Featured Events


جمعہ بیان

Watch Jumma Beyan YouTube Video

بعثت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس

Watch  Baisat Rehmat e Alam SAW Confirence  YouTube Video

بندہ مومن کے پاس اس جہان فانی میں جو سب سے قیمتی شئے ہے وہ یہ زندگی اور اس کی ساعتیں ہیں


نور بصیرت اور راہ ہدایت کو پا لینے سے اس کی اہمیت کا اندازہ ممکن ہو تا ہے۔اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ میں نے مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ انہی میں سے رسول ﷺ مبعوث فرمایا۔اتنی تکلیفیں اور درد سہے پھر بھی انکار کرنے والوں تک حق پہنچایا اور اس کے بعد ایمان لانے والوں کا تزکیہ فرمایا کہ جو آپ ﷺ کی بات کا زبان سے اقرار کر رہا ہے اس کا نہاں خانہ دل بھی اس کو تسلیم کرے۔شعبہ تصوف میں اسی لیے قلب پر محنت کرائی جاتی ہے کیونکہ وہ برکات جو قلب اطہر ﷺ سے آ رہی ہیں وہ سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچتی ہیں ان برکات کا حاصل یہ ہے کہ ہر عبادت میں بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسو س کرے۔ 
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  بالٹی مور میری لینڈ مدینہ مسجد میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہر جگہ حق موجود ہے راہنمائی موجود ہے اگر طلب سچی ہوتو کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔یہ شان رسالت ﷺ ہے  یہاں کوئی جگہ کی،قوموں کی اور زمانوں کی قید نہیں ہے۔تعلیمات نبوت ہوں یا برکات نبوت قیام قیامت تک حق موجود رہے گا اور راہنمائی بھی میسر رہے گی۔انسانی معاشرے میں حقوق و فرائض اور حدودو قیود کی تقسیم،طاقتور کوضابطے میں رکھتی ہیں اور کمزور کی حفاظت کا سبب ہوتی ہیں۔انسان کے بنائے گئے قوانین ہر کچھ عرصہ کے بعد تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔کیونکہ انسان کی بنائی گئی ہر چیز میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔جو قوانین ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عطا فرمائے ہیں قیامت تک ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ہر جگہ پر قابل عمل ہیں۔بیت اللہ شریف تجلیات ذاتی کا مرکز ہے۔جتنا کوئی اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ سے باہر جائے گا اتنی گمراہی ہوگی۔اتنا ذاتی نقصان بھی ہوگا اور معاشرے کا بھی۔اللہ کریم نے ہر ایک کو زندہ رہنے کا اور مذہب اختیار کرنے کا حق دیا ہے۔
 حالانکہ ہر کوئی اس کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے اس کی زمین پر رہ رہا ہے لیکن یہ دائمی نہیں وقتی ہے ایک دن آئے گا جب سب کا اس کے حضور حساب دینا پڑے گا۔جب بھی اپنا جائزہ لیں قرآن و سنت کے مطابق جائزہ لیں قرآن و سنت ہمیں آپس میں محبت کرنا سیکھاتی ہے۔ایک دوسرے کا احترام بڑھے گا۔اختلافات تعمیری ہوں گے تخریبی نہیں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
 ٰٰٓیادرہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کینڈا اور امریکہ کے روحانی دورہ پر ہیں جہاں کینڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں میں لیکچر دے رہے ہیں اور ذکر قلبی سکھا رہے ہیں۔اس کے علاوہ بعثت رحمت عالم ﷺ کے عنوان پر منعقد کانفرنسز میں بھی ان کے لیکچر جاری ہیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحا دکے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Bandah momin ke paas is Jahan faani mein jo sab se qeemti shye hai woh yeh zindagi aur is ki saaetein hain - 1

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

ہماری عبادات یا نیک اعمال کی شرف قبولیت کی دلیل یہ ہے کہ زندگی قرآن وسنت میں ڈھلتی چلی جاتی ہے


انسانی جسم میں قلب وہ مقام ہے جہاں پر دوست بھی بستے ہیں اور دشمن بھی،محبت اور نفرت دونوں فعل دل کے ہیں۔ہمارے تمام اعمال کی بنیاد بھی قلب انسانی ہے کیونکہ نیت یاکسی کام کو کرنے کا ارادہ بھی دل کا فعل ہے کہ کون سا عمل کس نیت سے کر رہے ہیں پیچھے مقصد کیا ہے؟
 اگر ہم اس دل میں جہاں بہت سے لوگ آباد ہیں جن میں دوست بھی شامل ہیں اور دشمن بھی یہاں ایک مسجد بنا لی جائے جس سے اللہ کے نام کی صدائیں بلند ہوں اور ہمیں احساس ہو کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے میرے اللہ کریم مجھ سے ناراض ہوں اپنے ہر کام کو نبی کریم ﷺ کے اتباع میں کریں جب دل بدلتا ہے جب دل میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت آتی ہے تو بندہ مثبت فیصلے کر تا ہے پھر بندے کے اعمال و کردار نبی کریم ﷺ کی سنت میں ڈھل جاتا ہیں اسی لیے صوفیا ساری محنت قلب پر کراتے ہیں۔جب ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہوگا نا کہ اپنی ذاتی خواہش یا شہرت کے لیے پھر اس کی قبولت بھی ہوگی۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا سان فرانسسکو میں خواتین و حضرات سے خطاب۔
  انہوں نے مزید کہا کہ حق کو تلاش کرنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے نہاں خانہ دل میں دیکھو کیا واقعی حق کی تلاش چاہتے ہو؟ تمہیں بس خالص ہو کرنیت کرنی ہے وہ تمہارے لیے کئی راستے کھول دے گا۔انابت شرط ہے۔وہ کائنا ت کا رب ہے ہر ایک کی ہر ضرورت ہر وقت پوری فرماتا ہے یہ بھی وہی پوری فرمائے گا ہمیں بس ارادہ کرناہے۔جب احکامات کے مطابق بندہ عمل کرتا ہے پھر بندگی نصیب ہوتی ہے۔ہماری عبادات یا نیک اعمال کی شرف قبولیت کی دلیل یہ ہے کہ زندگی قرآن وسنت میں ڈھلتی چلی جاتی ہے اور خلوص میں ترقی نصیب ہوتی ہے۔لیکن اس سب کے لیے انابت شرط ہے۔ابھی موقع ہے جب بندہ برذخ میں اتر جاتا ہے پھر اعمال کی کتاب بند ہو جاتی ہے پھر دوبارہ موقع نہیں ملتا۔آج موقع ہے اس زندگی کو غنیمت جانیں اپنا تعلق اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ سے مضبوط کیجیے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحا د کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی
Hamari ebadaat ya naik aamaal ki Sharf qabuliat ki Daleel yeh hai ke zindagi quran o Sunnah mein dhalti chali jati hai - 1

نبی کریم ﷺ کی ذات ِ مبارکہ سے ہی تمام انسانیت کوبھلائی اور خیر نصیب ہوئی


دین اسلام کو جاننا،اس پر عمل کرنا اور مخلوق خد ا تک پہنچانا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرنے سے ہمارا ایمان متزلزل نہیں ہوگا بلکہ ہمارا ایمان مضبوط ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اعمال اختیار کریں۔جو اقدار جو روایات ہمیں ہمارے اجداد نے دی ہیں وہ ہم اپنے بچوں کو نہیں دے رہے اسی وجہ سے ہمارے خاندانی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔اگر ہم آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلیں گے تو ہمارے کردار سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔ بندہ مومن کسی بھی معاشرے میں ہو، اس کی زندگی سے انسانیت کو فائدہ ہوتا ہے۔کسی بھی معاشرے کی اچھی اقدا ر دیکھیں گے تو وہی ہوں گی جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمائیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا ہیوسٹن ٹیکساس میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس پر خواتین وحضرات سے خطاب
انہوں نے کہا کہ انسانی بنیادی ضروریات ہر دور میں وہی رہتی ہے۔جدت کے ساتھ ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات وہی رہتی ہیں۔حیات ِ انسانی کا بنیادی حصہ نظریہ ہوتا ہے جس نظریہ کے تحت اس نے زندگی گزارنی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ فیصلے کا اختیاربھی  دیا کہ کس نظریہ پر زندگی گزارنا چاہتے ہو؟  یہ فیصلہ بھی تمہارا ہے۔اللہ کریم نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا کہ راہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے اپنا ذاتی کلام عطا فرمایا اور انسان کے اندر وہ استعداد رکھ دی جس سے یہ حق پہچان سکے۔اللہ کریم کا احسان کہ اس نے ہمیں نور ایمان عطا فرمایا اور پیدائشی طور پر ہمیں وہ نظریہ عطا فرمایا جو دین اسلام ہے یہ بہت بڑا احسان ہے۔زندگی گزارنے کا سب سے بہترین نمونہ اسوہ حسنہ ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ والا پھر اس کے ساتھ والا یہ تین زمانے زمانوں میں سب سے افضل ترین زمانے ہیں۔ان تین زمانوں میں لوگوں کو کیا خاص مل رہا تھا؟ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کے شب و روز نصیب ہوئے۔آپ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں ہر پہلو ہر سفر اختیار فرمایا وہ ذاتی زندگی ہو یا خاندانی معاملات،معاشرتی زندگی ہو یا کاروباری حیات،دوستوں اوردشمنوں کے مابین تعلقات کیسے ہوں؟ آپ ﷺ نے ہر پہلو سے زندگی بسر فرمائی جس میں قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے۔
  انہوں نے کہا کہ جزا و سزا کا احساس بندے کو حدود و قیود میں رکھتا ہے۔اگر جزاو سزا کا احساس نہ ہو تو وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔جب ہر ایک کی استعداد الگ ہے، حیثیت الگ ہے پھر کیسے ممکن ہو کہ زندگی ایک اعتدال کے ساتھ بسر ہو اس کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے،اصول اور ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے جب کوئی اصول و ضوابط سے تجاوز کرے اسے کوئی پوچھنے والا ہو۔جو طاقتور کو اس کی حد میں رکھتا ہے اور مظلو م کی حفاظت کا سبب بنتا ہے۔اسی لیے جس ملک میں قوانین اور ان کا اطلاق ہوتا ہے وہاں معاشرے ترقی کرتے ہیں اور جن معاشروں میں قوانین کا اطلاق کمزور ہوتا ہے وہاں لوگ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ دین اسلام سے انسانی زندگی میں ٹھہراؤ آتا ہے اعتدال نصیب ہوتا ہے۔ہمارے اعمال خشکی اور تری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تصوف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کی یاد تم پر وہ حال آشکار کر دے گی کہ تم زندگی کی حقیقت کو جان پاؤگے۔تصوف بیماریوں کے علاج کے لیے نہیں یہ تصوف کا مقصد نہیں  مقصد اللہ کی رضا اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔اور ایک ہی جگہ ہے جہاں سے یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے اور وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔
آخر میں انہوں نے ذکر قلبی سکھایا اور امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
 
Nabi kareem SAW ki zaat  mubarikah se hi tamam insaaniyat bhalai aur kher naseeb hui - 1

ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے


قرآن مجید انسانی زندگی کے تمام سوالات جو ہیں اور جو آنے والے وقت میں پیش آئیں گے ان تمام کے جوابات عطا فرماتا ہے۔آپ ﷺ کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے۔قیامت تک جو حق کا متلاشی ہوگا اسے راہنمائی میسر آتی رہے گی۔عبادت محض رکوع و سجود کا نام نہیں ہے لیکن جب زندگی عبادت سے مزین ہو جائے پھر ساری زندگی رکوع و سجود میں شمار ہو جاتی ہے۔انسان اس کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔زندگی کوئی حادثہ نہیں بلکہ اس کا ایک خاص مقصد ہے اور جو اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ کریم کے بتائے ہوئے اصولوں کو اختیار کرے گا و ہ فلاح پائے گا۔ہر انسان کے اندر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ اپنے شعوری پہلو سے اپنی ضروریات کو محسوس بھی کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں بھی رہتا ہے۔اس فطرتی استعداد سے اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے کہ کوئی ایسا ہے جو اس نظام حیات کو چلا رہا ہے جس نے سب کو پیدا فرمایا ہے اور جسے کسی نے پیدا نہیں فرمایا۔کوئی ایک ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے۔اقوام سابقہ کے حالات پڑھ کر یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے اعمال کا نتیجہ کیا ہوا جس نے جیسے اعمال کیے ویسے نتائج پائے آج بھی جو جیسے اعمال اختیار کرے گا ویسے نتائج پائے گا۔اللہ کریم نے یہ استعداد ہر ایک کے اندر رکھ دی ہے اور فیصلے کا اختیار بھی دے دیا کہ چاہے تو شکر کا راستہ اختیار کرو چاہے تو نا شکری کرو۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  مسجد اے ایم ایل سان فرانسسکو میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے۔ہم عبادات کا بدلہ چاہتے ہیں کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں پھر بھی بیماری گھر سے نہیں جاتی،حالانکہ ہم پہلے سے مقروض ہیں۔جو کچھ ہم پہلے سے لے چکے ہیں ساری عمر بھی عبادات کرتے رہیں تو اس کا قرض نہیں اتار سکتے۔اللہ کریم نے ہمیں پیدا فرمایا ہم نہیں تھے اس نے ہمیں وجود بخشا اپنی ساری نعمتیں ہمارے لیے پیدا فرمائیں۔ عبادات اس لیے کریں کہ اللہ کریم عبادت کے لائق ہیں۔پھر جس نے دعوت حق قبول کی اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کا کردار اس کے اعمال ایسے ہوں کہ وہ لوگوں تک حق پہنچانے کا سبب بنے ۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Hamari ebadaat khalis nahi rahen isi liye nataij bhi haasil nahi ho rahay - 1

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے جس میں زندگی گزارنے کے اصول بیان فرمائے گئے ہیں


تصوف و سلوک بندہ مومن کو جہاں اعمال میں کھرا پن عطا کرتاہے وہاں حضور حق کی و ہ کیفیت بھی عطا کرتا ہے کہ بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے کہ میں جوعمل بھی کر رہا ہوں میرے اللہ کریم مجھے دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اپنے بچوں کو سکرین(سوشل میڈیا) کی نذر ہونے سے بچانا ہے اور ان کو اپنے ساتھ منسلک رکھیں اور دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  شکاگو میں صحبت شیخ کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے جس میں زندگی گزارنے کے اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔اس پر عمل کرنے والا سیدھے راستے پر ہوگا اس میں راہنمائی ہے۔بندہ انسان سے مومنین میں شمار ہوجاتا ہے۔بندہ صاحب ایمان ہی تب ہوتا ہے جب شرائط ایمان پوری کر رہا ہو۔جس طرح روزہ وجود کی ذکوۃ ہے اسی طرح مال کی بھی ذکوۃ ہے بندہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے دنیا کے نظام میں جب بندہ ٹیکس ادا کر لیتا ہے پھر بقایا پیسہ اس کا ہے وہ جیسے چاہے خرچ کرے لیکن اسلامی نظام معیشت میں کمانا بھی اللہ کے حکم کے مطابق ہے یعنی جائز وسائل اور خرچ بھی اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ہے۔اس طرح بندہ مومن کا کمانا اور خرچ کرنا بھی نیکی شمار ہوتا ہے۔بندہ جب زکوۃ ادا کرتا ہے تو ساتھ یہ بھی اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ مال اس کا ہے میں اس کے حکم کے مطابق اس میں سے زکوۃ بھی دے رہا ہوں اور اس کے حکم کے مطابق خرچ بھی کروں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلاح وہی پائے گا جسے ہدایت نصیب ہوگی۔بندہ مومن کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں تک حق پہنچائے۔اگر ہمارے انداز سخت ہوں گے ہمارے اندر تلخیاں ہوں گی اسے دیکھ کر کون ہے جو ہم سے دین سیکھے گا۔ذاتی ذمہ داری کے ساتھ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہوتی ہے جسے معاشرے کے لیے ادا کرنا ہوتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے خاندان کو اپنی فیملی اور بچوں کو وہ اقدار بتائیں جو ہمیں اپنے اجداد سے ملی ہیں خاندان کا مل جل کر رہنا،خاندان کی اہمیت،رشتوں کا لحاظ اور بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہمارے انداز ایسے ہوں جن کی تربیت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے تو ہمارے حالات بہت بہتر ہوں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Quran kareem Allah kareem ka zaati kalaam hai jis mein zindagi guzaarne ke usool bayan farmaiye gaye hain - 1