By Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications
Munara, Chakwal, Pakistan
02-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 02-Aug-2020
By Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications
Munara, Chakwal, Pakistan
02-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 02-Aug-2020
By Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications
Munara, Chakwal, Pakistan
02-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 02-Aug-2020
By Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications
Munara, Chakwal, Pakistan
02-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 02-Aug-2020
By Silsila Naqshbandia Owaisiah Publications
Munara, Chakwal, Pakistan
02-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 02-Aug-2020
By Qulzam-e-Fayuzat Hazrat Maulana Allah Yar Khan (RA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020
شریعت نام ہے کُل اور مجموعہ احکام کا۔ سارے کے سارے احکام (مجموعہ احکام) جو ہیں اُن سب کو شریعت کہا جاتا ہے، خواہ ان احکام کا تعلق اُمور باطنہ سے ہو یا اُمور ظاہرہ کے ساتھ۔
علماء متقدمین اور تمام صوفیا اس بات پر متفق ہیں کہ ''شریعت'' لفظ ''فقہ'' کے مترادف ہے۔ چونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے فقہ کی تعریف ہی یہ کی ہے؛ مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَہا وَمَا عَلَیہَا (ترجمہ: نفس کی پہچان، جو اس کے نفع کی چیز ہے یا نقصان کی چیز ہے)۔ اس لئے مجموعہ احکام ظاہری اور باطنیہ اعمال بھی سارے کے سارے اس میں آگئے۔ متاخرین علماء نے اس کی تقسیم یوں کی ہے احکام ظاہری پر انہوں نے فقہ کا اطلاق کر دیا اور جن اُمور کا تعلق باطن سے ہے اُن پر تصوف کا اطلاق کردیا۔
اسلام سے باہر تو کوئی چیز نہیں، یہی شریعت ہے، یہی حقیقت ہے، یہی سب کچھ ہے، اسی کو شریعت کہتے ہیں۔
اُن وسائل، ذرائع اور طرق کا نام ہے جن کے ذریعہ سے احکام ظاہری یا احکام باطنی حاصل کئے جائیں مثلا درس و تدریس، پڑھنا پڑھانا، تصنیف کرنا، لکھنا، تبلیغ کرنا، کسی سے پوچھ لینا۔۔۔ یہ رستے اور ذرائع ہیں شرعی احکام تک پہنچنے کے، انہیں طریقت کہا جاتا ہے، (طریقت کہتے ہی رستے کو ہیں یعنی اس راہ پر چل کر کسی چیز کو حاصل کرنا، انسان ہمیشہ کسی مقصد کے لیے حرکت کرتا ہے) اس طرح باطنی اُمور یعنی تصوف میں لطائف کرنا، مراقبات کرنا وغیرہ۔
اصل تصوف ہے رضائے الٰہی کا نام، اللہ کی رضا حاصل کی جائے، اللہ کی محبت حاصل کی جائے، اس کی رضا کس امر میں ہے، اور وہ ناراض کس بات میں ہے (اسے حاصل کیا جائے)۔ تصوف اس چیز کو کہتے ہیں یہ نہیں کہ کوئی چیزیں دیکھ لیں، کشف ہو گیا، الہام ہو گیا۔ تو یہ سمجھنے لگے کہ میں صوفی بن گیا، بڑی چیز بن گیا، نہیں بلکہ تصوف کی حقیقت یہ ہے کہ رضائے الٰہی حاصل کی جائے۔ یہ دیکھنا کہ اللہ کی محبت کس طرح حاصل ہو اللہ کی رضا کس چیز میں ہے۔
اللہ کی رضا اس کی عبادت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے قال تعالی: قُلْ اِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 31)۔ ''اگر آپ اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو اور اللہ کو محبوب بنانا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو'' یہ طریقت ہے۔
اب ذرا غور کریں کہ حقیقت کس کو کہتے ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کسی چیز کی صورت حاصل ہوجائے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی حقیقت واضح ہوجائے، مثال کے طور پر صوفیاء کرام یہ کہتے ہیں کہ نماز کی صورت جو ہے وہ عام مسلمانوں کو حاصل ہے حقیقت تک رسائی کم ہے۔ ایمان کی صورت حاصل ہے، حقیقت حاصل نہیں ہے۔ جس سے آدمی مسلمان بن جاتا ہے مومن بن جاتا ہے دین دار بن جاتا ہے اب ذرا صورت اور حقیقت کا مفہوم سمجھ لیں۔
''علم'' کہتے ہیں؛ حصول صورۃ الشئی فی الذہن (یعنی صورت چیز کی ذہن میں آجائے) یا قبول النفس تلک الصورۃ (یا نفس اس صورت کو قبول کرلے) اسے علم کہتے ہیں کہ صورت کا حاصل ہو جانا۔ ایمان کی صورت آ گئی، روزے کی صورت آگئی کلمے کی صورت آگئی۔
حقیقت کیا ہے؟ مثال کے طور پر کوئی شخص کہتا ہے کہ ڈی سی فلاں مقام پر آگیا ہے ہم نے اس کی بات تسلیم کر لی۔ یہ ایمان تقلیدی ہے کہ اس کی بات سن کر قبول کرلی۔ عوام کا ایمان جو ہے، تقلیدی ہے۔ تقلیدی ایمان تشکیک مشکک کے ساتھ زائل ہوجاتا ہے، کسی نے شک وہم میں ڈالا تو اس کو چھوڑ بیٹھا۔
تقلیدی ایمان: عوام کی گمراہی کا سبب کیا ہے، جیسی صحبت ملی ویسے ہو گئے، کسی بدعتی گمراہ سے ملے اُسی سے متاثر ہو گئے۔ بات اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کی حقیقت تک رسائی نہیں ہوئی۔ اس لئے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اطمینانِ قلب پورا نہیں ہوتا، خبر دینے والے نے خبر دی دوسرے نے کہا غلط کہتا ہے جو جھوٹ بول رہا ہے، شک پیدا ہوا یقین رخصت قصّہ ختم، یہ ہے تقلیدی ایمان کی مثال۔
استدلالی ایمان: دوسرا استدلال جو دلائل سے ثابت ہو مثلاً ایک آدمی اس مقام پر گیا اس نے دیکھا کہ موٹریں کھڑی ہیں، پولیس موجود ہے، لوگ جمع ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی آیا ہے کیونکہ دلائل موجود ہیں۔ یہ ایمان استدلالی ہے۔
کشفی ایمان: کشفی ایمان یہ ہے کہ اندر چلا جائے اور بچشم خود دیکھ آئے کہ وہ آدمی کرسی پر بیٹھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اندر جاکر خود دیکھ آئے، (اگر کسی نے شک وہم میں ڈالا تو کہہ اٹھتا ہے کہ) تم جھوٹ بولتے ہو میں انہیں آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔
گمراہی کا سبب یہ ہے کہ ہرمسلمان حقیقت تک نہیں پہنچتا۔ اگر حقیقت تک رسائی ہو جاتی تو پھر کوئی طاقت اسے گمراہ نہ کر سکتی افسوس تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں بھی نہیں جاتے جہاں سے یہ گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے، یقین و ایمان کی دولت لازوال ملتی ہے، اسے کہتے ہیں حقیقت یعنی انتہا تک پہنچنا۔
معرفت سے مراد ہے پہچان لینا۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ رستے میں جو کچھ ہے اس کے اسباب پہچانے گئے ہیں یہ معرفت ہے۔ مگر میری تحقیق یہ ہے کہ جس کو جس وقت وہ چیز پوری حاصل ہو جائے معرفت حاصل ہوگئی۔ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت (انتہا تک پہنچنا) اسی کو تصوف کہتے ہیں۔ جسے یقین اور اطمینان ہوتا ہے وہ اس تک پہنچتا ہے۔
وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّیٰ یَاتِیَکَ الْیَقِینُ (حجر: 99)
اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیے یہاں تک کہ آپ کی مدت العمر پوری ہوجائے۔
By Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020
By Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020
بیعت ِطریقت کے بارے دلائل السلوک میں لکھا ہے کہ؛
یہ بیعت صرف وہ شخص لے سکتا ہے جو نہ صرف خود فنافی الرسول ہو بلکہ دوسرے کو بھی فنافی الرسول کراسکتاہو۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں ہم بیعت ِاصلاح یا بیعت ِامارت نہیں لیتے بلکہ بیعت ِتصوف لیتے ہیں اور اس وقت اللہ کا فضل نسبت ِاویسیہ پر ہے۔ اور میرے علم میں نہیں ہے کہ کہیں روئے زمین پر کسی دوسرے سلسلے کا کوئی ایسا شخص موجود ہو جو فنافی الرسول کراسکتا ہو ۔
ایمان رشتۂ اُلفت ہے، جب ذات سے رشتہ ہوتو اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسا ہی تعلق شیخ کی ذات سے ہوتو برکات نبوت ﷺنصیب ہوتی ہیں او رانجام بخیر ہوتا ہے۔ اگر رشتۂ ذات سے ہوگا تو اعتراض نہیں ہوں گے۔ صفات سے ہوگا تو اعتراض کی گنجائش رہے گی کیونکہ صفات تو بدلتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم کا یہ احسان ہے کہ ربع صدی ،اللہ نے مجھے شیخ کی رفاقت سے نوازا، ربع صدی میں کسی کا کوئی اعتراض، کبھی میرے نزدیک کوئی اہمیت حاصل نہ کرسکا، اس لیے کہ مجھے اپنے شیخ کی ذات سے تعلق تھا۔ یہ شرط نہیں تھی کہ ذات کیسی ہے، جو تعلق ذات سے ہوتا ہے اُس میں شرطیں نہیں ہوتیں،صفات کی بناء پر جو تعلق ہوتا ہے وہ صفات کے بدلنے سے بدلتا ہے۔ خیر القرون کے بعد،میرے شیخ ایسے نابغۂِ روزگار تھے کہ صدیوں میں جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس عظمت کے باوجود، اُن کی زندگی عام انسان کی سطح پر تھی۔ زمیندار تھے، کاشت کار تھے، مولوی تھے، طبیب تھے، اعلیٰ پائے کے مناظر تھے، جہاں آپ کے بہت سے دوست تھے، وہاں دُشمن بھی تھے، جہاں بے شمار جانثار تھے، وہاں برادری کی رنجشیں بھی تھیں۔ کچھ دُعا دینے والے تھے تو کچھ ایذادینے والے بھی تھے۔ لیکن میرا رشتہ اُن کی صفات سے نہیں، ذات سے ہے۔ شیخ کا شاگرد سے رشتہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کو اخلاق و آداب سکھا کر، اللہ کے حضور کھڑا کردے اور چونکہ شیخ سے برکاتِ نبوت ﷺ لینی ہیں، لہٰذا آداب بھی بارگاہ ِنبوت ﷺکے ملحوظ رکھنے ہوں گے۔
شیخ سے ذاتی تعلق
شیخ کا کسی پر احسان نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی ذمہ داری کے باعث مجبور ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی بات سنے، اُس کا کسی پر احسان نہیں کہ وہ خطوں کا جواب دے،یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ جتنے لوگوں کی تربیت کررہا ہے، اُن کی باتیں سنے، اُن کے خطوں کے جواب دے، اُنہیں ذکر سکھائے، اُن پر محنت کرے، اُنہیں بتائے کہ کہاں غلط ہوراہ ہے، کہاں ٹھیک ہورہا ہے۔ لیکن یہ تربیت اُن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کا ذاتی تعلق شیخ کے ساتھ ہوتا ہے۔ رشتوں میں جب واسطے آجائیں تو دراڑیں پڑجاتی ہیں ۔فاصلے بڑھ جاتے ہیں، بیٹے نے باپ سے بات کرنی ہوتو وہ جاکر پھوپھی سے کہے، پھر وہ پھوپھی اُس کے باپ سے کہے، تو باپ کو دُکھ ہوگا کہ میرے بیٹے کو یا خود پرا عتماد نہیں یا مجھ پر اعتبار نہیں۔ اِسی طرح جب کوئی شیخ کے لیے سفارشیں ڈھونڈتا ہے تو سوچتا شیخ بھی یہی ہے، کہ اس کا رشتہ میرے ساتھ ہوتا تو یہ براہِ راست مجھ سے بات کرتا، سفارشیں ڈھونڈنا، رشتے میں کمزوری کی علامت ہے۔By Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020
نبی کریمﷺ سے صحابہ کرامؓ نے عرض کی، یارسول اللہﷺ! آپﷺ دنیا سے پردہ فرماجائیں گے تو یہ بعد میں آنے والے کیسے تلاش کریں گے کہ یہ اللہ کا بندہ ہے، یہ نیک آدمی ہے، یہ ولی اللہ ہے؟ یا جسے آج کل کی زبان میں آپ پیر کہتے ہیں۔ طرح طرح کے لوگ ہوں گے۔ نیک بھی ہوں گے، عابد و زاہد بھی ہوں گے، مخلص بھی ہوں گے لیکن اُن میں مکار بھی شامل ہو جائیں گے، بہروپئے بھی آجائیں گے جو بظاہر بڑا نیکی کا لباس بنا لیں گے، حلیہ نیکوں کا ہو گا اور اندر سے پتہ نہیں کیا ہوں گے؟ تو کیسے فرق پتہ چلے گا؟
آپﷺ نے فرمایا کہ اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کے پاس چند لمحے بیٹھنے سے خدا یاد آجائے۔ یعنی جس کے پاس رہ کر تم خود کو اللہ کے قریب لے جاتے ہوئے محسوس کرو، وہ بندہ حق پر ہو گا۔ جس کے ساتھ ملنے سے تمہیں گناہ سے بچنے کا کوئی خیال دل میں آجائے، نیکی کی طرف بڑھنے کی رغبت دل میں پیدا ہو جائے، عمل میں صلاحیت پیدا ہو جائے، طلبِ صادق پیدا ہو جائے، دل میں خلوص پیدا ہو جائے، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے کھری محبت پیدا ہو جائے، وہ کھرا بندہ ہو گا۔
ولایت انبیاء ؑ کی وراثت ہوتی ہے اور ہر وہ شخص ولی اللہ ہے جودل کو ایسا درد دے،ایسی فکر دے دے جس میں تسکین اللہ کی اطاعت سے آتی ہو اور حضورﷺ کی سنت سے آشنا کر دے، نبی کریمﷺ کے نقشِ قدم پہ چلا دے تا کہ دنیا بھی سدھر جائے اور آخرت کی رسوائی سے انسان بچ جائے۔ اس کے علاوہ کسی بھی طرف کوئی لگاتا ہے تو وہ ٹھگ ہے۔ پہلے زمانے میں تھا، آج ہو یا کوئی بعد میں دعویٰ کرے۔
ہر آدمی دعویٰ کرتا ہے تو اُس کا کیسے پتہ چلے؟ میرے خیال میں یہ بڑا آسان ہے، جیسے ہر ڈاکٹر کہتا ہے میں بہت اچھا ڈاکٹر ہوں لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کتنے مریض اُس کے پاس جا کر شفایاب ہوئے؟ ہمارے پاس معیار یہ ہوتا ہے کہ کون سے ڈاکٹر کے پاس کتنے لوگوں کو شفا ہوئی، اُس کے پاس جانا چاہئے۔ اسی طرح اگر کوئی کہتا ہے میں شیخ ہوں تو اُس کے پاس جانے والوں کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے۔ تو اگر تو کسی کی زندگی پہلے سے بدلی ہے، کسی کا دل روشن ہوا ہے، کسی کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو بات ٹھیک ہے۔ اگر دوسروں کو وہاں فائدہ پہنچ رہا ہے تو پھر بات جانے والے کی طرف پلٹ جاتی ہے کہ اُسے کس درجے کا فائدہ ہورہا ہے اور اگر نہیں ہو رہا تو قصور کہاں ہے؟
یہ جو ہم شکوہ کرتے ہیں ناں کہ ہم کہاں جائیں؟ دنیا میں ہر بھیس میں ٹھگ ہیں، پیروں کے بھیس میں بھی ٹھگ ہیں، علماء کے بھیس میں بھی ٹھگ ہیں تو کوئی انسان کہاں جائے؟ تو یہ شکوہ بیجا ہے۔ جب لوگوں نے خدا ہونے کا دعویٰ کر لیا، نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر لیا تو ولایت تو اُس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی ولایت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر تعجب کی کیا بات ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم کیوں جھوٹوں کے پاس جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ہمارے دل میں بھی طلب ِ صادق نہیں ہوتی۔ جہاں طلبِ صادق ہو، جہاں انابت ہو، اسے ہدایت نصیب کرنا یہ اللہ کا کام ہے اور جہاں خلوص نہیں ہو گا تو وہ اگر کسی اہل اللہ کے پاس پہنچا بھی، بیٹھا بھی رہا تو ہمیشہ کے لئے نہیں رہ سکتا۔
لوگ دنیا داروں، نقالوں، دغابازوں اور دھوکا دینے والوں کے پاس ساری عمر لٹتے رہتے ہیں، کیوں؟ ہم لوٹنے والوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن لٹنے والوں کو ہمیشہ مظلوم شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لٹنے والا بھی ظالم ہوتاہے اپنی ایک حیثیت میں، اُس کی طلب صحیح نہیں ہوتی۔
ہم کپڑا لینے جاتے ہیں تو جوتے والے کے پاس نہیں جاتے، کبھی فروٹ والے کی دکان پر ہم جوتے خریدنے نہیں جاتے۔ اتنا اگر ہم میں عقل اور شعور ہے تو جن کے پاس دین نہیں ہے وہاں دین لینے کیو ں جاتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں ہمارا مولوی بگڑ گیا ہے، ہمارا پیر خراب ہے۔ تو بھئی! بگڑے ہوئے مولوی کے پاس کیوں جاتے ہو، ایسے ہی جیسے آپ اُجڑی ہوئی دکان پر سودا لینے نہیں جاتے؟ اس کا مطلب ہے ہم بھی بگڑ گئے ہیں، ہم نے بھی جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ دنیا کے معاملے میں ہم آنکھ بند نہیں کرتے، دین کے معاملے میں آنکھ بند کر لیتے ہیں کہ چلو بھئی! خانہ پُری کر لو۔
تو بات طلب کی ہے۔ اگر طلب صحیح ہو انسان بدکاروں، دھوکابازوں کے پاس رکتا ہی نہیں ہے، خواہ اُنہوں نے کتنی بڑی دوکان سجا رکھی ہو، اور جو رکتا ہے اُس کی اپنی طلب صحیح نہیں ہوتی۔
مجھ سے کسی نے سوال کیا کہ سلوک میں کوئی ایسی منزل یا منصب بھی ہے جہاں شریعتِ ظاہری کی حدود اور قیود اُٹھ جائیں؟ تو میں نے جواب دیا کہ ہاں ہے، اگر آدمی پاگل ہو جائے یا اسلام چھوڑ دے۔ ہوش قائم ہو اور مسلمان ہو تو مرتے دم تک شریعت کا مکلف ہے۔ دماغ کام کرنا چھوڑ دے کسی مرض کی وجہ سے یا کسی بھی سبب سے تو آدمیشریعت کا مکلف نہیں رہتا۔
میں بڑے واضح الفاظ میں بتا دوں کہ کوئی پیر، کوئی ولایت کا مدعی کہے کہ میرے پاس آو ئ میں تمہیں اولاد دوں، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کوئی تمہیں کہتا ہے میں تمہیں رزق دوں گا، وہ جھوٹ بولتا ہے، دھوکا کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے میں تمہیں شفا دوں گا، وہ تمہارے ساتھ فریب کرتا ہے۔ ارے یہ ساری چیزیں جو پیروں کو نہیں مانتے اُنہیں بھی ملتی رہتی ہیں، جو نبیوں ؑ کو نہیں مانتے اُنہیں بھی ملتی رہتی ہیں بلکہ جو خود اللہ کو نہیں مانتے اُنہیں بھی یہ نعمتیں اللہ کریم دیتے رہتے ہیں۔ اللہ ایسا کریم ہے کہ اُس نے دنیا میں کسی کا راستہ، دروازہ بند نہیں کیا۔ کافروں کو اولاد بھی ملتی ہے، صحت بھی ملتی ہے، رزق بھی ملتا ہے، تو پھر ہمیں یہ پیر کا بوجھ سر پر لادنے کی کیا ضرورت ہے؟
جو آدمی اپنے دل میں ذاتی طور پر یہ طے کر لے کہ مجھے اللہ کا قرب چاہئے، مجھے اللہ کی رضا چاہئے، جو یہ طے کر لے کہ مجھے اللہ کی طلب میں، اللہ کی آرزو میں، اُس کی رضا کی تلاش میں سب کچھ ہی ہار دینا چاہئے اُسے یہ نعمت نصیب ہوتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو، جس کے دل میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا، جو خود یہ طے نہیں کر سکتا، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُّرْشِدًا (الکہف: 17)، اُس کے لئے نہ کوئی ولی ہوتا ہے، نہ کوئی ہادی ہوتا ہے، نہ کوئی مرشد، نہ کوئی رہنما، نہ کوئی واعظ اور نہ کوئی مبلغ۔ کوئی بھی اُس کے کسی کام نہیں آ سکتا۔ یہ سارا معاملہ انسان کے ذاتی فیصلے پر منحصر ہے۔ ہر واعظ، ہر مقرر، ہر پیر، ہر مولوی، ہر استاد اُس کے فوائد اور اُس کے نقصانات سے تو آگاہ کر سکتا ہے لیکن فیصلہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے، کوئی ہمارے لئے فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اور جب تک ہمارا فیصلہ اس قوت کا نہیں ہوتا کہ وہ ہماری ذات کو، ہمارے کردار کو اور ہماری سوچ کو متاثر کرے تب تک اُس پر ہدایت مرتب نہیں ہوتی۔
تو ولی سے حصولِ برکات کے لئے بنیادی طور پر اُس فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان اپنے دل میں طے کرتا ہے۔ کوئی نبی، کوئی ولی کسی سے زبر دستی فیصلہ نہیں کرواتا کیونکہ اللہ کا یہ قانون نہیں ہے۔ اُس نے انسان کو یہی اختیار دیا ہے ایک حسین کائنات اُس کے سامنے بکھیر کر اور دوسری طرف اپنی ذات کی جلوہ نمائی کا اہتمام کر دیا۔ اب یہ اُسی پر ہے کہ یہ اُدھر جاتا ہے یا اِدھر آتا ہے؟ فرمایا اگر کوئی یہ کام کرے اِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (الشوریٰ: 52)، تو اے نبیﷺ! آپﷺ اُسے صراطِ مستقیم پر لا سکتے ہیں۔ جب یہ بات آقائے نامدارﷺ سے فرمائی جارہی ہے تو پھر پیر فقیر کیا کرے گا؟ کسی کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا جب تک انسان خود نہ طے کرے۔
اگر انسان نہاں خانہئ دل میں خود طے کر لے تو پھر اہل اللہ اُس کے ا س طرح کام آتے ہیں کہ وہ درد جو اُن کے دل میں ہوتا ہے وہ اُس کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ انسان تو انسان، فرمایا ایسے لوگوں کے ساتھ اگر کتا بھی لگ جائے تو وہ بھی برکات سے محروم نہیں رہتا، جیسے اصحابِ کہف کے ساتھ کتا بھی اسی طرح سالم غار کے منہ پر بیٹھا رہا کہ زمانہ اُسے بھی فرسودہ اور بوڑھا نہ کر سکا، سورج کی تمازت یا طوفانوں کی تیزی اُس کتے کو بھی پریشان نہ کر سکی۔ یہ اس لئے کہ اس کے مالک تو میرے طالب تھے ہی، یہ میرا طالب نہ سہی یہ اُن کا طالب تو تھا۔ اس کو میری ذات کو پہچاننے کا شعور نہ سہی لیکن اسے اُنہیں جاننے کا شعور تو تھا، اُن کے دروازے پہ تو بیٹھا رہا۔جتنا کوئی کامل ہو گا اتنی اُس کی زندگی عام آدمی کی طرح ہو گی۔کاملین کی زندگی بالکل عام آدمی کی زندگی بن جاتی ہے جس میں اکثر لوگوں کو، عام آدمی کو یہ دھوکا لگتا ہے کہ یہ کیسے صوفی ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے سالک ہو سکتا ہے؟ نہ گوشے میں بیٹھتا ہے، عام آدمی کی طرح کھاتا پیتا ہے، عام آدمی کی طرح رہتا ہے۔ تو سب سے کامل ہستی کائنات میں آقائے نامدارﷺ کی ہے۔ آپﷺ کی زندگی اتنی عام ہے کہ ہر مسلمان آپﷺ کی اطاعت کا مکلف ہے کہ ہر چھوٹا بڑا، عالم جاہل آپﷺ کی پیروی کر سکتا ہے۔
اس لئے جتنا (کوئی) کامل ہو گا اُتنی اس کی زندگی عام ہوتی جائے گی۔ ہاں اگر کسی کے پاس منازلِ سلوک ہوں ہی نہیں، تو یہ بات ہی اور ہے۔ اور کوئی سالک ہو، صاحبِ حال ہو، اُس کے پاس منازل ہوں اور اُس کو ان کا پورا پورا احساس ہو، معاملات میں کھرا ہو، بات میں سچا ہو اور اُس کی زندگی ایک عام سطح پہ آجا ئے تو یہ اُس کے کمال کی دلیل ہے۔یہ جو غلط فہمی ولایت کے بارے میں لوگوں میں پیدا ہو گئی ہے کہ اولیاء اللہ کوئی عجیب و غریب مخلوق ہوتے ہیں، کسی سے بات نہیں کرتے، کھاتے پیتے نہیں، کوئی گھر بار نہیں ہوتا، جنگلوں میں رہتے ہیں۔۔۔ تو پھر کمال کیا ہوا؟ ایک شخص معاشرے میں حصہ ہی نہیں لیتا، کسی سے اُس کا لینا دینا ہی نہیں، کسی سے کاروبار نہیں، کسی سے خرید و فروخت نہیں تو اُس کے اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل ہو نے کا کیا پتہ چلے گا؟ اُس کی دیانتداری کا کیسے پتہ چلے گا؟ اُس کے سچ بولنے کا معیار کیا ہے؟ اُس کی امانت کا معیار کیا ہے؟ اس لئے جتنا کوئی کامل ہو گا اتنی اُس کی زندگی عام انسانوں کی طرح ہوتی جائے گی (کیونکہ) انبیاء ؑ کی زندگی ہمیشہ عام انسانی معیار کے مطابق ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ فرشتے آپﷺ کے درِ دولت پہ حاضر ہوا کرتے تھے، اگرچہ آپﷺ کے معجزات بے حد و بیشمار ہیں لیکن حیاتِ طیبہ کا معیار وہی تھا جو ایک عام آدمی اختیار کر سکتا ہے، اسی لئے ہر آدمی مکلف ہے حضورﷺ کے اتباع کا۔
نبی ؑکا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ عام آدمی کی زندگی بسر کرتا ہے، عام لوگوں کی طرح رشتے جوڑتا ہے، عام لوگوں کی طرح کام کاج کرتا ہے، عام لوگوں کی طرح اُس کیضروریات ہوتی ہیں۔ اگر نبی ؑکی یہ ضروریات نہ ہوں تو عام آدمی کو اُس کا اتباع کرنے کی تکلیف ہی کیوں دی جائے؟ مثلاً اگر نبی ؑکھاتا پیتا بھی نہیں، سوتا بھی نہیں، اُس کے بیوی بچے بھی نہیں، فرشتے کی طرح اُس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تو جسے آپ اتباع کے لئے کہیں گے وہ آرام سے کہہ دے گا کہ آپ تو یہ سارا کام کر سکتے ہیں، آپ کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں لیکن میں نے تو اپنے بیوی بچے بھی پالنے ہیں، والدین کی خدمت بھی کرنی ہے، میرا کاروبار اور لین دین بھی ہے، یہ سارا کر کے میں بھلا کب اللہ کی عبادت کر سکتا ہوں؟ تو یہ سارے مسائل ہر نبی ؑ کے ساتھ ہوتے ہیں، ان مسائل میں رہتے ہوئے وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہے اور اللہ کی عبادت بھی کرتا ہے، تب جا کر عام آدمی کے لئے معیار بنتا ہے۔
جانشینی کا مطلب الگ راستہ نہیں ہوتا بلکہ جانشینی کا، وراثت کا یا خلافت کا مطلب ہوتا ہے انبیاء کے نقوشِ کفِ پا پر چلا جائے۔ جو لوگ برکاتِ نبویﷺ، ذکر قلبی، کیفیاتِ قلبی، احوالِ قلبی، خلوص دل سے حاصل کرتے ہیں، اُن کے لئے قانون بھی وہی ہے کہ خلوص کے ساتھ شیخ سے رشتہ رکھیں۔
جو لوگ برکاتِ نبویﷺ کے امین ہوتے ہیں، اُن سے جب کوئی شاگرد برکاتِ نبویﷺ حاصل کرتا ہے تو وہاں یہی قانون درمیان میں آجاتا ہے، وہی خلوص چاہئے ہو گا، وہی ادب و احترام چاہئے ہو گا، وہی اطاعت و اتباع چاہئے ہو گا۔ صرف ایک تبدیلی آجائے گی، نبی ؑ جب کام کرتا ہے تو وہ دلیل ہوتی ہے کہ یہ حق ہے، پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ نبی ؑ کا کوئی جانشین جب کام کرتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہ نبی ؑ کی اطاعت کے اندر رہ کر کام کررہا ہے تو وہ ہمارے لئے واجبِ اتباع ہے لیکن اگر وہ اطاعتِ نبویﷺ سے نکل گیا تو ہم اطاعت بہرحال نبی ؑ کی کریں گے۔ ہم پھر اس بات کا اعتبار نہیں کریں گے کہ یہ شخص نیک ہے یا حضورﷺ کا جانشین ہے۔
By Qasim-e-Fayuzat Hazrat Ameer Muhammad Akram Awan (RA)
Munara, Chakwal, Pakistan
01-Aug-2020
Munara, Chakwal, Pakistan 01-Aug-2020