Latest Editorials


اعتکاف

Aitkaaf - 1
Aitkaaf - 2

اولاد


 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
”اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک (راحت) عطا فرمائیے اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دیجیے۔“
اولاد  عر بی اور اردو زبان کا لفظ اور صیغہ تانیث ہے۔یہ وَلد کی جمع ہے جس سے مُراد بچے، بیٹا بیٹی، آل اور نسل کے ہیں۔
روئے زمین پہ اترنے کے بعد انسان سب سے پہلے جس خوبصورت رشتے سے نوازا گیا وہ اولاد کا رشتہ ہے۔اس رشتے کا دلچسپ پہلو یہ تھاکہ اس میں ایک نے دوسرے کی حفاظت، پرورش اور تربیت کرنا تھی۔ اپنے شعور و آگہی کو اس میں منتقل کرنا تھا۔موسم ہی نہیں زمانہ کے سردو گرم سے بچانے اور اس سے نپٹنے کا اہل بنانا تھا۔فقط یہی نہیں اُسے،اُس کے خالقِ حقیقی سے آشنا کرانا تھا۔مقصدِ تخلیق سمجھانا اور اس پہ پورا اُترنے کے قابل بنانا تھا۔یہ تما م تر مراحل ایسے تھے کہ جس کے لیے محنت اور سعیئ مسلسل ہی نہیں لگن بھی ضروری تھی جس کے لیے شدید ترین وابستگی اور جذبہئ محبت کا ہوناناگزیر تھا۔اُس خالقِ کائنات نے،رب العالمین نے تخلیقی طور پر ہی قلب ِانسانی کو اس سے معمور فرما دیا۔یوں بھی یہ ایسا خوبصورت رشتہ عطا فرما یا کہ شعوری اور غیر شعوری طور پر دنیوی حیات اس کے گرد سرگرداں رہتی ہے۔انسان اولاد کو پیدائش سے جوانی تک پروان چڑھاتا ہے اور اُسے دیکھ دیکھ کر تگ و دو کرنے کی تحریک پاتا رہتا ہے۔
رشتوں، بندھنوں، تعلقات و واسطوں کے لیے بِلا شبہ محبت، حیاتِ انسانی میں انتہائی اہم اور لازمی جذبہ ہے لیکن یہاں اس سے بھی اہم اور لازمی بات یہ ہے کہ خالق و مخلوق کا رشتہ ہر رشتے پہ مقدم ہو اور سب محبتوں پہ اللہ کریم سے محبت غالب ہو کہ یہی خاصہئ ایما ن ہے
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ (البقرۃ:165)”اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔“
جذبہئ ایمانی کی معراج پہ سرفراز ہونے والی ہستیاں انبیاء علیھم السلام ہیں۔اسی جذبہئ ایمانی، حب ِالٰہی اور استقامت فی الدین کونسلِ انسانی میں فروغ دینے اور تاقیامت قائم رکھنے کے لیے انبیاء کرام علیھم السلا م نے بھی صالح اولاد کی دعائیں مانگیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہی یہ ہے کہ:
  رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا ”اے میرے پروردگار! مجھے اکیلا نہ رکھیو“   وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْن(الانبیآء:89) ”اور آپ سب سے بہتر وارث ہیں۔“آپ علیہ السلام نے تبلیغ، فروغِ دین کے لیے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ”توہم نے ان کی دعا قبول فرمائی“ و َ وَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی(الانبیآء:90) ”اور ان کو یحییٰ(علیہ السلام) بخشے۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد عمرِ مبارک کافی گزر چکی تھی جب دعا فرمائی  رَبِِِِِِِِِِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ  
(الصفٰت: 100)”اے میرے پروردگار مجھے ایک نیک فرزند عطا فرما۔“ اور اس کے نتیجہ میں اللہ کریم نے اسمٰعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔اُنھیں کے ساتھ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے آپؑ نے دعا فرمائی: رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَّ------- (البقرۃ:128)
ّّ”اے ہمارے پروردگار! اور ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا ئیے اور ہماری اولاد میں ایسی جماعت بنائیے جو آپ کی فرما نبردار ہو...“
حضرت قاسمِ فیوضات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اُنھیں کی دعا کااثر ہے کہ ان کے بعد کبھی دنیا سے دین ختم نہیں ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُسی موقع پر مانگی جانے والی دعا تھی:  
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ---- (البقرۃ:129)”اے ہمارے پروردگار!ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجئے (مبعوث فرمائیے)...“ 
اللہ کریم نے عالمین کو رحمۃللعٰلمین سے نواز دیا اور زمین کو آپ  ﷺکے قدوم مبارک چومنے کا شرف حاصل ہوا۔
اللہ کریم نے سورہئ الفرقان میں اپنے خاص بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی دعا یوں بیان فرمائی ہے کہ:
  رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
بیویوں اور اولاد کوآنکھوں کی ٹھنڈک بنانے سے مُراد  دراصل ان کا قربِ الٰہی میں مدد گار بننا ہے۔
قارئینِ کرام! اولاد انسان کا سرمایہئ حیات ہے،صدقہ جاریہ ہے، امانت ِرب العالمین ہے۔ یہ اُمت ِمحمدیہ  کے گلستان کے ننھے ننھے پودے ہیں جو بچپن میں ہماری آبیاری کے محتاج ہیں۔ یہ ہم پہ ہے کہ انسانیت کی راحت کے لیے انہیں کس حد تک تناور اور چھتناور اشجار بناتے ہیں۔یہ ہماری توجہ، محبت اور راہنمائی کا حق لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ہمارے فرائض کا تقاضا ہے کہ انہیں بہترین مسلمان، سچے مومن اور جانثار امتی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑیں۔
حدیث ِ پاک ہے:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ...(صحیح البخاری،باب ما قیل فی اولادالمشرکین)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ (فطرت)دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں...“
Aulad - 1
Aulad - 2

رجب

Rajab - 1
Rajab - 2

جمادی الاخری

Jamadi ul Ukhra - 1
Jamadi ul Ukhra - 2

شرح صدر

Sharah Sadr - 1

امتی


امتی کا لفظی مطلب ـ’لوگ‘ یا ’فرقے کے آدمی‘ ہے جبکہ اصطلاحی مفہوم میں امتی نبی ؑ کے پیرو کار کو کہا جا تا ہے۔
تخلیق ِانسانی کے ساتھ ہی جو پہلی چیز انسان کے حصے میں آئی وہ رشتہ ہے۔خالق اور مخلو ق کا رشتہ۔ اللہ جل و شانہ کی ذات      والا صفات ایسی ہے کہ اس کی ہر صفت انسان کو اپنے خالق ِ حقیقی کے ساتھ بندگی کا ایک رشتہ عطا کر تی ہے۔روئے زمین پہ اتارے جانے کے بعد معا شرتی تشکیل و کاروبارِ حیات چلانے کے لیے بھی رشتہ ہی بنیاد بنا لیکن ہر رشتے کی اپنی بھی کو ئی نہ کو ئی بنیاد ہو تی ہے وہ نسب و رفاقت بھی ہو سکتی ہے اور اصول و قوانین بھی۔
  ایک ابدی اور لازوال رشتہ ایسا بھی ہے جو سارے کا سارا ایمان و یقین کی بنیاد پر استوا ر کیا گیا۔ ایک ایسا رشتہ کہ جس پر دنیوی و اُخروی کامیابی و کامرانی کا دارومدار ہے۔انسان کو زندگی گزارنے،مقصد حیات سمجھنے اور اس پر پورا اُترنے کے لیے یقینا ایک ہادی و رہبر کی ضرورت تھی۔مالک کل کائنات نے پہلا انسان ہی اپنا نبی ؑ بنا کر،پیدائش سے پہلے ہی نسل انسانی کی اس ضرورت کو پورا فرما دیا۔گو یا روئے زمین پہ بننے والایہ پہلا رشتہ تھا۔ حضرت آدم ؑ کا کنبہ،خاندان میں تبدیل ہوا،خا ندان قبیلے اور قبیلہ قوم میں۔آپ ؑ کے پیروکار پہلی امت بنے اور اہل ایمان کا پہلا گروہ۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی میں اضافہ ہوا اوروہ بہت سے قبیلوں اور قوموں میں بٹتی ہو ئی زمین میں پھیل گئی۔وہ ذات بے ہمتا ایسی رحیم و کریم ہے کہ اس نے انسان کی بنیادی ضرورت کو پو را فرماتے ہوئے ہر قوم میں اپنے نبی ؑ مبعوث فرمائے۔یوں امتیں بنیں جو اپنے اپنے ایمان و یقین اور پھر عمل کے لحاظ سے مختلف تھیں۔ایمان و یقین کا فرق اعمال پہ اثر انداز ہوااور اعمال نتا ئج کے اختلاف کا سبب بنے لہٰذا انعام یا فتہ قومیں بھی گزریں اور مغضوب الیہ بھی۔یہاں تک کہ دانائے سبلؐ، ختم الرسل ؐ،مو لا ئے کل ؐ اللہ رب العزت کا آخری پیغام لے کر تشریف لائے۔قیامت تک کے لیے ہر خطۂ زمین پہ بسنے والے ہر فرد،ہر قوم کے لیے اللہ کے آخری نبی، آخری رسول  ﷺ۔سردارِ انبیا ء،حبیب ِکبریا  وجہ وجود کا ئنات! جن کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں کی زینت بنا اور انبیا و رسل ؑنے جن کا امتی  ہو نے کی آرزو کی۔
  جس نے بھی دل کی گہرائیوں سے   لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیا وہ اس اعزاز سے نوازا گیا۔اس کا رشتہ محمد رسول اللہ ﷺ سے جڑ گیا۔وہ آپؐ کا امتی کہلا نے کا شرف پا گیا۔ روزِ قیامت آپ  ﷺ کی شفا عت کا مستحق ٹھہرا۔وہ ان لوگوں میں شامل ہو گیا جنھیں قرآن حکیم نے وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہہ کر پکارا۔وہ ُ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [التوبۃ 9:88] میں شمار ہو نے لگا۔ ایسی امت کا حصہ بن گیا جسے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ۔۔۔[ال عمران3:110] فرما یا گیا لیکن قا رئین کرام! یہاں غو ر طلب بات یہ ہے کہ یہ فلاح،یہ کامرا نی،یہ شرف،یہ کامیابی اور یہ خوش بختی پا نے کے لیے   لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ  کا محض اقرار باللسان ہی نہیں، تصدیق بالقلب بھی ضروری ہے اور یہ مسلمہ بات ہے کہ تصدیق بالقلب،اعمال و افعال تک ضرورآتی ہے۔محکم یقین،عمل ِپیہم بن کے رہتا ہے۔اس کے لیے ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا۔۔۔ [البقرۃ2:218]کے مرا حل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بندہ خو اہشات نفس،دنیوی حرص و نمود،معا شرتی غیر شرعی رسوم اور عزت و ذلت کے خود سا ختہ معیا ر ترک کر کے قال اللہ وقال الرسول کو مشعل راہ بنائے تو امتی کہلا نے کا مستحق ہو تا ہے۔جن خوش بختوں نے یقین کامل کی دولت پا ئی وہ ہر رسم،ہر رواج مٹا کر،گھر بارلٹا کر،میدان جہاد میں قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا۔۔۔     [ال عمران3:195]سے گزر کر بار گاہِ الہٰی میں سرخرو ہو ئے اورجنت کی بشا رت سے سرفراز ہوئے۔وہ  جَنّٰتِ عَدْنٍکے وعدے ہی سے نہیں نوا زے گئے بلکہ ان سے  وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔۔۔[التوبۃ9:72] جیسی نعمت کا وعدہ بھی کیا گیا جو ہر نعمت سے بڑی نعمت ہے۔
قا رئین کرام! ہمیں تو اس عظیم ہستی کا امتی ہو نے کا شرف حاصل ہے جو رحمتہ للعالمین ہیں،جو بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ [التوبۃ9:128] ہیں۔جو ہمارے اس دنیا میں آنے سے چودہ سو سال پہلے ہماری اُخروی حیات کے لیے متفکر اور دعاگو  رہے۔جنھوں نے راتیں جاگ کر ہماری فلاح چا ہی۔ہمارے لیے لازم ہے کہ نبی اور امتی کے اس ابدی ولازوال رشتے کے احساس کو ہمیشہ قلوب میں زندہ رکھیں۔ہمیشہ مدنظر رہے کہ بارگا ہِ رسالت امر ہے اور امتی سرا پا اطا عت،با رگا ہِ رسالت مرکز ہے اور امتی دا ئرہ،بارگا ہِ رسالت     بحر رحمت و شفقت ہے اور امتی سر تا پا عجز و ادب۔امتی ہو نے کا حق صرف وہ اداکر سکتا ہے جس کی تصدیق با لقلب ایسی پختہ،مضبوط،سچی اور کھری ہو کہ جہاں فرمان رسالتؐ سامنے آجا ئے وہاں خو یش،قبیلہ،وطن،شوکت و ثروت حتیٰ کہ اپنی ذات کی بھی کو ئی حیثیت نہ رہے۔اپنی ہستی، ذات رسول اکرم  ﷺ کے سامنے فنا ہو گی تو بقا پا ئے گی۔اپنی ذات کی نفی کے بغیر رشتہ ٔایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ذرا غور تو کیجیے کہ ہما را یہ رشتہ جڑا ہو ا کس ہستی ٔمبارک سے ہے!اورکیا ان  ﷺپر قربا ن کر نے کے لیے کچھ باقی رہ جا نا چاہیے؟ان  ﷺ کی ہاں،ہماری ہاں ہو،ان  ﷺ کی ناں ہماری ناں ہو تب امتی کہلا نے کا مزہ ہے۔ان  ﷺکی خوشی،ان  ﷺ کی رضا،ان  ﷺ کی خو شنودی،ان  ﷺکی چاہ مقصد ِحیات بنے تو حیات،حیات کہلانے کی مستحق ہو گی۔
تو آئیے! ابھی سے اس عظیم نعمت کو پانے کے لیے،اس ہستی ٔمبارک سے رشتہ استوار کر نے کے لیے،امتی ہو نے کا حق ادا کرنے کے لیے اللہ رب العزت کے حضور گزشتہ غفلتوں پہ معافی طلب کرتے ہوئے ایک عزم ِنو کے ساتھ دلوں میں ذکر ِالہٰی کی قندیل روشن کریں۔ قلوب میں اللہ اللہ کی کرنیں پھو ٹیں گی تو تصدیق بالقلب کا نو ر جا گزیں ہو سکے گا۔ایسا نور جو با رگا ہِ رسا لت تک راہیں بنا ئے گا ہی نہیں ان پہ چلا ئے گا بھی اور ہمیں ان شفیع الزمان  ﷺ کا سچا امتی بننے کے قا بل بنا ئے گا۔
Ummati - 1
Ummati - 2

ذائقۃ الموت

Zaiqat-ul-Maut - 1
Zaiqat-ul-Maut - 2

کردار

Kirdaar - 1

رابطہ

Rabita - 1
Rabita - 2

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ

ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۔ (الرحمن :60)  ’’بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہے ۔‘‘
نیکی کے لفظی معا نی بھلا ئی ،عمدگی ،کا ر خیر اور احسا ن کے ہیں ۔حضرت جی  ؒکا فرما ن ہے کہ اگر تم خلوص ِدل سے دامانِ رسالت ؐ تھا مو گے، اتباعِ رسالت ؐ کرو گے ،اطا عت ِالٰہی کرو گے تو یہ بھلا ئی ہے ،نیکی ہے۔ 
 اس آیۂ کریمہ میں اللہ سبحا نہٗ تعا لیٰ فرما رہے ہیں کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا  اور کچھ ہو سکتا ہے ! گو یا اطا عت ِالٰہی کرنے وا لے یقیناًانعام پا تے ہیں اور تا ریخ کے آسمان پر ایسے بے شمار وا قعات درخشا ں ستا روں کی طرح منور ہیں ۔
  فرد کی نیکی کا صلہ تو فرد کو ملتا ہی ہے لیکن اس نیکی کو کرنے وا لے کی قوتِ ایمانی اور تعلق مع اللہ اس کی نیت و ارادے میں وہ خلوص پیدا کرتے ہیں کہ بسااوقات اس نیکی کے ثمر سے نسلیں بلکہ قو میں فیضیاب و سرفراز ہو تی ہیں ۔
دورِ فاروقی تھا۔ حضرت عمرِ فاروق ؓ رات کےوقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں عوام النا س کی حا لت ِزارجا ننے کے لیے (جسے آج کلGround reality جاننا کہتے ہیں ) معمو ل کے دورے پہ ہیں ۔اتنے میں ایک مکان سے ماں بیٹی کی گفتگو سنا ئی دیتی ہے ۔ماں کہہ رہی ہے دودھ میں پا نی ملا دو ،بیٹی جواب دیتی ہے خلیفہ نے ملا وٹ سے منع کیا ہے ۔ما ں تسلی دیتی ہے خلیفہ دیکھ تو نہیں رہا ۔معیت ِباری پہ پختہ ایمان بیٹی سے بے سا ختہ کہلوا تا ہے ’’ اماں! اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘لہجے کے تیقن نے حضرت عمر ِفاروق ؓ کو سرشار کر دیا اور اسی وقت قصد کر لیا کہ اس لڑکی کو اپنی بیٹی بنا ئیں گے ۔گھر جا کربیٹے عاصم سے فرما یا ’’اس سے نکا ح کر لو ۔بخدا  اس سے ایک شہسوار پیدا ہو گا جو تمام عرب کی قیا دت کرے گا۔ ‘‘ امام مالک کے شا گرد الامام الفقیہہ ابو محمد عبد اللہ بن الحکم ایک اور  روا یت بھی بیان فر ما تے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرِ فاروق ؓسو کر اٹھے ،آنکھیں ملیں ،منہ پہ ہا تھ پھیرا  اور کئی با ر فرما یا ’’یہ کون ہے جو عمر کی اولا د سے ہو گا ، جس کا نام عمر ہو گا اور جو عمر کے طریقہ پر چلے گا۔ ‘‘ـــــ
 اور پھر روئے زمین کو ان ؓ کی راہ پہ چلنے و الے ایک اور عمر ؒکے قدوم چو منے کا شرف حا صل ہوا ۔عمربن عبد العزیز ؒ!!!۔۔۔جن کی وا لدہ حضرت عمرِ فاروق ؓ کی پو تی تھیں اور قبیلہ بنی ہلال کی وہی لڑکی ان کی نانی ۔گو رنرِ مصر کے بیٹے ،خلیفۂ وقت کے بھتیجے اور مدینہ منورہ کے حاکم مقرر ہو نے وا لے عمربن عبد العزیز ؒ!! جو نوجوانی میں خوش لبا سی ،خوش اطوا ری ،خوش ذوقی اور خوش خصا لی میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔اعلیٰ درجہ کی عنبر کی خو شبو جن کی را ہگزر کا پتہ دیتی لیکن مزاج میں تنعم اور چا ل میں با نکپن رکھنے وا لے عمر بن عبد العزیز ؒپہ مدینہ کی گو رنری کے دوران بھی شکم پروری ،شہوت پرستی یا غلط فیصلے کے اشتباہ تک کی گنجا ئش نہ تھی ۔
جب خلیفۂ وقت سلمان بن عبد الملک نے خلا فت سے گریزاں انھیں عمر بن عبد العزیز ؒ کو یہ کہہ کر اپنا جا نشین چنا کہ’’بخدا میں ایسی نا مزدگی کروں گا جس میں شیطا ن کا کو ئی حصہ نہ ہو گا ۔‘‘تو چشم ِفلک نے دیکھا کہ سلطنت کی گو د کے پر وردہ ،عطر بیزی میں مشہورعمربن عبد العزیز، عمرؓ بن خطا ب کے رستے پہ گا مزن ہو گئے ۔انوا ع و اقسام کے کھانے ترک کر دیے ،تمام جا ئیداد،غلام ، لو نڈی ،چو پا ئے ،قیمتی ساز و سا مان ،سوا ری، لبا س اور عطو ر بیچ کر رقم اللہ کی راہ میں دے دی۔اپنی خیبر کی جا گیر کی دستا ویز یہ فرما کر چا ک کر ڈا لی کہ ’’ میں اسے اس حالت میں چھوڑتا ہوں جس میں رسو ل اللہ ﷺ  چھوڑ کر گئے ۔پہلے خلیفہ کی تمام خصوصی اشیا ءبیت الما ل میں جمع کرا دیں ،خدام کو اپنی آمد پہ کھڑا  ہو نے سے منع فرما دیا ،سلام میں پہل کرنے کو روا ج دیا ،خلا فت کے بعد تا دم ِمرگ نہ کو ئی سوا ری خریدی ،نہ کسی عورت سے نکاح کیا اور نہ ہی نئی با ندی رکھی ۔بنو امیہ کے امراء کے قبضے میں نا جا ئز املاک اور زمینیں وا پس کرا ئیں اور انھیں ملنے وا لے عطیا ت بند کروا دیے۔ اپنے عمال وامرائے لشکر کے لیے فیصلے کرنے ،جزا و سزا  اور قتا ل کے ایسے اصول و ضو ابط و آداب مقرر فرما ئے جو آج بھی کسی حاکم کے لیےمشعل راہ بن سکتے ہیں ۔غربا ءو مسا کین کو بیت المال کا حق دار ٹہرا یا۔یہ آپ ہی کا دورِ حکومت تھا جس میں جب خمس کے غلام زیا دہ ہو جا تے تو انھیں نا بینا اور اپا ہج افراد میں تقسیم کر دیا جا تا ۔عوام میں خوشحا لی کا یہ عا لم تھا کہ صدقہ لینے وا لا کو ئی نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ پھر ان رقوم سے غلام آزاد کرا ئے جا نے لگے ۔آ پؒ نے چو پا یوں تک کے لیے ہدا یات جا ری کروا ئیں کہ لگام بھا ری نہ ہو ،بو جھ زیا دہ نہ ہواور لو ہے کی خول وا لی چھڑی سے نہ ہا نکا جا ئے ۔

 

آپ ؒ کے با رے میں امام با قر  ؒ فرما تے ہیں’’ہر قوم میں شرفاء ہو تے ہیں بنو امیہ میں عمر بن عبد العزیز ؒتنہا مجموعہ شرفا ءہیں ۔آپ قیا مت کے دن تن تنہا ایک قوم بن کر اٹھیں گے ۔‘‘ امام احمد بن حنبل ؒ کا ارشا د ہے ’’اگر آپ کسی کے دل میں عمربن عبد العزیز ؒکی محبت کا جذبہ مو جزن دیکھیں کہ وہ آپ ؒ کے اوصاف ِحمیدہ کی تشہیر کرتا رہتا ہے تو یقین کر لیجیے کہ اس کا انجام خیر و برکت سے بھر پور ہے ۔‘‘
حضرت انس بن مالک ؓ عراق سے مدینہ تشریف لا ئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جو اس وقت حا کم ِمدینہ تھے ،کے پیچھے نماز پڑ ھنے کے بعد فرما یا، ماصلیت خلف امام بعد رسول اللہ ﷺ اشبہ صلٰوۃ بصلٰوۃ رسول  اللہ ﷺ من امامکم ھذا (رسو ل اللہ  ﷺکے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز رسو ل اللہ ﷺ سے اتنی مشا بہت رکھتی ہو جتنی کے تمہارے اس امام کی )زما نہ ٔ خلا فت میں آپ ؒ نے امرا ئے لشکر اور گو رنروں کو تحریر اًحکم صادر فرمایاکہ لو گوں کو نماز کی پا بندی کر وا ئیں ۔آپ ؒ کا فرما ن تھا ”جو شخص نماز کو ضا ئع کرتا ہے وہ با قی احکامِ شریعہ کو سب سے زیا دہ ضا ئع کرنے وا لا ہے ۔‘‘اہل حرب کے لیے فرما یا ’’گناہ دشمن کی سا زشوں سے زیا دہ خو فنا ک ہیں ۔کسی انسان کی عدا وت سے اتنا نہ ڈرو جتنا کہ اپنے گنا ہوں سے ۔“
  محض دو سال چا ر مہینے اور چند دن کے دور ِخلا فت میں آپؒ نے احیائے دین کے لیے وہ جد جہد کی اور عدل و انصاف کا یوں بو ل با لا کیا کہ زما نہ ٔ خلفا ئے راشدین کی یا دیں تا زہ ہو گئیں ۔کتاب و سنت کو یوں روا ج دیا کہ وہ لوگ جو عہدِ ولیدمیں عما رتوں اور عہدِ سلیمان میں طعام و عیش و طرب کو مو ضوع گفتگو بنا یا کرتے تھے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے دور میں ایک دوسرے سے پو چھا کرتے تھے’آج کی شب تم نے کتنا قرآن پڑھا ؟‘یا’ تم مہینے میں کتنے رو زے رکھتے ہو ؟‘
حاکم ِمدینہ منورہ ،مشیرِ خاص خلیفہ اور خلا فت جیسے مناصب کا با رِگراں کاندھوں پہ اٹھا نے اور نہا یت احسن طریقے سے فروغِ اسلام اور احیا ئے دین کی جدو جہد سے سرخرو ہونے کے بعد جب شہا دت سے سرفراز ہو ئے تو آپ کی عمر مبا رک فقط چا لیس سال تھی ۔جس خادم کے ذریعےآپ کو زہر دیا گیا ،اسے بلوایا، وجہ پو چھی تو اس کے یہ کہنے پر کہ ’ مجھے دھو کا اور فریب دیا گیا ‘آپ نے اس سے کچھ تعرـض نہ کیا اور چھوڑ دیا البتہ اس سلسلے میں اسے دی جا نے وا لی اشرفیاںاس سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیں ۔ صاحب العقد الفرید لکھتے ہیں ’اگر عمر ؒ پہ زہر سبقت نہ کرتا تو اللہ کا خو ف سبقت کر جا تا ـ۔‘ایک صبح زو جہ محترمہ نے رات کی گریہ زاری میں تڑپ کی شدت کا سبب پو چھا تو فرمایا ’’ میں نے غور کیا تو پا یا میں اس امت کے سیاہ و سفید کا مالک ہوں ۔پھر مجھے یقین ہوا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ زمین کے طول و عرض میں پھیلے ان لو گو ں،جن میں مظلوم ،بے حال اور بھوکے بھی ہیں ،با رے مجھ سے سوال کریں گے اور   رسول اللہ ﷺ وکیل استغا ثہ ہوں گے تو ان ﷺکے سا منے کون سی حجت پیش کی جا سکے گی اور اللہ تعالیٰ میرا کون سا عذر سنیں گے ! تو میرے خوف میں اضا فہ ہو تا چلا گیا۔ ‘‘
  تا ریخ ِعا لم گو اہ ہے کہ ایک صالح ، متقی ، خوف ِالٰہی اور انا بت ِبا ری کا حا مل شخص جہاں تک بھی با اختیا ر ہو، اس کا ورع و تقوی وہاں تک اثر انداز ہو تا ہے ۔یہ اختیا ر ملکی ،صو با ئی ،علا قا ئی ، خا نگی یا خالصتاًذاتی سطح تک ہی کیوں نہ ہو ۔انسا ن کتنے ہی محدود اختیا رات رکھتا ہو اپنے وجود کی سلطنت کا تو حا کم ہو تا ہی ہے ۔وہ اپنے قلب و نظر اور اعضا ء و جوا رح پہ شریعت خیر الانا م ﷺنا فذ کر دیتا ہے ۔جس وجود کا ایک ایک خلیہ کیفیا ت و برکا تِ رسا لت کا حا مل ہوان کے بحر قلوب میں ٹھا ٹھیں ما رتے حب ِالٰہی اور عشق ِرسول ﷺ کے جذبے کی تلا طم خیز مو جیں قلوب کی گہرا ئیو ں سے اٹھتی ہیں تو اعضا ء و جوا رح کو متا ثر کرتی ہیں اور پھر بات یہاں نہیں رکتی ۔ایسے با برکت وجود اپنے گردو پیش کو متا ثر کیے بغیر نہیں رہتے اور بات پھر اختیا رات کی حدود تک چلی جا تی ہے ۔
اب اور اس وقت ہمارے پا س یہ اختیا ر ہے کہ ہم اس زندگی کی حقیقت کو کس حد تک سمجھتے اور اس میں کیے جا نے وا لے ہر عمل کی ایک روز ہو نے وا لی جوابدہی کا کتنا ادراک کرپا تے ہیں !ہم کہ جو آج ،من حیث القوم ،اپنی اپنی ذمہ دا ریوں کو پس پشت ڈالتے ہو ئے ہا تھ پہ ہا تھ دھرے منتظرِ فردا ہیں یہ کیو ں فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری تا ریخ ،ہمارے ہی آباء کے نقوش ِکف ِپا سے آج بھی درخشا ں ہے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے نشانِ منزل ہے ۔