Featured Events


نبی کریم ﷺ کی ذات ِ مبارکہ سے ہی تمام انسانیت کوبھلائی اور خیر نصیب ہوئی


دین اسلام کو جاننا،اس پر عمل کرنا اور مخلوق خد ا تک پہنچانا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرنے سے ہمارا ایمان متزلزل نہیں ہوگا بلکہ ہمارا ایمان مضبوط ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اعمال اختیار کریں۔جو اقدار جو روایات ہمیں ہمارے اجداد نے دی ہیں وہ ہم اپنے بچوں کو نہیں دے رہے اسی وجہ سے ہمارے خاندانی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔اگر ہم آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلیں گے تو ہمارے کردار سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔ بندہ مومن کسی بھی معاشرے میں ہو، اس کی زندگی سے انسانیت کو فائدہ ہوتا ہے۔کسی بھی معاشرے کی اچھی اقدا ر دیکھیں گے تو وہی ہوں گی جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمائیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا ہیوسٹن ٹیکساس میں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس پر خواتین وحضرات سے خطاب
انہوں نے کہا کہ انسانی بنیادی ضروریات ہر دور میں وہی رہتی ہے۔جدت کے ساتھ ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات وہی رہتی ہیں۔حیات ِ انسانی کا بنیادی حصہ نظریہ ہوتا ہے جس نظریہ کے تحت اس نے زندگی گزارنی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ فیصلے کا اختیاربھی  دیا کہ کس نظریہ پر زندگی گزارنا چاہتے ہو؟  یہ فیصلہ بھی تمہارا ہے۔اللہ کریم نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا کہ راہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے اپنا ذاتی کلام عطا فرمایا اور انسان کے اندر وہ استعداد رکھ دی جس سے یہ حق پہچان سکے۔اللہ کریم کا احسان کہ اس نے ہمیں نور ایمان عطا فرمایا اور پیدائشی طور پر ہمیں وہ نظریہ عطا فرمایا جو دین اسلام ہے یہ بہت بڑا احسان ہے۔زندگی گزارنے کا سب سے بہترین نمونہ اسوہ حسنہ ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ والا پھر اس کے ساتھ والا یہ تین زمانے زمانوں میں سب سے افضل ترین زمانے ہیں۔ان تین زمانوں میں لوگوں کو کیا خاص مل رہا تھا؟ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کے شب و روز نصیب ہوئے۔آپ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں ہر پہلو ہر سفر اختیار فرمایا وہ ذاتی زندگی ہو یا خاندانی معاملات،معاشرتی زندگی ہو یا کاروباری حیات،دوستوں اوردشمنوں کے مابین تعلقات کیسے ہوں؟ آپ ﷺ نے ہر پہلو سے زندگی بسر فرمائی جس میں قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے۔
  انہوں نے کہا کہ جزا و سزا کا احساس بندے کو حدود و قیود میں رکھتا ہے۔اگر جزاو سزا کا احساس نہ ہو تو وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔جب ہر ایک کی استعداد الگ ہے، حیثیت الگ ہے پھر کیسے ممکن ہو کہ زندگی ایک اعتدال کے ساتھ بسر ہو اس کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے،اصول اور ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے جب کوئی اصول و ضوابط سے تجاوز کرے اسے کوئی پوچھنے والا ہو۔جو طاقتور کو اس کی حد میں رکھتا ہے اور مظلو م کی حفاظت کا سبب بنتا ہے۔اسی لیے جس ملک میں قوانین اور ان کا اطلاق ہوتا ہے وہاں معاشرے ترقی کرتے ہیں اور جن معاشروں میں قوانین کا اطلاق کمزور ہوتا ہے وہاں لوگ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ دین اسلام سے انسانی زندگی میں ٹھہراؤ آتا ہے اعتدال نصیب ہوتا ہے۔ہمارے اعمال خشکی اور تری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تصوف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کی یاد تم پر وہ حال آشکار کر دے گی کہ تم زندگی کی حقیقت کو جان پاؤگے۔تصوف بیماریوں کے علاج کے لیے نہیں یہ تصوف کا مقصد نہیں  مقصد اللہ کی رضا اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔اور ایک ہی جگہ ہے جہاں سے یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے اور وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔
آخر میں انہوں نے ذکر قلبی سکھایا اور امت مسلمہ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
 
Nabi kareem SAW ki zaat  mubarikah se hi tamam insaaniyat bhalai aur kher naseeb hui - 1

ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے


قرآن مجید انسانی زندگی کے تمام سوالات جو ہیں اور جو آنے والے وقت میں پیش آئیں گے ان تمام کے جوابات عطا فرماتا ہے۔آپ ﷺ کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے۔قیامت تک جو حق کا متلاشی ہوگا اسے راہنمائی میسر آتی رہے گی۔عبادت محض رکوع و سجود کا نام نہیں ہے لیکن جب زندگی عبادت سے مزین ہو جائے پھر ساری زندگی رکوع و سجود میں شمار ہو جاتی ہے۔انسان اس کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔زندگی کوئی حادثہ نہیں بلکہ اس کا ایک خاص مقصد ہے اور جو اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ کریم کے بتائے ہوئے اصولوں کو اختیار کرے گا و ہ فلاح پائے گا۔ہر انسان کے اندر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ اپنے شعوری پہلو سے اپنی ضروریات کو محسوس بھی کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں بھی رہتا ہے۔اس فطرتی استعداد سے اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے کہ کوئی ایسا ہے جو اس نظام حیات کو چلا رہا ہے جس نے سب کو پیدا فرمایا ہے اور جسے کسی نے پیدا نہیں فرمایا۔کوئی ایک ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے۔اقوام سابقہ کے حالات پڑھ کر یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے اعمال کا نتیجہ کیا ہوا جس نے جیسے اعمال کیے ویسے نتائج پائے آج بھی جو جیسے اعمال اختیار کرے گا ویسے نتائج پائے گا۔اللہ کریم نے یہ استعداد ہر ایک کے اندر رکھ دی ہے اور فیصلے کا اختیار بھی دے دیا کہ چاہے تو شکر کا راستہ اختیار کرو چاہے تو نا شکری کرو۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  مسجد اے ایم ایل سان فرانسسکو میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہماری عبادات خالص نہیں رہیں اسی لیے نتائج بھی حاصل نہیں ہو رہے۔ہم عبادات کا بدلہ چاہتے ہیں کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں پھر بھی بیماری گھر سے نہیں جاتی،حالانکہ ہم پہلے سے مقروض ہیں۔جو کچھ ہم پہلے سے لے چکے ہیں ساری عمر بھی عبادات کرتے رہیں تو اس کا قرض نہیں اتار سکتے۔اللہ کریم نے ہمیں پیدا فرمایا ہم نہیں تھے اس نے ہمیں وجود بخشا اپنی ساری نعمتیں ہمارے لیے پیدا فرمائیں۔ عبادات اس لیے کریں کہ اللہ کریم عبادت کے لائق ہیں۔پھر جس نے دعوت حق قبول کی اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کا کردار اس کے اعمال ایسے ہوں کہ وہ لوگوں تک حق پہنچانے کا سبب بنے ۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Hamari ebadaat khalis nahi rahen isi liye nataij bhi haasil nahi ho rahay - 1

دل کا خلوص

Watch Dil ka Khuloos YouTube Video

قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے جس میں زندگی گزارنے کے اصول بیان فرمائے گئے ہیں


تصوف و سلوک بندہ مومن کو جہاں اعمال میں کھرا پن عطا کرتاہے وہاں حضور حق کی و ہ کیفیت بھی عطا کرتا ہے کہ بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے کہ میں جوعمل بھی کر رہا ہوں میرے اللہ کریم مجھے دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اپنے بچوں کو سکرین(سوشل میڈیا) کی نذر ہونے سے بچانا ہے اور ان کو اپنے ساتھ منسلک رکھیں اور دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  شکاگو میں صحبت شیخ کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ قرآن کریم اللہ کریم کا ذاتی کلام ہے جس میں زندگی گزارنے کے اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔اس پر عمل کرنے والا سیدھے راستے پر ہوگا اس میں راہنمائی ہے۔بندہ انسان سے مومنین میں شمار ہوجاتا ہے۔بندہ صاحب ایمان ہی تب ہوتا ہے جب شرائط ایمان پوری کر رہا ہو۔جس طرح روزہ وجود کی ذکوۃ ہے اسی طرح مال کی بھی ذکوۃ ہے بندہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے دنیا کے نظام میں جب بندہ ٹیکس ادا کر لیتا ہے پھر بقایا پیسہ اس کا ہے وہ جیسے چاہے خرچ کرے لیکن اسلامی نظام معیشت میں کمانا بھی اللہ کے حکم کے مطابق ہے یعنی جائز وسائل اور خرچ بھی اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ہے۔اس طرح بندہ مومن کا کمانا اور خرچ کرنا بھی نیکی شمار ہوتا ہے۔بندہ جب زکوۃ ادا کرتا ہے تو ساتھ یہ بھی اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ مال اس کا ہے میں اس کے حکم کے مطابق اس میں سے زکوۃ بھی دے رہا ہوں اور اس کے حکم کے مطابق خرچ بھی کروں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلاح وہی پائے گا جسے ہدایت نصیب ہوگی۔بندہ مومن کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں تک حق پہنچائے۔اگر ہمارے انداز سخت ہوں گے ہمارے اندر تلخیاں ہوں گی اسے دیکھ کر کون ہے جو ہم سے دین سیکھے گا۔ذاتی ذمہ داری کے ساتھ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہوتی ہے جسے معاشرے کے لیے ادا کرنا ہوتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے خاندان کو اپنی فیملی اور بچوں کو وہ اقدار بتائیں جو ہمیں اپنے اجداد سے ملی ہیں خاندان کا مل جل کر رہنا،خاندان کی اہمیت،رشتوں کا لحاظ اور بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہمارے انداز ایسے ہوں جن کی تربیت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے تو ہمارے حالات بہت بہتر ہوں۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی
Quran kareem Allah kareem ka zaati kalaam hai jis mein zindagi guzaarne ke usool bayan farmaiye gaye hain - 1

دنیا کے کسی حصے میں بھی جب دین اسلام کے بتائے گئے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے تو وہاں زندگی آسان اور سہل ہوتی ہے


دین اسلام کے اصول دنیا کے کسی حصے میں بھی جب دین اسلام کے بتائے گئے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے تو وہاں زندگی آسان اور سہل ہوتی ہے۔دین اسلام کے اصول اپنانے سے جہاں آخرت سنورتی ہے وہاں دنیاوی طور پر بھی فائدہ ہوتا ہے۔آج بھی غیر مسلم ممالک میں جہاں دین اسلام کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے وہاں وہ ترقی کر رہے ہیں اور جہاں جہاں انہوں نے بھی اسلامی اصول چھوڑے ہیں وہاں وہ نقصان اُٹھا رہے ہیں چاہے وہ سود ی نظام کی شکل میں ہو یا معاشرتی زندگی کے اصول ہوں وہاں وہ اب بھی پریشان ہیں۔ہر پیدا ہونے والے کے دل میں اللہ کریم نے فطرت رکھ دی ہے۔اسے ہر فطرتی چیز کی ضرورت ہے اور دین اسلام نظام فطرت ہے جو ہر کسی کی ہر ضرورت اور ہر مسئلے کا حل عطا فرماتا ہے۔عقائد سے لے کر معاملات تک کی راہنمائی دین اسلام سے ملتی ہے۔جو تمام فطرتی تقاضے پورے کرتا ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  connecticut  یو ایس اے  میں کانفرنس سے خطاب
  انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تباہ ہوئے۔یہ زندگی محض گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ جس نے پیدا کیا ہے اس کے بتائے گئے اصولوں کی مطابق گزارنا ہماری ضرورت ہے اور اسی میں ہماری بھلائی اور خیر ہے دین اسلام دنیاوی تعلیم سے منع نہیں فرماتا بلکہ ترغیب دیتا ہے اوردنیاوی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ مخلو ق خدا کی خدمت کا بھی درس دیتا ہے۔اسلام ہمیں معاشرتی زندگی سکھاتا ہے بڑے کا ادب،چھوٹوں سے شفقت فیملی کا لحاظ جبکہ جدید تعلیم ہمیں سکھا رہی ہے کہ یہ زندگی تمہاری جیسے مرضی جیو جس کے نتائج میں پھر فساد ہوتا ہے۔انسانی مزاج ایسا ہے اسے ایک تربیت کا ماحول چاہیے ہوتا ہے اگر معاشرے میں اچھائی کا ماحول ہوگا توہماری تربیت بھی اچھائی کی ہوگی اگر معاشرے میں خرابی ہو رہی ہے تو ہماری تربیت بھی ایسے ہی ہوگی۔اسی لیے دین اسلام جب بات کرتا ہے جو اصول بتاتا ہے اس سے کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہر کام کرتے وقت اپنے دلوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اس میں کوئی ذاتی غرض ہے یا اللہ کی رضا ہے۔جب بندہ اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے تو اللہ کریم بھی حفاظت فرماتے ہیں۔آج اگر ہمیں اپنی زندگی کا حساب دینا پڑے تو سوچیں کہ ہم کیا حصاب دے پائیں گے؟اللہ کی یاد ایک ایسا نسخہ ہے جو حضور حق کی ایک کیفیت دیتی ہے بندہ خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے۔ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ کہیں اس کام سے میرے اللہ کریم ناراض تو نہیں ہوں گے اور یاد الٰہی غفلت سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔اور ہمیں سوچ سے لے کر اپنے اعمال تک کا جائزہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں انہوں نے مسلمہ امہ کے اتحاد اور اتفاق کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Duniya ke kisi hissay mein bhi jab deen islam ke betaye gaye usoolon ko apnaya jata hai to wahan zindagi aasaan aur sahal hoti hai - 1

نورایمان قیامت تک ہر طالب کی طلب پوری فرماتا ہے


بندہ مومن کو قرآن مجیدجو لب ہائے مبارک محمد الرسول اللہ ﷺ سے ہمیں نصیب ہوا اس میں وہ دستور اور آئین ہے جوہمیں صراط مستقیم پر چلاتا ہے اور منزل مقصود تک رسارئی بھی عطا فرماتا ہے۔انسانی حیات اور یہ خلق اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔مسافر اپنی منزل کی طرف تب ہی پہنچ سکتا ہے جب اسے منزل کی راہنمائی بھی نصیب ہو۔زندگی کو محض گزارنا نہیں بلکہ اس کاجائز ہ بھی لینا ہے کہ ہم جو دیکھتے ہیں،سنتے ہیں جو بول رہے ہیں، یعنی اپنے ہر قدم کو اُٹھاتے وقت اپنا ہر فیصلہ لیتے وقت نبی رحمت ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا مکی مسجد مسلم کمیونٹی سینٹر نیو یارک (امریکہ) میں جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ نورایمان قیامت تک ہر طالب کی طلب پوری فرماتا ہے بات ہماری طرف ہے کہ ہماری چاہت کیا ہے۔بندہ امتحان میں ہے اور امتحان تب ہی ہو گا جب حق بھی اس دنیا میں موجود ہو گا۔آپ ﷺ کی تعلیمات کی بات آئے یا کیفیات کی قیامت تک کے لیے ان کا اہتمام فرما دیا گیا ہے ان کی حفاظت فرما دی گئی ہے۔تیرے سامنے راہ ہدایت ہے تو کس راہ کا انتخاب کرتا ہے یہ فیصلہ اے بندہ تجھ پر ہے۔شکرگزار ہوتا ہے یا انکار کرتا ہے۔جہاں جہاں ہم دین اسلام پر عمل کرنا چھوڑ یں گے وہاں وہاں ہم مشکلات اور تکالیف کا شکار ہوں گے۔بندگی غیر مشروط اطاعت کا نام ہے اگر ہم دین میں بھی رواجات کو لے آئیں گے یا اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق دین پر عمل کریں گے یعنی کہیں عمل کر لیا کہیں چھوڑ دیا تو ایسے ہم نقصان اُٹھائیں گے۔بندہ مومن شرائط کے ساتھ دین پر عمل نہیں کرتا بلکہ جو حکم ملتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے۔دین اسلام کو اختیار کرنا ہماری ضرورت ہے اس سے ہماری زندگی میں آسانیاں اور ٹھراؤ آئے گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ یہ دنیا جسے ہم اپنا گھر سمجھے بیٹھے ہیں یہ ایک مسافر خانہ ہے۔ہم نے جو اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا جوہمارے معاشرے کی روایات تھیں اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو کیا وہ ہم میں موجود ہیں ہم اپنی اگلی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں؟ہماری اقدار جو ہم نے چھوڑ دیں آج دنیا ان کو اپنا کر ترقی کر رہی ہے۔ہم اپنی اولاد کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں دن رات محنت کرتے ہیں کہ ان کی زندگی بہتر بنا سکیں۔جو ہم اپنے بچوں کو دے کر جا رہے ہیں کیا اس پر ہم مطمئن ہیں؟ہم ان کی کیا تربیت کر رہے ہیں؟آج بھی جہاں خاندان قائم ہیں وہاں اصول اور ضابطے بھی قائم ہیں جہاں خاندان بکھر گئے ہیں وہاں اقدار بھی بکھر گئی ہیں۔
اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Noor e Eman qayamat tak har taalib ki talabb poori farmata hai - 1

نماز صرف اجرو ثواب کے لیے نہیں ہے بلکہ معاشرے کی بھی ضرورت ہے


 قرآن کریم کی عملی صورت نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔حالات جیسے بھی ہوں حدودو قیود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔اسلام پوری انسانیت کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ ہر کوئی اپنی حد میں رہے حد سے تجاوز نہ کرے یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی اسلام نے حدود وقیود مقرر فرمائی ہیں جیسے خواتین اور بچوں پرظلم نہ کیا جائے گا، فصل کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا،درخت نہیں کاٹے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔تو دین اسلام ہر حال میں قانون کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔ 
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا جامع اسلامیہ کینڈا میں جمعتہ المبارک کے روز خطاب۔
انہوں نے کہا کہ بندگی کے رشتے سے بڑھ کر دنیا کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔اسی لیے 7 سال کے بچے کو نماز کی ترغیب دینے کا حکم ہے کہ جہاں وہ باقی رشتوں کی پہچان کر رہا ہوتا ہے وہاں اپنے خالق اور مالک سے جو اس کا بندگی کا رشتہ ہے وہ بھی ساتھ ساتھ پروان چڑھتا جائے۔نماز فرائض میں سب سے بڑا فرض ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔اگر نماز کی تفصیل میں جائیں تو جہاں اس کا اجرو ثواب ہے وہاں یہ معاشرے کی بھی ضرورت ہے۔اس کا ایک ایک رکن وجود انسانی کے لیے کتنا ضروری ہے اس کے علاوہ اس کے نتائج حاصل کرنے کے لیے نیت سے لے کر اس کی ادائیگی تک پھر ہمارے اُس بندگی کے رشتے میں کتنا درد ہے یہ ساری باتیں نماز کے تنائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اگر ہمیں وہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے جو مقصود ہیں پھر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی کمی ہے۔ہر نماز کی ادائیگی ایسی ہونی چاہیے جیسے یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے۔
 اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کینڈا اور امریکہ کے دورہ پر ہیں جہاں وہ کینڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں میں پروگرامز کریں گے اور لیکچر دیں گے اس کے علاوہ پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملاقاتیں ہوں گی
Namaz sirf Ajr o sawab ke liye nahi hai balkay muashray ki bhi zaroorat hai - 1

غزوہ بدر میں ہمارے لیے کیا سبق ہے ( ماہانہ اجتماع)


وطن عزیز میں تعمیر کے نام پر تخریب ہو وہی ہے


آگ ہی لائی گئی آگ بجھانے کے لیے۔اس وقت وطن عزیز میں تعمیر کے نام پر تخریب ہو وہی ہے۔  وہ ملک جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہمارے اجداد نے یہ قربانیاں دیں اپنی عزتیں قربان کیں آج ہم اس ملک کو اُدھیڑنے میں کیوں لگے ہیں۔اس کا نظام اُکھیڑنے میں کیوں لگے ہوئے ہیں۔وہ وقت اپنے سامنے لائیں جب اس خطہ پر انگریز مسلط تھ اور مسلمان ان کے زیر تسلط تھے اس وقت کے مظالم اور ان کے عدالتی فیصلوں کو دیکھیں تو پھر اس آزاد وطن کی قدر ہو گی۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر خطاب۔۔
  انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا ملک ترقی نہیں کرے گا تو ہمیں وہ قوت بھی نصیب نہیں ہوگی جس سے ہم اپنا دفاع کر سکیں بجائے اس کے کہ ہم کہیں ظلم ہوتا ہوا دیکھیں اور اسے روکیں۔یہ سب کہتے ہیں کہ یہ خرابی ہے اور اس کا حل کیا ہے؟لیکن سوال کرنے کے باوجود ہم عملی طور پر کچھ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ہمارے بیانات،تحاریر میں تو یہ بات ملتی ہے لیکن ہمارے کردار میں ہمارے عمل میں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم اس خرابی کو دور کرنے کے لیے واقع مخلص بھی ہیں۔ہمارے کلام اور عمل میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔جب معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمارے حالات بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر انصاف نہیں ہے۔ہمارے اندر کمزوری ہے ہمارے اندر دین پر عمل پیرا ہونے میں فقدان ہے۔اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا تو اس معاشرے میں روشنی ہوتی یہ جو مخلوق جگہ جگہ ٹھوکریں کھا رہی ہے ایسا نہ ہوتا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن کامل ایمان کے ساتھ اللہ کے حکم پر نبی کریم ﷺ کی معیت میں میدان میں اتر گئے۔اللہ کریم نے ان کی غائبی مدد فرمائی اور فتح نصیب ہوئی۔آج بھی اگر مسلمان کا ایمان مضبوط ہوگا نبی کریم ﷺ کے اتباع میں زندگی بسر کرتا ہوگا آج بھی اگر وسائل نہ بھی ہوں گے پھربھی اللہ کریم ایمان والوں کی مدد فرمائیں گے اور انہیں غالب فرمائیں گے اور فتح عطا فرمائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو ایمان والے ثابت تو کریں۔ہمارے کردار،ہمارے اعمال سے پتہ چلے کہ ہم محمد الرسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں۔ 
یاد رہے کہ آج دارالعرفا ن منارہ میں دوروزہ ماہانہ اجتماع کے موقع پر ملک بھر سے سالکین سلسلہ عالیہ اپنی روحانی تربیت کے لیے  تشریف لائے۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے بیان کے بعد ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Watan Aziz mein taamer ke naam par takhreeb ho wohi hai - 1

کفر کا انجام