Latest Editorials


کردار

Kirdaar - 1

رابطہ

Rabita - 1
Rabita - 2

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ

ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۔ (الرحمن :60)  ’’بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہے ۔‘‘
نیکی کے لفظی معا نی بھلا ئی ،عمدگی ،کا ر خیر اور احسا ن کے ہیں ۔حضرت جی  ؒکا فرما ن ہے کہ اگر تم خلوص ِدل سے دامانِ رسالت ؐ تھا مو گے، اتباعِ رسالت ؐ کرو گے ،اطا عت ِالٰہی کرو گے تو یہ بھلا ئی ہے ،نیکی ہے۔ 
 اس آیۂ کریمہ میں اللہ سبحا نہٗ تعا لیٰ فرما رہے ہیں کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا  اور کچھ ہو سکتا ہے ! گو یا اطا عت ِالٰہی کرنے وا لے یقیناًانعام پا تے ہیں اور تا ریخ کے آسمان پر ایسے بے شمار وا قعات درخشا ں ستا روں کی طرح منور ہیں ۔
  فرد کی نیکی کا صلہ تو فرد کو ملتا ہی ہے لیکن اس نیکی کو کرنے وا لے کی قوتِ ایمانی اور تعلق مع اللہ اس کی نیت و ارادے میں وہ خلوص پیدا کرتے ہیں کہ بسااوقات اس نیکی کے ثمر سے نسلیں بلکہ قو میں فیضیاب و سرفراز ہو تی ہیں ۔
دورِ فاروقی تھا۔ حضرت عمرِ فاروق ؓ رات کےوقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں عوام النا س کی حا لت ِزارجا ننے کے لیے (جسے آج کلGround reality جاننا کہتے ہیں ) معمو ل کے دورے پہ ہیں ۔اتنے میں ایک مکان سے ماں بیٹی کی گفتگو سنا ئی دیتی ہے ۔ماں کہہ رہی ہے دودھ میں پا نی ملا دو ،بیٹی جواب دیتی ہے خلیفہ نے ملا وٹ سے منع کیا ہے ۔ما ں تسلی دیتی ہے خلیفہ دیکھ تو نہیں رہا ۔معیت ِباری پہ پختہ ایمان بیٹی سے بے سا ختہ کہلوا تا ہے ’’ اماں! اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘لہجے کے تیقن نے حضرت عمر ِفاروق ؓ کو سرشار کر دیا اور اسی وقت قصد کر لیا کہ اس لڑکی کو اپنی بیٹی بنا ئیں گے ۔گھر جا کربیٹے عاصم سے فرما یا ’’اس سے نکا ح کر لو ۔بخدا  اس سے ایک شہسوار پیدا ہو گا جو تمام عرب کی قیا دت کرے گا۔ ‘‘ امام مالک کے شا گرد الامام الفقیہہ ابو محمد عبد اللہ بن الحکم ایک اور  روا یت بھی بیان فر ما تے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرِ فاروق ؓسو کر اٹھے ،آنکھیں ملیں ،منہ پہ ہا تھ پھیرا  اور کئی با ر فرما یا ’’یہ کون ہے جو عمر کی اولا د سے ہو گا ، جس کا نام عمر ہو گا اور جو عمر کے طریقہ پر چلے گا۔ ‘‘ـــــ
 اور پھر روئے زمین کو ان ؓ کی راہ پہ چلنے و الے ایک اور عمر ؒکے قدوم چو منے کا شرف حا صل ہوا ۔عمربن عبد العزیز ؒ!!!۔۔۔جن کی وا لدہ حضرت عمرِ فاروق ؓ کی پو تی تھیں اور قبیلہ بنی ہلال کی وہی لڑکی ان کی نانی ۔گو رنرِ مصر کے بیٹے ،خلیفۂ وقت کے بھتیجے اور مدینہ منورہ کے حاکم مقرر ہو نے وا لے عمربن عبد العزیز ؒ!! جو نوجوانی میں خوش لبا سی ،خوش اطوا ری ،خوش ذوقی اور خوش خصا لی میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔اعلیٰ درجہ کی عنبر کی خو شبو جن کی را ہگزر کا پتہ دیتی لیکن مزاج میں تنعم اور چا ل میں با نکپن رکھنے وا لے عمر بن عبد العزیز ؒپہ مدینہ کی گو رنری کے دوران بھی شکم پروری ،شہوت پرستی یا غلط فیصلے کے اشتباہ تک کی گنجا ئش نہ تھی ۔
جب خلیفۂ وقت سلمان بن عبد الملک نے خلا فت سے گریزاں انھیں عمر بن عبد العزیز ؒ کو یہ کہہ کر اپنا جا نشین چنا کہ’’بخدا میں ایسی نا مزدگی کروں گا جس میں شیطا ن کا کو ئی حصہ نہ ہو گا ۔‘‘تو چشم ِفلک نے دیکھا کہ سلطنت کی گو د کے پر وردہ ،عطر بیزی میں مشہورعمربن عبد العزیز، عمرؓ بن خطا ب کے رستے پہ گا مزن ہو گئے ۔انوا ع و اقسام کے کھانے ترک کر دیے ،تمام جا ئیداد،غلام ، لو نڈی ،چو پا ئے ،قیمتی ساز و سا مان ،سوا ری، لبا س اور عطو ر بیچ کر رقم اللہ کی راہ میں دے دی۔اپنی خیبر کی جا گیر کی دستا ویز یہ فرما کر چا ک کر ڈا لی کہ ’’ میں اسے اس حالت میں چھوڑتا ہوں جس میں رسو ل اللہ ﷺ  چھوڑ کر گئے ۔پہلے خلیفہ کی تمام خصوصی اشیا ءبیت الما ل میں جمع کرا دیں ،خدام کو اپنی آمد پہ کھڑا  ہو نے سے منع فرما دیا ،سلام میں پہل کرنے کو روا ج دیا ،خلا فت کے بعد تا دم ِمرگ نہ کو ئی سوا ری خریدی ،نہ کسی عورت سے نکاح کیا اور نہ ہی نئی با ندی رکھی ۔بنو امیہ کے امراء کے قبضے میں نا جا ئز املاک اور زمینیں وا پس کرا ئیں اور انھیں ملنے وا لے عطیا ت بند کروا دیے۔ اپنے عمال وامرائے لشکر کے لیے فیصلے کرنے ،جزا و سزا  اور قتا ل کے ایسے اصول و ضو ابط و آداب مقرر فرما ئے جو آج بھی کسی حاکم کے لیےمشعل راہ بن سکتے ہیں ۔غربا ءو مسا کین کو بیت المال کا حق دار ٹہرا یا۔یہ آپ ہی کا دورِ حکومت تھا جس میں جب خمس کے غلام زیا دہ ہو جا تے تو انھیں نا بینا اور اپا ہج افراد میں تقسیم کر دیا جا تا ۔عوام میں خوشحا لی کا یہ عا لم تھا کہ صدقہ لینے وا لا کو ئی نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ پھر ان رقوم سے غلام آزاد کرا ئے جا نے لگے ۔آ پؒ نے چو پا یوں تک کے لیے ہدا یات جا ری کروا ئیں کہ لگام بھا ری نہ ہو ،بو جھ زیا دہ نہ ہواور لو ہے کی خول وا لی چھڑی سے نہ ہا نکا جا ئے ۔

 

آپ ؒ کے با رے میں امام با قر  ؒ فرما تے ہیں’’ہر قوم میں شرفاء ہو تے ہیں بنو امیہ میں عمر بن عبد العزیز ؒتنہا مجموعہ شرفا ءہیں ۔آپ قیا مت کے دن تن تنہا ایک قوم بن کر اٹھیں گے ۔‘‘ امام احمد بن حنبل ؒ کا ارشا د ہے ’’اگر آپ کسی کے دل میں عمربن عبد العزیز ؒکی محبت کا جذبہ مو جزن دیکھیں کہ وہ آپ ؒ کے اوصاف ِحمیدہ کی تشہیر کرتا رہتا ہے تو یقین کر لیجیے کہ اس کا انجام خیر و برکت سے بھر پور ہے ۔‘‘
حضرت انس بن مالک ؓ عراق سے مدینہ تشریف لا ئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جو اس وقت حا کم ِمدینہ تھے ،کے پیچھے نماز پڑ ھنے کے بعد فرما یا، ماصلیت خلف امام بعد رسول اللہ ﷺ اشبہ صلٰوۃ بصلٰوۃ رسول  اللہ ﷺ من امامکم ھذا (رسو ل اللہ  ﷺکے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز رسو ل اللہ ﷺ سے اتنی مشا بہت رکھتی ہو جتنی کے تمہارے اس امام کی )زما نہ ٔ خلا فت میں آپ ؒ نے امرا ئے لشکر اور گو رنروں کو تحریر اًحکم صادر فرمایاکہ لو گوں کو نماز کی پا بندی کر وا ئیں ۔آپ ؒ کا فرما ن تھا ”جو شخص نماز کو ضا ئع کرتا ہے وہ با قی احکامِ شریعہ کو سب سے زیا دہ ضا ئع کرنے وا لا ہے ۔‘‘اہل حرب کے لیے فرما یا ’’گناہ دشمن کی سا زشوں سے زیا دہ خو فنا ک ہیں ۔کسی انسان کی عدا وت سے اتنا نہ ڈرو جتنا کہ اپنے گنا ہوں سے ۔“
  محض دو سال چا ر مہینے اور چند دن کے دور ِخلا فت میں آپؒ نے احیائے دین کے لیے وہ جد جہد کی اور عدل و انصاف کا یوں بو ل با لا کیا کہ زما نہ ٔ خلفا ئے راشدین کی یا دیں تا زہ ہو گئیں ۔کتاب و سنت کو یوں روا ج دیا کہ وہ لوگ جو عہدِ ولیدمیں عما رتوں اور عہدِ سلیمان میں طعام و عیش و طرب کو مو ضوع گفتگو بنا یا کرتے تھے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے دور میں ایک دوسرے سے پو چھا کرتے تھے’آج کی شب تم نے کتنا قرآن پڑھا ؟‘یا’ تم مہینے میں کتنے رو زے رکھتے ہو ؟‘
حاکم ِمدینہ منورہ ،مشیرِ خاص خلیفہ اور خلا فت جیسے مناصب کا با رِگراں کاندھوں پہ اٹھا نے اور نہا یت احسن طریقے سے فروغِ اسلام اور احیا ئے دین کی جدو جہد سے سرخرو ہونے کے بعد جب شہا دت سے سرفراز ہو ئے تو آپ کی عمر مبا رک فقط چا لیس سال تھی ۔جس خادم کے ذریعےآپ کو زہر دیا گیا ،اسے بلوایا، وجہ پو چھی تو اس کے یہ کہنے پر کہ ’ مجھے دھو کا اور فریب دیا گیا ‘آپ نے اس سے کچھ تعرـض نہ کیا اور چھوڑ دیا البتہ اس سلسلے میں اسے دی جا نے وا لی اشرفیاںاس سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیں ۔ صاحب العقد الفرید لکھتے ہیں ’اگر عمر ؒ پہ زہر سبقت نہ کرتا تو اللہ کا خو ف سبقت کر جا تا ـ۔‘ایک صبح زو جہ محترمہ نے رات کی گریہ زاری میں تڑپ کی شدت کا سبب پو چھا تو فرمایا ’’ میں نے غور کیا تو پا یا میں اس امت کے سیاہ و سفید کا مالک ہوں ۔پھر مجھے یقین ہوا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ زمین کے طول و عرض میں پھیلے ان لو گو ں،جن میں مظلوم ،بے حال اور بھوکے بھی ہیں ،با رے مجھ سے سوال کریں گے اور   رسول اللہ ﷺ وکیل استغا ثہ ہوں گے تو ان ﷺکے سا منے کون سی حجت پیش کی جا سکے گی اور اللہ تعالیٰ میرا کون سا عذر سنیں گے ! تو میرے خوف میں اضا فہ ہو تا چلا گیا۔ ‘‘
  تا ریخ ِعا لم گو اہ ہے کہ ایک صالح ، متقی ، خوف ِالٰہی اور انا بت ِبا ری کا حا مل شخص جہاں تک بھی با اختیا ر ہو، اس کا ورع و تقوی وہاں تک اثر انداز ہو تا ہے ۔یہ اختیا ر ملکی ،صو با ئی ،علا قا ئی ، خا نگی یا خالصتاًذاتی سطح تک ہی کیوں نہ ہو ۔انسا ن کتنے ہی محدود اختیا رات رکھتا ہو اپنے وجود کی سلطنت کا تو حا کم ہو تا ہی ہے ۔وہ اپنے قلب و نظر اور اعضا ء و جوا رح پہ شریعت خیر الانا م ﷺنا فذ کر دیتا ہے ۔جس وجود کا ایک ایک خلیہ کیفیا ت و برکا تِ رسا لت کا حا مل ہوان کے بحر قلوب میں ٹھا ٹھیں ما رتے حب ِالٰہی اور عشق ِرسول ﷺ کے جذبے کی تلا طم خیز مو جیں قلوب کی گہرا ئیو ں سے اٹھتی ہیں تو اعضا ء و جوا رح کو متا ثر کرتی ہیں اور پھر بات یہاں نہیں رکتی ۔ایسے با برکت وجود اپنے گردو پیش کو متا ثر کیے بغیر نہیں رہتے اور بات پھر اختیا رات کی حدود تک چلی جا تی ہے ۔
اب اور اس وقت ہمارے پا س یہ اختیا ر ہے کہ ہم اس زندگی کی حقیقت کو کس حد تک سمجھتے اور اس میں کیے جا نے وا لے ہر عمل کی ایک روز ہو نے وا لی جوابدہی کا کتنا ادراک کرپا تے ہیں !ہم کہ جو آج ،من حیث القوم ،اپنی اپنی ذمہ دا ریوں کو پس پشت ڈالتے ہو ئے ہا تھ پہ ہا تھ دھرے منتظرِ فردا ہیں یہ کیو ں فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری تا ریخ ،ہمارے ہی آباء کے نقوش ِکف ِپا سے آج بھی درخشا ں ہے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے نشانِ منزل ہے ۔ 

 


وضو

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن۔۔۔۔(المائدۃ:۶)
”اے ایمان والو! جب تم نماز کا قصد کرو تو اپنے چہروں کو دھوؤاور اپنے ہا تھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو اور اپنے سر وں پر ہا تھ پھیرو(مسح کرو)اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں (دھو لیا کرو)۔“
اسلام میں جہا ں تزکیہئ قلب کو ابدی فلاح کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کامیا بی کے زینے پہ قدم رکھنے کے لئے تطہیر قالب کی بھی شرط مقرر فرما ئی ہے۔سورہئ ما ئدہ کی اس آیہ کریمہ میں نماز کی تیا ری، اللہ رب العزت کی با رگا ہ میں حاضری کے لئے ممکنہ حد تک ظا ہری صفا ئی،ستھرا ئی اور پا کیز گی کا اہتما م کرنے کا حکم فر مایا گیا ہے۔چہرہ،ہاتھ، کہنیوں سمیت بازو دھونا سر کا مسح کرنا اور ٹخنوں تک پا ؤ ں دھونا وضو کے فرائض میں سے ہیں۔ وضو درا صل عربی زبان کا لفظ ہے جو  وضا تٌ سے ما خوذ ہے۔ وضاتٌ رو شنی کو کہتے ہیں۔حدیث ِپا ک ہے:
قیل یا رسول اللہ کیف تعرف من لم تر من امتک قال غر محجلون بلق من اثار الوضوءِ(ابن ماجہ)
”عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔ نبی ئ اکرم  ﷺ سے دریافت کیا گیاکہ آپ  ﷺ (قیامت کے دن) اپنی امت کے لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جنھیں آپ  ﷺ نے نہیں دیکھا۔آپ  ﷺ نے فرمایا وضو کے نشانات سے ان کے ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے۔“
وضو کرنے والوں کے چہروں کے روشن ہو نے کی اسی نو ید کی بنا پہ پا کیزہ پا نی کو بطر یق شریعت ان اعضاء پہ استعمال کرنا (جن کی وضا حت احادیث میں تفصیل سے فرما دی گئی ہے)وضو کہلاتا ہے۔  لفظ ’وضو‘کی ’و‘پہ اگرزبر لگا دی جا ئے تو لغت’لسان العرب‘کے مطا بق اس سے مراد وہ پا نی ہو گا جس سے وضو کیا جا ئے اور اگر لفظ ’وضو‘  کی ’و‘  پہ زیر لگا دیں تو’شرح الیاس‘ کے مطا بق اس سے مراد وہ جگہ ہو گی جہاں بیٹھ کر وضو کیا جا ئے۔ 
قا رئین ِکرام! خالق ِکا ئنات کے اس دین حق کی تمام ترتعلیمات،اس کے احکامات،حدود،شرائط اور فرائض و حقوق انسان کی قلبی، بدنی، ذہنی اور جذ باتی ضروریات کے عین مطا بق ہیں۔اسلام جہاں صفا ئے قلب کو بنیاد قرار دیتا ہے وہاں طہا رت جسمانی کو بھی ان     عبا دات کے ساتھ ملزوم رکھتا ہے۔ اسلام روح کی با لیدگی کو وجود کی پا کیزگی کے ساتھ مشروط فرما تا ہے۔حدیث پا ک ہے:
الطھور شطرالایمان (صحیح مسلم)
 ”پا کیزگی نصف ایمان ہے۔“
شرح نووی کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ طہارت کا ثواب اس قدر بڑھتا ہے کہ ایمان کے آدھے ثواب کے برابر ہے۔
ایمان کے دو جزو ہیں ایک دل سے یقین کرنا اور دوسرا ظا ہراًبھی اطا عت کرنا اس ظاہری اطاعت میں جب پہلو عبادات کا آتا ہے تو اس کے لئے طہارت شرط قرار دے دی گئی ہے اور وضو پا کیزگی کو مزید جلا بخشتا ہے۔حدیث ِپا ک ہے:
اسباغ الوضوء شطر الایمان(ابن ماجہ)  
”کامل وضو کرنا نصف ایمان ہے۔“
وضو بذات خود فرض نہیں ہے لیکن نماز کی ادا ئیگی کے لئے شرط ہے۔حدیث ِپا ک ہے:
”جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضوہے۔“(مشکوۃ شریف)
گویا ایک مومن جب نماز کی تیا ری میں جہاں جگہ،لباس اور بدن کے پا ک ہو نے کا خیال رکھے وہاں وجود کے ظا ہر ی اعضا ء کو خصوصی اہتمام سے صاف بھی کرے (وضو کرے)کہ آخر کس ہستی کی بارگاہ میں حا ضری کے لئے تیار ہو رہا ہے یہ اہتمام اُسے تکبیر اولیٰ سے پہلے ہی خشوع کی کیفیت سے نواز دے گا۔جیسے کسی اعلیٰ منصب شخص سے ملنے جا نے کے لئے تیا ری کی جا ئے تو ملاقا ت سے پہلے ہی اس شخصیت سے ملنے کے احسا س کی مسرت قلب و بدن پہ چھا رہی ہوتی ہے۔ وضو کا اہتمام بندہئ مومن کو بارگاہِ الٰہی میں حاضری سے پہلے ہی اپنے خالق و مالک کے حضور سر بسجود ہونے کی نعمت ملنے کی سرشاری سے نواز دیتا ہے۔حدیث ِپاک ہے:
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،جب ایمان دار شخص وضو کرتا ہے(اور) منہ میں پانی ڈالتا ہے تو اُس کے منہ سے گناہ نکل جاتے ہیں اور جب ناک جھاڑتا ہے تو اُس کی ناک سے گناہ نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اُس کے چہرے سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اُس کی دونوں آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اُس کے دونوں ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اُس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اُس کے سر سے یہاں تک کہ اُس کے کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اُس کے پاؤں سے یہاں تک کہ اُس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے گناہ نکل جاتے ہیں اس کے بعد مسجد کی جانب چلنا اور نماز ادا کرنا اس کے لیے زائد ہوتا ہے۔“(مشکوۃ شریف)
بِلاشبہ وہ بارگاہ ایسی ہی عظیم ہے کہ اس کی حاضری کے لیے بندہئ مومن کو گناہوں کی آلودگی دھو ڈالنے کے بعد ہی پیش ہونا چاہیے  اور اس رحیم و کریم خالق نے وضو کرنے کو گناہوں کی سیاہی سے دھلنے کا سبب بنا دیا۔حدیث ِپاک ہے:
وجعلت لی الارض مسجدا و طھورا (صحیح بخاری)
”ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی۔“
حضرت آدم ؑسے لے کر حضرت عیسیٰ  ؑتک ہر امت کو مسجد کی جگہ مختص کرنا پڑتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ئاکرم  ﷺ کی برکت سے پوری زمین کو مسجد بنا دیا اوراِس مسجد میں ایمان والوں کے لیے،ان کی ضروریات کی تسکین کے لیے پاکیزہ وجود، پاکیزہ لباس، پاکیزہ رزق، پاکیزہ سوچ، پاکیزہ خیالات غرض پاکیزہ کردار چُنا۔اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی اس مسجد میں کس حد تک پاکیزگی کے ساتھ رہنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ پاکیزگی جو وجود سے نہاں خانہئ دل تک اتر جائے۔وہ خوش نصیب جو اس کے حامل ہوں گے ان کی طہارتِ قلوب و وجودانہیں باوضو رکھے گی۔
وضوایسی نعمت ہے کہ وضو کرنے والے کے اعضاء سے گرنے والے پانی کا آخری قطرہ اس عضو کے آخری گناہ کو لے کر گرتا ہے اور اس کی برکت سے گناہ معاف ہونے کے علاوہ انسان بہت سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر پہلے سے با وضو شخص اگلی عبادت کے لئے تازہ وضو کرے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور وضو کے مقررہ ثواب سے زیادہ اجر سے نوازا جاتا ہے۔سخت سردی میں کامل وضو کرنے والے کودگنا ثواب ملتا ہے۔ ہمیشہ باوضو رہنے والا انسان آفات،مصائب،بلیات، جادو،نحوست اور دیگر بُرے اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔حالت ِوضو میں آنے والی موت، شہادت کا ثواب عطا کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انابت ِالٰہی عطا کرتا ہے کہ حا لت ِپاکیزگی کامتوجہ الی اللہ ہونے میں بہت دخل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 وَیَہْدِیْٓ اِِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْب(الشوریٰ: ۳۱)
”جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنا راستہ دکھاتا ہے۔“
بندہئ مومن کے لیے یہی مقصدِ حیات ہے اور یہی ابدی فلاح۔
Surah Al-Maidah (5:6)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ وَاِنْ

كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا …

O believers! When you intend to offer Salah, wash your faces, and wash your hands up to your elbows, and pass your hands over your

heads (do Massah) and (wash) your feet up to your ankles; …

Where, in Islam purification of the subtle-heart is considered essential for eternal success, thereby to ascend this ladder the
cleansing of the subtle-heart is imperative. In this Ayah of Surah Maidah, for the preparation of Salah, to come into the audience of
Allah (سبحانہ و تعالی), one must make absolute effort to maintain physical cleanliness, hygiene and purity of one’s self. Washing of the
face, the hands, the arms including the elbows, the ‘masah’ of the head and washing the feet including the ankles are essentials of
ablution. ‘Wuzu’ is an Arabic word which is derived from ‘وضاتٌ’, which means light. In a hadith it is mentioned:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ

قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ تَرَ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ ‏ "‏ غُرٌّ مُحَجَّلُونَ بُلْقٌ مِنْ آثَارِ الطُّهُورِ ‏"‏ ‏.‏

'Abdullah bin Mas'ud (رضی اللہ عنہ) said: "It was said: 'O Messenger of Allah, how will you recognize those whom you have not seen
of your Ummah?' He said: 'From the blazes of their foreheads and feet, like horses with black and white traces (which make them

distinct from others) which are the traces of ablution.'" (Hasan) Another chain with similar wording.

Hadith (Ibne-maja)
English reference : Vol. 1, Book 1, Hadith 284
Arabic reference : Book 1, Hadith 297
The ones who perform Wuzu have illuminated faces; based on this glad tiding, using clean water in accordance to the prescribed
method of the Shariah, on these body parts that were detailed in the hadith, is known as Wuzu. The word Wuzu’s alphabet ‘vao’ if a
‘zabar’ (accent/diacritic mark) is added to it then according to the Arabic dictionary it will mean that water with which the Wuzu is
performed. However, if instead the ‘vao’ of the word Wuzu has a ‘zair’ (accent/diacritic mark) added than according to the ‘Sharah
Ilyas’ it will mean that place where the ablution is performed.
Respected readers! This Deen-e-Haq (Islam/Divine Code of Truth) of The Creator of the Universe; its entire teachings,
commandments, parameters, conditions, and duties and rights are absolutely in accordance to human beings spiritual (subtle-
heart’s), physical, mental and emotional needs. Wherein Islam declares purification of the subtle-heart as the foundation thereupon
alongside this, the cleanliness of the body is ascertained as requirement for all worship. Islam acquaints spiritual cleanliness and
physical cleanliness a condition to one another. It is mentioned in
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلاَّمٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ، قَالَ قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلأُ الْمِيزَانَ ‏.‏ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلآنِ - أَوْ تَمْلأُ - مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ
وَالأَرْضِ وَالصَّلاَةُ نُورٌ وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا ‏"‏ ‏.‏
The Messenger of Allah (ﷺ) said: Cleanliness is half of faith and al-Hamdu Lillah (all praise and gratitude is for Allah alone) fills the
scale, and Subhan Allah (Glory be to Allah) and al-Hamdu Lillah fill up what is between the heavens and the earth, and prayer is a
light, and charity is proof (of one's faith) and endurance is a brightness and the Holy Qur'an is a proof on your behalf or against you.
All men go out early in the morning and sell themselves, thereby setting themselves free or destroying themselves.

Hadith: (Sahih Muslim)
Reference : Sahih Muslim 223
In-book reference : Book 2, Hadith 1
USC-MSA web (English) reference : Book 2, Hadith 432
(deprecated numbering scheme)

According to Sharah Noovi it is explained that the blessings on cleanliness are increased such that they are equivalent to half of the
cumulative blessings of Eemaan (Ascertaining Faith or Trust upon Allah).

There are two parts of faith, one being, to ascertain belief from the core of the heart and the other is to become observably
obedient. In obedience when matters pertain to ibadaat (worshipping Allah with devotion), then cleanliness becomes a prerequisite
and Wuzu further enhances intensity purification.
In a hadith it is mentioned:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلاَّمٍ، عَنْ أَخِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ ‏ "‏ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ شَطْرُ الإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلأُ
الْمِيزَانَ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ مِلْءُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَالصَّلاَةُ نُورٌ وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ

نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا ‏"‏ ‏.‏

It was narrated from Abu Malik Ash'ari (رضی اللہ عنہ) that: The Messenger of Allah said: "Performing ablution properly is half of
faith, saying Al-Hamdu Lillah fills the Scale (of good deeds), saying Subhan-Allah and Allahu Akbar fills the heavens and the earth,
prayer is light, Zakat is proof, patience is brightness and the Qur'an is proof for you or against you. Every person goes out in the

morning to sell his soul, so he either frees it or destroys it.'"
Hadith: (Ibn-e-majah)
Grade : Sahih (Darussalam)
English reference : Vol. 1, Book 1, Hadith 280
Arabic reference : Book 1, Hadith 293

Wuzu in itself is not obligatory but becomes obligatory for offering Salah.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، رضى الله عنهما قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلاَةُ وَمِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الْوُضُوءُ ‏"‏ ‏.‏

Jabir bin 'Abdullah (رضی اللہ عنہ), narrated that : Allah's Messenger said:
"The key to Paradise is Salat, and the key to Salat is Wudu'."
Hadith: (Mishkat Sharif)
Grade : Hasan (Darussalam)
Reference : Jami` at-Tirmidhi 4
In-book reference : Book 1, Hadith 4
English translation : Vol. 1, Book 1, Hadith 4
Hence, when a momin is preparing for Salah while he remains conscious of the place, clothes and body being clean thereupon he
should take special care in cleansing his respective body parts (do Wuzu), after all he is about to come into attendance of which
Magnificent Being (Allah). This preparation, even prior to his declaration of the Takbeer-e-Oola (First Takbeer of ‘Allah-o-Akbar’),
blesses him with the state of awe and humility. Similar to when we prepare for an appointment with somebody of a high stature,
then even before the meeting, the feelings of the pleasure of seeing him begin to engulf the heart and body. The preparation for
Wuzu, bestows upon the True Believer the feelings of joy, even prior to performing the blessing of sujood (prostrating one’s head
before Allah) in the presence of The Creator and The Lord.
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَعُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ
‏ "‏ إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ فَإِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ أَنْفِهِ فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ وَجْهِهِ
حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ يَدَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ يَدَيْهِ فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ
رَأْسِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ ثُمَّ كَانَ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَصَلاَتُهُ

نَافِلَةً لَهُ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ قُتَيْبَةُ عَنِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏.‏

It was narrated from 'Abdullah As-Sunabihi (رضی اللہ عنہ) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "When the believing slave
performs Wudu' and rinses his mouth, his sins come out from his mouth. When he sniffs water into his nose and blows it out, his
sins come from his nose. When he washes his face, his sins come out from his face, even from beneath his eyelashes. When he
washes his hands, his sins come out from his hands, even from beneath his fingernails. When he wipes his head, his sins come out
from his head, even from his ears. When washes his feet, his sins come from his feet, even from beneath his toenails. Then his

walking to the Masjid and his Salah will earn extra merit for him."
Hadith: (Mishkat Sharif)
Grade : Hasan (Darussalam)
Arabic/English book reference : Vol. 1, Book 1,
Hadith 103

Without doubt, it is such a Magnificent Court that before presenting one’s self there a momin should purify himself of all his acts of
disobedience of Allah. He, The Merciful and Beneficent has made Wuzu a source of cleansing the impurities of disobedience.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏
فُضِّلْتُ عَلَى الأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً

وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ ‏"‏ ‏.‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ‏.‏

Another chain from Abu Hurairah (رضی اللہ عنہ) who narrated that the Prophet (ﷺ) said: "I have been honored over the Prophets
with six (things): I have been given Jawami' Al-Kalam, I have been aided by (the ability to cause in the enemy) fright, the spoils of war
have been made lawful for me, the Earth has been made as a Masjid and purifier for me, and I have been sent to all creatures, and

with me Prophethood is sealed."

Hadith: (Sahih Bokhari)
Grade : Hasan (Darussalam)
Reference : Jami` at-Tirmidhi 1553
In-book reference : Book 21, Hadith 7
English translation : Vol. 3, Book 19, Hadith 1553
From the time of Hazrat Adam (علیہ السلام) to Hazrat Eesa (علیہ السلام) every nation had to allocate a definite place for worship. As a
blessing of the Holy Prophet ﷺ, Allah (سبحانہ و تعالی) declared the entire earth as a place of worship. Accordingly, in this place of
worship, to derive the gratification of the needs of the people of Faith, He ensured for them to have pure bodies, clean clothes,
purified food, pure thinking, pure rationale meaning overall ideal characters. Now it is up to us, how much we endeavour in order to
remain purified while living in this place of worship (i.e. Earth) of our Prophet ﷺ. The purity, which penetrates the body thereby
reaching the core of the heart. Those will be of a blessed fate, who achieve this state of purification of their body and soul will
maintain them in a perpetual state of Wuzu.
Wuzu is such a blessing that the last drop of water dripping from the body parts of the one performing the Wuzu, washes away the
last the final effects of the disobedience of Allah. Moreover, due to its blessings, not only forgiveness is bestowed but also
protection against many further disobediences is granted. If a person is already in a state of Wuzu, yet for the next Salah performs
Wuzu again, he is granted ten blessings and is bestowed further blessings than the usual. In extreme cold weather, one performing
the Sunnah Wuzu gets double reward. A person who remains in a constant state of ablution is protected from calamities,
misfortunes, catastrophes, magic, adversity and other evil influences. Dying while being in a state of Wuzu is bestowed with
martyrdom. Above all, the divine providence is that the state of purity has a great part to play in maintaining our focus upon Allah
(سبحانہ و تعالی). The Almighty says:

Surah Ash-Shura (42: 13)
… اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ
… جو اُس کی طرف رجوع کرے اُسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے۔

He has ordained for you the same Deen that He had commanded to Nooh (Alaihi as-Salam), and that which We have sent to you
through Revelation, and that which We had commanded to Ibraheem (Alaihi as-Salam) and Musa and Isa (Alaihim as-
Salam)that,‘Keep this Deen established and do not cause division in it.’ The matter to which you call the polytheist weighs very
heavily upon them. Allah draws towards Himself whom ever He wills, and shows the path towards Himself to the one who turns in

repentance to Him.
For a momin this is the purpose of life and the success of the hereafter.

تہجد

وَمِنَ الَّیْلِ  فَتَھَجَّدْ  بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ صلے ق عَسٰٓی   اَنْ   یَّبْعَثَکَ  رَبُّکَ   مَقَامًا   مَّحْمُوْدًا (17:79)
’’اور کسی قدر رات کے حصے میں اس (قرآن)کے ساتھ تہجد(رات کے نفل)پڑھا کیجئے یہ آپ کے لئے (فرض نمازوں کے علاوہ)زیادہ ہے۔امید ہے آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں جگہ عطا فرما ئے گا۔‘‘
ہجد کے معنی نوم (نیند) کے ہیں اور تہجد کا مطلب ترک نوم ہے۔چونکہ یہ نو افل نیند کے اوقات میں پڑھے جا تے ہیں اس لئے انہیں تہجد کہا جاتا ہے۔ بعض علمائے کرام کے نزدیک چو نکہ ان نوا فل کا پڑھنا نص ِقرآن سے ثا بت ہے اس لئے نبی اکرم ﷺ پہ یہ صلوٰۃ فرض تھی جبکہ دوسرا طبقہ اسے نفل قرار دیتا ہے۔قا ضی ثنا ء اللہ پا نی پتی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ نبی اکرم ﷺ کے لئے نفل تھے کہ نَافِلَۃً لَّکَ   ا رشاد ہے اور امت کے لئے سنت ِمو کدہ ہیں۔‘‘
انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ جس طرح بدن کی حیات کے لئے غذا ضروری اور بہترین بدنی صحت کے لئے بہترین خوراک لازم ہے اسی طرح روح کی بقا ایمان اور فرا ئض عبادات کے بجا لا نے میں ہے اورروح کو صحت مند، بیدار اور منور کرنے کے لئے روح کے خوان کو بھی وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ فرائض کے ساتھ نوافل،اذکار،کثرتِ تلاوت کلام پاک روح کو قوت اور تا بندگی بخشتے ہیں۔ سورۂ الدھر میں ارشاد ہے: وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً (76:25) وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ  وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاً (76:26) ’’اور صبح شام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے رہیے اور  رات کو (بڑی دیر تک)اس کے آگے سجدہ کیجئے اور رات کے اکثر حصے میں اس کی تسبیح کیا کیجئے۔‘‘
ذکر خفی اور صلوٰۃ تہجد ایک طرح سے لازم و ملزوم ہیں۔اللہ،اللہ کی تکرار جب قلب کی آنکھ کھو لتی ہے اور اسے اللہ تبارک و تعا لیٰ کی ذات ِوالاصفا ت سے روشناس کراتی ہے تو انسان بندگی کے مدارج طے کرنے کی طرف بڑ ھتا ہے اور فرائض کی ادا ئیگی کو لازم کر لیتا ہے۔ پھر اس ذات سے مزید آشنا ئی اُسے مزید عبادت پہ ابھا رتی ہے۔حق بندگی ادا کرنے کے لئے اس کا وجود روح کی طلب و تڑپ کے آگے بے اختیار ہو تے ہو ئے خود بھی سراپا اطا عت بن جا تا ہے۔ اس در پہ سجدہ ریز ہو نے کی خواہش یوں بڑھتی ہے کہ فرائض سے بڑھ کے بھی اس بارگاہ میں حاضر ہو نے اور سر بسجود ہو نے کے لئے نوا فل اختیا ر کرتا ہے۔اپنے اللہ کے حضور حاضری میں ہر قسم کی فراغت،خا مو شی، تنہا ئی اور مکمل یکسو ئی کی طلب عین نیند کے اوقا ت میں اسے اٹھاتی،وضو کروا تی اور جا ئے نماز پہ لے جا کھڑا کرتی ہے۔ حدیث پا ک ہے: ’’بندہ پچھلی رات میں اپنے پروردگا ر سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
یہی مقرب بندے ہیں جن کے بارے ارشاد ِنبوی ﷺ ہے: ـ’’قیامت کے دن لوگ ایک ہی میدان میں جمع کیے جائیں گے پھر منادی کرنے والا منادی کرے گا ـ کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو ان کے بستروں سے جدا رہتے تھے لہٰذا وہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے حالانکہ وہ لوگ قلیل ہوں گے پھر وہ بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے اس کے بعدتمام لوگوں کے حساب کا حکم دے دیا جائے گا۔‘‘(شعب الایمان)
ذکر قلبی اور تہجد قلب کو وہ پا کیزگی اور دماغ کو وہ طہارت بخشتے ہیں کہ وجود میں ایسی کیفیت در آتی ہے جس سے فرائض میں بھی لذت نصیب ہو تی ہے۔یہ ذکر قلبی ہی ہے جو بندے کو شب کی تنہا ئیوں میں اٹھا بٹھا تا ہے اور یہ شب بیداری کے نوافل ہی ہیں جو قلب کی پنہا ئیوں کو اللہ کے نام سے مزید جگمگا دیتے ہیں۔قاسم فیو ضات حضرت مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ  فرما یا کرتے تھے: ’’ذکر قلبی اور صلوٰۃ تہجد وہ قوت دیتے ہیں جس سے شریعت پہ کار بند رہنے کی تو فیق ملتی ہے۔یہ دونوں چیزیں مل جا ئیں تو اللہ تعا لیٰ برا ئی کے ہر طو فا ن سے بچنے کی طاقت عطا فرما دیتے ہیں۔باطل کا مقا بلہ از خود نہیں ہو سکتا اس کے لئے تا ئید باری حا صل کرنے کا نسخہ انھیں دونوں میں مضمر ہے۔‘‘
حدیث پاک ہے: ’’رات کا قیام قرب خدا وندی کا ذریعہ ہے۔سیئات کو محو کرتا ہے اور گناہوں سے باز رکھتا ہے۔‘‘(ترمذی)۔ اسی لئے صلوٰۃ تہجد ہمیشہ سے صو فیا ء کرام کی حیات کا لازمی جزو رہی ہے او ر رہے گی۔حضرت قلزم فیوضات مو لانا اللہ یار خان ؒ فرماتے ہیں کہ ’’صوفی کو تہجد کی کو ئی معا فی (چھوٹ،رعا یت) نہیں۔‘‘ نبی اکرم ﷺ کو یہ صلوٰۃ اس قدر عزیز تھی کہ فرمایا: ’’پس ان لو گوں کے زمرہ میں داخل ہو نے کی کو شش کرو جو اللہ تعالیٰ کو پچھلی رات میں یاد کرتے ہیں۔‘‘  (ترمذی)
گویا یہ ضروری ہے کہ صلوۃ تہجد کو کوشش کر کے اختیا ر کیا جا ئے۔ترمذی شریف ہی کی بیان کردہ ایک اور حدیث پاک ہے: ’’ تہجد کو لازم کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے صا لحین کا طریقہ ہے۔‘‘ وہ جو اللہ کی راہ پہ چل پڑتے ہیں اور منازل قربِ الٰہی کے خوا ہاں ہیں لذتِ آشنا ئی انھیں نیند کی غفلتوں سے بہت دور،دنیا کی لمحا تی آسا ئشوں سے بے گا نہ کرتے ہو ئے رب ِکائنات کی با رگا ہ میں سر بسجود پا تی ہے۔ حضرت مجدد الف ثا نی  ؒوَمِنَ الَّیْلِ  فَتَھَجَّدْ  بِہٖ کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’نماز تہجد کومقام ِشفاعت حاصل ہو نے میں خاص دخل ہے۔‘‘ اللہ رب العزت نے شا فعی محشرﷺ،حبیب ِکبریاﷺ کو جنت الفردوس میں بھی اعلیٰ و خاص مقام عطا فرما یا اور آپﷺ کو دنیا میں بھی شب کی ریاضتیں تعلیم فرما کر قرب ِخا ص عطا فرما دیا۔ آج اگر کو ئی قرب ِ الٰہی اور شفاعت ِمحشر کا طالب ہے تو اس کے پاس جب تک سا نسوں کی دو لت ہے،ایمان کے سرما ئے میں اضافے کے لئے نقش کف ِپا ئے منور مو جود ہیں جب تک دن کے اُجا لے اور شب کی تا ریکیا ں میسر ہیں فرائض و نوا فل کے مواقع بھی حا صل ہیں۔
یاد ِاو سرمایۂ ایمان بود
ہر گدا  از یاد او سلطان بُود

روزہ

الصوم لی وانا اجزی بہ  ’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘
لفظ ”میرا“ کسی چیز میں کسی دوسرے کی،کسی بھی طور شرا کت کی نفی کرتا ہے۔جس طرح ”میں“ سے مراد اس لفظ کو ادا کرنے والی ایک ہی ذات ہو تی ہے اسی طرح ”میرا“کہنے والا بھی دراصل بلا شرکت ِغیر ے کسی چیز کے مالک ہو نے کا دعویدار ہو تا ہے او ر ملکیت کی قدر و قیمت مالک کی حیثیت، شان،رتبہ اور مقام کے مطابق ہو تی ہے۔یوں تو تمام عبادات ہی اللہ رب العزت کے لیے ہیں لیکن ان میں سے ایک عبادت کو چُن کر اس کے لیے ”لی“   ’میرے لیے ہے‘   فرمانا، درحقیقت اس عمل کی حیثیت و اہمیت کو اُجا گر کرتا ہے۔ بھو ک اورپیاس کی تنگی میں،استعداد رکھتے ہو ئے بھی خود کو کھا نے پینے سے روک لیناجبکہ کو ئی نگران بھی مقرر نہ ہو،دراصل وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ پہ ایمان کی پختگی کو ظا ہر کرتا ہے، رب ِ کا ئنات کے حاضر اور نا ظرہو نے کی شان کو قلب کی گہرا ئیوں میں را سخ کرتا ہے۔
حیاتِ انسانی کا ہر لمحہ اطا عت ِالٰہی پہ کا ر بند رہنے کا متقا ضی ہے اور یہی مقصد ِحیات بھی ہے۔ جسے پا نے کے لیے اللہ کریم نے ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیا ئے کرام علیہم السلام مبعوث فرما ئے۔ضا بطہئ حیات وضع کرنے کے لیے تعلیمات ِرسالت اور ان تعلیمات کو قلب کی گہرا ئی سے ماننے کے لیے تطہیرقلب کی خاطربرکاتِ رسالت کے دریا بہا دیے جو تا قیا مت جاری و ساری رہیں گے۔اس سب کے بعد بھی بندہ ئمومن کو اطاعت ِالٰہی پہ گامزن رہنے کی خصوصی تربیت کا اہتمام فرما تے ہو ئے ایک ایسا مہینہ مقرر فرما دیا جو مہینوں کا سردا ر ہے۔جس میں اُس کے ازلی دشمن ’شیطان‘کو زنجیروں میں جکڑ دیا اور عبا دت ایسی مقررفر مادی جسے نبی اکرم  ﷺنے الصوم جنۃ ’روزہ ڈھال ہے‘فرمایا۔
حالت ِروزہ میں مخصوص وقت تک کے لیے محض کھانے پینے ہی سے نہیں روکا بلکہ نفس ِامارہ کی    خوا ہشات پہ بھی خود کو روک لینے کا حکم فرمادیاکہ اس کی غرض و غا یت ہی لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَہے۔پھر خصوصی انعامات کی بارش برسا دی،برکات کے خزا نے لٹا دیے۔ایک نیکی کا ثواب عام دنوں سے دس گنا بڑھا دیا۔پہلا عشرہ رحمت،دوسرا مغفرت اور تیسرا نارِجہنم سے نجات کا بنا دیا۔ایمان و احتساب سے روزہ رکھنے والے کوغفرلہ ما تقدم من ذنبہ ’اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘ کی نوید سنا دی۔
  قارئین ِکرام! ہماری رشد و ہدایت کے لیے حیات ایک مرتبہ پھر ہمیں رحمت ِباری کے ٹھا ٹھیں مارتے ہوئے سمندر پہ لے آئی ہے۔اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم کنا رِ دریا کھڑے رہتے ہیں یا اس کی   پنہا ئیوں میں غو طہ زن ہو کر قلب و روح کو یوں سیراب کرتے ہیں کہ کم از کم اگلے سال تک کے لیے اس سیلابِ رحمت کے ہلکورے پندارِ روح سے اعضا و جوارح تک محسوس ہو تے رہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حضو رِ حق کی وہ کیفیت جو ہر روزہ دار کو کلی کرتے وقت بھی،گلے میں تراوٹ نہ ہو نے پا ئے، کی حفا ظت کروا تی ہے، ہماری پو ری حیات پہ محیط ہو جا ئے اورفَاِنِّیْ قَرِیْبٌ  کی صدا، ہر ہر عمل پہ قلب میں گو نجتی رہے۔

تحریک

فَاَ قِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا۔۔۔۔۔ [الروم 30:30] ’’تو تم ایک طرف کے (یکسو)ہو کر دین پر سیدھارخ کیے چلے جاؤ۔اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لو گوں کو پیدا فرمایا ہے (اختیار کیے رہو)۔‘‘ انسان اشرف المخلو قات ہے اور رب العالمین کی ذات خالق۔تخلیق اس صورت میں احسن اور کار آمد ہوتی ہے جب خالق کے بتا ئے ہو ئے انداز و ترتیب سے استعمال کی جا ئے۔اللہ کریم نے اپنی اس سب سے اشرف مخلوق کے لیے جو طرز ِحیات چنا وہ اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔دنیا میں انسان کے اپنے بنائے ہو ئے قوا نین خواہ انہیں چوٹی کے دانشوروں نے مرتب کیا ہو،اپنے اندر کو ئی نہ کو ئی سقم ضرور رکھتے ہیں۔اسی لیے ان کی تنفیذ کی عمر بھی محدود رہی ہے۔ وا حد طرزِ حیات جو ہر دور،ہر زمانہ میں یکساں طور پر قا بل عمل ہی نہیں مستحسن بھی رہا وہ محمد رسول اللہﷺ کے لا ئے ہو ئے دین حنیف کا عطاکردہ ہے۔کہیں بھی،کبھی بھی،کسی بھی پہلو سے جا ئز ہ لے کر دیکھ لیں حتمی اور مستحکم حیثیت ارشادت محمد رسول اللہﷺ کی ہو گی۔دنیا کے جس خطے میں بھی اصول حیات،ارشاداتِ نبوی سے لیے گئے وہاں مخلوق خدا بھلا ئی حا صل کر رہی ہے۔ یہ دین ِاسلام ہی ہے جو تمام فطری تقا ضوں کو پو را کرتا ہے۔شاہ ہو یا گدا،امیر ہو یا غریب،صحتمند ہو یا مریض،کمزور ہو یا طا قتور، حاکم ہو یا ماتحت ہر ایک کی ایسی حدود و قیود مقرر فرماتا ہے کہ زندگی عین حق کے مطابق بسر ہوتی ہے کہ یہی طرز ِحیات سہل بھی ہے اور باعث تسکین بھی۔ قا رئین کرام! ہم بحمد للہ مسلمان ہیں۔اسلام ہمیں ورثے میں ملا ہے۔یہ نعمت بھی بغیر کسی تگ و دو کے عطا فرما دی گئی۔اب بات اس نعمت کی قدر کی ہے۔ہمیں دین ِاسلام سے آشنا ئی تو ہو ئی لیکن ہمارا دل یقین کی کس منزل پر ہے؟اس بات کی شہا دت صرف ہمارا عمل دے سکتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۔۔۔[البقرۃ 2:208] کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ سے لے کر عمل تک دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ بات اٰمَنُوْا سے شروع ہو کر عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک آئے تو ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ تک جا تی ہے۔انفرادی سوچ و عمل کی تبدیلی ہی معا شرتی تبدیلی میں ڈھلتی ہے۔قو میں افراد سے بنتی ہیں۔اگر ہر شخص اٰمَنُوْا سے عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک کے سفر پہ گامزن ہو جائے تو بلا شبہ قوم فلاح کی منزل کو پا لیتی ہے۔ وطن،خطہ ارض کا نام ہے اس کی تعمیر و ترقی اس میں بسنے والے افراد کے ہا تھوں ہو تی ہے۔یہ مارچ کا مہینہ ہے۔قریبا ًاسّی (۸۰)سال پہلے اس ماہ میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جو قراردادِ لاہور سے قرار دادِ پاکستان کے نام سے موسو م ہو ئی۔یہ اس خطۂ زمین کے لیے تھی جس کے نام کا مطلب لا الہ الا اللہ سمجھا گیا جس کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں قربا ن ہو ئیں،ہزاروں عصمتیں تا رتار ہو ئیں،سینکڑوں وجود معذور ہو ئے۔نجانے کتنے گھر لٹے،کتنے جلے اور کتنے بکھر کر رہ گئے۔ہمیں تو ان جانثا روں کے نام بھی معلوم نہ ہو سکے کہ وہ تعداد میں بھی ان گنت و بے شمار تھے اور تشہیرکی خواہش سے بھی بہت با لا تر۔ یہ انہیںشہیدوں کا احسان ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ہمیں تو شا ید ان کے لیے کبھی فاتحہ پڑھنا بھی یاد نہیں آیا لیکن روزِ محشر وہ یہ گلہ تو شاید ہم سے نہ کریں ہاں اس بات پہ ہمارا گریبان ضرور پکڑیں گے کہ ان کے لہو اور کٹے ہو ئے وجودوں پہ تعمیر اس قلعہ کی حفا ظت،استحکام اور ترقی سے ہم نے غفلت کیوں برتی؟ منزل بھی متعین ہے اور نشانِ منزل بھی موجود۔راستہ بھی وا ضح ہے اور را ہبر بھی را ہبر کامل ﷺ کہ ہا تھوں میں الکتاب بھی ہے اور سنت خیر الانامﷺ بھی۔ ضرورت ہے تو فقط ادراک اور تحریک عمل کی۔

فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا …
So remain detached (focused mindfully) pivoted upon Deen (Islamic Code of Life), progressing forward towards the correct goal. (Keep adhering to) the intrinsic nature (spiritual insight) that Allah has created man inherently with;…’ (Surah Ar-Rum 30:30)
The intrinsic nature (spiritual insight) created by Allah, cannot be altered (meaning that it must not be distorted). This is the true Deen (Islamic Code of Life), but most people are unaware.
Humans are Ashraf-ul-Makhlooqat (the most honourable of the creations), while Rabb is the Creator. The creation is only positive and beneficial when used in accordance to the style and system set by the Creator. The life style that Allah Kareem chose for His most honourable creation is exactly according to their intrinsic-nature. The laws/norms of the world, defined by the humans themselves, albeit the cream of intellectuals themselves may have devised them, will have some shortfall/ shortcomings in them. That is why they are only applicable for a limited period of time.
The only code of life that remained not only uniformly applicable in every era, but also the noblest/magnificent, is the Islamic code of life gifted by the True-Faith/Religion brought by the Holy Prophet (ﷺ). Analyse from whichever, from whenever, in fact any aspect, the ultimate and fortified/stable state will be found in the preaching of the Holy Prophet (ﷺ). Wherever in the world the laws of life are taken from the teachings of the Holy Prophet (ﷺ), the creation of Allah is enjoying its benefits there.
It is this Deen-e-Islam (Islamic code of life), that caters to all intrinsic needs of man. Be it king or beggar, the rich or the poor, the healthy or the sick, strong or weak, or the rulers or those ruled, there are such rationale and parameters defined for all that life can be lived with absolute balance; as this way of life is the most convenient and so is a means of attaining peace.
Respected readers! By the Grace of Allah we are Muslims. We inherited Islam. This blessing reached us without any struggle. Now the matter to consider is our appreciation of it. We have been acquainted with Islam however how what is the state/level of Belief that is ascertained within our hearts? The measure of this can only be validated by our deeds alone.
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً…
O believers! Enter into Islam absolutely,…
(Surah Al-Baqarah 2:208)
The meaning behind this verse is that from your thoughts to your behaviour come fully within the energy-field/parameters of Islam.
The message begins with “اٰمَنُو” (addressing the Believers) and proceeds on to “عَمِلُوا الصّٰلِحٰت” (honourable behaviour/good deeds) and thereupon leads to “ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُتک” (distinguished success). A change in the thinking and behaviour of an individual is what ultimately translates to a change in the society. Nations consist of individuals. If every individual begins his journey from establishing/pivoting his ‘Trust upon Allah’ journeying towards incorporating it into his character, thereupon without doubt the nation is bound to attain distinguished success.
‘Country’, is the name given to land enclosed in a boundary. However, its establishment and progress/uplift lies in the hands of its people. This is the month of March. Approximately 80 years ago, a declaration was made in this month, which was called ‘Lahore-Declaration’ and later ‘Pakistan-Declaration’. It was for made for that piece of land, the name of which is taken to mean ‘لا الہ الا اللہ’ (There is no god but Allah). To attain which millions of lives were sacrificed, The honour of countless women was assaulted and many a people were left crippled. God only knows how many households were looted, burnt down and were left plundered. Neither are we even aware of the names of these martyrs nor their count, they were innumerable and limitless and they were above harbouring fame as a motive. It is because of these martyrs that we can breathe in this atmosphere of freedom. We, perhaps, could not even remember to forward blessings through supplication to them. On the Day of Judgement they may perhaps not even complain to us, however yes! They will surely grab us by the collar holding us accountable for our negligence, for being unable to protect, fortify and ensuring progress of this fort, which was built by their blood and torn bodies.
The destination is defined and the path too is marked and clear. Our leader is also exemplary (ﷺ). The Book is also in our hands along with the Sunnah (teachings) of (ﷺ) is there too. All we need is to recognize this and act in accordance to these.

سال نو

’سالِ نو‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس سے مُراد نیا سال ہے۔ ایک سال کے اختتام پہ آنے والا اگلا سال۔حیاتِ انسانی میں انضباط کے لیے تقسیمِ اوقات لازم تھی اور اللہ کریم نے آدم ؑ کے زمین پر اترنے سے پہلے ہی اس کا اہتمام فرما دیا۔ 
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیٰت لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ [یونس10:5]
”وہی اللہ تو ہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو نورانی (چمکنے والا) بنایا اور اُس (کی چال) کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کر سکو۔اللہ نے اِن سب کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے یہ دلائل عقل مندوں کو صاف صاف بتا رہے ہیں۔“
تاریخِ انسانی میں برسوں کا شمار بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ خود یہ تاریخ۔ابتداً یہ شمار پھلوں اور پھولوں کے موسموں سے ہوا۔ باقاعدہ کھیتی باڑی شروع ہوئی تو فصلوں کے پکنے سے کیا جانے لگا۔حضرت ادریس ؑ، اللہ کے تیسرے نبی، نے سال کو مہینوں میں تقسیم کیا۔ ان ہی کی قوم، بابل، نے شب و روز کی تقسیم گھنٹوں میں کی بعد میں تقسیم در تقسیم کا یہ عمل منٹوں کو سکینڈز تک لے گیا۔ تاریخِ عالم کا مطالعہ دنیا میں کم و بیش پندرہ تقاویم(Calendars)کا پتہ دیتا ہے۔ جن میں وقت کے ساتھ مناسب ترامیم ہوتی رہیں۔ مو?رخین کے مطابق ان کا اجرا عموماً تین بنیادوں پہ عمل میں آیا۔ چاند کی گردش کو بنیاد بنانے پہ قمری، سورج کو معیار بنانے پہ شمسی اور ستاروں کی بنیاد پہ رائج ہونے والا نجومی کہلایا۔ شمسی اور قمری مہینوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شمسی مہینوں کی نسبت قمری مہینوں میں موسم بدلتا رہتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عبادات کو قمری مہینوں میں متعین فرما دیا۔ ورنہ اگر دنیوی امور کا حساب کتاب، دفتری اوقات کو شمسی مہینوں کے مطابق رکھ لیا جائے تو جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا۔۔۔[یونس10:5]کے مطابق یہ غلط نہیں ہے
وقت ایک ایسی چیز ہے جسے ناپا نہیں جا سکتا۔ تحقیق Nano Second(ایک سیکنڈ کا ایک ارب واں حصہ) سےPlank time(روشنی کے اپنے ممکنہ حد تک قریب ترین حصے تک پہنچنے کی رفتار) تک پہنچ کر بھی حتمی قرار نہیں پائی۔ اسی طرح وقت کی طوالت کی بھی کوئی حد نہیں۔قرآن پاک میں گناہگاروں کے دوزخ میں ٹھرائے جانے کے بارے ارشاد ہے: لّٰبِثِیْنَ فِیْہَآ اَحْقَابًا [النبا78:23]”اس میں وہ مدتوں پڑیں رہیں گے“یعنی وہ کئی حقبوں تک دوزخ میں رہیں گے۔حضرت علی ؓ کی ایک روایت کے مطابق ایک حقبہ دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال کا بنتا ہے اور کئی حقبوں تک رہنے کے ضمن میں حقبوں کی تعداد رقم نہیں گویا وقت کی طوالت کی پیمائش بھی ممکن نہیں۔
قارئینِ کرام! بات گھڑی پل کی ہو یا سالوں صدیوں کی، لحظہ کی ہو یا حقبوں کی، بات تو یہ ہے کہ ہم نے اس وقت میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ اس دارالعمل کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس کے ایک ایک پل پہ اخروی حیات کی جزا و سزاکا انحصار ہے۔ اللہ رب العزت نے موت کے وقت کو انسان سے مخفی رکھ کے اِسے مزید بیش قیمت بنا دیا ہے۔اِس وقت، اِس حیات میں ہمیں جو وقت میسر ہے اگر ہم اس کی قدر و قیمت کا احساس کر لیں تو یہ احساس ہمیں نہ صرف نیکی پر ابھارے گا بلکہ ہمارے ایک ایک عمل کو مزید نکھارے گا۔ جنہیں اس دارالعمل میں ملنے والے وقت کی اہمیت کا اندازہ ہوا انہوں نے لمبی زندگی کی دعائیں مانگیں کہ اس دنیا میں روح، بدن کی مکلف ہے اور یہی ہیں وہ قیمتی لمحات جن میں کی جانے والی عبادت و ریاضت انہیں قربِ الٰہی سے نواز سکتی ہے لہٰذا اس حیاتِ مستعار کا گزرجانے والا سال، پورے ۳۶۵ دن ختم ہونے پہ ضرورت جشن منانے کی نہیں، خود احتسابی کی ہے کہ ہم نے حیاتِ جاوداں کے لیے کیا پایا؟ کیا جمع کیا؟ نبی? اکرمﷺ کے سامنے کھلنے والے نامہ? اعمال میں کیا لکھوایا؟ ہمارے قدم جنت __ جو دیدارِ باری کی جگہ ہے، اللہ کا انعام ہے، سردارِ انبیا ء ﷺ، رسل و انبیاء  ؑ، صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین، شہدا، صوفیا، اولیا ء اللہ کی ابدی رہائش گاہ ہے __ کی طرف بڑھے یا خدانخواستہ! خدانخواستہ!! اُس بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف جو دن میں ستر مرتبہ خود سے پناہ مانگتی ہے؟
عمرِ رواں، سیلِ رواں کی طرح بڑھتی جارہی ہے، گزرتی جا رہی ہے۔ یہ کہاں ٹھہر جائے! کوئی نہیں جانتا۔ گزرتا وقت تو اپنے ہر ہر سیکنڈ پہ دستک دیتے ہوئے تنبیہہ کیے جارہا ہے ضرورت اِس پہ کان دھرنے کی ہے۔
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

"میرے حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ"

لفظ "حضرت " یوں تو تعظیم کے طور پہ استمعال ہوتا ہے لیکن تصوف کی رو سے دیکھا جائے تو اِس سے طالب کو مطلوب تک رسائی دینے والی ہستی مراد لی جاتی ہے۔اللّه کریم کا احسان ہے کہ اُس کی ذات نے مجھ جیسے گنہگار کو یہ رشتہ قاسمِ فیوضات حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان رح کے ساتھ عطا فرمایا۔ یہ کیسا عجیب رشتہ ہے کہ جو نازک تر بھی ہے اور مضبوط ترین بھی۔ محترم قارئینِ کرام! حضرت جی رح کو ذاتِ باری کا جو خاص کرم اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کی جو خصوصی شفقت حاصل تھی اِس کا بیان محال ہے۔

اُن کا کرم پھر اُن کا کرم ہے
اُن کے کرم کی بات نہ پوچھو

دنیا کے تکوینی امور میں اولیاء اللّه کا اپنا کردار ہے اور حضرت جی رح بحمدللہ حیاتِ مبارکہ کے مختلف ادوار میں مختلف مناصب سے نوازے گئے۔ کافی عرصہ تک آپ رح قطب مدار کے منصب پہ فائز رہے۔ 1977ء میں غوث کا منصب عطا ہوا۔ اپنے شیخ کے وصال، 1984ء میں آپ رح قطبِ وحدت کے منصب پر تھے۔ پھر صدیق اور دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت آپ رح عبدیت جیسے منصب پہ فائز تھے جو مناصبِ ولایت میں سب سے بڑا منصب ہے۔

یہاں اگر میں اِن اوصاف کا تذکرہ بھی کروں جہاں تک ایک عام نگاہ بھی جا سکتی ہے تو بھی میرے اللّه نے اُنھیں نہایت خوبصورت بنایا۔ من جانبِ اللّه انسانی خوبیوں کے دو ایسے متضاد پہلوؤں کے کمال پہ تھے جو اپنی اپنی جگہ لائقِ تحسین ہے۔ اُن میں بلند حوصلگی ایسے تھی کہ بڑے سے بڑے طوفان کے مقابل ڈٹ کے اُس کا رُخ موڑنے کی جرات رکھتے تھے اور دوسری طرف احساسات میں نزاکت ایسی کہ کسی کی معمولی تکلیف بھی اِنہیں بے چین کر دیتی۔

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ھو وہ شبنم
دریاؤں کے دِل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

مزاج میں سختی ایسی کہ کوئی بات، کوئی چیز یا کوئی شخص اُنھیں اُن کے اصول و ضوابط سے منحرف نہیں کر سکتا تھا اور نرمی ایسی کہ مظلوم کی آہ اُنہیں چشم تر کر دیتی۔ دراصل اُن کی سختی میں جبر نہ تھا اور نرمی میں بزدلی نہ تھی۔ وہ انسانی جذبات و احساسات کو اِس طرح سمجھتے تھے گویا مخاطب کو وہ خود اُس سے بڑھ کے جانتے ہوں۔ میں نے اُنھیں کسی کی تکلیف بیان کرتے ہوۓ اکثر یوں بھی بچشمِ نم دیکھا کہ اُنھیں بارہا آنکھیں صاف کرنا پڑیں۔ اُنھیں کچھ زیادہ ناگوار گزرتا تو غصہ سے ڈانٹ لیکن شدید غصے میں وہ بلکل خاموش ھو جاتے۔ مزاج میں مروت ایسی تھی کہ بہت سی ناپسندیدہ باتیں نظر انداز کر جاتے لیکن دینِ حق کی بات ہوتی تو چھوٹے سے چھوٹے نقطے پہ بھی ٹوک دیتے۔ وہ ہر شخص اُس کی ذہنی سطح اور قلبی کیفیت کے مطابق سنتے، سمجھتے اور بات فرماتے۔ یہی چیز اُن کی تقریر میں بھی تھی اور تحریر میں بھی۔ اُن کی تقریر و تحریر میں یہ خوبی و حسن تھا کہ ایک عالِم اُس سے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا اور ایک آدمی اپنی حیثیت کے مطابق سمجھتا۔ تعلیمی قابلیت کا تضاد ھو یا طبقاتی فرق، ذہنی استعداد کا اختلاف ھو یا روحانی پختگی کے مدارج، ہر شخص مستفید ہو رہا تھا۔
وہ انتہائی دانا اور نہایت سادہ دل تھے۔ انہوں نے فقیری میں شاہی کی اور شاہی میں فقیری۔ اُن کا رکھ رکھاؤ شاہانہ لیکن مزاج فقیرانہ تھا۔ اُن کے دستر خوان پہ اعلیٰ انواع کے کھانے چُن دیے جاتے وہ تو بھی خوش رہتے۔ اپنی مشاہداتی قوت میں بھی وہ عجیب تضاد رکھتے تھے۔ مخاطب کے لباس کا رنگ اُنھیں یاد نہ ہوتا لیکن اُس کے ظاہر و باطن کے عیب و ہنر اُن پہ خوب آشکارا ہوتے۔

کلامِ ذاتِ باری تعالیٰ میں اُن کی شرح صدر ایک کرامت تھی۔ اگر ایک ہی آیہ مبارکہ کی چار مرتبہ تشریح فرماتے تو چاروں دفعہ اُن کا بیان اِس آیہ مبارکہ کے چار پہلو کھول کے سامنے رکھ دیتا۔ اِسی لیے اُن کی تینوں تفاسیر اسرار التنزیل ، اکرم التفاسیر، رب دیاں گلاں میں یکسانیت یا تکرار نہیں ملتی۔ اُن کا باطن ہی نہیں اُن کا ظاہر بھی حُسنِ بے مثال کا حامل تھا۔ قد، جسامت، رنگت ، اعضاء و جوارح کا تناسب، ہاتھ پیر غرض وہ پورے کے پورے مجسم نمونہ حسن تھے۔ ہاں ایک چیز ایسی تھی اُن کی نگاہ! کسی میں اُن سے نظر ملا کر بات کرنے کا یارا نہ تھا۔

قارئینِ کرام! الحمداللہ! میری حیات میں بہت سے عزیز از جان چہرے ہیں لیکن فقط ایک ہی چہرہ تھا جو خود میرے لئے جینے کا جواز تھا۔ میری صبح، میری شام اُسی رُخِ انوار سے طلوع و غروب ہوتی تھی۔ میری نگاہ اُن کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی اور اُن کی ہر رضا میرے لیے مقصودِ حیات تھی۔ میری زندگی کا ہر فیصلہ اُن کی اجازت بلکے اُن کی خوشی پہ منحصر ہوتا۔ ہر کوشش، ہر جہد اور ہر کام اُن کی خاطر تھا۔ اُن ہی کے لیے تھا۔ گویا میرا ہونا، اُن کے ہونے سے مشروط تھا۔ میں ، میں نہیں رہا تھا، آپ ہو چکا تھا۔ اور آج ۔۔۔۔۔۔اُن کے پردہ فرمانے پہ زندگی کا جواز وہی امانت ہے جس کا بار وہ میرے سپرد فرما گئے ہیں۔ ورنہ میری زندگی کا اعلیٰ ترین دور گزر گیا۔ اِس ثانوی دور کی اہمیت بھی فقط اُن کے حکم کی تعمیل کی طلب کے دم سے ہے۔ آج بھی میری تمام تر کوششیں اِس عظیم امانت کا نہایت احسن طریقے سے قرض لوٹانے کے لئے ہیں۔ اللّه کریم مجھے اِس میں سرخرو فرمائیں۔آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلسلہ عالیہ کے احباب عزیز تو پہلے بھی تھے مگر اب عزیز تر ہیں کہ میرے حضرت جی رح کی امانت ہیں۔ سلسلہ عالیہ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار تو میں کل بھی تھا مگر آج یہ جذبہ شدید تر ہے کہ میرے حضرت جی رح کی امانت ہے۔ یہ شب و روز کی ریاضتیں، اہمیت تو کل بھی رکھتی تھیں مگر اب تو میرا مقصدِ حیات ہیں کہ میرے حضرت جی رح جو ذمہ داری سونپ گئے ہیں اُسے نبھانا ہی نہیں، احسن طریقے سے نبھانا ہے۔

گویا میری زندگی کا محور پہلے بھی اور آج بھی وہی ہے میرے حضرت جی رح !!

حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شُد
روئے گل سیر ندیدم وبہار آخر شد


صحبت شیخ (حصہ دوم)

The Light of Faith, the blessings of Prophet-hood ﷺ, the feelings of the Cognizance of Allah (سبحانہ وتعالی), the pleasure of closeness to Allah (سبحانہ وتعالی); these are blessings that have no similitude and are incomparable. Such that if one can comprehend even an iota of their significance and magnitude, then one would cling onto the bearer of these Barakah, with such an intensity that he would be willing to forego the entire world for it but not let go off him.

چنیں میدے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتراک او شو

If such a man is found, I would turn into dust before him,
(Moreover) I would choose to remain captive within his circle of influence

The way Deen-e-Islam is the one and only reality, similarly, its rationale are also extremely rare and matchless. When Allah Kareem taught humans the societal-norms, He placed the highest value and respectability to this most priceless, strong, beautiful and sensitive relationship (between a Sheikh and disciple).

The relationship between the Prophet ﷺ and a Muslim while being extremely strong and eternal, yet it is equally fragile and sensitive. As he isthe ‘Hadi-e-Barhaq’ (Guide to the Truth) and is the one who not only shows his followers, with utmost love and tenderness, the path leading to the Court of Allah (سبحانہ وتعالی), but also escorts them to it. The Personality that allows mankind to reach the epitome of heights of its excellence, how respectable and worthy of honour is he in the eyes of his people; that the Creator, Himself is teaching man the etiquettes to follow in the presence of the Prophet ﷺ:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ …

O believers! Before gaining (the permission of) Allah and His Messenger, do not initiate (conversation), accordingly, remaining in awe of Allah... [49:1]

Those Companions (رضی اللہ تعالٰی عنہ) who sacrificed their homes, lives, left their relatives, endured tortures; Allah (سبحانہ وتعالی) addresses them:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O believers! Do not raise your voices higher than the blessed voice of the Messenger; likewise do not speak openly with him as you talk freely (informally) among yourself; lest your deeds are annihilated while you do not even perceive. [49:2]

After this revelation Hazrat Omar Farooq (رضی اللہ تعالٰی عنہ), who inherently had a loud voice, would speak in hushed tones in the presence of the Prophet ﷺ. It was the frailness of this revered relationship that in the five initial ayaat of Surah Hujraat and at many other citations in the Quran, its etiquettes were taught. Respected readers! Leaving aside the delicateness of this bond, but it was the realization of its greatness that whosoever attained this company even once, returned with the urge to revisit again and again. Likewise, some were fortunate such that once they arrived they never returned. At times, when one hears that “one should not stay close to the Sheikh as the chances of suffering a loss increase”, thereupon along with ayat number 2 of Surah Hujraat “…lest your deeds are annihilated…” another ayat, ayat 69 of Surah Nisa also comes to mind.

وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا

Accordingly, those who obey Allah and the Messenger (on Dooms-Day) will be with the people whom Allah has (exceptionally) rewarded, (such as) with the Prophets and the Truthful and the Martyrs and the Righteous; essentially, excellent are these companions! [4:69]

Where in the former ayat the etiquettes of staying in such company of the Prophet ﷺ are taught to the Companions, thereupon in the latter ayat one is made to realize the value and exaltedness of this Companionship. Accordingly, such an insight was granted, of the pleasure of being in the attendance of the company of the Prophet ﷺ, that not only the world but also even paradise lost its significance. A Companion (رضی اللہ تعالٰی عنہ) on realizing that due to the heights and the status of the leader of the Prophets ﷺ and thus apprehending that he may become inaccessible in Paradise, he denounced it saying that he did not want paradise. Accordingly, it was because of this anguish that earned the Momineen the glad tidings of the companionship of the Prophet ﷺ in paradise as well. It is these blessings that if a disciple engages in Zikr-Allah the whole year round by himself he acquires the potential to move forward, however, is unable to ascend further, yet conversely in the company of the Sheikh, in a split second one ascends to spiritual heights according to one’s respective potential. The fact of the matter is, as explained by Qasim-e-Fayoozaat (رحمۃ اللہ علیہ) that “the company of the Sheikh should not be considered a gathering of friends sitting at a get-together, café or restaurant that one is there for small talk or casual conversation etc. Instead, on reaching the company of the Sheikh, one should sit with absolute devotion remaining focused on attaining the Barakat-e-Nabvi ﷺ with utmost sincerity.

Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani (رحمۃ اللہ علیہ) says, “It is amongst the etiquettes of the disciples that they must not speak before the Sheikh, needlessly. If a question is put forth to the Sheikh, he must remain quiet, despite being well aware of the answer. Even if the Sheikh falters in the reply the disciple should not criticize and speak up in the presence of the Sheikh”. Someone asked Sheikh Abu Mansoor Maghrabi (رحمۃ اللہ علیہ) that, “how long did you stay in thecompany of Sheikh Osman (رحمۃ اللہ علیہ)?” he replied “I remained in his service not in his companionship because one stays in the companionship of his spiritual brothers or ones similar to himself whereas a disciple only serves a Sheikh” (as he cannot enjoy the same level of spiritual exaltedness as his Sheikh, and thus cannot be a friend or a companion; but only in the service of receiving the honour of the Sheikhs presence and spiritual attention).

Imam Kaseeri (رحمۃ اللہ علیہ) before visiting his Sheikh kept a fast and performed ghusal (obligatory bath). Hazrat Junaid Baghdadi (رحمۃ اللہ علیہ) commenting about a disciple of Hazrat Abu Hafs Neshapuri (رحمۃ اللہ علیہ) mentions that the disciple had exhausted two lac dirhams on his Sheikh’s mission, while often remaining his service. Yet however, the Sheikh did not permit him to speak, hence it was observed that he perpetually remained in a state of silence. Hazrat Hasaanuddin Haisi (رحمۃ اللہ علیہ) was one of the exceptional disciples of Maulana Rumi (رحمۃ اللہ علیہ), holding such distinction that Maulana Rumi (رحمۃ اللہ علیہ) himself treated him with respect, yet however, in the ten years that he spent in the service of his Sheikh, he never performed ablution in the Sheikh’s wuzu-khana (area of ablution). Mujadid-e-Tareeqat Hazrat Maulana Allah-Yar Khan (رحمۃ اللہ علیہ) asserts that a Sheikh is duty bound, in accordance with his connection to the Prophet ﷺ to do the spiritual training and cleansing of the disciples, whereas it is the duty of the disciples to receive the blessings in accordance to the compliance of the Sahaba (رضی اللہ تعالٰی عنہ).

That is why in Sufism these exact norms of respect (like the respect of our Prophet ﷺ) are considered the authentication and certification. The reality is that the purpose of a Momin’s life is to achieve eternal success, effectively the destination of this success, is paradise. The highest pleasure of which, amongst all others is beholding Allah (سبحانہ وتعالی), laqa-e-bari (meeting Allah) and the nearness of Allah (سبحانہ وتعالی). To achieve these, Allah ﷺ gave humans favours such as the Reflections of Prophet-hood ﷺ and blessings received in the company of the Prophet ﷺ. The Trustees of which are the Mashaikh-e-Uzam (the honourable Spiritual Sheikh), nevertheless, the benefits can only be attained through observing the prerequisite etiquettes i.e. “Respect is the first and foremost etiquette of the etiquette of love”.Hazrat Qasim-e-Fayoozat (رحمۃ اللہ علیہ) mentions that if upon hearing of the Trustees of these Barkat-e-Nabovat ﷺ (Blessings of Prophet-hood ﷺ), one searches for such people with their due respect and love in his heart, his entire life thereupon passing away, thus this is sufficient for his salvation in the hereafter. However, if someone finds them, but is neglectful towards them, while giving priority to worldly affairs and schedules, thereupon he shall never be able to attain these blessings likewise even on the Day of Judgement, he will not be able to justify this Kufran-e-Naimat (rejection of Divine Blessing). Meaning that deliberately delaying or being neglectful is against the etiquette of respect of a Sheikh. Moreover, this attendance is extremely valuable, as it is also the cause of further enhancement of the outwardly teachings of Islam.

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد

Rumi did not become the Spiritual Sheikh of Turkey,
Until he became the disciple of Shams Tabrizi.

Sohbat Sheikh (Part two) - 1