The Importance Of Remembrance Of AllahQasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)

The Importance Of Remembrance Of Allah

ذاکرین خوش نصیب لوگ
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ   (الْبَقَرَۃ: 152)
ترجمہ: پس تم مجھ کو یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا
 
فرمایا! تم میرا ذکر کرو، تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔ یہ نہیں کہا کہ تم میری نماز پڑھو، میں تمہاری نماز پڑھوں گا، تم میرے لیے روزہ رکھو،میں تمہارے لیے روزہ رکھوں گا۔ یہ ضرور فرمایا کہ تم میرا ذکر کرو، تم مجھے یاد کرو، تمہاری یاد نیاز مندی کے لیے ہوگی، میں تمہیں یاد کروں گا تو میری یاد عطا کے لیے ہوگی۔ تمہارا یاد کرنا لینے کے لیے ہوگا، میرا یاد کرنا دینے کے لیے ہو گا۔ قرآن کریم میں ذکر الٰہی کے صلہ میں ایک ایسی نعمت کا وعدہ کیا گیا ہے جس سے بڑی نعمت مومن کے لئے اور کوئی نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ یہ وعدہ صرف ذکر الٰہی کے ساتھ مختص ہے اور ظاہر ہے جسے اللہ یاد کرے اس سے زیادہ خوش نصیب کون ہو سکتا ہے۔

 ذکر الٰہی، دلوں کی پالش

 لِکُلِّ شَیْءٍ صَقَالَۃٌ وَصِقَالَۃُ الْقُلُوبِ ذِکْرُ اللّٰہِ  (رواہ البیھقی)
ترجمہ: ہر چیز کے لئے ایک صفائی کرنے والی چیز ہوتی ہے، جبکہ دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے۔
 
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کو زنگ لگتا ہے، دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور ہر چیز کا زنگ اتارنے کے لیے کوئی نہ کوئی علاج ہوتا ہے۔ دلوں کا زنگ اتارنے کے لیے ایک ہی دوا ہے اور وہ ذکر اللہ ہے۔ ذکر الٰہی دل کی دوا بھی ہے، غذا بھی ہے اور حیات بھی۔ ہر عبادت کا اپنا مقام ہے اور ذکر اللہ ہر عبادت کی روح ہے۔ ذکر اللہ ہرعبادت میں اخلاص پیدا کرتا ہے، اسے قبولیت کے قابل بناتا ہے۔

 ذکر الٰہی، اصلاح قلب کی بنیاد

 ذکر الٰہی جب دل کی دھڑکن بنتا ہے، خون کا حصہ بنتا ہے تو سارا بدن خود بخود اصلاح کی طرف چل پڑتا ہے۔ جیسے حضور ﷺ نے فرمایا کہ بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے  اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہ اور جب یہ سدھر جا ئے تو سارے جسم کو سدھار دیتا ہے وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ بگڑ جائے تو سارے بدن کو بگاڑ دیتا ہے اَلا وَھِیَ الْقَلْبُ  غور سے سن لو، یہ قلب ہے۔ (صحیح بخاری)

 ذکر الٰہی اصلاح قلب کی بنیاد ہے، تخم ہے، یہ بیج ہے۔ جب تک دل میں بویا نہ جائے، میں تو سمجھتا ہوں عبادات بھی محض ایک ورزش سی بنی رہتی ہیں۔ آدمی کو عبادت میں وہ لذت نصیب نہیں ہوتی کہ میں اللہ کو روبرو دیکھ رہا ہوں۔ 

ذکر اذکار کی ساری محنت کا حاصل یہ ہے کہ بندہ اللہ کریم کو خود جاننے لگ جائے، سنی سنائی خبر تک محدود نہ رہے۔ تزکیہ یا تصوف کے بغیر بندہ رب کریم کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، سن کر جانتا ہے۔ سنی ہوئی بات اپنی جگہ لیکن ذاکر کا اپنا دل کہتا ہے کہ اس کا رب اس کے پاس ہے اور وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ کریم اس کی بات سن رہے ہیں، اللہ کریم اس سے راضی ہیں۔ اگر کوتاہی ہو جائے تو اسے دکھ لگتا ہے کہ اللہ کریم کی نافرمانی ہو گئی، روتا ہے، اللہ کریم کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کیفیت اس کی عطا ہے چاہے تو ایک لمحے میں عطا کردے۔

ذکر الٰہی حضورحق کے لیے

 جولوگ ساری زندگی اللہ کی یاد دل میں بسائے رکھتے ہیں وہ دل ایسا آباد ہو جاتا ہے کہ اسے موت بھی ویران نہیں کرسکتی۔ موت بھی انہی دلوں کو ویران کرتی ہے جو زندگی میں ویران ہوتے ہیں۔ ایسے دل جو زندگی میں یادِ الٰہی سے محروم ہوتے ہیں،موت سے پہلے ہی ان کی حیات روحانی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ جو دل زندگی میں یاد الٰہی اپنے اندر سمو لیتے ہیں انہیں زندگی میں حضور حق نصیب رہتا ہے۔ موت ان سے یہ حضور حق نہیں چھین سکتی۔ موت انہیں اللہ کی یاد، اللہ کے ذکر سے جدا نہیں کرسکتی۔

ذکر الٰہی، خلوص کی ایک عجیب دوا

ذکر الٰہی ایک عجیب دوا ہے۔ ہر عبادت کے لیے خلوص شرط ہے، منافقت سے یا بے دلی سے عبادت کی جائے تو اس پر پھل نہیں آتا خلوص نہیں ہوگا تو عبادت رد ہو جائے گی۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے کہ دکھاوے کے لئے بھی اگر کوئی شروع کرے، خلوص، خشوع و خضوع نہ بھی ہو اور مسلسل ذکر کرتا رہے تو یہ خود خلوص پیدا کر دیتا ہے۔ ذکر نہ چھوڑے، اللہ اللہ کرتا رہے تو یہ عجیب بات ہے کہ اس کی وجہ سے اس میں خلوص پیدا ہو جاتا ہے۔

اس کی مثال یہ ہے جیسے آپ میلے کپڑے کو توجہ سے، خلوص سے صابن نہ لگائیں، بے توجہی سے کپڑے پر گھساتے رہیں تو زیادہ خرچ ہوگا، وقت زیادہ لگے گا لیکن میل تو کاٹے گا، کپڑا صاف ہوجائے گا۔ دھیان سے نہ بھی کریں، کچھ نہ کچھ میل کاٹتا ہی چلا جائے گا۔ اس لئے ذکر اللہ کا بیج دل میں بویا جاتا ہے۔ اللہ اللہ کرے تو دل کو ایسی جلا ملتی ہے کہ وہ اچھائیاں چن لیتا ہے اور خرافات کو چھوڑ دیتا ہے۔ دل میں ایک تجسس پیدا ہو جاتا ہے اور بندہ خود صحیح چیزیں تلاش کر کے ان کو اپنا لیتا ہے۔ عمل کی توفیق تب ہی ہوتی ہے جب دل حقیقت سے آشنا ہو۔ صوفیاء کا یہ طریقہ ہے کہ یہ کسی کو نہیں کہتے کہ نماز پڑھا کرو۔ کیسی عجیب بات ہے کیسے عجیب لوگ ہیں کسی سے نہیں کہتے کہ داڑھی رکھا کرو، کسی سے نہیں کہتے کہ جھوٹ نہ بولا کرو، کسی سے نہیں کہتے کہ جواء کھیلنا چھوڑ دو، کچھ بھی نہیں کہتے۔ بس بیٹھے بیٹھے اللہ اللہ کرو، اللہ اللہ کرنے سے جب دل میں روشنی آتی ہے تو وہ یہ سارے کام خود کروا لیتا ہے۔

 اللہ االلہ اس لیے کی جاتی ہے، ذکر کا حاصل یہ ہے کہ اعمال میں خلوص اور گہرائی پیدا ہو جائے تا کہ ان پر نتائج مرتب ہوسکیں۔ کردار میں دو رنگی نہ رہے، منافقت نہ رہے، خلوص آجائے، گہرائی آجائے۔ ہم نے یہ فلسفہ بنا لیا کہ جو صوفی ہوتا ہے، اسے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں حالانکہ حقیقی صوفی دوسروں کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے، زیادہ جفاکش، زیادہ محنتی ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی اور اطمینان قلب

اَلَا بِذِکرِ ا للّہِ تَطمَءِنُّ القُلُوبُ   (الرعد: 28)
ترجمہ: یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔

ہم نے سمجھا کہ بہت سی دولت مل جائے تو اطمینان ہو جائے گا، ہم اس پہ لگ گئے جائز و ناجائز ذرائع سے دولت جمع کی لیکن جب دولت مند ہوں تو سمجھ آتی کہ یہ تو میری دوست نہیں، دشمن ہے۔ اس کی پریشانیاں تو الگ ہی ہیں بلکہ اولاد تک دشمن ہو جاتی ہے۔ لوگ موت کی دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اللہ اب اس بابے کو اٹھا بھی لے کہ ہر چیز پر قبضہ کئے بیٹھا ہے۔ پکڑ کر دھکے دے کر نکال بھی دیتے ہیں۔ پھر سمجھ آتی ہے کہ یار! ساری زندگی ہم جو جمع کرتے رہے کہ اس سے کیا اطمینان ہوگا اس نے تو پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار و اختیار میں اطمینان ہے لیکن جب اقتدار و اختیار ملتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا تو ہماری دشمن ہوگئی ہے۔ ہر کوئی ہماری ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ دنیا کے کسی شعبے کو آپ لے لیں، اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس طرف چلا جاؤں گا تو مطمئن ہو جاؤں گا۔ یہ اس کی سراسر غلطی ہے۔ چونکہ جب ساری عمر خرچ کرکے وہاں پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کی پریشانیاں وہ ہیں جو میں نے سوچی بھی نہ تھیں۔ اللہ کریم نے اس کا جو علاج بتایا ہے، وہ بڑا سیدھا سا ہے اور سادہ سا ہے فرمایا: اَلَا بِِذِکرِ اللّہِ تَطمَءِنُّ القُلُوبُ  یہ جو سکون قلب ہے، اطمینان قلب ہے، اس کو حاصل کرنے کا دنیا میں صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے اللہ کا ذکر۔ فرمایا: خوب اچھی طرح سن لو! یہ بڑی واضح، روشن اور پکی بات ہے کہ اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتا ہے۔

ذکر الٰہی اور کردار سازی

بندہ بدلتا ہے تو برکات نبوت ﷺ سے بدلتا ہے۔ بدلتا ہے تو نورِ باری سے بدلتا ہے۔ صوفی کی کردار سازی نہیں کرنا پڑتی۔ ہم صرف ایک بات کہتے ہیں کہ اللہ کو مانا ہے تو اس یقین کو دل میں اتارنے کے لیے وہ برکات حاصل کرو جو قلب اطہر ﷺ سے آرہی ہیں۔ جب وہ دل میں آ جاتی ہیں تو بندہ خود فیصلہ کرتا ہے اور اپنا آپ بدلتا ہے اور خود کو اس رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے۔

یہاں تو ہم نے کبھی کسی پر تنقید نہیں کی۔ یہاں جتنے چہرے سنت رسول ﷺ سے مزین نظر آتے ہیں، ان سے کسی نے نہیں کہا کہ داڑھی منڈوانا چھوڑ دو۔ آج بھی جو بغیر داڑھی کے ہیں، انہیں یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ رب کا نام اور نبی ﷺ کی برکات جب اندر جاتی ہیں تو ان کا اپنا دل چاہتا ہے کہ ہم ویسا حلیہ بنائیں جیسا محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ یہاں کسی فرقے کا کوئی بندہ آتا ہے، اپنی نماز پڑھتا ہے، ہم نہیں پوچھتے۔ شیعہ آتے ہیں، سنی آتے ہیں، بریلوی آتے ہیں، دیوبندی آتے ہیں، اہلحدیث آتے ہیں، مقلد آتے ہیں، غیر مقلد آتے ہیں کبھی کسی کو کسی نے نہیں ٹوکا۔
 
میں تنقید کرنے والے کوبھی دعوت دیتا ہوں کہ ہمارے پاس چاہے نہ آؤ یار! کبھی اللہ اللہ کرنا شروع کردو۔ چوبیس گھنٹوں میں کوئی آدھا گھنٹہ، پندرہ منٹ نکال کر روزانہ ذکر کرنا شروع کر دو۔ اگر ذکر نے آپ کو بھی نہ بدل دیا تو مجھے کہنا کہ تم غلط کہتے ہو۔

مادی خواہشات سے حفاظت

انسان میں بھلائی کا مادہ بھی ہے اور برائی کا مادہ بھی موجود ہے۔ ذکر اذکار بھلائی کے مادے کو ابھارتے ہیں اور برائی کے عنصر کو کمزور کرتے ہیں اور کوئی انسان بھی فرشتہ نہیں بن سکتا۔ ہرانسان میں نیکی کرنے کی فطری استعداد اور اس کے ساتھ ساتھ نفس کی بات ماننے سے برائی کرنے کی قوت موجود رہتی ہے۔ چونکہ انسانی نفس مادی اجزاء کے ملنے سے بنتا ہے اور آگ، ہوا، مٹی اور پانی جب ملتے ہیں تو نفس پیدا ہوتا ہے جو مادی اجزا کا حاصل ہے تو وہ مادی خواہشات اور دنیوی مفادات پر ہی فریفتہ رہتا ہے اور انسان کو اس طرف کھینچتا رہتا ہے تو ان دونوں سے بچنے کا طریقہ بندے کے پاس اللہ کی پناہ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ ذکر الٰہی قلب کے فاسد مادوں کو مٹاتا ہے اور نیکی کے خیالات کو جلا بخشتا ہے۔

شیطان کا مقابلہ کرنے کی قوت

 ذکر الٰہی اسلحہ ہے لیکن اسلحہ کا ہونا شیطان کو اس کی شیطنت سے نہیں روک سکتا۔ اگر بہترین اسلحہ پاس ہوتو اس کا مطلب ہے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک فریق کے پاس اسلحہ ہے لہٰذا دوسرا فریق اس کا مقابلہ ہی نہیں کرے گا۔ اگر شیطان خیال ہی نہ ڈالے تو آپ مقابلہ کس کا کریں گے؟ پھر آپ کو اسلحہ کی ضرورت کیوں ہوگی؟ تو یہ سمجھنا دراصل سمجھ کا فتور ہے کہ ذکر الٰہی سے شیطان خیال ڈالنا چھوڑ دے گا بلکہ حق یہ ہے کہ ذکر الٰہی سے شیطان کا مقابلہ کرنے کی قوت آئے گی۔
 
کوئی شخص کسی بھی مقام پر پہنچ جائے۔ شیطان اپنی دشمنی سے باز نہیں آتا۔ اس کا تو یہ حال ہے کہ وہ انبیاء کی مخالفت میں بھی اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا ہے حالانکہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ وہ ان پر براہ راست اثر انداز نہیں ہو سکتا لیکن کسی نہ کسی کو ان کی مخالفت پر ابھارتا ہے، کفار کو اعتراضات سکھاتا ہے۔ ہمیں یہ شکایت رہتی ہے کہ جی شیطان ہمیں پریشان کرتا ہے اور مجھے یہ امید رہتی ہے کہ یہ لوگ جو یہاں سے ذکر الٰہی سیکھ کر جاتے ہیں، ان شاء اللہ یہ شیطان کو پریشان کریں گے۔
آپ کوشیطان سے پریشان ہونا نہیں ہے، آپ نے شیطان کو پریشان کرنا ہے۔

ذکر الٰہی  اور مساجد

آج ہماری مساجد سے لوگوں کی اصلاح کیوں نہیں ہورہی حالانکہ مساجد میں اذان، باجماعت نماز، اشراق، چاشت نوافل پڑھے جاتے ہیں، روزوں میں اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ پھر سمجھ آتی ہے کہ اب مساجد میں بھی ایک چیز چھوٹ رہی ہے جو مساجد کی خصوصیت تھی یعنی  یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا (الحج: 40) یہ ہے وہ واحد راستہ جس کے ذریعے بندے اور اللہ کے درمیان رشتہ قائم ہوتا ہے اور مساجد و معابد اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان میں کثرت سے اللہ کا ذکر ہو لیکن آج بے شمار مساجد بن گئی ہیں اور ان کا ماحصل تو کچھ بھی نہیں۔ آج مساجد میں سارے کام ہورہے ہیں لیکن ذکر اسم ذات چھوٹ گیا ہے۔ جب ذکر اسم ذات چھوٹتا ہے تو عبادتیں رسم بن جاتی ہیں، ان میں وہ روح نہیں رہتی۔

 آج سے اگر پچاس ساٹھ سال پہلے ایک صدی پہلے تک کے مدارس اور مساجد کو دیکھیں اور ان کی کارکردگی اور اس کے نتائج دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بڑے بڑے علماء جب تعلیم سے فارغ ہوتے تو کسی نہ کسی خانقاہ میں فروکش ہوتے۔ اہل اللہ کی خدمت میں وقت لگاتے، محبت الٰہی اور عشق رسول اللہ ﷺ کی دولت سے سرفرازہوتے اور پھر مدارس و مساجد کی مسند درس و تدریس سنبھالتے۔ اہل اللہ کا نصاب شروع ہی ذکر الٰہی سے ہوتا ہے۔

ذکر الٰہی زندگی ہے

مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیّتِِ  (صحیح البخاری)
ترجمہ: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ ذکر کرنے والے کی مثال زندہ کی سی ہے اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ کی سی ہے۔ زندہ ہوگا توتجارت کرے گا،  مردوں کا کاروبار سے کیا کام۔ ذاکرین کا کام، ان کی تجارت، ان کی مزدوری انہیں ذکر الٰہی سے نہیں روک سکتی۔ اللہ کی عبادات میں رکاوٹ نہیں بنتی کہ ان کی نمازیں، روزے چھوٹ جائیں۔ زکوۃ ادا کرنے میں دولت کی محبت رکاوٹ نہیں بنتی، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں مال کی محبت رکاوٹ نہیں بنتی۔ مزدوری کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں اور جب دوسرے غافل ہوتے ہیں تو یہ اللہ کو یاد کر رہے ہوتے ہیں۔ جب دوسرے محروم ہوتے ہیں تو یہ اللہ کو سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جب دوسرے سود کھانے میں مصروف ہوتے ہیں تو یہ زکوٰۃ ادا کررہے ہوتے ہیں۔

ذکر الٰہی  عقیدہ اور ایمان بچانے کا واحد ذریعہ

ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کو تلاش کریں جن کے دل روشن ہوں، سینے منور ہوں، خون کی گردش، دل کی ہر دھڑکن سے اللہ کا نام نکلتا ہو اور یہ ہیں برکات محمد رسول اللہﷺ۔ جب دل میں اللہ اللہ کا پودا پنپتا ہے تو عجیب بات ہے کہ اخلاقیات، ایمانیات، اعتقادات، اعمال، غرض ہر چیز سدھرنا شروع ہوجاتی ہے۔ میں نے اس کا یہاں تک تجربہ کیا ہے کہ مغرب میں، یورپ میں، امریکہ میں، اس سے بھی دور سویڈن میں، ناروے میں، وہاں کے لوگوں کو جو مجھ سے مل سکے، میں نے کہہ دیا یار! تم کچھ نہ کرو، تم رہنے دو اسلام کو، اللہ کا نام لینا شروع کر دو اور چھوڑو نہیں۔ اللہ کی شان ہے جس کافر نے ذکر قلبی شروع کر دیا وہ مسلمان ہوگیا۔ اسے اسلام کی نعمت نصیب ہوگی۔

 

The Importance Of Remembrance Of Allah by Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA) - Feature Topics in Munara, Chakwal, Pakistan on August 1,2020 - Silsila Naqshbandia Owaisiah, Tasawwuf, Sufia, Sufi, Silasil zikr, Zikr, Ziker Allah, Silasil-e-Aulia Allah
Silsila Naqshbandia Owaisiah,