Featured Events


بندہ انسانیت کے کمال تک پہنچ ہی تب سکتا ہے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔


معاشرے میں معاونت اور مددگار کا کردار تب ہی ادا ہو سکتا ہے جب بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہو۔بندہ انسانیت کے کمال تک پہنچ ہی تب سکتا ہے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ہمیں بحیثیت مجموعی خیالات کی دنیا سے نکل کر عملی طور پر زندگی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
فرائض نبوت کا بنیادی حصہ قرآن کریم کی تعلیمات ہیں۔نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کی آیات پڑھ کر لوگوں کو سنائیں ان کے معنی اور مفاہیم اللہ کے بندوں تک پہنچائے ہمیں بتایا کہ کن باتوں سے اللہ کریم خوش ہوتے ہیں کون سی باتیں اللہ کریم کی نارضگی کا سبب بنتی ہیں۔جب اللہ کریم کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے گی یہی زندگی ہو گی لیکن سوچ بدل جائیگی،ترجیحات بدل جائیں گی،رویے بدل جائیں گے، ایثار نصیب ہوگا ایک دوسرے کی معاونت ہو گی،حقوق وفرائض کی فکر ہو گی۔ہمسایوں کے حقوق یاد رہیں گے،رشتوں کا تقدس پامال نہیں ہوگا،ایک دوسرے کا لحاظ ہوگا،معاشرہ جنت جیسا ہو گا۔بندہ انسانیت کے کمال تک پہنچ ہی تب سکتا ہے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا لندن میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کی محبت قابل دید ہے اور میں اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔آپ مجھے اپنے درمیان پا کر جو خوشی محسوس کر رہے ہیں مجھے اپنے آپ کو آپ لوگوں کے درمیان ہونے سے آپ سے بھی زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔اللہ کریم نے اپنا نام جگہ جگہ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اللہ کے نام کی صدائیں لگانے کی جو توفیق ہوئی اس کا ثمر آپ لوگوں کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔ ہم سب اللہ کے نام پر جمع ہوئے ہیں اللہ کریم سب کی کاوشیں قبول فرمائیں۔بندہ مومن جس معاشرے میں بھی رہ رہا ہو اس کی ذات سے خیر اور بھلائی ہی معاشرے کو ملتی ہے جہاں بھی کوئی ہے معاشرے کے لیے اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کرتے رہیے۔
یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان کینڈا،امریکہ اور انگلینڈ کے روحانی دورہ پر ہیں جہاں مختلف شہروں میں انہوں نے لیکچر دئیے اور تصوف او ر ذکر الٰہی سے لوگوں کی تربیت فرمائی۔واپسی پر ان کا آج لندن میں بعثت رحمت عالم ﷺ کے موضوع پر پروگرام تھا۔اس پروگرام کے بعد آپ کی وطن عزیز واپسی ممکن ہے
Bandah insaaniyat ke kamaal tak pahonch hi tab sakta hai jab Allah aur Allah ke rasool SAW ke hukum ke mutabiq zindagi busr kere ga . - 1

نماز مستحکم معاشرے کے قیام کا سبب بنتی ہے


نماز کی ادائیگی زندگی میں نظم و ضبط،آپس کی ہم آہنگی،بھائی چارہ اور بندہ مومن کو مثبت کردار ادا کرنے پر لے آتی ہے۔نماز مستحکم معاشرے کے قیام کا سبب بنتی ہے۔محبت اور شفقت کو فروغ دیا جائے اور آپس کی تلخیاں ختم کرنی چاہیے۔عبادات کی شرف قبولیت ایمان کو تقویت دیتی ہے اور ایمان کی قوت ہمارے اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے۔نماز زندگی کو ایسے حدود وقیود میں لے آتی ہے کہ بندہ کے ظاہر اور باطن کو تقویت ملتی ہے اور معاشرے کو ایک کامل مسلمان ملتا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا ہیعرو سینٹرل مسجد لندن میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب 
  انہوں نے کہا کہ دین اسلام کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جن سے ہمارے معاشروں میں تربیت ہو رہی ہے۔اگر اس میں ہم مزاج یا اپنی پسند داخل کریں گے تو پھرہم معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔جب پوری زندگی اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ سے مزین ہو جائے تو ساری زندگی رکوع و سجود میں شمار ہو جائے گی۔
  نماز کی فضیلت پر انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں کوئی مسئلہ بھی پیش آ جائے اللہ کریم فرماتے ہیں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔نماز ادا کرنے سے صبر اور حوصلہ حاصل ہوتا ہے جس سے ہماری زندگیوں میں اعتدال آتا ہے۔کامیابی نصیب ہوتو اس کا شکر ادا کرو کہیں ناکامی کا سامنا ہے تو صبر اختیار کرو۔یہ دنیا امتحان گاہ ہے تادم واپسی ہر کوئی امتحان میں ہے جب دنیا کا وقت ختم ہو جائے گا تب یہ امتحان بھی ختم ہو جائے گا پھر جزا و سز ا کا میدان سجے گا۔آج وقت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے مطابق بسر کریں۔
  یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان کینڈا اور امریکہ کے دورہ سے واپسی پر لندن پہنچے جہاں انہوں نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کیا اس کے بعد بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس میں خطاب فرمائیں گے۔
Namaz mustahkam muashray ke qiyam ka sabab banti hai - 1

جمعہ بیان

Watch Jumma Beyan YouTube Video

بعثت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس

Watch  Baisat Rehmat e Alam SAW Confirence  YouTube Video

بندہ مومن کے پاس اس جہان فانی میں جو سب سے قیمتی شئے ہے وہ یہ زندگی اور اس کی ساعتیں ہیں


نور بصیرت اور راہ ہدایت کو پا لینے سے اس کی اہمیت کا اندازہ ممکن ہو تا ہے۔اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ میں نے مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ انہی میں سے رسول ﷺ مبعوث فرمایا۔اتنی تکلیفیں اور درد سہے پھر بھی انکار کرنے والوں تک حق پہنچایا اور اس کے بعد ایمان لانے والوں کا تزکیہ فرمایا کہ جو آپ ﷺ کی بات کا زبان سے اقرار کر رہا ہے اس کا نہاں خانہ دل بھی اس کو تسلیم کرے۔شعبہ تصوف میں اسی لیے قلب پر محنت کرائی جاتی ہے کیونکہ وہ برکات جو قلب اطہر ﷺ سے آ رہی ہیں وہ سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچتی ہیں ان برکات کا حاصل یہ ہے کہ ہر عبادت میں بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسو س کرے۔ 
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  بالٹی مور میری لینڈ مدینہ مسجد میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہر جگہ حق موجود ہے راہنمائی موجود ہے اگر طلب سچی ہوتو کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔یہ شان رسالت ﷺ ہے  یہاں کوئی جگہ کی،قوموں کی اور زمانوں کی قید نہیں ہے۔تعلیمات نبوت ہوں یا برکات نبوت قیام قیامت تک حق موجود رہے گا اور راہنمائی بھی میسر رہے گی۔انسانی معاشرے میں حقوق و فرائض اور حدودو قیود کی تقسیم،طاقتور کوضابطے میں رکھتی ہیں اور کمزور کی حفاظت کا سبب ہوتی ہیں۔انسان کے بنائے گئے قوانین ہر کچھ عرصہ کے بعد تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔کیونکہ انسان کی بنائی گئی ہر چیز میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔جو قوانین ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عطا فرمائے ہیں قیامت تک ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ہر جگہ پر قابل عمل ہیں۔بیت اللہ شریف تجلیات ذاتی کا مرکز ہے۔جتنا کوئی اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ سے باہر جائے گا اتنی گمراہی ہوگی۔اتنا ذاتی نقصان بھی ہوگا اور معاشرے کا بھی۔اللہ کریم نے ہر ایک کو زندہ رہنے کا اور مذہب اختیار کرنے کا حق دیا ہے۔
 حالانکہ ہر کوئی اس کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے اس کی زمین پر رہ رہا ہے لیکن یہ دائمی نہیں وقتی ہے ایک دن آئے گا جب سب کا اس کے حضور حساب دینا پڑے گا۔جب بھی اپنا جائزہ لیں قرآن و سنت کے مطابق جائزہ لیں قرآن و سنت ہمیں آپس میں محبت کرنا سیکھاتی ہے۔ایک دوسرے کا احترام بڑھے گا۔اختلافات تعمیری ہوں گے تخریبی نہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
 ٰٰٓیادرہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کینڈا اور امریکہ کے روحانی دورہ پر ہیں جہاں کینڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں میں لیکچر دے رہے ہیں اور ذکر قلبی سکھا رہے ہیں۔اس کے علاوہ بعثت رحمت عالم ﷺ کے عنوان پر منعقد کانفرنسز میں بھی ان کے لیکچر جاری ہیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحا دکے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Bandah momin ke paas is Jahan faani mein jo sab se qeemti shye hai woh yeh zindagi aur is ki saaetein hain - 1

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

ہماری عبادات یا نیک اعمال کی شرف قبولیت کی دلیل یہ ہے کہ زندگی قرآن وسنت میں ڈھلتی چلی جاتی ہے


انسانی جسم میں قلب وہ مقام ہے جہاں پر دوست بھی بستے ہیں اور دشمن بھی،محبت اور نفرت دونوں فعل دل کے ہیں۔ہمارے تمام اعمال کی بنیاد بھی قلب انسانی ہے کیونکہ نیت یاکسی کام کو کرنے کا ارادہ بھی دل کا فعل ہے کہ کون سا عمل کس نیت سے کر رہے ہیں پیچھے مقصد کیا ہے؟
 اگر ہم اس دل میں جہاں بہت سے لوگ آباد ہیں جن میں دوست بھی شامل ہیں اور دشمن بھی یہاں ایک مسجد بنا لی جائے جس سے اللہ کے نام کی صدائیں بلند ہوں اور ہمیں احساس ہو کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہوں اپنے ہر کام کو نبی کریم ﷺ کے اتباع میں کریں جب دل بدلتا ہے جب دل میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت آتی ہے تو بندہ مثبت فیصلے کر تا ہے پھر بندے کے اعمال و کردار نبی کریم ﷺ کی سنت میں ڈھل جاتا ہیں اسی لیے صوفیا ساری محنت قلب پر کراتے ہیں۔جب ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہوگا نا کہ اپنی ذاتی خواہش یا شہرت کے لیے پھر اس کی قبولت بھی ہوگی۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا سان فرانسسکو میں خواتین و حضرات سے خطاب۔
  انہوں نے مزید کہا کہ حق کو تلاش کرنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے نہاں خانہ دل میں دیکھو کیا واقعی حق کی تلاش چاہتے ہو؟ تمہیں بس خالص ہو کرنیت کرنی ہے وہ تمہارے لیے کئی راستے کھول دے گا۔انابت شرط ہے۔وہ کائنا ت کا رب ہے ہر ایک کی ہر ضرورت ہر وقت پوری فرماتا ہے یہ بھی وہی پوری فرمائے گا ہمیں بس ارادہ کرناہے۔جب احکامات کے مطابق بندہ عمل کرتا ہے پھر بندگی نصیب ہوتی ہے۔ہماری عبادات یا نیک اعمال کی شرف قبولیت کی دلیل یہ ہے کہ زندگی قرآن وسنت میں ڈھلتی چلی جاتی ہے اور خلوص میں ترقی نصیب ہوتی ہے۔لیکن اس سب کے لیے انابت شرط ہے۔ابھی موقع ہے جب بندہ برذخ میں اتر جاتا ہے پھر اعمال کی کتاب بند ہو جاتی ہے پھر دوبارہ موقع نہیں ملتا۔آج موقع ہے اس زندگی کو غنیمت جانیں اپنا تعلق اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ سے مضبوط کیجیے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحا د کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی
Hamari ebadaat ya naik aamaal ki Sharf qabuliat ki Daleel yeh hai ke zindagi quran o Sunnah mein dhalti chali jati hai - 1

نبی کریم ﷺ کی ذات ِ مبارکہ سے ہی تمام انسانیت کوبھلائی اور خیر نصیب ہوئی


دین اسلام کو جاننا،اس پر عمل کرنا اور مخلوق خد ا تک پہنچانا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرنے سے ہمارا ایمان متزلزل نہیں ہوگا بلکہ ہمارا ایمان مضبوط ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اعمال اختیار کریں۔جو اقدار جو روایات ہمیں ہمارے اجداد نے دی ہیں وہ ہم اپنے بچوں کو نہیں دے رہے اسی وجہ سے ہمارے خاندانی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔اگر ہم آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلیں گے تو ہمارے کردار سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔ بندہ مومن کسی بھی معاشرے میں ہو، اس کی زندگی سے انسانیت کو فائدہ ہوتا ہے۔کسی بھی معاشرے کی اچھی اقدا ر دیکھیں گے تو وہی ہوں گی جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمائیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا ہیوسٹن ٹیکساس میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس پر خواتین وحضرات سے خطاب
انہوں نے کہا کہ انسانی بنیادی ضروریات ہر دور میں وہی رہتی ہے۔جدت کے ساتھ ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات وہی رہتی ہیں۔حیات ِ انسانی کا بنیادی حصہ نظریہ ہوتا ہے جس نظریہ کے تحت اس نے زندگی گزارنی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ فیصلے کا اختیاربھی  دیا کہ کس نظریہ پر زندگی گزارنا چاہتے ہو؟  یہ فیصلہ بھی تمہارا ہے۔اللہ کریم نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا کہ راہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے اپنا ذاتی کلام عطا فرمایا اور انسان کے اندر وہ استعداد رکھ دی جس سے یہ حق پہچان سکے۔اللہ کریم کا احسان کہ اس نے ہمیں نور ایمان عطا فرمایا اور پیدائشی طور پر ہمیں وہ نظریہ عطا فرمایا جو دین اسلام ہے یہ بہت بڑا احسان ہے۔زندگی گزارنے کا سب سے بہترین نمونہ اسوہ حسنہ ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ والا پھر اس کے ساتھ والا یہ تین زمانے زمانوں میں سب سے افضل ترین زمانے ہیں۔ان تین زمانوں میں لوگوں کو کیا خاص مل رہا تھا؟ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کے شب و روز نصیب ہوئے۔آپ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں ہر پہلو ہر سفر اختیار فرمایا وہ ذاتی زندگی ہو یا خاندانی معاملات،معاشرتی زندگی ہو یا کاروباری حیات،دوستوں اوردشمنوں کے مابین تعلقات کیسے ہوں؟ آپ ﷺ نے ہر پہلو سے زندگی بسر فرمائی جس میں قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے۔
  انہوں نے کہا کہ جزا و سزا کا احساس بندے کو حدود و قیود میں رکھتا ہے۔اگر جزاو سزا کا احساس نہ ہو تو وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔جب ہر ایک کی استعداد الگ ہے، حیثیت الگ ہے پھر کیسے ممکن ہو کہ زندگی ایک اعتدال کے ساتھ بسر ہو اس کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے،اصول اور ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے جب کوئی اصول و ضوابط سے تجاوز کرے اسے کوئی پوچھنے والا ہو۔جو طاقتور کو اس کی حد میں رکھتا ہے اور مظلو م کی حفاظت کا سبب بنتا ہے۔اسی لیے جس ملک میں قوانین اور ان کا اطلاق ہوتا ہے وہاں معاشرے ترقی کرتے ہیں اور جن معاشروں میں قوانین کا اطلاق کمزور ہوتا ہے وہاں لوگ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ دین اسلام سے انسانی زندگی میں ٹھہراؤ آتا ہے اعتدال نصیب ہوتا ہے۔ہمارے اعمال خشکی اور تری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تصوف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کی یاد تم پر وہ حال آشکار کر دے گی کہ تم زندگی کی حقیقت کو جان پاؤگے۔تصوف بیماریوں کے علاج کے لیے نہیں یہ تصوف کا مقصد نہیں  مقصد اللہ کی رضا اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔اور ایک ہی جگہ ہے جہاں سے یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے اور وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔
آخر میں انہوں نے ذکر قلبی سکھایا اور امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
 
Nabi kareem SAW ki zaat  mubarikah se hi tamam insaaniyat bhalai aur kher naseeb hui - 1

ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے


قرآن مجید انسانی زندگی کے تمام سوالات جو ہیں اور جو آنے والے وقت میں پیش آئیں گے ان تمام کے جوابات عطا فرماتا ہے۔آپ ﷺ کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے۔قیامت تک جو حق کا متلاشی ہوگا اسے راہنمائی میسر آتی رہے گی۔عبادت محض رکوع و سجود کا نام نہیں ہے لیکن جب زندگی عبادت سے مزین ہو جائے پھر ساری زندگی رکوع و سجود میں شمار ہو جاتی ہے۔انسان اس کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔زندگی کوئی حادثہ نہیں بلکہ اس کا ایک خاص مقصد ہے اور جو اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ کریم کے بتائے ہوئے اصولوں کو اختیار کرے گا و ہ فلاح پائے گا۔ہر انسان کے اندر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ اپنے شعوری پہلو سے اپنی ضروریات کو محسوس بھی کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں بھی رہتا ہے۔اس فطرتی استعداد سے اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے کہ کوئی ایسا ہے جو اس نظام حیات کو چلا رہا ہے جس نے سب کو پیدا فرمایا ہے اور جسے کسی نے پیدا نہیں فرمایا۔کوئی ایک ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے۔اقوام سابقہ کے حالات پڑھ کر یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے اعمال کا نتیجہ کیا ہوا جس نے جیسے اعمال کیے ویسے نتائج پائے آج بھی جو جیسے اعمال اختیار کرے گا ویسے نتائج پائے گا۔اللہ کریم نے یہ استعداد ہر ایک کے اندر رکھ دی ہے اور فیصلے کا اختیار بھی دے دیا کہ چاہے تو شکر کا راستہ اختیار کرو چاہے تو نا شکری کرو۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  مسجد اے ایم ایل سان فرانسسکو میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے۔ہم عبادات کا بدلہ چاہتے ہیں کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں پھر بھی بیماری گھر سے نہیں جاتی،حالانکہ ہم پہلے سے مقروض ہیں۔جو کچھ ہم پہلے سے لے چکے ہیں ساری عمر بھی عبادات کرتے رہیں تو اس کا قرض نہیں اتار سکتے۔اللہ کریم نے ہمیں پیدا فرمایا ہم نہیں تھے اس نے ہمیں وجود بخشا اپنی ساری نعمتیں ہمارے لیے پیدا فرمائیں۔ عبادات اس لیے کریں کہ اللہ کریم عبادت کے لائق ہیں۔پھر جس نے دعوت حق قبول کی اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کا کردار اس کے اعمال ایسے ہوں کہ وہ لوگوں تک حق پہنچانے کا سبب بنے ۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Hamari ebadaat khalis nahi rahen isi liye nataij bhi haasil nahi ho rahay - 1