Featured Events


دین اسلام کے ہر حکم کو غیر مشروط ماننا اور پھر اس پر عمل کرناایمان کی مضبوطی کی علامات ہے


 اللہ کریم کے حکم کو اپنی پوری قوت سے اختیار کرنا اور پھر اس پر قائم رہنا، اسے دین کو مضبوطی سے تھامنا کہتے ہیں۔اللہ کریم نے احسان فرمایا کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا فرمایا۔دین کو جاننے کے لیے انتہائی آسان وسائل عطا فرمائے۔ہر کوئی فرائض کو جانتا ہے،حلال حرام کو جانتا ہے،صحیح غلط کو سمجھتا ہے لیکن عمل کوئی نہیں کر رہا۔مانتا ہے لیکن اپنی شرائط پر مانتا ہے یہ کیسا ماننا ہے۔
 امیر عبدالقدیراعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ دین کو اختیار کرنے سے تقوی کی کیفیت نصیب ہوتی ہے۔ایک تعلق اور مضبوط رشتہ اللہ کریم سے قائم ہو تا ہے  قرب الٰہی کی اپنی کیفیات اور حال ہیں۔اللہ کریم کی وہ حقیقی کیفیت نصیب ہو کہ بندہ خود کو اللہ کے روبرو سمجھے اور اس کا اثر اس کے ظاہری کردار تک پہنچے تو یہی تقوی کی کیفیت بن جائے گی۔اتنے ہم خود اپنے قریب نہیں ہیں جتنی قریب اللہ کریم کی ذات ہے۔صالح اعمال سے مزید ترقی نصیب ہوتی ہے۔اُس کی ذات علیم ہے وہ دلوں کے حال سے واقف ہے ہمارے ارادوں کو جانتا ہے جو ہمارے دل میں ہیں عبادات کا اختیار کرنا اللہ پر احسان نہیں بلکہ عبادات اس کی عطا ہیں اس نے ہمیں عبادات عطا فرمائیں عبادات سے تعلق مع اللہ مزید مضبوط ہوتا ہے اور اعمال بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ مخلوق جو لمحے لمحے کی محتاج ہے کیا کر رہی ہے اور وہ جو خالق ہے وہ عطائیں نازل فر ما رہا ہے۔اگر اللہ کا کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت بڑا نقصا ن ہوتا  اگر ایک لحظہ کو اس کی رحمت منقطع ہو جائے تو سب عدم میں چلا جائے کچھ باقی نہ رہے  آج ہم اپنی ضد اور انا میں پھنسے ہوئے ہیں حقائق نہیں دیکھ رہے اپنے اندر شیطنت ہے جو ہم پر غالب ہے ہمیں بھلائی نہیں کرنے دے رہی اور خو ش بختی ہے ان کے لیے جنہیں اسی جہان میں حقائق نظر آنے لگتے ہیں بندہ اس دنیا میں توبہ کرے اور اپنی زندگی کو صراط مستقیم پر لے آئے وہ ایسا رحیم ہے کہ معاف کرنے کے اسباب پیدا فرما دئیے۔اتنی بڑی عطا کے بعدبھی بندہ زیادتی پر قائم رہے تو وہ خود اپنا نقصا ن کر رہا ہے کسی اور کا نہیں۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Deen islam ke har hukum ko ghair mashroot maanna aur phir is par amal Karna Eman ki mazbooti ki alamaat hai - 1

نیکی اور اس کے اثرات

Watch Naiki Aur Is kay Asrat YouTube Video

عبادات سے اللہ کریم کی رضا او ر قرب نصیب ہوتا ہے


 جتنا انسان عبادت گزار ہوتاہے اتنی اللہ کریم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ عبادات کا چھوڑ دینا بدبختی ہے اور اس کا سبب بد اعمال ہیں جو ہم کرتے ہیں۔حلال کھانے سے وجود کو بھی فائدہ ملتا ہے اور اس کے ساتھ روح بھی تندرست رہتی ہے لیکن حرام کے لقمے سے بدن کو تو شاید توانائی ملے لیکن روح کا نقصان ہو گا۔جتنی روحانی حیات کمزور ہوتی ہے اتنا بندہ بے دینی کی طرف جاتا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوا ن شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ ہم اپنی طرف سے کوئی نیکی بدی کا پیمانہ نہیں بنا سکتے۔عملِ صالح وہ ہے جسے نبی کریم ﷺ نے صالح فرمایا اور عمل بد وہ عمل ہے جسے آپ ﷺ نے عمل ِ بد ارشاد فرمایا۔جب بھی دین اسلام کی بات آئے گی یہ بنیادی حصے لازم ہیں جو بھی دعوی ایمان رکھتا ہے اس کی شہادت اس کے صالح اعمال ہیں اگر ایسا نہیں تو وہ صرف ایک دعوی ہی ہے اور کچھ نہیں۔ آپ ﷺ کے ارشادات پر سارے دین کی تعمیر ہے۔ایمان صرف ماننے کا نام نہیں عمل بھی ضروری ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ انسانی مزاج ہے اسے جب تک جزاو سزا کا ادراک نہ ہو یہ حدودو قیود میں نہیں رہتاجب بے دینی ہوتی ہے تو زیادتی اور ظلم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ماننا شکر گزاری کی کیفیت ہے اور اعتراض اور انکار نا شکری ہے نا شکری مقابل کھڑا کر دیتی ہے یہ ایسی بد بختی ہے جس سے بندہ مزید گہرائی میں دھنستا چلا جاتا ہے۔۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Ibadaat se Allah kareem ki Raza aur qurb naseeb hota hai - 1

قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ (ماہاہ اجتماع دارالعرفان منارہ)


قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ (ماہاہ اجتماع دارالعرفان منارہ)

Watch Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah YouTube Video
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 1
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 2
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 3
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 4
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 5
Quwat-e-Ghazbia Aur Quwat-e-Shahwania Mahana Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 6

آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں


 آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے کسی حصے میں ہو یا وطن عزیز میں جو دین اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا۔لیکن ہمارے جذبات ہمارا غصہ آپ ﷺ کے احکامات کے تابع ہیں۔جہاں آپ ﷺ کا حکم ہے جان دینے کا وہاں اپنی جان پیش کرنا عین دین ہے اور جہاں جان لینے کا حکم ہے وہاں پر جان لینا دین اسلام ہے۔اس سے باہر اگر کوئی اپنی مرضی سے ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی خواہش کا اسیر ہو کر قدم اُٹھا رہا ہے۔جو دین اسلام کے خلاف ہے۔اسلام ہمیں کسی جانور کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا درس دیتا ہے چہ جائیکہ کسی انسان کی جان لی جائے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستا ن کا ماہانہ اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی جب بنیاد رکھی تو وہ مواخات مدینہ یعنی مہاجرین و انصار کے آپس میں بھائی چارے کے قیام کی بنیاد تھی جس سے معیشت کی مضبوط بنیاد  وجود میں آئی آج ہمارا ملک جو کہ اس کرہ ارض پر دین اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے ہم مہاجرین و انصار لڑ رہے ہیں ہم نے وہاں سے سبق حاصل نہیں کیا۔دوسرابنیادی اقدام میثاق مدینہ یعنی قانون اور عدل کا قیام آج ہم دونوں پر عمل نہیں کر رہے تو ہماری معیشت کیسے مضبوط ہوگی۔ہم نے دنیا کے قوانین اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ نظام عدل جو کہ آپ ﷺ نے ہمیں دیا اس کو نہ اپنایا تو پھر لاقانونیت کا خاتمہ کیسے ہوگا۔وطن عزیز میں ہونے والے اس نا خوش گوار واقعہ نے ہر ایک کے جذبات کو مجروح کیا ہے ہمارے تمام اعمال دین اسلام کے خلاف ہیں اور بحث جو ہر فورم پر ہو رہی ہے اس کا نشانہ بھی اسلام کو رکھا گیا ہے 
 دیکھنا یہ ہے کہ اس سب کا سبب کیا ہے اس کے کونسے محرکات ہیں جس سے یہ سب کچھ عمل میں آیا۔اسلام اس بنیادی جواز کو ختم کرتا ہے اور یہ درس دیتا ہے کہ اپنی ذات سے نکلنے کی ضرورت ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ اس واقعے کے پیچھے جو سبب ہے اس کو ختم کیا جائے اور مساوی عدل کا قیام عمل میں لایا جائے۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
  یاد رہے کہ 7 دسمبر 2017 کو عظیم ہستی حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ کا وصال ہوا جنہوں نے تصوف کے اس بہر بیکراں کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور آج ہم ان کیفیات و برکات سے سر شار ہیں یہ ان کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے۔وہ ایک عظیم مفسر قرآن،مترجم قرآن،شاعر،ادیب اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائیں ان کے وصال کے بعد ان کے مقرر کردہ جانشین حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے اس مشن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ان کے تمام شعبوں کو مزید فعال کر کے دن رات اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔
Aap SAW ki shaan mein gustaakhi ke murtakib badbukhat hain - 1

دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع دارالعرفان منارہ

Mahana Rohani Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 1

طرز حیات

Watch Tarz-e-Hayaat YouTube Video

اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔


 اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔آج معاشرے میں معاشی تنگی اور معاشرتی افراتفری کا سبب آپ ﷺ کے ارشادات کو جانتے ہوئے سمجھتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں اختیار نہ کرنا ہے۔ہمارا کہنا کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو جب تک ہمارا عمل اعلیٰ نہ ہوگا معاشرے میں مثبت نتائج مرتب نہ ہونگے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اجتماعی خرابی اوپر سے شروع ہو کر ایک اکائی تک آتی ہے جو کہ انفرادی طور پر میرا اور آپ کا کردار ہے۔جب درستگی یہاں سے شروع ہو گی تو پھر معاشرے میں وہ امن اور سکون آئے گا جس کی بنیاد آپ ﷺ نے ریاست مدینہ میں رکھی تھی اور اس  کے بنیادی اصول آپ ﷺ نے فرما دئیے تھے۔قول و فعل کے تضاد سے نکل کر اپنے رزق کے اسباب تک کو اسلام کے مطابق کرنا ہو گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں نفسا نفسی کی وجہ ضرورت سے زائد مال جمع کرنا ہے۔ حلال حرام کی تمیز کیے بغیر حق نا حق دیکھے بغیر ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ جو کچھ بھی میرے ہاتھ لگ جائے اس کو جمع کر لوں یہاں سے فساد شروع ہو تا ہے اور یہ سمجھ لینا کے رزق میں اپنے زور بازو حاصل کر رہا ہوں چاہے اس رزق کے لیے کسی کا حق کھانا پڑے کسی پر ظلم کرنا پڑے یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بدولت معاشرہ افراتفری کا شکار ہے۔
  یار رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 5,4 دسمبر بروز ہفتہ،اتوار  دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں ملک بھر سے سالکین اپنی روحانی تربیت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی اتوار دن گیارہ بجے خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔تمام خواتین و حضرات کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ اپنے دلوں کو برکات نبوت ﷺ سے منور کرنے کے لے تشریف لائیے۔
Allah kareem ke ehkamaat ko janna aur phir un par amal nah karna fisq ki soorat ikhtiyar kar jata hai . - 1

حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ

 دنیا میں آنکھ کھو لنے سے لے کر میرے دنیا کوکھلی آنکھو ں سے دیکھنے تک کے تما م تر مر احل جس کی نگا ہ میں بسر ہو ئے وہ ریشم و فو لا د، شفقت و جلال سا دگی و جمال اور معصو میت و دا نش ِکمال کا بے حد حسین امتزاج تھے۔قدم قدم چلنے سے لے کر اپنے قدموں پہ کھڑا   ہو نے کے قا بل بنا نے تک،ان کی تر بیت چلتی ہو ئی سا نسوں کی طرح با لکل غیر محسو س اندا ز سے،میرے کردار کی تعمیر وتشکیل کرتی رہی۔گھر کی ذمہ دا ری تھی یا سلسلہ عا لیہ کی خدمت،انھو ں نے میری کم عمری کے با و جود جس اعتما د سے میرے کندھوں پہ ڈا لی وہ در حقیقت خود میرے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لیے تھی۔
وہ میرے شیخ بھی تھے اور میرے وا لد بھی۔
سفرِ حیا ت میں یہ ان کی را ہنما ئی ہی تھی کہ امو رِ سلسلہ میں،کبھی بھی شفقت ِپدری کی رعا یت میرے ذہن میں آئی نہ آدابِ شیخ ملحو ظ    خا طر رکھتے ہو ئے بھی بحیثیت وا لد کبھی انہیں خود سے دور پا یا۔ وہ میری زندگی کا محور و مرکز تھے۔وہ میری منز ل بھی تھے اور نشا نِ منز ل بھی۔ان کی خو شنو دی مجھے اپنی ہر خو شی سی عزیز تر تھی اور وہ ذات،مجھے اپنی ذات سے بڑھ کر عزیز تھی۔گزرتے وقت کے سا تھ ساتھ میں، میں نہ رہا تھا ’وہ‘ہو گیا تھا۔ان کی خوا ہش، ان کی رضا،ان کی خو شی ان کی چا ہ ہمہ وقت میری جستجو میں رہتی اور مجھے سر گرمِ عمل رکھتی۔ان کے مز اج میں لحا ظ و مرو ت اس در جہ تھی کہ اپنی را ئے دینے کے بعد ان کی نگا ہ میری جا نب ضرور اٹھتی اور بحمد للہ مجھے سرِ تسلیم خم پا تی۔
قا رئین ِکرام والد اور پھر ایسے وا لد!  شیخ او ر پھر ایسے شیخ!!
انھوں نے کبھی بھی اولا د کو کو ئی حکم نہ دیا۔ہا ں یہ خوا ہش ضرور رکھتے تھے کہ اولا د بن کہے،ان کی رضا جا ن لے۔اس معا ملہ میں وہ اشا رہئ ابرو کے بھی قا ئل نہ تھے۔ہا ں وہ خو د ضرور ہر بچے کے مزاج، عا دا ت اور خو اہشات سے خوب و اقف تھے۔کسے،کب،کیا اور کیوں چا ہیے؟ وہ جا نتے تھے۔وہ ہر ایک کی ضرورت ہی نہیں چا ہت بھی جان    جا تے اور پھر اس کی تکمیل کر دینے کے بعد لفظ ’شکریہ‘ بھی غیر ضروری سمجھتے محض ایک چیز ضرور چا ہتے،لینے وا لے کے چہرے کی خو شی۔وہ خو شیا ں با نٹ کر خو ش ہو نے وا لوں میں سے تھے اور یہ معا ملہ فقط   اولا د تک محدود نہ تھا۔ 
اولا دکے قلب میں طلب ِحق کی رمق بھی انہیں دنیا کی ہرخو شی سے بڑھ کر تھی۔ان کا ذکر،ان کے مر اقبا ت،ان کی ترقی ئدرجا ت انہیں سر شا ر کر دیتی اور کسی کو غفلت میں دیکھتے تو آزردہ ہو جا تے لیکن یہ آزردگی بھی ان کی ذات تک ہی محدود رہتی۔ان کا دل،ایک ما ں کے دل سے بڑھ کر گداز تھا اور وہ با پ کی طرح اولا د کو اوج ِ کما ل پہ دیکھنے کے آرزو مند تھے۔وہ گلوں،شکوؤ ں کے قا ئل نہ تھے۔تما م تر حیا ت میں کبھی کو ئی کمزور جملہ ان کی زبا ں سے ادا نہ ہوا۔وہ کو ہ ِگراں بھی تھے اور بحرِ روا ں بھی، وہ صدف بھی تھے اور ابرِ با راں بھی،وہ شبنم ِگل بھی تھے اور تجلی ئابر بھی۔ دنیو ی حا جا ت کے لیے ملنے وا لا بھی انہیں کبھی بھلا نہ پا یا اور جس نے انہیں جا ن لیا وہ تو خدا یا ب ہوا۔اب یہ مقدر کی با ت ہے کہ کس نے کتنا جا نا!
اپنے مرید انہیں اپنی مراد کی طرح عزیز تھے۔دکھ درد سنا نے وا لا خود تو ہلکا پھلکا ہو کر چلا جا تا لیکن وہ اس با ر کو اپنے دل میں محسوس ہی نہیں اس کی شدت کو بر دا شت بھی کرتے۔ان کی آہ ِسحر گا ہی میں ہر ایک     دُو دِدل کا درد مو جو د ہو تا۔
لیکن ___!کو ن اندا زہ کر سکتا ہے کہ ایسا قلب ان دلوں کے لیے کیا درد رکھتا تھا جو اس دل کے سا تھ دھڑکتے تھے۔ایسی عطا شعا ر ہستی اپنے سینے میں ان کے لیے کیا کچھ رکھتی تھی جن سینو ں میں اس کے اپنے نا م کی شمع فروزاں تھی۔مرید تو اپنی حیثیت کے مطا بق محبت کرتا ہے لیکن شیخ کی محبت اپنے مقا م و ظرف کے مطا بق ہو تی ہے۔اور پھر کو ن یہ سمجھا سکتاہے کہ شیخ کے قلب میں انوارات کا سیل ِرواں ان قلوب کی جا نب کس طرح امڈتا ہے جس قلب کی طلب ہی وہ فیض بے کراں ہو۔ کسی نے کہا تھا: 
جسے میں سنا تا تھا دردِ دل    وہ جو پو چھتا تھا غم ِ دروں 
وہ  گدا نو از  بچھڑ  گیا    وہ  عطاشعا ر  چلا  گیا 
مگر نہیں!  وہ بچھڑے نہیں ہیں۔نہ وہ گئے ہیں۔وہ ہم سب کا اپنے اللہ کریم سے ایسا تعلق جو ڑ گئے ہیں جس نے خو د انہیں بھی بچھڑنے نہیں دیا۔ انہیں بھی جا نے نہیں دیا۔وہ خود فرما گئے ہیں:
            ”دلوں کے با سی کہیں جا یا نہیں کرتے۔“
ہاں جا تے جا تے جہاں مجھے اپنے فیضان ِقلب کا امین بناگئے ہیں وہاں اپنے مریدوں کو بھی میرے لیے مراد کر گئے ہیں جہاں مجھ خطا  کا ر کو برکا تِ رسا لت کے تسلسل کاحصہ بنا گئے ہیں وہاں آپ سب کا درد بھی عطا کر گئے ہیں۔آپ سب میر ے پا س ان کی وہ امانت ہو جو مجھے اپنی حفا ظت کے لیے ہر لمحہ چو کنا اور لرزہ براندام رکھتی ہے۔آپ سب میری دعا ؤں کا حصہ ہی نہیں بنے دل کے مکیں اور گو یا وجود کا حصہ ہو گئے ہو۔میرے پا س یہی ان کی سب سے بڑ ی ورا ثت ہے!
Hazrat Jee Rehmat Ullah Alaih - 1
Hazrat Jee Rehmat Ullah Alaih - 2