Latest Press Releases


قرآن کریم میں فرمائے گئے اصولوں سے ہی حقیقی ریاست مدینہ کا قیام ممکن ہوگا۔


ریاست مدینہ کے وہ اصول جو نبی کریم ﷺ نے نافذ فرمائے وہی اصول اپنا کر یورپ اور مغرب ہم سے آگے نکل گئے اور ہم دعوی ایمانی کے باوجو د ان اصولوں کو چھوڑ کر پیچھے رہ گئے۔اللہ کریم نے ریاست مدینہ کے دس اصول قرآن کریم میں ارشاد فرمائے جن سے ایک خوبصورت معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔جہاں جہاں جس نے بھی ان اصولوں کو چھوڑ ا تو پھر اُس معاشرے میں افراتفری ہی پھیلی۔آج ہم ریاست مدینہ کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ اصول نہیں اپنا رہے۔جس دن ہم نے ان اصولوں کو اپنے معاشرے پر نافذ کردیا اس دن اس ملک کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ صرف دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی معاشرے میں پھیلی بے حیائی اور برائی سے بچا جا سکتا ہے کہ ہمیں ان اخلاقیات کو اپنانے کی ضرورت ہے جو دین اسلام نے فرمائی ہیں۔والدین کے حقوق ان کا احترام،اولاد کی وہ تربیت جس کا حکم ہمیں قرآن کریم فرماتا ہے اس گمراہی کے دور میں ایسی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام دشمن عناصر اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کام پر لگے ہیں کہ شیطنت کو کن کن ذرائع سے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ برائی پھیلانے کے لیے ہر فورم استعمال کیا جا رہا ہے تو اس دور میں جتنا کوئی اسلام کے اندر آتا جائے گا،جتنا کوئی اسلام کی تعلیمات کو اپنائے گا وہ اسلام دشمن عناصر کی ان چالوں سے محفوظ رہے گا اللہ کریم اس کی حفاظت فرمائیں گے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عبادات کو خالص اللہ کی رضا کے لیے اپنائیں۔اللہ کریم کے ساتھ سودے بازی نہ کریں کہ میں نماز پڑھوں تا کہ میری مشکلات حل ہو جائیں،فلاں وظیفہ پڑھو ں تا کہ رزق میں اضافہ ہو۔بلکہ اپنے اللہ کریم کے حضور اس لیے سربسجود ہوں کہ اس کی مہربانی اس نے ہمیں پیدا فرمایا اور پھر اپنی عبادت کے لیے پسند فرمایا یہ بھی اس کا احسان ہے کہ بندگی نصیب فرمائی۔تو اللہ اللہ کرنے سے بندہ میں خلوص پیدا ہوتا ہے جس سے اس کی عبادات خالص ہوتی ہیں اور شرف قبولیت کو پہنچتی ہیں۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Quran kareem mein farmaiye gaye usoolon se hi haqeeqi riyasat madinah ka qiyam mumkin ho ga . - 1

یکجہتی کشمیر کے لیے اُسی جذبہ ایمانی کی ضرورت ہے جو ایک بیٹی کی پکار پر محمد بن قاسم ؒ کو یہاں لےآیا


آج کشمیر پر بھارتی تسلط اور لاک ڈاؤن کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہم زبانی احتجاج کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ہمارا ماضی ہمیں راہنمائی دیتا ہے کہ اسی خطہ زمین کی ایک بیٹی کی آہ پر محمد بن قاسم ؒ یہاں تشریف لائے اور اس کی ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔آج ہمیں بھی اُسی غیر تِ ایمانی کی ضرورت ہے کہ عملی طو ر پر اس کا تدارک کیا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبار ک کے موقع پر
 یوم کشمیر پربات کرتے ہوئے کیا۔
 انہوں نے کہا کہ بحیثیت مجموعی ہمارے اوپر مردہ پن ہے اور یہ مردہ پن اس لیے ہے کہ ہم بے عملی کا شکار ہیں۔ہم انفرادی طورپر اپنے اعمال کو دیکھیں کہ کیا ہمارے اعمال دین اسلام کے مطابق ہیں یا تجاوز میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔اگر ہم نے اس روش کو نہ چھوڑا تو روز آخرت ہمیں ایک ایک بات کا حساب دینا ہوگا اور پھر اُس بارگاہ میں کوئی غلط بیانی نہ ہو سکے گی۔کیونکہ اللہ کریم ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ باعمل مسلمان کا ہر عمل معاشرے میں سکھ کا سبب بنتا ہے۔جو غیر مسلم کے لیے ایسا نمونہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں بھی اسلام سے رغبت ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ کل بروز ہفتہ 6  فروری کو دارالعرفا ن منارہ میں دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں بروز اتوار دن 11:00 بجے حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔اس اجتماع میں ملک کے طول و عرض سے سالکین اپنی روحانی تربیت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ 15 رکنی وفد یو کے سے اپنی تربیت اور ذکر قلبی اختیا ر کرنے کے لیے ایک ہفتہ سے دارالعرفان منارہ میں موجود ہے۔اللہ کریم تمام مسلمانوں کو برکات نبوت ﷺ سے مستفید فرمائیں۔
yakjahti Kashmir ke liye usi jazba imani ki zaroorat hai jo aik beti ki pukaar par Mohammad Bin Qasim Reh. ko yahan le aaya - 1

اللہ کا ذکر بندہ مومن میں حضوری کی وہ کیفیت پیدا کرتا ہے کہ وہ خود کو اللہ کے روبرو پاتا ہے


برائی کا ہر عمل، مزید برائی میں ڈبونے کا سبب بنتا ہے اورہر گناہ قلب انسانی پر ایک سیاہ داغ لگا دیتا ہے،جب شیطنت اختیار کی جاتی ہے توشیطانی وصف انسانوں میں بھی آجاتے ہیں اور پھر ایسے انسان شیطان کے معاون بن جاتے ہیں۔یاد رکھیں کہ انسانی قلب کی صفائی ذکر الٰہی سے ہی ممکن ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 
  انہوں نے کہا کہ بندہ جب برائی میں حد سے بڑھتا ہے تو اسے برائی اچھی لگنی شروع ہو جاتی ہے یعنی برائی ہضم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ بہت بڑی بد بختی ہے۔جب بندہ کے اعمال صالح نہ ہوں تو آخرت کے اثرات اسی دنیا میں آناشروع ہو جاتے ہیں۔اسی دنیا میں ہی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عزت و ذلت کا معیار وہ ہے جو قرآن کریم ارشاد فرما رہا ہے وہ نہیں جو اپنی ذات کے میعار کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہو۔ہم قرآن کریم کے ہوتے ہوئے زندگی کا میعار اپنی پسند سے کریں او ر اپنے فیصلوں میں تجاوز اختیار کریں اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے۔قرآن کریم اللہ کی یاد کا حکم فرماتا ہے اور اس میں بے شمار انعامات ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مومن کو وہ حضوری کی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اپنے اللہ کے روبرو ہونے کا یقین دل میں اتر جاتا ہے۔اور یہ احساس اسے کئی برائیوں سے بچا لیتا ہے۔
  آخر میں انہوں نے اولاد کی تربیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ کی گئی اور اسے کفر و شرک تک پہنچنے کے اسباب ختم نہ کیے تو یہ بہت بڑا جرم بن جائے گا۔جہاں ہم دنیاوی علوم کے لیے دن رات ایک کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی جان مال لگا رہے ہوتے ہیں وہاں دیکھنا یہ کہ کیا ہم نے اپنی اولاد کو دین کی تعلیم بھی دی۔ایسے اسباب اختیار کیے جن کے وسیلے سے ہماری اولا د دین کی تعلیم حاصل کر سکے۔حقوق وفرائض کی وہ تقسیم جو اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہم نے اپنی اولاد کو سکھائے آج ہم چاہتے کہ ہم جیسے مرضی زندگی بسر کریں لیکن ہماری اولاد نیک ہو،خود جھوٹ بولیں اور اولاد سے سچ کی امید رکھیں یہ خود سے دھوکہ ہے اولاد کی تربیت کے لیے خود کو والدین کو بھی بدلنا ہوگا اپنے کردار میں بہتری لانی ہوگی تب اولاد سے بھی امید رکھی جا سکتی ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Allah ka zikar bandah momin mein huzoori ki woh kefiyat peda karta hai ke woh khud ko Allah ke rubaroo paata hai - 1

جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے


اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ عبادات کو بھی رسم و رواجا ت کی نذر کر دیا ہے اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم اس سارے عمل کو غلط بھی نہیں سمجھ رہے۔جب حق کو چھوڑ دیا جائے تو انسان خواہشات نفس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب !
انہوں نے کہا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ مذہب کے نام پر جو رواجات کافر و مشرک اختیار کرتے تھے کہ کسی فصل،جنس یا جانور کے حصے کیے جاتے تو اس میں کچھ حصہ مہمانوں کا،کچھ حصہ بتوں کا اور کچھ حصہ اللہ کے نام کا مقرر کرتے،جس نے عطا فرمایا اس میں سے اسی دینے والے کا حصہ مقرر کر رہے ہوتے اور پھر اس اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ شرک بھی کرتے۔اگر کوئی اس جرم کے ساتھ اس دارِ دنیا سے چلا گیا تو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی اپنے مقدر میں کر لی۔اور اس کی کوئی امید نہیں ہے کہ اس کی کوئی بچت ہو گی۔یاد رکھیں کہ حق میں عطا ہے اور بندگی حاضر باش ہونے کے مطابق ہوتی ہے۔اور باطل میں سودا ہے۔انہوں نے اپنے بت اپنے مختلف کاموں کے لیے تراش رکھے ہوتے تھے۔یہ سب اپنی خواہشات کی تکمیل ہوتی تھی۔یہ سب سودے بازی ہوتی۔کہ ہم فلاں بت کی پو جا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ میری حفاظت کرتا ہے دوسرے بت کو اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں رزق دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام ایسا دین برحق ہے کہ کسی شعبے میں بھی تشنگی نہیں چھوڑتا۔آج ہم نے اسوہ رسول ﷺ کو چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس وقت معاشرے میں ہر قسم کی برائی در آئی ہے۔یہ سب ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی دعا فرمائی
Jab haq ko chore diya jaye to insaan khwahishaat nafs ki pooja shuru kar deta hai - 1

آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے


آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے۔ہر کوئی اس سے پریشا ن ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے؟ اگر نماز باقاعدگی سے اہتمام کے ساتھ ادا کی جائے تو ان شاء اللہ اس برائی کے سمندر میں حفاظت الٰہی نصیب ہو گی۔اور یہ علاج بندہ مومن کو 14 سو سال پہلے انعام کے طور پر عطا ہوا ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نےجمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ معراج شریف کی رات آپ ﷺ کو 50 نمازوں کا حکم ہوا پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ کی ادائیگی اُمت کے لیے مقرر ہوئیں۔لیکن ان پانچ کی ادائیگی کرنے پر اجر پچاس نمازوں کا ہوگا۔یاد رکھیں دین اسلام کا ہر پہلو ہماری ضرورت ہے اور اسی میں ہی ہماری بھلائی ہے۔دین اسلام دنیا کے ہر شعبے کے متعلق جواب دیتا ہے ابھی حضرت انسان کو فرصت ہے کہ وہ اعمال صالح اختیار کر سکتا ہے اور اس پر بحیثیت مسافر منزل با منزل گامزن ہے۔زندگی لمحہ لمحہ گزر رہی ہے۔انسان کا کردار شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کیسی راہ پر ہے اس کے مطابق ہی اسے منزل ملے گی۔ اسوہ حسنہ ﷺ ایسا خوبصورت نمونہ اللہ کریم کی طرف سے عطا  ہواہے کہ آخری انسان تک کے لیے نشان منزل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام کو خود اپنائیں اسے کسی عالم،پیر یا مولوی کے ذمہ لگا کر خود فارغ ہو کر نہ بیٹھ جائیں،بلکہ اسے جانیں،عمل کریں اور قائم رہیں۔ہر ایک کو روز آخرت اپنے ایک ایک قول و فعل کا حساب دینا ہے جتنا کسی کے پاس اختیار ہے،طاقت ہے ان سب امور کے بارے پوچھا جائے گا  اس لیے ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ اللہ کریم کی دی ہوئی ان نعمتوں کو کس راہ پر خرچ کر رہا ہوں۔زیادہ وقت نہیں ہے محدود وقت ہے نتیجہ سامنے ہوگا۔کفرو شرک کرنا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق اعلان کرنا،آج ہم اپنی عبادات کو ضروریات دنیا کے لیے اختیار کرتے ہیں یہ بہت نازک مسئلہ ہے ہمیں اپنی نیت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Aaj muashray mein be hiyai aur be raah rawi aam ho gayi hai - 1

جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی


انسانی مزاج ہے کہ جزااورسزاکے اطلاق کے مطابق عمل اختیار کرتا ہے جہاں اس کو یقین ہو کہ قانون پر نفاذ ہوتے ہوئے جزااور سزا ملے گی  اس معاشرے میں جرائم کی شرح بہت کم ہوتی ہے اوروہاں بہت حد تک امن ہوتا ہے اور یہ قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیںاگر وہ قوانین جو اللہ کریم نے انسان کے لیے بنائے ہیں ان کو اگر ملک میں نافذ کر دیا جائے تو معاشرے میں واقعی عدل ہو گا  مساوات ہوگی اور ہر ایک کیلیے بھلائی ہو گی اور زندگی کے ہر شعبے میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا  ان خیالات کا اظہار  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشنبدیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان نے جمعۃ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر انسان کی استطاعت ہر پہلو سے مختلف ہوتی ہے جسمانی لحاظ سے دیکھ لیں یا ذہنی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہرایک کی اپنی حیثیت ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی جزااور سزا کو سامنے رکھناہے اوراس کا اتنا یقین ہو کہ میرا ہر عمل اللہ کی حضور پیش ہونا ہے اور مجھے میر ے اعمال کے مطابق جزااور سزا ملنی ہے تو پھر بندے کا ہر عمل خالص اُس بارگاہ کے لیے ہو گایہ تب ہی ممکن ہو گا جب ایمان بل آخر مظبوط ہوگا اور پھر جو عمل ظاہرا" صالح ہو گا اور اس کی نیت کی درستگی سے باطنی طور پربھی نیک عمل کہلائے گا اور جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی اور اگر ہم  اپنے سے پہلے جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں انکو دیکھیںتو ان کی قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں تو پھر اپنے آپ کو بھی ان کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو پھر ہمیں اصل زندگی کا احساس ہو گا آپ وﷺ کا ارشاد ہے جس طرح دن ڈھل رہا ہو عصر کا وقت ہے اسی طرح اس دنیا کا وقت شام کے قریب پہنچ چکا ہے ہماری  زندگی تو کسی بھی لمحے برزخ میں منتقل ہو سکتی ہے اللہ کریم ہمیں دارالعمل سے برزخ میں حالت ایمان سے داخل فرمائیں 
Jab amal Allah ki khushnodi kay liye ikhtiyar kya jata hai to phir duniya ki ehtiaaj nahi rehti - 1

تارک الدنیا ہونا کمال نہیں،کمال یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق بھر پور زندگی بسر کی جائ


تارک الدنیا ہونا کمال نہیں،کمال یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق بھر پور زندگی بسر کی جائے.اللہ کریم کی ذات نے انسان کو جو کچھ عطا فرما دیا ہے اگر ساری زندگی سر بسجودگزرجائے کوئی دوسرا کام نہ کیا جائے تو بھی اس کاشکر ادا نہیں ہو سکتا۔اسی پہلو کو لیتے ہوئے دیکھا جائے تو ہم کمزور لوگ بتقاضائے بشریت ہمارے اندر بہت ساری کمزوریاں ہیں۔اس پر مزید غلطیاں کرتے جائیں تو ہم اس سب کو شیطان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو کہ درست نہ ہے۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
      انھوں نے کہاکہ اس ادراک کی ضرورت ہے کہ معرفت باری تعالی کو جانا جائے انسان کے ہر ہر عمل کو اللہ جانتا ہے۔ہرگزرنے والا لمحہ،ہر گزرنے والا دن اور ہر گزرنے والے ماہ و سال میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے علم میں ہے۔ من حیث القوم ہماری کمزوری ہے کہ بجائے ہجری سال کے عیسوی سال کی مبارک دی جارہی ہے اور اس مبارک باد میں جو پوشیدہ بات ہے یہ کہ ہماری زندگی کا ایک سال گزر گیا،کم ہو گیا اور ہم شغل میلے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارک الدنیا ہونا کوئی کمال نہیں ہے اللہ کریم نے انسان کو دنیا میں جس حیثیت میں رکھا ہے اس حیثیت میں رہتے ہوئے اللہ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی جائے تو یہی زندگی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا سبب بن جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اُمت مسلمہ کو اس ادراک کی ضرورت ہے جو اسے آشنا کر دے کہ اللہ کریم قرآن کریم میں اسے کیا فرما رہے ہیں۔اور یہ کہ اُمت مسلمہ اپنے نبی کریم ﷺ کو جان سکے کہ وہ کیا احکامات لائے۔برکات نبوت ﷺ کی بدولت بندہ مومن کو وہ کچھ نظر آجاتا ہے جس کا ادراک ظاہری آنکھ نہیں کر پاتی۔یہ سوچ ہمیں نصیب ہو جائے کہ ہم سب محتاج ہیں تاکہ تمام امور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوں۔
  انہوں نے کہا کہ ہماری گزرتی ہوئی زندگی ہمیں یہ شہادت دے رہی ہے کہ مسافر بہ منزل ہوتے جا رہے ہیں۔اور ایسے ایسے لوگ جن کے بغیر زندگی کا لفظ ممکن نہ تھا وہ بھی چلے گئے۔اب ہمیں یہ سوچنے کی ضروت ہے کہ میں اپنی بڑائی میں نہ پڑوں۔اور اپنی حیثیت کا بخوبی علم ہو کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں میرے منازل تب حقیقت ہوں گے جب میری عملی زندگی دین اسلام پر ہوگی۔کلام ذات باری تعالی کی سمجھ ہمیں سیدھی راہ پر لے آتی ہے۔اور اگر ہمارے اعمال درست نہ ہوں گے تو پھر معاشرے کے حالات بھی بہتر نہیں ہوں گے۔وبائی امراض کی شدت،ایک دوسرے کا لحاظ نہ ہونا یہ سب ہمارے اعمال کے سبب ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Tarik al-dunia hona kamaal nahi, kamaal yeh hai ke Allah ke hukum ke mutabiq bhar poor zindagi basr ki jai - 1

جو وقت تخریب میں ضائع کر رہے ہیں اُسے تعمیر میں لانا چاہیے


اللہ کی رضا سے مراد یہ ہے کہ جس راہ کے اختیار کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے اُسے اختیار کیا جائے۔ہم محتاج ہیں اسے احتیاج نہیں ہے۔آج ہم نیک لوگوں کو مانتے ہیں کہ فلاں بزرگ اللہ کے ولی ہیں لیکن خود وہ نیکی اختیار نہیں کرتے،ہم اپنی زندگی کو اپنی پسند کے مطابق بسر کرتے ہیں بلکہ نیکی بھی دنیاوی کسی فائدہ کے لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ پڑھنے سے مجھے فلاں چیز مل جائے فلاں عہدہ مل جائے۔یہ درست نہیں ہے۔اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان امیر عبدالقدیر اعوان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ جو وقت تخریب میں ضائع کر رہے ہیں اُسے تعمیر میں لانا چاہیے۔کیونکہ ہر عمل کے اپنی ذات پر بھی اثرات ہوتے ہیں اور معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔اگر برائی کی جائے گی تو معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے اگر نیک عمل ہوگا تو اس سے معاشرے کی تعمیر ہوگی معاشرے میں بہتری آئے گی۔اگر ہر بندہ شام کو سونے سے پہلے عملی زندگی پر دھیان دے کہ آج دن بھر کتنی نیکی کی اور کتنے اعمال نا فرمانی میں چلے گئے تو کسی دوسرے کی ذات پر بحث کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے سے اچھائی کی توقع رکھنے کی بجائے خود اچھائی اختیار کریں۔معاشرہ خود بخود اچھا ہو جائے گا۔ہمارے قریب انصاف یہ ہے کہ جو مجھے ملنا چاہیے وہ ملے لیکن جہاں ادائیگی کرنی ہے وہاں سے رعایت مل جائے۔روز محشر ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجے ہیں۔اپنے روز کے معمولات دیکھیں کہ دن میں کئی بار مواقع ملتے ہیں جہاں ہم نے صحیح اور غلط میں سے ایک کو چننا ہوتا ہے خود کو دیکھیں کیا میں حق کو چن رہا ہوں یا نا حق کی طرف جا رہا ہوں یہی ہمارا ایمان ہے اگر ایمان مضبوط ہوگا،جزا و سزا پر یقین کامل نصیب ہے تو بندہ حق کو چنے گا اگر اس بات کی پرواہ نہیں کہ مجھے حشر کو ایک ایک سانس کا حساب دینا ہے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو پھر جان لیں کہ آپ کا ایمان کمزور ہے،آپ کا اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق مضبوط نہیں ہے جس وجہ سے آپ حق کو چھوڑ کر نا حق کی طرف جا رہے ہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔ 
Jo waqt takhreeb mein zaya kar rahay hain ussay taamer mein lana chahiye - 1

اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنا ہی اصل کامیابی ہے


ہم مخلوق ہیں ہماری سوچ بھی محدود ہے اللہ کریم نے جو احکامات اس بشر کے لیے فرمائے ہیں وہی انسان کے لیے سب سے مفید ہیں۔اللہ کریم نے عدل کا حکم فرمایا ہے اب اگر ہم اپنی زندگیوں میں عدل کو نافذ نہیں کریں گے اور عدل بھی وہ جس کی تعلیم نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے اگر ہم اپنی پسند و ناپسند پر عدل قائم کریں گے تو اس سے فائدہ کی بجائے فساد ہو گا۔کیونکہ اس میں ہماری پسند شامل ہو جائے گی،زندگی کے ہر شعبے میں عدل کی ضرورت ہے جس نظام ہائے زندگی میں عدل نہ ہوگا وہ نظام نہیں چل سکتا۔ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ عدل اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیے جس نے اپنے آپ سے انصاف نہیں کیا وہ کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکتا۔اللہ کریم کا احسان کہ ہمیں ان حقائق سے آشنا فرمایا جو حقیقی ہیں۔جو انجام سے آگاہی کا سبب ہیں۔اللہ کریم کے ہر حکم میں حکمت ہے۔اللہ کریم نے ہمیں درست اور غلط سے آشنا فرما دیا۔کائنا ت کی ہر چیز میں اللہ کریم نے اعتدال رکھ دیا ہے اب اگر ہم اعتدال کا دامن چھوڑ دیں گے تو اس کے نتائج ایسے ہی ہوں گے جیسے آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اپنے گھر سے عدل شروع کریں آپ کو اس کے مثبت نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں عدل ہو کیا ہم خود ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے کاروبار میں معاشرے میں ہم سب اس وطن عزیز کی ایک اکائی ہیں اگر ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنا شروع کردیں تو ملک میں خود بخود عدل نافذ ہو جائے گا۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Allah aur Allah kay Rasool SAW kay hukum ke mutabiq zindagi guzaarna hi asal kamyabi hai - 1

اپنی غلطیوں پر قائم رہنا پھر اس کا جواز پیش کرنا درست نہ ہے


 ہر بندہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھے کہ وہ حق پر کھڑا ہے یا اس کے قدم نا حق کی طرف ہیں  اپنی غلطیوں پر قائم رہنا پھر اس کا جواز پیش کرنا درست نہ ہے۔کیونکہ ہمارے فیصلے یہ بتا رہے ہیں کہ ہم کس راہ کے مسافر ہیں۔اور پھر اکثریت کے فیصلے اور اعمال معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں۔اور یہ سب نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ان خیالات کا ا ظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ آج ہم جو چاہیں گے وہی ہمیں ملے گا جیسے کوئی زمین تیار کرکے جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔یہ قانون قدرت ہے کہ جو بندہ برائی کی راہ چنے تو پھر اسے ایسی ہی محافل اور لوگ میسر ہوتے ہیں جو اسی راہ کے مسافر ہوتے ہیں اور اگر راہ حق پر چلے گا تو اسے وہ لوگ اور وہ صحبت میسر ہوگی جو نیک اور صالح ہوں گی اور روز محشر بھی اسے انہی لوگوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ کریم ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھائے جن پر اللہ کریم انعام فرمائیں گے اور ہمہ وقت دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔
  آخر میں انہوں نے وبائی مرض (کورونا وائرس) سے نجات اور ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Apni ghaltion par qaim rehna phir is ka jawaz paish karna durust nah hai - 1