Introduction Of Silsila Naqshbandia OwaisiahSilsila Naqshbandia Owaisiah Publications

Introduction Of Silsila Naqshbandia Owaisiah

آولاد آدم کا شرف

اس وسیع کائنات میں اللہ تعالی نے انسان کو
لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ   (التِّيْن : 4) ترجمہ: کہ یقیناً ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا۔  اور  
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ   (بَنِيْ إِسْرَآءِيْل : 70) ترجمہ: اور بے شک ہم نے بنی آدمؑ کو عزت بخشی۔  کا شرف عطا فرماکر اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا اور اسے خلافت ارضی کا منصب جلیلہ سونپا۔  یوں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار نہیں، لیکن انسان کو جس نعمت خصوصی سے نوازا گیا ہے وہ انبیاء کرامؑ کے ذریعہ اس کے ہدایت کا سامان ہے۔

تزکیہ باطن اور روحانی تربیت مقاصد نبوت

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالی نے جہاں
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ   (الْمَآئِدَة : 3)   ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی۔  کا اعلان فرمایا وہاں اہل ایمان کو اپنا یہ احسان بھی یا د دلایا کہ
لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيھمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِھمْ   (آل عِمْرَان : 164)  ترجمہ: یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر (بہت بڑا)احسان کیا ہے کہ جب ان میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر معبوث فرمائے۔
اور اس احسان کی تفصیل میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس آخری رسولﷺ  کے ذریعہ اللہ کی اس نعمت سے مستفید ہونے کی ایک صورت یہ مقرر کی کہ اللہ کا رسولﷺ  ان کاتزکیہ باطن اور ان کی روحانی تربیت کرتا ہے۔


تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کی تدوین   

حضور اکرم ﷺ  نے تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ اپنے جلیل القدر شاگردوں یعنی صحانہ کرام ؓکی اس طرح تربیت کی اور تزکیہ باطن کے وہ نمونے پیدا کئے کہ رہتی دنیا تک ان کی نظریں نہیں مل سکتی-جس طرح تعلیم کتاب اور تدوین شریعت کا یہ سلسلہ صحابہ کرام ؓ کی جماعت سے آگے منتقل ہوتا چلا آیا اسی طرح تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کا طریقہ بھی صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم ﷺ  سے سیکھ کر آئندہ نسلوں کو پہنچایااور مختلف ادوار کے تقاضوں کے مطابق تدوین حدیث و فقہ کی طرح تزکیہ و تربیت کے پہلو کی تدوین میں منظم صورت میں عمل میں آئی ۔  صحابہ کرامؓ جہاں جہاں بھی گئے یہ روشنی اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس سے قلوب انسانی کو منور فرمایا۔  بعد میں جب دین کایہ پہلو منظم ہوا تو مذاہب فقہ کی طرح تربیت و تزکیہ کے بھی چار بڑے سلسلے ہمارے ہاں رائج اور مقبول ہوئے۔ 

سلاسل تصوف

علمائے مجہتدین نے اپنے خداداد علم و ذہانت سے قرآن و سنت پر غورو خوض کر کے جو فقہی استنباط کئے وہ اجتہاد ہے ۔  مجہتدین میں چار مشہور ہیں جن کے پیرو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
۱۔  امام اعظم ابوحنیفہؒ،  ۲۔ امام احمد بن حنبلؒ،  ۳۔ امام مالک ؒ   اور ۴۔ امام شافعیؒ
روحانی قوت سے روحانی تربیت کا کوئی طریقہ بتایا اور تربیت کی تو انہیں شیخ طریقت کہتے ہیں ۔  مجتہدین تصوف بھی مجتہدین فقہ کی طرح بہت ہوئے مگر چار روحانی سلسلے مشہور اور رائج ہوئے۔  
۱۔ قادریہ،   ۲۔ چشتیہ  ۳۔ سہروردیہ  اور  ۴۔ نقشبندیہ
چار فقہی مسالک اور چار رُوحانی سلسلوں کو ملا کر ظاہری و طاطنی اصلاح (اجتہاد و ارشاد) کا جو نظام بنتا ہے اُسے مسلک اہلسنت و الجماعت کہتے ہیں ۔  نبوت کا ظاہری اور عملی پہلو چار فقہی مسلکوں نے اور نبوّت کا روحانی اور باطنی پہلو چاروں روحانی سلسلوں نے سنبھال لیا اور اس طرح امت مسلمہ علوم بنوت اور انوار نبوت کی وارث و امین ٹھہری۔

سلاسل تصوّف اور اُن کے عالی مقام مشائخ عظام کے طریق کار اور مقصد پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان سب بزرگان کرام کا مقصد توحید رضائے باری تعالیٰ کا حصول اور تزکیہ نفوس انسانی ہے اور ہر سلسلہ میں اس کا مدار اتباع سنت نبوی علی صاجہا الصلوۃ والتجیہ، کثرت ذکر الٰہی اور صحبت شیخ پر ہے۔  صوفیہ کرامؒ کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہے ۔
  

اسلامی تصوف

صحیح اسلامی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حقیقت سے علمی حلقوں کو روشناس بالکتاب و السنتہ ہے ، یہی مدار نجات ہے ۔  قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ محققین صوفیہء کرام ؒ نے شیخ یا پیر کے لئے کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ جھوٹا ہے ، شعبدہ باز ہے کیونکہ تعلق باللہ کے لئے اتباع سنت لازمی ہے۔
"کما قال تعالی قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ (آل عِمْرَان : 31)  ترجمہ: آپ فرما دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریں گے۔"
 

تصوف (احسان ، سلوک اور اخلاص) دین کا ایک اہم شعبہ ہے

تصوف دین کا ایک اہم شعبہ ہے جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی غایت تعلق مع اللہ اور حصول رضائے الٰہی ہے۔  قرآن و حدیث کے مطالعہ سے نبی کریم ﷺ  کے اسوہ حسنہ اور آثار صحابہ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔  قرآن حکیم میں اسے تقویٰ تزکیہ اور خشیۃ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور حدیث تفصیل حدیث جبرئیل ؑمیں موجود ہے مختصر یہ کہ تصوف ، احسان ، سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں، اس کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جَاءَ جِبْرِيلُ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ یہ دین کا جزو ہے کوئی شے زائد نہیں ہے نہ دین سے خارج ہے اس لئے اس کا حاصل کر نا مسلمانوں پر واجب ہے ۔  احسان صرف جزو دین ہی نہیں بلکہ دین کی روح ہے اور خلاصہ ہے۔  جس نے اسے حاصل نہ کیا اس کا دین ناقص رہا کیونکہ احسان کی حقیقت یہ بیان ہوئی ہے  "تَعبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاہُ، فان لَم تَکن تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ" حدیث میں دین کے تینوں اجزاء کا ذکر ہے۔
  1. ایمان جو اصل ہے
  2. اعمال جو فرع ہیں، اور
  3. احسان جو ثمرہ ہے۔
اسے چھوڑ دینا ایسا ہے جیسے ایک شخص مغرب میں فرض کی دو رکعت پڑھ کر فارغ ہو جائے، ظاہر ہے کہ ا س کی نماز نہ ہوگی اس طرح احسان کو چھوڑ دینا دین کے ایک عظیم جزو کو ترک کرنا ہے اس لئے دین ناقص رہ جائے گا۔
 

سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ

جس طرح روایت حدیث  ہے اسی طرح سے شجرہ یا سلسلہ اولیاء اللہ اسے کہتے ہیں جس سے یہ پتہ چلے کہ کس نے کس سے برکات نبوی ﷺ  حاصل کیں۔  ان کیفیات و برکات و تعلق کو جو قلب سے قلب کو حاصل ہو جائے نسبت کہتے ہیں ۔
 

نسبتِ اویسیہ اور اس میں حصول فیض کا طریقہ

تمام سلاسل تصوف اور تمام نسبتوں میں نسبتِ اویسیہ براہِ راست نبی کریم ﷺ  سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اور ان سے مشائخ کو نصیب ہوتی ہے جو نسبتِ اویسیہ سے متعلق ہیں۔  اویسیہ اس لیے کہتے ہیں کہ حصولِ فیض کا طریقہ وہ ہے جو حضرت اویس قرنیؒ کا تھا۔  ان کے حالات میں یہ ملتا ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ میں حاضری بھی دی لیکن حضور اکرم ﷺ  سے شرف ملاقات حاصل نہ کر سکے۔  ان کا وجود ظاہری بارگاہِ نبوی ﷺ  میں حاضر نہ ہو سکا لیکن ان کے قلب نے قلبِ اطہر ﷺ  سے وہ قرب حاصل کر لیا کہ انہوں نے دور رہ کر وہ برکات حاصل کر لیں کہ سیدنا عمر فاروق   رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نبی کریم ﷺ کا پیغام لے کر ان کے پاس گئے۔
 

نسبتِ اویسیہ کی کیفیت

شاہ ولی اللہ ؒ  رقم طراز ہیں ہے کہ نسبتِ اویسیہ کی کیفیت یہ ہے کہ جس طرح دریا کا پانی کسی صحرا میں گم ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی نشان نہیں ملتا، زیرِ زمین چلا جاتا ہے اسی طرح گم ہو جاتی ہے اور اس طرح دو دو، تین تین، چار چار سو سال کوئی بندہ اس میں نسبت کا نظر نہیں آتا لیکن پھر کہیں سے یہ زمین کو پھاڑ کر نکل آتی ہے اور جب یہ نکلتی ہے تو جل تھل کر دیتی ہے پھر ہر طرف اسی کا شور سنائی دیتا ہے اور ہر طرف یہی لوگ نظر آتے ہیں۔  پھر یہ انسانی قلوب پر چھا جاتی ہے۔  جو بھی سعید ہوں، جنہیں بھی اللہ نے قبول کرلیا ہو، جن پر اللہ کا کرم ہو وہ سارے پھر اس میں شامل ہو جاتے ہیں پھر یہ سمندر بن جاتا ہے  اور ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔


سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی خصوصیت

ہمارے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ کسی کو معاشرے سے الگ نہیں کیا جاتا۔ ہر قسم کے مساعد اور نامساعد حالات اُسے پیش آتے ہیں مگر جب شیخ کی مجلس میں آتا ہے تو سارے غبار دھل جاتے ہیں۔ یہ اس سلسلے کی برکت اور شیخ کی قوت کا اثر ہے۔ یہ واحد سلسلہ ہے جو مخلوق کے ساتھ اختلاط سے منع نہیں کرتا۔ کاروبار کرو، دکان چلاؤ، ملازمت کرو، بیوی بچوں میں رہو، بس مقررہ اوقات میں مقررہ طریقے سے ذکر کرتے رہو، تمہارا سینہ منور رہے گا۔ ہاں! اگر ان تینوں امور یعنی طلبِ صادق، اکلِ حلال اور صحبتِ بد سے پرہیز کا خیال نہ رکھا جائے تو لازمی امر ہے کہ ذکر الٰہی کے لئے فرصت نہ ملنے کا بہانہ بھی ہو گا، جی نہ لگنے کا شکوہ بھی ہو گا۔ مگر یہ مرض ناقابلِ علاج نہیں، ہاں! علاج کے لئے محنت درکار ہے۔ وہ یوں کہ دھوبی پٹڑا سے کام لے، یعنی نہایت قوت سے تیزی سے لطائف کرے تاکہ خون میں جوش پیدا ہو۔
 

نسبتِ اویسیہ کی عالمگیریت

جس طرح پہلے انبیاء ؑ کے زمانے میں تھا کہ دریا کے اِس پار اتباع شرط ہے حضرت ابراہیم ؑ کا اور دریا کے اُس پار اتباع شرط ہے لوط ؑ کا، اسی طرح باقی سلاسل میں ہے کہ کچھ لوگوں کو ایک سلسلے سے حصہ نصیب ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو کسی دوسرے سلسلے سے یہ برکات نصیب ہوتی ہیں۔ اور آپ نے سنا ہو گا مشائخ کے ارشادات میں کہ اُنہوں نے بعض لوگوں کو فرمادیا کہ تمہارا حصہ میرے پاس نہیں ہے۔ تمام نسبتوں میں یہ ہوتا ہے کہ کچھ ایک خاص مزاج کے لوگوں یا خاص استعداد کے لوگوں کے لئے اُن کے پاس جو نسبت ہوتی ہے دوسری قسم کے لوگوں کو دوسری نسبت کا شیخ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ لیکن نسبت اویسیہ وہ وسیع سمندر ہے جس میں پوری انسانیت کے ہر فرد کا حصہ موجود ہوتا ہے۔ یہ کسی کو یہ نہیں کہتے کہ تمہارا حصہ میرے پاس نہیں ہے، صرف آنے کی دیر ہے، تلاش کی دیر ہے، جو چاہے اس میں سے جتنا چاہے وصول کر سکتا ہے۔ جب اس نسبت کا ظہور ہوتا ہے تو پھر دنیائے تصوف میں یہی لوگ ہوتے ہیں جو تمام سلاسل کے لئے مرکز کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور جب اس کا ظہور ہوتا ہے اور زمین پر جب اس کے حامل افراد اللہ کریم پیدا فرماتا ہے تو اُن سے برکات تقسیم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
 

نسبت اویسیہ کا کمال

ہر سلسلے کے لوگ برسوں آدمی کو چلاتے رہتے ہیں، جانچتے رہتے ہیں، پرکھتے رہتے ہیں، پھر اگر مناسب سمجھتے ہیں تو اُس کے دل میں نُور انڈیلتے ہیں۔ نسبت اویسیہ کے لوگ ایسے مزاج کے لوگ ہیں کہ اُن کے پاس چور آئے، ڈاکو آئے، بدکار آئے، میں نے دیکھا ہے کہ اُن کے پاس کافر آئے اُسے کہا بیٹھو یار! اللہ اللہ کرو، وہ کافر مسلمان ہو گئے۔ یہ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ کس میں کتنی استعداد ہے، اُس کو کیا دیا جائے، جو آجائے اُسے عطا کر دیتے ہیں اور استعداد بھی اُن کے دروازے سے مل جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑھ کے وسیع ظرفی اور سخاوت کا دنیا میں کوئی تصور نہیں کہ کوئی دینے والا نہ صرف دولت دے بلکہ دامن بھی اپنے گھر سے دے کہ یہ دامن بھی مجھ سے لے جاؤ۔

مولانا احمد علی لاہوری ؒ اپنے زمانے کے قطب ارشاد تھے، بہت بڑی ہستی تھی اُن کی، فرماتے تھے میں نے پینتالیس برس لگائے اور یہ نعمت حاصل کی، کوئی میرے پاس چار برس لے کر آئے، چار برس کا خرچہ اپنے بچوں کو دے کر آئے، چار برس اُسے میرے پاس تنہائی میں بیٹھنا ہو گا تو میں اُسے فنا فی الرسولﷺ  کرا دوں گا۔ یہ اتنی بڑی بات تھی کہ اُن کے علاوہ صدیوں میں کوئی ایسا شخص بھی نہیں ملتا جس نے ایسا بھی کہا ہو۔

کہاں وہ اور کہاں اس نعمت کی یہ ارزانی! کوئی اپنے گھر میں رہے، اپنا کام بھی کرے، اپنا کاروبار بھی کرے، صرف معمولات میں باقاعدگی کر کے سلسلے کے مشائخ سے رابطہ رکھے تو جہاں ہے اور جیسا ہے وہیں اُس کو یہ دولت نصیب ہو جائے، یہ معمولی بات نہیں ہے۔  یہ تو وہ اندازہ کر سکتے ہیں جو اِن نعمتوں کو سمجھنے اور جاننے والے ہیں۔
 

زمانہ حال میں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ

سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے زیر تربیت سالکین تقریباً نصف صدی سے اجتماعی انداز سے مشائخ سلسلہ عالیہ سے اکتساب فیض کر رہے ہیں ۔  
تحدیث نعمت کے طور پر حمداً اللہ و شکر اً علی نعمائب، پوری دنیا میں ہزاروں خوش بخت تزکیہ و تعمیر سیرت کے مراحل سے گزر کر سلوک و احسان کے اعلی مقامات سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔  اللہ کریم کا لاکھ لاکھ احسان ہے اس نے اپنے فضل و کرم خصوصی سے اس دورِ آخر میں صحیح اسلامی سلوک و احسان کی تجدید و احیاء کا اہم اور منفرد کام حضرت قلزمِ فیوضات مولانا اللہ یار خانؒ اور حضرت قاسمِ فیوضات رحمۃ اللہ علیہ کے بعد حضرت عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی کو علمی اور عملی طور پر کماحقہ، انجام دینے کی توفیق خاص سے نوازا:
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ (الْجُمُعَة : 4)  ترجمہ: یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں۔  اور
وَاللہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاءُ  (الْبَقَرَة : 105)  ترجمہ: اور اللہ جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتے ہیں۔ 
ایں سعادت قسمت شاہباز و شاہیں کرد اند

سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا طریقہ ذکر

سلسلہ اویسیہ کا طریقہ ذکر یہ ہے کہ ہر سانس کی نگرانی کی جائے اور ہر سانس پہ نگاہ رکھی جائے، ہر آنے جانے والے سانس کے ساتھ یہ توجہ کی جائے، کہ اندر جانے والے سانس کے ساتھ لفظ "اللہ" اندر جارہا ہے اور جب سانس باہر آتی ہے تو اس کے ساتھ لفظ "ھو" خارج ہوتا ہے اور "ھو" کی چوٹ لگتی ہے  اس لطیفے پر جس پر ہم ذکر کرنا چاہ رہے ہوں (یاد رہے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں سات لطائف پر ذکر کیا جاتا ہے)۔
Introduction Of Silsila Naqshbandia Owaisiah by Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications - Feature Topics in Munara, Chakwal, Pakistan on August 1,2020 - Silsila Naqshbandia Owaisiah, Tasawwuf, Sufia, Sufi, Silasil zikr, Zikr, Ziker Allah, Silasil-e-Aulia Allah
Silsila Naqshbandia Owaisiah,