Featured Events


جمادی الاخری

Jamadi ul Ukhra - 1
Jamadi ul Ukhra - 2

شرک کا نتیجہ

Watch Shirk ka Nateeja YouTube Video

اللہ کا ذکر بندہ مومن میں حضوری کی وہ کیفیت پیدا کرتا ہے کہ وہ خود کو اللہ کے روبرو پاتا ہے


برائی کا ہر عمل، مزید برائی میں ڈبونے کا سبب بنتا ہے اورہر گناہ قلب انسانی پر ایک سیاہ داغ لگا دیتا ہے،جب شیطنت اختیار کی جاتی ہے توشیطانی وصف انسانوں میں بھی آجاتے ہیں اور پھر ایسے انسان شیطان کے معاون بن جاتے ہیں۔یاد رکھیں کہ انسانی قلب کی صفائی ذکر الٰہی سے ہی ممکن ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 
  انہوں نے کہا کہ بندہ جب برائی میں حد سے بڑھتا ہے تو اسے برائی اچھی لگنی شروع ہو جاتی ہے یعنی برائی ہضم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ بہت بڑی بد بختی ہے۔جب بندہ کے اعمال صالح نہ ہوں تو آخرت کے اثرات اسی دنیا میں آناشروع ہو جاتے ہیں۔اسی دنیا میں ہی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عزت و ذلت کا معیار وہ ہے جو قرآن کریم ارشاد فرما رہا ہے وہ نہیں جو اپنی ذات کے میعار کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہو۔ہم قرآن کریم کے ہوتے ہوئے زندگی کا میعار اپنی پسند سے کریں او ر اپنے فیصلوں میں تجاوز اختیار کریں اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے۔قرآن کریم اللہ کی یاد کا حکم فرماتا ہے اور اس میں بے شمار انعامات ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مومن کو وہ حضوری کی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اپنے اللہ کے روبرو ہونے کا یقین دل میں اتر جاتا ہے۔اور یہ احساس اسے کئی برائیوں سے بچا لیتا ہے۔
  آخر میں انہوں نے اولاد کی تربیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ کی گئی اور اسے کفر و شرک تک پہنچنے کے اسباب ختم نہ کیے تو یہ بہت بڑا جرم بن جائے گا۔جہاں ہم دنیاوی علوم کے لیے دن رات ایک کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی جان مال لگا رہے ہوتے ہیں وہاں دیکھنا یہ کہ کیا ہم نے اپنی اولاد کو دین کی تعلیم بھی دی۔ایسے اسباب اختیار کیے جن کے وسیلے سے ہماری اولا د دین کی تعلیم حاصل کر سکے۔حقوق وفرائض کی وہ تقسیم جو اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہم نے اپنی اولاد کو سکھائے آج ہم چاہتے کہ ہم جیسے مرضی زندگی بسر کریں لیکن ہماری اولاد نیک ہو،خود جھوٹ بولیں اور اولاد سے سچ کی امید رکھیں یہ خود سے دھوکہ ہے اولاد کی تربیت کے لیے خود کو والدین کو بھی بدلنا ہوگا اپنے کردار میں بہتری لانی ہوگی تب اولاد سے بھی امید رکھی جا سکتی ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Allah ka zikar bandah momin mein huzoori ki woh kefiyat peda karta hai ke woh khud ko Allah ke rubaroo paata hai - 1

جمہوریت کی حقیقت

Watch Janhooriat ki Haqeeqat YouTube Video

پاکستان میں تبدیلی کیسے ممکن ہے

Watch Pakistan mein Tabdeeli kaise mumkin hai YouTube Video

اظہار یکجہتی کشمیر اور ہمارا کردار


 آج کا دن ہم اظہار یکجہتی کشمیر کے طور پر منا رہے ہیں۔کہتے ہیں کشمیر کی مدد کرو،کس طرح مدد کرو؟ ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کرلو۔کوئی فوت ہو گیا، کیا کرو؟ اس کے لیے موم بتی جلا دو۔ یہ اصول کہاں سے لیے ہیں؟ غزوات و سرایا کوئی نہیں پڑھے۔ ریاست مدینہ کے قیام میں حالات کوئی نہیں پڑھے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی نظر جس طرف گئی اس پر جان مال اور اولاد قربان، آپ کی ذات تو بہت بلند ہے۔ کیسی کیسی تکالیف سے آپﷺ گزرے؟ہم کیا کہتے ہیں بولو نہیں دشمن مارے گا۔ بنیاد رکھتے ہو ریاست مدینہ کی۔ایسی صورت حال میں مدد بھی پہنچے گی حالات بھی بدلیں گے۔ ضرورت کیا ہے؟ اپنے پاؤں پر تو کھڑے ہوں اور اس کھڑے ہونے کے لیے نور ایمان چاہئے۔
  مخلوق خد ا کو انصاف دلانا جس قوم کے ذمے تھاوہ خود مظلوم ہے،اس پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اگر ہم اس تسلی میں بیٹھیں کہ وہ صرف وہیں تک رکے گا۔ اس کی مثال جنگل کی آگ کی طرح ہے۔ایک کونے میں جہاں سے آگ لگے گی وہاں سے جو کچھ ہے وہ تو جلے گا، باقی جنگل کے درخت یہ محسوس کریں کہ یہ آگ آگے نہیں آئے گی،ایسا نہیں ہے۔اللہ جانے کس رخ کی ہوا چلے اور وہ آگ کہاں تک بڑھتی چلی جائے؟ یہ وہ موضوعات ہیں جو ہم سمیت اور خصوصی مقتدر حصے جو ذمہ داران ہیں،ان کو دیکھ لیں۔ جب ہم سارے من حیث القوم اپنی اپنی حیثیت میں،اپنا وقت گزارنے کو دیکھیں گے کہ میرے پاس جو وقت ہے یہ اچھا گزر جائے تو ہم اپنی اولاد کو کیا دے کر جارہے ہیں؟نہ ہماری کوئی قدر سلامت رہی، نہ ہمارا کوئی اخلاق سلامت ہے اور نہ ہی دین میں کوئی اتفاق و اتحاد رہا۔ جب بھی کوئی بیماری اٹھتی ہے، اس کا جتنا بھی علاج کر لیں۔اس کے سبب کا علاج نہ ہو تووہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے تو جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں۔وہاں جاکر دیکھ لیں،وہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جہاں میں اور آپ مخاطب ہیں، یہاں انصاف کے تقاضے دیکھ لیں۔ اپنی زندگیوں میں انصاف دیکھ لیں۔ جہاں میرا اور آپ کا اختیار ہے۔ وہاں اپنے ایک ایک عمل کو جانچ کر دیکھ لیں۔ کیا ہم انصاف کر رہے ہیں؟ کیا ہم سچ بول رہے ہیں؟ کیا ہمارے معاملات انصاف کی گواہی دیتے ہیں؟جو جس حیثیت میں ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نظام ہستی میں چلا رہا ہوں۔مجھ سے کوئی نہ پوچھے۔گلوبلی دنیا کو دیکھیں تو پوری دنیا میں مسلمان امت کمزوری اور زوال کی طرف ہے جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے، ہم اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔اس اظہار کو دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے۔ایک وقت تھا جب مسلمان عددی حصے میں کم تھے اور غیر مسلم مظلوم کا مداوا کرنے کا سبب تھے۔آج عددی حصوں میں مسلمان قوم تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جبکہ کسی کا مداوا تو کجا خود مظلوم ہے۔کیا فرق ہے؟ اسلام۔ وطن عزیز کے کسی پہلو پر بات ہو، ہمارے کشمیری بھائیوں کی تکالیف کا اظہارہو،اس اظہار یکجہتی میں پوری پاکستانی قوم کایک زبان کھڑا ہونا، کوئی پہلو لیں۔ میں حیران ہوتا ہوں، امت مسلمان،ظالم، مظلوم، ساری بحث ہے۔لفظ اسلام پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ہم جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں یاجس راہ کو چل رہے ہیں۔ کاش ایک لفظ پر متفق ہو جائیں: اسلام۔اگر ہم عمومی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔زندگی میں کتنے زیروبم آتے ہیں؟ پسند و ناپسند کے کتنے پہلو آتے ہیں؟ کتنے ایسے پہلو ہیں جہاں انسان چاہ کچھ رہا ہے، اظہار کچھ کر رہا ہے؟ درکار کچھ ہے، مانگ کچھ اور رہا ہے؟ لیکن جب جہادبالنفس کی بات آئے گی تو اپنی ہر خواہش کو رب ِ کائنات کے حکم پر قربان کر دیا جائے گا۔ جہاں کلام ذاتی جہاد بالنفس کی تعلیم دے رہا ہے، جہاں ارشادات محمد الرسول اللہ ﷺ جہاد بالنفس کی نزاکت بیان فرما رہے ہیں۔وہاں ایسے حالات میں جہاد بالسیف کا بھی ارشاد فرمایا گیا ہے میں نے آج تک لفظ جہاد کا اظہار کسی کی زبان سے نہیں سنا۔ جب ہم اصل مرض پر نہیں جائیں گے تو دوا ممکن نہیں ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھے جو سن رہے ہیں وہ تلوار اٹھا لیں۔ اس کا بھی نظام ہے۔ اس ذمہ داری کا تعین اسلام فرماتا ہے۔ کس، کس کے ذمہ ہے؟ یاد رکھنا، جتنا کردار میرے ذمہ ہے اور جتنا کردار مقتدر حصوں اور عامۃ الناس سے لے کر آخری طاقت رکھنے والے بندے تک ہے۔جتنا،جتنا حصہ ہے، ان مظلومین کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب روز محشر سب کو دینا ہو گا۔آج ہم بچتے رہیں۔ فلاں ملک ناراض ہو جائے گا، فلاں قوم ناراض ہو جائے گی۔ اس سارے میں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ ہم پر جہاں ظلم نہ کیا گیا ہو۔ کتنے مہینوں سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے؟ جہاں کرفیو نافذ ہوتاہے، وہاں نقل وحرکت رک جاتی ہے۔ آ پ غورتو کریں؟ کتنے دن؟ وہاں دوا تو کجا کھانے کا نوالہ میسر ہے یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔کسی کی عزت کا لٹنا تو کجا، کسی کی عزت محفوظ رہی یا نہ رہی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں؟ 
یہ وطن عزیز بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اس کے اندر تقسیم در تقسیم ہمارے کردار نے کی ہے اور ایک چیز اور عرض کروں کہ کہیں کسی کا کوئی دشمن پیدا ہوتا ہے۔ دشمنی کا سبب بنتا ہے تو دشمنی ہوتی ہے۔ اس وطن عزیز کے دشمن،اس کے وجود میں آنے سے پہلے موجود ہیں۔ یہ سارا یہی نہیں ہے کہ ساری ہمارے بے عملی کے نتائج ہیں یا ہم خرابی کر رہے ہیں۔ ہماری بے عملی اور خرابی ہمیں اندھا کر رہی ہے۔ اپنے کردار کی خرابی تو ہے ہی جو لوگ باہر بیٹھے، اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں،ہم ان کے بھی آلہ کار بنتے جا رہے ہیں۔
 کشمیر کو کیا کہتے ہیں؟ جنت نظیر۔ جنت میں شیطان کا تصور نہیں ہے، وہاں شیطان نہیں ہے۔یہ جو جنت نظیر کہا جاتا ہے اور وہاں شیاطین بیٹھے ہیں؟یہ کیا ہے؟یہ ہماری بے عملی کے نتائج ہیں، ہماری عبادات کے سودے ہیں۔ وہ عبادات کے سودے، عبادات کو عبادات کے درجے تک نہیں پہنچنے دیتے۔وہ اسباب جو ہمارے عروج کے تھے، آج ہمارے اندر نہیں ہیں اور ان کا نہ ہونا ہمارے زوال کا سبب ہے۔دنیا میں جب آپ ظالم کو دیکھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ظالم مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا یعنی شکایت بھی نہیں کرنے دیتا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ جن اصول و ضوابط کو نبی کریم ﷺنے اختیار فرمایا۔ان اصول و ضوابط پر بات کوئی نہیں کرتا۔ دنیا کی بات کرتے ہیں اور جب دنیا کی بات کرتے ہیں تو دنیا میں ہم اتنے نالائق ہیں کہ جو اقوام ہم سے آگے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے بھی نہیں، مرہون منت ہیں۔ ان سے لے کر کھاتے ہیں۔ممکن نہیں ہے کہ کوئی بندہ مومن ہو جس کے سینے میں ایمان موجزن ہوجسے توکل علی اللہ نصیب ہوجو آخرت کو دیکھ کر جی رہا ہو۔اس کا راستہ بھی کوئی کاٹنے کی جرأت کر سکے۔
 حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وسط ایشائی ریاستوں کا ایک شہزادہ جس کی حکومت گر گئی، ملک محکوم ہو گیا، لیکن اس کے جو بھی بچے کھچے فوجی تھے ان کے ساتھ لڑتا رہا اور غالباً ہلاکوخان خود کمان کررہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ شہزادے کو قتل کیا جائے تا کہ بغاوت کا سر ہی ختم کیا جائے۔وہ لڑتے ہوئے اٹک کے دریا تک پہنچ گیا۔اٹک کے دریا پر پہنچنے پر شہزادے کا کوئی چارہ نہ رہا، سپاہی اس کے شہید ہو گئے تو اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔جب دریا میں گھوڑا ڈال چکا تو تاتاری بھی کنارے پر پہنچ گئے۔ انہوں نے کمانیں کھینچیں تو ہلاکو خان نے کہا ’’کمانیں نیچے کر لو اس پر اب کوئی تیر نہیں برسائے گا‘‘ کیوں؟ دوسری طرف سلطان التتمش کی حکومت تھی۔ اگر وہ اس بات پر اکڑ گیا کہ میری سرحد پر تو نے ایک فرد کو مارا ہے تو اسے ہم روک نہیں سکیں گے۔وہی تاتاری تھے جو سروں کے مینار بنا رہے تھے۔ جن کو خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دریا،دو ممالک کی سرحد تھی۔ ملکیت ادھر کی ہی نہیں تھی۔ جرأت نہیں ہوئی ادھر کے بندے پر جس سے لڑائی ہو رہی ہے۔ جوان سے بھاگ رہا ہے کہ اس پر تیر بھی برسائیں۔کیوں؟ انہوں نے ملک تعمیر کیے تھے۔کن بنیادوں پر تعمیر کئے تھے؟  جن بنیادوں پر ریاست مدینہ نبی کریم ﷺ نے تعمیر فرمائی۔ زبانی نہیں۔ 
رب کریم فرما رہے ہیں وَکَذَّبَ  بِہٖ  قَوْمُکَ  وَھُوَ الْحَقُّ ط قُلْ  لَّسْتُ  عَلَیْکُمْ  بِوَکِیْلٍ  (اَ لْاَنْعَام: 66) (ترجمہ اکرم التراجم)ــ  ’’اوراس (قرآن)کوآپ کی قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سچ ہے۔فرما دیجئے میں تم پر داروغہ نہیں ہوں‘‘   یہ قانون ہے۔ جب جب یہ آئے گا حق سے دوری ہو گی۔حق سے دوری ظالم بھی پیدا کرے گی اور جب ظالم پیدا ہوں گے تو مظلوم بھی ضرور ہوں گے اور اس کے حل کے لیے کیا واپس حق پرنہ جایا جائے؟ اسلامی اصولوں سے کیوں گھبراتے ہو؟ کیا جن کا ڈر ہے،وہ ملک الموت کو روک لیں گے؟ کیا جن کا ڈر ہے، اگر اللہ کو زندگی مقصود ہوئی تو یہ موت دے دیں گے؟کیا جن کو دیکھ کر بہشت کی باتیں کرتے ہو؟ریاست مدینہ کی مثال ہم دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ وہاں صحابہ کرام نے پیٹ پر پتھر بھی باندھے لیکن بات انصاف کی، کی۔ بات اس اصول کے تحت کی گئی جو رب کائنات نے ارشاد فرمائے  وَکَذَّبَ  بِہٖ  قَوْمُکَ  وَھُوَ الْحَق یہ ارشاد محض اس وقت تک کا نہیں ہے۔ ایک قوم تک کانہیں ہے اور یہ  قوموں کافرمان ہے۔ جو بھی ارشادات باری تعالیٰ پرعمل کرے گا۔ اس ارشاد کے تحت کسی نہ کسی درجے میں آپ بھی قوم میں شامل ہو جائیں گے۔آج بھی اپنے اپنے درجے کے مطابق آپ ﷺ کا جو اقرار کرے گا، قوم میںشامل ہوتا چلا جائے گا   وَھُوَ الْحَقُّ  تو بھائی ہٹ کر دیکھ لو۔ ہم ہٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ پلٹ کر دکھ لوبہتری آتی ہے کہ نہیں آتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں جا کر دیکھ لیں۔ جہاںمیں اور آپ مخاطب ہیں۔یہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہ جو کلام ذاتی بیان فرما رہا ہے، یہ فرق ہے۔ اللہ کریم ہمیں ایمان کی یہ صورت عطا فرمائے کہ ہماری سیرت کے ایک ایک ریشے تک یہ جذب ہو اور یہی ایک ہماے مسائل کا حل ہے۔
          میرا بھی نام ہے میں ہوں غلام آقا کا     میں ان کے زیر قدم ہوں میں بے مقام نہیں
مضبوطی کیا ہوتی ہے؟وہ یکجہتی سے آتی ہے۔ اگر آپ غور کریں ہمیں قوموں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور دعویٰ ایمان کے ساتھ ہمیں پھر قومی طور پراس درجے تک تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ہم باہم دست وگریبان ہوگئے ہیں تو ضرورت ہے اتفاق کی،اتفاق حاصل کرنے کی کیا صورت ہوگی؟جب ہم اپنا فرض کی ادائیگی کو دیکھیں گے، جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ اس اتفاق اور اتحاد میں اور مزید کیا ضرورت پیش آئے گی؟ یہ ملک میرا ہے۔ اس ملک کے ادارے چاہے وہ کسی صورت میں ہیں۔آرمی کی صورت میں ہے، عدلیہ کی صورت میں، پارلیمنٹ کی صورت میں ہے۔ وہ کیا ہیں؟وہ میرے ہیں۔ یہ عوام میری ہے، یہ لوگ میرے ہیں،یہ دعویٰ ہم میں سے ہر پاکستانی کا ہو۔ جب سب کچھ میرا ہے جو میرے ذمے ہے، اپنے ان پیاروں کی ادائیگی کے لیے، بہتری کے لیے جو میرا ذمہ ہے۔کیا وہ کوئی اور آکر ادا کریں گے؟ یہ تو وہ حالات ہیں جو دنیا کے ہمارے سامنے ہے۔ ہماری کمزوریاں، ہماری خطائیں،اللہ ہمیں معاف فرمائے۔لیکن دنیا میں سارا کچھ ایسے ہی نہیں ہے،جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ رات دن اور صبح بے شک رہے ایک نظام ہے۔ حقیقی نظام تقوینی نظام سے ہے جو منجانب اللہ فیصلے ہیں۔ من جانب اللہ فیصلوں میں نبی کریم ﷺ کی بشارت ہے کہ غزوۃا لہند ہو گااور غزوۃ الہند آپ ﷺ کی بنفس نفیس اس درجے کی شرکت،توجہ نصیب ہو گی کہ آپ ﷺ نے اسے غزوہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اس میں جو مجاہد شریک ہوں گے شہدا ء یا غازی،قیامت کے دن ایسے خوش بخت ہوں گے کہ ان سے حساب نہیں لیاجائے گا۔ خیرالقرون سے ہمارے اجداد کے مدفن اس خطے میں ملتے ہیں۔کس لیے؟کہ نبی کریم ﷺ نے اس غزوے کا ارشاد فرمایا ہے، تب سے لوگ چل رہے ہیں۔ اس آلاؤ کو اور آگ دو اور حدت پیدا کرو۔ ہمیں گھبراہٹ نہیں ہے، ہمارے تو اجداد اسی انتظار میں دفن ہوتے آئے ہیں، ہمیں بھی انتظار ہے کہ اللہ ہمیں نبی کریم ﷺ کے حکم پر غزوۃالہند کا مجاہد بنائے۔ اس میں ہماری جانیں جائیں۔ ہماری گردنیں اڑیں۔
اے میری قوم! آپ کو نبی کریم ﷺ نے بشارت بیان فرمائی ہے،اپنے اس رشتے کو جانو۔اگر بائیس کروڑ ہم ہیں تو بائیسواں کروڑواں پاکستان کا یہ حصہ میرے پاس بھی ہے۔اس کی تعمیر میں،میں نے کتنا کردار ادا کیا ہے؟ اللہ کریم ہمیں توفیق عمل عطا فرمائے۔ یہ زندگی شکرگزاری کی صورت میں، حقیقت کے ساتھ ادا کرنے کی اور اسے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔ ہمیں باعمل مسلمان بنائے۔ ہمارے کشمیری بھائی جو ظلم و ستم سہہ رہے ہیں انہیں صبر و حوصلہ دے، طاقت دے۔ان ظالموں کو اللہ کریم اپنے انجام تک پہنچائے۔ اللہ کریم دنیا بھر کے مسلمانوںکواس امتی کے رشتے کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آئیں اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ کوئی کیا کرے؟ اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ میرا اللہ راضی ہو، اس لیے کہ یہ تعلیم فرمائی ہے نبی کریم ﷺ نے اس لیے کہ اس کے نتائج روز محشر میں نے، آپ نے، ہم سب نے دیکھنے ہے۔

حضرت جی مد ظلہ العالی کی بیعت کا خوبصورت واقعہ

Watch Hazrat Jee MZA ki Bait ka Khubsoorat Waqia YouTube Video

حق میں عطا ہے

Watch Haq main Ata hai YouTube Video

جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے


اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ عبادات کو بھی رسم و رواجا ت کی نذر کر دیا ہے اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم اس سارے عمل کو غلط بھی نہیں سمجھ رہے۔جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب !
انہوں نے کہا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ مذہب کے نام پر جو رواجات کافر و مشرک اختیار کرتے تھے کہ کسی فصل،جنس یا جانور کے حصے کیے جاتے تو اس میں کچھ حصہ مہمانوں کا،کچھ حصہ بتوں کا اور کچھ حصہ اللہ کے نام کا مقرر کرتے،جس نے عطا فرمایا اس میں سے اسی دینے والے کا حصہ مقرر کر رہے ہوتے اور پھر اس اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ شرک بھی کرتے۔اگر کوئی اس جرم کے ساتھ اس دارِ دنیا سے چلا گیا تو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی اپنے مقدر میں کر لی۔اور اس کی کوئی امید نہیں ہے کہ اس کی کوئی بچت ہو گی۔یاد رکھیں کہ حق میں عطا ہے اور بندگی حاضر باش ہونے کے مطابق ہوتی ہے۔اور باطل میں سودا ہے۔انہوں نے اپنے بت اپنے مختلف کاموں کے لیے تراش رکھے ہوتے تھے۔یہ سب اپنی خواہشات کی تکمیل ہوتی تھی۔یہ سب سودے بازی ہوتی۔کہ ہم فلاں بت کی پو جا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ میری حفاظت کرتا ہے دوسرے بت کو اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں رزق دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام ایسا دین برحق ہے کہ کسی شعبے میں بھی تشنگی نہیں چھوڑتا۔آج ہم نے اسوہ رسول ﷺ کو چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس وقت معاشرے میں ہر قسم کی برائی در آئی ہے۔یہ سب ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی دعا فرمائی
Jab haq ko chore diya jaye to insaan khwahishaat nafs ki pooja shuru kar deta hai - 1

جہیز کا فلسفہ

یہ جملہ درست نہیں ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ادھار لے کر جہیز دیں۔ ہم دونوں طرف  افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ایک طبقہ کہتا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے،ایک طبقہ جہیز میں اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لئے قرض لیتا ہے   حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اعتدال ہے، توازن ہے۔ کائنات کاسارا نظام، یہ زندگی موت،یہ گرمی سردی، یہ رات دن،ہر چیز میں ایک اعتدال ہے،ایک توازن ہے۔یہ سارے ستارے سیارے،زندگی توازن سے قائم رہتی ہے۔عدم توازن،زندگی کو ڈسٹرب Disturbکرنے کی طرف لے جاتا ہے۔جہیز میں بھی توازن ہے۔ 
نبی کریم ﷺنے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ  کو جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم کے نکاح میں دیا تو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی چیزیں آپ ﷺنے انہیں عطا فرمائیں۔پانی کے لئے ایک مشکیزہ عطافرمایا،اس عہد میں مشکیزے ہوتے تھے۔جہیز میں آٹابنانے کے لیے ایک چکی عطا فرمائی۔اسی طرح ایک بستر،ایک تکیہ،گدایااس طرح کی کچھ چیزیں عطا فرمائیں۔جومادّی چیزیں اس وقت خانہ نبوی ﷺ پر موجود تھیں۔یہ نہیں کہا کہ میں توپوری انسانیت کا نبیﷺ ہوں،اللہ نے مجھے سب سے افضل بنایاہے تو پھر میرا جہیز بھی بے مثل وبے مثال ہو،بولا نہیں۔جو مادّی چیزیں آپﷺ آسانی سے اپنی بیٹی کو دے سکتے تھے،و ہ ضرور دیں۔بعد میں انہیں رہنے کے لیے اپنے حجرات مبارکہ میں سے ایک حجرہ مبارک بھی عطا کردیا۔جہاں روزہ اطہرﷺ ہے، اس کے پیچھے وہ حجرہ مبارکہ ہے جس میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ رہتے تھے۔یہ حجرات نبیﷺ میں سے تھا۔آپ نے شادی کے بعد عطا فرمایا، یعنی جہیز پر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر بعد میں بھی اولاد کی مددکر سکتے ہیں تو بچیوں کا حق بنتا ہے۔جس طرح ہم بیٹوں کا دھیان رکھتے ہیں اور زندگی بھر مدد کرتے ہیں لہٰذا بیٹیوں کا بھی وہی حق ہے۔ حضور ﷺنے شادی کے بعد حجرہ مبارک بھی عطا کردیا تو ایک معیار بن گیا کہ جو چیز یں اپنی حیثیت کے مطابق ضروریات زندگی کی ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو دے سکتے ہیں۔اگرآپ زیور اچھا دے سکتے ہیں اور آپ کسی سے ادھار لینے پر مجبور نہیں ہیں تو ضرور دیں،وہ ایک سرمایہ ہے یعنی زیور صرف زینت ہی نہیں ہوتی،یہ ایک Balanceہے کہ اس کے پاس کچھ پیسے ہوں،ضروریات زندگی کی چیزیں، لباس کی قسم سے،ضرورت کے برتنوں کی قسم سے،آپ دیتے ہیں تو ضرور دیں لیکن یہ شان وشوکت کے اظہار کے لئے نہ ہوجس کی جتنی حیثیت ہے اس کے مطابق اسے دے اوریہی نہیں ہے کہ جہیز دے کر فارغ کردیا پھر ان کی وراثت میں بھی کوئی حصہ نہیں رہا، نہیں یہ نہیں ہوتا۔ہم نے ایسے زمیندار قسم کے لوگ بھی دیکھے ہیں جواپنی بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ نہیں دیتے کیونکہ ان کی بیٹی اپنے حصے کا مال جہیزکی صورت میں لے جا چکی ہے۔بھائی! جہیز آپ نے جائیداد کا حصہ تقسیم کر کے تو نہیں دیاتھا۔وہ تو آپ نے اپنی شان وشوکت کے لیے،اپنا نام بنانے کے لئے، بہت بڑا جہیز دیا تھا۔ والدکی وفات پر جائیداد میں مقرر شدہ حصہ یعنی بچے کی نسبت آدھا اسے ملے گا، جائیداد میں بھی ان کا حق ہے،وہ انہیں دی جانی چاہئے۔مکان ہے،زمین ہے،کوئی غیر منقولہ جائیداد جو کچھ بھی ہے اس میں بھی ان کا حصہ برقرار رہتا ہے۔ ہم افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں کچھ لوگ تو بلکل اس کے خلاف چلے جاتے ہیں کہ کچھ دینا ہی نہیں چاہئے اور کچھ لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ میری بڑی شان وشوکت ہو گی۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا اور اپنے اوپر بوجھ بنانا بھی ناجائز ہے۔ کس کی شان نبی کریم ﷺ کی شان سے میل کھاتی ہے؟جب آپ ﷺنے اسے اپنی آنر Honourکا سبب نہیں بنایابلکہ ضروریات زندگی کی جو چیزیں کاشا نۂ نبویﷺ پر موجود تھیں،وہ عطا کر دیں۔ اس میں توازن چاہئے۔ ہر بندے کی ایک مالی حیثیت ہے ہر بندے کی ایک قوت ہے، دینے یا نہ دینے کی۔ اس کے مطابق دے۔
اس سلسلے میں شادی کرنے والے یعنی سسرال یا دولہا کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جہیز میں گاڑ ی بھی ہو، جہیز میں وہ چیز بھی ہو۔وہ شرط نہیں لگا سکتے،جورواج آج کل ہے کہ شرط لگائی جاتی ہے۔جہیز میں گاڑی بھی آئے،ہمیں وہاں سے بھی حصہ ملے،ہمیں نقد بھی اتنا چاہئے، نہیں۔ یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ان کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جتنے بھی حقوق ہیں وہ بیٹی کے ہیں اور والد کے ہیں۔اس کے سسرال والے، یادامادکا حق نہیں ہے کہ وہ مطالبہ لے کر بیٹھ جائیں کہ آپ اتنے امیر ہیں۔ مجھے وہ بھی دیں، مجھے وہ بھی دیں، یہ ناجائز ہے۔انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ بہو کودنیاوی ا عتبار سے اور دینی اعتبار سے پرکھ لیں۔ باعمل ہے باکردار ہے،شریعت کے دائرے میں رہنے والی ہے، نیک ہے۔اس کے بعد باپ کا اور بیٹی کا معاملہ ہے،اس میں ان کا کوئی لین دین نہیں۔ خاوند اگر کہہ دے کہ مجھے جہیز میں کچھ نہیں چاہئے توکوئی حرج نہیں،یہ بہت اچھی بات ہے۔
 اسی طرح بیٹی جو جہیز لے کر جاتی ہے یا جو اس کا حق مہر مقرر ہوتا ہے، اس کا ذاتی حق ہے۔جب نااتفاقی ہو جاتی ہے اورنوبت طلاق تک چلی جاتی ہے تو اس کا جو مہر ہے اورجہیز کی جو ذاتی چیزیں وہ ساتھ لائی ہے۔ اس کا حق ہے وہ لے جاسکتی ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں  وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ  نِحْلَۃً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْءٍ  مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓءًا مَّرِیْٓءًا (النِّسَآءِ:4)کہ اگر عورت معاف کردے،بے شک مہر بھی معاف کردے،جو جہیزلائی ہے وہ بھی معاف کردے،تو بندہ آرام سے لے سکتا ہے۔ وہ معاف نہ کرے تو طلاق دینے والے کوچاہیے کہ پہلے اس کا مہر ادا کرے۔جو چیزیں اس کی ذاتی ہیں، جو اپنے والد کی طرف سے ساتھ لائی ہے، وہ واپس کرے اور خوبصورت اوراچھے طریقے سے طلاق دے۔ایسے طریقے سے نہیں کہ آئیندہ کے لیے تعلقات میں دشمنی کی بنیاد بن جائے۔ ایک مجبوری ہے کہ ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے۔مزاج نہیں ملتے، خیالات نہیں ملتے،کردار نہیں ملتا،سوچوں میں فرق ہے،کوئی بھی وجہ ہو، ایسی وجہ ہے کہ ہم زندگی بھر اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ جس کا اظہارشادی کے بعد ہوا تو اس کا حل طلاق ہے۔حالانکہ اللہ کے نزدیک جائز اور حلال کامو ں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔لیکن زندگی کو عذاب بنانے کے بجائے طلاق دینا مناسب ہے یا تو اتنی برداشت ہوکہ اسے برداشت کرلے تو اس کا اجر الگ ملے گا۔نہیں کر سکتا تو پھر طلاق دے دے لیکن طلاق پر دشمنی نہ بنائے، اس میں بھی خوبصورتی ہے۔ارشاد بار ی تعالیٰ ہے کہ  وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ   مَتَاع’‘م  بِالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (الْبَقَرَۃ:241) جوجواس کا حق ہے، وہ اسے دے کر خاوند کچھ اپنی طرف سے بھی دے کہ بھئی ہم تم جدا ہورہے ہیں، میرے پاس دس لاکھ ہیں، پانچ لاکھ تم لے جاؤ تاکہ وہ کام جو بڑا ناپسندیدہ اور خراب ہے،جس پر ناراضگی یا دشمنی کی بنیاد بنتی ہے،کم از کم دوستی نہ رہی تو دشمنی بھی نہ بنے۔احسن طریقے سے عزت کے ساتھ اور طلاق میں یہ بھی ہے کہ اسے پھر لٹکائے نہ رکھو کہ اس کی زندگی عذاب کردو۔ وہ کہتے ہیں ہم نے ڈھنگا تو ڈالا ہوا ہے، گھر میں آباد نہیں ہے لیکن اب دوسری شادی تو نہیں کرسکے گی۔ یہ جائز نہیں ہے یاتو احسن طریقے سے گھر میں رکھو یا آزاد کردوپھر وہ بیٹی کا اپنا مال ہے جو اس کے والدین نے اسے دیا تھااور جو اس کا حق مہر ہے۔ہاں وہ سارا معاف کردے تو خاوندکا ہے کھائے موج کرے۔اس میں عورتوں کے لیے بھی قائدہ یہ ہے کہ وہ فراخ دلی سے کام لے اور دلائل سے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں بھئی یہ یہ ہم میں فرق ہے۔ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے اور چونکہ ہماری سوچوں میں، ہمارے کردار میں، ہمارے قول میں، گفتار میں یگانگت نہیں ہے تو یہ ساری زندگی کا عذاب، میں تمہارے لیے درد سر، تم میرے لیے فتنہ۔تو اس مصیبت سے بچنے کے لیے کہ آؤ ہم الگ ہوجائیں۔یہ ایک راستہ ہے لیکن حسن سے، اچھے طریقے سے الگ ہوں کہ آگے وہ دشمنی میں تبدیل نہ ہو۔ایسے میں دونوں سمجھوتہ کر کے ساتھ رہتے ہیں،اگر بیوی کی طرف سے زیادتیاں ہوتی ہیں،ناپسندیدہ حرکات ہوتی ہیں اورشوہر برداشت کرتا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے۔اس کا عنداللہ بہت بڑاثواب ہے۔
مرزا مظہر جان جانانؒ شہید دہلی کے نامور صوفیاء میں سے اور بہت پائے کے اولیاء اللہ اور بہت نازک مزاج تھے۔اس قدر نازک مزاج تھے کہ ان کے سامنے دوسرا بندہ اگر بے تحاشا کھاناکھارہا ہے تو ان کا دیکھنے سے پیٹ خراب ہوجاتا، نزاکت کی حد ہے۔ان کی اہلیہ محترمہ (اللہ اس پر بھی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے) سخت مزاج تھی، بڑا، بھلابراکہتی تھیں اور چلاتی تھیں۔ان کا ایک افغانی مرید تھا، اسے انہوں نے گھر سے کوئی چیز لانے کا حکم دیا۔ اس نے دروازے پر دستک دے کرعرض کی اماں جی! حضرت جی فلاں چیز مانگ رہے ہیں تو وہ بھڑک اٹھیں، انہوں نے حضرت کو بھی اور مانگنے والے کو بھی صلواتیں سنائیں۔ وہ بھی ولائتی پھٹان تھا،اس نے کہا میں حضرت سے پوچھ کرآتا ہوں میں تمہیں گولی مارد دں گا۔ جب اس نے ساری بات عرض کی توآپ نے فرمایاتم آج تھوڑی دیر کے لیے گئے ہو تو اتنے گرم ہو رہے ہو، میں اپنی اس نازک مزاجی کے باوجود اسے عمر بھرسے برداشت کر رہا ہوں۔ کسی نے عرض کی حضرت آپ کی تو نازک مزاجی؟ فرمایا یہ میری ترقی درجات کا سبب ہے،میرے منازل میں ترقی ہوتی ہے، کیفیات میں ترقی ہوتی ہے میں جب برداشت کرتا ہوں۔
 بندہ اگر برداشت کرتا ہے تو بہت بڑے درجات عطا ہوتے ہیں۔آج اسی چیز کی ہماری ضرورت ہے،آج ہم میں قوت برداشت ہی نہیں رہی۔ میں حیران ہوتا ہوں،جی حادثہ ہوگیا بس نے رکشے کو ٹکر مار دی۔اب جو بڑا ہے جرم اس کے ذمے ہے۔یہاں تک کہیں گے ریلوے نے ٹرک کو ٹکر مار دی، اب ریلوے تو پٹری سے اُترتی نہیں۔یہ کوئی نہیں کہے گا کہ اس نے کار پٹری پر کیوں چڑھائی؟ کہیں گے ریل نے کار کو ٹکر ماردی،ریل کا اس میں کس کا کیا قصور؟ قصور تو اس کار کا ہے جو پٹری پر جاکر کھڑی ہو گئی۔کل کی خبر تھی کہ رکشے کو ٹکر لگی، دو بچے مر گئے، لوگوں نے بس جلا دی۔اللہ کا خوف کرو،بس جلانے سے کیاوہ بچے زندہ ہو گئے؟ یاکیا رکشہ ٹھیک ہوگیا؟ وہ قوتِ برداشت  Patience  ہی نہیں رہی۔بس پتہ نہیں کس کی تھی؟ چند سو کا ملازم، بس کا ڈرا ئیورچلا رہا ہے۔ جس کی بس ہے، اس نے ماں کے، بیوی کے زیور بیچ کر بس کی ابھی آدھی قسطیں اس نے دینی ہونگی۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟ چلان تو ڈرائیور کا ہوتا ہے، بس کا تو کوئی قصورنہیں۔غلطی تو ڈرائیور کی ہے ہم میں قوتِ برداشت ہی نہیں رہی۔