Mayt BaariQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

Mayt Baari

معیتِ باری کا پہلا درجہ

(یہ درجہ عام ہے) مومن و کافر، زاہد و فاسق ہونا بندوں کی طرف سے ہے اور اُس کی طرف سے ایک ہی اعلان ہے
 وَھوَمَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (الحدید: 4)،   ترجمہ:  اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔
اب بندوں کے اعتقادات و ایمانیات کے شجر اُسی باراں سے بارآور ہیں۔ ہر درخت پر وہی پھل لگ رہا ہے جو اُس پر لگنا چاہئے اور جس قسم کا درخت کسی نے اُگا رکھا ہے اُسی قسم کا پھل لگنا ضروری ہے۔ ورنہ بارش تو ایک ہی ہے، نہ رنگ میں اختلاف نہ ذائقہ و تاثیر میں، یہ ہے   وَھوَمَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ۔

معیتِ باری کا دوسرا درجہ

جس نے اُس کی عمومی معیت کو جانا، اُس کی بے پایاں عنایات کا علم حاصل کیا، لامحالہ اس کا قلب بارگاہ الٰہی میں جھک گیا۔ اس کا وجود اطاعت شعار بن گیا، تقویٰ اور ذکر و فکر اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا کہ اُس کی ذات ہے ہی ایسی۔ جس کسی نے اُس کی ذات کا اقرار کیا، تب ہی کیا جب کوئی رتی معرفت کی نصیب ہوئی تو پھر اُس کا وہ ہو رہا، دنیا اور اس کی رنگینی سے منہ موڑا، دولت و سطوت کی خواہش کو چھوڑا، اقتدار و حکومت کے بتوں کو توڑا اور ہمیشہ کے لئے اطاعتِ الٰہی کو اختیار کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسرے درجے کی معیت کے خلعت یافتہ قرار پائے، فرمایا
اِنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْن َ (البقرہ: 194)، ترجمہ: اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہیں۔
 اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْن (الانفال:46)، ترجمہ: بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ  (العنکبوت:69)، ترجمہ: بے شک اللہ خلوص والوں کے ساتھ ہیں۔

یہ وہ معیت ہے جو اولیاء اللہ کا حصہ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ایک طرف ذاتِ باری ہے، فرمایا  اِنَّ اللہ َ  اور دوسری طرف وصفِ مخلوق ہے یعنی صابرین کے ساتھ، متقین کے ساتھ، محسنین کے ساتھ اللہ ہے۔ یہ معیت اوصاف کی وجہ سے ہے اور اوصافِ انسانی تغیر پذیر ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ وصف بدل جائے تو معیتِ خاصہ سے محروم ہو گیا اور پہلے درجے میں چلا گیا۔ اسی لئے ولایت کو کسبی کہا گیا ہے اور ولی اللہ تادم ِ واپسیں خطرے میں ہے کہ مبادا دامنِ صبر ہاتھ سے نہ نکل جائے، تو اس دوسرے درجے میں ایک طرف بندہ کے اوصاف ہیں اور دوسری طرف ذاتِ باری ہے۔

معیتِ باری کا تیسرا درجہ

یہ درجہ انبیاء  ؑ کا ہے۔ جس ذات کو نبوت کا درجہ حاصل ہے، اسے بواسطہ نبوت معیت بھی حاصل ہے۔ مگر یہاں معیتِ صفاتی بیان فرمائی ہے، مثلاً فرمایا
اِنَّنِیْ مَعَکُمَا اَسْمَعْ وَاَرٰی (طٰہ: 46)،  ترجمہ: بے شک میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں (سب) سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔
دو نبیوں کو فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی ذاتِ موسیٰ ؑ  و ہارون ؑ  کے ساتھ مگر اپنی طرف سے اپنے اوصاف بیان فرمائے کہ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ دوسری جگہ فرمایا
اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ (الشعر اء: 62)،   ترجمہ: بے شک میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے ابھی راستہ بتادے گا۔
ایک طرف اپنی ذات کا ذکر فرمایا اور مقابلے میں صفاتِ باری کا ذکر فرمایا، یعنی نبوت نبی ؑ کا وصفِ ذاتی ہے تو گویا ذاتِ نبی ؑ کو معیت حاصل ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی ؑ بھی ہو اور کسی لمحے معیتِ باری سے محروم بھی۔

تو جہاں ولی کو معیت ذاتِ باری حاصل ہے مگر ولی کی ذات کو نہیں اس کی صفات کو جو تغیرپذیر ہیں، وہاں نبی ؑ کی ذات کو معیتِ باری حاصل ہے مگر معیتِ صفاتی ہے۔

معیتِ باری کا چوتھا درجہ

اس سے اوپر ایک خاص درجہ معیتِ باری کا ہے اور یہ اخص الخواص کا حصہ ہے اور وہ ہے ذاتِ مخلوق کو ذاتِ باری کی معیت حاصل ہو، یعنی ایک طرف   خالق کی ذات ہو اور دوسری طرف مخلوق کی بھی ذات ہو۔ سبحان اللہ! یہ درجہ ساری مخلوق میں صرف دو انسانوں کو حاصل ہے۔

انبیاء ؑ کے مبارک گروہ میں سرورِ انبیاء، سلطان الانبیاء، امام الانبیاء اور تمام نبیوں کے مرشد، مربی اور شیخ جن کی معیت ازل میں انبیاءؑ سے لی گئی
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ   (آل عمران: 81)، ترجمہ:  اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا 

آقائے نامدار سیدنا و مولانا و حبیبنا وحبیبِ ربنا و طبیبِ قلوبنا محمدرسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے اور دوسرا انسان عرش سے فرش تک، ازل سے ابد تک، انبیاء ؑکے مقدس گروہ کے بعد ساری خدائی کا پیشوا، افضل البشر بعدالانبیاء امیرالمومنین ابوبکر صدیق ؓ ہے۔ یہ میرا حسنِ عقیدت نہیں، اللہ کی قسم! مجھے اپنے حسنِ عقیدت پر ناز ہے۔ اس وقت جب میرے قلم کی نوک پر محمدرسول اللہﷺ اور اُن کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ذکرِ خیر ہے، مجھے خالقِ کائنات کی قسم! میرا دل رقص کناں ہے، مجھے وہ سرور حاصل ہے کہ بیشک تسنیمِ کوثر کا مزہ اپنا ہو گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ میرے دل سے یہ درد جنت کے عوض بھی چلا جائے، چہ جائیکہ تسنیم و کوثر تو شمہ ہیں۔

دیر و حرم سے روشنی شمس و قمر سے ہو تو کیا
مجھ  کو  تو  تُو  پسند  ہے  اپنی  نظر  کو  کیا کروں 

لیکن اے میرے عزیز! تُو میرے حسنِ عقیدت کو رہنے دے، آ اور براہِ راست خداوند عالم سے پوچھ، خداوند کون و مکاں اپنے محبوب نبی حضرت محمدرسول اللہﷺ کی زبانِ حق ترجمان سے کہلوا رہا ہے اور بذریعہ وحی متلو کہلوا رہا ہے، وحی خفی بھی نہیں کہ قرآن میں درج نہ ہو اور حدیث کا درجہ پائے۔ ذرا سن تو سہی، فرماتا ہے
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا  (التوبہ: 40)،   ترجمہ: غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہیں۔
ایک طرف ذاتِ باری ہے اور دوسری طرف دیکھ ایک ذات محمد عربیﷺ کی ہے اور دوسری ابوبکر صدیق ؓ کی۔ اِن دو ہستیوں کی ذوات کو ذاتِ باری کی معیت حاصل ہے اور یہ وہ معیت ہے جو ساری خدائی میں صرف دو ہستیوں کو نصیب ہے،اور غالباً اس لئے کہ پوری دنیا کے اطاعت شعاروں کو صرف دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، انبیاء ؑ کے ملک میں محمدرسول اللہﷺ شہنشاہِ مملکت ہیں اور غیرانبیاء کے دیس کا بادشاہ ابوبکر صدیق ؓ ہے۔ یہاں نہ خداوند قدوس کے اوصاف بیان فرمائے اور نہ اپنے بندوں کا وصف بیان فرمایا، بلکہ فرمایا ذاتِ الٰہ، ذاتِ محمدﷺ اور ذاتِ ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ ہے۔
Mayt Baari by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Topics in Munara, Chakwal, Pakistan on August 1,2020 - Silsila Naqshbandia Owaisiah, Tasawwuf, Sufia, Sufi, Silasil zikr, Zikr, Ziker Allah, Silasil-e-Aulia Allah
Silsila Naqshbandia Owaisiah,