What Is Allegiance?Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

What Is Allegiance?

بِسْمِ ٱللّٰہِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْـہِمْ     (الفتح : 10)

ترجمہ : بے شک جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ (واقعی میں) اللہ سے بیعت کرتے ہیںاللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔


بیعت کیا ہے؟

بیعت کے لغوی معنی ہیں بیچ دینا اور شرعاً بیعت اس عہد کو کہتے ہیں جو اتباعِ رسالت ﷺ کے لیے،دین پر عمل کرنے کے لیے، دین سیکھنےکے لیے کسی عالم سے کیا جاتا ہے۔

بیعت کی شرعی حیثیت

بیعت ایک مسنون عمل ہے حضور ﷺ نے صحابۂ کرام ؓسے، دین پر استقامت کی بیعت لی، کہ عقائدو اعمال میں شریعت کی پیروی کریں گے اور اس بات کی بھی بیعت لی کہ عقائد اور اعمال کو سیکھیں گے۔ ہر مسنون عمل قربِ الٰہی کی طرف لے جاتا ہے۔اللہ کریم نے قربِ الٰہی کی طرف بڑھنے کے لیے کئے جانے والے اعمال کو وسیلہ سے منسوب کیا ہے،

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ     (المائدۃ : 35)
ترجمہ: اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب پانے کے سبب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد(محنت) کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

قرآنِ حکیم بڑے پیارے انداز میں فرماتا ہے اے ایمان والو ...
ایک شفقت کا پہلو، ایک محبت کا انداز، ایک ناصحانہ رنگ لے کر یہ خطاب فرماتا ہے کہ ایمان لاکر جو تعلق تم نے اللہ سے قائم کرلیا ہے، اُسے کمزور نہ پڑنے دو بلکہ اُس کی مزید ترقی کے لیے کوشش کرتے رہو، اُس کے لیے وسیلہ تلاش کرو یعنی ایسے کام کرو جن سے محبت ِالٰہی دِلوں میں بڑھے ۔تم فرائض ادا کرو، گناہ سے رُک جائو، اس پر یہ اضافہ کرو کہ سنتیں اور نوافل اپنا لو کہ یہ ہمارے نبی ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے پھرمباحات کی باری آجاتی ہے، اُن میں بھی اتباع نبوی ﷺ نصیب ہو جائے۔ اس ضمن میں جو عمل معاون ہوگا وہی وسیلہ کہلائے گا۔ جو اِنسان اس راہ میں معاون ہوگا وہ وسیلہ کہلائے گا۔ جیسا کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے انبیاء علیہ السلام وسیلہ ہیں صحابہؓ وسیلہ ہیں اولیاء صالحین اور علماء حق وسیلہ ہیں مگر آدمی کو اپنے مقصد کی اصلاح کرلینا ضروری ہے کہ وسیلہ صرف اللہ کا قرب او راُس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اختیار کرے اس کی راہ میں جہاد کرے یا مجاہدہ دونوں معنی درست ہیں اس لئے کہ اگر وسیلہ موجود ہو مگر مجاہدہ نہ کیا جائے تو کما حقہٗ فائدہ ممکن نہیں۔

اقسامِ بیعت

شریعت ِ اسلامی میں بیعت کی کئی اقسام ہیں؛
  1. بیعت ِامارت
    کسی کو امیر یا سربراہ بنانے کے لیےبیعت کرنا جیسے ابتدائی عہد میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیعت کی گئی، خلفائے راشدین کی بیعت کی گئی، آج اس بیعت کا قائم مقام ووٹ ہے جس کے ذریعے کسی کو امیر مقرر کیا جاتا ہے۔
     
  2. موت کی بیعت
    یہ بھی مسنون ہے حضور ﷺ نے حدیبیہ میں صحابہؓ سے بیعت لی کہ ہم میں سے کوئی بھی میدان نہیں چھوڑے گا اگر ایک بھی بچا تو جہاد کرتا رہے گا حتیٰ کہ شہیدہوجائے۔ یہ بیعت ایسے مواقع کے لیے ہوتی ہے جب دین پر حرف آئے اور اس بات پر ہوتی ہے کہ اگر اکیلا فرد بھی رہ گیا تو آخری دم تک جہاد کرتا رہے گا۔

  3. بیعت ِاصلاح
    یہ بیعت ِ اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ بندہ اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی کی بیعت کرتا ہے اُس سے احکامِ شرعی پوچھتا رہتا ہے اس بیعت کے بارے میں علماء کی رائے ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کی بیعت درست ہے جو جائز ناجائز، حلال حرام کا علم رکھتا ہواور روز مرہ کی ضرورت کے مسائل جانتا ہو بیعت کی تمام اقسام کا مقصد ایک ہی ہے یعنی اتباعِ رسول ﷺ۔
     
  4. بیعت تصوف کی ضرورت اور اہمیت
    بیعت ِتصوف کا اصل مقصد علم باطنی کا حصول ہے بیعت گناہوں سے ہجرت کرنے کا نام ہے، گناہ چھوڑ کر نیکی کی رغبت پانے کا نام ہے۔ بیعت رابطہ بالحق کے لیے ہے۔ اللہ سے مسلسل تعلق قائم رکھنے کے لیے ہے ۔اس کی طلب اور اسے پانے کی استعداد اللہ کریم نے ہر پیدا ہونے والے کو دی ہے پھر اللہ کریم کسی ایسے شیخ سے ملادے جو خطاکاروں کو اللہ کی بارگاہ سے جوڑدے، جو خود سروں کے سر اللہ کی بارگاہ میں جھکادے، جو حرام کھانے کی برائی کا احساس دے، گناہ سے نفرت کا شعور دے، ایک درد دے کہ بندہ اللہ سے واصل ہونا چاہے تو یہی ارادت بیعت تصوف ہے۔ بیعت تصوف اِسی احساس کو جگاتی ہے اور شیخ کا یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ بندے کو یہ احساس دلادے کہ وہ بھی انسان ہے۔ اس کے سینے میں بھی دل ہے۔ اس دل میں اللہ کے جمال کی تجلی ہے۔ اس کے اندر بھی روح ہے۔ اس کا دل بھی اس قابل ہے کہ اللہ کا گھر بن جائے اور پھر شیخ صدیوں کے سینے چیر کر بندے کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں لے جائے اور آقائے نامدار ﷺ کے روبرو کردے۔


بیعت ِطریقت کے بارے دلائل السلوک میں لکھا ہے کہ؛
یہ بیعت صرف وہ شخص لے سکتا ہے جو نہ صرف خود فنافی الرسول ہو بلکہ دوسرے کو بھی فنافی الرسول کراسکتاہو۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں ہم بیعت ِاصلاح یا بیعت ِامارت نہیں لیتے بلکہ بیعت ِتصوف لیتے ہیں اور اس وقت اللہ کا فضل نسبت ِاویسیہ پر ہے۔ اور میرے علم میں نہیں ہے کہ کہیں روئے زمین پر کسی دوسرے سلسلے کا کوئی ایسا شخص موجود ہو جو فنافی الرسول کراسکتا ہو ۔


تصوف کی بیعت حصولِ برکات کے لیے

 شروع کے عہد میں حضرت قلزمِ فیوضات ؒ ظاہری بیعت لیا ہی نہیں کرتے تھے۔ ہمارا طریقہ بالکل سیدھا سا تھا کہ جو بھی آتا ہے، آئے ، اللہ اللہ کرے، اگر اُسے مراقبات نصیب ہوںاور فنا فی الرسول نصیب ہوگیا تو روحانی طور پر بارگاہِ عالی ﷺ میں بیعت ہوجائے گی۔ پھر ستّرکی دہائی کے آخر میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ لوگوں کا مزاج ہے وہ چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں بیعت ہوں اور خانہ پُری کےلیے کسی گمراہ کی بیعت بھی ہو جاتے ہیں، پھر ساری عمر گمراہی میں غرق رہتے ہیں۔ حضرت قلزمِ فیوضات ؒ نے یہ مسئلہ مشائخ عظام کی خدمت میں رکھا۔ اور اُن کی اجازت سے حضرت قلزمِ فیوضات ؒ نے بیعت شروع فرمائی اور الحمدللہ ،حضرت قلزمِ فیوضات ؒ سے ظاہری بیعت کی سعادت بھی اللہ نے سب سے پہلےمجھے بخشی، یہ اللہ کا احسان ہے۔ اس کے بعد ہمارے سلسلے میں یہ کام چل پڑا کہ ہر آنے والے سے یہ بیعت لے لی جاتی ہے۔ نسبت ِاویسیہ کی برکات سے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی اصلاح ہورہی ہے۔

شیخ کے حق پر ہونے کی دلیل

شیخ کے ذریعے وہ برکات مل رہی ہیں کہ لوگ برائیاں چھوڑ کر نیکیاں اپنانے لگ جاتے ہیں۔بےدین فضائوں میں سانس لیتے ہوئے دینداری کا حق ادا کرتے ہیں۔ بے نمازیوں کے ساتھ رہتے ہوئے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ غافلوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی راتوں کو ذکر اللہ سے سجاتے ہیں۔جب تک دِل اللہ سے آشنا نہ ہو دماغ اُس کی عظمت کو ماننے کے باوجود اُس کی اطاعت کے قابل نہیں ہوتا۔ اِس لیے اہل اللہ اورگروہ صوفیاء ساری توجہ دِل میں انڈیل دیتے ہیں۔ توجہ سے دِل روشن ہوکر اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وجود ہی مسجد میں نہیں آتا دِل پہلے مسجد پہنچ جاتا ہے۔بیعت ِتصوف اِسی مقصد کے حصول کے لیے ہے کہ دِل میں خلوص آجائے ، قربِ الٰہی کی آرزو پیدا ہوجائے ، برکاتِ نبوت دِل پر ابر ِرحمت کی طرح برستی ہوں اور دِل نورِنبوت کی کرنیں منعکس کرتا ہو۔ لیکن یہ کام از خود نہیں ہوتا، ذکر ِالٰہی سے دِل روشن ہوتا ہے اور شیخ کے ذریعے نورِ نبوت کا انعکاس ہوتا ہے۔

 جب بیعت ِرضوان کا ذکر آتا ہے اللہ کریم فرماتے ہیں؛
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ  فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا     (الفتح : 10)
ترجمہ: بے شک جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ (واقعی میں) اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے تو (بیعت کے بعد) جو عہد کو توڑنے والے کا وبال خود اُسی پر ہے۔ اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس کا (بیعت میں) اللہ سے عہد کیا ہے تو وہ اُسے عنقریب اجر ِعظیم عطا فرمائیں گے۔

یعنی جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اور یہ ایسے خوش نصیب ہیں کہ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس بیعت کی کتنی اہمیت ہے کہ اللہ نے اپنی مدد اُن کے ساتھ کردی ہے، اُن کے ہرکام میں اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔اس سنت کی پیروی میں ہی مشائخ کی بیعت ِظاہری کی جاتی ہے۔ ورنہ بیعت تو دراصل ارادت کانام ہے۔ وہ نسبت جو دل سے دل کو ہو، اُس سے اللہ کے نام پر ایک رشتہ اور تعلق نصیب ہوتا ہے ۔ ظاہری بیعت کے ساتھ، وہ تعلق کئی گنا بڑھ جاتا ہے او رظاہری بیعت کی ضرورت اور اہمیت یہی ہے کہ آدمی ایک جگہ منسلک ہوجاتا ہے او ربھٹکنے کے خطرے سے بچ جاتا ہے۔

بیعت ِتصوف کی شرائط

  1. طلب ِصادق
    طلب الٰہی کے لیے ، اُلفت پیغمبر ﷺ کے حصول کے لیے ،طلب کو کھرا کرنا۔
     
  2. اخذ ِ فیض کے لیے شیخ سے قلبی تعلق
    بیعت ایک تعلق ہے جو دِل کو دِل سے جوڑتا ہے جس دِل میں اللہ کو پانے کی آرزو ہواور جس کی طلب صادق ہوتو اللہ اُسے ایسے صاحبِ دِل کے پاس پہنچادیتا ہے۔ شیخ کے پاس اپنا مقصود پاکر بندے کا قلب خود بخود شیخ سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اِسے ارادت کہتے ہیں اور یہی بیعت ہے۔تصوف وسلوک کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اِس لیے کہ برکات نبوت کا مصدر نبی کریم ﷺ کا سینۂ اطہر ہے۔ یہ کیفیات حضور ﷺ سے مشائخ کے سینے میں آتی ہیں اور وہاں سے سالک کو نصیب ہوتی ہیں۔ اِس لیے سالک کے دِل کا تعلق شیخ سے جتنا مضبوط ہواتنی ہی قوت سے ترسیل ہوتی رہے گی۔ اس کی مثال بجلی کے بلب اور اُس برقی کنکشن کی ہے جس کے ذریعے پاور ہاؤس سے بجلی آ رہی ہے۔ شیخ چونکہ برکاتِ نبوت کا امین ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے اُنہی آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جو برکاتِ نبوت کے شایانِ شان ہوں۔ یہ ادب کیسے سیکھا جائے؟اگر دِل میں طلب ِالٰہی کھری کرلی جائے تو خود بخود ادب آجاتا ہے ،سیکھنا نہیں پڑتا۔ نُورقلب میں آکر آداب سکھادیتا ہے۔ حصولِ برکات کے لیے اور تصوف میں ترقی کے لیے یا اس پر استقامت کے لیے، پاسِ ادب ہی شرط ہے اور ادب کرنے والے کو ہی مشائخ سے عقیدت ومحبت نصیب ہوتی ہے اور جس شخص کو شیخ کی ذات سے محبت نصیب نہ ہواُسے یا تو برکات نصیب نہیں ہوتیں یا وقتی او رلمحاتی بات ہوتی ہے۔
     
  3. محاسبۂ ذات
    حصولِ برکات کے لیےجو بیعت ہوتی ہے اُس کی شرط ہے کہ بیعت خلوص سے کی جائے اور حصول برکات کی نیت سے کی جائے پھر اپنی نیتوں، ارادوں اور قلبی کیفیات پر محاسبہ کی نگاہ رکھے او رجو برکات نصیب ہورہی ہوں اُن پر استقامت دکھائے۔ یاد رکھیں ،جو لوگ جاہلوں اور نااہلوں سے بیعت کرلیتے ہیں اور گمراہی میں ہی زندگی بسر کرجاتے ہیں وہ بیعت کبھی نہیں توڑتے اس لیے کہ اُنہیں بیعت توڑنے کا داعیہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ شیطان بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ جس کنارے لگ گیا ہے اُسے یہیں کھپادینا چاہیے۔ لیکن جنہیں واقعی شیخ سے بیعت نصیب ہوجائے تو پھر شیطان کو بھی مصیبت پڑجاتی ہے کہ اس شخص کو کس طرح اس نعمت سے الگ کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے، ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

بیعت ِتصوف اورحفاظت ِ الٰہیہ

بیعت کا بہت بڑا فائدہ حفاظت ِالٰہیہ کا حصول ہے۔ حفاظت ِ الٰہیہ بندے کو خطائوں سے، گناہوں سے، برائی سے محفوظ رکھتی ہے۔ حفاظت ِالٰہیہ کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ اب بیمار نہیں ہوگا، اُسے روزی میں تنگی نہیں آئے گی یا اُس پر دُنیا کے مسائل نہیں آئیں گے۔ یہ تو نظامِ کائنات ہے اور تنگی و آسانی اس نظام کا حصہ ہے۔ ارواح کی تخلیق سے بھی پہلے اللہ کریم نے ایک ایک فرد کی روزی تقسیم کردی، صحت و بیماری کا فیصلہ کردیا۔ یہاں تک کہ کسی کی دُعا سے جو فائدہ ہوتا ہے، وہ فیصلہ بھی ازل میں ہوچکا ہے کہ اللہ کریم فلاں کی دُعا فلاں کے حق میں قبول فرما کر اُس کے حالات بدل دیں گے۔ ہاں، انسان کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ہوتا پھر وہی ہے، جو اللہ چاہتا ہے۔ لیکن انسان اپنے اندر ایک فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے کیا کرنا چاہیے؟ سنت کے مطابق اور اللہ کی اطاعت کی حدود میں۔ حفاظت ِالٰہیہ یہ ہے کہ بندے کو فیصلہ کرتے وقت اللہ کی مدد حاصل ہوجاتی ہے اور بندہ نیکی کا فیصلہ کرتا ہے، برائی کا نہیں۔ یہی فرق ہےبیعت ِاصلاح او ربیعت ِتصوف میں۔

 ایمان ہونا اور اعمالِ صالح ہونا ایک بات ہے اور دردِ دل کا ہونا ایک علیحدہ بات ہے۔ جو شخص ایمان لاکر اعمالِ صالح کرتا ہے اور اُس پر اللہ کا کرم ہو، اُس کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے الحمدللہ ،یہ ایک بڑی بات ہے۔ لیکن دردِ دل کے ساتھ رہنا ایک دوسری بات ہے۔ دردِ دل ملتا ہی صالحین کی صحبت سے ہے۔ حضور ﷺ سے صحابہؓ نے حاصل کیا، صحابہؓ سے تابعین نے حاصل کیا اور تابعین سے تبع تابعین نے حاصل کیا۔ پھر ہر عہد میں اللہ نے ایسے بندے پیدا کیے او رایسے بندے پیدا کرتا رہے گا جو انوارات وبرکات سینۂ اطہر رسول ﷺ سے اخذ کرتے رہیں گے او رمخلوق کو بانٹتے رہیں گے۔ دردِ دل سے حفاظت ِالٰہیہ نصیب ہوگی، شیطان سے دفاع نصیب ہوگا، معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ نصیب ہوگا، اللہ کا حکم مجبوراً ماننے کی بجائے، حکمِ الٰہی ماننا اُس کے دل کی تمنا ہوگی، ہر شرعی حکم اُس کی رُوح کی غذا بن جائے گا اور ان انواراتِ قلبی کے باعث اُس کی دُنیا کی زندگی، باوجود مسائل زندگی کے، ایسے پر سکون ہوگی جیسے جنتی جنت میں پر سکون ہوں گے۔بیعت ِ اصلاح میں دین کے احکام ومسائل سکھائے جاتے ہیں ۔ بیعت ِتصوف میں قلبی کیفیات عطا کی جاتی ہیں۔ قلب میں یہ رحجان پیدا کیا جاتا ہےکہ وہ دِل کی گہرائی سے اتباع کرے۔ شیخ کے پاس بیٹھنے والوں کے دِلوں میں خود بخود خوفِ خدا پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے دل اللہ کی ذات کو اپنے قریب محسوس کرتے ہیں اُنہیں اللہ پر بھروسہ آجاتا ہے وہ اپنی باتیں اللہ سے کرتے ہیں اور اپنے دُکھ اللہ سے بانٹتے ہیں اور اُس کے کرم کے اُمیدوار رہتے ہیں۔ ظاہری تعلیمات کے ذریعے مانا جاتا ہے کہ اللہ ہے ۔ برکاتِ نبوت یہ یقین عطا کرتی ہیں کہ اللہ ہے۔ اللہ کریم جسے ایمان کی توفیق بخشیں، قلب ِ اطہر ﷺ کے درمیان ایک رابطہ قائم ہوجاتا ہے اگر چشمِ بینا ہوتو دیکھا جاسکتا ہے کہ بے شمار نورانی تاریں قلب ِ اطہر ﷺ سے نکلتی ہیں او رجس دِل میں ایمان ہے وہاں تک پہنچتی ہیں۔اس رشتۂ ایمان کو مضبوط ترکرنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے اطاعت ِرسول ﷺ۔

اطاعت ِ رسول ﷺ کے دو حصے ہیں

 ایک حصہ تو وہ ہے جو ہر مسلمان کو نصیب ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد تعلیماتِ نبوت سے آشنائی حاصل کرے اور اتباعِ رسالت کو شعار بنائے۔ اپنا جینا مرنا، سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، جتنا سنت کے قریب ترکرتا جائے گا، اُتنا اُس کا رشتہ مضبوط اور اتنی ہی اُس کی تعلق کی تاریںبڑھتی چلی جائیں گی۔ ہر سنت اس تار کو بڑھائے گی۔ عین ممکن ہے وہ تار، رسہ بن جائے اور دوسر احصہ اس تعلق کو مضبوط کرنے کا یہ ہے کہ اطاعت بھی نصیب ہو اور اُس کے ساتھ برکاتِ صحبت بھی نصیب ہوجائیں۔ جب برکاتِ صحبت نصیب ہوتی ہیں تو تعلق کی ابتداء تارسے نہیں، نہر سے ہوتی ہے او رپھر یہ تعلق سمندروں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ سلاسل تصوف میں جو شجرہ مبارک پڑھا جاتا ہے اس میں اُن بزرگوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنے سے پہلوں سے، برکاتِ صحبت حاصل کیں او ریوں شجرہ حضور ﷺ تک پہنچتا ہے۔ یہ یادرکھیں، کہ شجرہ جتنا طویل ہوگا قوت اتنی ہی کم ہوتی چلی جائے گی۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ تمام سلاسل سے قوی ہے کہ چودہ صدیوں میں صرف بارہ واسطے ہیں رسول ﷺ کی ذاتِ اقدس تک، باقی کوئی بھی سلسلہ چالیس و اسطوں سے کم نہیں ۔ نسبت ِ اویسیہ کے مشائخ ایسے عظیم انسان ہیں کہ انہوں نے تین تین، چار چار صدیاں مسلسل دلوں کو روشن رکھا۔
 سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ میں بیعت ِتصوف سےکمالِ انسانیت نصیب ہوتا ہے۔

بیعت کے تقاضے

بیعت کے بعد جب محنت کی، مجاہدہ کیا تو اب اس کا امتحان ہوگا مسجد میں اور مسجد کے باہر، بازار، کاروبار، لین دین، گھر کی چاردیواری، گھر والوں کے ساتھ معاملات، لوگوں سے تعلقات، یہ سب امتحان گاہیں ہیں جب اللہ کے نور سے بندے کا دِل صاف ہوتا ہے، اس کے کردار میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اور اگر کردار میں تبدیلی نہیں آتی تو ابھی دِل کی صفائی نہیں ہوئی۔ اللہ اللہ کرتے رہنے سے جب دِل میں روشنی آتی ہے تو سب کام سیدھے طریقے سے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ذکر کی آزمائش میدانِ عمل میں کرو، کاروبارِ حیات میں، بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ برتائو میں کرو ۔ ۔ ۔ خود کو حضور ﷺ کی غلامی میں لانا ہی اصل ایمان ہے ۔ ۔ ۔ لوگوں کی باتوں سے اور اُن کی رائے سے صرفِ نظر کرنا بھی بیعت کا تقاضا ہے ۔ کوئی آپ کو چور کہتا ہے ،کہتا رہے لیکن اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ آپ کو چور نہ کہیں، اپنے فرائض پورے خلوص اور دیانتداری سے ادا کرتے رہیں، لوگ خواہ کچھ بھی کہتے رہیں ایک صوفی کے لیے یہ کمزوری ہے کہ وہ یہ سوچے لوگ کیا کہیں گے۔ لوگوں کو کہنے دیں، لوگوں کی اپنی رائے ہے ،سارے لوگ تو اللہ کی عظمت پہ متفق نہیں، حضور ﷺ کی رسالت پہ متفق نہیں، ہماری کیا حیثیت ہے ؟کہ سارے لوگ ہمیں اچھا کہیں اور اگر کہیں گے تو ہمیں کیا ملے گا؟ اور ،نہیں کہیں گے ،تو ہمارا کیا بگڑے گا؟ ہمارا مقصد تویہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں ہمیں قبول فرمایا جائے ،اور ہمیں یہ فکر ستائے کہ جو میں کررہا ہوں، میرا ربّ مجھے دیکھ رہا ہے، وہ ناراض تو نہیں ہوگا؟ نبی کریم ﷺ ناپسند تو نہیں فرمائیں گے؟جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو بڑی سے بڑی رکاوٹ اُسے اپنے مقصد سے نہیں ہٹاسکتی ، وہ زندگی کے تمام نشیب وفراز طے کرتا ہے، بچپن، جوانی، بڑھاپا، امیری، فقیری، محبتیں، نفرتیں سب سہتا ہے۔ پریشان نہیں ہوتا، اُس کی پریشانی کی صرف ایک ہی بات ہے کہ اُس کا اللہ سے تعلق کمزور نہ ہوجائے، اُس کی خوشی اس بات میں ہے کہ اس کا تعلق اللہ کے رسول ﷺ سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ صوفیا کرام ؒ فرماتے ہیں کہ تصوف میں نقصان یہی نہیں ہوتا کہ جو مقام تھا وہ چھن گیا بلکہ نقصان اُسے کہا جاتا ہے کہ جو مقام تھا اُس میں اضافہ کیوں نہیں ہوا یعنی جو تعلق بارگاہِ نبوی ﷺ سے ہے، جو طلب جمالِ الٰہی کی ہے، وصولِ حق کی ہے، اِس طلب اور اِس آرزو میں، اِس خواہش میں ہر لمحے اضافہ ہوتا رہے تو بات ٹھیک اور اگر ایک جگہ رُک جائے تو یہ نقصان ہے اُس تاجر کی طرح جس کے اصل زر میں اضافہ نہیں ہوتا۔

بیعت ٹوٹنے کی وجوہات

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر بغیر سوچے سمجھے کسی بھی شخص کی بیعت کرلی جائے کہ یہ شاہ جی ہیں، یا پیر صاحب ہیں، تو وہ بیعت منعقد ہی نہیں ہوتی، بیعت ہوتی ہی نہیں، ہوگی تو ٹوٹے گی۔ خواہ مخواہ بندہ تصور کرلے کہ میں یہاں بندھا ہوا ہوں، بندھے ہوئے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،بلکہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ تقریر فرمارہے تھے ۔ایک ہندو نے سوال کیا کہ اسلام میں نکاح ہوتا ہے پھر طلاق بھی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہندومت میں شادی ہوتی ہے پھر کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اِس لیے ہندو مذہب افضل ہے۔ اللہ کریم شاہ صاحب پر کروڑوں رحمتیں فرمائے اُنہوں نے بڑے مزے کا جواب دیا کسی سے کہا دھاگہ اور چاقو لائو، دھاگہ او رچاقو لایاگیا۔ ایک شخص سے کہا دھاگہ کھینچ کر پکڑو ، اُس نے پکڑا ،اُنہوں نے چاقو گھمایا، پوچھا کیا دھاگہ کٹ گیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا، کٹ گیا ہے۔ پھر اُسی شخص سے کہا دھاگہ پھینک دو اور اب ویسے ہی ہاتھ پکڑو۔ آپ نے چاقو دوبارہ اُسی طرح گھمایا او رپوچھا کچھ ٹوٹا؟ جواب آیا، کچھ نہیں ٹوٹا۔ اُنہوں نے فرمایا: طلاق کے لیے پہلے نکاح ہونا چاہیے۔ ہندو مذہب میں نکاح ہی نہیں ہوتا، طلاق کہاں سے ہوگی۔ یعنی کچھ ہوگا تو ٹوٹے گا تمہارے پاس نہ دین ہے نہ پیغمبر علیہ السلام، نہ اُن کا بتایاہوا طریقہ، تمہارے ہاں کچھ ہوگا تو ٹوٹے گا؟ اسی طرح بغیر جانے بوجھے جو رسمی بیعت ہوتی ہے وہ ہوتی ہی نہیں توٹوٹے گی کہاں سے؟جو بیعت تصوف میں کی جاتی ہے اُس کی تو ابتداء ہی طلب ِ صادق سے ہوتی ہے وہ بیعت اللہ کے نام پر اللہ کی طلب میں کی جاتی ہے جو حضور ﷺ کی سنت کے اتباع میں کی جاتی ہے، اُس کے ٹوٹنے کی وجہ غلطی نہیں، بددیانتی ہوتی ہے۔ جب طلب بدل جاتی ہے او ربندہ اصلاح کرنے کی بجائے اپنی غلطی پر ڈٹ جاتا ہے تو بیعت ٹوٹ جاتی ہے۔
  1. شیخ پر اعتراضات
    حضرت قلزمِ فیوضات ؒ ایک اصول فرمایا کرتے تھے کہ جو تحقیق کسی نے شیخ کے بارے کرنی ہے، وہ بیعت ہونے سے پہلے کرلے، تحقیق کرے، مل کر دیکھے، پاس رہے، جب تسلی ہوتو بیعت کرے، اس لیے کہ بیعت کے بعد صرف تعمیل کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ اسی لیے حضرت قلزمِ فیوضات ؒ کے پاس علماء بھی آتے تھے۔حضرت قلزمِ فیوضات ؒ فرماتے تھے پہلے اپنے سارے سوالوں کے جواب حاصل کرلو ،بیعت کے بعد نہ تمہیں اختیار ہوگا سوال کرنے کا اور نہ میں جواب دینے کی ضرورت سمجھوں گا۔ تعلیم کے لیے سوال کرنا، یا کسی بات کو سمجھنے کے لیے سوال کرنا ایک الگ بات ہے لیکن سوال بطور اعتراض کرنے کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور اگر بیعت کی اہمیت دِل میں نہ رہے تو بھی آدمی اعتراضات پر اُتر آتا ہے حالانکہ جب کسی کے دِل میں اعتراض پیدا ہوتا ہے تو اس میں کوئی بات یقینی نہیں ہوتی، ہوسکتا ہے معترض جو سوچ رہا ہے وہ اُس کی سمجھ کا قصور ہو،ممکن ہے جو اُسے نظر آرہا ہے حقیقت ویسے نہ ہو،لیکن یہ بات حتمی ہے کہ شیخ پر اعتراضات کرنے والے کی بیعت نہیں رہتی۔
    بیعت رضوان کی آیات میں اِس انجام کی خبر اللہ نے دی ہے!
    فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ (الفتح : 10)
    بیعت توڑنے سے اُس نے اپنے آپ کو تباہ کرلیا اس لیے کہ برکاتِ نبوت ﷺ سے اُسےحفاظت ِالٰہیہ حاصل ہورہی تھی۔ اس نے بیعت توڑ کر خود کو اللہ کی حفاظت کے حصار سے باہر نکال دیا، اپنی جان کو برباد کرلیا، خود کو تباہ کرلیا۔
     
  2. بہتان لگانا
    کسی بھی صوفی کا اللہ سے تعلق قائم رکھنا ہمیشہ شیخ کے رشتے کا محتاج ہوتا ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ شیخ کو چھوڑ دے اور خود اللہ کے قرب میں بازیاب رہے۔ حضرتؒ کے پاس کچھ لوگ میری شکایت لے کر گئے او رمجھ پر الزام لگایا حضرت قلزمِ فیوضات ؒ نے مختصر سا جواب دیا کہ میں تمہاری بات پر اس لیے یقین نہیں کرسکتا کہ وہ میرے ساتھ بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوتا ہے۔ جو الزام تم اِس پر لگارہے ہو یہ بوجھ اُٹھاکر کوئی بارگاہِ نبوی ﷺمیں نہیں جاسکتا۔ اس لیے الزام تراشیوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ الزام لگانے والے کا رشتۂ بیعت منقطع ہوجاتا ہے۔
     
  3. اپنی بڑائی کا اسیر ہوجانا
    بعض بدنصیبوں کو یہ کرم ہضم نہیں ہوتا،بجائے عظمت ِالٰہی اور عظمت ِپیغمبر کو سمجھنے کےاپنی بڑائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ خود پیر بننے لگتے ہیں، اپنا آپ منوانا چاہتے ہیں، یہی بات بیعت کو توڑتی ہے۔ گناہ ہوجانے سے بیعت نہیں ٹوٹتی بلکہ بیعت ہوتو گناہ ہوجانے سے دُکھ ہوتا ہے اور توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ نہ ہی بندہ بیعت کرلینے سے فرشتہ بن جاتا۔ انسان ہی رہتا ہے او رنہ گناہ ہوجانے سے بیعت ٹوٹتی ہے بلکہ بیعت کام آتی ہے۔ بیعت بندے کو اندر سے پکڑ کر ہلاتی ہے، اُس کا ضمیر جھنجھوڑتی ہے، یہ کیا کررہے ہو ؟توبہ کرو ،جب تک بندے میں عجز رہے گا ،نیاز مندی رہے گی، طلب ِالٰہی رہے گی، بندہ اپنے مقام پر رہے گا۔ کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس کا محتاج ہوں ،مجھے اُس کی مدد چاہیے،تب تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی ۔ورنہ اپنی بڑائی کا زہر جو بھی پئے گا وہ بچے گا نہیں۔
     
  4. بددیانتی کرنا
    بددیانتی روپیہ پیسے کی ہویا عہدے کے ذریعے مراعات حاصل کرنے کی، یہ وہ خطرناک بیماری ہے جس سے بیعت ختم ہوجاتی ہے۔ اس خود غرضی کے جہان میں شیخ کے ذریعے دامانِ مصطفیٰ نصیب ہوجائے تو اس سے بڑی نعمت کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے؟ اور پھر کوئی اُسے چھوڑ دے، تو اُس کے پاس کیا بچا؟

 بیعت کی حفاظت

  1. طلب کو خالص رکھیں
    اس یقین کو زندہ رکھیں کہ ہر لمحے کا حساب اللہ کریم کے روبرو کھڑے ہوکر دینا ہے۔ یہ یقین حاصل ہوجائے تو کسی دُنیاوی طلب کی آمیزش نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو اللہ کا یہ انعام نصیب ہوا ہے کہ بیعت ِتصوف نصیب ہوئی ہے تو اپنی آرزو کو اللہ کے لیے، اللہ کی طلب کےلیے خالص کردیں۔ اِسے خالص رکھنا آپ کے بس میں ہے اور اس کی استقامت کے لیے اللہ سے دُعا مانگیں۔ اگر اللہ نے آپ کو روحانی بیعت نصیب کی ہے تو پھر اِس کی اہمیت کا اندازہ کرکے، اُسے نبھانے کے لیے اپنی جان لڑادیجئے۔ اپنی طلب کی جانچ کا ایک ہی معیار ہے، نہ کسی کا کشف معیار ہے، نہ کسی کا خواب، ہر بندے کے لیے ایک ہی معیار ہے۔ کیا اِس تعلق سے اُس کے دِل میں نیکی کی محبت اور برائی سے نفرت پیدا ہورہی ہے؟
     
  2. اتباعِ سنت ِرسول ﷺ میں مستعد رہنا
    صوفی وہ ہوتا ہے جو اپنے ایمان اور اسلام کے ساتھ صفائے قلب کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ وہ زبانی اسلام اور ظاہری اعمال پر ہی نہیں رہتا، وہ چاہتا ہے کہ جب میں رکوع کروں تو میرا دل، میری روح بھی جھک جائے۔ جب میں سجدہ کروں تو میرا وجود ہی نہیں، میرا دل بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہہ رہا ہو۔ جب میں اللہ کو یاد کروں تو میرے بدن کارواں رواں اللہ کو یاد کرے۔ اس کا مطلب ہے صوفی کے لیے حصولِ منشائے باری اور اتباعِ رسول ﷺ بنیاد ہے صفائے قلب کی۔
     
  3. شیخ کی ذات سے محبت ہو
    اس بات کو سمجھنے سے پہلے، ذاتِ نبوی ﷺ سے محبت کو سمجھنا پڑے گا۔ نبوت خاصہ ہے ذاتِ محمد ﷺ کا۔ نبوت وہبی ہے اور نبوت دے کر واپس نہیں لی جاتی۔ نبوت نبی ؑ کی ذات کا وصف ہوتی ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی معترض اعتراض کرے، کوئی الزام لگانے والا الزام لگائے یا کسی سازش کے ذریعے نبی ؑ سے کوئی نبوت کی عظمت چھین لے، حضور ﷺ کی نبوت آپ کا وصف ِذاتی ہے۔ کوئی بھی آپ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات سے اِسے الگ نہیں کر سکتا۔ نہ دُنیوی موت، نہ برزخ، نہ ہنگامہ حشر ،ہر حال میں ہر موقع پر، ہر جگہ آپ ﷺ کی شان میں اضافہ ہی ہوگا، اس میں کمی نہیں آئے گی۔ اسی لیے روضۂ اطہر کا آج بھی وہی ادب ہے جیسا آپ ﷺ کے اس عالمِ فانی میں جلوہ افروز ہونے کے وقت تھا۔ تمام مجاہدوں او رتمام محنتوں کا حاصل بھی یہی ہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ کی ذاتِ اقدس سے محبت پیدا ہوجائے ۔ یہی شرط ایمان ہے اور یہی کمالِ ایمان ہے۔ معترض اعتراض کریں، مغرب کے مفکر اعتراض کریں ، مکے کے کافر اعتراض کریں ،مدینے کے منافق اعتراض کریں، یا آج کے بے دین اور بے راہ فرقے اعتراض کریں لیکن جس کا تعلق محمد ﷺ کی ذات سے ہوتا ہے وہ ان سب باتوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ جب تک بندے کا رشتۂِ ایمان ذاتِ عالی ﷺ سے نہ ہوگا، بات نہیں بنے گی اور ذاتِ عالی تک رسائی حضور ﷺ کے اتباع، آپ ﷺ کی غلامی سے ہوگی۔

    ایمان کیا ہے؟

    ایمان رشتۂ اُلفت ہے، جب ذات سے رشتہ ہوتو اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسا ہی تعلق شیخ کی ذات سے ہوتو برکات نبوت ﷺنصیب ہوتی ہیں او رانجام بخیر ہوتا ہے۔ اگر رشتۂ ذات سے ہوگا تو اعتراض نہیں ہوں گے۔ صفات سے ہوگا تو اعتراض کی گنجائش رہے گی کیونکہ صفات تو بدلتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم کا یہ احسان ہے کہ ربع صدی ،اللہ نے مجھے شیخ کی رفاقت سے نوازا، ربع صدی میں کسی کا کوئی اعتراض، کبھی میرے نزدیک کوئی اہمیت حاصل نہ کرسکا، اس لیے کہ مجھے اپنے شیخ کی ذات سے تعلق تھا۔ یہ شرط نہیں تھی کہ ذات کیسی ہے، جو تعلق ذات سے ہوتا ہے اُس میں شرطیں نہیں ہوتیں،صفات کی بناء پر جو تعلق ہوتا ہے وہ صفات کے بدلنے سے بدلتا ہے۔ خیر القرون کے بعد،میرے شیخ ایسے نابغۂِ روزگار تھے کہ صدیوں میں جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس عظمت کے باوجود، اُن کی زندگی عام انسان کی سطح پر تھی۔ زمیندار تھے، کاشت کار تھے، مولوی تھے، طبیب تھے، اعلیٰ پائے کے مناظر تھے، جہاں آپ کے بہت سے دوست تھے، وہاں دُشمن بھی تھے، جہاں بے شمار جانثار تھے، وہاں برادری کی رنجشیں بھی تھیں۔ کچھ دُعا دینے والے تھے تو کچھ ایذادینے والے بھی تھے۔ لیکن میرا رشتہ اُن کی صفات سے نہیں، ذات سے ہے۔ شیخ کا شاگرد سے رشتہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کو اخلاق و آداب سکھا کر، اللہ کے حضور کھڑا کردے اور چونکہ شیخ سے برکاتِ نبوت ﷺ لینی ہیں، لہٰذا آداب بھی بارگاہ ِنبوت ﷺکے ملحوظ رکھنے ہوں گے۔

  4.  شیخ سے ذاتی تعلق

    شیخ کا کسی پر احسان نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی ذمہ داری کے باعث مجبور ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی بات سنے، اُس کا کسی پر احسان نہیں کہ وہ خطوں کا جواب دے،یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ جتنے لوگوں کی تربیت کررہا ہے، اُن کی باتیں سنے، اُن کے خطوں کے جواب دے، اُنہیں ذکر سکھائے، اُن پر محنت کرے، اُنہیں بتائے کہ کہاں غلط ہوراہ ہے، کہاں ٹھیک ہورہا ہے۔ لیکن یہ تربیت اُن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کا ذاتی تعلق شیخ کے ساتھ ہوتا ہے۔ رشتوں میں جب واسطے آجائیں تو دراڑیں پڑجاتی ہیں ۔فاصلے بڑھ جاتے ہیں، بیٹے نے باپ سے بات کرنی ہوتو وہ جاکر پھوپھی سے کہے، پھر وہ پھوپھی اُس کے باپ سے کہے، تو باپ کو دُکھ ہوگا کہ میرے بیٹے کو یا خود پرا عتماد نہیں یا مجھ پر اعتبار نہیں۔ اِسی طرح جب کوئی شیخ کے لیے سفارشیں ڈھونڈتا ہے تو سوچتا شیخ بھی یہی ہے، کہ اس کا رشتہ میرے ساتھ ہوتا تو یہ براہِ راست مجھ سے بات کرتا، سفارشیں ڈھونڈنا، رشتے میں کمزوری کی علامت ہے۔

اللّٰہ سب کا ہے تو سب کو کیوں نہیں ملا؟ اس لیے کہ سلیقہ نہیں آتا۔ حضور ﷺ نے سلیقہ سکھایا تو سب اللہ کے رُوبرُو ہوگئے۔ نبی کریم ﷺہم سب کے ہیں تو ہم سب اُن کے دیوانے کیوں نہیں ہیں ؟ اس لیے کہ دیوانہ بننے کا سلیقہ نہیں سیکھا، کمی ہماری طرف سے ہے، ورنہ حضور ﷺ تو ساری انسانیت کے نبی ہیں۔ اسی طرح شیخ سب کا ہوتا ہے، شیخ سے رشتہ بنانے کے لیے اپنے آپ پر محنت کرنی پڑتی ہے۔ محنت میں کمی کی وجہ سے ہم ہچکچاتے رہتے ہیں۔ میں آپ سے خود یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے بات کرنے کے لیے یا خط لکھنے کے لیے یا ملاقات کے لیے، کسی ساتھی کی سفارش کی ضرورت نہیں۔ ہر بندے کے لیے یہی سفارش کافی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ وہ مجھ سے اسلام سیکھنا چاہتا ہے، لہٰذا اپنے تعلق کو شیخ کے ساتھ سیدھا رکھیے، بنیاد سیدھی رکھوگے تو جو رشتہ بارگاہِ رسالت ﷺمیں استوار ہوگا، وہ بھی سیدھا ہوجائے گا۔ اِسی بنیاد پر بارگاہِ اُلوہیت میں رشتہ بنے گا۔ محبت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ بندے کو نہ ہونے کے برابر کردیتی ہے۔ محبت کرنے والے غلام ہی رہتے ہیں خواہ اُنہیں آزاد کردیا جائے۔

االحمد اللہ! سارے سلسلے کی ذمہ داری مجھ پر ہے ۔مجھے اجازت ہے، اس کے باوجود آج تک ایک ذکر ایسا نہیں جو میں نے تنہا کیا ہویا ساتھیوں کو کروایا ہو اور حضرت قلزمِ فیوضات ؒ سے اجازت نہ لی ہو۔ یہ بات سمجھانے سے نہیں آتی ،یہ محبت کرنے سے آتی ہے۔بعض چیزیں غیر صوفی کے لیے ضروری نہیں ہوتیں اور صوفی کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔

ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں تو بدوی ہوں ، صحرا میں رہتا ہوں، اپنا ریوڑ چراتا ہوں، مجھے آسان سی بات بتادیجئے، جس سے میری نجات ہوجائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان پر قائم رہو، نمازیں پنجگانہ ادا کرو، روزے رکھو، زکوٰۃ فرض ہوتو ادا کرو ،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اُس نے عرض کی: میرے لیے یہی کافی ہے، پھر وہ چلا گیا۔ایک خادم حضور ﷺ کو وضو کروا رہے تھے۔ اُنہوں نے عرض کی آپ ﷺ دُعا کیجئے، اللہ مجھے یہ سعادت جنت میں بھی دے کہ میں آپ کی وہاں خدمت کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تہجد نہ چھوڑو۔ تہجد فرض تو نہیں ہے، لیکن صوفی کے لیے فرض جتنی اہم ہے۔بیعت کا حاصل یہ ہے کہ ایک درد، ایک کیفیت، ایک کسک سی دِل میں آجائے کہ بات ربّ سے نہ بگڑے، اللہ کے نبی ﷺ سے نہ بگڑے، ایسا ہوجائے پھر تو بات بن گئی اوریہ احساس نہ رہا تورسمِ دُنیا ہے۔ آتے ہیں لوگ چلے جاتے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔میری تویہ آرزو بھی ہے، یہ دُعا بھی ہے، یہ خواہش بھی ہے اور مشورہ بھی یہ ہے کہ اپنے اللہ، اپنے رسول ﷺ کے ساتھ، کھرے کھرے ہو جائو، کوئی ایچ پیچ نہ رہے، درمیان میں کوئی پردہ، کوئی حجاب نہ رہے، کوئی بات چھپی نہ رہ جائے، دِل کھول کے رکھ دیں، آگے ان کی مرضی، کسی کو کیا دیتے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے او رجس کو جتنا دیتا ہے اس کی حیثیت سے زیادہ ہی دیتا ہے۔ اس کی بارگاہ سے کسی کو کم نہیں ملتا۔ اس بات سے آگاہی بے حد ضروری ہے کہ شیطان سب سے زیادہ محنت اس بات پر کرتا ہے کہ شیخ اورسالک کے درمیان تعلق کو خراب کردے یا تو اس کے آداب میں غلو(زیادتی) کرکے یا شیخ سے بدظن کر کے، شیخ کی گستاخی میں مبتلا کر دے، تاکہ سالک کو جو تحفظ اس نسبت سے حاصل ہے، اس سے محروم ہوجائے اور وہ اُسے اپنی طرف گھسیٹ لے۔اللہ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے۔

اے اللہ! شیطان کو ہمارے عقائد پر دسترس نہ ہو۔ہماری عقیدت پر اس کی رسائی نہ ہو اور ہمارے اعمال اس سے محفوظ رہیں
آمین ۔۔۔ تمت بالخیر
What Is Allegiance? by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Topics in Munara, Chakwal, Pakistan on August 1,2020 - Silsila Naqshbandia Owaisiah, Tasawwuf, Sufia, Sufi, Silasil zikr, Zikr, Ziker Allah, Silasil-e-Aulia Allah
Silsila Naqshbandia Owaisiah,