج علم کے منارہ نور بن گئے اور روئے زمین کے عادل ترین حکمران قرارپائے سیاسیات اور حکومت کے امور میں بھی وہ سنگ میل ثابت ہوئے اور جو انداز عہد فاروقیؓ میں حکومت کو دئے گئے، کتنی عجیب بات ہے کہ آج تک کوئی ان پر اضافہ نہ کر سکا۔ یہ محکموں کی تقسیم،مختلف شعبوں میں مختلف درجے، حکومت میں گورنر اور وزیر اور پھر صوبے، ضلعے،تحصیلیں،گاؤں،زمین کی پیمائش،زمین کا لگان،مالیہ، ملکیت،بنیادی محکمے بحری بیڑے کی تشکیل، فوج اور فوج کی چھاؤنیاں، پولیس اور اس کا طریقہ کار، عدلیہ اورانکے حکام کی حدود۔یہ سارا وہ نظام ہے جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب دیا تھا۔ 
جمہوریت کیا ہے؟ کہ ملک میں بسنے والے ہر شہری کی رائے کی ایک اہمیت ہو اجتماعی طور پر انسانی برادری کے ایک ہونے کاسب سے پہلا بنیادی تصور اللہ، اللہ کے رسول اور اللہ کی کتاب نے دیا لفظ ”الناس“ سب سے پہلے قرآن نے استعمال کیااس سے پہلے مغرب والے تھے یا مشرق والے، شمال والے تھے یا جنوب والے،مختلف ممالک،قومیں یا قبائل تھے جن میں سے ہر ایک صرف اپنی ہی بات کیا کرتا تھا دوسرے کی فکر کوئی نہیں کرتا تھایہ فلسفہ دینِ برحق نے دیاجس طرح پوری امت کے ذمے لگایا کہ  ”اخرجت الناس“  اب الناس میں ایمان کی قید نہیں ہے۔الناس میں مومن و کافر سب آتے ہیں، ساری اولادِآدم پر الناس کا اطلاق ہوتا ہے عہد فاروقیؓ میں ویلفیئر سٹیٹ منظم ہو چکی تھی کہ بیت المال اورمال زکوٰۃ، تعلیم اور علاج،بے روزگاروں کے و ظائف، بیماروں، بیوگان اور یتیم بچوں کی سن بلوغت تک کفالت۔مومن تو مومن کافر جو معذورین تھے ان پر نہ صرف جزیہ معاف کر دیا جاتابلکہ انہیں بیت المال سے وظیفہ دیاجاتاجو Structure سیدنا فاروق اعظم ؓنے بنایا تھا آج تک دنیا کی کوئی حکومت اس پر اضافہ کر سکی نہ اس میں کوئی تبدیلی کر سکی سوشلسٹ، جمہوری یاشہنشاہیت پسندہو ہر حکومت کے لئے فاروقی نظا م، نمونہ ہے اور دنیا کی ساری حکومتوں کی تاریخ دیکھ لیجیئے سب کی مجبوری ہے کہ اس کوFollowکریں۔سب کا طریقہ کار وہی ہے نام اپنا اپنا دیتے رہتے ہیں اللہ نے اتنی وسعت نظری کسی کو دی ہی نہیں کہ اس میں تبدیلی کر سکے ایک شخص نے اپنے عہد حکومت میں گھوڑے کی پیٹھ پر یا پیدل چل کر چھبیس لاکھ مربع میل علاقہ فتح کیا۔ اس کے سپاہیوں نے پینتیس ہزار بہت بڑے بڑے شہر آباد کئے جن میں نامور قلعے بھی تھے چھبیس لاکھ مربع میل مفتوحہ علاقہ صرف فتح نہیں ہوا بلکہ چھبیس لاکھ مربع میل علاقے میں کسی بوڑھے کی آہ سنائی نہیں دیتی،کسی عورت کی چیخ سنائی نہیں دیتی،کسی بھوکے بچے کے رونے کی آواز نہیں آتی اور کوئی کافر بھی نہیں کہہ سکتا کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی یا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی سپاہی نے میرے ساتھ ظلم کیا۔ 
مغرب میں سے سب سے پہلے برطانیہ نے ویلفیئر سٹیٹ بنائی جارج ہفتم کے زمانے میں اس کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد برطانیہ میں ملکائیں آ گئیں جس پروفیسر نے اس کی بنیاد رکھی اس نے بتایا کہ مجھے بادشاہ نے اس کمیٹی کا سربراہ بنایا تھاجسے برطانیہ کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی میں نے بڑے غور اورگہری نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا، اس کی مختلف تفسیریں اور تراجم پڑھے پھر میں نے تاریخ سے عہد فاروقیؓ کو نکالا، ان کے نظام کو پڑھا تو مجھے سمجھ آئی کہ قرآن سے تو مجھے اشارے ملے ہیں لیکن ان کی عملی تعبیرفاروقاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعین کر دی لہٰذا میں نے عہد فاروقیؓ کا نظام جوں کا توں لا کر بادشاہ کے سامنے رکھ دیا فرق صرف یہ رہا کہ اس عہد میں زکوٰۃ فرض تھی اور ان کی آمدن کی مد زکوٰۃ تھی جب کہ ہم نے اپنی آمدنی کی مد مختلف ٹیکسوں پر رکھی زکوٰۃ بھی ایک ٹیکس تھی اور ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق ٹیکس لگائے لیکن اس کی ساری تقسیم اسی طرح ہوتی ہے اور آج بھی برطانیہ اپنی عام زبان میں اس ویلفیئر سٹیٹ کے سسٹم کو The Umer's Laws   ہی کہتے ہیں جب اس قانون کا حوالہ دینا ہوتو وہ کہتے ہیں کہ 
    This is according  to Umer's Laws.......so and so  
اللہ کا وہ عظیم بندہ جس کے بنائے ہوئے طرزِ حکومت اور  Welfare کے تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا، اس لئے نہ کر سکا کہ سارا نظام ہی وہ تھا جو اللہ کی کتاب میں نازل ہوا اور صحابہؓ کا کمال یہ تھا کہ وہ اتنے ذہین تھے کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ جمعہ کے خطبے میں کہہ دیا کہ لوگو! اگر مجھ سے حضورﷺ کا اتباع اور آپ ﷺ کی سنت اور صحیح طریقہ چھوٹ جائے تو کیا کرو گے؟ ایک بدوی کھڑا ہو گیا اور اس نے میان سے تلوار نکال لی اور کہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اگر دائیں بائیں ہوں گے تو ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے ابھی ہم میں جان ہے اگر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تو بھی قرآن سمجھنا جانتے تھے کہ انہوں نے براہ راست حضرت محمدرسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا۔ 
شیخین کریمین کا عہدِ خلافت علیٰ منہاج النبوہ رہا اور وہی برکات اسی طرح بٹتی رہیں لیکن ایک فرد کے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اللہ کی کائنات کوایک بندے کے اٹھنے سے.......لیکن شاید ہر بندہ مختلف ہوتا ہے اور ہر جانے والا ایک خلاء چھوڑ جاتا ہے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا خلاء دوبارہ پر نہیں ہوتاایک ہستی اٹھ گئی دنیا سے،ایک ہستی وصال الہٰی پا کر برزخ میں جلوہ افروز ہوئی آقائے نامدار حضرت محمدرسول اللہ ﷺ، اللہ کے آخری نبی تھے لیکن آپﷺ بھی ایک انسان تھے توانسان تو روز آتے جاتے ہیں کیا فرق پڑا.......؟ اتنا بڑا فرق پڑا کہ وحی الہٰی ختم ہو گئی، قیامت تک کسی پر دوبارہ نازل نہیں ہو گی اللہ کی طرف سے وحی لانے والا جبریل امین جس کی خدمت حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمین پر جلوہ افروز ہونے سے شروع ہوئی اور جو ہر عہدمیں ہر زمانے میں ہر قوم میں مبعوث ہونے والے انبیاء کی طرف اللہ کی ہدایات لاتا رہا اور کیسا عجیب زمانہ تھا کہ لوگ سوال زمین پر کرتے تھے جواب عرشِ الہٰی سے آتاتھامسئلہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت عالی میں پیش ہوتا جواب کے لئے جبریل امین تشریف لاتے کہ اللہ کریم اس کا جواب یہ فرمارہے ہیں صرف ایک ہستی کے پردہ فرمانے سے قیامت تک کے لئے سلسلہ وحی منقطع ہو گیا۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک فرد کے اٹھنے سے کچھ نہیں ہوتا.........؟ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایک فرد تھے، ایک انسان تھے چھوٹے سے ایک عام عرب قبیلے، بنو عدی کا ایک عام سا فرد، خطاب کا بیٹا، لیکن صحبت پیغمبرﷺ نے کن عظمتوں اور کن بلندیوں تک پہنچایا، عمرسے فاروقؓ بنا دیا......حق وباطل میں امتیاز کرنے والا......... حق وباطل میں تفریق کرنے والا........سچ اور جھوٹ کوالگ الگ کرنے والا......ظلم اور انصاف کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والا...... 
بیت المقدس کی فتح کے وقت نصرانیوں کے علماء نے شرط لگائی تھی کہ آپ اپنے امیر کو لے آئیں ہم دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ یہ خلیفہ دوم ہے اور اس کے ہاتھ پر شہر فتح ہونا ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے ہم لڑیں گے نہیں اور اگر وہ بندہ نہیں ہے تو ہم لڑیں گے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تشریف لے گئے اور انہوں نے دیکھا تو شہر خالی کر دیا کیو نکہ حضورﷺ کی ذات تو بہت بلند ہے آپ ﷺ کے خدام کے بارے میں بھی ان کے پاس حلیے، قد، عادات و خصائل اور لباس تک کی پیش گوئیاں موجود تھیں۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرض تھا ان کے پیٹ میں ایسی بیماری تھی کہ جوَ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور مدینہ منورہ میں ایسا قحط پڑا کہ گندم کی روٹی کسی کو میسر نہیں تھی آپ جوکھاتے تھے اور بیمار رہتے تھے پیٹ خراب ہو جاتا تھا کام نہیں کر سکتے تھے حرج ہوتا تھا طبیب نے عرض کی کہ حضرت ایک آدمی کے لئے تو گندم ملنا محال نہیں ہے جو آپ نہ کھائیں خلافت کانقصان بھی ہوتا ہے اپنے دفتری امور پورے نہیں کر سکتے اور اس پر مزید یہ کہ ایذا ہوتی ہے مروڑ اٹھتے ہیں تکلیف ہوتی ہے۔ فرمانے لگے بات تو تیری ٹھیک ہے لیکن جو بندے اللہ نے میرے سپرد کر دیئے ہیں یہ جو کھائیں اور میں غلہ کھاؤں تو کل اللہ کے حضورمیری طرف سے تم جواب دو گے ہے تجھ میں جرأت۔جب تک عام شہری کو غلہ نہیں ملتا عمر کو حق حاصل نہیں کہ وہ غلے کی روٹی کھائے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایاکہ دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھوکا رہ گیا تو عمر ابن خطابؓ پکڑا جائے گا کہ تجھے سلطنت اس لئے تو نہیں دی  کہ میری مخلوق پر ظلم ہو اور وہ بھوکے بلک بلک کر مر جائیں سفر آخرت کے وقت کسی نے عرض کیا کہ آپ اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنا جانشین بنائیں اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کام کے اہل بھی تھے وہ عہد صحابہ ؓ کے مانے ہوئے فقیہہ تھے آج بھی ان کی سند اختیار کی جاتی ہے تو آپ ؓنے فرمایا میدان حشر میں جواب دینے کے لئے خطاب کی اولاد میں سے میں اکیلا کافی ہوں مشورہ دینے والے سے فرمایا کہ تو یہ چاہتا ہے کہ میرا سارا خاندان جواب دہی کے لئے میدان آخرت میں پکڑا ہوا کھڑا ہو کہ تو نے میرے بندوں کے ساتھ کیا کیا؟
ذوالحجہ کے آخر میں آپ کومسجد نبویﷺ میں دوران نماز فیروز نامی ایک غلام جو مسلمان نہیں تھا،نے زخمی کیا زخم اتنے کاری تھے، پیٹ اس بری طرح سے پھٹا تھا، دو دھاری خنجر کے زخم تھے کہ دودھ اگر آپ کے منہ میں ڈالا جاتا تو زخموں سے باہر نکل جاتاحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمؓ ایک یہودی جراح کو لینے کے لئے تشریف لے گئے ایک معروف جراح جو زخموں میں بہت ماہر تھا(تلوار کا زمانہ تھا،زخم لگتے تھے اور اس وقت عجیب وغریب مرہمیں اور طریق ِجراحت ایجاد تھے)جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاس پہنچے توآپ نے فرمایا کہ امیر المومنین کی حالت بہت مخدوش ہے، تم میرے ساتھ چلو اس نے ملازم سے گھوڑا تیار کرنے کا کہا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں، اس طرح تو دیر لگ جائے گی تم اپنا یہ بغچہ اٹھاؤ اور میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ابھی راستے میں ہی تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دیکھا......گھوڑا روکا.....جراح سے کہا کہ تمہیں تکلیف تو ہو گی لیکن ابھی تم گھر کے قریب ہو، میں تمہیں اتار دیتا ہوں، تم واپس چلے جاؤ، مجھے مدینہ منورہ جلدی پہنچنا ہے جراح نے کہا کہ عجیب بات ہے آپ نے مجھے گھوڑا لینے دیا،نہ تیار ہونے دیا، لباس تک تبدیل نہیں کرنے دیا اور اب مجھے کہہ رہے ہو کہ واپس چلے جاؤ......!  فرمایا تمہاری ضرورت نہیں رہی۔اس نے کہا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میری ضرورت نہں رہی؟ فرمایا یہ جو بکریاں ہیں سامنے دیکھ رہے ہویہ کسی دوسرے آدمی کی ہیں اور جس فصل میں گھس گئی ہیں یہ کسی اور بندے کی ہے اور یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ فاروق اعظمؓ دنیا سے اٹھ چکے ہیں.....وہ حیران ہو گیا واپس چلا گیا لیکن اس نے وقت نوٹ کر لیا اور جب بعد میں اس نے تصدیق کی اور اسے پتہ چلا کہ واقعی اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دارِفانی سے رخصت ہو چکے تھے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔
 ایک وجود حدِّ فاصل تھا نیکی اور برائی کے درمیان ایک وجود کی یہ برکت تھی کہ کسی کا جانور کسی دوسرے کی فصل میں نہیں گھستا تھا اسی لئے نبی کریم ﷺنے آپ کو فاروق ؓکہا تھا وہ عظیم ہستی یکم محرم الحرام کو روضہ اطہر میں حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلو میں آسودہئ خاک ہوئی وہ خاک جس کا رتبہ کائنات سے بڑھ کر ہے علمائے حق فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی عظمت اس زمین کی ہے جس پر بیت اللہ ایستادہ ہے یہ مرکز ہے زمین کایہ وہ نقطہ ہے جو زمین پر سب سے پہلے تخلیق ہوا اور یہیں سے ساری زمین پھیلائی گئی اور یہ وہ مرکز ہے جس پر ہمہ وقت اللہ کی تجلیات ذاتی متوجہ رہتی ہیں لیکن مدینہ منورہ کی خاک اقدس کا وہ حصہ جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی آرام گاہ ہے وہ اس زمین سے افضل ہے اس لئے کہ نبی اکرم محمدرسول اللہ ﷺ کا وجود پاک اس مٹی سے مَس کررہاہے وہ خاک ہی ایسی ہے وہ ٹکرا ہی ایسا ہے۔منبر اطہر سے لے کر روضہ اطہر تک فرمایا ”یہ ٹکرا جو میرے منبر اور میرے حجرہ مبارک کا ہے یہ سارا وہ حصہ ہے جو اللہ نے جنت میں سے کہا ہے“۔آپﷺ کے قیام کے لئے یہ خطہ جنت سے اتارا گیاجن سالوں میں مسجد نبوی ﷺکی توسیع ہو رہی تھی ان دنوں میں وہاں حاضر تھا آپ مدینہ منورہ کے کسی ہوٹل،کسی مکان یا کسی بھی جگہ ہوں تو ایک شور آپ کو مسلسل سنائی دیتا رہتا لیکن مسجد نبوی ﷺ کے دروازے سے آپ اندر ہو جائیں تو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اس کا میں چشم دید گواہ ہوں کوئی آواز،کوئی صدا جرأت نہیں کرتی تھی ان حدود کو عبور کرنے کی جو مسجد نبویﷺ کی ہیں اسی روضہ اطہر میں سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جگہ ملی اور حضورﷺ کی حدیث میں موجود ہے کہ عیسیٰ علی السلام نازل ہوں گے زمین پر رہیں گے ان کا وصال ہو گا۔ ایک قبر ان کی یہاں بنے گی اور ابھی تک ایک قبر کی جگہ خالی ہے آپ ﷺ کے ارشاداتِ عالی میں موجود ہے کہ قیامت کو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح اٹھیں گے کہ ایک طرف میں ہوں گا اور ایک طرف عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے اور درمیان میں یہ دونوں ہوں گے۔  
Hazrat Umer Farooq RA Ki Shahadat by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Articles
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Awaisiah Naqshbandia, Lataif, Rohani Tarbiyat, Zikr Qalbi, Allah se talluq, Dalael us Salook