بیعت ِطریقت کے بارے دلائل السلوک میں لکھا ہے کہ؛
یہ بیعت صرف وہ شخص لے سکتا ہے جو نہ صرف خود فنافی الرسول ہو بلکہ دوسرے کو بھی فنافی الرسول کراسکتاہو۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں ہم بیعت ِاصلاح یا بیعت ِامارت نہیں لیتے بلکہ بیعت ِتصوف لیتے ہیں اور اس وقت اللہ کا فضل نسبت ِاویسیہ پر ہے۔ اور میرے علم میں نہیں ہے کہ کہیں روئے زمین پر کسی دوسرے سلسلے کا کوئی ایسا شخص موجود ہو جو فنافی الرسول کراسکتا ہو ۔
ایمان رشتۂ اُلفت ہے، جب ذات سے رشتہ ہوتو اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسا ہی تعلق شیخ کی ذات سے ہوتو برکات نبوت ﷺنصیب ہوتی ہیں او رانجام بخیر ہوتا ہے۔ اگر رشتۂ ذات سے ہوگا تو اعتراض نہیں ہوں گے۔ صفات سے ہوگا تو اعتراض کی گنجائش رہے گی کیونکہ صفات تو بدلتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم کا یہ احسان ہے کہ ربع صدی ،اللہ نے مجھے شیخ کی رفاقت سے نوازا، ربع صدی میں کسی کا کوئی اعتراض، کبھی میرے نزدیک کوئی اہمیت حاصل نہ کرسکا، اس لیے کہ مجھے اپنے شیخ کی ذات سے تعلق تھا۔ یہ شرط نہیں تھی کہ ذات کیسی ہے، جو تعلق ذات سے ہوتا ہے اُس میں شرطیں نہیں ہوتیں،صفات کی بناء پر جو تعلق ہوتا ہے وہ صفات کے بدلنے سے بدلتا ہے۔ خیر القرون کے بعد،میرے شیخ ایسے نابغۂِ روزگار تھے کہ صدیوں میں جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس عظمت کے باوجود، اُن کی زندگی عام انسان کی سطح پر تھی۔ زمیندار تھے، کاشت کار تھے، مولوی تھے، طبیب تھے، اعلیٰ پائے کے مناظر تھے، جہاں آپ کے بہت سے دوست تھے، وہاں دُشمن بھی تھے، جہاں بے شمار جانثار تھے، وہاں برادری کی رنجشیں بھی تھیں۔ کچھ دُعا دینے والے تھے تو کچھ ایذادینے والے بھی تھے۔ لیکن میرا رشتہ اُن کی صفات سے نہیں، ذات سے ہے۔ شیخ کا شاگرد سے رشتہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کو اخلاق و آداب سکھا کر، اللہ کے حضور کھڑا کردے اور چونکہ شیخ سے برکاتِ نبوت ﷺ لینی ہیں، لہٰذا آداب بھی بارگاہ ِنبوت ﷺکے ملحوظ رکھنے ہوں گے۔
شیخ سے ذاتی تعلق
شیخ کا کسی پر احسان نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی ذمہ داری کے باعث مجبور ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی بات سنے، اُس کا کسی پر احسان نہیں کہ وہ خطوں کا جواب دے،یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ جتنے لوگوں کی تربیت کررہا ہے، اُن کی باتیں سنے، اُن کے خطوں کے جواب دے، اُنہیں ذکر سکھائے، اُن پر محنت کرے، اُنہیں بتائے کہ کہاں غلط ہوراہ ہے، کہاں ٹھیک ہورہا ہے۔ لیکن یہ تربیت اُن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کا ذاتی تعلق شیخ کے ساتھ ہوتا ہے۔ رشتوں میں جب واسطے آجائیں تو دراڑیں پڑجاتی ہیں ۔فاصلے بڑھ جاتے ہیں، بیٹے نے باپ سے بات کرنی ہوتو وہ جاکر پھوپھی سے کہے، پھر وہ پھوپھی اُس کے باپ سے کہے، تو باپ کو دُکھ ہوگا کہ میرے بیٹے کو یا خود پرا عتماد نہیں یا مجھ پر اعتبار نہیں۔ اِسی طرح جب کوئی شیخ کے لیے سفارشیں ڈھونڈتا ہے تو سوچتا شیخ بھی یہی ہے، کہ اس کا رشتہ میرے ساتھ ہوتا تو یہ براہِ راست مجھ سے بات کرتا، سفارشیں ڈھونڈنا، رشتے میں کمزوری کی علامت ہے۔