Featured Events


خشیت الہی

Watch Khashiat Ilahi YouTube Video

میاں بیوی کا رشتہ معاشرے کا ایک خوبصورت رشتہ ہے


میاں بیوی ایک دوسرے کو فتح کرنے کی بجا ئے اگر محبت و الفت کے ساتھ تعاون کریں تو معاشرہ ایک خوبصورت گلدستہ کی مانند ہو جائے گا۔  میاں بیوی کا رشتہ معاشرے کا ایک خوبصورت رشتہ ہے دو افراد اللہ کے نام پر اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس رشتہ کے تقدس کو ایسے نبھائیں جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔لباس جہاں وجود کو ڈھانپتا ہے وہاں گرمی سردی سے بھی بچاتا ہے۔لہذا اس اہم رشتہ کو ایسے ہی ایک دوسرے کی معاونت میں نبھایا جائے۔والدین بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں لہذا جیسا معاشرہ ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں سب سے پہلے ہمیں خود کو ایسے انداز میں ڈھالنا ہوگا۔تاکہ ہماری اولادیں ہمیں دیکھتے ہوئے معاشرے کے خوبصورت انسان بنیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم نے جو عطا فرمایا ہے اس کا شکر بجا لایا جائے۔اور جونہیں ملا اس پر صبر کریں تو معاشرے سے بہت ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔فرد واحد جب صرف اپنی ذات کا سوچے گا تو انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ بے انصافی کرے گا۔بندہ مومن کے دل میں خشیت الٰہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کریم کے احکامات سے تجاوز نہیں کرتا۔اسے یہ فکر ہوتی ہے کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت دارالعرفان منارہ میں ملک بھر سے نمائندہ طور پر سالکین اجتماعی اعتکاف کر رہے ہیں جن کے باقاعدہ معمولات ایک ٹائم ٹیبل کے زریعے سحری سے افطاری تک ترتیب دئیے گئے ہیں۔ بروز ہفتہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی معتکفین کے ساتھ افطاری فرمائیں گے۔اس کے علاوہ اتوار کو سلسلہ عالیہ،الاخوان اور الفلاح فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں سے حلف بھی لیں گے جنہیں حضرت شیخ المکرم نے آئندہ چار سالوں کے لیے ذمہ داری سے نوازا ہے۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Miyan biwi ka rishta muashray ka aik khobsorat rishta hai - 1

میاں بیوی کا رشتہ

Watch Mian Bewi ka Rishta YouTube Video

اعتکاف کے فضائل

Watch AItkaf k Fazail YouTube Video

اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔


رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ہے اور ضرورت امر کی ہے کہ ان مبارک ساعتوں میں جوہم دعوی ایمانی رکھتے ہیں کیا اس دعوے میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے غلطیوں کو نکال باہر کریں۔اور اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔دنیاوی زندگی میں ہم نے جو اعمال دکھاوے کے لیے اختیار کر رکھے ہیں وہ بارگاہ الٰہی میں مقبول نہ ہوں گے۔کیونکہ وہ نہاں خانہ دل میں موجود سب کچھ جانتا ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آج ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ہمیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔اس عارضی دنیا  کے لیے ہم حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر مال اکٹھا کرنے میں لگے ہیں جسے ہم نے چھوڑ کر جانا ہے۔اسی دوڑ میں ہم نے حقوق وفرائض کی تمیز ختم کر دی ہے۔معاشی اور معاشرتی زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے ہم لوگ جنگل میں رہ رہے ہوں اسی وجہ سے ہم سب اس تکلیف سے گزر رہے ہیں 
 یاد رکھیں جس راہ پر ہم چل رہے ہیں اس کا انجام بہت بھیانک ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو توبہ کی طرف لے آئیں۔اللہ کریم کو معاف کرنا محبوب ہے اللہ کریم ہمارے گناہ معاف فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Apne har amal ko itebaa risalat SAW mein dhaal len . - 1

​سلاسل تصوف

علمائے مجتہدین نے اپنے خدا داد علم و ذہانت سے قرآن وسنت پر غور و خوض کر کے جو فقہی استنباط کیے وہ اجتہاد ہے۔ مجتہدین میں چارآئمہ کرام مشہور ہیں جن کے پیر و دنیا میں پھیلے ہو ئے ہیں۔
۱۔امام اعظم ابوحنیفہ  ؒ
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ
۳۔ امام مالک ؒ
۴۔ امام شافعی  ؒ

جن لوگوں نے روحانی قوت سے روحانی تربیت کا کوئی طریقہ بتایا اور تربیت کی تو انہیں شیخ طریقت کہتے ہیں۔ مجتہدین تصوف بھی مجتہدین فقہ کی طرح بہت ہوئے مگر چار روحانی سلسلے مشہور اور رائج ہوئے۔
۱۔قادریہ
۲۔چشتیہ
۳۔ سہرورد یہ
۴۔ نقشبندیہ 

چار فقہی مسالک اور چار روحانی سلسلوں کو ملا کر ظاہری و باطنی اصلاح (اجتہاد وارشاد) کا جو نظام بنتا ہے اسے مسلک اہلسنت والجماعت کہتے ہیں۔ نبوت کا ظاہری اور عملی پہلو چار فقہی مسلکوں نے اور نبوت کا روحانی اور باطنی پہلو چاروں روحانی سلسلوں نے سنبھال لیا اور اس طرح امت مسلمہ علوم نبوت اور انوار نبوت کی وارث و امین ٹھہری۔

 سلاسل تصوف اور ان کے عالی مقام مشائخ عظام کے طریق ِکار اور مقصد پر اگر غور کیاجائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان سب بزرگان کرام کا مقصد حصول رضائے باری تعالیٰ اور تزکیہ نفوس انسانی ہے اور ہر سلسلہ میں اس کا مدار اتباع سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام،کثرت ذکرالٰہی اور صحبت شیخ پر ہے۔صو فیہ کرام ؒ کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح با طن کا طریقہ القا ئی اور انعکاسی ہے۔

اسلامی تصوف

صحیح اسلامی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حقیقت سے علمی حلقوں کو روشناس کر نا نہایت ضروری ہے،یہی مدار نجا ت ہے۔قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہو گا،یہی وجہ ہے کہ محققین صوفیہ کرام ؒ نے شیخ یا پیر کے لیے فرما یا ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ  جھو ٹا ہے،شعبدہ با ز ہے کیو نکہ تعلق باللہ کے لیے اتباع سنت لازم ہے۔

او کما قال تعالیٰ  قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ(آل عمران:۱۳)
ترجمہ:آپ فرما دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریں گے۔“

تصوف (احسان،سلوک اور اخلاص)دین کا ایک اہم شعبہ ہے 

تصوف،دین کا ایک اہم شعبہ ہے جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی   غا یت تعلق مع اللہ اور حصول رضا ئے الٰہی ہے۔قرآن و حدیث کے مطا لعہ،نبی کریم  ﷺ کے اسوہئ حسنہ اور آثا ر صحابہ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔قرآن حکیم میں اسے تقویٰ،تزکیہ اور خشیت اللہ سے تعبیر کیا گیا اور تفصیل حدیث جبرئیل ؑمیں مو جو د ہے۔مختصر یہ کہ تصوف،احسان،سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں،اس کے متعلق حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا  فَاِنّہُ جِبرِیلُ اَتَاکُم یُعَلِّمُکُم دِینَکُم (مشکوٰۃ ،کتاب الایمان)  یہ دین کا جزو ہے کو ئی شے زا ئد نہیں ہے نہ دین سے   خا رج ہے اس لیے اس کا حا صل کرنا مسلما نوں پر وا جب ہے۔احسان صرف جزو دین ہی نہیں بلکہ دین کی روح اور خلا صہ ہے۔ جس نے اسے حا صل نہ کیا اس کا دین نا قص رہا کیو نکہ احسان کی حقیقت یہ    بیا ن ہو ئی ہے   اَن تَعبُدَاللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ فَاِن لَّم تَکُن تَرَا ہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ  (مشکوٰۃ ،کتاب الایمان)  حدیث میں دین کے تینوں اجزاء کا ذکر ہے۔

ایمان جو اصل ہے،اعمال جو فرع ہیں،اور احسان جو ثمر ہ ہے۔

اسے چھوڑ دینا ایسا ہے جیسے ایک شخص نما ز مغرب میں فرض کی دو رکعت پڑھ کر فا رغ ہو جا ئے،ظا ہر ہے کہ اس کی نماز نہ ہو گی اس طرح احسان کو چھوڑ دینا دین کے ایک عظیم جزو کو ترک کرنا ہے اس لیے دین  نا قص رہ جا ئے گا۔

سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ

جس طرح روایت ِحدیث ہے اسی طرح سے شجرہ یا سلسلہ اولیا ء اللہ ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس نے کس سے برکا ت نبویﷺ حاصل کیں۔ان کیفیا ت و برکات و تعلق کو جو قلب سے قلب کو حا صل ہو جا ئے،نسبت کہتے ہیں۔

نسبت اویسیہ اور اس میں حصو ل فیض کا طریقہ

تمام سلاسل تصوف اور تمام نسبتوں میں نسبت اویسیہ براہ راست نبی کریم  ﷺ سے سیدنا ابو بکر ؓ اور ان مشا ئخ کو نصیب ہو تی ہے جو نسبت اویسیہ سے متعلق ہیں۔اویسیہ اس لیے کہتے ہیں کہ حصول فیض کا طریقہ وہ ہے جو حضرت اویس قرنی  ؒکا تھا۔ان کے حالا ت میں یہ ملتا ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ میں حاضری بھی دی لیکن حضور اکرم  ﷺ سے شرف ملا قات حاصل نہ کر سکے۔ان کا وجود ظا ہری با رگا ہ نبوی  ﷺ میں حاضر نہ ہو سکا لیکن ان کے قلب نے قلب ِاطہر  ﷺ سے وہ قرب حاصل کر لیا کہ انہوں نے دور رہ کر وہ برکات حا صل کر لیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ جیسے جلیل القدر صحا بی نبی کریم  ﷺ کا پیغا م لے کر ان کے پا س گئے۔

نسبت اویسیہ کی کیفیت 

شا ہ ولی اللہ ؒ رقم طراز ہیں کہ نسبت اویسیہ کی کیفیت یہ ہے کہ جس طرح دریا کا پا نی کسی صحرا میں گم ہو جا تا ہے اور اس کا کو ئی نشا ن نہیں ملتا،زیر زمین چلا جا تا ہے اسی طرح گم ہو جا تی ہے اور اس طرح دودو،تین تین،چارچارسوسال کو ئی بندہ اس نسبت کا نظر نہیں آتالیکن پھر کہیں سے یہ زمین کو پھا ڑ کر نکل آتی ہے اور جب یہ نکلتی ہے تو جل تھل کر دیتی ہے پھر ہر طرف اسی کا شور سنا ئی دیتا ہے اور ہر طرف یہی لوگ نظر آتے ہیں۔پھر یہ انسانی قلوب پر چھا جا تی ہے۔جو بھی سعید ہوں،جنہیں بھی اللہ نے قبول کر لیا ہو،جن پر اللہ کا کرم ہو وہ سا رے پھر اس میں شا مل ہو جا تے ہیں پھر یہ سمندر بن جا تا ہے اور ٹھا ٹھیں ما رنے لگتا ہے۔

سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کی خصوصیت

ہمارے سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کی خصوصیت یہ ہے کہ کسی کو معا شرے سے الگ نہیں کیا جا تا۔ہر قسم کے   مسا عد اور نا مسا عد حا لا ت اسے پیش آتے ہیں مگر جب شیخ کی مجلس میں آتا ہے تو سارے غبار دھل جا تے ہیں۔یہ اس سلسلے کی برکت ہے اور شیخ کی قوت کا اثر ہے۔یہ وا حد سلسلہ ہے جو مخلوق کے ساتھ اختلاط سے منع نہیں کرتا۔کاروبار کرو،دکان چلاؤ،ملازمت کرو،بیوی بچوں میں رہو،بس مقررہ اوقا ت میں مقررہ طریقے سے ذکر کرتے رہو،تمہا را سینہ منور رہے گا۔ ہاں!اگر ان تینوں امور یعنی طلب صادق، اکل حلال اورصحبت بد سے پر ہیز،کا خیا ل نہ رکھا جا ئے تو لا زمی امر ہے کہ ذکر ِالٰہی کے لیے فرصت نہ ملنے کا بہا نہ بھی ہوگا،جی نہ لگنے کا شکوہ بھی ہو گا۔مگر یہ مرض نا قا بل علا ج نہیں،ہاں!علاج کے لیے محنت درکار ہے۔ وہ یوں کہ دھوبی پٹڑ ا سے کام لے،یعنی نہایت قوت سے،تیزی سے لطا ئف کرے تا کہ خون میں جوش پیدا ہو۔

ایمان کی مضبوطی

Watch Emaan ki Mazbooti  YouTube Video

تزکیہ، تصوف و سلوک

تزکیہ کا مفہوم

قرآن کے لفظ تزکیہ کی علماء ومفسرین نے اپنی اپنی وسعت نظرکے مطابق تشریحات و توجیہات کی ہیں۔ اللہ ان پر کروڑوں، کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے لفظ تزکیہ کا اگر ہم فارسی یا اردو تر جمہ کریں تو وہ تصوف بنتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ غیرملکی زبانوں میں سب سے پہلے فارسی میں ہوا تو فارسی میں تزکیہ کا ترجمہ تصوف کردیا گیا۔ تزکیہ، دل کی پاکیزگی ہے، صفائے قلب ہے، صفائے باطن ہے، تصوف کا معنی بھی یہی ہے۔

یَتْلُوا عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (آل عمران: 164)
 ترجمہ: جوان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ 

نبی ؑجو کچھ فرماتا ہے وہ تھیوری نہیں ہوتی، محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ کیفیات بھی ہوتی ہیں۔ نبی ؑجب کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو جو ایمان لاتا ہے، اسے نظر تو نہیں آتا لیکن وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی ہے۔ ان نگاہوں سے نظر نہیں آتا لیکن ایسی کیفیت اس پر وارد ہوتی ہے کہ ان آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ اسے یقین ہو جاتا ہے۔

 تزکیہ کی اہمیت 

 فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے آپ  ﷺ نے جوتزکیہ فرمایا وہ دلوں کی پاکیز گی تھی۔ نہا دھو کر صاف کپڑے پہن لینا تزکیہ نہیں ہوتا، یہ تو پہلے بھی ہوتا تھا، حضور  ﷺ نے دلوں کو پاک کر دیا۔ فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے کہ پہلے بات دل سے کی جائے پھرعقل کو دلیل سے قائل کیاجائے، پھر کتاب وحکمت کی تعلیم دی جائے تو وہ تعلیم انسان کی عملی زندگی میں رہنمائی کا کام کرے گی، اس لیے کہ دل اس پر عمل کرنے کے لیے پہلے سے تیاربیٹھا ہوگا۔

 تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کے قلب میں وہ کیفیات بھر دی جا ئیں کہ جو اس کی سوچ میں آئے وہ مثبت آئے، اس میں طلب ِحق پیداہو، اس کے دل میں جو جھاڑ جھنکار ہے، خواہشاتِ انسانی ہیں، خود غرضی ہے، بے شمار خرابیاں ہیں، وہ صاف کر دی جائیں۔ انسان صرف وجود مسجد میں نہ لائے، وجود بعد میں آئے دل پہلے مسجد میں ہو۔ اب یہ کس کی ضرورت نہیں ہے کہ دل میں خلوص آ جائے، قرب الٰہی کی آرزو پید ا ہو جائے، سینے کے اندر مدینہ بنالے، برکات نبوت، دل پر ابرِ رحمت کی طرح برستی ہوں، دل نورِ نبوت کی کرنیں منعکس کرتا ہو اوروہ دوسروں کے لیے بھی باعث ہدایت بنتا چلا جائے۔

تصوف کیاہے؟

تصوف کا مطلب ہے ”کچھ بھی نہیں“ یعنی جب کچھ بھی باقی نہ رہے صرف اللہ رہ جائے تو تصوف بن جاتا ہے۔ جب تک کچھ باقی رہے تصوف نہیں ہوتا۔ میں پیر ہوں، میں مولوی ہوں، میں بزرگ ہوں، میں تکڑا ہوں،میں فلاں ہوں، جب تک’میں‘ر ہے تب تک تصوف نہیں ہوتا جب’میں‘نہ رہے، انانہ رہے، کچھ بھی نہ رہے، پھر تصوف ہوتا ہے۔

”سارے کا سارا تصوف یہ ہے کہ اللہ پر اعتماد بحال ہو جائے۔“بندہ اپنے معاملات اپنے رب سے ڈسکس کرے، اپنے رب سے لڑے بھڑے، دعا مانگے اور چیخ کر مانگے، رو رو کر مانگے، گڑ گڑا کر مانگے لڑ کر مانگے، وہ جانے اس کا رب جانے۔

 تصوف صرف یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺکی جو پیروی کی جائے اس میں انتہائی خلوص ہو، دل کی گہرائی سے کی جائے، ان کیفیات کو تصوف کہتے ہیں۔ وہ کون سا تصوف ہے جو اطاعت ہی چھڑوا دے؟ یہ جو تصوف میں بہت سی چیزیں در آئی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دین کے خلاف ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگوں نے اپنی کمزوریوں کے باعث اس کو بھی دنیاکمانے کا ذریعہ بنالیا ہے، تصوف کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے یا مادی فوائد حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تو یوں یہ الزام، یہ بہتان تصوف پہ آ گیا۔

 تصوف دین سے الگ چیز نہیں ہے بلکہ ہم دین پر جو یقین رکھتے ہیں یا عمل کرتے ہیں یا جو ہمارا دعویٰ ہے اس میں خلوص پیدا کرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے، اسے تصوف کہتے ہیں۔ہم دین پر جو عمل  کرتے ہیں اس میں خشوع و خضوع پیداکرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے،وہ تصوف ہے۔ تصوف سے مراد ہے کہ عظمت الہٰی کا ادر اک، اپنی بے مائیگی اور کم مائیگی کا احساس کہ میں کچھ بھی نہیں، سب کچھ وہی ہے۔
(نقوش حق،حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوانؒ)

تصوف کیا نہیں 

تصوف کے لیے نہ کشف و کرامات شرط ہے، نہ دنیا کے کاروبار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے، نہ تعویذ گنڈوں کا نام تصوف ہے، نہ جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے، نہ مقدمات جیتنے کا نام تصوف ہے، نہ قبروں پر سجدہ کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور چراغ جلانے کا نام تصوف ہے اور نہ آنے والے واقعات کی خبر دینے کا نام تصوف ہے،نہ اولیاء اللہ کو غیبی ندا کرنا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے کا نام تصوف ہے، نہ اس میں ٹھیکیداری ہے کہ پیرکی ایک توجہ سے مرید کی پوری اصلاح ہو جائے گی اور سلوک کی دولت بغیر مجاہدہ اور بدون اتباع سنت  ﷺ حاصل ہو جائے گی نہ اس میں کشف والہام کا صحیح اتر نالازمی ہے اور نہ وجد وتواجد اور رقص وسرود کا نام تصوف ہے۔ یہ سب چیزیں تصوف کا لازمہ بلکہ عین تصوف سمجھی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز پر تصوف اسلامی کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری خرافات اسلامی تصوف کی عین ضد ہیں۔
 (دلائل السلوک، حضرت مولانا اللہ یار خانؒ)

​ذکر اللہ

زندگی میں جسم کی سلامتی کے لیے جو اہمیت سانس کو حاصل ہے، وہی حیثیت روح کے لیے یاد الٰہی کی ہے۔ نماز اور تلاوت کا فائدہ اصلاح قلب پر موقوف ہے۔ قرآن کریم میں 165 مقامات پر ذکر کا حکم آیا ہے۔

فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ(البقرۃ: 152)
 پس تم مجھے یاد کرو،میں تمہیں یاد کروں گا۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
مَثَلُ الَّذِی یَذکُُُُرُ رَبَّہ وَالَّذِی لَا یَذکُرُ رَبَّہ مَثَلُ الحَیِّ وَالمَیِّتِ...(متفق علیہ)
جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر الٰہی نہیں کرتا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ۔

تفسیر مظہری میں حضرت مجددالف ثانی  ؒکے حوالہ سے ذکر کی  وضاحت بیان ہوئی ہے،”تلاوت اور نماز دونوں ہی ذکر ہیں۔ جو ان میں محو ہوگیا اسے کسی اور ذکر کی حاجت نہیں رہی۔ نیز نماز ایسا ذ کر ہے جو اہل ایمان کی معراج ہے۔ لیکن ان دونوں اذ کار کا فائدہ فنائے نفس کے بعد ہی ہوتا ہے اور فنائے نفس کے لیے ذکر نفی اثبات ضروی ہے۔“ اس قول فیصل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تلاوت اور نماز ذکر الٰہی ہیں جن سے فائدہ تو حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح دور نبوی  ﷺ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہوا کہ آن واحد میں زندگیاں بدل گئیں وہ ہمیں کیوں نصیب نہیں ہو رہا؟ اس لیے کہ ہمارے زنگ آلود قلوب پر آج کے ماحول میں پھیلی نحوست کی تہیں جمی ہوئی ہیں جو صرف اور صرف ذکر اسم ذات اور نسبت شیخ سے ہی ختم ہو سکتی ہیں اور یہی کام اہل تصوف تبع تابعین کے بعد سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِیُّﷺ یَذکُرُاللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَا نِہِ(الصحیح المسلم)
نبی کریم  ﷺ ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔

 مندرجہ بالا آیات واحادیث سے مراد ذکر قلبی ہے کیو نکہ ذکر لسانی کو دوام نہیں۔ معارف القرآن میں بھی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رہے، دل سے بھی اور اتباع شریعت سے بھی۔ غرض نماز ختم ہوئی لیکن ذکر ختم نہیں ہوا، سفر اور خوف کی حالت میں نماز میں تخفیف ہے لیکن ذکر میں نہیں۔

ذکر کی اہمت مفسرین کرام کی نگاہ میں 

تفسیر کبیر: نماز سے فارغ ہو جاؤ تو ہر حال میں ذکر میں مشغول ہو جاؤ کیونکہ خوف اور مشکل کا علاج صرف ذکر الٰہی ہے۔ 

تفسیری حقانی: ذکر کی تین اقسام ہیں

ذکر لسانی

زبان سے اللہ کی حمد وثنا،تسبیح اور تحلیل کرنا۔

ذکر قلبی

افضل اور مؤثر ترین عبادت ہے جو لطائف باطنیہ اور اپنی جمیع قویٰ ادراکیہ کواللہ کی طرف متوجہ کر دے یہاں تک کہ محویت حاصل ہو جائے اور اپنی ذات بھول جائے۔ خواہ نفی اثبات، مراقبہ یا توجہ اور قوت شیخ سے یہ بات حاصل ہو جائے۔

عملی ذکر

اعضاء کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرنا اور منہیا ت سے اپنے آپ کو روکنا۔


 کتاب الاذکار: امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ ذکر لسانی بھی ہوتا ہے اور قلبی بھی۔ افضل ذکر وہی ہے جو دونوں سے کیاجائے اور اگر ایک پر ہی اکتفا کرنا ہو تو پھر ذکر قلبی افضل ہے۔

الفتح الربانی شیخ عبدالقادر جیلانی  ؒ فرماتے ہیں کہ ذاکر وہی ہے جو اپنے قلب سے ذکر کرے۔ یعنی ذکر قلبی نصیب ہو۔

حاصل کلام: یہ بات واضح ہوگئی کہ ذکر قلبی،ذکر لسانی سے علیحدہ اور افضل عبادت ہے۔نیزنماز اور تلاوت کے علاوہ بھی اپنے قلوب کو اللہ کی یاد سے آبادکرناضروری ہے۔ غافل قلب کی ساری عبادات اور اعمال بے اثر ہو جاتے ہیں کیونکہ جسم رکوع و سجودمیں ہوتا ہے اوردل دنیاوی کارو بار میں۔ دل چونکہ جسم کا بادشاہ ہے ٰلہٰذا انسان کا جھکاؤ اسی طرف ہو گا جس طرف دل ہو گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم میں حکم  ہے:

 وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا (الکہف:28)
ایسے شخص سے منہ پھیرلو جو ہماری یاد سے غافل ہو گیا۔ 

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیفَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی (طہ:124)
اور جو میر ے ذکر (ہدایت) سے منہ پھیرے گا تو یقیناً اس کے لیے (دنیا میں) تنگی کی زندگی ہوگی اور   قیا مت کے دن ہم اس کو (قبر سے) اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ 

  أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوب (الرعد:28)
 یادرکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینا ن پاتے ہیں۔

فیو ضات و برکا ت نبوی  ﷺ

ذکر قلبی کے بغیر مثبت تبدیلی آنا محال ہے۔ اللہ کی یاد سے غفلت انسان کے اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیتی ہے۔ ایسا انسان طرح طرح کی چیزوں میں سکون تلاش کرتا ہے اور گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ در اصل تعلیما تِ نبوی  ﷺ کے ساتھ وہ کیفیات بھی ضرور ی ہیں جنہیں برکات یا فیوضات نبوی ﷺ کہتے ہیں۔ قلوب انہی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی یہ نعمت شیخ کامل کے روشن قلب اور نسبت سے نصیب ہو سکتی ہے جو انسان کی اصلاح کا سبب بنتی ہے اور یوں وہ عملی زندگی میں من الظلمات الی النور(گناہ سے نیکی کی طرف) سفر شروع کر دیتا ہے۔

               قا ل را بگزار حال شو
               پیش مرد کامل پامال شو

​اولاد آدم کا شرف

اس وسیع کائنات میں اللہ تعالی نے انسان کو لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم (التین:4) 
ترجمہ: کہ یقیناہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا۔ اوروَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَم

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا (بنی اسرائیل:70) 
 ترجمہ: اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ کا شرف عطا فرما کر اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا اور اسے خلافت ارضی کا منصب جلیلہ سونپا۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمارنہیں لیکن انسان کو جس نعمت خصوصی سے نوازا گیا ہے وہ انبیاء کرام  ؑکے ذریعہ اس کی ہدایت کا سامان ہے۔

مقاصد نبوت،تزکیہ با طن اور روحا نی تربیت

  حضور اکرم  ﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جہاں  الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ(الما ئدہ:۳) 
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔

 کا اعلان فرمایا وہاں اہل ایمان کو اپنا یہ ا حسان بھی یاد دلایا کہ  لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِم (آل عمران: 164) ترجمہ:یقینا اللہ نے ایمان والوں پر (بہت بڑا) احسان کیا ہے کہ جب ان میں ان ہی میں سے ایک پیغمبرمبعوث فرمائے اور اس احسان کی تفصیل میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس آخری رسول  ﷺ کے ذریعہ اللہ کی اس نعمت سے مستفیدہونے کی ایک صورت یہ مقرر کی کہ اللہ کا رسول  ﷺ ان کا تزکیہ باطن اور ان کی روحانی تربیت کرتا ہے۔

تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کی تدوین

حضور اکرم  ﷺ نے تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ اپنے جلیل القدر شاگردوں یعنی  صحا بہ کرام ؓکی اس طرح تربیت کی اور تزکیہ باطن کے وہ نمونے تیارکیے کہ رہتی دنیا تک ان کی نظیر نہیں مل سکتی۔ جس طرح تعلیم کتاب اور تدوین شریعت کا یہ سلسلہ صحا بہ کرامؓ کی جماعت سے آگے منتقل ہوتا چلا آیا اسی طرح تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کا طریقہ بھی صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم  ﷺسے سیکھ کر آئندہ نسلوں کو پہنچایا اور مختلف ادوار کے تقاضوں کے مطابق تدوین حدیث وفقہ کی طرح تزکیہ و تربیت کے پہلو کی تدوین منظم صورت میں عمل میں آئی۔ صحابہ کرامؓ جہاں جہاں بھی گئے یہ روشنی اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس سے قلوب انسانی کو منور فرمایا۔ بعد میں جب دین کا یہ پہلومنظم ہوا تو مذاہب فقہ کی طرح تربیت و تزکیہ کے بھی چار بڑے سلسلے ہمارے ہاں رائج اور مقبول ہوئے۔