Featured Events


​اولاد آدم کا شرف

اس وسیع کائنات میں اللہ تعالی نے انسان کو لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم (التین:4) 
ترجمہ: کہ یقیناہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا۔ اوروَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَم

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا (بنی اسرائیل:70) 
 ترجمہ: اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ کا شرف عطا فرما کر اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا اور اسے خلافت ارضی کا منصب جلیلہ سونپا۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمارنہیں لیکن انسان کو جس نعمت خصوصی سے نوازا گیا ہے وہ انبیاء کرام  ؑکے ذریعہ اس کی ہدایت کا سامان ہے۔

مقاصد نبوت،تزکیہ با طن اور روحا نی تربیت

  حضور اکرم  ﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جہاں  الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ(الما ئدہ:۳) 
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔

 کا اعلان فرمایا وہاں اہل ایمان کو اپنا یہ ا حسان بھی یاد دلایا کہ  لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِم (آل عمران: 164) ترجمہ:یقینا اللہ نے ایمان والوں پر (بہت بڑا) احسان کیا ہے کہ جب ان میں ان ہی میں سے ایک پیغمبرمبعوث فرمائے اور اس احسان کی تفصیل میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس آخری رسول  ﷺ کے ذریعہ اللہ کی اس نعمت سے مستفیدہونے کی ایک صورت یہ مقرر کی کہ اللہ کا رسول  ﷺ ان کا تزکیہ باطن اور ان کی روحانی تربیت کرتا ہے۔

تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کی تدوین

حضور اکرم  ﷺ نے تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ اپنے جلیل القدر شاگردوں یعنی  صحا بہ کرام ؓکی اس طرح تربیت کی اور تزکیہ باطن کے وہ نمونے تیارکیے کہ رہتی دنیا تک ان کی نظیر نہیں مل سکتی۔ جس طرح تعلیم کتاب اور تدوین شریعت کا یہ سلسلہ صحا بہ کرامؓ کی جماعت سے آگے منتقل ہوتا چلا آیا اسی طرح تزکیہ باطن اور روحانی تربیت کا طریقہ بھی صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم  ﷺسے سیکھ کر آئندہ نسلوں کو پہنچایا اور مختلف ادوار کے تقاضوں کے مطابق تدوین حدیث وفقہ کی طرح تزکیہ و تربیت کے پہلو کی تدوین منظم صورت میں عمل میں آئی۔ صحابہ کرامؓ جہاں جہاں بھی گئے یہ روشنی اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس سے قلوب انسانی کو منور فرمایا۔ بعد میں جب دین کا یہ پہلومنظم ہوا تو مذاہب فقہ کی طرح تربیت و تزکیہ کے بھی چار بڑے سلسلے ہمارے ہاں رائج اور مقبول ہوئے۔
 

​سلاسل تصوف

علمائے مجتہدین نے اپنے خدا داد علم و ذہانت سے قرآن وسنت پر غور و خوض کر کے جو فقہی استنباط کیے وہ اجتہاد ہے۔ مجتہدین میں چارآئمہ کرام مشہور ہیں جن کے پیر و دنیا میں پھیلے ہو ئے ہیں۔
۱۔امام اعظم ابوحنیفہ  ؒ
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ
۳۔ امام مالک ؒ
۴۔ امام شافعی  ؒ

جن لوگوں نے روحانی قوت سے روحانی تربیت کا کوئی طریقہ بتایا اور تربیت کی تو انہیں شیخ طریقت کہتے ہیں۔ مجتہدین تصوف بھی مجتہدین فقہ کی طرح بہت ہوئے مگر چار روحانی سلسلے مشہور اور رائج ہوئے۔
۱۔قادریہ
۲۔چشتیہ
۳۔ سہرورد یہ
۴۔ نقشبندیہ 

چار فقہی مسالک اور چار روحانی سلسلوں کو ملا کر ظاہری و باطنی اصلاح (اجتہاد وارشاد) کا جو نظام بنتا ہے اسے مسلک اہلسنت والجماعت کہتے ہیں۔ نبوت کا ظاہری اور عملی پہلو چار فقہی مسلکوں نے اور نبوت کا روحانی اور باطنی پہلو چاروں روحانی سلسلوں نے سنبھال لیا اور اس طرح امت مسلمہ علوم نبوت اور انوار نبوت کی وارث و امین ٹھہری۔

 سلاسل تصوف اور ان کے عالی مقام مشائخ عظام کے طریق ِکار اور مقصد پر اگر غور کیاجائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان سب بزرگان کرام کا مقصد حصول رضائے باری تعالیٰ اور تزکیہ نفوس انسانی ہے اور ہر سلسلہ میں اس کا مدار اتباع سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام،کثرت ذکرالٰہی اور صحبت شیخ پر ہے۔صو فیہ کرام ؒ کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح با طن کا طریقہ القا ئی اور انعکاسی ہے۔

اسلامی تصوف

صحیح اسلامی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حقیقت سے علمی حلقوں کو روشناس کر نا نہایت ضروری ہے،یہی مدار نجا ت ہے۔قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہو گا،یہی وجہ ہے کہ محققین صوفیہ کرام ؒ نے شیخ یا پیر کے لیے فرما یا ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ  جھو ٹا ہے،شعبدہ با ز ہے کیو نکہ تعلق باللہ کے لیے اتباع سنت لازم ہے۔

او کما قال تعالیٰ  قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ(آل عمران:۱۳)
ترجمہ:آپ فرما دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریں گے۔“

تصوف (احسان،سلوک اور اخلاص)دین کا ایک اہم شعبہ ہے 

تصوف،دین کا ایک اہم شعبہ ہے جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی   غا یت تعلق مع اللہ اور حصول رضا ئے الٰہی ہے۔قرآن و حدیث کے مطا لعہ،نبی کریم  ﷺ کے اسوہئ حسنہ اور آثا ر صحابہ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔قرآن حکیم میں اسے تقویٰ،تزکیہ اور خشیت اللہ سے تعبیر کیا گیا اور تفصیل حدیث جبرئیل ؑمیں مو جو د ہے۔مختصر یہ کہ تصوف،احسان،سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں،اس کے متعلق حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا  فَاِنّہُ جِبرِیلُ اَتَاکُم یُعَلِّمُکُم دِینَکُم (مشکوٰۃ ،کتاب الایمان)  یہ دین کا جزو ہے کو ئی شے زا ئد نہیں ہے نہ دین سے   خا رج ہے اس لیے اس کا حا صل کرنا مسلما نوں پر وا جب ہے۔احسان صرف جزو دین ہی نہیں بلکہ دین کی روح اور خلا صہ ہے۔ جس نے اسے حا صل نہ کیا اس کا دین نا قص رہا کیو نکہ احسان کی حقیقت یہ    بیا ن ہو ئی ہے   اَن تَعبُدَاللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ فَاِن لَّم تَکُن تَرَا ہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ  (مشکوٰۃ ،کتاب الایمان)  حدیث میں دین کے تینوں اجزاء کا ذکر ہے۔

ایمان جو اصل ہے،اعمال جو فرع ہیں،اور احسان جو ثمر ہ ہے۔

اسے چھوڑ دینا ایسا ہے جیسے ایک شخص نما ز مغرب میں فرض کی دو رکعت پڑھ کر فا رغ ہو جا ئے،ظا ہر ہے کہ اس کی نماز نہ ہو گی اس طرح احسان کو چھوڑ دینا دین کے ایک عظیم جزو کو ترک کرنا ہے اس لیے دین  نا قص رہ جا ئے گا۔

سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ

جس طرح روایت ِحدیث ہے اسی طرح سے شجرہ یا سلسلہ اولیا ء اللہ ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس نے کس سے برکا ت نبویﷺ حاصل کیں۔ان کیفیا ت و برکات و تعلق کو جو قلب سے قلب کو حا صل ہو جا ئے،نسبت کہتے ہیں۔

نسبت اویسیہ اور اس میں حصو ل فیض کا طریقہ

تمام سلاسل تصوف اور تمام نسبتوں میں نسبت اویسیہ براہ راست نبی کریم  ﷺ سے سیدنا ابو بکر ؓ اور ان مشا ئخ کو نصیب ہو تی ہے جو نسبت اویسیہ سے متعلق ہیں۔اویسیہ اس لیے کہتے ہیں کہ حصول فیض کا طریقہ وہ ہے جو حضرت اویس قرنی  ؒکا تھا۔ان کے حالا ت میں یہ ملتا ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ میں حاضری بھی دی لیکن حضور اکرم  ﷺ سے شرف ملا قات حاصل نہ کر سکے۔ان کا وجود ظا ہری با رگا ہ نبوی  ﷺ میں حاضر نہ ہو سکا لیکن ان کے قلب نے قلب ِاطہر  ﷺ سے وہ قرب حاصل کر لیا کہ انہوں نے دور رہ کر وہ برکات حا صل کر لیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ جیسے جلیل القدر صحا بی نبی کریم  ﷺ کا پیغا م لے کر ان کے پا س گئے۔

نسبت اویسیہ کی کیفیت 

شا ہ ولی اللہ ؒ رقم طراز ہیں کہ نسبت اویسیہ کی کیفیت یہ ہے کہ جس طرح دریا کا پا نی کسی صحرا میں گم ہو جا تا ہے اور اس کا کو ئی نشا ن نہیں ملتا،زیر زمین چلا جا تا ہے اسی طرح گم ہو جا تی ہے اور اس طرح دودو،تین تین،چارچارسوسال کو ئی بندہ اس نسبت کا نظر نہیں آتالیکن پھر کہیں سے یہ زمین کو پھا ڑ کر نکل آتی ہے اور جب یہ نکلتی ہے تو جل تھل کر دیتی ہے پھر ہر طرف اسی کا شور سنا ئی دیتا ہے اور ہر طرف یہی لوگ نظر آتے ہیں۔پھر یہ انسانی قلوب پر چھا جا تی ہے۔جو بھی سعید ہوں،جنہیں بھی اللہ نے قبول کر لیا ہو،جن پر اللہ کا کرم ہو وہ سا رے پھر اس میں شا مل ہو جا تے ہیں پھر یہ سمندر بن جا تا ہے اور ٹھا ٹھیں ما رنے لگتا ہے۔

سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کی خصوصیت

ہمارے سلسلہ نقشبندیہ اویسہ کی خصوصیت یہ ہے کہ کسی کو معا شرے سے الگ نہیں کیا جا تا۔ہر قسم کے   مسا عد اور نا مسا عد حا لا ت اسے پیش آتے ہیں مگر جب شیخ کی مجلس میں آتا ہے تو سارے غبار دھل جا تے ہیں۔یہ اس سلسلے کی برکت ہے اور شیخ کی قوت کا اثر ہے۔یہ وا حد سلسلہ ہے جو مخلوق کے ساتھ اختلاط سے منع نہیں کرتا۔کاروبار کرو،دکان چلاؤ،ملازمت کرو،بیوی بچوں میں رہو،بس مقررہ اوقا ت میں مقررہ طریقے سے ذکر کرتے رہو،تمہا را سینہ منور رہے گا۔ ہاں!اگر ان تینوں امور یعنی طلب صادق، اکل حلال اورصحبت بد سے پر ہیز،کا خیا ل نہ رکھا جا ئے تو لا زمی امر ہے کہ ذکر ِالٰہی کے لیے فرصت نہ ملنے کا بہا نہ بھی ہوگا،جی نہ لگنے کا شکوہ بھی ہو گا۔مگر یہ مرض نا قا بل علا ج نہیں،ہاں!علاج کے لیے محنت درکار ہے۔ وہ یوں کہ دھوبی پٹڑ ا سے کام لے،یعنی نہایت قوت سے،تیزی سے لطا ئف کرے تا کہ خون میں جوش پیدا ہو۔

ایمان کی مضبوطی

Watch Emaan ki Mazbooti  YouTube Video

اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔


رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ہے اور ضرورت امر کی ہے کہ ان مبارک ساعتوں میں جوہم دعوی ایمانی رکھتے ہیں کیا اس دعوے میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے غلطیوں کو نکال باہر کریں۔اور اپنے ہر عمل کو اتباع رسالت ﷺ میں ڈھال لیں۔دنیاوی زندگی میں ہم نے جو اعمال دکھاوے کے لیے اختیار کر رکھے ہیں وہ بارگاہ الٰہی میں مقبول نہ ہوں گے۔کیونکہ وہ نہاں خانہ دل میں موجود سب کچھ جانتا ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آج ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ہمیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔اس عارضی دنیا  کے لیے ہم حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر مال اکٹھا کرنے میں لگے ہیں جسے ہم نے چھوڑ کر جانا ہے۔اسی دوڑ میں ہم نے حقوق وفرائض کی تمیز ختم کر دی ہے۔معاشی اور معاشرتی زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے ہم لوگ جنگل میں رہ رہے ہوں اسی وجہ سے ہم سب اس تکلیف سے گزر رہے ہیں 
 یاد رکھیں جس راہ پر ہم چل رہے ہیں اس کا انجام بہت بھیانک ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو توبہ کی طرف لے آئیں۔اللہ کریم کو معاف کرنا محبوب ہے اللہ کریم ہمارے گناہ معاف فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی
Apne har amal ko itebaa risalat SAW mein dhaal len . - 1

رب کی دھرتی رب کا نظام ہی واحد راستہ ہے جو ہمیں محکومی سے نکال سکتا ہے


رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے اس میں اللہ کریم کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے عبادات بھی ان اصولوں کے مطابق کی جائیں جس کا حکم ہے۔تمام اعمال کی اصل روح بندہ مومن کا عشق ہے جو اپنے رب کریم کے ساتھ ہے۔اور اس کیفیت کے حصول کے لیے تزکیہ قلب ضروری ہے۔تمام عبادات کے نتائج ہوتے ہیں۔ روزہ دار کو ایک کیفیت ایسی نصیب ہوتی ہے جو روزہ دار کو اللہ کے روبرو کر دیتی ہے۔روزہ دار خود کو اللہ کریم کے روبرو محسوس کرتا ہے اُسے معیت باری نصیب ہوتی ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ کریم تمہارے ساتھ ہیں۔پھروہ  اللہ کریم کے حکم پر ایک وقت کے لیے حلال چیزوں سے بھی دور رہتا ہے۔یہ اللہ کریم کی بہت بڑی عطا ہے۔کہ بندہ مومن خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر بھی اللہ کریم خود عطا فرمائیں گے۔روزہ ایک ڈھال کی صورت ہے جو بندہ مومن کو گناہوں سے بچاتا ہے۔کسی کو رمضان المبارک نصیب ہو اور پھر بھی وہ بخشش حاصل نہ کر سکے یہ بہت بڑی بدبختی ہے۔جب روزہ دار متوجہ الی اللہ ہوتا ہے تو اللہ کریم کی توجہ بھی اُسے نصیب ہوتی ہے۔رمضان المبارک میں اپنا احتساب کرنا چاہیے۔یہ ایک دستک ہے خود کو دیکھیں کہا ں کہاں کمی ہے اسے دور کیا جائے۔ہر ایک کا اپنے اللہ کریم سے رشتہ ہونا چاہیے محبت ہوگی تو احساس بھی ہوگا ادراک بھی ہوگا متقی وہ ہے جسے عشق کی سمجھ آجائے کہ میرے اللہ کریم کا حکم ہے میرے نبی کریم ﷺ کی راہنمائی ہے عمل میں خلوص تب ہی پیدا ہوتا ہے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے ایک ذاتی رشتہ قائم ہوجائے۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں ا نہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Rab ki dharti rab ka nizaam hi wahid rasta hai jo hamein mehkoomi se nikaal sakta hai - 1

دعا کی قبولیت

Watch Dua ki Qabooliat YouTube Video

انسانی معاشرے میں عدل اور اس میں مساوات تب ہوگی جب ہم اپنا سر مخلوق کی بجائے خالق کے حضور جھکائیں گے


آج ہم خالق کی بجائے مخلوق کے آگے جھک رہے ہیں جس کی وجہ سے بحیثیت قوم اور بحیثیت حکمران  رسوا  ہو  ر ہے ہیں۔اللہ کریم کے آگے سجدہ ریز ہونے سے ہم طرح طرح کی غلامی سے بچ سکتے ہیں۔انسانی معاشرے میں عدل ومساوات تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے فیصلے دین اسلام کے مطابق کریں گے۔آج ہم اپنے ذاتی فیصلوں اور طاقت سے ظلم کر بھی لیں تو یاد رکھیں روز محشر ان کی جوابدہی سے بچ نہیں سکیں گے اور وہاں کی جوابدہی بہت سخت ہے۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر جھوٹ اور دھوکہ دہی  اتنی  زیادہ  ہوچکی ہے کہ معاشرے سے برکت اُٹھ گئی ہے اور اس بے ایمانی اور اپنے فیصلوں اور قوانین کو دین اسلام کے خلاف کرنے کی وجہ سے ہماری حالت یہ ہو گئی ہے جیسے کوئی کنویں پر بیٹھا ہو اور اسے پانی میسر نہ ہو۔ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن کھانے کو آٹا میسر نہیں یہ سب اس وجہ سے کہ ہم ناشکری کر رہے ہیں اور اس کی یہی سزا ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کریم کی بڑائی بیان کرنا شکرکی کیفیت ہے۔جہاں بندگی ہوگی وہاں ہر شئے کا رخ اللہ کریم کی طرف ہو گا اور جہاں اپنی انا اور ذات کو لے آئیں گے وہاں نا شکری آ جائے گی۔اس کا حل یہی ہے کہ جہاں جہاں ہم نے اپنی ذات کو داخل کر لیا ہے وہاں ذات باری تعالی کو لے آئیں تو معاملات درست ہو جائیں گے۔سارے معاملات میں نسبت اللہ کریم کی طرف ہو گی تو شکرانے کی کیفیت ہوگی۔اللہ کریم سے اپنا بندگی کا رشتہ قائم رکھیں کیونکہ بندگی کا رشتہ بنیاد ہے۔اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Insani muashray mein Adal aur is mein masawaat tab hogi jab hum apna sir makhlooq ki bajaye khaaliq ke huzoor jhukaain ge - 1

دین اسلام میں آسانی ہے

Watch Deen Islam mein Asani hai YouTube Video

رمضان المبارک کی عظمت

Watch Ramzan ul Mubarak ki Azmat YouTube Video

آج جو طاقت، اختیار، جتنا جس کے پاس ہے اس سب کا حساب روز محشر دینا ہوگا۔


رمضان المبارک کی آمد آمد ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔اور اس کلام ذات باری تعالی کی وجہ سے سارے مہینوں میں سردار مہینہ رمضان المبارک ہے۔آج ہم نے قرآن کریم سے رشتہ ناظرہ کی حد تک تو رکھا ہے لیکن جو حکم قرآن کریم ہمیں دیتا ہے اس پر عمل نہ کر رہے ہیں۔اسی وجہ سے مسلمان دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔جس کا جتنا بس چل رہا ہے وہ سود کھا بھی رہا ہے اور سود پر انفرادی طور پر رقم بھی دے رہا ہے۔ہمیں ان نافرمانیوں سے تائب ہوکر واپس پلٹنا ہوگا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبار ک کے موقع پر خطاب
انہوں نے کہا کہ اس معاشرے میں جو خرابی ہے اس کا سبب ہم تو نہ بنیں ہم تو اپنا حصہ اس میں سے نکالیں۔دنیا میں آج جہاں بھی خوشحالی ہے اس کا اگر سبب دیکھیں گے تو کوئی نہ کوئی اسلامی پہلو اس کے پیچھے آپ کو نظر آئے گا۔آج مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں کے قوانین اور ان کا نفاذ اسلامی حکم کے قریب تر ہے۔جنہوں نے نقل کی وہ استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور جو وارث ہیں انہوں نے اپنی وراثت چھوڑی ہے ذلیل ہو رہے ہیں۔  نور ایمان احساس ذمہ داری سے آشنا کرتا ہے حکومت کو چاہیے کہ قانون کی بالا دستی قائم کرے اور اس کا نفاذ مساوات کے ساتھ ہو۔ہم ایک دوسرے پر اعتراض کر کے خود کو بری کر لیتے ہیں سب سے پہلے خود اپنے محاسبے کی ضرورت ہے ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو گا ہرایک کے پاس جو حیثیت ہے جو طاقت ہے وہ دیکھے کہ اُس کا استعمال کیسا ہے۔قرآن کریم حق و باطل کی تفریق کرتا ہے سیدھا راستہ ایک ہی ہے سب راستے حق کے راستے نہیں ہیں۔درست بات وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ہے اگر کوئی کعبہ کی چھت پر بھی چڑھ جاتا ہے لیکن عمل درست نہیں تو کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔
  اللہ کریم رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں اپنی اصلاح اس طرح سے نصیب ہو کہ باقی گیارہ مہینے ہمیں اطاعت کی توفیق نصیب ہو۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی ا جتماعی دعا بھی فرمائی۔
Aaj jo taaqat, ikhtiyar, jitna jis ke paas hai is sab ka hisaab roz Mahshar dena hoga . - 1