By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Sep-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Sep-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Jul-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Jul-2020
ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۔ (الرحمن :60) ’’بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہے ۔‘‘
نیکی کے لفظی معا نی بھلا ئی ،عمدگی ،کا ر خیر اور احسا ن کے ہیں ۔حضرت جی ؒکا فرما ن ہے کہ اگر تم خلوص ِدل سے دامانِ رسالت ؐ تھا مو گے، اتباعِ رسالت ؐ کرو گے ،اطا عت ِالٰہی کرو گے تو یہ بھلا ئی ہے ،نیکی ہے۔
اس آیۂ کریمہ میں اللہ سبحا نہٗ تعا لیٰ فرما رہے ہیں کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہے ! گو یا اطا عت ِالٰہی کرنے وا لے یقیناًانعام پا تے ہیں اور تا ریخ کے آسمان پر ایسے بے شمار وا قعات درخشا ں ستا روں کی طرح منور ہیں ۔
فرد کی نیکی کا صلہ تو فرد کو ملتا ہی ہے لیکن اس نیکی کو کرنے وا لے کی قوتِ ایمانی اور تعلق مع اللہ اس کی نیت و ارادے میں وہ خلوص پیدا کرتے ہیں کہ بسااوقات اس نیکی کے ثمر سے نسلیں بلکہ قو میں فیضیاب و سرفراز ہو تی ہیں ۔
دورِ فاروقی تھا۔ حضرت عمرِ فاروق ؓ رات کےوقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں عوام النا س کی حا لت ِزارجا ننے کے لیے (جسے آج کلGround reality جاننا کہتے ہیں ) معمو ل کے دورے پہ ہیں ۔اتنے میں ایک مکان سے ماں بیٹی کی گفتگو سنا ئی دیتی ہے ۔ماں کہہ رہی ہے دودھ میں پا نی ملا دو ،بیٹی جواب دیتی ہے خلیفہ نے ملا وٹ سے منع کیا ہے ۔ما ں تسلی دیتی ہے خلیفہ دیکھ تو نہیں رہا ۔معیت ِباری پہ پختہ ایمان بیٹی سے بے سا ختہ کہلوا تا ہے ’’ اماں! اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘لہجے کے تیقن نے حضرت عمر ِفاروق ؓ کو سرشار کر دیا اور اسی وقت قصد کر لیا کہ اس لڑکی کو اپنی بیٹی بنا ئیں گے ۔گھر جا کربیٹے عاصم سے فرما یا ’’اس سے نکا ح کر لو ۔بخدا اس سے ایک شہسوار پیدا ہو گا جو تمام عرب کی قیا دت کرے گا۔ ‘‘ امام مالک کے شا گرد الامام الفقیہہ ابو محمد عبد اللہ بن الحکم ایک اور روا یت بھی بیان فر ما تے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرِ فاروق ؓسو کر اٹھے ،آنکھیں ملیں ،منہ پہ ہا تھ پھیرا اور کئی با ر فرما یا ’’یہ کون ہے جو عمر کی اولا د سے ہو گا ، جس کا نام عمر ہو گا اور جو عمر کے طریقہ پر چلے گا۔ ‘‘ـــــ
اور پھر روئے زمین کو ان ؓ کی راہ پہ چلنے و الے ایک اور عمر ؒکے قدوم چو منے کا شرف حا صل ہوا ۔عمربن عبد العزیز ؒ!!!۔۔۔جن کی وا لدہ حضرت عمرِ فاروق ؓ کی پو تی تھیں اور قبیلہ بنی ہلال کی وہی لڑکی ان کی نانی ۔گو رنرِ مصر کے بیٹے ،خلیفۂ وقت کے بھتیجے اور مدینہ منورہ کے حاکم مقرر ہو نے وا لے عمربن عبد العزیز ؒ!! جو نوجوانی میں خوش لبا سی ،خوش اطوا ری ،خوش ذوقی اور خوش خصا لی میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔اعلیٰ درجہ کی عنبر کی خو شبو جن کی را ہگزر کا پتہ دیتی لیکن مزاج میں تنعم اور چا ل میں با نکپن رکھنے وا لے عمر بن عبد العزیز ؒپہ مدینہ کی گو رنری کے دوران بھی شکم پروری ،شہوت پرستی یا غلط فیصلے کے اشتباہ تک کی گنجا ئش نہ تھی ۔
جب خلیفۂ وقت سلمان بن عبد الملک نے خلا فت سے گریزاں انھیں عمر بن عبد العزیز ؒ کو یہ کہہ کر اپنا جا نشین چنا کہ’’بخدا میں ایسی نا مزدگی کروں گا جس میں شیطا ن کا کو ئی حصہ نہ ہو گا ۔‘‘تو چشم ِفلک نے دیکھا کہ سلطنت کی گو د کے پر وردہ ،عطر بیزی میں مشہورعمربن عبد العزیز، عمرؓ بن خطا ب کے رستے پہ گا مزن ہو گئے ۔انوا ع و اقسام کے کھانے ترک کر دیے ،تمام جا ئیداد،غلام ، لو نڈی ،چو پا ئے ،قیمتی ساز و سا مان ،سوا ری، لبا س اور عطو ر بیچ کر رقم اللہ کی راہ میں دے دی۔اپنی خیبر کی جا گیر کی دستا ویز یہ فرما کر چا ک کر ڈا لی کہ ’’ میں اسے اس حالت میں چھوڑتا ہوں جس میں رسو ل اللہ ﷺ چھوڑ کر گئے ۔پہلے خلیفہ کی تمام خصوصی اشیا ءبیت الما ل میں جمع کرا دیں ،خدام کو اپنی آمد پہ کھڑا ہو نے سے منع فرما دیا ،سلام میں پہل کرنے کو روا ج دیا ،خلا فت کے بعد تا دم ِمرگ نہ کو ئی سوا ری خریدی ،نہ کسی عورت سے نکاح کیا اور نہ ہی نئی با ندی رکھی ۔بنو امیہ کے امراء کے قبضے میں نا جا ئز املاک اور زمینیں وا پس کرا ئیں اور انھیں ملنے وا لے عطیا ت بند کروا دیے۔ اپنے عمال وامرائے لشکر کے لیے فیصلے کرنے ،جزا و سزا اور قتا ل کے ایسے اصول و ضو ابط و آداب مقرر فرما ئے جو آج بھی کسی حاکم کے لیےمشعل راہ بن سکتے ہیں ۔غربا ءو مسا کین کو بیت المال کا حق دار ٹہرا یا۔یہ آپ ہی کا دورِ حکومت تھا جس میں جب خمس کے غلام زیا دہ ہو جا تے تو انھیں نا بینا اور اپا ہج افراد میں تقسیم کر دیا جا تا ۔عوام میں خوشحا لی کا یہ عا لم تھا کہ صدقہ لینے وا لا کو ئی نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ پھر ان رقوم سے غلام آزاد کرا ئے جا نے لگے ۔آ پؒ نے چو پا یوں تک کے لیے ہدا یات جا ری کروا ئیں کہ لگام بھا ری نہ ہو ،بو جھ زیا دہ نہ ہواور لو ہے کی خول وا لی چھڑی سے نہ ہا نکا جا ئے ۔
آپ ؒ کے با رے میں امام با قر ؒ فرما تے ہیں’’ہر قوم میں شرفاء ہو تے ہیں بنو امیہ میں عمر بن عبد العزیز ؒتنہا مجموعہ شرفا ءہیں ۔آپ قیا مت کے دن تن تنہا ایک قوم بن کر اٹھیں گے ۔‘‘ امام احمد بن حنبل ؒ کا ارشا د ہے ’’اگر آپ کسی کے دل میں عمربن عبد العزیز ؒکی محبت کا جذبہ مو جزن دیکھیں کہ وہ آپ ؒ کے اوصاف ِحمیدہ کی تشہیر کرتا رہتا ہے تو یقین کر لیجیے کہ اس کا انجام خیر و برکت سے بھر پور ہے ۔‘‘
حضرت انس بن مالک ؓ عراق سے مدینہ تشریف لا ئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جو اس وقت حا کم ِمدینہ تھے ،کے پیچھے نماز پڑ ھنے کے بعد فرما یا، ماصلیت خلف امام بعد رسول اللہ ﷺ اشبہ صلٰوۃ بصلٰوۃ رسول اللہ ﷺ من امامکم ھذا (رسو ل اللہ ﷺکے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز رسو ل اللہ ﷺ سے اتنی مشا بہت رکھتی ہو جتنی کے تمہارے اس امام کی )زما نہ ٔ خلا فت میں آپ ؒ نے امرا ئے لشکر اور گو رنروں کو تحریر اًحکم صادر فرمایاکہ لو گوں کو نماز کی پا بندی کر وا ئیں ۔آپ ؒ کا فرما ن تھا ”جو شخص نماز کو ضا ئع کرتا ہے وہ با قی احکامِ شریعہ کو سب سے زیا دہ ضا ئع کرنے وا لا ہے ۔‘‘اہل حرب کے لیے فرما یا ’’گناہ دشمن کی سا زشوں سے زیا دہ خو فنا ک ہیں ۔کسی انسان کی عدا وت سے اتنا نہ ڈرو جتنا کہ اپنے گنا ہوں سے ۔“
محض دو سال چا ر مہینے اور چند دن کے دور ِخلا فت میں آپؒ نے احیائے دین کے لیے وہ جد جہد کی اور عدل و انصاف کا یوں بو ل با لا کیا کہ زما نہ ٔ خلفا ئے راشدین کی یا دیں تا زہ ہو گئیں ۔کتاب و سنت کو یوں روا ج دیا کہ وہ لوگ جو عہدِ ولیدمیں عما رتوں اور عہدِ سلیمان میں طعام و عیش و طرب کو مو ضوع گفتگو بنا یا کرتے تھے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے دور میں ایک دوسرے سے پو چھا کرتے تھے’آج کی شب تم نے کتنا قرآن پڑھا ؟‘یا’ تم مہینے میں کتنے رو زے رکھتے ہو ؟‘
حاکم ِمدینہ منورہ ،مشیرِ خاص خلیفہ اور خلا فت جیسے مناصب کا با رِگراں کاندھوں پہ اٹھا نے اور نہا یت احسن طریقے سے فروغِ اسلام اور احیا ئے دین کی جدو جہد سے سرخرو ہونے کے بعد جب شہا دت سے سرفراز ہو ئے تو آپ کی عمر مبا رک فقط چا لیس سال تھی ۔جس خادم کے ذریعےآپ کو زہر دیا گیا ،اسے بلوایا، وجہ پو چھی تو اس کے یہ کہنے پر کہ ’ مجھے دھو کا اور فریب دیا گیا ‘آپ نے اس سے کچھ تعرـض نہ کیا اور چھوڑ دیا البتہ اس سلسلے میں اسے دی جا نے وا لی اشرفیاںاس سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیں ۔ صاحب العقد الفرید لکھتے ہیں ’اگر عمر ؒ پہ زہر سبقت نہ کرتا تو اللہ کا خو ف سبقت کر جا تا ـ۔‘ایک صبح زو جہ محترمہ نے رات کی گریہ زاری میں تڑپ کی شدت کا سبب پو چھا تو فرمایا ’’ میں نے غور کیا تو پا یا میں اس امت کے سیاہ و سفید کا مالک ہوں ۔پھر مجھے یقین ہوا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ زمین کے طول و عرض میں پھیلے ان لو گو ں،جن میں مظلوم ،بے حال اور بھوکے بھی ہیں ،با رے مجھ سے سوال کریں گے اور رسول اللہ ﷺ وکیل استغا ثہ ہوں گے تو ان ﷺکے سا منے کون سی حجت پیش کی جا سکے گی اور اللہ تعالیٰ میرا کون سا عذر سنیں گے ! تو میرے خوف میں اضا فہ ہو تا چلا گیا۔ ‘‘
تا ریخ ِعا لم گو اہ ہے کہ ایک صالح ، متقی ، خوف ِالٰہی اور انا بت ِبا ری کا حا مل شخص جہاں تک بھی با اختیا ر ہو، اس کا ورع و تقوی وہاں تک اثر انداز ہو تا ہے ۔یہ اختیا ر ملکی ،صو با ئی ،علا قا ئی ، خا نگی یا خالصتاًذاتی سطح تک ہی کیوں نہ ہو ۔انسا ن کتنے ہی محدود اختیا رات رکھتا ہو اپنے وجود کی سلطنت کا تو حا کم ہو تا ہی ہے ۔وہ اپنے قلب و نظر اور اعضا ء و جوا رح پہ شریعت خیر الانا م ﷺنا فذ کر دیتا ہے ۔جس وجود کا ایک ایک خلیہ کیفیا ت و برکا تِ رسا لت کا حا مل ہوان کے بحر قلوب میں ٹھا ٹھیں ما رتے حب ِالٰہی اور عشق ِرسول ﷺ کے جذبے کی تلا طم خیز مو جیں قلوب کی گہرا ئیو ں سے اٹھتی ہیں تو اعضا ء و جوا رح کو متا ثر کرتی ہیں اور پھر بات یہاں نہیں رکتی ۔ایسے با برکت وجود اپنے گردو پیش کو متا ثر کیے بغیر نہیں رہتے اور بات پھر اختیا رات کی حدود تک چلی جا تی ہے ۔
اب اور اس وقت ہمارے پا س یہ اختیا ر ہے کہ ہم اس زندگی کی حقیقت کو کس حد تک سمجھتے اور اس میں کیے جا نے وا لے ہر عمل کی ایک روز ہو نے وا لی جوابدہی کا کتنا ادراک کرپا تے ہیں !ہم کہ جو آج ،من حیث القوم ،اپنی اپنی ذمہ دا ریوں کو پس پشت ڈالتے ہو ئے ہا تھ پہ ہا تھ دھرے منتظرِ فردا ہیں یہ کیو ں فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری تا ریخ ،ہمارے ہی آباء کے نقوش ِکف ِپا سے آج بھی درخشا ں ہے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے نشانِ منزل ہے ۔
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Jun-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Jun-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-May-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-May-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Apr-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Apr-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Mar-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Mar-2020
فَاَ قِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا۔۔۔۔۔ [الروم 30:30] ’’تو تم ایک طرف کے (یکسو)ہو کر دین پر سیدھارخ کیے چلے جاؤ۔اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لو گوں کو پیدا فرمایا ہے (اختیار کیے رہو)۔‘‘ انسان اشرف المخلو قات ہے اور رب العالمین کی ذات خالق۔تخلیق اس صورت میں احسن اور کار آمد ہوتی ہے جب خالق کے بتا ئے ہو ئے انداز و ترتیب سے استعمال کی جا ئے۔اللہ کریم نے اپنی اس سب سے اشرف مخلوق کے لیے جو طرز ِحیات چنا وہ اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔دنیا میں انسان کے اپنے بنائے ہو ئے قوا نین خواہ انہیں چوٹی کے دانشوروں نے مرتب کیا ہو،اپنے اندر کو ئی نہ کو ئی سقم ضرور رکھتے ہیں۔اسی لیے ان کی تنفیذ کی عمر بھی محدود رہی ہے۔ وا حد طرزِ حیات جو ہر دور،ہر زمانہ میں یکساں طور پر قا بل عمل ہی نہیں مستحسن بھی رہا وہ محمد رسول اللہﷺ کے لا ئے ہو ئے دین حنیف کا عطاکردہ ہے۔کہیں بھی،کبھی بھی،کسی بھی پہلو سے جا ئز ہ لے کر دیکھ لیں حتمی اور مستحکم حیثیت ارشادت محمد رسول اللہﷺ کی ہو گی۔دنیا کے جس خطے میں بھی اصول حیات،ارشاداتِ نبوی سے لیے گئے وہاں مخلوق خدا بھلا ئی حا صل کر رہی ہے۔ یہ دین ِاسلام ہی ہے جو تمام فطری تقا ضوں کو پو را کرتا ہے۔شاہ ہو یا گدا،امیر ہو یا غریب،صحتمند ہو یا مریض،کمزور ہو یا طا قتور، حاکم ہو یا ماتحت ہر ایک کی ایسی حدود و قیود مقرر فرماتا ہے کہ زندگی عین حق کے مطابق بسر ہوتی ہے کہ یہی طرز ِحیات سہل بھی ہے اور باعث تسکین بھی۔ قا رئین کرام! ہم بحمد للہ مسلمان ہیں۔اسلام ہمیں ورثے میں ملا ہے۔یہ نعمت بھی بغیر کسی تگ و دو کے عطا فرما دی گئی۔اب بات اس نعمت کی قدر کی ہے۔ہمیں دین ِاسلام سے آشنا ئی تو ہو ئی لیکن ہمارا دل یقین کی کس منزل پر ہے؟اس بات کی شہا دت صرف ہمارا عمل دے سکتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۔۔۔[البقرۃ 2:208] کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ سے لے کر عمل تک دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ بات اٰمَنُوْا سے شروع ہو کر عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک آئے تو ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ تک جا تی ہے۔انفرادی سوچ و عمل کی تبدیلی ہی معا شرتی تبدیلی میں ڈھلتی ہے۔قو میں افراد سے بنتی ہیں۔اگر ہر شخص اٰمَنُوْا سے عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک کے سفر پہ گامزن ہو جائے تو بلا شبہ قوم فلاح کی منزل کو پا لیتی ہے۔ وطن،خطہ ارض کا نام ہے اس کی تعمیر و ترقی اس میں بسنے والے افراد کے ہا تھوں ہو تی ہے۔یہ مارچ کا مہینہ ہے۔قریبا ًاسّی (۸۰)سال پہلے اس ماہ میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جو قراردادِ لاہور سے قرار دادِ پاکستان کے نام سے موسو م ہو ئی۔یہ اس خطۂ زمین کے لیے تھی جس کے نام کا مطلب لا الہ الا اللہ سمجھا گیا جس کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں قربا ن ہو ئیں،ہزاروں عصمتیں تا رتار ہو ئیں،سینکڑوں وجود معذور ہو ئے۔نجانے کتنے گھر لٹے،کتنے جلے اور کتنے بکھر کر رہ گئے۔ہمیں تو ان جانثا روں کے نام بھی معلوم نہ ہو سکے کہ وہ تعداد میں بھی ان گنت و بے شمار تھے اور تشہیرکی خواہش سے بھی بہت با لا تر۔ یہ انہیںشہیدوں کا احسان ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ہمیں تو شا ید ان کے لیے کبھی فاتحہ پڑھنا بھی یاد نہیں آیا لیکن روزِ محشر وہ یہ گلہ تو شاید ہم سے نہ کریں ہاں اس بات پہ ہمارا گریبان ضرور پکڑیں گے کہ ان کے لہو اور کٹے ہو ئے وجودوں پہ تعمیر اس قلعہ کی حفا ظت،استحکام اور ترقی سے ہم نے غفلت کیوں برتی؟ منزل بھی متعین ہے اور نشانِ منزل بھی موجود۔راستہ بھی وا ضح ہے اور را ہبر بھی را ہبر کامل ﷺ کہ ہا تھوں میں الکتاب بھی ہے اور سنت خیر الانامﷺ بھی۔ ضرورت ہے تو فقط ادراک اور تحریک عمل کی۔
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Jan-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Jan-2020
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Dec-2019
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Dec-2019
لفظ "حضرت " یوں تو تعظیم کے طور پہ استمعال ہوتا ہے لیکن تصوف کی رو سے دیکھا جائے تو اِس سے طالب کو مطلوب تک رسائی دینے والی ہستی مراد لی جاتی ہے۔اللّه کریم کا احسان ہے کہ اُس کی ذات نے مجھ جیسے گنہگار کو یہ رشتہ قاسمِ فیوضات حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان رح کے ساتھ عطا فرمایا۔ یہ کیسا عجیب رشتہ ہے کہ جو نازک تر بھی ہے اور مضبوط ترین بھی۔ محترم قارئینِ کرام! حضرت جی رح کو ذاتِ باری کا جو خاص کرم اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کی جو خصوصی شفقت حاصل تھی اِس کا بیان محال ہے۔
اُن کا کرم پھر اُن کا کرم ہے
اُن کے کرم کی بات نہ پوچھو
دنیا کے تکوینی امور میں اولیاء اللّه کا اپنا کردار ہے اور حضرت جی رح بحمدللہ حیاتِ مبارکہ کے مختلف ادوار میں مختلف مناصب سے نوازے گئے۔ کافی عرصہ تک آپ رح قطب مدار کے منصب پہ فائز رہے۔ 1977ء میں غوث کا منصب عطا ہوا۔ اپنے شیخ کے وصال، 1984ء میں آپ رح قطبِ وحدت کے منصب پر تھے۔ پھر صدیق اور دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت آپ رح عبدیت جیسے منصب پہ فائز تھے جو مناصبِ ولایت میں سب سے بڑا منصب ہے۔
یہاں اگر میں اِن اوصاف کا تذکرہ بھی کروں جہاں تک ایک عام نگاہ بھی جا سکتی ہے تو بھی میرے اللّه نے اُنھیں نہایت خوبصورت بنایا۔ من جانبِ اللّه انسانی خوبیوں کے دو ایسے متضاد پہلوؤں کے کمال پہ تھے جو اپنی اپنی جگہ لائقِ تحسین ہے۔ اُن میں بلند حوصلگی ایسے تھی کہ بڑے سے بڑے طوفان کے مقابل ڈٹ کے اُس کا رُخ موڑنے کی جرات رکھتے تھے اور دوسری طرف احساسات میں نزاکت ایسی کہ کسی کی معمولی تکلیف بھی اِنہیں بے چین کر دیتی۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ھو وہ شبنم
دریاؤں کے دِل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
مزاج میں سختی ایسی کہ کوئی بات، کوئی چیز یا کوئی شخص اُنھیں اُن کے اصول و ضوابط سے منحرف نہیں کر سکتا تھا اور نرمی ایسی کہ مظلوم کی آہ اُنہیں چشم تر کر دیتی۔ دراصل اُن کی سختی میں جبر نہ تھا اور نرمی میں بزدلی نہ تھی۔ وہ انسانی جذبات و احساسات کو اِس طرح سمجھتے تھے گویا مخاطب کو وہ خود اُس سے بڑھ کے جانتے ہوں۔ میں نے اُنھیں کسی کی تکلیف بیان کرتے ہوۓ اکثر یوں بھی بچشمِ نم دیکھا کہ اُنھیں بارہا آنکھیں صاف کرنا پڑیں۔ اُنھیں کچھ زیادہ ناگوار گزرتا تو غصہ سے ڈانٹ لیکن شدید غصے میں وہ بلکل خاموش ھو جاتے۔ مزاج میں مروت ایسی تھی کہ بہت سی ناپسندیدہ باتیں نظر انداز کر جاتے لیکن دینِ حق کی بات ہوتی تو چھوٹے سے چھوٹے نقطے پہ بھی ٹوک دیتے۔ وہ ہر شخص اُس کی ذہنی سطح اور قلبی کیفیت کے مطابق سنتے، سمجھتے اور بات فرماتے۔ یہی چیز اُن کی تقریر میں بھی تھی اور تحریر میں بھی۔ اُن کی تقریر و تحریر میں یہ خوبی و حسن تھا کہ ایک عالِم اُس سے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا اور ایک آدمی اپنی حیثیت کے مطابق سمجھتا۔ تعلیمی قابلیت کا تضاد ھو یا طبقاتی فرق، ذہنی استعداد کا اختلاف ھو یا روحانی پختگی کے مدارج، ہر شخص مستفید ہو رہا تھا۔
وہ انتہائی دانا اور نہایت سادہ دل تھے۔ انہوں نے فقیری میں شاہی کی اور شاہی میں فقیری۔ اُن کا رکھ رکھاؤ شاہانہ لیکن مزاج فقیرانہ تھا۔ اُن کے دستر خوان پہ اعلیٰ انواع کے کھانے چُن دیے جاتے وہ تو بھی خوش رہتے۔ اپنی مشاہداتی قوت میں بھی وہ عجیب تضاد رکھتے تھے۔ مخاطب کے لباس کا رنگ اُنھیں یاد نہ ہوتا لیکن اُس کے ظاہر و باطن کے عیب و ہنر اُن پہ خوب آشکارا ہوتے۔
کلامِ ذاتِ باری تعالیٰ میں اُن کی شرح صدر ایک کرامت تھی۔ اگر ایک ہی آیہ مبارکہ کی چار مرتبہ تشریح فرماتے تو چاروں دفعہ اُن کا بیان اِس آیہ مبارکہ کے چار پہلو کھول کے سامنے رکھ دیتا۔ اِسی لیے اُن کی تینوں تفاسیر اسرار التنزیل ، اکرم التفاسیر، رب دیاں گلاں میں یکسانیت یا تکرار نہیں ملتی۔ اُن کا باطن ہی نہیں اُن کا ظاہر بھی حُسنِ بے مثال کا حامل تھا۔ قد، جسامت، رنگت ، اعضاء و جوارح کا تناسب، ہاتھ پیر غرض وہ پورے کے پورے مجسم نمونہ حسن تھے۔ ہاں ایک چیز ایسی تھی اُن کی نگاہ! کسی میں اُن سے نظر ملا کر بات کرنے کا یارا نہ تھا۔
قارئینِ کرام! الحمداللہ! میری حیات میں بہت سے عزیز از جان چہرے ہیں لیکن فقط ایک ہی چہرہ تھا جو خود میرے لئے جینے کا جواز تھا۔ میری صبح، میری شام اُسی رُخِ انوار سے طلوع و غروب ہوتی تھی۔ میری نگاہ اُن کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی اور اُن کی ہر رضا میرے لیے مقصودِ حیات تھی۔ میری زندگی کا ہر فیصلہ اُن کی اجازت بلکے اُن کی خوشی پہ منحصر ہوتا۔ ہر کوشش، ہر جہد اور ہر کام اُن کی خاطر تھا۔ اُن ہی کے لیے تھا۔ گویا میرا ہونا، اُن کے ہونے سے مشروط تھا۔ میں ، میں نہیں رہا تھا، آپ ہو چکا تھا۔ اور آج ۔۔۔۔۔۔اُن کے پردہ فرمانے پہ زندگی کا جواز وہی امانت ہے جس کا بار وہ میرے سپرد فرما گئے ہیں۔ ورنہ میری زندگی کا اعلیٰ ترین دور گزر گیا۔ اِس ثانوی دور کی اہمیت بھی فقط اُن کے حکم کی تعمیل کی طلب کے دم سے ہے۔ آج بھی میری تمام تر کوششیں اِس عظیم امانت کا نہایت احسن طریقے سے قرض لوٹانے کے لئے ہیں۔ اللّه کریم مجھے اِس میں سرخرو فرمائیں۔آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلسلہ عالیہ کے احباب عزیز تو پہلے بھی تھے مگر اب عزیز تر ہیں کہ میرے حضرت جی رح کی امانت ہیں۔ سلسلہ عالیہ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار تو میں کل بھی تھا مگر آج یہ جذبہ شدید تر ہے کہ میرے حضرت جی رح کی امانت ہے۔ یہ شب و روز کی ریاضتیں، اہمیت تو کل بھی رکھتی تھیں مگر اب تو میرا مقصدِ حیات ہیں کہ میرے حضرت جی رح جو ذمہ داری سونپ گئے ہیں اُسے نبھانا ہی نہیں، احسن طریقے سے نبھانا ہے۔
گویا میری زندگی کا محور پہلے بھی اور آج بھی وہی ہے میرے حضرت جی رح !!
حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شُد
روئے گل سیر ندیدم وبہار آخر شد
By Sheikh-e-Silsila Naqshbandia Owaisiah Hazrat Ameer Abdul Qadeer Awan (MZA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Nov-2019
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Nov-2019
The Light of Faith, the blessings of Prophet-hood ﷺ, the feelings of the Cognizance of Allah (سبحانہ وتعالی), the pleasure of closeness to Allah (سبحانہ وتعالی); these are blessings that have no similitude and are incomparable. Such that if one can comprehend even an iota of their significance and magnitude, then one would cling onto the bearer of these Barakah, with such an intensity that he would be willing to forego the entire world for it but not let go off him.
چنیں میدے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتراک او شو
If such a man is found, I would turn into dust before him,
(Moreover) I would choose to remain captive within his circle of influence
The way Deen-e-Islam is the one and only reality, similarly, its rationale are also extremely rare and matchless. When Allah Kareem taught humans the societal-norms, He placed the highest value and respectability to this most priceless, strong, beautiful and sensitive relationship (between a Sheikh and disciple).
The relationship between the Prophet ﷺ and a Muslim while being extremely strong and eternal, yet it is equally fragile and sensitive. As he isthe ‘Hadi-e-Barhaq’ (Guide to the Truth) and is the one who not only shows his followers, with utmost love and tenderness, the path leading to the Court of Allah (سبحانہ وتعالی), but also escorts them to it. The Personality that allows mankind to reach the epitome of heights of its excellence, how respectable and worthy of honour is he in the eyes of his people; that the Creator, Himself is teaching man the etiquettes to follow in the presence of the Prophet ﷺ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ …
O believers! Before gaining (the permission of) Allah and His Messenger, do not initiate (conversation), accordingly, remaining in awe of Allah... [49:1]
Those Companions (رضی اللہ تعالٰی عنہ) who sacrificed their homes, lives, left their relatives, endured tortures; Allah (سبحانہ وتعالی) addresses them:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O believers! Do not raise your voices higher than the blessed voice of the Messenger; likewise do not speak openly with him as you talk freely (informally) among yourself; lest your deeds are annihilated while you do not even perceive. [49:2]
After this revelation Hazrat Omar Farooq (رضی اللہ تعالٰی عنہ), who inherently had a loud voice, would speak in hushed tones in the presence of the Prophet ﷺ. It was the frailness of this revered relationship that in the five initial ayaat of Surah Hujraat and at many other citations in the Quran, its etiquettes were taught. Respected readers! Leaving aside the delicateness of this bond, but it was the realization of its greatness that whosoever attained this company even once, returned with the urge to revisit again and again. Likewise, some were fortunate such that once they arrived they never returned. At times, when one hears that “one should not stay close to the Sheikh as the chances of suffering a loss increase”, thereupon along with ayat number 2 of Surah Hujraat “…lest your deeds are annihilated…” another ayat, ayat 69 of Surah Nisa also comes to mind.
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا
Accordingly, those who obey Allah and the Messenger (on Dooms-Day) will be with the people whom Allah has (exceptionally) rewarded, (such as) with the Prophets and the Truthful and the Martyrs and the Righteous; essentially, excellent are these companions! [4:69]
Where in the former ayat the etiquettes of staying in such company of the Prophet ﷺ are taught to the Companions, thereupon in the latter ayat one is made to realize the value and exaltedness of this Companionship. Accordingly, such an insight was granted, of the pleasure of being in the attendance of the company of the Prophet ﷺ, that not only the world but also even paradise lost its significance. A Companion (رضی اللہ تعالٰی عنہ) on realizing that due to the heights and the status of the leader of the Prophets ﷺ and thus apprehending that he may become inaccessible in Paradise, he denounced it saying that he did not want paradise. Accordingly, it was because of this anguish that earned the Momineen the glad tidings of the companionship of the Prophet ﷺ in paradise as well. It is these blessings that if a disciple engages in Zikr-Allah the whole year round by himself he acquires the potential to move forward, however, is unable to ascend further, yet conversely in the company of the Sheikh, in a split second one ascends to spiritual heights according to one’s respective potential. The fact of the matter is, as explained by Qasim-e-Fayoozaat (رحمۃ اللہ علیہ) that “the company of the Sheikh should not be considered a gathering of friends sitting at a get-together, café or restaurant that one is there for small talk or casual conversation etc. Instead, on reaching the company of the Sheikh, one should sit with absolute devotion remaining focused on attaining the Barakat-e-Nabvi ﷺ with utmost sincerity.
Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani (رحمۃ اللہ علیہ) says, “It is amongst the etiquettes of the disciples that they must not speak before the Sheikh, needlessly. If a question is put forth to the Sheikh, he must remain quiet, despite being well aware of the answer. Even if the Sheikh falters in the reply the disciple should not criticize and speak up in the presence of the Sheikh”. Someone asked Sheikh Abu Mansoor Maghrabi (رحمۃ اللہ علیہ) that, “how long did you stay in thecompany of Sheikh Osman (رحمۃ اللہ علیہ)?” he replied “I remained in his service not in his companionship because one stays in the companionship of his spiritual brothers or ones similar to himself whereas a disciple only serves a Sheikh” (as he cannot enjoy the same level of spiritual exaltedness as his Sheikh, and thus cannot be a friend or a companion; but only in the service of receiving the honour of the Sheikhs presence and spiritual attention).
Imam Kaseeri (رحمۃ اللہ علیہ) before visiting his Sheikh kept a fast and performed ghusal (obligatory bath). Hazrat Junaid Baghdadi (رحمۃ اللہ علیہ) commenting about a disciple of Hazrat Abu Hafs Neshapuri (رحمۃ اللہ علیہ) mentions that the disciple had exhausted two lac dirhams on his Sheikh’s mission, while often remaining his service. Yet however, the Sheikh did not permit him to speak, hence it was observed that he perpetually remained in a state of silence. Hazrat Hasaanuddin Haisi (رحمۃ اللہ علیہ) was one of the exceptional disciples of Maulana Rumi (رحمۃ اللہ علیہ), holding such distinction that Maulana Rumi (رحمۃ اللہ علیہ) himself treated him with respect, yet however, in the ten years that he spent in the service of his Sheikh, he never performed ablution in the Sheikh’s wuzu-khana (area of ablution). Mujadid-e-Tareeqat Hazrat Maulana Allah-Yar Khan (رحمۃ اللہ علیہ) asserts that a Sheikh is duty bound, in accordance with his connection to the Prophet ﷺ to do the spiritual training and cleansing of the disciples, whereas it is the duty of the disciples to receive the blessings in accordance to the compliance of the Sahaba (رضی اللہ تعالٰی عنہ).
That is why in Sufism these exact norms of respect (like the respect of our Prophet ﷺ) are considered the authentication and certification. The reality is that the purpose of a Momin’s life is to achieve eternal success, effectively the destination of this success, is paradise. The highest pleasure of which, amongst all others is beholding Allah (سبحانہ وتعالی), laqa-e-bari (meeting Allah) and the nearness of Allah (سبحانہ وتعالی). To achieve these, Allah ﷺ gave humans favours such as the Reflections of Prophet-hood ﷺ and blessings received in the company of the Prophet ﷺ. The Trustees of which are the Mashaikh-e-Uzam (the honourable Spiritual Sheikh), nevertheless, the benefits can only be attained through observing the prerequisite etiquettes i.e. “Respect is the first and foremost etiquette of the etiquette of love”.Hazrat Qasim-e-Fayoozat (رحمۃ اللہ علیہ) mentions that if upon hearing of the Trustees of these Barkat-e-Nabovat ﷺ (Blessings of Prophet-hood ﷺ), one searches for such people with their due respect and love in his heart, his entire life thereupon passing away, thus this is sufficient for his salvation in the hereafter. However, if someone finds them, but is neglectful towards them, while giving priority to worldly affairs and schedules, thereupon he shall never be able to attain these blessings likewise even on the Day of Judgement, he will not be able to justify this Kufran-e-Naimat (rejection of Divine Blessing). Meaning that deliberately delaying or being neglectful is against the etiquette of respect of a Sheikh. Moreover, this attendance is extremely valuable, as it is also the cause of further enhancement of the outwardly teachings of Islam.
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد
Rumi did not become the Spiritual Sheikh of Turkey,
Until he became the disciple of Shams Tabrizi.