The Reality Of The SoulQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

The Reality Of The Soul


شروع اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۝  وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ ۝   وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۝   فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ   ۝     (الْحِجْر : 26-29)
ترجمہ:  اور یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا فرمایا۔اور جنوں کو اس سے پہلے آگ کی لُو سے پیدا فرمایا۔ اور جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ بے شک میں کھنکھناتے سڑ ےہوئے گارےسے آدمی کو پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کو (انسانی صورت میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی رُوح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔

مکلّف مخلوق
مکلّف مخلوق چار قسم کی ہے۔ فرشتہ، شیطان، جن اور انسان۔ پانچویں قسم کی کوئی مخلوق مکلّف نہیں ہے۔ ان کے علاوہ جتنی مخلوق ہے وہ اپنے فطری تقاضوں کے مطابق عمل کرتی رہتی ہے، اس مخلوق میں نہ اطاعت کا جذبہ ہے اور نہ نافرمانی کا کوئی عنصر ہے۔ اللہ نے جو بھی ان کی جبلت بنادی ہے اس کے مطابق وہ زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔

شیطان، جنات اور  فرشتوں کی حقیقت
ان چاروں قسم کی مخلوق میں فرشتہ نُوری مخلوق ہے لیکن اسے نفس نہیں دیا گیا، خواہشات نہیں دی گئیں، ضرورتیں نہیں دی گئیں۔ اس کی ضرورت، اس کی خواہش، اس کا آرام ہی اطاعتِ الٰہی اور ذکرِ الٰہی میں ہے۔ اس کی غذا، اس کا کھانا پینا ذکرِ الٰہی ہے اور اس کا کام اللہ کی اطاعت کرنا ہے۔ وہ سراپا اطاعت ہے اور بس۔ شیطان بھی یہیں سے الگ ہوا۔

علمائے حق کے مطابق شیطان جنوں ہی میں سے تھا  اور تخلیقی اعتبار سے ایک جن ہی ہے۔ لیکن اپنی حیثیت میں بالکل ایک الگ نوع اور ایک الگ خلق قرار پایا۔ اس لئے کہ اس نے جنات میں سے ہوتے ہوئے اتنی عبادت کی، اتنی محنت کی کہ اسے فرشتوں میں شمار کیا گیا اور اسے آسمانوں پر رہنے کی اجازت دی گئی۔ مفسرینِ کرام کے مطابق جنات انسانوں سے پہلے تخلیق ہوئے۔ اللہ کریم نے یہاں ان کا ذکر بھی فرمایا؛
وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْم
انسان سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے، آگ کی لپٹ، آگ کی وہ گرم ہوا یا آگ کی وہ گرم اور لطیف کیفیت جو نظر نہیں آتی سے پیدا کیا۔ آگ نظر نہ آنے والی چیز ہے۔ آگ میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ جلنے والے کثیف عناصر ہوتے ہیں جو نظر آتے ہیں۔

نفخِ رُوح
اب عجیب بات ہے کہ فرشتے کی تخلیق کے ساتھ نفخ رُوح کی بات نہیں ہے۔ جنوں کی تخلیق کے ساتھ بھی نفخ رُوح کی بات نہیں ہے۔ زندگی فرشتے میں بھی ہے، حیات جنوں میں بھی ہے۔ مکلّف جنوں کو بھی بنایا گیا ہے۔ اعمال کی پرسش ان سے بھی ہوگی اس لئے کہ جنوں کے ساتھ ضروریاتِ زندگی اور خواہشات ہیں ۔مفسرین کے مطابق انسانوں کی تخلیق سے پہلے جنات زمین پر آباد تھے۔ ابلیس جب جنوں میں سے عبادت کرتے کرتے اس درجے پر پہنچا کہ اسے آسمانوں پر رہنے کی اجازت دی گئی، تو جنات میں نظم و ضبط کی ذمہ داری بھی اس کے سپرد کی گئی جیسے کہا گیا ہے۔
ز راہِ تفاخر بفوج ملک
گہہ بر زمین بود گہہ بر فلک

بڑے فخر یہ انداز میں فرشتوں کی فوج ہمراہ لئے ہوئے یہ کبھی زمین پر اترتا تھا، کبھی آسمانوں میں ہوتا تھا۔ جب دنیا پر جنات فساد بپا کرتے تو اللہ کریم اس کو بھیجتے اور یہ اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اصلاح کرتا۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے جنوں میں زندگی بھی ہے، انہیں تکلیف بھی دی گئی، احکام ماننے پر مجبور بھی کیا گیا لیکن ان کو نبوت و رسالت نہیں دی گئی۔

کیاجنات میں نبوت ہے؟
اس بات پر سب علماء کا اتفاق ہے کہ جنوں میں نبوت نہیں تھی۔ بعض علماء نے ایک نام لکھا ہے کہ یوسف بن حیان نامی ایک جن گزرا ہے، وہ نبی تھا۔ لیکن جمہور کی رائے اس کے خلاف ہے اس لئے کہ نبوت ایسی چیز نہیں کہ انہیں ایک بار دی گئی پھر اس کے بعد کبھی نہیں دی گئی۔ جب آدم تشریف لائے تو انسانوں میں پہلا انسا ن ہی نبیؑ تھا۔ وہ شخص جس سے انسانیت کی بنیاد رکھی گئی، وہ خود اپنی ذات میں نبیؑ تھا۔ گویا نبوت عطا ہی صرف انسانوں کو ہوئی اور اس کی بنیاد نفخ روحِ باری پر ہے۔

تخلیقِ آدم
اللہ کریم فرماتے ہیں
اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْن
ہم نے انسان کو پیدا کیا سڑے ہوئے خشک گارے سے

مٹی کا ایک عنصر جو گارا بنتے بنتے گل سڑ جائے اور پھر اس کے بعد خشک ہو جائے۔ اس طرح کی خشک مٹی سے میں ایک بشر تخلیق کرنے چلاہوں۔ لیکن وہ صرف ایک عام تخلیق نہیں ہوگی، جیسے کائنات میں سورج، چاند، ستارے، نباتات اور طرح طرح کے حیوانات، چرند اور پرند ہیں۔ اس بے شمار مخلوق میں ایک صنف ایسی ہوگی جسے انسان کہا جائے گا۔ میں نے اسےبشر کا نام دیا ہے،  جسے میں آدمی کہتا ہوں ۔

فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ
جب میں اسے درست کرلوں، جب اس کی تخلیق یا اس کی صنعت یا اس کے وجودکے بننے کا عمل مکمل ہو جائے۔

وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِی
جب اس میں اپنی رُوح پھونک دوں۔

فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْن
تو تم سارے کے سارے اس کے سامنے سر بسجود ہو جانا۔

 نفخِ رُوح جو انسان کو نصیب ہوئی، جس پر نبوت کی بنیاد ہے۔
 
عظمتِ نبوت
نبوت کی اصل کیا ہے؟ نبی ؑکے پاس وہ کیا زائد چیز ہوتی ہے جو غیرنبی کے پاس نہیں ہوتی؟

نبوت اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ نبی ؑ کے دِل کا آئینہ، دِل کی آنکھ، دِل کا شعور بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے براہِ راست اللہ کی ذات سے آشنا ہوتا ہے۔ نبوت اس آشنائی، اس پہچان کا نام ہے۔ نبوت اس تعلق کا نام ہے جو نبیؑ کے قلب کو بغیر کسی واسطے کے براہِ راست ذاتِ باری سے نصیب ہو۔ اس لئے اللہ کریم اس سے کلام فرماتے ہیں اور اس کی معرفت سارے بندوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اللہ کے کلام کو سننا یہ شان بھی نبیؑ کی ہے۔ اللہ کے کلام کو سمجھنا یہ شان بھی نبی ؑ کی ہے اور غیر نبی اللہ کو پہچاننے میں نبی ؑکا محتاج ہے، جیسے سارا وجود دیکھنے میں آنکھ کا محتاج ہے۔ ہاتھ وجود کا حصہ ہیں، کان وجود کا حصہ ہیں، لیکن سارے کا سارا جسم آنکھ نہیں ہوتا ہے۔ وہ آنکھ جو ذاتِ باری کو دیکھتی ہے، وجود کا وہ حصہ جو ذاتِ باری کا کلام سنتا ہے، وجود کا وہ حصہ جو اُمت کا تعلق ذاتِ باری سے قائم کرنے کا سبب بنتا ہے اس کیفیت،اس حالت کو نبوت کہتے ہیں۔یہ شان بھی انسان کو ملی، اس لئے کہ رُوح دراصل باری تعالیٰ کی امین تھی۔

رُوح کیا ہے؟
وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ... کے بارے میں مفسرین نے بہت لمبی بحثیں کی ہیں کہ نفخ رُوح کیا ہے؟ سمجھنے کے لئے پہلے یہ متعین کرنا پڑے گا کہ رُوح کیا ہے؟
 
رُوحِ حیوانی اور رُوحِ علوی
علماء کے مطابق رُوح کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ مختلف اجزائے بدن کو جب قدرت ایک خاص نسبت سے ملاتی ہے تو ان کے ملنے سے ایک حِدّت جسے آج کل کی زبان میں "انرجی" (Energy) کہتے ہیں۔ اور علماء یونان، یا طبِ یونانی کے ماہرین اسے ’’بخارات‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس انرجی، یا طاقت، یا کیفیت کو روحِ حیوانی کہتے ہیں۔ وہ چیز جو ان اجزاء کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے، جو انسان کے خون کے ایک ایک ذرّے کے ساتھ، ایک ایک نس نس میں پہنچتی ہے اور بدن کو شعور اور حرکت عطا کرتی ہے۔ آنکھ دیکھنے لگ جاتی ہے، کان سننے لگ جاتا ہے، دماغ سوچنے لگ جاتا ہے، دِل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔  ہر ذرّہ، ہرعضوِبدن اپنا اپنا کا م شروع کر دیتا ہے۔ اسے روحِ حیوانی یا سفلی کہتے ہیں۔ یہ زندگی کا، حیات کا سبب ہے۔ یہ رُوحِ حیوانی ہر ذِی رُوح میں موجود ہے۔ اس میں تمیز نہیں ہے کہ وہ بندر ہے یا ریچھ، یہ فرق نہیں ہے کہ وہ حیوان ہے یا انسان، وہ درند یا چرند ہےہر وہ شے جسے اس طرح کی زندگی نصیب ہے خواہ وہ مچھر ہے یا مکھی، اس میں زندگی کی یہ کیفیت موجود ہے تو اس کو رُوحِ حیوانی یا رُوحِ سفلی کہتے ہیں۔ انسان کی فضیلت یہ ہے کہ اس رُوحِ حیوانی کے ساتھ اسے ایک رُوحِ ملکوت سے، یا عالِم امرسے بھی نصیب ہے۔ اس نفخ شدہ رُوح کو رُوحِ علوی یا ملکوتی کہتے ہیں۔ وہ رُوحِ علوی کیا شے ہے؟

رُوح کی حقیقت
وَ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ      آپ ﷺ سے رُوح کے بارے سوال کرتے ہیں۔
قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ ربِّی    کہہ دیجئے۔ رُوح میرے مالک، میرے ربّ کے امر میں سے ہے۔
(بَنِيْ إِسْرَآءِيْل : 85)
امر اللہ کی صفت ہے۔ امر تخلیق نہیں ہے، امر مخلوق نہیں ہے، امر صرف اللہ کی صفت ہے۔ انسانی رُوح مخلوق ہے لیکن ایسی مخلوق جو کسی مادے سے، کسی جوہر سے، کسی نُور سے، کسی ذرے سے نہیں بلکہ اس تجلی سے تخلیق فرمائی گئی جو اللہ کے امر سے ہے۔
مِنْ اَمْرِ رَبِّی  ...  خود  اَمْرِ رَبِّی  نہیں ہے  ...  اَمْرِ رَبِّی میں سے ہے۔  رُوح خود براہِ راست  اَمْرِ رَبِّی  نہیں ہے۔
چونکہ  اَمْرِ رَبِّی ...  تو ربّ کی صفت ہے ... اللہ کا کلام، اللہ کی صفت، اللہ کا حکم، اللہ کا امر، اللہ کا کلام صفت ہے۔ جیسے اس کی ذات قدیم ہے، ویسے اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ اللہ کی ایسی کوئی صفت نہیں ہے جو کبھی نہیں تھی پھر اس نے بنا کر اپنے ساتھ چپکالی۔ یہ اس کی شان کے خلاف ہے۔ جس طرح اس کی ذات کی کوئی ابتدا، کوئی انتہا نہیں، اسی طرح  اس کی صفات کی کوئی ابتداء ، کوئی انتہا نہیں۔ اس کی صفات اسی کو سزاوار ہیں، کوئی دوسرا جس طرح اس کی ذات میں شریک نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات  میں بھی کوئی شریک نہیں۔ تو رُوح   اَمْرِ رَبِّی  میں سے ہے۔ صفاتِ امر کا عالم ہی الگ ہے۔ علمائے حق کے مطابق جہاں دائرۂ تخلیق ختم ہو جاتا ہے، جہاں مخلوق کی حد ختم ہو جاتی ہے وہاں اس عالِم امر کی ابتدا ہوتی ہے۔

نفخِ رُوح
روح چونکہ عالِم امر کی تجلی سے پیدا کی گئی ہے اس لئے اس میں یہ کمال ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کی کوئی حد نہیں۔ اس کی اصل محدود نہیں ہے، لامحدود ہے۔ یہ جب انسانی بدن کے ساتھ وابستہ ہوئی تو اس نے انسانی زندگی کو بھی لامحدود کردیا۔ فرشتہ سراپا نیکی ہے، اسے آزمائش میں ڈالا ہی نہیں گیا۔ شیطان کو آزمائش میں ڈالا گیا لیکن اس میں نفخ رُوح نہیں ہے، نفخ رُوح نہ ہونے کا نتیجہ کیا نکلا؟ سارا قرآن حکیم دیکھ جائیے، جنات کے لئے گناہ پر عذاب کی وعید ہے، نیکی پر جنت کی بشارت نہیں ہے۔ نیکی ہے، نیکی پر جنت کا وعدہ نہیں ہے۔ صرف اتنا کہہ دیا گیا ہے؛
 وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ  (الْأَحْقَاف : 31)  تم اس عذاب سے بچ جاؤ گے۔
 
نور بشر کی حقیقت
اب لے دے کے ایک مخلوق رہ گئی جسے انسان اور بشر بھی کہا جاتا ہے اس لئے انبیاءٔ کی بشریت کا جو انکار کیا جاتا ہے یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جو بشر نہ ہو وہ نبیؑ ؑبھی نہیں ہو سکتا۔ نبوت ملی ہی نوعِ بشر کو ہے۔ مشرکین نے اس بنیاد پر انکار کیا تھا کہ آپﷺ تو بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ انکار تو اپنی جگہ رہتا ہے، صرف اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ انہوں نے بشریت کا اقرار کیا اور نبوت کا انکارکیا۔ ہم نبوت کا اقرار کرتے ہیں مگر بشریت کا انکار کرتے ہیں، یہ سراسر غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے جیسا بشر تسلیم کر کے آپﷺ کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جیسے ہم بشر ہیں ویسے ہی وہ بشر ہیں۔ دراصل ہم اپنے اوپر قیاس کرکے انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ ہم تو اپنی بشریت بھی کھو چکے ہیں۔ انسانیت تو بہت دور کی بات ہے، بہت بلندی کی بات ہے اور حضور اکرمﷺ بشر بھی انتہائے بشر ہیں، حدِ بشریت ہیں۔ یہ بہت بڑا فاصلہ ہے۔ بہر حال بشریت کا انکار جائز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حضور اکرمﷺ کی بشریت بھی بے مثل اور بے مثال ہے اور کوئی دوسرا ایسا بشر نہیں ہے۔

رُوح اور لطائف خمسہ
اللہ کریم نے وہ رُوح جو عالِم امر کی تجلی سے تخلیق فرمائی، انسان کے وجود میں ڈال دی۔ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ ـؒ پانی پتی لکھتے ہیں کہ یہ وہی رُوح ہے جو قلب سے حیات کو شروع کرتی ہے۔ جس کا سب سے پہلا ورود ہی قلب میں ہوتا ہے اور پھر پانچ مقامات پر نظر آتی ہے۔ قلب، روح، سری، خفی، اخفیٰ۔ وہ فرماتے ہیں: انسان حقیقتاًدس چیزوں کا مرکب ہے۔ اور یہی بات مجددالف ثانیؒ بھی لکھتے ہیں کہ اس عالِم آب و گل سے آگ، مٹی، ہوا، پانی اور پانچواں نفس یا رُوحِ حیوانی  (جو اِن چار عناصر کے ملنے سے بنتا ہے اور جسے آپ آج کی اصطلاح میں "انرجی" کہتے ہیں)  اور پانچ وہ لطائف جو عالِم امر سے متعلق ہیں، جو اس رُوح  (جو اَمْرِ رَبِّیْ سے ہے)  کے ورُود سے روشن ہوتے ہیں اور جو اِس کے رہنے کا ٹھکانہ بنتے ہیں یعنی قلب، روح، سری، خفی اور اخفیٰ۔ یہ دس چیزیں مل کر انسان بنتا ہے۔ یہ استعداد ہر انسان لے کر آتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے؛
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ اِلَّا اَنَّ اَبَوَیْہِ یُھَوِّدَانِہِ اَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْیُمَجِّسَانِہِ     (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماقیل فی اولاد المشرکین،الحدیث:۱۳۸۵،ج:۱،ص:۴۶۶)
ہر پیدا ہونے والا فطری خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے۔پھر اس کے والدین، یااس کا معاشرہ، یا اس کا ماحول کسی کو یہودی، کسی کو نصرانی اور کسی کو مجوسی بنا دیتا ہے۔

وہ ان سے اثر قبول کر کے اسلام کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا ہے ورنہ ہر انسان میں معرفتِ الٰہی پانے کی استعداد موجود ہوتی ہے۔ تو سجدہ انسانی وجود کونہیں کیا گیا۔ سجدہ انسان میں موجود عناصر یا اس کے ملنے سے پیدا ہونے والے نفس یا رُوح سفلی کو نہیں کیا گیا۔ بلکہ فرمایا: جب میں اپنی رُوح جو عالِم امر کی تجلی سے پیدا کی گئی، جو صفت ہے حیات کی، اس میں پھونک دوں تو تمہیں سجدہ کرنا ہوگا۔ تو سجدہ اُس رُوح کو کیا گیا۔ عزت و احترام اس کے لئے ہے۔  انسانیت کی تکمیل اُس رُوح سے ہوتی ہے جو عالِم امر کی تجلی ہے اور اس کی حیات قلب سے شروع ہوتی ہے۔ اور قلب کی حیات نُورِ ایمان پر ہے۔

قلب کی حیات
اب اگر نُورِایمان ہی جاتا رہے تو قلب بھی جاتا رہے گا۔ قلب کی حیات کا کم از کم حال یہ ہے کہ اسے ایمان نصیب ہو۔ قلب کی حیات کی دلیل ایمان ہے، عمل صالح اس کی طاقت ہے۔ حیات جیسے ایک نوزائیدہ بچے میں بھی ہے، حیات ایک طاقتور جوان میں بھی ہے لیکن بچپن اور جوانی کی طاقتوں میں جتنا فاصلہ ہے، اتنا ہی فاصلہ ایمان لانے کے بعد عمل صالح بناتا ہے۔عمل صالح اسے قوت دیتا ہے۔محض ایمان ابتدائے حیات ہے لیکن اگر کوئی ایمان پر ہی نہ رہے تو اس میں جب تک وہ دُنیا میں ہے، عالِم امر کی اس تجلی کو دوبارہ پانے کی استعداد رہتی ہے۔ لیکن وہ اگرایمان کھو دے تو پھر اس کے وجود کا حصہ نہیں رہتی، وہ اس سے سلب ہو جاتی ہے۔ اور بعض لوگ پھر اتنے جرائم کرتے ہیں کہ ان کے قلوب سے وہ استعداد نفی کر دی جاتی ہے۔ وہ دوبارہ اس تجلی کو پانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ جس کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا؛  خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِم  (الْبَقَرَة  : 7) ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی۔

اس مہر سے یہ حیوانی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تجلی، وہ نُور، وہ نفخ رُوح جس کے بارے فرمایا گیا، وہ رُوح جو عالِم امر سے ہے، اس کے نُور کا دوبارہ اس قلب میں آنا محال ہو جاتا ہے، اس کے گناہوں کی وجہ سے قلب سے استعدادزائل ہو جاتی ہے۔ اس لئے فرمایا؛  ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ   (الْبَقَرَة  : 6)۔  رسول اللہ ﷺ انہیں دعوت دیں نہ دیں، آپ ﷺ انہیں عذاب و ثواب کے متعلق بتائیں نہ بتائیں، انہیں کفر اور برائی کے نتائج سے آگاہ کریں نہ کریں، ان کے لئے برابر ہے ... لاَ یُؤْمِنُوْن ..  ایمان نہیں لائیں گے، کیوں نہیں لائیں گے؟  خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِم  ... اللہ نے اِن کے دِلوں پر مہر کردی، اللہ کے اُصول توڑنے میں یہ اتنی دُور تک چلے گئے کہ اب واپسی کی کوئی امید نہیں رہی۔ قلوب میں قبول کرنے کی جو استعداد تھی، جو نُورِ ایمان سے نصیب ہوتی ہے وہ اللہ نے سلب کر لی۔

سالک کی تربیت کا اصل سبب
سلاسلِ تصوف کا حاصل بھی یہ ہے کہ براہِ راست ان لوگوں کی مجالس میں بیٹھ کر جیسے صحابہؓ سے تابعینؒ نے، تابعینؒ سے تبع تابعین ؒنے اور اُن سے اُن کے شاگردوں نے یہ نُور حاصل کیا۔ بعینہٖ اس حد ت کو براہِ راست ان قلوب سے قبول کیا گیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تعلیمات کو سن کر مان لیا جائے تو ایمان پیدا ہوگیا، رُوح کا اتنا عنصروجود میں آگیا جس سے دِل میں ایمان کی روشنی آگئی لیکن وہ تعلق کمزور رہا۔ ہاں!اگر منور القلوب لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا تو دِل میں وہ روشنی، وہ نُور آگیا اور وہ قوت بہت طاقتور ہوگئی، بہت مضبوط ہو گئی۔ حتیٰ کہ اللہ اگر عطا کرے تو پھر ان حجابات کو پھاڑ کر رُوح کا تعلق واپس آسمانوں سے، پھر عرش سے، پھر عالِم امر سے استوار ہو تا جائے گا اور اس حیات میں، زمین پر بیٹھے ہوئے بھی، اپنا تعلق پھر سے اُس مقام سے اس طرح قائم کر لے گا کہ جیسے کوئی مسافر دور دراز سے واپس گھر آگیا، اور زمین پر رہتے ہوئے عالِم امر میں سانس لینے لگا۔ وہاں آنے جانے لگا اور اپنا رشتہ استوار کر لیا۔ اس کی دلیل عملی زندگی میں اللہ کی اطاعت اور نبیﷺ کی کامل اور غیر مشروط اطاعت کا نصیب ہو جانا ہے۔

ایک بات جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر رُوح کاتعلق قلب سے، عالِم امر سے ہی کلّی طور پرمنقطع ہو جائے تو وہ وجود جہنم میں جائے گا۔ اس لئے آپ نے حدیث میں پڑھا، یا سنا ہو گا کہ جس دِل میں رائی برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ رُوح کا عالِم امر سے ادنی ٰ سا تعلق بھی ہمیشہ کے عذاب سے نجات دیتا ہے کیونکہ انسانی نفس یا انسانی وجود تو جہنم میں جا سکتا ہے۔ لیکن وہ تجلی جو عالِم امر سے ہے اس کا جہنم جانا نہیں بنتا۔ اور جو لوگ جہنم جائیں گے ان میں عالِم امر کا وہ عنصر نہیں ہو گا جس سے رُوح کی تخلیق کی گئی ہے۔ اس لئے دوزخیوں کی شکل انسانی نہیں ہوگی، چہرہ انسانی نہیں ہوگا۔ انسانوں کی طرح بات نہیں کر سکیں گے، جانوروں اور درندوں جیسا چیخناچلانا ہوگا اور شکل ایسی ہوگی جیسے جانور، جیسے درندے حیوان کی خصوصیات اپنی زندگی میں اپنائے گا۔ (مثلاًخنزیر، ریچھ، بندر، بھیڑیا، اژدھا)اسی شکل میں وہ جہنم میں داخل ہوگا کیونکہ اس میں عالِم امر کی وہ تجلی نہیں ہوگی، اگر اس رُوح کا کوئی عنصر یعنی عالِم امر سے متعلق کوئی بھی تعلق کسی کے وجود میں ہو تو اس کے جہنم سے بچ جانے کی ضمانت ہے۔

عظمت انسانی
اللہ نے فرمایا: فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْن  ...  جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی رُوح پھونک دوں تو سجدہ ریز ہو جانا۔  رُوح جو عالِم امر سے متعلق ہے،  مِنْ رُّوْحِیْ ... "اپنی رُوح سے"۔  یعنی اس کی تخلیق اللہ کی صفت کی تجلی سے ہوئی۔  کیسے ہوئی؟ اس کا جواب نہ کوئی سمجھ سکتا ہے، نہ کوئی سمجھا سکتا ہے، نہ کوئی اسے جان سکتا ہے۔ اور اتنا جاننا بھی جو ہم مسلمان جانتے ہیں یہ بھی اس کی بہت بڑی عطاہے۔ دراصل یہ کسی مادے سے، کسی جوہر سے، کسی عنصر سے، کسی ذرّے سے نہیں بنائی گئی۔ یہی باعث شرفِ انسانیت ہے اور اس کا موجود ہونا انسان کو انسان بنا تا ہے۔ اگر انسان سے اس کی نفی ہو جائے تو جہنم یا کفر کو الگ رکھ دو، انسان انسان نہیں رہتا، حیوان ہو جاتا ہے، اپنی جِبلّت کے تابع چلا جاتا ہے۔ جس طرح جانور کھانے پینے پہ لپکتا ہے، جس طرح جانور صرف آرام کی سوچتا ہے، جس طرح جانور صرف جنس کی سوچتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی بھی اس روٹین میں چلی جاتی ہے۔

آپ سارے عالِم کفر کا مشاہدہ کر لیجئے، بنظر غور دیکھ لیجئے، آپ کو وہاں سوائے حیوانی زندگی کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ انسانی رشتوں کا وجود نظر نہیں آئے گا۔ انسانی عظمت کی کوئی جھلک نظر نہیں آئے گی۔ جہاں اس کی یعنی رُوح کی نفی ہوگئی تو انسان، انسانیت سے محروم ہو گیا اور ایک عام حیوان کی سطح پر چلا گیا جو محض کھانا پینا اور اپنی نسل بڑھانا جانتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کوئی احساس نہیں ہے کہ غلط کھا رہا ہے، صحیح کھا رہا ہے، گندہ کھا رہا ہے، صاف کھا رہا ہے صحیح کر رہا ہے، غلط کر رہا ہے۔ حیوانی زندگی میں کوئی سٹیٹس، احترام یا کوئی اور قدر نہیں ہوتی۔ اسی طرح سارے کافر معاشرے میں انسانی اقدار کبھی بھی نہیں ہوتیں۔ تاریخ کے کسی دور میں، نہ پہلے تھیں اور نہ آج کے جدید ترقی یافتہ معاشرہ میں ہیں۔ جو بھی نُورِ ایمان سے محروم ہے وہ انسانی اقدار سے ویسا ہی محروم ہے جیسا جاہلوں کا معاشرہ انسانی اقدار سے محروم رہا۔

جسے آپ نیکی کہتے ہیں، جسے عبادت کہتے ہیں، جسے ورع وتقویٰ کہتے ہیں، جسے آپ بھلائی یا شرافت کہتے ہیں، یہ رُوح کے ساتھ آتی ہیں، حیاتِ قلبی کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔ جتنا جتنا اس رُوح کا تعلق قلب سے مضبوط ہوتا ہے، جتنا قلب ِ انسانی منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنی اتنی اقدار کی اہمیت اس پر وارد ہوتی جاتی ہے اور اتنا اتنا وہ سنبھل کر انسان بنتا چلا جاتا ہے۔ اس کا نفی ہوجانا، انسانیت کے منفی ہو جانے کی دلیل ہے۔

یہ چند گزارشات تھیں جو انسانی عظمت پہ دلالت کرتی ہیں۔ انسان کو انسانیت نصیب ہی اس رُوح کی وجہ سے ہے جو اللہ کی صفات کی نفخ ِ روح سے تعلق رکھتی ہیں، جو عالِم امر کی تجلی سے ہے اور قربِ الٰہی کی بنیاد بھی وہی رُوح ہے۔ کسی سے اس کی نفی ہو جائے تو وہ انسان، انسان نہیں رہتا بلکہ قرآن کی اصطلاح میں اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَام    چار پایوں کی طرح ہو گیا، عام حیوانوں کی طرح ہوگیا۔ بَلْ ھُمْ اَضَل بلکہ وہ ان سے گیاگزرا ہو گیا، کہ عام حیوان تو تخلیقی طور پر حیوان تخلیق ہوئے اور یہ شرفِ انسانیت ضائع کر کے وہاں گیا۔

اللہ کریم ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے، آمین
The Reality Of The Soul by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Topics in Munara, Chakwal, Pakistan on August 1,2020 - Silsila Naqshbandia Owaisiah, Tasawwuf, Sufia, Sufi, Silasil zikr, Zikr, Ziker Allah, Silasil-e-Aulia Allah
Silsila Naqshbandia Owaisiah,