Featured Events


امداد برائے سیلاب زدگان

ڈیرہ اسماعیل خاں میں سیلاب سے متاثرہ علاقہ میں الفلاح فاؤنڈیشن پاکستان کی طرف فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں 1000 مریضوں کا مفت معائنہ کیا گیا اور ان میں مفت ادویات بھی فراہم کی گئیں ۔ اس کے علاوہ مستحقین میں راشن، کپڑے ،بستر ،جوتے اور ضرورت کی اشیاء بھی دی گئیں ۔۔
About 1000 patients taken care of by madical camp, gave them medicine and also provided ration, clothes, shoes and today will provide tents InshaAllah , DIKHAN
Imdad Barae Selab zadgan - 1
Imdad Barae Selab zadgan - 2
Imdad Barae Selab zadgan - 3
Imdad Barae Selab zadgan - 4
Imdad Barae Selab zadgan - 5
Imdad Barae Selab zadgan - 6

توبہ کی بعد عملی زندگی

Watch Taubah kay bad Amli zindgi YouTube Video

سیلاب آسمانی آفت ہے اس میں پوری قوم اپنی خطاؤں کو سامنے رکھ کر اللہ کے حضور توبہ کرے


 وطن عزیز میں سیلاب کی وجہ سے ہمارے بہن بھائی انتہائی مشکل میں ہیں اس کا اندازہ ہمیں یہاں سے نہیں ہو سکتا کہ وہ کتنی بڑی مصیبت سے گزر رہے ہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے انسانوں کے ساتھ ساتھ مال مویشی،مکان،سامان سب کچھ بہہ گیا۔صاحب اختیار اس صورت حال میں اپنی فتح وشکست،اپنی ذات کو درست اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ضروررت اس امر کی ہے کہ بحیثیت مجموعی حکومت اپنے تمام تروسائل بروئے کار لاتے ہوئے ان کی داد رسی کے لیے پہنچے اور عام آدمی بھی اس کے لیے اپنی استعداد کے مطابق اپنا کردار ادا کرے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے استدعا کرے کہ اللہ کریم رحم فرمائیں تاکہ اس مصیبت سے چھٹکار املے۔اس مصیبت اور مشکل میں جتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں اللہ کریم انہیں اس صبر اور امتحان کا اجرعظم عطا فرمائیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ وسر براہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ معمولات زندگی میں کہیں خوشی ہے اور کہیں غم زندگی کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے انسان گزرتا ہے بندہ مومن کو دونوں پہلو سے اجر و ثواب عطا ہوتا ہے خوشی میں شکر کی ادائیگی نصیب ہوتی ہے اور غم میں صبر اختیار کرتا ہے اور اللہ کریم فرماتے ہیں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے یہ معیت باری تعالی اللہ کریم کی بہت بڑی عطا ہے کہ کسی کو اللہ کا ساتھ نصیب ہو بات ادراک کی ہے کہ کس کو اس بات کا کتنا ادراک ہے اللہ کریم سیلاب زدگان کو صبر عطا فرمائیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ راہ ہدایت اور ہمارے درمیان کتنے فاصلے آ چکے ہیں اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے عارضی ٹھکانہ ہے اللہ کریم اس زندگی کا سفر آسان فرمائیں یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے کہ خشکی اور تری میں ہمارے اعمال اثر انداز ہوتے ہیں ہمیں اپنی خواہشات کی پیروی کرنے کی بجائے ارشادات نبوی ﷺ کو اپنانے کی ضرورت ہے اللہ کریم ہمیں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ہمارے پاس اللہ کا کلام موجود ہے جو راہ ہدایت ہمیں دکھاتی ہے جو اوصاف سیدھی راہ کے ہیں کیا ہم نے انہیں اختیار کیا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے سیلاب زدگان کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی۔
Selaab aasmani aafat hai is mein poori qoum apni khataon ko samnay rakh kar Allah ke huzoor tauba kere - 1

عدل کی اہمیت

نظام حیات کادارو مدار عدل پر قائم ہے۔جب سورج طلوع ہوتا ہے تواس کے غروب ہونے تک، ہر لمحے کا ایک موسم معین ہے۔گرمی ہے یاسردی ہے، روشنی ہے یا تاریکی۔ اس کی ایک حد (limit)ہے اگر اس حد (limit)کا توازن بگڑتا ہے تو ساری دنیا ڈسٹرب(disturb) ہوتی ہے۔بارشیں برستی ہیں بادل برستے ہیں۔ان کی حدود (limits)  ہیں۔جب وہ حدودسے کم ہوتی ہیں تو لوگ قحط سالی سے مرتے ہیں اور جب حدود سے تجاوز کرتی ہیں تو لوگ سیلابوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضرورت اور اپنے معیار کے مطابق ہو۔ جب اس سے ہٹے گی تو ناانصافی بن جاتی ہے تو معاشروں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔
دل خون سپلائی کرتا ہے۔ اگر یہ جسم کے آخری ذرے (Cell) تک اس کی ضرورت کے مطابق نہ پہنچے تو وجود شل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ انگلیاں مر جائیں گی، ہاتھ بے کار ہوجائے گا، بازو ختم ہو جائے گا، بینائی چلی جائے گی، دماغ خراب ہوجائے گا۔جہاں ضرورت سے زائد جائے گا وہ بھی خراب ہوجائے گا۔ضرورت سے کم جائے گا،وہ بھی خراب ہو گا۔ ضرورت کے مطابق جائے گا،یہ عدل ہے۔
معاشرے میں زندگی کے لیے بنیادی عدل، تعلیم ہے۔ بحیثیت انسان زندہ ہونے کے لیے جس طرح آپ بدن کو غذا دیتے ہیں،کھانا،پانی دیتے ہیں، اس سے زیادہ ضروری تعلیم ہے۔ایک جانور کی زندگی اور انسان کی زندگی میں کیا فرق ہے؟ جانور کچھ نہیں جانتا،انسان بہت کچھ جانتا ہے۔عدل یہ ہے کہ ایک گداگر کے بچے سے لے کر،(president) پریذیڈنٹ یا وزیراعظم کے بچے تک، کوایک طرح کی تعلیمی سہولیات میسر ہوں۔عدل یہ ہے کہ جرم اگر صدر صاحب سے سرزد ہوتو وہ بھی اسی عدالت میں اسی اندازمیں پیش ہوں اور ایک عام آدمی سے ہو تواس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو۔عدل یہ ہے کہ جیل، جیل ہو۔امیر،فقیر،غریب،حکمران،محکوم، اے،بی کلاس نہیں۔اے کلاس ہے تو سب کے لیے اے کلاس ہونی چاہیے۔بی ہے تو سب کے لیے بی،سی ہے تو سب کے لیے سی ہو۔ یہ کیا ہے کہ ایک آدمی جرم کرے تواسے صوفے بھی لگا دو، دو تین بندے مشقتی بھی دے دو،خدمت گزار بھی دے دو۔ دوسرا اس سے کم درجے کا جرم کرے تواسے ہتھکڑی،بیڑی لگا دو۔ یہ کیا ہے؟ یہ عد ل نہیں ہے۔
عدل کی دوسری بنیادیہ ہے کہ فوری ہو، اس میں تاخیر نہ ہو،تاخیر ہوتوعدل نہیں ہےJustice) (delayed is justice denayed  جس عدل میں تاخیر ہووہ عدل نہیں ہے۔ میرا ایک جماعت کا ساتھی تھا،حافظ قرآن، نیک آدمی تھا،لیکن پرچے(FIR) میں نام آگیا۔ جیسا ہمارے ہاں رواج ہے۔ اللہ بہتر جانے مجرم تھا یا نہیں تھا۔سندھ، میر پور کارہنے والا تھا۔ سیشن کورٹ نے سزائے موت کر دی،ہائی کورٹ نے سزائے موت کر دی،سپریم کورٹ میں اپیل گئی،سپریم کورٹ نے کہا نہیں،یہ بندہ بے گناہ ہے۔سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ گرفتار ہونے سے بری ہونے تک سترہ برس (seventeen years) لگے۔ سپریم کورٹ سے بری ہوا، جیل سے رہا ہوا، گھر آ یا، دس دن رہا، گیارویں دن ہارٹ اٹیک(Heart Attack) آیا، فوت ہوگیا۔ اس کی زندگی کے سترہ سال جیل میں گزر گئے۔ زمینیں بک گئیں،عزتیں نیلام ہو گئیں،بچے آوارہ ہو گئے، خاندان اجڑ گیااور انصاف مل گیا کہ آپ تو بے گناہ ہیں،آپ کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ باعزت بری ہوگیا۔کیا یہ انصاف ہے؟ جائیداد کے جھگڑے ہوتے ہیں۔دادا دعویٰ دائر کرتا ہے۔دادا مرجاتا ہے باپ مر جاتا ہے پوتوں کے نصیب میں کہیں ہو تو فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔
عدل وہ ہے جوبلا تاخیر ہو بلاتمیز ہو۔فرد کا لحاظ بھی نہ کیا جائے کہ یہ کون ہے؟ ملزم ہے جو بھی ہے۔ملزم کو بطور(as a) ملزم ٹریٹ(Treat) کیا جائے۔بطور ملزم ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ خواہ وہ بادشاہ ہے، فقیر ہے، امیر ہے۔تاخیر نہ کی جائے،جتنا جلدی ممکن ہو سکے،اس کا فیصلہ کیا جاسکے۔ سزا ہونی ہے،سزا ہوجائے۔بری ہونا ہے تو بری ہو جائے۔عدل کے لیے بلالحاظ ہو، فوری ہو،بلا طمع ہواور پھر ہم الحمد اللہ مسلمان ہیں۔اسلام نام ہی عدل کا ہے۔اسلام کی ہر بات میں عدل ہے۔والدین کے ساتھ رشتہ،بیوی کے ساتھ رشتہ، اولاد کے ساتھ تعلق، بہن بھائیوں،پڑوسیوں، علاقے، قوم، ملک، بین الاقوامی،ہر جگہ عدل کی ضرورت ہے۔عدل فرد سے شروع ہوکر معاشرے تک جاتا ہے۔روزی کے وسائل ہیں۔وہاں عدل چاہیے۔جس میں جو استعداد ہے اسے وہ مواقع ملنے چائیں اور اسے اس طرح کی روزی ملنی چاہیے۔یہ نہیں کہ آپ فلاں کے رشتہ دار ہیں تو آپ کو یہ جاب مل جائے گی۔آپ فلاں کے رشتہ دار نہیں ہے تو بے شک پڑھے لکھے ہوں،وہ جاب نہیں ملے گی۔جس میں جو اہلیت ہے، اسے وہ نعمت ملنی چاہیے۔بلکل اسی طرح آپ روز مرّہ کی غذا میں عدل چھوڑ دیں تو آپ بیمار ہوجاتے ہیں۔عدل یہ ہے کہ غذا حلال ہو،صالح ہواورآپ کی طبیعت کے مطابق ہو، بدن کی طلب کے مطابق ہو۔اس سے زیادہ اس میں ٹھونس دیں گے، وہ بیمارہوجائے گا۔تھوڑی دیں گے وہ خراب ہوجائے گا۔ اس کے مزاج سے ملتی ہو، آپ کا مزاج گرم ہے۔ آپ گرم پھل کھاتے رہیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں میری خیر ہے، دوسرے کو عدل کرنا چاہیے۔ساری پبلک(Public) کہتی ہے، ہماری خیر ہے، حکمرانوں کو عدل کرنا چاہیے۔تمہاری خیر کیسے ہے؟ بائیس کروڑ بندے ہوں اوربائیس بندے حکمران ہیں۔جب بائیس کروڑاافراد عدل نہیں کریں گے تو اس پر اکیس،بائیس بندے کیا عدل کریں گے؟اگر ہم عدل چاہتے تو پہلے ہمیں خود عدل قبول کرنا ہوگا۔اپنی زندگی میں عدل لانا ہو گا اپنے تعلقات میں،اپنی معیشت میں، اپنے کاروبار میں،اپنی دوستی، دشمنی میں، ہمیں عدل لانا،توازن لانا ہوگا۔جب ہم بدلیں گے تو ہر چیز کو بدلنا پڑ جائے گا۔ہم خو د نہیں بدلتے تو پھردوسروں کو کیا بدلیں گے؟حکمران بھی تو ہم ہی میں سے ہیں، جیسا ہم سوچتے ہیں،وہ بھی سوچتے ہیں۔اگر ہم خو د عدل پر قائم ہوجائیں تو یقینا جب ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، تب ہی ہم عدل کاخیال رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ جس کو ووٹ دینا ہے۔ اس میں اہلیت ہے،دیانت دار ہے،امین ہے، یہ ساری چیزیں دیکھنی ہیں۔ کیا ہم دیکھتے ہیں؟جب ہم چوروں کو ووٹ دیتے ہیں تو عدل کی امید کیوں رکھتے ہیں؟اپنے ساتھ ہم نے خود ناانصافی کی تو دوسروں سے انصاف کی امید ہم کیوں رکھتے ہیں؟ہمارے ہاں سارے انقلاب، سارے نعرے اور سارے ہجوم صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ دوسرا سیدھا ہوجائے۔(اسی طرح  ہمارے میڈیا(Media)پر جتنے بھی ٹالک شو (Talk Show)ہوتے ہیں وہ بھی بدقسمتی سے اسی طرح کے ہی ہوتے ہیں) خو د درست ہو جاؤ،خود عدل کرو،ان شاء اللہ معاشرے میں عدل آجائے گا۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر بائیس کروڑ بندے ہیں اور آپ نے اپنے آ پ پر اسلام نافذکرلیا، عدل اپنا لیا تو آپ نے پاکستان کے بائیس کروڑویں حصے پر اسلام نافذکردیا۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ سارے ٹھیک ہوجائیں۔آپ جس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کا ہوتوآپ اس طرح بن جائیں توپاکستان کا بائیس کروڑواں حصہ ٹھیک ہوجائے گا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔

شہید کی فضیلت

Watch Shaheed ki Fazeelat YouTube Video

شہادت ایسی کیفیت اور حال ہے جو صرف صاحب ایمان کا حصہ ہے اور کسی کا نہیں


دین اسلام پر ایمان لانا اللہ کریم کی واحدانیت پر یقین اور آپ ﷺ کی رسالت کو برحق جانتے ہوئے اپنی جان دے کر اس پر گواہی دے جانا یہ شہادت ہے۔شہید کے لیے ارشاد باری تعالی ہے کہ اسے مردہ نہ کہو وہ زندہ ہے اور ہم اسے باہم رزق پہنچا تے ہیں۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ شہادت ایسی کیفیت اور حال ہے جو صرف صاحب ایمان کا حصہ ہے اور کسی کا نہیں جب کسی کو نور ایمان نصیب ہوتا ہے پھر یہ ادراک ہوتا ہے۔یہ وہ معاملہ ہے جو اللہ اور بندے کے مابین ہے۔اللہ کریم کی ذات لامحدود ہے کسی کے احاطہ میں نہیں آسکتی اللہ کریم نے انبیاء مبعوث فرمائے جو اللہ کریم سے آشنائی کا سبب ہیں۔اللہ کے نبی کی اطاعت در اصل اللہ کریم کی اطاعت ہے۔شہید سے جب پوچھا جائے گا کہ کوئی خواہش ہو تو بتاؤ تو شہید عرض کرے گا یا اللہ مجھے پھر زندگی عطا فرمائیے میں دوبارہ تیری راہ میں شہید ہونا چاہتا ہوں۔جو لذت شہید ہونے میں ملی وہ اور کہیں نہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارے معاشرے کی تکلیف دہ صورت کا سبب ہمارا کردار ہے انسانوں کا مل جل کر رہنا معاشرہ کہلاتا ہے جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں اگر ان کے رویے درست نہ ہوں تو معاشرہ بھی درست نہیں ہو گا۔ہم ایک دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں،نشاندہی بھی کرتے ہیں لیکن جو خودکر رہے ہیں اس کو درست کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ بوجھ اُٹھانا آسان نہیں ہے مظلوم جو پس رہا ہے وہ تو کسی طاقتور کا گریبان نہیں پکڑ سکتایہ نظام صرف محمد الرسول اللہ ﷺ نے ہی عطا فرمایا کہ ایک عام آدمی بھی حکمران کو اپنی تکلیف سنا سکتا تھا اس کا گریبان پکڑ سکتا تھا۔قیامت کے دن حسا ب ہوگا اور ہر فیصلہ عدل پر ہوگا اس میں سے ہر ایک نے گزرنا ہے اس وقت کیا جواب دیں گے جہاں اللہ کا انصاف ہوگا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عالم تب عالم ہے جب اُس کی بات اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بات ہو۔ شرف شہادت عطا فرمانا اللہ کریم کی بہت بڑی عطا ہے اگر کسی کو یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے تو اللہ کریم کا اس پر بہت بڑا احسان ہے۔شہید اپنی جان دے کر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ پر گواہی دے جاتا ہے۔کسی کا مجاہدہ ترقی درجات کا سبب بن جاتا ہے اور توبہ کی طرف آنے کا موقع بھی دینا ہوتا ہے۔اس لیے بھی مشکلات آتی ہیں کہ بندہ سدھر جائے۔جتنی ہماری ضرورت تھی اس کے مطابق کلام الٰہی میں بیان فرما دیا گیا ہے۔
  آخر میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایمان بھی موجود ہے صاحب ایمان بھی موجود ہیں دنیا سے ایمان اُٹھ نہیں گیا ابھی وقت ہے اختیار بھی ہے خود کو اللہ کی راہ پر لے آئیے اُس کا کرم کہ نور ایمان عطا فرمایا اپنا ذاتی کلام عطا فرمایا اور ہماری قیامت تک کے لیے راہنمائی فرما دی۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔

Shahadat aisi kefiyat aur haal hai jo sirf sahib imaan ka hissa hai aur kisi ka nahi - 1

صبر اور نماز

Watch Sabr aur Namaz YouTube Video

ضروریات دنیا کو اپنی خواہشات کے مطابق دیکھنے کی بجائے اللہ کے حکم کے مطابق دیکھنا چاہیے


ہم ہر کام کو اپنی ذاتی پسند اور ذاتی خواہش کے مطابق دیکھتے ہیں۔چاہے وہ چیز ہمارے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔اپنے معاملات اللہ کریم کے سپرد کردینے چاہیے اور اُس کے حکم کے مطابق اپنے فیصلے کرنے چاہیے تا کہ زندگی اللہ کے حکم کے مطابق بسر ہو۔جب اللہ کریم کے حکم کے مطابق زندگی بسر کریں گے پھر نتائج بھی ویسے ہی حاصل ہوں گے جیسے اللہ کریم فرماتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ نماز بے حیائی اوربرائی سے روک دیتی ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نماز بھی پڑھ رہے ہیں برائی بھی کر رہے ہیں لوگ نماز بھی پڑھ رہے ہیں معاشرے میں دھوکہ بھی ہے لین دین میں بھی بے ایمانی ہے معاملات میں کلام میں ہر جگہ معاشرے میں بگاڑ نظر آتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اللہ کریم کا حکم تو صدیاں گواہ ہیں اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہے عطا ہی عطا ہے پھر ہم جو اللہ کے حکم پر عمل کر رہے ہیں ہمیں خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری نمازیں ٹھیک ہیں ان کی ادائیگی میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی،نماز کے اہتمام میں وضو میں،نیت کیا ہے،کیا میری نماز میں خلوص ہے؟ یہ سب دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہماری نماز درست ہوتی تو نتائج وہی آتے جن کا اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ ہمارے اعمال کی اللہ کو ضرورت نہیں ہے بندے کا کردار اس کے اعمال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کس راستے کا مسافر ہے۔اعمال بندگی کی نشانی ہیں اور یہی اللہ کی رضا کا راستہ بھی ہے جو اس کے قرب کو جاتا ہے۔اور اگر نماز کی ادائیگی بوجھ لگ رہی ہو نماز میں دل نہ لگ رہا ہو جیسے کوئی مجبوری میں کام کیا جار ہا ہو کیا نماز کو معراج کا درجہ دے رہے ہیں کیا اس نماز کو اللہ کی ملاقا ت کا زریعہ سمجھ رہے ہیں یا صرف ورزش کی او رچلے گئے۔جیسا ہمارا اہتمام ہو گا ویسے نتائج ہوں گے اگر اہتمام خلوص کے ساتھ ہوگا محبت الہی میں نماز کی ادائیگی ہوگی اس کے ایک ایک رکن پر بندہ پورے خلوص سے عمل کر رہا ہو پھر نتائج کیسے ہوں گے۔مساجد اللہ کا گھر ہیں ہم نے ان میں بھی تفریق پیدا کر رکھی ہے کوئی نمازی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جاتا یہ سب کیا ہے؟ ہمیں ایسی باتوں سے باہر نکلنا ہو گا اور عبادات کو خالص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نتائج حاصل کر سکیں جو مقصود ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Zaroriat duniya ko apni khwahisaat ke mutabiq dekhnay ki bajaye Allah ke hukum ke mutabiq dekhna chahiye - 1

شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ماہانہ اجتماع


ماہانہ اجتماع اگست 2022

Watch Mahana Ijtima August 2022 YouTube Video
Mahana Ijtima August 2022 - 1
Mahana Ijtima August 2022 - 2
Mahana Ijtima August 2022 - 3
Mahana Ijtima August 2022 - 4
Mahana Ijtima August 2022 - 5
Mahana Ijtima August 2022 - 6