Latest Press Releases


اللہ کا ذکر بندہ مومن میں حضوری کی وہ کیفیت پیدا کرتا ہے کہ وہ خود کو اللہ کے روبرو پاتا ہے


برائی کا ہر عمل، مزید برائی میں ڈبونے کا سبب بنتا ہے اورہر گناہ قلب انسانی پر ایک سیاہ داغ لگا دیتا ہے،جب شیطنت اختیار کی جاتی ہے توشیطانی وصف انسانوں میں بھی آجاتے ہیں اور پھر ایسے انسان شیطان کے معاون بن جاتے ہیں۔یاد رکھیں کہ انسانی قلب کی صفائی ذکر الٰہی سے ہی ممکن ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 
  انہوں نے کہا کہ بندہ جب برائی میں حد سے بڑھتا ہے تو اسے برائی اچھی لگنی شروع ہو جاتی ہے یعنی برائی ہضم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ بہت بڑی بد بختی ہے۔جب بندہ کے اعمال صالح نہ ہوں تو آخرت کے اثرات اسی دنیا میں آناشروع ہو جاتے ہیں۔اسی دنیا میں ہی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عزت و ذلت کا معیار وہ ہے جو قرآن کریم ارشاد فرما رہا ہے وہ نہیں جو اپنی ذات کے میعار کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہو۔ہم قرآن کریم کے ہوتے ہوئے زندگی کا میعار اپنی پسند سے کریں او ر اپنے فیصلوں میں تجاوز اختیار کریں اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے۔قرآن کریم اللہ کی یاد کا حکم فرماتا ہے اور اس میں بے شمار انعامات ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مومن کو وہ حضوری کی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اپنے اللہ کے روبرو ہونے کا یقین دل میں اتر جاتا ہے۔اور یہ احساس اسے کئی برائیوں سے بچا لیتا ہے۔
  آخر میں انہوں نے اولاد کی تربیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ کی گئی اور اسے کفر و شرک تک پہنچنے کے اسباب ختم نہ کیے تو یہ بہت بڑا جرم بن جائے گا۔جہاں ہم دنیاوی علوم کے لیے دن رات ایک کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی جان مال لگا رہے ہوتے ہیں وہاں دیکھنا یہ کہ کیا ہم نے اپنی اولاد کو دین کی تعلیم بھی دی۔ایسے اسباب اختیار کیے جن کے وسیلے سے ہماری اولا د دین کی تعلیم حاصل کر سکے۔حقوق وفرائض کی وہ تقسیم جو اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہم نے اپنی اولاد کو سکھائے آج ہم چاہتے کہ ہم جیسے مرضی زندگی بسر کریں لیکن ہماری اولاد نیک ہو،خود جھوٹ بولیں اور اولاد سے سچ کی امید رکھیں یہ خود سے دھوکہ ہے اولاد کی تربیت کے لیے خود کو والدین کو بھی بدلنا ہوگا اپنے کردار میں بہتری لانی ہوگی تب اولاد سے بھی امید رکھی جا سکتی ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Allah ka zikar bandah momin mein huzoori ki woh kefiyat peda karta hai ke woh khud ko Allah ke rubaroo paata hai - 1

جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے


اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ عبادات کو بھی رسم و رواجا ت کی نذر کر دیا ہے اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم اس سارے عمل کو غلط بھی نہیں سمجھ رہے۔جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب !
انہوں نے کہا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ مذہب کے نام پر جو رواجات کافر و مشرک اختیار کرتے تھے کہ کسی فصل،جنس یا جانور کے حصے کیے جاتے تو اس میں کچھ حصہ مہمانوں کا،کچھ حصہ بتوں کا اور کچھ حصہ اللہ کے نام کا مقرر کرتے،جس نے عطا فرمایا اس میں سے اسی دینے والے کا حصہ مقرر کر رہے ہوتے اور پھر اس اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ شرک بھی کرتے۔اگر کوئی اس جرم کے ساتھ اس دارِ دنیا سے چلا گیا تو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی اپنے مقدر میں کر لی۔اور اس کی کوئی امید نہیں ہے کہ اس کی کوئی بچت ہو گی۔یاد رکھیں کہ حق میں عطا ہے اور بندگی حاضر باش ہونے کے مطابق ہوتی ہے۔اور باطل میں سودا ہے۔انہوں نے اپنے بت اپنے مختلف کاموں کے لیے تراش رکھے ہوتے تھے۔یہ سب اپنی خواہشات کی تکمیل ہوتی تھی۔یہ سب سودے بازی ہوتی۔کہ ہم فلاں بت کی پو جا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ میری حفاظت کرتا ہے دوسرے بت کو اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں رزق دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام ایسا دین برحق ہے کہ کسی شعبے میں بھی تشنگی نہیں چھوڑتا۔آج ہم نے اسوہ رسول ﷺ کو چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس وقت معاشرے میں ہر قسم کی برائی در آئی ہے۔یہ سب ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی دعا فرمائی
Jab haq ko chore diya jaye to insaan khwahishaat nafs ki pooja shuru kar deta hai - 1

آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے


آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے۔ہر کوئی اس سے پریشا ن ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے؟ اگر نماز باقاعدگی سے اہتمام کے ساتھ ادا کی جائے تو ان شاء اللہ اس برائی کے سمندر میں حفاظت الٰہی نصیب ہو گی۔اور یہ علاج بندہ مومن کو 14 سو سال پہلے انعام کے طور پر عطا ہوا ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نےجمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ معراج شریف کی رات آپ ﷺ کو 50 نمازوں کا حکم ہوا پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ کی ادائیگی اُمت کے لیے مقرر ہوئیں۔لیکن ان پانچ کی ادائیگی کرنے پر اجر پچاس نمازوں کا ہوگا۔یاد رکھیں دین اسلام کا ہر پہلو ہماری ضرورت ہے اور اسی میں ہی ہماری بھلائی ہے۔دین اسلام دنیا کے ہر شعبے کے متعلق جواب دیتا ہے ابھی حضرت انسان کو فرصت ہے کہ وہ اعمال صالح اختیار کر سکتا ہے اور اس پر بحیثیت مسافر منزل با منزل گامزن ہے۔زندگی لمحہ لمحہ گزر رہی ہے۔انسان کا کردار شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کیسی راہ پر ہے اس کے مطابق ہی اسے منزل ملے گی۔ اسوہ حسنہ ﷺ ایسا خوبصورت نمونہ اللہ کریم کی طرف سے عطا  ہواہے کہ آخری انسان تک کے لیے نشان منزل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام کو خود اپنائیں اسے کسی عالم،پیر یا مولوی کے ذمہ لگا کر خود فارغ ہو کر نہ بیٹھ جائیں،بلکہ اسے جانیں،عمل کریں اور قائم رہیں۔ہر ایک کو روز آخرت اپنے ایک ایک قول و فعل کا حساب دینا ہے جتنا کسی کے پاس اختیار ہے،طاقت ہے ان سب امور کے بارے پوچھا جائے گا  اس لیے ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ اللہ کریم کی دی ہوئی ان نعمتوں کو کس راہ پر خرچ کر رہا ہوں۔زیادہ وقت نہیں ہے محدود وقت ہے نتیجہ سامنے ہوگا۔کفرو شرک کرنا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق اعلان کرنا،آج ہم اپنی عبادات کو ضروریات دنیا کے لیے اختیار کرتے ہیں یہ بہت نازک مسئلہ ہے ہمیں اپنی نیت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Aaj muashray mein be hiyai aur be raah rawi aam ho gayi hai - 1

جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی


انسانی مزاج ہے کہ جزااورسزاکے اطلاق کے مطابق عمل اختیار کرتا ہے جہاں اس کو یقین ہو کہ قانون پر نفاذ ہوتے ہوئے جزااور سزا ملے گی  اس معاشرے میں جرائم کی شرح بہت کم ہوتی ہے اوروہاں بہت حد تک امن ہوتا ہے اور یہ قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیںاگر وہ قوانین جو اللہ کریم نے انسان کے لیے بنائے ہیں ان کو اگر ملک میں نافذ کر دیا جائے تو معاشرے میں واقعی عدل ہو گا  مساوات ہوگی اور ہر ایک کیلیے بھلائی ہو گی اور زندگی کے ہر شعبے میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا  ان خیالات کا اظہار  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشنبدیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان نے جمعۃ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر انسان کی استطاعت ہر پہلو سے مختلف ہوتی ہے جسمانی لحاظ سے دیکھ لیں یا ذہنی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہرایک کی اپنی حیثیت ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی جزااور سزا کو سامنے رکھناہے اوراس کا اتنا یقین ہو کہ میرا ہر عمل اللہ کی حضور پیش ہونا ہے اور مجھے میر ے اعمال کے مطابق جزااور سزا ملنی ہے تو پھر بندے کا ہر عمل خالص اُس بارگاہ کے لیے ہو گایہ تب ہی ممکن ہو گا جب ایمان بل آخر مظبوط ہوگا اور پھر جو عمل ظاہرا" صالح ہو گا اور اس کی نیت کی درستگی سے باطنی طور پربھی نیک عمل کہلائے گا اور جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی اور اگر ہم  اپنے سے پہلے جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں انکو دیکھیںتو ان کی قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں تو پھر اپنے آپ کو بھی ان کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو پھر ہمیں اصل زندگی کا احساس ہو گا آپ وﷺ کا ارشاد ہے جس طرح دن ڈھل رہا ہو عصر کا وقت ہے اسی طرح اس دنیا کا وقت شام کے قریب پہنچ چکا ہے ہماری  زندگی تو کسی بھی لمحے برزخ میں منتقل ہو سکتی ہے اللہ کریم ہمیں دارالعمل سے برزخ میں حالت ایمان سے داخل فرمائیں 
Jab amal Allah ki khushnodi kay liye ikhtiyar kya jata hai to phir duniya ki ehtiaaj nahi rehti - 1

تارک الدنیا ہونا کمال نہیں،کمال یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق بھر پور زندگی بسر کی جائ


تارک الدنیا ہونا کمال نہیں،کمال یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق بھر پور زندگی بسر کی جائے.اللہ کریم کی ذات نے انسان کو جو کچھ عطا فرما دیا ہے اگر ساری زندگی سر بسجودگزرجائے کوئی دوسرا کام نہ کیا جائے تو بھی اس کاشکر ادا نہیں ہو سکتا۔اسی پہلو کو لیتے ہوئے دیکھا جائے تو ہم کمزور لوگ بتقاضائے بشریت ہمارے اندر بہت ساری کمزوریاں ہیں۔اس پر مزید غلطیاں کرتے جائیں تو ہم اس سب کو شیطان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو کہ درست نہ ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
      انھوں نے کہاکہ اس ادراک کی ضرورت ہے کہ معرفت باری تعالی کو جانا جائے انسان کے ہر ہر عمل کو اللہ جانتا ہے۔ہرگزرنے والا لمحہ،ہر گزرنے والا دن اور ہر گزرنے والے ماہ و سال میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے علم میں ہے۔ من حیث القوم ہماری کمزوری ہے کہ بجائے ہجری سال کے عیسوی سال کی مبارک دی جارہی ہے اور اس مبارک باد میں جو پوشیدہ بات ہے یہ کہ ہماری زندگی کا ایک سال گزر گیا،کم ہو گیا اور ہم شغل میلے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارک الدنیا ہونا کوئی کمال نہیں ہے اللہ کریم نے انسان کو دنیا میں جس حیثیت میں رکھا ہے اس حیثیت میں رہتے ہوئے اللہ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی جائے تو یہی زندگی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا سبب بن جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اُمت مسلمہ کو اس ادراک کی ضرورت ہے جو اسے آشنا کر دے کہ اللہ کریم قرآن کریم میں اسے کیا فرما رہے ہیں۔اور یہ کہ اُمت مسلمہ اپنے نبی کریم ﷺ کو جان سکے کہ وہ کیا احکامات لائے۔برکات نبوت ﷺ کی بدولت بندہ مومن کو وہ کچھ نظر آجاتا ہے جس کا ادراک ظاہری آنکھ نہیں کر پاتی۔یہ سوچ ہمیں نصیب ہو جائے کہ ہم سب محتاج ہیں تاکہ تمام امور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوں۔
  انہوں نے کہا کہ ہماری گزرتی ہوئی زندگی ہمیں یہ شہادت دے رہی ہے کہ مسافر بہ منزل ہوتے جا رہے ہیں۔اور ایسے ایسے لوگ جن کے بغیر زندگی کا لفظ ممکن نہ تھا وہ بھی چلے گئے۔اب ہمیں یہ سوچنے کی ضروت ہے کہ میں اپنی بڑائی میں نہ پڑوں۔اور اپنی حیثیت کا بخوبی علم ہو کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں میرے منازل تب حقیقت ہوں گے جب میری عملی زندگی دین اسلام پر ہوگی۔کلام ذات باری تعالی کی سمجھ ہمیں سیدھی راہ پر لے آتی ہے۔اور اگر ہمارے اعمال درست نہ ہوں گے تو پھر معاشرے کے حالات بھی بہتر نہیں ہوں گے۔وبائی امراض کی شدت،ایک دوسرے کا لحاظ نہ ہونا یہ سب ہمارے اعمال کے سبب ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Tarik al-dunia hona kamaal nahi, kamaal yeh hai ke Allah ke hukum ke mutabiq bhar poor zindagi basr ki jai - 1

جو وقت تخریب میں ضائع کر رہے ہیں اُسے تعمیر میں لانا چاہیے


اللہ کی رضا سے مراد یہ ہے کہ جس راہ کے اختیار کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے اُسے اختیار کیا جائے۔ہم محتاج ہیں اسے احتیاج نہیں ہے۔آج ہم نیک لوگوں کو مانتے ہیں کہ فلاں بزرگ اللہ کے ولی ہیں لیکن خود وہ نیکی اختیار نہیں کرتے،ہم اپنی زندگی کو اپنی پسند کے مطابق بسر کرتے ہیں بلکہ نیکی بھی دنیاوی کسی فائدہ کے لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ پڑھنے سے مجھے فلاں چیز مل جائے فلاں عہدہ مل جائے۔یہ درست نہیں ہے۔اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان امیر عبدالقدیر اعوان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ جو وقت تخریب میں ضائع کر رہے ہیں اُسے تعمیر میں لانا چاہیے۔کیونکہ ہر عمل کے اپنی ذات پر بھی اثرات ہوتے ہیں اور معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔اگر برائی کی جائے گی تو معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے اگر نیک عمل ہوگا تو اس سے معاشرے کی تعمیر ہوگی معاشرے میں بہتری آئے گی۔اگر ہر بندہ شام کو سونے سے پہلے عملی زندگی پر دھیان دے کہ آج دن بھر کتنی نیکی کی اور کتنے اعمال نا فرمانی میں چلے گئے تو کسی دوسرے کی ذات پر بحث کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے سے اچھائی کی توقع رکھنے کی بجائے خود اچھائی اختیار کریں۔معاشرہ خود بخود اچھا ہو جائے گا۔ہمارے قریب انصاف یہ ہے کہ جو مجھے ملنا چاہیے وہ ملے لیکن جہاں ادائیگی کرنی ہے وہاں سے رعایت مل جائے۔روز محشر ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجے ہیں۔اپنے روز کے معمولات دیکھیں کہ دن میں کئی بار مواقع ملتے ہیں جہاں ہم نے صحیح اور غلط میں سے ایک کو چننا ہوتا ہے خود کو دیکھیں کیا میں حق کو چن رہا ہوں یا نا حق کی طرف جا رہا ہوں یہی ہمارا ایمان ہے اگر ایمان مضبوط ہوگا،جزا و سزا پر یقین کامل نصیب ہے تو بندہ حق کو چنے گا اگر اس بات کی پرواہ نہیں کہ مجھے حشر کو ایک ایک سانس کا حساب دینا ہے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو پھر جان لیں کہ آپ کا ایمان کمزور ہے،آپ کا اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق مضبوط نہیں ہے جس وجہ سے آپ حق کو چھوڑ کر نا حق کی طرف جا رہے ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔ 
Jo waqt takhreeb mein zaya kar rahay hain ussay taamer mein lana chahiye - 1

اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنا ہی اصل کامیابی ہے


ہم مخلوق ہیں ہماری سوچ بھی محدود ہے اللہ کریم نے جو احکامات اس بشر کے لیے فرمائے ہیں وہی انسان کے لیے سب سے مفید ہیں۔اللہ کریم نے عدل کا حکم فرمایا ہے اب اگر ہم اپنی زندگیوں میں عدل کو نافذ نہیں کریں گے اور عدل بھی وہ جس کی تعلیم نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے اگر ہم اپنی پسند و ناپسند پر عدل قائم کریں گے تو اس سے فائدہ کی بجائے فساد ہو گا۔کیونکہ اس میں ہماری پسند شامل ہو جائے گی،زندگی کے ہر شعبے میں عدل کی ضرورت ہے جس نظام ہائے زندگی میں عدل نہ ہوگا وہ نظام نہیں چل سکتا۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عدل اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیے جس نے اپنے آپ سے انصاف نہیں کیا وہ کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکتا۔اللہ کریم کا احسان کہ ہمیں ان حقائق سے آشنا فرمایا جو حقیقی ہیں۔جو انجام سے آگاہی کا سبب ہیں۔اللہ کریم کے ہر حکم میں حکمت ہے۔اللہ کریم نے ہمیں درست اور غلط سے آشنا فرما دیا۔کائنا ت کی ہر چیز میں اللہ کریم نے اعتدال رکھ دیا ہے اب اگر ہم اعتدال کا دامن چھوڑ دیں گے تو اس کے نتائج ایسے ہی ہوں گے جیسے آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اپنے گھر سے عدل شروع کریں آپ کو اس کے مثبت نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں عدل ہو کیا ہم خود ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے کاروبار میں معاشرے میں ہم سب اس وطن عزیز کی ایک اکائی ہیں اگر ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنا شروع کردیں تو ملک میں خود بخود عدل نافذ ہو جائے گا۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Allah aur Allah kay Rasool SAW kay hukum ke mutabiq zindagi guzaarna hi asal kamyabi hai - 1

اپنی غلطیوں پر قائم رہنا پھر اس کا جواز پیش کرنا درست نہ ہے


 ہر بندہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھے کہ وہ حق پر کھڑا ہے یا اس کے قدم نا حق کی طرف ہیں  اپنی غلطیوں پر قائم رہنا پھر اس کا جواز پیش کرنا درست نہ ہے۔کیونکہ ہمارے فیصلے یہ بتا رہے ہیں کہ ہم کس راہ کے مسافر ہیں۔اور پھر اکثریت کے فیصلے اور اعمال معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں۔اور یہ سب نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ان خیالات کا ا ظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ آج ہم جو چاہیں گے وہی ہمیں ملے گا جیسے کوئی زمین تیار کرکے جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔یہ قانون قدرت ہے کہ جو بندہ برائی کی راہ چنے تو پھر اسے ایسی ہی محافل اور لوگ میسر ہوتے ہیں جو اسی راہ کے مسافر ہوتے ہیں اور اگر راہ حق پر چلے گا تو اسے وہ لوگ اور وہ صحبت میسر ہوگی جو نیک اور صالح ہوں گی اور روز محشر بھی اسے انہی لوگوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ کریم ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھائے جن پر اللہ کریم انعام فرمائیں گے اور ہمہ وقت دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔
  آخر میں انہوں نے وبائی مرض (کورونا وائرس) سے نجات اور ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Apni ghaltion par qaim rehna phir is ka jawaz paish karna durust nah hai - 1

مسلمان وہ قوم ہے جسے اللہ کریم نے دنیا اور آخرت کے ہر سوال کا جواب عطا فرمایا


دشمن کے اطمینان کے لیے اقدامات اٹھانا دشمنی کو ختم نہیں کرتا بلکہ اپنی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ جب تک دشمنی کی بنیاد کو ختم نہ کیا جائے امن کا حصول ناممکن ہو گا۔ ہماری پالیسی ایسی ہے جو کہ مضبوط بنیادوں پر نہ ہے اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار امیر عبد القدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان وہ قوم ہے جسے اللہ کریم نے دنیا اور آخرت کے ہر سوال کا جواب عطا فرمایا اور ہم آج اپنی اصل میراث سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ موجودہ وبائی مرض کی ویکسین کے لیے دنیائے کفر کی طرف دیکھ رہے ہیں جو کہ اس ساریحق کو مانتے ہی نہیں۔ کاش کہ مسلم امت کی اسباب پر ایسی دسترس ہوتی کہ مخلوق ہماری طرف دیکھتی۔ کرونا مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی جائیں اور اس بحث میں نہ پڑا جائے کہ یہ بیماری ہے ہی نہیں کیونکہ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے کئی لوگ معاشی تنگی کا شکار ہیں اور مسلمان کا مسلمان پر جو حق ہے اس میں یہ بھی کہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھا جائے اور غرباء اور ضرورتمندوں کی مدد کی جائے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمیں یہ علم ہی نہ ہو کہ میرے ساتھ گھر والا پڑوسی بھوکا سو رہا ہے۔ اللہ کریم ہمیں غیرت ایمانی عطا فرمائے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھ سکیں اور ہمارے اعمال ایسے ہوں کہ غیر مسلم بھی دین اسلام کی طرف راغب ہوں۔
Musalman woh Qoum hai jisay Allah kareem ne duniya aur akhirat kay har sawal ka jawab ataa farmaya - 1

معاشرے کی تنگی اور تکلیف ہمارے کردار سے ہے


 معاشرے کی تنگی اور تکلیف ہمارے کردار سے ہے ہم بحیثیت مجموعی بے عمل ہوگئے ہیں ہماری کمزوریوں کو کس نے درست کرنا ہے
 ہم بحیثیت مجموعی باعمل نہیں رہے ہمارے کردار کی وجہ سے ہم پر تنگی اور تکالیف آرہی ہے ہمیں اپنے کردار کو ہر لحاظ سے درست کرنا ہوگا۔مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بندہ صداقت اور سچائی پر قائم رہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ بندہ مومن کے جو اوصاف اللہ کریم فرما رہے ہیں ہم اس حکم کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو پرکھیں تو سمجھ آئے گی کہ ہم عمل سے کتنے دور ہو گئے ہیں۔اگر ہم سب اپنے فرائض کو دیکھنا شروع کر دیں تو معاشرے میں ٹھہراؤ آسکتا ہے۔ہم مغرب کی تقلید کرتے ہوئے صرف حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم حقوق مانگتے ہوئے اپنے فرائض بھول جاتے ہیں تو اس طرح توازن کیسے ہوگا اور یہ عمل کتنی مخلوق کے ساتھ زیادتی کا سبب بنے گا۔تو پھر نتائج ایسے ہی ہوں گے جیسے آج ہیں۔
  وبائی مرض کورونا وائرس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا اللہ کریم اس وبائی مرض سے نجات عطا فرمائے سب کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔اللہ کریم ہماری غلطیوں کو معاف فرمائیں۔ہمارے اندر یہ احسا س ہونا چاہیے کسی دوسرے کی تکلیف دیکھیں تو خود بھی تکلیف محسو س کریں یہ ایک مومن کی صفت ہے۔
  مرکز دارالعرفان منارہ میں دم کیا ہوا نمک استعمال کریں ان شاء اللہ اس وبائی مرض سے حفاظت نصیب ہوگی۔اور اس کے علاوہ علاج بالغذا کا نسخہ بھی بہت مفید ہے اسے بھی ضرور استعمال کریں اور دوسروں کوبھی آگاہ کریں۔
  آخر میں انہوں نے دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کریم ہمیں غیرت ایمانی عطا فرمائیں ایسا کردار عطا فرمائیں جس سے غیر مسلم بھی مستفید ہوں اور ہم اپنے کردار سے ان کو دین کی طرف راغب کرسکیں۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Muashray ki tangi aur takleef hamaray kirdaar se hai - 1