Aap SAW Ki Wiladat Basaadt Be Panah Rehmaton Ka SababQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

Aap SAW Ki Wiladat Basaadt Be Panah Rehmaton Ka Sabab

Munara, Chakwal, Pakistan
24-10-2020

ربیع الاول کاوہ ماہ مبارک پھر سے آیا جس میں آقائے نامدار ﷺکی بعثت عالی ہوئی آپ ﷺکی ولادت مبارک اسی مبارک ماہ میں ہے آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس برس پوری ہوئی تو بعثت اسی مہینے میں ہے آپ ﷺکا وصال اسی مہینے میں ہے اﷲ کی نعمتیں دنیا کی بے پناہ ہیںہر طرح کی مخلوق اس سے مستفید ہو رہی ہے۔قرآن کریم جب بھی بات ارشادفرماتا ہے جب بھی حضور ﷺ کا تذکرہ آتا ہے جب آپ ﷺ کی بات شروع ہوتی ہے تو بعثت سے شروع کرتا ہے۔قرآن پاک بعثت کی بات کرتا ہے۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں زمینوں آسمانوں ساری مخلوق پر میرے بے پناہ ا حسانات ہیں سب کوپیدا کیا سب پر میرا احسان ہے۔ سب کو وجود دیازندگی دی، سب کو محبتیں دیں لیکن میرا احسان تم پر ہے کہ میں نے محمد رسول اﷲ ﷺ کو مبعوث فرما دیا۔اب یہ احسان ایسا ہے کہ تخلیق کائنات اس کے سامنے معدوم ہو گئی فروغ سینا جن انوارات کی ایک جھلک برداشت نہ کر سکا تجلیات باری سے بڑی بڑی سنگلاخ چٹانیں چٹخ چٹخ کر جل کر سرمہ بن گئیں بعثت رسالت ﷺ نے انسانی دلوں کو تجلیات باری کی آماجگاہ بنا دیا۔ان تجلیات کو ایمان لانے والے بندوں کے قلوب میں یوں سمو دیا کہ وہ ان کی غذا، دوا اور حیات بن گئی۔تیرہ برس تک حضور ﷺ کی غلامی کے لئے دنیا کی ہر اذیت برداشت کی۔ان کے وجود گرم سلاخوں سے داغے گئے، گرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھے گئے، کوڑے مارے گئے،زخمی کئے گئے،بھوکا پیاسا رکھا گیا،،شہید کئے گئے،کون سا ظلم ہے جو مجبور مسلمانوں پرمکہ مکرمہ کے رہنے والے مشرکین نے روا نہ رکھا ہولیکن انھوں نے غلامی محمد رسول اﷲ ﷺ کو ہاتھ سے نہ جانے دیاہر دکھ برداشت کیاحتٰی کہ گھر،شہر، جائیدادیں چھوڑیں،سب کچھ قربان کر دیااور خالی ہاتھ ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں چلے گئے پھر مدینہ منورہ پر حملہ،بدر و احد،خندق میں کفار مشرکین نے بڑا زور لگایا،انہوں نے قربانیاں دیں،زخمی ہوئے لیکن حق غلامی ادا کرتے رہے۔
  بعثت رحمت عالم ﷺ وہ نقطہ ہے جس نے ہمیں ایمان عطا کیا اور ایمان وہ سانچا ہے جو فرد کو جو کچھ وہ پہلے تھا اس سے مٹا کر ایک نیا انسا ن بنا دیتا ہے بعثت عالی کے ساتھ جہاں معجزات و برکات ہیں وہاں ارشادات رسول ﷺ بھی ہیں جن کی پاسداری کرنا پڑتی ہے، آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کے اندر آنے کے لئے اپنی تراش خراش کرنا پڑتی ہے، پاکیزگی اپنانے کے لئے صفائی کرنا پڑتی ہے، ہمت و محنت سے کام لینا پڑتا ہے، رسومات ورواجات چھوڑ کر سنت رسول ﷺ اپنانا پڑتی ہیں،اپنی خواہشات کو رضائے الہٰی کے حصول کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے اور اپنی رائے و پسند سے دستبردار ہو کر اسے حضور ﷺ کی پسند میں فنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ کرنا حضور ﷺ کی برکات کو حاصل کرناآسان کردیتی ہیںلیکن تب جب کوئی بعثت رحمت عالم ﷺ سے حصہ پائے۔ساری قوم میلاد مناتی ہے بعثت کوئی نہیں مناتاکیوں کہ جب بعثت کا تذکرہ ہو گا توحضور اکرم ﷺ کی اطاعت اور غلامی کرنا پڑے گی۔خواہشوں،جھوٹی انا،تکبر و غرور،لالچ و ہوس کے سارے بت دل سے نکالنے ہوں گے اور ان سب کی جگہ ایک اﷲ کی حکومت قائم کرنا ہو گی۔ مومن کے لیے تو قرآن کا تصور یہ ہے کہ جب اﷲ کا نبی ﷺحکم دے دے تو ان کے پاس سوائے تسلیم خم کرنے کے اور کوئی راستہ ہی نہیں کہ صدق دل سے اس کی اطاعت کر لے۔
جب حضور کی ولادت ہوئی توبے پناہ فائدے مخلوق کو پہنچے ہر طرح کا رزق،ا س میں برکت، سب سے بڑی بات کہ آپ ﷺ کے دنیا میں قدم رنجہ فرمانے سے ساری زمین مسجد بن گئی۔جو اجتماعی عذاب آتے تھے حضور ﷺ کی بعثت کے بعد ختم ہو گئے کیا آپ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ میرے زمین پر قدم رکھنے سے اجتماعی عذاب نازل ہونابند ہو گئے۔ لوگوں کی صورتیں مسخ ہونا بند ہو گئیں۔پانی میں پاک کرنے کی طاقت تھی آپ کے قدم مبارک سے اﷲ نے مٹی کو یہ تاثیر د ے دی کہ پانی سے وضو کرو تو جسم پاک ہوتا ہے اگر ضرورت تیمم کی ہو تو حضورﷺ فرماتے ہیں ہڈیاں اور اُن کا گودا تک پاک ہو جاتا ہے۔لاغر سانڈھنی پہ آپ ﷺ بیٹھے تو وہ جوانوں سے تیز ہو گئی۔دودھ خشک ہو چلا تھا نہریں جاری ہو گئیں۔جہاں جہاں حضور ﷺ قدم رکھتے وہ جگہ گلزار ہو جاتی،جس گھر میں قدم رکھتے وہ بابرکت ہو جاتاجس جانور پر سوار ہوتے وہ تیز رفتار ہو جاتا یثرب جس کا ترجمہ دارالبلاء درست ہے ایک خاص قسم کا مرض جو وہاں جاتا اس کا شکار ہو جاتایثرب کو مدینہ کس نے بنا دیا؟
ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکا وصال ہوا اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام ؓ پر مشکل ترین گھڑی تھی دن کو یوں معلوم ہوتا تھاجیسے رات ہو گئی ہوصحابہ کرام ؓ میں کچھ لوگ بیٹھے تھے وصال کی خبر سنی اوروہیں منجمد ہو گئے پھر ساری زندگی اٹھ نہ سکے۔ سید نا فاروق اعظم ؓ  جیسی ہستی پر بھی جذب آ گیا۔اُم ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ کی بہت پیاری خادمہ تھیں جب عمر رسیدہ ہو گئیںتونبی کریم ﷺ ان کے گھر خیریت پوچھنے خود تشریف لے جاتے۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اُم ایمن کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لئے گئے جب ان کی مزاج پرسی کی تو انھوں نے زاروقتار رونا شروع کر دیا انھوں نے فرمایاکہ بی بی آپ اتنا کیوں رو رہی ہیں؟حضور ﷺ ہم سے دور تو نہیں ہیں۔ام ایمن ؓنے فرمایایہ بات میں جانتی ہوںمیںرو اس لیے رہی ہوں کہ اب قیامت تک زمین پرجبرائیل امین ؑ وحی لے کر نہیں آئیں گے۔ہم تو اس بات کے عادی تھے کہ کوئی مسئلہ ہوتافوراً بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے مسئلہ بیان کرتے جواب اﷲ کی طرف سے آتا،وحی نازل ہوتی قرآن نازل ہوتا،اﷲ کے ذاتی کلام میں جواب آ جاتا۔اب وہ نعمت ختم ہو گئی رسالت ﷺ، نبوت اورکتاب موجود ہے قیامت تک رہے گی۔اس با ت پہ رونا نہیں ہے رو اس لیے رہی ہوںکہ حضورﷺ کا وصال وحی کو ختم کر گیاحضور ﷺ اﷲ کا پیغام پہچانے اس دنیا میں تشریف لائے ورنہ یہ دنیا اس قابل ہی نہ تھی۔حضور ﷺ میدان عرفات میں تھے آیت کریمہ نازل ہوئی آج کے دن میں نے اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں جتنے انعامات کوئی مخلوق اپنے خالق سے لے سکتی تھی وہ آپ پر آج مکمل کر دیے۔تمہارا دین مکمل ہو گیا اور دین اسلام کو تمہارے لییپسند فرما لیا او ر اس پر وہ راضی ہو گیا،اب اس میں کوئی کمی بیشی قیامت تک نہیں ہو گی تو صحابہ کرام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ روزانہ انتظار رہتا تھا دیکھیں نیا حکم کون سا ہو گا؟ الحمدﷲ دین مکمل ہو گیاہماری زندگی میں مکمل ہو گیا۔ہمیں پورے دین پر عمل توفیق ارزاں ہو گئی۔سب کے علم میں تھا کہ راز گان نبوت ابوبکر صدیق ؓ ہیں تو سب نے تلاش کیا انھیں تلاش کروانھیں مبارک دیں دین مکمل ہو گیا۔آپ کو تلاش کیا تو اپنے خیمے میں بیٹھے زاروقطار رو رہے تھے انھوں نے کہا آپؓ رو رہے ہیں خوشی کا موقع ہے دین مکمل ہو گیا۔انھوں نے کہا میں رو اس لیے رہا ہوںاس دین کی تکمیل کے لئے حضور ﷺ تشریف لائے تھے ورنہ یہ دنیا اس قابل نہ تھی اور اگر دین مکمل ہو گیا تو اس کا مطلب ہے حضور ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما جائیں گے۔ انھوں نے سب کو رُلا دیاجو خوشیاں لے کر آئے تھے سب کو رُلا دیا کہ حضور ﷺ کا یہاں تشریف لانااس دین کی ترویج کے لیے تھا۔جب دین مکمل ہو گیا اور حضور نے پہنچا دیاتو پھر یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو یہاں رکھے اور وہی ہوا۔اس کے اسی بیاسی دن کے بعد حضورﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے تو حضورﷺ کی یہاں تشریف آوری کا مقصد اﷲ کا دین روئے زمین پر بسنے والے انسانوںکو پہچانا تھا جب یہ فریضہ مکمل ہواحضور ﷺاس دنیا سے پردہ فرما گئے۔
  ارشادات نبوی ﷺ کا مظہر تعامل صحابہ ؓ ہے، صحابہؓ نے جو عمل کیاوہ دلیل ہے کہ یہ حضور ﷺ کا حکم ہے اور تمام صحابہ ؓ  کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہؓ  ستاروں کی مانند ہیںجس طرح ستاروں سے لوگ راہ تلاش کرتے ہیںیہ تمہاری راہنمائی کے لئے وہ ستارے ہیں تم جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جائو گے یعنی صحابہ ؓ سارے کے سارے عادل بھی ہیں ہادی بھی ہیںجس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جائو گے۔ ذرا صحابہ ؓسے کوئی جلوس کوئی جشن ثابت کرودنیا میںکسی نے اگر واقعی کسی سے محبت کی ہے تو وہ صحابہ ؓ  محمد الرسول اﷲ ﷺ ہیںدنیا کی پوری تاریخ میںکوئی ان کی مثال نہیںاسی لیے آدم علیہ السلام سے لے کرقیامت تک تمام لوگوں سے انبیاؑء کے بعد افضل ترین لوگ ہیں۔کافر جسے ایمان ہی نصیب نہیں ہوا اس کی تو بات چھوڑیں وہ تو ہے ہی کافروہ تو اپنی خواہشات سے دین گھڑے گالیکن جوایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دین گھڑلے؟ اﷲ کریم ہماری خطا ئوں کو معاف فرمائے ہمیں نیکی کی توفیق دے۔
Aap SAW Ki Wiladat Basaadt Be Panah Rehmaton Ka Sabab by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Articles
Silsila Naqshbandia Owaisiah, Awaisiah Naqshbandia, Lataif, Rohani Tarbiyat, Zikr Qalbi, Allah se talluq, Dalael us Salook