Featured Events


جمہوریت کی حقیقت

Watch Janhooriat ki Haqeeqat YouTube Video

پاکستان میں تبدیلی کیسے ممکن ہے

Watch Pakistan mein Tabdeeli kaise mumkin hai YouTube Video

اظہار یکجہتی کشمیر اور ہمارا کردار


 آج کا دن ہم اظہار یکجہتی کشمیر کے طور پر منا رہے ہیں۔کہتے ہیں کشمیر کی مدد کرو،کس طرح مدد کرو؟ ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کرلو۔کوئی فوت ہو گیا، کیا کرو؟ اس کے لیے موم بتی جلا دو۔ یہ اصول کہاں سے لیے ہیں؟ غزوات و سرایا کوئی نہیں پڑھے۔ ریاست مدینہ کے قیام میں حالات کوئی نہیں پڑھے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی نظر جس طرف گئی اس پر جان مال اور اولاد قربان، آپ کی ذات تو بہت بلند ہے۔ کیسی کیسی تکالیف سے آپﷺ گزرے؟ہم کیا کہتے ہیں بولو نہیں دشمن مارے گا۔ بنیاد رکھتے ہو ریاست مدینہ کی۔ایسی صورت حال میں مدد بھی پہنچے گی حالات بھی بدلیں گے۔ ضرورت کیا ہے؟ اپنے پاؤں پر تو کھڑے ہوں اور اس کھڑے ہونے کے لیے نور ایمان چاہئے۔
  مخلوق خد ا کو انصاف دلانا جس قوم کے ذمے تھاوہ خود مظلوم ہے،اس پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اگر ہم اس تسلی میں بیٹھیں کہ وہ صرف وہیں تک رکے گا۔ اس کی مثال جنگل کی آگ کی طرح ہے۔ایک کونے میں جہاں سے آگ لگے گی وہاں سے جو کچھ ہے وہ تو جلے گا، باقی جنگل کے درخت یہ محسوس کریں کہ یہ آگ آگے نہیں آئے گی،ایسا نہیں ہے۔اللہ جانے کس رخ کی ہوا چلے اور وہ آگ کہاں تک بڑھتی چلی جائے؟ یہ وہ موضوعات ہیں جو ہم سمیت اور خصوصی مقتدر حصے جو ذمہ داران ہیں،ان کو دیکھ لیں۔ جب ہم سارے من حیث القوم اپنی اپنی حیثیت میں،اپنا وقت گزارنے کو دیکھیں گے کہ میرے پاس جو وقت ہے یہ اچھا گزر جائے تو ہم اپنی اولاد کو کیا دے کر جارہے ہیں؟نہ ہماری کوئی قدر سلامت رہی، نہ ہمارا کوئی اخلاق سلامت ہے اور نہ ہی دین میں کوئی اتفاق و اتحاد رہا۔ جب بھی کوئی بیماری اٹھتی ہے، اس کا جتنا بھی علاج کر لیں۔اس کے سبب کا علاج نہ ہو تووہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے تو جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں۔وہاں جاکر دیکھ لیں،وہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جہاں میں اور آپ مخاطب ہیں، یہاں انصاف کے تقاضے دیکھ لیں۔ اپنی زندگیوں میں انصاف دیکھ لیں۔ جہاں میرا اور آپ کا اختیار ہے۔ وہاں اپنے ایک ایک عمل کو جانچ کر دیکھ لیں۔ کیا ہم انصاف کر رہے ہیں؟ کیا ہم سچ بول رہے ہیں؟ کیا ہمارے معاملات انصاف کی گواہی دیتے ہیں؟جو جس حیثیت میں ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نظام ہستی میں چلا رہا ہوں۔مجھ سے کوئی نہ پوچھے۔گلوبلی دنیا کو دیکھیں تو پوری دنیا میں مسلمان امت کمزوری اور زوال کی طرف ہے جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے، ہم اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔اس اظہار کو دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے۔ایک وقت تھا جب مسلمان عددی حصے میں کم تھے اور غیر مسلم مظلوم کا مداوا کرنے کا سبب تھے۔آج عددی حصوں میں مسلمان قوم تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جبکہ کسی کا مداوا تو کجا خود مظلوم ہے۔کیا فرق ہے؟ اسلام۔ وطن عزیز کے کسی پہلو پر بات ہو، ہمارے کشمیری بھائیوں کی تکالیف کا اظہارہو،اس اظہار یکجہتی میں پوری پاکستانی قوم کایک زبان کھڑا ہونا، کوئی پہلو لیں۔ میں حیران ہوتا ہوں، امت مسلمان،ظالم، مظلوم، ساری بحث ہے۔لفظ اسلام پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ہم جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں یاجس راہ کو چل رہے ہیں۔ کاش ایک لفظ پر متفق ہو جائیں: اسلام۔اگر ہم عمومی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔زندگی میں کتنے زیروبم آتے ہیں؟ پسند و ناپسند کے کتنے پہلو آتے ہیں؟ کتنے ایسے پہلو ہیں جہاں انسان چاہ کچھ رہا ہے، اظہار کچھ کر رہا ہے؟ درکار کچھ ہے، مانگ کچھ اور رہا ہے؟ لیکن جب جہادبالنفس کی بات آئے گی تو اپنی ہر خواہش کو رب ِ کائنات کے حکم پر قربان کر دیا جائے گا۔ جہاں کلام ذاتی جہاد بالنفس کی تعلیم دے رہا ہے، جہاں ارشادات محمد الرسول اللہ ﷺ جہاد بالنفس کی نزاکت بیان فرما رہے ہیں۔وہاں ایسے حالات میں جہاد بالسیف کا بھی ارشاد فرمایا گیا ہے میں نے آج تک لفظ جہاد کا اظہار کسی کی زبان سے نہیں سنا۔ جب ہم اصل مرض پر نہیں جائیں گے تو دوا ممکن نہیں ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھے جو سن رہے ہیں وہ تلوار اٹھا لیں۔ اس کا بھی نظام ہے۔ اس ذمہ داری کا تعین اسلام فرماتا ہے۔ کس، کس کے ذمہ ہے؟ یاد رکھنا، جتنا کردار میرے ذمہ ہے اور جتنا کردار مقتدر حصوں اور عامۃ الناس سے لے کر آخری طاقت رکھنے والے بندے تک ہے۔جتنا،جتنا حصہ ہے، ان مظلومین کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب روز محشر سب کو دینا ہو گا۔آج ہم بچتے رہیں۔ فلاں ملک ناراض ہو جائے گا، فلاں قوم ناراض ہو جائے گی۔ اس سارے میں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ ہم پر جہاں ظلم نہ کیا گیا ہو۔ کتنے مہینوں سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے؟ جہاں کرفیو نافذ ہوتاہے، وہاں نقل وحرکت رک جاتی ہے۔ آ پ غورتو کریں؟ کتنے دن؟ وہاں دوا تو کجا کھانے کا نوالہ میسر ہے یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔کسی کی عزت کا لٹنا تو کجا، کسی کی عزت محفوظ رہی یا نہ رہی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں؟ 
یہ وطن عزیز بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اس کے اندر تقسیم در تقسیم ہمارے کردار نے کی ہے اور ایک چیز اور عرض کروں کہ کہیں کسی کا کوئی دشمن پیدا ہوتا ہے۔ دشمنی کا سبب بنتا ہے تو دشمنی ہوتی ہے۔ اس وطن عزیز کے دشمن،اس کے وجود میں آنے سے پہلے موجود ہیں۔ یہ سارا یہی نہیں ہے کہ ساری ہمارے بے عملی کے نتائج ہیں یا ہم خرابی کر رہے ہیں۔ ہماری بے عملی اور خرابی ہمیں اندھا کر رہی ہے۔ اپنے کردار کی خرابی تو ہے ہی جو لوگ باہر بیٹھے، اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں،ہم ان کے بھی آلہ کار بنتے جا رہے ہیں۔
 کشمیر کو کیا کہتے ہیں؟ جنت نظیر۔ جنت میں شیطان کا تصور نہیں ہے، وہاں شیطان نہیں ہے۔یہ جو جنت نظیر کہا جاتا ہے اور وہاں شیاطین بیٹھے ہیں؟یہ کیا ہے؟یہ ہماری بے عملی کے نتائج ہیں، ہماری عبادات کے سودے ہیں۔ وہ عبادات کے سودے، عبادات کو عبادات کے درجے تک نہیں پہنچنے دیتے۔وہ اسباب جو ہمارے عروج کے تھے، آج ہمارے اندر نہیں ہیں اور ان کا نہ ہونا ہمارے زوال کا سبب ہے۔دنیا میں جب آپ ظالم کو دیکھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ظالم مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا یعنی شکایت بھی نہیں کرنے دیتا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ جن اصول و ضوابط کو نبی کریم ﷺنے اختیار فرمایا۔ان اصول و ضوابط پر بات کوئی نہیں کرتا۔ دنیا کی بات کرتے ہیں اور جب دنیا کی بات کرتے ہیں تو دنیا میں ہم اتنے نالائق ہیں کہ جو اقوام ہم سے آگے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے بھی نہیں، مرہون منت ہیں۔ ان سے لے کر کھاتے ہیں۔ممکن نہیں ہے کہ کوئی بندہ مومن ہو جس کے سینے میں ایمان موجزن ہوجسے توکل علی اللہ نصیب ہوجو آخرت کو دیکھ کر جی رہا ہو۔اس کا راستہ بھی کوئی کاٹنے کی جرأت کر سکے۔
 حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وسط ایشائی ریاستوں کا ایک شہزادہ جس کی حکومت گر گئی، ملک محکوم ہو گیا، لیکن اس کے جو بھی بچے کھچے فوجی تھے ان کے ساتھ لڑتا رہا اور غالباً ہلاکوخان خود کمان کررہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ شہزادے کو قتل کیا جائے تا کہ بغاوت کا سر ہی ختم کیا جائے۔وہ لڑتے ہوئے اٹک کے دریا تک پہنچ گیا۔اٹک کے دریا پر پہنچنے پر شہزادے کا کوئی چارہ نہ رہا، سپاہی اس کے شہید ہو گئے تو اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔جب دریا میں گھوڑا ڈال چکا تو تاتاری بھی کنارے پر پہنچ گئے۔ انہوں نے کمانیں کھینچیں تو ہلاکو خان نے کہا ’’کمانیں نیچے کر لو اس پر اب کوئی تیر نہیں برسائے گا‘‘ کیوں؟ دوسری طرف سلطان التتمش کی حکومت تھی۔ اگر وہ اس بات پر اکڑ گیا کہ میری سرحد پر تو نے ایک فرد کو مارا ہے تو اسے ہم روک نہیں سکیں گے۔وہی تاتاری تھے جو سروں کے مینار بنا رہے تھے۔ جن کو خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دریا،دو ممالک کی سرحد تھی۔ ملکیت ادھر کی ہی نہیں تھی۔ جرأت نہیں ہوئی ادھر کے بندے پر جس سے لڑائی ہو رہی ہے۔ جوان سے بھاگ رہا ہے کہ اس پر تیر بھی برسائیں۔کیوں؟ انہوں نے ملک تعمیر کیے تھے۔کن بنیادوں پر تعمیر کئے تھے؟  جن بنیادوں پر ریاست مدینہ نبی کریم ﷺ نے تعمیر فرمائی۔ زبانی نہیں۔ 
رب کریم فرما رہے ہیں وَکَذَّبَ  بِہٖ  قَوْمُکَ  وَھُوَ الْحَقُّ ط قُلْ  لَّسْتُ  عَلَیْکُمْ  بِوَکِیْلٍ  (اَ لْاَنْعَام: 66) (ترجمہ اکرم التراجم)ــ  ’’اوراس (قرآن)کوآپ کی قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سچ ہے۔فرما دیجئے میں تم پر داروغہ نہیں ہوں‘‘   یہ قانون ہے۔ جب جب یہ آئے گا حق سے دوری ہو گی۔حق سے دوری ظالم بھی پیدا کرے گی اور جب ظالم پیدا ہوں گے تو مظلوم بھی ضرور ہوں گے اور اس کے حل کے لیے کیا واپس حق پرنہ جایا جائے؟ اسلامی اصولوں سے کیوں گھبراتے ہو؟ کیا جن کا ڈر ہے،وہ ملک الموت کو روک لیں گے؟ کیا جن کا ڈر ہے، اگر اللہ کو زندگی مقصود ہوئی تو یہ موت دے دیں گے؟کیا جن کو دیکھ کر بہشت کی باتیں کرتے ہو؟ریاست مدینہ کی مثال ہم دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ وہاں صحابہ کرام نے پیٹ پر پتھر بھی باندھے لیکن بات انصاف کی، کی۔ بات اس اصول کے تحت کی گئی جو رب کائنات نے ارشاد فرمائے  وَکَذَّبَ  بِہٖ  قَوْمُکَ  وَھُوَ الْحَق یہ ارشاد محض اس وقت تک کا نہیں ہے۔ ایک قوم تک کانہیں ہے اور یہ  قوموں کافرمان ہے۔ جو بھی ارشادات باری تعالیٰ پرعمل کرے گا۔ اس ارشاد کے تحت کسی نہ کسی درجے میں آپ بھی قوم میں شامل ہو جائیں گے۔آج بھی اپنے اپنے درجے کے مطابق آپ ﷺ کا جو اقرار کرے گا، قوم میںشامل ہوتا چلا جائے گا   وَھُوَ الْحَقُّ  تو بھائی ہٹ کر دیکھ لو۔ ہم ہٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ پلٹ کر دکھ لوبہتری آتی ہے کہ نہیں آتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں جا کر دیکھ لیں۔ جہاںمیں اور آپ مخاطب ہیں۔یہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہ جو کلام ذاتی بیان فرما رہا ہے، یہ فرق ہے۔ اللہ کریم ہمیں ایمان کی یہ صورت عطا فرمائے کہ ہماری سیرت کے ایک ایک ریشے تک یہ جذب ہو اور یہی ایک ہماے مسائل کا حل ہے۔
          میرا بھی نام ہے میں ہوں غلام آقا کا     میں ان کے زیر قدم ہوں میں بے مقام نہیں
مضبوطی کیا ہوتی ہے؟وہ یکجہتی سے آتی ہے۔ اگر آپ غور کریں ہمیں قوموں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور دعویٰ ایمان کے ساتھ ہمیں پھر قومی طور پراس درجے تک تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ہم باہم دست وگریبان ہوگئے ہیں تو ضرورت ہے اتفاق کی،اتفاق حاصل کرنے کی کیا صورت ہوگی؟جب ہم اپنا فرض کی ادائیگی کو دیکھیں گے، جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ اس اتفاق اور اتحاد میں اور مزید کیا ضرورت پیش آئے گی؟ یہ ملک میرا ہے۔ اس ملک کے ادارے چاہے وہ کسی صورت میں ہیں۔آرمی کی صورت میں ہے، عدلیہ کی صورت میں، پارلیمنٹ کی صورت میں ہے۔ وہ کیا ہیں؟وہ میرے ہیں۔ یہ عوام میری ہے، یہ لوگ میرے ہیں،یہ دعویٰ ہم میں سے ہر پاکستانی کا ہو۔ جب سب کچھ میرا ہے جو میرے ذمے ہے، اپنے ان پیاروں کی ادائیگی کے لیے، بہتری کے لیے جو میرا ذمہ ہے۔کیا وہ کوئی اور آکر ادا کریں گے؟ یہ تو وہ حالات ہیں جو دنیا کے ہمارے سامنے ہے۔ ہماری کمزوریاں، ہماری خطائیں،اللہ ہمیں معاف فرمائے۔لیکن دنیا میں سارا کچھ ایسے ہی نہیں ہے،جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ رات دن اور صبح بے شک رہے ایک نظام ہے۔ حقیقی نظام تقوینی نظام سے ہے جو منجانب اللہ فیصلے ہیں۔ من جانب اللہ فیصلوں میں نبی کریم ﷺ کی بشارت ہے کہ غزوۃا لہند ہو گااور غزوۃ الہند آپ ﷺ کی بنفس نفیس اس درجے کی شرکت،توجہ نصیب ہو گی کہ آپ ﷺ نے اسے غزوہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اس میں جو مجاہد شریک ہوں گے شہدا ء یا غازی،قیامت کے دن ایسے خوش بخت ہوں گے کہ ان سے حساب نہیں لیاجائے گا۔ خیرالقرون سے ہمارے اجداد کے مدفن اس خطے میں ملتے ہیں۔کس لیے؟کہ نبی کریم ﷺ نے اس غزوے کا ارشاد فرمایا ہے، تب سے لوگ چل رہے ہیں۔ اس آلاؤ کو اور آگ دو اور حدت پیدا کرو۔ ہمیں گھبراہٹ نہیں ہے، ہمارے تو اجداد اسی انتظار میں دفن ہوتے آئے ہیں، ہمیں بھی انتظار ہے کہ اللہ ہمیں نبی کریم ﷺ کے حکم پر غزوۃالہند کا مجاہد بنائے۔ اس میں ہماری جانیں جائیں۔ ہماری گردنیں اڑیں۔
اے میری قوم! آپ کو نبی کریم ﷺ نے بشارت بیان فرمائی ہے،اپنے اس رشتے کو جانو۔اگر بائیس کروڑ ہم ہیں تو بائیسواں کروڑواں پاکستان کا یہ حصہ میرے پاس بھی ہے۔اس کی تعمیر میں،میں نے کتنا کردار ادا کیا ہے؟ اللہ کریم ہمیں توفیق عمل عطا فرمائے۔ یہ زندگی شکرگزاری کی صورت میں، حقیقت کے ساتھ ادا کرنے کی اور اسے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔ ہمیں باعمل مسلمان بنائے۔ ہمارے کشمیری بھائی جو ظلم و ستم سہہ رہے ہیں انہیں صبر و حوصلہ دے، طاقت دے۔ان ظالموں کو اللہ کریم اپنے انجام تک پہنچائے۔ اللہ کریم دنیا بھر کے مسلمانوںکواس امتی کے رشتے کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آئیں اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ کوئی کیا کرے؟ اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ میرا اللہ راضی ہو، اس لیے کہ یہ تعلیم فرمائی ہے نبی کریم ﷺ نے اس لیے کہ اس کے نتائج روز محشر میں نے، آپ نے، ہم سب نے دیکھنے ہے۔

حضرت جی مد ظلہ العالی کی بیعت کا خوبصورت واقعہ

Watch Hazrat Jee MZA ki Bait ka Khubsoorat Waqia YouTube Video

حق میں عطا ہے

Watch Haq main Ata hai YouTube Video

جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے


اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ عبادات کو بھی رسم و رواجا ت کی نذر کر دیا ہے اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم اس سارے عمل کو غلط بھی نہیں سمجھ رہے۔جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب !
انہوں نے کہا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ مذہب کے نام پر جو رواجات کافر و مشرک اختیار کرتے تھے کہ کسی فصل،جنس یا جانور کے حصے کیے جاتے تو اس میں کچھ حصہ مہمانوں کا،کچھ حصہ بتوں کا اور کچھ حصہ اللہ کے نام کا مقرر کرتے،جس نے عطا فرمایا اس میں سے اسی دینے والے کا حصہ مقرر کر رہے ہوتے اور پھر اس اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ شرک بھی کرتے۔اگر کوئی اس جرم کے ساتھ اس دارِ دنیا سے چلا گیا تو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی اپنے مقدر میں کر لی۔اور اس کی کوئی امید نہیں ہے کہ اس کی کوئی بچت ہو گی۔یاد رکھیں کہ حق میں عطا ہے اور بندگی حاضر باش ہونے کے مطابق ہوتی ہے۔اور باطل میں سودا ہے۔انہوں نے اپنے بت اپنے مختلف کاموں کے لیے تراش رکھے ہوتے تھے۔یہ سب اپنی خواہشات کی تکمیل ہوتی تھی۔یہ سب سودے بازی ہوتی۔کہ ہم فلاں بت کی پو جا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ میری حفاظت کرتا ہے دوسرے بت کو اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں رزق دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام ایسا دین برحق ہے کہ کسی شعبے میں بھی تشنگی نہیں چھوڑتا۔آج ہم نے اسوہ رسول ﷺ کو چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس وقت معاشرے میں ہر قسم کی برائی در آئی ہے۔یہ سب ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی دعا فرمائی
Jab haq ko chore diya jaye to insaan khwahishaat nafs ki pooja shuru kar deta hai - 1

جہیز کا فلسفہ

یہ جملہ درست نہیں ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ادھار لے کر جہیز دیں۔ ہم دونوں طرف  افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ایک طبقہ کہتا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے،ایک طبقہ جہیز میں اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لئے قرض لیتا ہے   حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اعتدال ہے، توازن ہے۔ کائنات کاسارا نظام، یہ زندگی موت،یہ گرمی سردی، یہ رات دن،ہر چیز میں ایک اعتدال ہے،ایک توازن ہے۔یہ سارے ستارے سیارے،زندگی توازن سے قائم رہتی ہے۔عدم توازن،زندگی کو ڈسٹرب Disturbکرنے کی طرف لے جاتا ہے۔جہیز میں بھی توازن ہے۔ 
نبی کریم ﷺنے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ  کو جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم کے نکاح میں دیا تو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی چیزیں آپ ﷺنے انہیں عطا فرمائیں۔پانی کے لئے ایک مشکیزہ عطافرمایا،اس عہد میں مشکیزے ہوتے تھے۔جہیز میں آٹابنانے کے لیے ایک چکی عطا فرمائی۔اسی طرح ایک بستر،ایک تکیہ،گدایااس طرح کی کچھ چیزیں عطا فرمائیں۔جومادّی چیزیں اس وقت خانہ نبوی ﷺ پر موجود تھیں۔یہ نہیں کہا کہ میں توپوری انسانیت کا نبیﷺ ہوں،اللہ نے مجھے سب سے افضل بنایاہے تو پھر میرا جہیز بھی بے مثل وبے مثال ہو،بولا نہیں۔جو مادّی چیزیں آپﷺ آسانی سے اپنی بیٹی کو دے سکتے تھے،و ہ ضرور دیں۔بعد میں انہیں رہنے کے لیے اپنے حجرات مبارکہ میں سے ایک حجرہ مبارک بھی عطا کردیا۔جہاں روزہ اطہرﷺ ہے، اس کے پیچھے وہ حجرہ مبارکہ ہے جس میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ رہتے تھے۔یہ حجرات نبیﷺ میں سے تھا۔آپ نے شادی کے بعد عطا فرمایا، یعنی جہیز پر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر بعد میں بھی اولاد کی مددکر سکتے ہیں تو بچیوں کا حق بنتا ہے۔جس طرح ہم بیٹوں کا دھیان رکھتے ہیں اور زندگی بھر مدد کرتے ہیں لہٰذا بیٹیوں کا بھی وہی حق ہے۔ حضور ﷺنے شادی کے بعد حجرہ مبارک بھی عطا کردیا تو ایک معیار بن گیا کہ جو چیز یں اپنی حیثیت کے مطابق ضروریات زندگی کی ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو دے سکتے ہیں۔اگرآپ زیور اچھا دے سکتے ہیں اور آپ کسی سے ادھار لینے پر مجبور نہیں ہیں تو ضرور دیں،وہ ایک سرمایہ ہے یعنی زیور صرف زینت ہی نہیں ہوتی،یہ ایک Balanceہے کہ اس کے پاس کچھ پیسے ہوں،ضروریات زندگی کی چیزیں، لباس کی قسم سے،ضرورت کے برتنوں کی قسم سے،آپ دیتے ہیں تو ضرور دیں لیکن یہ شان وشوکت کے اظہار کے لئے نہ ہوجس کی جتنی حیثیت ہے اس کے مطابق اسے دے اوریہی نہیں ہے کہ جہیز دے کر فارغ کردیا پھر ان کی وراثت میں بھی کوئی حصہ نہیں رہا، نہیں یہ نہیں ہوتا۔ہم نے ایسے زمیندار قسم کے لوگ بھی دیکھے ہیں جواپنی بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ نہیں دیتے کیونکہ ان کی بیٹی اپنے حصے کا مال جہیزکی صورت میں لے جا چکی ہے۔بھائی! جہیز آپ نے جائیداد کا حصہ تقسیم کر کے تو نہیں دیاتھا۔وہ تو آپ نے اپنی شان وشوکت کے لیے،اپنا نام بنانے کے لئے، بہت بڑا جہیز دیا تھا۔ والدکی وفات پر جائیداد میں مقرر شدہ حصہ یعنی بچے کی نسبت آدھا اسے ملے گا، جائیداد میں بھی ان کا حق ہے،وہ انہیں دی جانی چاہئے۔مکان ہے،زمین ہے،کوئی غیر منقولہ جائیداد جو کچھ بھی ہے اس میں بھی ان کا حصہ برقرار رہتا ہے۔ ہم افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں کچھ لوگ تو بلکل اس کے خلاف چلے جاتے ہیں کہ کچھ دینا ہی نہیں چاہئے اور کچھ لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ میری بڑی شان وشوکت ہو گی۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا اور اپنے اوپر بوجھ بنانا بھی ناجائز ہے۔ کس کی شان نبی کریم ﷺ کی شان سے میل کھاتی ہے؟جب آپ ﷺنے اسے اپنی آنر Honourکا سبب نہیں بنایابلکہ ضروریات زندگی کی جو چیزیں کاشا نۂ نبویﷺ پر موجود تھیں،وہ عطا کر دیں۔ اس میں توازن چاہئے۔ ہر بندے کی ایک مالی حیثیت ہے ہر بندے کی ایک قوت ہے، دینے یا نہ دینے کی۔ اس کے مطابق دے۔
اس سلسلے میں شادی کرنے والے یعنی سسرال یا دولہا کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جہیز میں گاڑ ی بھی ہو، جہیز میں وہ چیز بھی ہو۔وہ شرط نہیں لگا سکتے،جورواج آج کل ہے کہ شرط لگائی جاتی ہے۔جہیز میں گاڑی بھی آئے،ہمیں وہاں سے بھی حصہ ملے،ہمیں نقد بھی اتنا چاہئے، نہیں۔ یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ان کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جتنے بھی حقوق ہیں وہ بیٹی کے ہیں اور والد کے ہیں۔اس کے سسرال والے، یادامادکا حق نہیں ہے کہ وہ مطالبہ لے کر بیٹھ جائیں کہ آپ اتنے امیر ہیں۔ مجھے وہ بھی دیں، مجھے وہ بھی دیں، یہ ناجائز ہے۔انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ بہو کودنیاوی ا عتبار سے اور دینی اعتبار سے پرکھ لیں۔ باعمل ہے باکردار ہے،شریعت کے دائرے میں رہنے والی ہے، نیک ہے۔اس کے بعد باپ کا اور بیٹی کا معاملہ ہے،اس میں ان کا کوئی لین دین نہیں۔ خاوند اگر کہہ دے کہ مجھے جہیز میں کچھ نہیں چاہئے توکوئی حرج نہیں،یہ بہت اچھی بات ہے۔
 اسی طرح بیٹی جو جہیز لے کر جاتی ہے یا جو اس کا حق مہر مقرر ہوتا ہے، اس کا ذاتی حق ہے۔جب نااتفاقی ہو جاتی ہے اورنوبت طلاق تک چلی جاتی ہے تو اس کا جو مہر ہے اورجہیز کی جو ذاتی چیزیں وہ ساتھ لائی ہے۔ اس کا حق ہے وہ لے جاسکتی ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں  وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ  نِحْلَۃً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْءٍ  مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓءًا مَّرِیْٓءًا (النِّسَآءِ:4)کہ اگر عورت معاف کردے،بے شک مہر بھی معاف کردے،جو جہیزلائی ہے وہ بھی معاف کردے،تو بندہ آرام سے لے سکتا ہے۔ وہ معاف نہ کرے تو طلاق دینے والے کوچاہیے کہ پہلے اس کا مہر ادا کرے۔جو چیزیں اس کی ذاتی ہیں، جو اپنے والد کی طرف سے ساتھ لائی ہے، وہ واپس کرے اور خوبصورت اوراچھے طریقے سے طلاق دے۔ایسے طریقے سے نہیں کہ آئیندہ کے لیے تعلقات میں دشمنی کی بنیاد بن جائے۔ ایک مجبوری ہے کہ ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے۔مزاج نہیں ملتے، خیالات نہیں ملتے،کردار نہیں ملتا،سوچوں میں فرق ہے،کوئی بھی وجہ ہو، ایسی وجہ ہے کہ ہم زندگی بھر اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ جس کا اظہارشادی کے بعد ہوا تو اس کا حل طلاق ہے۔حالانکہ اللہ کے نزدیک جائز اور حلال کامو ں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔لیکن زندگی کو عذاب بنانے کے بجائے طلاق دینا مناسب ہے یا تو اتنی برداشت ہوکہ اسے برداشت کرلے تو اس کا اجر الگ ملے گا۔نہیں کر سکتا تو پھر طلاق دے دے لیکن طلاق پر دشمنی نہ بنائے، اس میں بھی خوبصورتی ہے۔ارشاد بار ی تعالیٰ ہے کہ  وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ   مَتَاع’‘م  بِالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (الْبَقَرَۃ:241) جوجواس کا حق ہے، وہ اسے دے کر خاوند کچھ اپنی طرف سے بھی دے کہ بھئی ہم تم جدا ہورہے ہیں، میرے پاس دس لاکھ ہیں، پانچ لاکھ تم لے جاؤ تاکہ وہ کام جو بڑا ناپسندیدہ اور خراب ہے،جس پر ناراضگی یا دشمنی کی بنیاد بنتی ہے،کم از کم دوستی نہ رہی تو دشمنی بھی نہ بنے۔احسن طریقے سے عزت کے ساتھ اور طلاق میں یہ بھی ہے کہ اسے پھر لٹکائے نہ رکھو کہ اس کی زندگی عذاب کردو۔ وہ کہتے ہیں ہم نے ڈھنگا تو ڈالا ہوا ہے، گھر میں آباد نہیں ہے لیکن اب دوسری شادی تو نہیں کرسکے گی۔ یہ جائز نہیں ہے یاتو احسن طریقے سے گھر میں رکھو یا آزاد کردوپھر وہ بیٹی کا اپنا مال ہے جو اس کے والدین نے اسے دیا تھااور جو اس کا حق مہر ہے۔ہاں وہ سارا معاف کردے تو خاوندکا ہے کھائے موج کرے۔اس میں عورتوں کے لیے بھی قائدہ یہ ہے کہ وہ فراخ دلی سے کام لے اور دلائل سے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں بھئی یہ یہ ہم میں فرق ہے۔ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے اور چونکہ ہماری سوچوں میں، ہمارے کردار میں، ہمارے قول میں، گفتار میں یگانگت نہیں ہے تو یہ ساری زندگی کا عذاب، میں تمہارے لیے درد سر، تم میرے لیے فتنہ۔تو اس مصیبت سے بچنے کے لیے کہ آؤ ہم الگ ہوجائیں۔یہ ایک راستہ ہے لیکن حسن سے، اچھے طریقے سے الگ ہوں کہ آگے وہ دشمنی میں تبدیل نہ ہو۔ایسے میں دونوں سمجھوتہ کر کے ساتھ رہتے ہیں،اگر بیوی کی طرف سے زیادتیاں ہوتی ہیں،ناپسندیدہ حرکات ہوتی ہیں اورشوہر برداشت کرتا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے۔اس کا عنداللہ بہت بڑاثواب ہے۔
مرزا مظہر جان جانانؒ شہید دہلی کے نامور صوفیاء میں سے اور بہت پائے کے اولیاء اللہ اور بہت نازک مزاج تھے۔اس قدر نازک مزاج تھے کہ ان کے سامنے دوسرا بندہ اگر بے تحاشا کھاناکھارہا ہے تو ان کا دیکھنے سے پیٹ خراب ہوجاتا، نزاکت کی حد ہے۔ان کی اہلیہ محترمہ (اللہ اس پر بھی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے) سخت مزاج تھی، بڑا، بھلابراکہتی تھیں اور چلاتی تھیں۔ان کا ایک افغانی مرید تھا، اسے انہوں نے گھر سے کوئی چیز لانے کا حکم دیا۔ اس نے دروازے پر دستک دے کرعرض کی اماں جی! حضرت جی فلاں چیز مانگ رہے ہیں تو وہ بھڑک اٹھیں، انہوں نے حضرت کو بھی اور مانگنے والے کو بھی صلواتیں سنائیں۔ وہ بھی ولائتی پھٹان تھا،اس نے کہا میں حضرت سے پوچھ کرآتا ہوں میں تمہیں گولی مارد دں گا۔ جب اس نے ساری بات عرض کی توآپ نے فرمایاتم آج تھوڑی دیر کے لیے گئے ہو تو اتنے گرم ہو رہے ہو، میں اپنی اس نازک مزاجی کے باوجود اسے عمر بھرسے برداشت کر رہا ہوں۔ کسی نے عرض کی حضرت آپ کی تو نازک مزاجی؟ فرمایا یہ میری ترقی درجات کا سبب ہے،میرے منازل میں ترقی ہوتی ہے، کیفیات میں ترقی ہوتی ہے میں جب برداشت کرتا ہوں۔
 بندہ اگر برداشت کرتا ہے تو بہت بڑے درجات عطا ہوتے ہیں۔آج اسی چیز کی ہماری ضرورت ہے،آج ہم میں قوت برداشت ہی نہیں رہی۔ میں حیران ہوتا ہوں،جی حادثہ ہوگیا بس نے رکشے کو ٹکر مار دی۔اب جو بڑا ہے جرم اس کے ذمے ہے۔یہاں تک کہیں گے ریلوے نے ٹرک کو ٹکر مار دی، اب ریلوے تو پٹری سے اُترتی نہیں۔یہ کوئی نہیں کہے گا کہ اس نے کار پٹری پر کیوں چڑھائی؟ کہیں گے ریل نے کار کو ٹکر ماردی،ریل کا اس میں کس کا کیا قصور؟ قصور تو اس کار کا ہے جو پٹری پر جاکر کھڑی ہو گئی۔کل کی خبر تھی کہ رکشے کو ٹکر لگی، دو بچے مر گئے، لوگوں نے بس جلا دی۔اللہ کا خوف کرو،بس جلانے سے کیاوہ بچے زندہ ہو گئے؟ یاکیا رکشہ ٹھیک ہوگیا؟ وہ قوتِ برداشت  Patience  ہی نہیں رہی۔بس پتہ نہیں کس کی تھی؟ چند سو کا ملازم، بس کا ڈرا ئیورچلا رہا ہے۔ جس کی بس ہے، اس نے ماں کے، بیوی کے زیور بیچ کر بس کی ابھی آدھی قسطیں اس نے دینی ہونگی۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟ چلان تو ڈرائیور کا ہوتا ہے، بس کا تو کوئی قصورنہیں۔غلطی تو ڈرائیور کی ہے ہم میں قوتِ برداشت ہی نہیں رہی۔

توبہ کیا ہے

توبہ سے متعلق قرآن کریم نے   تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التَّحْرِیْم: ۸) کی  اصطلاح ارشاد فرمائی ہے یعنی توبہ آپ کے اس عمل کو کہتے ہیں کہ اگر خلاف شریعت  (انسان کے مزاج کے مطابق اچھائی، برائی نہیں ہے، بلکہ اچھائی،برائی کا معیار قرآن کریم اور سنت نبی ﷺ ہے) کوئی عمل کر رہے ہیں یا آپ کا عقیدہ اور نظریہ اس سے مختلف ہے،تو توبہ ہوتی ہے کہ اس عمل سے بعض آ جائے اور ایسا بعض آئے کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہوجائے یعنی یہ نہیں کہ جوکام میں کرچکا ہوں اس سے توبہ اور رجوع کرتا ہوں بلکہ شرط یہ ہے کہ  تَوْبَۃً نَّصُوْحًا   وہ آئندہ زندگی کے لئے نصیحت بن جائے۔
بطفیل نبی کریم ﷺ یہ اللہ کریم نے ایک بہت بڑا معافی کا خانہ رکھا ہے۔ پہلی امتوں میں توبہ تھی۔حضرت موسٰی علیہ السلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو آپ کی امت نے فرعونیوں کا زیورپگھلاکر ایک بچھڑا سا بنا لیااور اس بچھڑے کو پوجنے لگ گئے۔کچھ لوگ ان کے خلاف رہے۔حضرت موسٰی علیہ السلام کی واپسی پرآپ نے تنبیہ کی، سخت ناراض ہوئے۔انہیں احساس ہوا کہ ہم نے غلط کیا ہے۔ ہم توبہ کرتے ہیں۔ارشا د باری ہوا کہ   فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِءِکُمْ  فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ   (الْبَقَرَۃ: ۵۴) اس کی توبہ قبول ہوگی جو اپنی جان دے گا۔اگر یہ توبہ کرتے ہیں تو انہیں اللہ کی راہ میں، اللہ کے حکم سے قتل کردیا جائے اور جو جس کا قریبی عزیز ہے وہ خود قتل کرے۔ یہ نہ ہو کہ توبہ کے بعد لڑائیاں شروع ہوجائیں۔تم نے میرا باپ مارا تھا، تم نے میرا بھائی، فرمایا نہیں۔ان کے اپنے عزیز انہیں قتل کریں۔ یہ کتنی کڑی شرط تھی اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ہزاروں لوگ قتل ہو گئے۔حضرت موسٰی علیہ السلام گھر سے باہر نکلے تو ان کا پاؤں انسانی خون کے کیچڑ میں دھنس گیا۔ وہ لرز گئے اور انہوں نے دعاکی بارالہاتو کریم ہے ان کو معاف فرما دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا جو قتل ہوچکے ہیں انہیں شہید کا درجہ عطا کرتا ہوں جو بچ گئے ہیں انہیں میں معاف کرتا ہوں اوریوں وہ قتل عام بند ہوا۔ یہ ہم سے پہلے کی امتوں کی توبہ کا ایک پہلو، ایک جھلک،ایک نمونہ ہے۔حضور اکرم ﷺ رحمۃ العالمین کی بعثت کے بعد رب کریم نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ مشرک ہے، کافر ہے،بت پرست ہے، بدکار ہے، شرابی ہے زانی ہے، جواکھیلتا ہے، فواحشات میں مبتلا ہے، دنیا کا کوئی گنا ہ سرزرد ہوگیا ہے۔ فرمایا  وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْءٍ  (الْاَعْرَاف:۶۵۱) میری رحمت ہر چیز سے وسیع تر ہے۔
کسی اللہ کے بندے نے عرض کی کہ بار الہ انسان کی توبہ کیسی ہے؟ انسان کے گناہ کیسے معاف ہوتے ہیں؟ انہیں ایک مشاہدہ کرایا گیا کہ سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کے کنارے پر ایک درخت ہے جس پر ایک چڑیابیٹھی ہے، اس کی چونچ میں مٹی ہے۔ اب جتنی چونچ میں مٹی سما سکتی ہے اتنی ہی ہو گی۔اس چڑیا نے وہ مٹی سمندر میں گرا دی۔فرمایا گناہ میری رحمت کے مقابلے میں اتنے بھی نہیں جتنااس سمندر کے مقابلے میں اس چڑیا کے مونہہ میں یہ مٹی تھی۔ اس نے گرا دی تو سمندر کا کیا بگڑا؟اس کا مونہہ صاف ہو گیا تو تمہاری توبہ وہی ہے کتنا بھی تمہارے گناہ ہوں لیکن آخر انسانی استعداد کے اند رہی ہیں۔وہ کفر کرتا ہے،شرک کرتا ہے یا گناہ کرتا ہے۔انسانی استعداد کی حدیں ہیں، اس سے آگے بندہ کچھ نہیں کرسکتا،ان حدود کے اندر ہیں۔فرمایا میری رحمت تو لامحدودہے۔ تمہارے گناہ اس چڑیا کے مونہہ میں مٹی ہیں اور میری رحمت ان سمندروں سے وسیع تر ہے۔سمندر کی تو حدود ہیں میری رحمت کی حدود نہیں ہیں۔لیکن توبہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس برائی کوبرائی مان لیں۔ سب سے پہلے چھوڑنے کا جو سبب بنتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ غلطی کو غلطی مانیں کہ میں غلط کر رہا ہوں جوکہ گناہ ہے اور اس کے بعد اللہ سے دعا کریں یا اللہ میں گناہ کر رہا تھا، اب میں نے بس کردیا۔ آئندہ کبھی گناہ نہیں کروں گا باقی زندگی اس کے دفاع پرصرف کرے،یہ توبہ ہے۔
فرمایابرزخ کھل جانے تک توبہ کا وقت ہے۔ جب موت آ جاتی ہے جو لمحات موت کے ہوتے ہیں، اس میں تو کافر کو بھی فرشتے نظر آنے لگ جاتے ہیں،آخرت واضح ہوجاتی ہے۔قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ فرشتے اسے کہتے ہیں۔ فِیْمَ کُنْتُمْ (النِّسَآء ِ: ۷۹) تم نے کہاں عمر ضائع کی؟ اللہ نے تمہیں شعور دیا، عقل دی، نبی مبعوث فرمائے،کتابیں نازل فرمائیں۔تم کیا کرتے رہے ہو؟   فِیْمَ کُنْتُم کہاں جھک مارتے رہے ہو؟  قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ  فِی الْاَرْضِ تو وہ کہتا ہے میں زمین پر ایک غریب آدمی تھا، جدھرحکمران یا امیر لوگ جنہیں لیڈر کہتے ہیں، وہ چلتے رہے تو ہم تو عام آدمی تھے،پیروکار قسم کے آدمی تھے۔ ہم ان کے پیچھے چلتے رہے۔ فرشتے کہتے ہیں   اَلَمْ  تَکُنْ   اَرْضُ  اللّٰہِ  وَاسِعَۃً   فَتُھَاجِرُوْا  فِیْھَا  اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی،یہاں کا ماحول برا تھا یا یہاں کے قوانین خلاف ِاسلام تھے یا یہاں کا معاشرہ خلافِ اسلام تھا۔تم حرام کھانے پر یا گناہ کرنے پریا جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتے تھے تو تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا؟ اللہ کی زمین وسیع ہے۔ وہاں سے چلے جاتے جہاں نیکی سے کم از کم رکاوٹ تو نہ ہوتی۔آج ساری دنیاچھوڑ کر جارہے ہو پھر یہ کہناکہ میری یہ مجبوری وہ مجبوری تو وہ مجبویاں اب کہاں ہیں؟ آج دنیا چھوڑ رہے ہو،اس وقت تم برائی کا ماحول چھوڑ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟اس میں علماء فرماتے ہیں کہ جہاں ماحول ایسا ہو کہ وہاں مجبوراً معاشرے کا جو پریشر ہے،سوسائٹی کاجو ایک دباؤ ہے۔اس کے تحت آپ بھلائی کر نہیں سکتے مجبوراً کچھ گناہ کرنا پڑ جاتے ہیں،وہاں سے ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔وہاں سے نکل جاؤ۔اب یہ وطن عزیز ہے۔ہم کہتے ہیں یہاں قانون شرعی نہیں ہے،عدلیہ کا قانون شرعی نہیں ہے۔سیاسی نظام غیرشرعی ہے۔ سارا شور مچا رہتا ہے لیکن ایک بات جس پر سب کواتفاق کرنا پڑے گا کہ کوئی نیکی کرنا چاہے تو روکتا کوئی نہیں۔معاشرہ یا ماحول یا سوسائٹی کوئی چیز آڑے نہیں آتی۔قانون، آئین،دستور، عدالت،آپ نیکی کرنا چاہیں تو کوئی نہیں روکتا۔جہاں نیکی سے روکاجاتا ہے۔ وہاں سے چھوڑ کر وہاں آجاؤ جہاں کوئی نیکی سے روکتا نہیں۔ہمارا یہاں کا ماحول بھی اس کے الٹ جارہا ہے۔ ہر بندے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہاں سے نکل کر میں امریکہ،برطانیہ، یورپ یا کہیں اور چلا جاؤں حالانکہ وہاں سے یہاں آنے کا مشورہ ہے۔
تو یہ بھی توبہ کا ایک رخ ہے کہ اللہ کریم نے جو ارشاد فرمایا ہے اس پر یقین کامل ہونا چاہئے۔فرمایا  وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا(ھُوْدٍ:۶) ہر ذی روح جو زمین پر ہے مکھی، مچھر،کیڑہ مکوڑہ، پرندہ،کوئی جانور یا انسان کی روزی،جو حیات کا سبب ہے۔ اس کا ذمہ میرا ہے۔ جب اللہ کا ذمہ ہے تواس پراعتبار کرو۔اگر وہاں جاؤگے تو رزق وہی ملے گا جو تمہارے نصیب کا ہے۔جو اللہ کاذمہ ہے ہمیں اس کی فکرہے۔ جو ہمارے ذمے ہے وہ ہم کہتے ہیں اللہ رحم کرے گا۔ہمارے ذمہ ہے کہ ہم نبی پاک ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کی روشنی میں اس بات کو متعین کریں کہ اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ حضور ﷺ نے کس چیز کو اچھا کہاہے؟کس کو برا کہا ہے؟ اس کے مطابق  وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ جو اللہ کے رسول  ﷺنے عطا فرمایا اسے قابو کر لو، چمٹ جاؤ،اسے اختیار کرلو   وَمَا نَھٰئکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (الْحَشْرِ:۷)  جہاں سے روک دیں وہاں سے رک جاؤ۔
اگر بندہ بے مہار چلتا رہاہے اور اس کو احساس ہوگیا ہے تو اس اپنے عمل کو تبدیل کرے۔ اس برائی کو چھوڑ دے اور ایسا چھوڑے کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہوجائے۔نصیحت ہوتی ہے دوسروں کے لیے۔ دوسروں کے لیے مثال بن جائے کہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ توبہ ہے اور کسی کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں۔ بلکہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ کوئی گناہگار اتنے گناہ کرے کہ اس نے زمین و آسمان کے درمیان سارے خلاء کو گناہوں سے بھر دیا ہوتو ایک توبہ کافی ہے اور توبہ کی امید پر گناہ کرنا توظلم ہے جیسے تریاق کی امید پر کوئی سانپ سے ڈسوا لے۔کیاکوئی ڈسواتا ہے؟کوئی رسک لیتا ہے۔آپ تریاق کا انجیکشن جو سانپ کے زہر کا اتار ہے اس کے ہاتھ میں دیں اور اسے کہیں سانپ سے ڈسواؤ توبہ کی امید پر گناہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے انجیکشن ہاتھ میں ہو اور خودسانپ سے ڈسوا لے۔وہ انجیکشن اثر کر ے گا یا نہیں سانپ تو اثر کرجائے گا۔یہ ظلم ہے زیادتی ہے اسے جہالت کہیں گے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔



انسان فرشتہ کیسے بن سکتا ہے

Watch Insaan Farishta Kaise ban sakta hai YouTube Video

مسلمان حکمرانوں کا کردار

Watch Muslman hukmrano ka kirdar YouTube Video