Featured Events


عبادات کا اجر گنتی سے نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کی ادائیگی کتنے خلوص سے کی گئی ہے


عبادات کا اجر گنتی سے نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کی ادائیگی کتنے خلوص سے کی گئی ہے آج اگر کوئی اُحد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں دے اور ایک صحابی ؓ ایک مُٹھ جَو اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو اجر کے لحاظ سے سونے پر بھاری ہوں گے کیو نکہ نیت اور اخلاص غیر صحابی کا صحابی کے برابر ہونہیں سکتا۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہاکہ ذکر قلبی ان کیفیات کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جو کہ قلب اطہرمحمد الرسول اللہ ﷺ سے آرہی ہیں اور یہی وہ کیفیات ہیں جو بندہ کے قلب کے اندر وہ خلوص پیدا کرتی ہیں جو کہ ہر نیکی کی بنیاد ہے۔اور یہ کیفیات ایک تسلسل کے تحت آرہی ہوتی ہیں اور آگے تقسیم ہورہی ہوتی ہیں۔اگر کوئی اس سے منسلک ہوئے بغیر چاہے کہ یہ حاصل ہو جائیں تو یہ ممکن نہ ہوگا ۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  یاد رہے کہ اس ماہ دارالعرفان منارہ میں اپریل 2021 کا ماہانہ اجتماع  رمضان المبارک کے اجتماعی اعتکاف کی وجہ سے منعقدنہیں ہو رہا۔
Ibadaat ka ajar ginti se nahi balkay is baat par hai ke is ki adaigi kitney khuloos se ki gayi hai - 1

اولاد


 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
”اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک (راحت) عطا فرمائیے اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دیجیے۔“
اولاد  عر بی اور اردو زبان کا لفظ اور صیغہ تانیث ہے۔یہ وَلد کی جمع ہے جس سے مُراد بچے، بیٹا بیٹی، آل اور نسل کے ہیں۔
روئے زمین پہ اترنے کے بعد انسان سب سے پہلے جس خوبصورت رشتے سے نوازا گیا وہ اولاد کا رشتہ ہے۔اس رشتے کا دلچسپ پہلو یہ تھاکہ اس میں ایک نے دوسرے کی حفاظت، پرورش اور تربیت کرنا تھی۔ اپنے شعور و آگہی کو اس میں منتقل کرنا تھا۔موسم ہی نہیں زمانہ کے سردو گرم سے بچانے اور اس سے نپٹنے کا اہل بنانا تھا۔فقط یہی نہیں اُسے،اُس کے خالقِ حقیقی سے آشنا کرانا تھا۔مقصدِ تخلیق سمجھانا اور اس پہ پورا اُترنے کے قابل بنانا تھا۔یہ تما م تر مراحل ایسے تھے کہ جس کے لیے محنت اور سعیئ مسلسل ہی نہیں لگن بھی ضروری تھی جس کے لیے شدید ترین وابستگی اور جذبہئ محبت کا ہوناناگزیر تھا۔اُس خالقِ کائنات نے،رب العالمین نے تخلیقی طور پر ہی قلب ِانسانی کو اس سے معمور فرما دیا۔یوں بھی یہ ایسا خوبصورت رشتہ عطا فرما یا کہ شعوری اور غیر شعوری طور پر دنیوی حیات اس کے گرد سرگرداں رہتی ہے۔انسان اولاد کو پیدائش سے جوانی تک پروان چڑھاتا ہے اور اُسے دیکھ دیکھ کر تگ و دو کرنے کی تحریک پاتا رہتا ہے۔
رشتوں، بندھنوں، تعلقات و واسطوں کے لیے بِلا شبہ محبت، حیاتِ انسانی میں انتہائی اہم اور لازمی جذبہ ہے لیکن یہاں اس سے بھی اہم اور لازمی بات یہ ہے کہ خالق و مخلوق کا رشتہ ہر رشتے پہ مقدم ہو اور سب محبتوں پہ اللہ کریم سے محبت غالب ہو کہ یہی خاصہئ ایما ن ہے
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ (البقرۃ:165)”اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔“
جذبہئ ایمانی کی معراج پہ سرفراز ہونے والی ہستیاں انبیاء علیھم السلام ہیں۔اسی جذبہئ ایمانی، حب ِالٰہی اور استقامت فی الدین کونسلِ انسانی میں فروغ دینے اور تاقیامت قائم رکھنے کے لیے انبیاء کرام علیھم السلا م نے بھی صالح اولاد کی دعائیں مانگیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہی یہ ہے کہ:
  رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا ”اے میرے پروردگار! مجھے اکیلا نہ رکھیو“   وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْن(الانبیآء:89) ”اور آپ سب سے بہتر وارث ہیں۔“آپ علیہ السلام نے تبلیغ، فروغِ دین کے لیے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ”توہم نے ان کی دعا قبول فرمائی“ و َ وَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی(الانبیآء:90) ”اور ان کو یحییٰ(علیہ السلام) بخشے۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد عمرِ مبارک کافی گزر چکی تھی جب دعا فرمائی  رَبِِِِِِِِِِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ  
(الصفٰت: 100)”اے میرے پروردگار مجھے ایک نیک فرزند عطا فرما۔“ اور اس کے نتیجہ میں اللہ کریم نے اسمٰعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔اُنھیں کے ساتھ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے آپؑ نے دعا فرمائی: رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَّ------- (البقرۃ:128)
ّّ”اے ہمارے پروردگار! اور ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا ئیے اور ہماری اولاد میں ایسی جماعت بنائیے جو آپ کی فرما نبردار ہو...“
حضرت قاسمِ فیوضات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اُنھیں کی دعا کااثر ہے کہ ان کے بعد کبھی دنیا سے دین ختم نہیں ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُسی موقع پر مانگی جانے والی دعا تھی:  
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ---- (البقرۃ:129)”اے ہمارے پروردگار!ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجئے (مبعوث فرمائیے)...“ 
اللہ کریم نے عالمین کو رحمۃللعٰلمین سے نواز دیا اور زمین کو آپ  ﷺکے قدوم مبارک چومنے کا شرف حاصل ہوا۔
اللہ کریم نے سورہئ الفرقان میں اپنے خاص بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی دعا یوں بیان فرمائی ہے کہ:
  رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
بیویوں اور اولاد کوآنکھوں کی ٹھنڈک بنانے سے مُراد  دراصل ان کا قربِ الٰہی میں مدد گار بننا ہے۔
قارئینِ کرام! اولاد انسان کا سرمایہئ حیات ہے،صدقہ جاریہ ہے، امانت ِرب العالمین ہے۔ یہ اُمت ِمحمدیہ  کے گلستان کے ننھے ننھے پودے ہیں جو بچپن میں ہماری آبیاری کے محتاج ہیں۔ یہ ہم پہ ہے کہ انسانیت کی راحت کے لیے انہیں کس حد تک تناور اور چھتناور اشجار بناتے ہیں۔یہ ہماری توجہ، محبت اور راہنمائی کا حق لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ہمارے فرائض کا تقاضا ہے کہ انہیں بہترین مسلمان، سچے مومن اور جانثار امتی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑیں۔
حدیث ِ پاک ہے:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ...(صحیح البخاری،باب ما قیل فی اولادالمشرکین)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ (فطرت)دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں...“
Aulad - 1
Aulad - 2

اللہ اور اللہ کے رسول سے کیا مانگنا چاہیے

Watch Allah Aur Allah kay Rasool SAW se kia mangna chahiye YouTube Video

شب برات کی فضیلت

Watch Shab-e-Barrat ki Fazeelat YouTube Video

شب برات کی حقیقت

Watch Shab-e-Barrat ki Haqeeqat YouTube Video

اطلاع برائے ملاقات

Itla Bara-e-Mulaqat - 1

ہماری پسند کا معیار کیا ہو

Watch Hamari Pasand ka Mayar kia ho YouTube Video

اللہ کریم کا پنے بندوں کو پیغام

Watch Allah Kareem ka apne bandon ko pegham YouTube Video

احکامات دین کی شہادت

Watch Ahkamat-e-Deen ki Shahadat YouTube Video

بندہ مومن کی بہترین تبلیغ اُس کا اپنا کردار ہے


 بندہ مومن کی بہترین تبلیغ اس کا اپنا کردار ہے جو کہ وہ معاشرے میں دوسروں کے ساتھ باہم میل جول  لین دین،عہد کو پورا کرنا اور معاملات میں کھرا پن کا ہونا شامل ہے۔احکامات دین کو عملی طور پر اختیار کرنا اس کے نفاذ کی سب سے بڑی شہادت ہے۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں پر بندہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس امتحان گاہ کا ہونا مکمل ہی تب ہوتا ہے جب بندہ اپنی مرضی سے اپنا عقیدہ اور مذہب اختیار کر سکے۔آپ ﷺ نے عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لیے خوشخبری سنائی اور اعمال بد اختیار کرنے والوں کے لیے جو انجام ہے اس سے بھی آگاہ فرمایا۔اب اس نظام میں اللہ کریم نے جب تک فرصت دی ہے اس کی ذات کا انکار کرنے والوں کو بھی رزق دے رہا ہے صحت عطا فرمائی ہے اولاد دے رہا ہے۔اس مختصرسی زندگی کے مصارف ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی صورت میں نتیجہ کے طور پر ملیں گے ۔ اور ایک بات یادرکھیں دین اسلام کے مطابق دنیاوی کام کرنا بھی عبادت کا ایک درجہ رکھتے ہیں جیسے والدیں کی خدمت، اولاد کی پرورش یہ سب اگر سنت خیر الانام کے مطابق ہوں تو یہ سارے کام دین بن جاتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ہر عمل یا تو معاشرے میں نور کا سبب بنتا ہے یا پھر ظلمت کا سبب بنتا ہے اور غلط محفل اور ایسی صحبت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے جو کہ دین سے دوری کا سبب ہوں۔جس راہ کا تعین آپ کریں گے ویسے ہی نتائج بھی پائیں گے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔

Bandah momin ki behtareen tableegh uss ka apna kirdaar hai - 1