Featured Events


ایمان کی مضبوطی

Watch Emaan ki Mazbooti  YouTube Video

اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔


رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ہے اور ضرورت امر کی ہے کہ ان مبارک ساعتوں میں جوہم دعوی ایمانی رکھتے ہیں کیا اس دعوے میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے غلطیوں کو نکال باہر کریں۔اور اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔دنیاوی زندگی میں ہم نے جو اعمال دکھاوے کے لیے اختیار کر رکھے ہیں وہ بارگاہ الٰہی میں مقبول نہ ہوں گے۔کیونکہ وہ نہاں خانہ دل میں موجود سب کچھ جانتا ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آج ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ہمیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔اس عارضی دنیا  کے لیے ہم حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر مال اکٹھا کرنے میں لگے ہیں جسے ہم نے چھوڑ کر جانا ہے۔اسی دوڑ میں ہم نے حقوق وفرائض کی تمیز ختم کر دی ہے۔معاشی اور معاشرتی زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے ہم لوگ جنگل میں رہ رہے ہوں اسی وجہ سے ہم سب اس تکلیف سے گزر رہے ہیں 
 یاد رکھیں جس راہ پر ہم چل رہے ہیں اس کا انجام بہت بھیانک ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو توبہ کی طرف لے آئیں۔اللہ کریم کو معاف کرنا محبوب ہے اللہ کریم ہمارے گناہ معاف فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Apne har amal ko itebaa risalat SAW mein dhaal len . - 1

تزکیہ، تصوف و سلوک

تزکیہ کا مفہوم

قرآن کے لفظ تزکیہ کی علماء ومفسرین نے اپنی اپنی وسعت نظرکے مطابق تشریحات و توجیہات کی ہیں۔ اللہ ان پر کروڑوں، کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے لفظ تزکیہ کا اگر ہم فارسی یا اردو تر جمہ کریں تو وہ تصوف بنتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ غیرملکی زبانوں میں سب سے پہلے فارسی میں ہوا تو فارسی میں تزکیہ کا ترجمہ تصوف کردیا گیا۔ تزکیہ، دل کی پاکیزگی ہے، صفائے قلب ہے، صفائے باطن ہے، تصوف کا معنی بھی یہی ہے۔

یَتْلُوا عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (آل عمران: 164)
 ترجمہ: جوان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ 

نبی ؑجو کچھ فرماتا ہے وہ تھیوری نہیں ہوتی، محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ کیفیات بھی ہوتی ہیں۔ نبی ؑجب کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو جو ایمان لاتا ہے، اسے نظر تو نہیں آتا لیکن وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی ہے۔ ان نگاہوں سے نظر نہیں آتا لیکن ایسی کیفیت اس پر وارد ہوتی ہے کہ ان آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ اسے یقین ہو جاتا ہے۔

 تزکیہ کی اہمیت 

 فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے آپ  ﷺ نے جوتزکیہ فرمایا وہ دلوں کی پاکیز گی تھی۔ نہا دھو کر صاف کپڑے پہن لینا تزکیہ نہیں ہوتا، یہ تو پہلے بھی ہوتا تھا، حضور  ﷺ نے دلوں کو پاک کر دیا۔ فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے کہ پہلے بات دل سے کی جائے پھرعقل کو دلیل سے قائل کیاجائے، پھر کتاب وحکمت کی تعلیم دی جائے تو وہ تعلیم انسان کی عملی زندگی میں رہنمائی کا کام کرے گی، اس لیے کہ دل اس پر عمل کرنے کے لیے پہلے سے تیاربیٹھا ہوگا۔

 تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کے قلب میں وہ کیفیات بھر دی جا ئیں کہ جو اس کی سوچ میں آئے وہ مثبت آئے، اس میں طلب ِحق پیداہو، اس کے دل میں جو جھاڑ جھنکار ہے، خواہشاتِ انسانی ہیں، خود غرضی ہے، بے شمار خرابیاں ہیں، وہ صاف کر دی جائیں۔ انسان صرف وجود مسجد میں نہ لائے، وجود بعد میں آئے دل پہلے مسجد میں ہو۔ اب یہ کس کی ضرورت نہیں ہے کہ دل میں خلوص آ جائے، قرب الٰہی کی آرزو پید ا ہو جائے، سینے کے اندر مدینہ بنالے، برکات نبوت، دل پر ابرِ رحمت کی طرح برستی ہوں، دل نورِ نبوت کی کرنیں منعکس کرتا ہو اوروہ دوسروں کے لیے بھی باعث ہدایت بنتا چلا جائے۔

تصوف کیاہے؟

تصوف کا مطلب ہے ”کچھ بھی نہیں“ یعنی جب کچھ بھی باقی نہ رہے صرف اللہ رہ جائے تو تصوف بن جاتا ہے۔ جب تک کچھ باقی رہے تصوف نہیں ہوتا۔ میں پیر ہوں، میں مولوی ہوں، میں بزرگ ہوں، میں تکڑا ہوں،میں فلاں ہوں، جب تک’میں‘ر ہے تب تک تصوف نہیں ہوتا جب’میں‘نہ رہے، انانہ رہے، کچھ بھی نہ رہے، پھر تصوف ہوتا ہے۔

”سارے کا سارا تصوف یہ ہے کہ اللہ پر اعتماد بحال ہو جائے۔“بندہ اپنے معاملات اپنے رب سے ڈسکس کرے، اپنے رب سے لڑے بھڑے، دعا مانگے اور چیخ کر مانگے، رو رو کر مانگے، گڑ گڑا کر مانگے لڑ کر مانگے، وہ جانے اس کا رب جانے۔

 تصوف صرف یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺکی جو پیروی کی جائے اس میں انتہائی خلوص ہو، دل کی گہرائی سے کی جائے، ان کیفیات کو تصوف کہتے ہیں۔ وہ کون سا تصوف ہے جو اطاعت ہی چھڑوا دے؟ یہ جو تصوف میں بہت سی چیزیں در آئی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دین کے خلاف ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگوں نے اپنی کمزوریوں کے باعث اس کو بھی دنیاکمانے کا ذریعہ بنالیا ہے، تصوف کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے یا مادی فوائد حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تو یوں یہ الزام، یہ بہتان تصوف پہ آ گیا۔

 تصوف دین سے الگ چیز نہیں ہے بلکہ ہم دین پر جو یقین رکھتے ہیں یا عمل کرتے ہیں یا جو ہمارا دعویٰ ہے اس میں خلوص پیدا کرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے، اسے تصوف کہتے ہیں۔ہم دین پر جو عمل  کرتے ہیں اس میں خشوع و خضوع پیداکرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے،وہ تصوف ہے۔ تصوف سے مراد ہے کہ عظمت الہٰی کا ادر اک، اپنی بے مائیگی اور کم مائیگی کا احساس کہ میں کچھ بھی نہیں، سب کچھ وہی ہے۔
(نقوش حق،حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوانؒ)

تصوف کیا نہیں 

تصوف کے لیے نہ کشف و کرامات شرط ہے، نہ دنیا کے کاروبار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے، نہ تعویذ گنڈوں کا نام تصوف ہے، نہ جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے، نہ مقدمات جیتنے کا نام تصوف ہے، نہ قبروں پر سجدہ کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور چراغ جلانے کا نام تصوف ہے اور نہ آنے والے واقعات کی خبر دینے کا نام تصوف ہے،نہ اولیاء اللہ کو غیبی ندا کرنا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے کا نام تصوف ہے، نہ اس میں ٹھیکیداری ہے کہ پیرکی ایک توجہ سے مرید کی پوری اصلاح ہو جائے گی اور سلوک کی دولت بغیر مجاہدہ اور بدون اتباع سنت  ﷺ حاصل ہو جائے گی نہ اس میں کشف والہام کا صحیح اتر نالازمی ہے اور نہ وجد وتواجد اور رقص وسرود کا نام تصوف ہے۔ یہ سب چیزیں تصوف کا لازمہ بلکہ عین تصوف سمجھی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز پر تصوف اسلامی کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری خرافات اسلامی تصوف کی عین ضد ہیں۔
 (دلائل السلوک، حضرت مولانا اللہ یار خانؒ)

​ذکر اللہ

زندگی میں جسم کی سلامتی کے لیے جو اہمیت سانس کو حاصل ہے، وہی حیثیت روح کے لیے یاد الٰہی کی ہے۔ نماز اور تلاوت کا فائدہ اصلاح قلب پر موقوف ہے۔ قرآن کریم میں 165 مقامات پر ذکر کا حکم آیا ہے۔

فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ(البقرۃ: 152)
 پس تم مجھے یاد کرو،میں تمہیں یاد کروں گا۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
مَثَلُ الَّذِی یَذکُُُُرُ رَبَّہ وَالَّذِی لَا یَذکُرُ رَبَّہ مَثَلُ الحَیِّ وَالمَیِّتِ...(متفق علیہ)
جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر الٰہی نہیں کرتا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ۔

تفسیر مظہری میں حضرت مجددالف ثانی  ؒکے حوالہ سے ذکر کی  وضاحت بیان ہوئی ہے،”تلاوت اور نماز دونوں ہی ذکر ہیں۔ جو ان میں محو ہوگیا اسے کسی اور ذکر کی حاجت نہیں رہی۔ نیز نماز ایسا ذ کر ہے جو اہل ایمان کی معراج ہے۔ لیکن ان دونوں اذ کار کا فائدہ فنائے نفس کے بعد ہی ہوتا ہے اور فنائے نفس کے لیے ذکر نفی اثبات ضروی ہے۔“ اس قول فیصل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تلاوت اور نماز ذکر الٰہی ہیں جن سے فائدہ تو حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح دور نبوی  ﷺ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہوا کہ آن واحد میں زندگیاں بدل گئیں وہ ہمیں کیوں نصیب نہیں ہو رہا؟ اس لیے کہ ہمارے زنگ آلود قلوب پر آج کے ماحول میں پھیلی نحوست کی تہیں جمی ہوئی ہیں جو صرف اور صرف ذکر اسم ذات اور نسبت شیخ سے ہی ختم ہو سکتی ہیں اور یہی کام اہل تصوف تبع تابعین کے بعد سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِیُّﷺ یَذکُرُاللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَا نِہِ(الصحیح المسلم)
نبی کریم  ﷺ ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔

 مندرجہ بالا آیات واحادیث سے مراد ذکر قلبی ہے کیو نکہ ذکر لسانی کو دوام نہیں۔ معارف القرآن میں بھی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رہے، دل سے بھی اور اتباع شریعت سے بھی۔ غرض نماز ختم ہوئی لیکن ذکر ختم نہیں ہوا، سفر اور خوف کی حالت میں نماز میں تخفیف ہے لیکن ذکر میں نہیں۔

ذکر کی اہمت مفسرین کرام کی نگاہ میں 

تفسیر کبیر: نماز سے فارغ ہو جاؤ تو ہر حال میں ذکر میں مشغول ہو جاؤ کیونکہ خوف اور مشکل کا علاج صرف ذکر الٰہی ہے۔ 

تفسیری حقانی: ذکر کی تین اقسام ہیں

ذکر لسانی

زبان سے اللہ کی حمد وثنا،تسبیح اور تحلیل کرنا۔

ذکر قلبی

افضل اور مؤثر ترین عبادت ہے جو لطائف باطنیہ اور اپنی جمیع قویٰ ادراکیہ کواللہ کی طرف متوجہ کر دے یہاں تک کہ محویت حاصل ہو جائے اور اپنی ذات بھول جائے۔ خواہ نفی اثبات، مراقبہ یا توجہ اور قوت شیخ سے یہ بات حاصل ہو جائے۔

عملی ذکر

اعضاء کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرنا اور منہیا ت سے اپنے آپ کو روکنا۔


 کتاب الاذکار: امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ ذکر لسانی بھی ہوتا ہے اور قلبی بھی۔ افضل ذکر وہی ہے جو دونوں سے کیاجائے اور اگر ایک پر ہی اکتفا کرنا ہو تو پھر ذکر قلبی افضل ہے۔

الفتح الربانی شیخ عبدالقادر جیلانی  ؒ فرماتے ہیں کہ ذاکر وہی ہے جو اپنے قلب سے ذکر کرے۔ یعنی ذکر قلبی نصیب ہو۔

حاصل کلام: یہ بات واضح ہوگئی کہ ذکر قلبی،ذکر لسانی سے علیحدہ اور افضل عبادت ہے۔نیزنماز اور تلاوت کے علاوہ بھی اپنے قلوب کو اللہ کی یاد سے آبادکرناضروری ہے۔ غافل قلب کی ساری عبادات اور اعمال بے اثر ہو جاتے ہیں کیونکہ جسم رکوع و سجودمیں ہوتا ہے اوردل دنیاوی کارو بار میں۔ دل چونکہ جسم کا بادشاہ ہے ٰلہٰذا انسان کا جھکاؤ اسی طرف ہو گا جس طرف دل ہو گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم میں حکم  ہے:

 وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا (الکہف:28)
ایسے شخص سے منہ پھیرلو جو ہماری یاد سے غافل ہو گیا۔ 

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیفَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی (طہ:124)
اور جو میر ے ذکر (ہدایت) سے منہ پھیرے گا تو یقیناً اس کے لیے (دنیا میں) تنگی کی زندگی ہوگی اور   قیا مت کے دن ہم اس کو (قبر سے) اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ 

  أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوب (الرعد:28)
 یادرکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینا ن پاتے ہیں۔

فیو ضات و برکا ت نبوی  ﷺ

ذکر قلبی کے بغیر مثبت تبدیلی آنا محال ہے۔ اللہ کی یاد سے غفلت انسان کے اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیتی ہے۔ ایسا انسان طرح طرح کی چیزوں میں سکون تلاش کرتا ہے اور گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ در اصل تعلیما تِ نبوی  ﷺ کے ساتھ وہ کیفیات بھی ضرور ی ہیں جنہیں برکات یا فیوضات نبوی ﷺ کہتے ہیں۔ قلوب انہی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی یہ نعمت شیخ کامل کے روشن قلب اور نسبت سے نصیب ہو سکتی ہے جو انسان کی اصلاح کا سبب بنتی ہے اور یوں وہ عملی زندگی میں من الظلمات الی النور(گناہ سے نیکی کی طرف) سفر شروع کر دیتا ہے۔

               قا ل را بگزار حال شو
               پیش مرد کامل پامال شو

​اولاد آدم کا شرف

اس وسیع کائنات میں اللہ تعالی نے انسان کو لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم (التین:4) 
ترجمہ: کہ یقیناہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا۔ اوروَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَم

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا (بنی اسرائیل:70) 
 ترجمہ: اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ کا شرف عطا فرما کر اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا اور اسے خلافت ارضی کا منصب جلیلہ سونپا۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمارنہیں لیکن انسان کو جس نعمت خصوصی سے نوازا گیا ہے وہ انبیاء کرام  ؑکے ذریعہ اس کی ہدایت کا سامان ہے۔

مقاصد نبوت،تزکیہ با طن اور روحا نی تربیت

  حضور اکرم  ﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جہاں  الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ(الما ئدہ:۳) 
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔

 کا اعلان فرمایا وہاں اہل ایمان کو اپنا یہ ا حسان بھی یاد دلایا کہ  لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِم (آل عمران: 164) ترجمہ:یقینا اللہ نے ایمان والوں پر (بہت بڑا) احسان کیا ہے کہ جب ان میں ان ہی میں سے ایک پیغمبرمبعوث فرمائے اور اس احسان کی تفصیل میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس آخری رسول  ﷺ کے ذریعہ اللہ کی اس نعمت سے مستفیدہونے کی ایک صورت یہ مقرر کی کہ اللہ کا رسول  ﷺ ان کا تزکیہ باطن اور ان کی روحانی تربیت کرتا ہے۔

تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کی تدوین

حضور اکرم  ﷺ نے تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ اپنے جلیل القدر شاگردوں یعنی  صحا بہ کرام ؓکی اس طرح تربیت کی اور تزکیہ باطن کے وہ نمونے تیارکیے کہ رہتی دنیا تک ان کی نظیر نہیں مل سکتی۔ جس طرح تعلیم کتاب اور تدوین شریعت کا یہ سلسلہ صحا بہ کرامؓ کی جماعت سے آگے منتقل ہوتا چلا آیا اسی طرح تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کا طریقہ بھی صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم  ﷺسے سیکھ کر آئندہ نسلوں کو پہنچایا اور مختلف ادوار کے تقاضوں کے مطابق تدوین حدیث وفقہ کی طرح تزکیہ و تربیت کے پہلو کی تدوین منظم صورت میں عمل میں آئی۔ صحابہ کرامؓ جہاں جہاں بھی گئے یہ روشنی اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس سے قلوب انسانی کو منور فرمایا۔ بعد میں جب دین کا یہ پہلومنظم ہوا تو مذاہب فقہ کی طرح تربیت و تزکیہ کے بھی چار بڑے سلسلے ہمارے ہاں رائج اور مقبول ہوئے۔
 

دعا کی قبولیت

Watch Dua ki Qabooliat YouTube Video

رب کی دھرتی رب کا نظام ہی واحد راستہ ہے جو ہمیں محکومی سے نکال سکتا ہے


رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے اس میں اللہ کریم کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے عبادات بھی ان اصولوں کے مطابق کی جائیں جس کا حکم ہے۔تمام اعمال کی اصل روح بندہ مومن کا عشق ہے جو اپنے رب کریم کے ساتھ ہے۔اور اس کیفیت کے حصول کے لیے تزکیہ قلب ضروری ہے۔تمام عبادات کے نتائج ہوتے ہیں۔ روزہ دار کو ایک کیفیت ایسی نصیب ہوتی ہے جو روزہ دار کو اللہ کے روبرو کر دیتی ہے۔روزہ دار خود کو اللہ کریم کے روبرو محسوس کرتا ہے اُسے معیت باری نصیب ہوتی ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ کریم تمہارے ساتھ ہیں۔پھروہ  اللہ کریم کے حکم پر ایک وقت کے لیے حلال چیزوں سے بھی دور رہتا ہے۔یہ اللہ کریم کی بہت بڑی عطا ہے۔کہ بندہ مومن خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر بھی اللہ کریم خود عطا فرمائیں گے۔روزہ ایک ڈھال کی صورت ہے جو بندہ مومن کو گناہوں سے بچاتا ہے۔کسی کو رمضان المبارک نصیب ہو اور پھر بھی وہ بخشش حاصل نہ کر سکے یہ بہت بڑی بدبختی ہے۔جب روزہ دار متوجہ الی اللہ ہوتا ہے تو اللہ کریم کی توجہ بھی اُسے نصیب ہوتی ہے۔رمضان المبارک میں اپنا احتساب کرنا چاہیے۔یہ ایک دستک ہے خود کو دیکھیں کہا ں کہاں کمی ہے اسے دور کیا جائے۔ہر ایک کا اپنے اللہ کریم سے رشتہ ہونا چاہیے محبت ہوگی تو احساس بھی ہوگا ادراک بھی ہوگا متقی وہ ہے جسے عشق کی سمجھ آجائے کہ میرے اللہ کریم کا حکم ہے میرے نبی کریم ﷺ کی راہنمائی ہے عمل میں خلوص تب ہی پیدا ہوتا ہے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے ایک ذاتی رشتہ قائم ہوجائے۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں ا نہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Rab ki dharti rab ka nizaam hi wahid rasta hai jo hamein mehkoomi se nikaal sakta hai - 1

دین اسلام میں آسانی ہے

Watch Deen Islam mein Asani hai YouTube Video

انسانی معاشرے میں عدل اور اس میں مساوات تب ہوگی جب ہم اپنا سر مخلوق کی بجائے خالق کے حضور جھکائیں گے


آج ہم خالق کی بجائے مخلوق کے آگے جھک رہے ہیں جس کی وجہ سے بحیثیت قوم اور بحیثیت حکمران  رسوا  ہو  ر ہے ہیں۔اللہ کریم کے آگے سجدہ ریز ہونے سے ہم طرح طرح کی غلامی سے بچ سکتے ہیں۔انسانی معاشرے میں عدل ومساوات تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے فیصلے دین اسلام کے مطابق کریں گے۔آج ہم اپنے ذاتی فیصلوں اور طاقت سے ظلم کر بھی لیں تو یاد رکھیں روز محشر ان کی جوابدہی سے بچ نہیں سکیں گے اور وہاں کی جوابدہی بہت سخت ہے۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر جھوٹ اور دھوکہ دہی  اتنی  زیادہ  ہوچکی ہے کہ معاشرے سے برکت اُٹھ گئی ہے اور اس بے ایمانی اور اپنے فیصلوں اور قوانین کو دین اسلام کے خلاف کرنے کی وجہ سے ہماری حالت یہ ہو گئی ہے جیسے کوئی کنویں پر بیٹھا ہو اور اسے پانی میسر نہ ہو۔ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن کھانے کو آٹا میسر نہیں یہ سب اس وجہ سے کہ ہم ناشکری کر رہے ہیں اور اس کی یہی سزا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کریم کی بڑائی بیان کرنا شکرکی کیفیت ہے۔جہاں بندگی ہوگی وہاں ہر شئے کا رخ اللہ کریم کی طرف ہو گا اور جہاں اپنی انا اور ذات کو لے آئیں گے وہاں نا شکری آ جائے گی۔اس کا حل یہی ہے کہ جہاں جہاں ہم نے اپنی ذات کو داخل کر لیا ہے وہاں ذات باری تعالی کو لے آئیں تو معاملات درست ہو جائیں گے۔سارے معاملات میں نسبت اللہ کریم کی طرف ہو گی تو شکرانے کی کیفیت ہوگی۔اللہ کریم سے اپنا بندگی کا رشتہ قائم رکھیں کیونکہ بندگی کا رشتہ بنیاد ہے۔اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Insani muashray mein Adal aur is mein masawaat tab hogi jab hum apna sir makhlooq ki bajaye khaaliq ke huzoor jhukaain ge - 1

رمضان المبارک کی عظمت

Watch Ramzan ul Mubarak ki Azmat YouTube Video