Featured Events


دنیا کے کسی حصے میں بھی جب دین اسلام کے بتائے گئے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے تو وہاں زندگی آسان اور سہل ہوتی ہے


دین اسلام کے اصول دنیا کے کسی حصے میں بھی جب دین اسلام کے بتائے گئے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے تو وہاں زندگی آسان اور سہل ہوتی ہے۔دین اسلام کے اصول اپنانے سے جہاں آخرت سنورتی ہے وہاں دنیاوی طور پر بھی فائدہ ہوتا ہے۔آج بھی غیر مسلم ممالک میں جہاں دین اسلام کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے وہاں وہ ترقی کر رہے ہیں اور جہاں جہاں انہوں نے بھی اسلامی اصول چھوڑے ہیں وہاں وہ نقصان اُٹھا رہے ہیں چاہے وہ سود ی نظام کی شکل میں ہو یا معاشرتی زندگی کے اصول ہوں وہاں وہ اب بھی پریشان ہیں۔ہر پیدا ہونے والے کے دل میں اللہ کریم نے فطرت رکھ دی ہے۔اسے ہر فطرتی چیز کی ضرورت ہے اور دین اسلام نظام فطرت ہے جو ہر کسی کی ہر ضرورت اور ہر مسئلے کا حل عطا فرماتا ہے۔عقائد سے لے کر معاملات تک کی راہنمائی دین اسلام سے ملتی ہے۔جو تمام فطرتی تقاضے پورے کرتا ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  connecticut  یو ایس اے  میں کانفرنس سے خطاب
  انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تباہ ہوئے۔یہ زندگی محض گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ جس نے پیدا کیا ہے اس کے بتائے گئے اصولوں کی مطابق گزارنا ہماری ضرورت ہے اور اسی میں ہماری بھلائی اور خیر ہے دین اسلام دنیاوی تعلیم سے منع نہیں فرماتا بلکہ ترغیب دیتا ہے اوردنیاوی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ مخلو ق خدا کی خدمت کا بھی درس دیتا ہے۔اسلام ہمیں معاشرتی زندگی سکھاتا ہے بڑے کا ادب،چھوٹوں سے شفقت فیملی کا لحاظ جبکہ جدید تعلیم ہمیں سکھا رہی ہے کہ یہ زندگی تمہاری جیسے مرضی جیو جس کے نتائج میں پھر فساد ہوتا ہے۔انسانی مزاج ایسا ہے اسے ایک تربیت کا ماحول چاہیے ہوتا ہے اگر معاشرے میں اچھائی کا ماحول ہوگا توہماری تربیت بھی اچھائی کی ہوگی اگر معاشرے میں خرابی ہو رہی ہے تو ہماری تربیت بھی ایسے ہی ہوگی۔اسی لیے دین اسلام جب بات کرتا ہے جو اصول بتاتا ہے اس سے کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہر کام کرتے وقت اپنے دلوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اس میں کوئی ذاتی غرض ہے یا اللہ کی رضا ہے۔جب بندہ اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے تو اللہ کریم بھی حفاظت فرماتے ہیں۔آج اگر ہمیں اپنی زندگی کا حساب دینا پڑے تو سوچیں کہ ہم کیا حصاب دے پائیں گے؟اللہ کی یاد ایک ایسا نسخہ ہے جو حضور حق کی ایک کیفیت دیتی ہے بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے۔ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ کہیں اس کام سے میرے اللہ کریم ناراض تو نہیں ہوں گے اور یاد الٰہی غفلت سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔اور ہمیں سوچ سے لے کر اپنے اعمال تک کا جائزہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں انہوں نے مسلمہ امہ کے اتحاد اور اتفاق کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Duniya ke kisi hissay mein bhi jab deen islam ke betaye gaye usoolon ko apnaya jata hai to wahan zindagi aasaan aur sahal hoti hai - 1

نورایمان قیامت تک ہر طالب کی طلب پوری فرماتا ہے


بندہ مومن کو قرآن مجیدجو لب ہائے مبارک محمد الرسول اللہ ﷺ سے ہمیں نصیب ہوا اس میں وہ دستور اور آئین ہے جوہمیں صراط مستقیم پر چلاتا ہے اور منزل مقصود تک رسارئی بھی عطا فرماتا ہے۔انسانی حیات اور یہ خلق اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔مسافر اپنی منزل کی طرف تب ہی پہنچ سکتا ہے جب اسے منزل کی راہنمائی بھی نصیب ہو۔زندگی کو محض گزارنا نہیں بلکہ اس کاجائز ہ بھی لینا ہے کہ ہم جو دیکھتے ہیں،سنتے ہیں جو بول رہے ہیں، یعنی اپنے ہر قدم کو اُٹھاتے وقت اپنا ہر فیصلہ لیتے وقت نبی رحمت ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا مکی مسجد مسلم کمیونٹی سینٹر نیو یارک (امریکہ) میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ نورایمان قیامت تک ہر طالب کی طلب پوری فرماتا ہے بات ہماری طرف ہے کہ ہماری چاہت کیا ہے۔بندہ امتحان میں ہے اور امتحان تب ہی ہو گا جب حق بھی اس دنیا میں موجود ہو گا۔آپ ﷺ کی تعلیمات کی بات آئے یا کیفیات کی قیامت تک کے لیے ان کا اہتمام فرما دیا گیا ہے ان کی حفاظت فرما دی گئی ہے۔تیرے سامنے راہ ہدایت ہے تو کس راہ کا انتخاب کرتا ہے یہ فیصلہ اے بندہ تجھ پر ہے۔شکرگزار ہوتا ہے یا انکار کرتا ہے۔جہاں جہاں ہم دین اسلام پر عمل کرنا چھوڑ یں گے وہاں وہاں ہم مشکلات اور تکالیف کا شکار ہوں گے۔بندگی غیر مشروط اطاعت کا نام ہے اگر ہم دین میں بھی رواجات کو لے آئیں گے یا اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق دین پر عمل کریں گے یعنی کہیں عمل کر لیا کہیں چھوڑ دیا تو ایسے ہم نقصان اُٹھائیں گے۔بندہ مومن شرائط کے ساتھ دین پر عمل نہیں کرتا بلکہ جو حکم ملتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے۔دین اسلام کو اختیار کرنا ہماری ضرورت ہے اس سے ہماری زندگی میں آسانیاں اور ٹھراؤ آئے گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ یہ دنیا جسے ہم اپنا گھر سمجھے بیٹھے ہیں یہ ایک مسافر خانہ ہے۔ہم نے جو اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا جوہمارے معاشرے کی روایات تھیں اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو کیا وہ ہم میں موجود ہیں ہم اپنی اگلی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں؟ہماری اقدار جو ہم نے چھوڑ دیں آج دنیا ان کو اپنا کر ترقی کر رہی ہے۔ہم اپنی اولاد کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں دن رات محنت کرتے ہیں کہ ان کی زندگی بہتر بنا سکیں۔جو ہم اپنے بچوں کو دے کر جا رہے ہیں کیا اس پر ہم مطمئن ہیں؟ہم ان کی کیا تربیت کر رہے ہیں؟آج بھی جہاں خاندان قائم ہیں وہاں اصول اور ضابطے بھی قائم ہیں جہاں خاندان بکھر گئے ہیں وہاں اقدار بھی بکھر گئی ہیں۔
اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Noor e Eman qayamat tak har taalib ki talabb poori farmata hai - 1

نماز صرف اجرو ثواب کے لیے نہیں ہے بلکہ معاشرے کی بھی ضرورت ہے


 قرآن کریم کی عملی صورت نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔حالات جیسے بھی ہوں حدودو قیود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔اسلام پوری انسانیت کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ ہر کوئی اپنی حد میں رہے حد سے تجاوز نہ کرے یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی اسلام نے حدود وقیود مقرر فرمائی ہیں جیسے خواتین اور بچوں پرظلم نہ کیا جائے گا، فصل کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا،درخت نہیں کاٹے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔تو دین اسلام ہر حال میں قانون کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔ 
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا جامع اسلامیہ کینڈا میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب۔
انہوں نے کہا کہ بندگی کے رشتے سے بڑھ کر دنیا کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔اسی لیے 7 سال کے بچے کو نماز کی ترغیب دینے کا حکم ہے کہ جہاں وہ باقی رشتوں کی پہچان کر رہا ہوتا ہے وہاں اپنے خالق اور مالک سے جو اس کا بندگی کا رشتہ ہے وہ بھی ساتھ ساتھ پروان چڑھتا جائے۔نماز فرائض میں سب سے بڑا فرض ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔اگر نماز کی تفصیل میں جائیں تو جہاں اس کا اجرو ثواب ہے وہاں یہ معاشرے کی بھی ضرورت ہے۔اس کا ایک ایک رکن وجود انسانی کے لیے کتنا ضروری ہے اس کے علاوہ اس کے نتائج حاصل کرنے کے لیے نیت سے لے کر اس کی ادائیگی تک پھر ہمارے اُس بندگی کے رشتے میں کتنا درد ہے یہ ساری باتیں نماز کے تنائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اگر ہمیں وہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے جو مقصود ہیں پھر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی کمی ہے۔ہر نماز کی ادائیگی ایسی ہونی چاہیے جیسے یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے۔
 اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کینڈا اور امریکہ کے دورہ پر ہیں جہاں وہ کینڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں میں پروگرامز کریں گے اور لیکچر دیں گے اس کے علاوہ پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملاقاتیں ہوں گی
Namaz sirf Ajr o sawab ke liye nahi hai balkay muashray ki bhi zaroorat hai - 1

غزوہ بدر میں ہمارے لیے کیا سبق ہے ( ماہانہ اجتماع)


وطن عزیز میں تعمیر کے نام پر تخریب ہو وہی ہے


آگ ہی لائی گئی آگ بجھانے کے لیے۔اس وقت وطن عزیز میں تعمیر کے نام پر تخریب ہو وہی ہے۔  وہ ملک جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہمارے اجداد نے یہ قربانیاں دیں اپنی عزتیں قربان کیں آج ہم اس ملک کو اُدھیڑنے میں کیوں لگے ہیں۔اس کا نظام اُکھیڑنے میں کیوں لگے ہوئے ہیں۔وہ وقت اپنے سامنے لائیں جب اس خطہ پر انگریز مسلط تھ اور مسلمان ان کے زیر تسلط تھے اس وقت کے مظالم اور ان کے عدالتی فیصلوں کو دیکھیں تو پھر اس آزاد وطن کی قدر ہو گی۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر خطاب۔۔
  انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا ملک ترقی نہیں کرے گا تو ہمیں وہ قوت بھی نصیب نہیں ہوگی جس سے ہم اپنا دفاع کر سکیں بجائے اس کے کہ ہم کہیں ظلم ہوتا ہوا دیکھیں اور اسے روکیں۔یہ سب کہتے ہیں کہ یہ خرابی ہے اور اس کا حل کیا ہے؟لیکن سوال کرنے کے باوجود ہم عملی طور پر کچھ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ہمارے بیانات،تحاریر میں تو یہ بات ملتی ہے لیکن ہمارے کردار میں ہمارے عمل میں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم اس خرابی کو دور کرنے کے لیے واقع مخلص بھی ہیں۔ہمارے کلام اور عمل میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔جب معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمارے حالات بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر انصاف نہیں ہے۔ہمارے اندر کمزوری ہے ہمارے اندر دین پر عمل پیرا ہونے میں فقدان ہے۔اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا تو اس معاشرے میں روشنی ہوتی یہ جو مخلوق جگہ جگہ ٹھوکریں کھا رہی ہے ایسا نہ ہوتا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن کامل ایمان کے ساتھ اللہ کے حکم پر نبی کریم ﷺ کی معیت میں میدان میں اتر گئے۔اللہ کریم نے ان کی غائبی مدد فرمائی اور فتح نصیب ہوئی۔آج بھی اگر مسلمان کا ایمان مضبوط ہوگا نبی کریم ﷺ کے اتباع میں زندگی بسر کرتا ہوگا آج بھی اگر وسائل نہ بھی ہوں گے پھربھی اللہ کریم ایمان والوں کی مدد فرمائیں گے اور انہیں غالب فرمائیں گے اور فتح عطا فرمائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو ایمان والے ثابت تو کریں۔ہمارے کردار،ہمارے اعمال سے پتہ چلے کہ ہم محمد الرسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں۔ 
یاد رہے کہ آج دارالعرفا ن منارہ میں دوروزہ ماہانہ اجتماع کے موقع پر ملک بھر سے سالکین سلسلہ عالیہ اپنی روحانی تربیت کے لیے  تشریف لائے۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے بیان کے بعد ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Watan Aziz mein taamer ke naam par takhreeb ho wohi hai - 1

کفر کا انجام


قانون اگر آفاقی قوانین کے مطابق نہیں ہے تو وہ قانو ن نہیں ہو سکتا


 قیام قیامت تک جب بھی کسی کو حق سے راہنمائی درکار ہو گی صراط مستقیم کی تلاش ہو گی وہ آپ ﷺ کی واحد ذات مبارکہ سے ہی ملے گی .آپﷺ کا فرمان دوامی ہے اس کو جب بھی کوئی اختیار کرے گا سیدھی راہ پائے گا۔ہم آپ ﷺ کے فرمان کا انکار اور عمل نہ کر کے اقوام عالم میں ذلت اور پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ہمارے نہاں خانہ دل پر جو کچھ بھی وارد ہو رہا ہے وہ ظاہر پربھی ضرور اثر کرتا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے روز خطاب
  انہوں نے کہا کہ آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس میں ہر وہ برائی موجود ہے جو سابقہ اقوام میں تھی اور ان برائیوں کی وجہ سے وہ قومیں تباہ ہوئیں ان پر عذاب آئے۔یہ تو اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ بعثت عالی ﷺ کی وجہ سے ہمارے اوپر سے اجتماعی عذابات اٹھا لیے گئے۔اس وقت معاشرے میں بڑے چھوٹے کا کوئی لحاظ نہیں رہا۔کوئی اپنے پرائے کی تمیز نہیں رہی تو زندگیوں میں سکھ اور سکون کیسے آئے گا۔اللہ کریم نے جو اصول اور ضابطے دئیے ہیں انہیں اختیار کرنے سے ہی ہماری زندگیوں میں سکون آ سکتا ہے 
 بصورت دیگر عمل نہ کر کے اللہ کریم کے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ قانون اگر آفاقی قوانین کے مطابق نہیں ہے تو وہ قانو ن نہیں ہو سکتا۔اسی طرح معاملات،مزاج،اخلاقیات اگر قرآن و سنت کے تحت نہیں ہیں تو وہ احسن نہیں ہو سکتے۔ہاں اسے رواجات کہا جا سکتا ہے۔قرآن مجید کو پڑھیں،ترجمہ اور تفسیر پڑھیں اجماع کو دیکھیں کہ آپ ﷺ نے صحابہ کو کیا سمجھایا۔ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر خود سے فیصلہ کر لینا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا یہ درست نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں کی ضرورت ہے جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں۔
  یاد رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 5،6 اکتوبر بروز ہفتہ اتوار کو دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ملک بھر سے سالکین سلسلہ عالیہ اپنی روحانی تربیت کے تشریف لائیں گے اور حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی اتوار دن 11 بجے خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔ہر خاص و عام کا اس بابرکت پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے
Qanoon agar aafaqi qawaneen ke mutabiq nahi hai to woh qanoon nahi ho sakta - 1

ضروریات دین کا جاننا ضروری ہے اسے مولانا کے سپرد کر دینا درست نہیں


 حصول علم تب ہی کامل و اکمل ہوگا جب اس کے کلی پہلوؤں تک رسائی حاصل ہو گی اور طالب علم کی اصل اصلاح اور تربیت تب ہی ممکن ہے جب اس کا علم حق الیقین تک پہنچے۔علم وہ ہے جو بندے کا حال بن جائے۔وہ علم جو محض دنیاوی فائدوں کے حصول کے لیے ہوگا وہ ادب اور شفقت سے عاری ہوگا۔قلوب کا ٹیڑھا پن ایسی بیماری ہے جو بندہ کو رحمت ِ الٰہی سے دور کر دیتی ہے۔ایسے قلوب کی اصلاح کے لیے ان صدری علوم کا حصول ضروری ہے جو سینہ بہ سینہ قلب اطہر محمد الرسول اللہ ﷺ سے آرہے ہیں۔ فرائض کی تکمل کے بعد قرب الٰہی کے حصول کے لیے محنت و مجاہد ہ کرنا ہوگا۔وجود انسانی کا بادشاہ قلب ہے اگر قلب درست کر لیا جائے تو سارا وجود درست ہو جائے گا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے روز خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ضروریات دین کا جاننا ضروری ہے اسے مولانا کے سپرد کر دینا درست نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔روز قیامت اللہ کریم بندوں کو اکٹھا فرمائیں گے اور اس میں کچھ شک وشبہ نہیں ہے کہ ہرکوئی اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہو گا اور حساب دے گا۔دنیاوی عدالت کا ہمیں ڈر اور خوف ہوتا ہے حالانکہ یہاں دونوں طرف مخلوق ہے تو جب خالق کے ہاں پیش ہونا ہے ہر کوئی اپنے اعمال کی روح تک سے واقف ہے۔ابھی موقع ہے ہمیں اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہونا چاہیے اور اپنا محاسبہ اور جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اللہ نے اگر ہم پر رحمت فرمائی ہے تو کیا ہمارے اعمال اور سوچ ویسی ہے جو تعلیمات آپ ﷺ نے فرمائی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ زندگی کے شب و روز میں سے اپنی "میں " کو نکال باہر کریں۔اگر ہمارے اعمال درست ہیں سوچ مثبت ہے تو رحمت الٰہی کے سائے میں ہیں اور اگر اس کے اُلٹ ہے تو معافی مانگیں توبہ کریں تا کہ واپس پلٹ سکیں۔
  اللہ کریم ہماری حفاظت فرمائیں اور ہمیں صالح اعمال کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ اور نیت کو درست رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں اپنی جانچ نصیب ہو یہ دنیا دارالعمل ہے اللہ کریم آسانی عطا فرمائیں اور خاتمہ ایمان پر ہو۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Zaroriyat deen ka janna zaroori hai usay molana ke supurd kar dena durust nahi - 1

قلوب کا ٹیڑھا پن

Watch Qaloob ka Terrah Pan YouTube Video

متشابہات

Watch Mutshabihaat YouTube Video