Latest Press Releases


ذاتی اختلافات کو بھول کر اس وبا کا اتحاد اور اتفاق سے مقابلہ کریں۔

کورونا وائرس ایسا وبائی مرض ہے جو بڑی شدت سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔اس کے تدارک کے لیے ہر ایک کی اپنی حیثیت کے مطابق ذمہ داری ہے۔جہاں حکومت وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ رہی ہے وہاں ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔مفتیان اکرام اور علماء کرام اپنی ذمہ داری ادا کر تے ہوئے جہاں جس حد تک عبادات کی اجتماعات کی اجازت دے رہے ہیں ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔جہاں جہاں جو منتظمین ہیں عوام کی حفاظت کے لیے جو بھی احکامات جاری کر رہے ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔اور یہ وقت قومی ہمیت کا ہے اپنے ذاتی اختلافات کو بھول کر اس وبا کا اتحاد اور اتفاق سے مقابلہ کریں۔اور خود کو رضاکارانہ طور پر ہر وقت تیار رکھیں۔  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا قوم کے نام اہم پیغام۔
  انہوں نے مزید کہا کہ میں بحیثیت شیخ سلسلہ اور سربراہ تنظیم الاخوان اور اپنے تمام سالکین اور ممبران کی طرف سے ہم ہر وقت اپنے ملک و قوم کے لیے تیار ہیں جہاں ریاست پاکستان کو ہماری ضرورت ہوہم رضاکارانہ طور پر وہاں پہنچیں گے۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور کورونا وائرس سے حفاظت کی دعا فرمائی۔
Coronavirus - 1

قرآن کریم کے ایک ایک حرف میں وہ برکات ہیں جن سے حفاظت الٰہی نصیب ہوتی ہے

کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جس سے عامۃ الناس میں ایک گھبراہٹ ہے،خوف ہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔یادرکھیں موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب تک اس کا وقت پورا نہ ہو جائے۔جہاں ہم اس وبا سے بچنے کے لیے ظاہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں وہاں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کریں کیونکہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف میں وہ برکات ہیں جن سے حفاظت الٰہی نصیب ہوتی ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ وسربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
 انہوں نے کہا کہ طواف کعبہ کا روکنا اُن مفتیان کرام کا حکم ہے جو اس کے اہل ہیں لیکن اُن کا یہ فیصلہ کس حد تک درست ہے وہ خود اللہ کے حضور اس کے جواب دہ ہیں۔لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے کہ طواف کعبہ وہ جگہ ہے جہاں ہر وقت تجلیات باری کا نزول ہوتا ہے اور قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حج کا طواف روک دیا جائیگا۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہم موت کے خوف اور ڈر سے وہ اقدام نہ اُٹھائیں جو مزید اللہ کریم کی ناراضگی کا سبب ہوں۔اس موضوع پر ہر کوئی اپنی رائے نہ دے اس پر لب کشائی وہی کرے جو اس شعبہ کا ماہر ہو۔
  انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت قوم ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے حصے کا کردار اد اکریں۔جہاں انتظامیہ کو ضرورت پڑے وہاں ہم سب بے لوث ہو کر ان کی مدد کریں کیونکہ ہم سب اس ملک کی ایک ایک اکائی ہیں۔اللہ کریم سے کثرت سے استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔حکومت وقت سے اپیل ہے کہ اگر خد ا نخواستہ یہ بیماری پھیلے تو پھر ہمارے محدود وسائل میں مریض کو اس کے خاندان کے حوالے کریں۔اور اس کو تمام احتیاطی تدابیر دے کر isolate  کر دیا جائے۔اس سے محدود وسائل کے باوجود کافی حد تک قابو پا سکیں گے۔
  آخر میں انہوں نے کورونا وائرس سے جو ڈر اور خوف پایا جاتا ہے اس کے لیے سورۃ فاتحہ بطور وظیفہ بھی فرمایا کہ یہ دعا بھی ہے اور اس میں مانگنے کا سلیقہ بھی موجود ہے۔اس کے علاوہ  "ھوالاول والآخر واظاہر و والباطن وھو بکل شئی علیم"  کا ورد بھی بتایا۔اور ملک و قوم کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Hifaza-e-Ilahi - 1

سالک کا اپنے شیخ کے ہاتھ پر بیعت تصوف کرنا ایک عہد ہے جس کی پاسداری اُس پر فرض ہے

 سالک کا اپنے شیخ کے ہاتھ پر بیعت تصوف کرنا ایک عہد ہے جس کی پاسداری اُس پر فرض ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان
 سالک جب اپنے شیخ کے ہاتھ پر بیعت تصوف کرتا ہے تو وہ یہ عہد کرتا ہے کہ میں کیفیات قلبی جو کہ قلب اطہر محمد الرسول اللہ ﷺسے آ رہی ہیں خلوص دل اور خالص نیت کے ساتھ حاصل کروں گا اور آپ کے بتائے ہوئے تمام اصول و ضوابط پر عمل پیرا رہوں گا۔یہاں ایک بات بہت نازک ہے کہ سالک بیعت کر رہا ہوتا ہے اور شیخ بیعت لے رہا ہوتا ہے تو اس طرح شعبہ تصوف میں صرف دو فریق ہی ہوتے ہیں ایک طرف شیخ اور دوسری طرف سالک چاہے وہ لاکھوں کی تعداد میں ہوں دوسرا فریق ہی کہلائے گا۔سالک اگر بیعت کو توڑتا ہے تو اس کا وبال بھی صرف اُسی پر آئے گا۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ وسربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر دارالعرفان منارہ میں سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے مراکز اس وقت پوری دنیا میں موجود ہیں اور سالکین دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں جن کو ذکر الٰہی کرایا جاتا ہے جو مرکز دارالعرفان منارہ سے آن لائن ہوتا ہے۔اس روحانی تربیت کا مقصد صرف یہ ہے کہ بندہ مومن اپنے رب سے آشنا ہو جائے اور جب وہ اللہ کی عبادت کرے تو وہ یہ محسوس کرے کہ گویا وہ اللہ کریم کو دیکھ رہا ہے۔اللہ کریم کے روبروہونے کا یہ احساس کیفیات قلبی کے اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ تصوف میں شیخ کے ساتھ مضبوط تعلق کے لیے تین چیزیں بے حد ضروری ہیں۔عقیدت،ادب اور اطاعت اگر ان میں سے ایک بھی چھوٹ جائے تو تصوف میں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ شیخ ہی وہ ہستی ہوتی ہے جو کیفیات قلبی کی امین ہوتی ہے اور سالکین کے قلوب کو کیفیات قلبی سے منور کرتی ہے اگر شیخ کے ساتھ تعلق میں دراڑ آجائے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Sheikh Aur Saliq Ka Rishta - 1

مرد اور عورت معاشرے کی بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں

ان خوبصورت رشتوں میں ماں جیسا عظیم رشتہ بھی ہے۔جہاں بڑے بڑوں کے سر جھک جاتے ہیں۔اور اللہ کریم نے اس رشتہ کے قدموں تلے جنت قرار دی ہے۔بہن کے رشتے میں وہ پیار ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہے۔میاں اور بیوی کے درمیان دو میٹھے بول کتنی ہی تنگی اور تکلیف ہو اس کو ٹھہراؤ پر لے آتے ہیں۔آج ہم عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں آیا کیا یہ مسلم معاشرے میں کہاں تک درست ہے۔اور وہ حکومت جو یہ دعوی کر رہی ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر نظام اپنائیں گے کیا یہی وہ اصو ل ہیں جو کہ معاشرے میں ایک دوسرے کو دست و گریباں کر رہے ہیں نہ کوئی اللہ کا خوف ہے اور نہ باپ،بھائی اور ماں کا لحاظ ہے کیا وطن عزیز اس لیے بنا تھا کہ ہم اپنی نئی نسل کو مغرب کی پیروی میں لگا دیں۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل انفرادی طورپر یا اجتماعی طو ر پر اختیار کریں گے تو قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اے میرے حبیب ﷺ ان سے رخ ِ انور پھیر لیجیے اور انہیں اسی بے ہودگی میں کھیلتے رہنے دیں۔ گناہ گار ہونا یا خطا کار ہونا درست نہیں ہے لیکن غلطی کو اس درجہ تک کا اختیار کرنا کہ رب کریم کی یہ وعید اس پر صادق آ جائے تو اس سے بڑا نقصان ہو نہیں سکتا۔اس لیے  ہم آج ہی اس عمل سے توبہ کریں اور کسی کے غلط قدم کی مذمت کرنے کی بجائے اس کا ساتھ مت دیں۔
  کرونا وائرس جو اس وقت پوری دنیا میں پھیل گیا ہے اس کے لیے بہترین عمل یہ ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کے تحت پاکیزگی کا خیال کریں اور اللہ سے شفا مانگیں۔کیونکہ بغیر اللہ کے حکم کے کوئی شئے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔مرکز دارالعرفان منارہ میں دم کیا ہوا نمک موجود ہے جو کہ ڈینگی،سانپ کے کاٹنے اور اس طرح کے امراض کے لیے بہت اکثیر ہے۔اسے بطور کرونا وائرس سے حفاظت اور اگر کسی کو مرض ہو گیا ہے تو استعمال کر سکتا ہے ان شاء اللہ،اللہ کریم اُسے شفا ء عطا فرمائیں گے۔
  یاد رہے کہ 7،8 مارچ 2020 کو دارالعرفان منارہ میں دو روزہ ماہانہ اجتماع ہو رہا ہے جس میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان خصوصی خطاب فرمائیں گے۔اس اجتماع میں ملک بھر سے سالکین بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔ایک تربیتی پروگرام کے تحت ان کی روحانی تربیت کی جاتی ہے۔
Aurat ka Muqaam - 1

نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ حیات ہے

مخلوق کی خالق سے آشنائی کا سبب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ہی اللہ کریم کا ذاتی کلام قرآن کریم اللہ کی مخلوق تک پہچایا اور اس پر من وعن عمل کر کے دیکھایا۔آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ کی زندگی میں کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں کوئی تشنگی رہ گئی ہو عمومی زندگی سے لے کر ریاست تک کے تمام امور کی راہنمائی ہمیں نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ سے ملتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان اصولوں کو اپنائیں جو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں۔دین اسلام قانون فطرت ہے جو کہ تمام فطر ی تقاضوں کو پورا فرماتا ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے سڈنی (آسٹریلیا) کی روٹی ہل مسجد میں جمعتہ المبار ک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ اگر آپ ﷺ کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے جس میں کاروباری حیات سے لے کر ازدواجی زندگی تک کے تمام پہلو موجود ہیں کوئی جگہ ایسی نہیں جس سے ہم اپنے لیے راہنمائی حاصل نہیں کر سکتے۔یہ دنیا امتحان گاہ ہے اللہ کریم نے کسی کو پابند نہیں فرمایا بلکہ چوائس دی ہے کہ چاہے تو شکر کا راستہ اختیار کرو چاہے نا شکری کا۔اگر اللہ کریم یہ شرط عائد فرما دیتے کہ جس نے نماز نہ پڑھی اس کو کھانا نہیں ملے گا تو کون ہے جو نماز ترک کر دیتا۔یا یہ فرما دیا جاتا کہ جو اطاعت نہیں کرے گا اس کی بینائی لے لی جائے گی تو کون انکار کرتا لیکن وہ رب ہے جو ہر ایک کی ہر ضرورت ہر جگہ پوری فرما رہا ہے چاہے کوئی اس کو رب مانے یا انکار کرے یہ اس کی شان ربوبیت ہے یہی تو امتحان ہے کہ ہر ایک کو فیصلہ کا اختیار دے دیا ہے۔انسانی مزاج ایسا ہے کہ اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے ایک جیسا نہیں رہتا لہذا اسے کوئی ایسی ہستی درکار ہے جو اس کی حدود و قیود مقرر کرے اور اس کی راہنمائی کرے۔انسان سے مراد ہے مل جل کررہنے والا۔ہر ایک کی استعداد مختلف ہوتی ہے رنگ و نسل میں فرق ہوتا ہے علاقائی موسم،غذا اور لباس سب کی مختلف ہیں پھر کون ایسا ہو جو اس کے لیے ایسے اصول ترتیب دے جو کہ سب انسانوں کے لیے قابل عمل بھی ہوں اور آسان بھی۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی آپ ﷺ کے ارشادات قیامت تک کے آنے والے آخری انسان کے لیے بھی ایسے ہی مفید ہیں جیسے چودہ صدیاں پہلے قابل عمل تھے کیونکہ آپ ﷺ کے لیے دین اسلام کواللہ کریم نے پسند فرمایا۔جس میں حقوق و فرائض سے لے کر ایک ایک پہلو کی راہنمائی موجود ہے اللہ کریم ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آخر میں انہوں نے مسلم امہ کے اتحاد کی خصوصی دعا فرمائی۔
  یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان اس وقت آسٹریلیا اور ملائشیاء کے دورہ پر ہیں جہاں وہ تصوف اور ذکر قلبی پر مختلف شہروں میں لیکچر دے رہے ہیں اس کے علاوہ ایک ایک فرد کی تربیت فرما رہے ہیں جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔واپسی پر آپ ملائشیاء میں بھی لیکچر دیں گے۔
Itba-e-Resalat SAW - 1

نبی کریم ﷺ کے ارشادات آج بھی ویسے ہی قا بل عمل ہیں جیسے چودہ صدیاں پہلے تھے

قرآن کریم کا ایک ایک حکم مستحکم ہے جب بھی دین اسلام کے مقابل دنیاوی اصول لائے گئے ہمیشہ اسلامی اصول مقدم رہے  نبی کریم ﷺ کے ارشادات آج بھی ویسے ہی قا بل عمل ہیں جیسے چودہ صدیاں پہلے تھے۔آج کی سائنس بھی اپنی تحقیق کے بعد اگر کسی جز پر پہنچتی ہے تو ارشادات ِ نبوی ﷺ کی ہی تشر یح ہو رہی ہوتی ہے۔تو ہمیں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے نا کہ سائنس کی تحقیات کے بعد اپنائیں۔ ان خیالات کا اظہار شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ امیر عبدالقدیراعوان نے ایپنگ میموریل ہال میلبرن آسٹریلیامیں خواتین و حضرات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ ہر مومن اللہ کریم کا دوست ہے۔جب کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اللہ کریم اس کو ولایت کا ایک درجہ عطا فرماتے ہیں۔صاحب ایمان ہونا ہی ایک درجہ کی ولایت ہے۔تقوی ایک کیفیت اور ایک حال ہے جس کا مفہوم کہ کوئی ایسا فعل،کوئی بات کہ کہیں میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں اس ڈر کو تقوی کہتے ہیں۔  ہر ایک کا اللہ کریم سے ایک اپنا تعلق ہے۔جس کے مختلف مدارج ہیں بحیثیت ولایت ہر ایک کو مختلف درجہ کی ولایت نصیب ہے۔اگر اس میں ترقی نصیب ہو تو قرب الٰہی کے منازل شروع ہوتے ہیں۔جتنا کوئی اللہ کریم کی عظمت کو جانتا جائے گا اتنا ہی اسے اپنی عاجزی کا ادراک ہوتا چلا جاتا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ تصوف سے مراد خالص اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ ہے۔تعلیمات نبوت پر خلوص کے ساتھ عمل کرنے کے لیے برکات نبوت ﷺ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے علماء ظواہر نے تعلیمات نبوت کے لیے زندگیاں وقف کیں اور دین ہم تک پہنچانے میں انہوں نے کردار ادا کیا ایسے ہی برکات نبوت ﷺ ہم تک پہنچانے کے لیے علماء ربانی،مشائخ نے اپنی زندگیاں وقف کر کے وہ برکات حاصل کیں اور ہم تک پہنچائیں اور قیامت تک سینوں میں چلتی رہیں گیں۔جب یہ حال نصیب ہو جائے کہ بندہ خود کو ہر لمحہ اللہ کے روبرو محسوس کرے تو پھر ایمان کا درجہ کیسا ہو گا اور اللہ کریم سے تعلق کتنا مضبوط ہو جائے گا۔یہی نور ایمان پھر دلوں کو وہ حیات بخشتا ہے جس سے کردار نکھر کر سامنے آتے ہیں اور بندہ جس معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہے اس کا کردار ہی لوگوں کی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔
  آخر میں انہوں نے سلسلہ عالیہ کا طریقہ ذکر قلبی سکھایا اور اس کے اثرات جو عملی زندگی میں آتے ہیں ان کی وضاحت فرمائی۔بعد میں مسلم اُمہ کے اتحاد اور کشمیری بھائیوں کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
Irshadaat-e-Nabwi SAW - 1

نبی کریم ﷺ کا اتباع نصیب ہو جائے تو پھر حفاظت الٰہی نصیب ہوتی ہے

 بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے۔اگر انسانی وجو د کا جائز ہ لیا جائے جو اللہ کریم کا تخلیقی نمونہ ہے اس میں دل بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے جو فیصلہ دل کرتا ہے سارے اعضا ء اس کو ماننے پر مجبور ہیں دماغ ایک وزیر سی حیثیت رکھتا ہے وہ رائے تو دے سکتا ہے لیکن حتمی فیصلہ پھر دل کا ہی ہوتا ہے۔اور کیفیات کا مرکز بھی یہی دل ہے۔اگر دل میں بگاڑ آئے گاتو پورے جسم میں بگاڑ پیدا ہو گا اگر دل مطمئن ہے تو سارا جسم اطمینا ن میں ہو گا۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے ہنٹنگ ڈیل مسجد میلبورن آسٹریلیا میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ آج کی سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ اس پمپنگ مشین کے اندر کچھ ہے جسے settle heart  کہا جاتا ہے۔کیفیات کا مقام دل ہے ساری محسوسات اس دل کے اندر آتی ہیں۔ ہر کیفیت کا وجود پر ایک اثر ہوتا ہے جیسے خوشی ایک کیفیت ہے لیکن اس کے چہرے پر اثرات مسکراہٹ کی شکل میں ملتے ہیں۔ایمان کی تصدیق بھی دل کے بغیر نا ممکن ہے زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق ضروری ہے۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اطمینان کیسے نصیب ہو۔دلوں کا اطمینان صرف اور صرف اللہ کی یاد میں ہے۔کہ بندہ اپنے خالق جس نے اسے پیدا فرمایا اس کی ایک ایک ضرورت پوری فرما رہا ہے اپنے اللہ کو یاد کرے اس کا شکر ادا کرے نا کہ دنیاوی لذتوں میں کھو جائے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اسلام سارے کا سارا نبی کریم ﷺ کے واسطے سے ہم تک پہنچا۔جب بندہ نبی کریم ﷺ کے اتباع سے باہر نکلتا ہے تو شیطان کی پیروی میں لگ جاتا ہے۔جو اسے مزید گمراہی میں لے جاتا ہے۔اگر اللہ کریم سے رشتہ نصیب ہو جائے اللہ کی یاد عطا ہو جائے نبی کریم ﷺ کا اتباع نصیب ہو جائے تو پھر حفاظت الٰہی نصیب ہوتی ہے اور بندہ شیطان کے دھوکے میں نہیں آتا۔بلکہ اللہ کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔کامیاب ہو تب بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت یا تکلیف آجائے تو بھی اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے کہ اس وقت میرے لیے یہی بہتر تھا۔آخر میں انہوں نے قلبی ذکر کا طریقہ سکھایا اور ملک و قوم اور امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
Hifaza-e-Ilahi - 1

کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کا معیار یہ ہے کہ اس سے مزید نیکی نصیب ہوتی ہے

اللہ کریم نے ہر انسان کو زندہ رہنے اور مذہب اختیار کرنے کا حق عطا فرمایا ہے۔کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اسی طرح آپ کسی کو ذبردستی مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے یہ بندہ اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے کولالمپور ملائشیاء کی مرکز ی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے ایمان نصیب نہ ہو تو انسان بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نظام ہستی میں چلا رہا ہوں اور میری عقل میری قوت بازو سے سب کچھ ہو رہا ہے۔اللہ کریم فرماتے ہیں کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے یعنی زندگی کے زیر و بم اللہ کی طرف سے ہیں وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں اس کا احسان کہ ہمیں پیدا فرمایا اور اتنا بڑا احسان فرمایا کہ انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے۔اور ہم پر خصوصی انعام فرمایا کہ بعثت محمد الرسول اللہ ﷺ اور کلام ذاتی سے نوازا۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی زندگی کو اگر دیکھیں تو جہاں ضروریات ہیں وہاں ان کی تکمیل کے ذرائع بھی عطا فرمائے ہیں۔جیسے آنکھ دیکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ایک وجودی استعداد ہے۔اسی کا استعمال ضرورت کا اور ہے تجاوز کا اور ہے۔ضرورت کا جائز استعمال بندے کو شکرانے کی کیفیت میں لے جائے گا اور تجاوز کا دیکھنا بے حیائی کی حدود کو عبور کر دے گا۔ہر ایک اپنے بارے میں خوب جانتا ہے کہ کہاں سے تجاوز کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس استعداد کو بروئے کار کیسے لا نا ہے۔حقائق کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کو جاننا ضروری ہے جس کے لیے قرآن کریم کو پڑھنا اور اسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔اسی سے ہمیں ساری زندگی کے اصول اور زندگی گزارنے کے سلیقے ملیں گے۔قرآن کریم ان لوگوں کے متعلق بھی بات کرتا ہے جنہوں نے زندگی قرآن کے مطابق گزاری اور جنہوں نے تجاوز کیا ان کے حالات بھی ہمیں بتاتا ہے کہ ان کے ساتھ پھر کیا ہوا۔ مسلمان کہیں سے بھی ہو، رنگ و نسل الگ الگ ہونے کے باوجود ہم سب کلمہ کی تسبیح میں پروئے ہوئے ہیں۔اللہ کا احسان ہے کہ دنیا کے ہر علاقے میں مساجد موجود ہیں علماء موجود ہیں جو سبب ہیں اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچانے کا سیکھانے کا اور سمجھانے کا۔اللہ کریم سب کی کوشش قبول فرمائیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ انسانی مزاج ایک جیسا نہیں رہتا اسے دستک کی ضرورت ہوتی ہے۔نماز ایک دن میں پانچ بار ایسی دستک ہے جو بے حیائی اور برائی سے روک دیتی ہے۔اس کے اثرات قلب اور روح تک پہنچتے ہیں۔اس کی ادائیگی رضائے باری تعالی اور انداز کا پہلو وہ جو نبی کریم ﷺ نے اختیار فرمایا اور اجماع امہ کے تحت ہم تک پہنچا۔اللہ کریم ایسی کیفیت عطا فرمائیں کہ بندہ یہ سمجھے کہ میں ہر لمحہ اللہ کے روبرو ہوں۔کائنات اتفاقاً نہیں ہے ہر شئے طے شدہ نظام کے تحت چل رہی ہے۔کیفیات قلبی اگر نصیب ہو جائیں تو مزید قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہیں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کا معیار یہ ہے کہ اس سے مزید نیکی نصیب ہوتی ہے۔اسی دنیا میں رہنا ہے لیکن آخرت کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔یہی اسباب اختیار کرنے ہیں دنیا کے سارے کام کرنے ہیں لیکن اسلام کے مطابق اس سے باہر نہیں۔آخر میں انہوں نے ذکر قلبی سکھایا اور سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا تعارف اور سلسلہ عالیہ کے مشائخ کی زندگیوں پر روشنی ڈالی۔
Naiki Ka Mayaar - 1

دین اسلام سے دوری معاشرے میں بے حیائی کاسبب

معاشرہ اس وقت اس انحطا ط کا شکار ہے کہ برائی،فحاشی اس قدر پھیل گئی ہے کہ احساس ہی ختم ہو تا جا رہا ہے کہ یہ عریانی ہے یہ فحاشی ہے یا یہ کوئی غلط کام ہے۔یہ صرف عوام تک نہ ہے بلکہ ہمارے صاحب اقتدار بھی اپنے اقتدار کے نشے میں ڈوبے ہیں کہ انصاف نام کی چیز کہیں نہیں ہے۔ہر ایک اس ظلم کو سہہ رہا ہے۔اورآئے روز ان واقعات کو ہم میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔ان خیالات کااظہار شیخ سلسلہ نقشبندی اویسیہ وسر براہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ ایک بات اور جو کہ غلط العام ہے کہ انسانیت ایک مذہب ہے یاد رکھیں انسانیت کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ دین اسلام نے ہی لوگوں کو انسانیت سکھائی جینے کا اور رہن سہن کا سلیقہ سیکھایا۔انسانیت کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ ایک دھوکہ اور فراڈ ہے جس سے ہم سب بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔دین اسلام کے باہر آپ کچھ بھی کرلیں وہ نہ اس دنیا کے لیے اچھا ہوگا اور نہ اس کا کوئی آخرت میں حصہ ہے۔
  یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان رواں ہفتے ملائشیاء اور آسٹریلیا کا ایک ماہ کا دورہ کر رہے ہیں جہاں آپ سڈنی،مالبرن اور اس کے علاوہ مختلف شہروں میں ذکر قلبی اور تصوف کے موضوع پر لیکچر دیں گے۔
Behayai ka sabab - 1

صحابہ کرام ؓ وہ ہستیاں ہیں جن کے بارے قرآن مجید فرما رہا ہے کہ اللہ کریم ان سے راضی اور وہ رب کریم سے راضی

صحابہ کرام ؓ وہ ہستیاں ہیں جن کے بارے قرآن مجید فرما رہا ہے کہ اللہ کریم ان سے راضی اور وہ رب کریم سے راضی۔آپ ﷺ کی غلامی کے لیے جن اصحاب کو اللہ کریم نے منتخب فرمایا ان کے خلوص کا کوئی ثانی نہیں کہ ایک صحابی ؓ ایک مٹھ جو،جو اللہ کی راہ میں دے اور آج کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا دے تو وہ جَو بھاری ہو جائیگے۔اس لیے صحابہ کرام ؓ  کی عظمت کو دل سے مان کر ہی اپنی بخشش کا سامان کر سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر دارالعرفان منارہ میں سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم نے اپنی عبادات اپنے اذکار کو دنیا کے ساتھ جوڑ دیا ہے اپنے اعمال کو اللہ کی رضا کے لیے اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یادرکھیں کہ جو بھی نیک عمل ہوتا ہے وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لاتا ہے۔اس لیے اپنے اذکار کو مضبوط کریں حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کے نام پر تمام خرافات کو جڑ سے صاف کیا اور وہ تربیتی نظام دیا جو کہ اس طرح کی تمام امیزشوں سے پاک ہے۔
  انہوں نے کشمیراور دنیا کے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مظلوم بھائی اپنے گھروں میں مقید ہیں اور بہت ہی مشکل حالات میں گزر بسر کر رہے ہیں اور ہم یہاں اُن کی عملی مدد کرنے کی بجائے ایک منٹ کی خاموشی اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔ہمارے اجداد نے تو کبھی ایسا نہیں کیا تھا ہم بحیثیت قوم اور بحیثیت امہ پستی کا شکار ہیں۔ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر سے بے عملی کو ختم کرنا ہوگا۔بات ہم ریاست مدینہ کی کرتے ہیں اور سود ی نظام عملی طور پر ملک میں رائج ہے۔ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چلنے کے لیے وہی اصول اور قوانین اپنانے ہوں گے جو مدینہ کی ریاست پر نافذ تھے۔تبھی ہم وہ تنائج حاصل کر سکتے ہیں۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اوراسلام کی بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Azmat-e-Sahaabah - 1