Featured Events


حدود اللہ

Watch Hadood Ullah YouTube Video

ہمارا مقصد ملک کی فلاح اور اپنے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون ہے


بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم وطن عزیز میں مذہبی،لسانی، طبقاتی تقسیم سے بالا ہو کر اپنے ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔وطن عزیز میں جہاں طبقاتی تقسیم نے ایک تکلیف دہ صورت حال پیدا کی ہوئی ہے وہاں انفرادی حیثیت سے لے کر مجموعی حیثیت تک ہم اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہمارا مقصد ملک کی فلاح اور اپنے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون ہے۔وطن عزیز کے تمام ادارے ہمارے ادارے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا تقریب حلف برداری کے موقع پر دارالعرفان منارہ میں نئے مقرر ہونے والے ذمہ داران سے خطاب!
  سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے صاحب مجازین،قائم مقام مجازین اورامراء،تنظیم الاخوان پاکستان کے صدور،جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات اس کے علاوہ الفلاح فاؤنڈیشن پاکستان کے آئندہ 4 سال کے لیے ذمہ داران مقرر کیے گئے جن سےحضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے حلف لیا اور آئندہ چار سال کے لیے ذمہ داری دی گئی۔۔
  یاد رہے کہ اس حلف برداری تقریب میں ملک بھر سے جس میں بلوچستان،سندھ کراچی،ہزارہ،کے پی کے اور پنجاب بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔۔
 آخر میں ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی گئی۔۔
Hamara maqsad mulik ki Falah aur –apne idaron ke sath mukammal taawun hai - 1

مومن کے اوصاف

Watch Momin key Ausaf YouTube Video

اللہ کریم اس آخری عشرے میں معتکفین کو لیلۃ القدر کی برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائیں


اللہ کریم کا احسان کہ زندگی میں ایک بار پھر رمضان المبارک عطا فرمایا اور اللہ کریم اس آخری عشرے میں معتکفین کو لیلۃ القدر کی برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اللہ کریم کی معیت کائنات کے ذرے ذرے کو حاصل ہے۔اس لیے کہ اس کی ذات خالق کل کائنات ہے۔نوری مخلوق حکم کی پابند ہے تعمیل حکم میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں ہے۔لیکن انسان کو اپنی انابت سے نوازا اپنی معرفت عطا فرمائی۔کلام ذاتی سے نوازا۔یہ سب اللہ کریم کے اس انسان پر بہت بڑے انعام ہیں۔اللہ کریم ہمیں مقصد حیات کے حصول کی توفیق عطا فرمائیں۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا اجتماعی سنت اعتکاف پر آئے معتکفین کے ساتھ افطاری کے موقع پر گفتگو۔۔
  یاد رہے کہ ملک بھر سے ہزاروں معتکفین اجتماعی سنت و نفلی اعتکاف کے لیے دارالعرفان منارہ میں آئے ہوئے ہیں جس میں بلوچستان،سندھ،کراچی،کے پی کے،کشمیر اور پنجاب بھرکے علاوہ بیرون ممالک سے بھی معتکفین اللہ والوں کی اس بستی میں اپنے دلوں کو برکات نبوت سے منور کر رہے ہیں۔ان کے معمولات ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت چل رہے ہیں۔امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی کی زیر نگرانی بڑے نظم و ضبط کے ساتھ سارے انتظامات چل رہے ہوتے ہیں۔
Allah kareem is aakhri ashray mein Motkafeen ko lailh al-qadar ki Barkaat semathnay ki tofeq ataa farmaen - 1

میاں بیوی کا رشتہ معاشرے کا ایک خوبصورت رشتہ ہے


میاں بیوی ایک دوسرے کو فتح کرنے کی بجا ئے اگر محبت و الفت کے ساتھ تعاون کریں تو معاشرہ ایک خوبصورت گلدستہ کی مانند ہو جائے گا۔  میاں بیوی کا رشتہ معاشرے کا ایک خوبصورت رشتہ ہے دو افراد اللہ کے نام پر اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس رشتہ کے تقدس کو ایسے نبھائیں جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔لباس جہاں وجود کو ڈھانپتا ہے وہاں گرمی سردی سے بھی بچاتا ہے۔لہذا اس اہم رشتہ کو ایسے ہی ایک دوسرے کی معاونت میں نبھایا جائے۔والدین بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں لہذا جیسا معاشرہ ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں سب سے پہلے ہمیں خود کو ایسے انداز میں ڈھالنا ہوگا۔تاکہ ہماری اولادیں ہمیں دیکھتے ہوئے معاشرے کے خوبصورت انسان بنیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم نے جو عطا فرمایا ہے اس کا شکر بجا لایا جائے۔اور جونہیں ملا اس پر صبر کریں تو معاشرے سے بہت ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔فرد واحد جب صرف اپنی ذات کا سوچے گا تو انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ بے انصافی کرے گا۔بندہ مومن کے دل میں خشیت الٰہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کریم کے احکامات سے تجاوز نہیں کرتا۔اسے یہ فکر ہوتی ہے کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت دارالعرفان منارہ میں ملک بھر سے نمائندہ طور پر سالکین اجتماعی اعتکاف کر رہے ہیں جن کے باقاعدہ معمولات ایک ٹائم ٹیبل کے زریعے سحری سے افطاری تک ترتیب دئیے گئے ہیں۔ بروز ہفتہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی معتکفین کے ساتھ افطاری فرمائیں گے۔اس کے علاوہ اتوار کو سلسلہ عالیہ،الاخوان اور الفلاح فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں سے حلف بھی لیں گے جنہیں حضرت شیخ المکرم نے آئندہ چار سالوں کے لیے ذمہ داری سے نوازا ہے۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Miyan biwi ka rishta muashray ka aik khobsorat rishta hai - 1

خشیت الہی

Watch Khashiat Ilahi YouTube Video

میاں بیوی کا رشتہ

Watch Mian Bewi ka Rishta YouTube Video

اعتکاف کے فضائل

Watch AItkaf k Fazail YouTube Video

تزکیہ، تصوف و سلوک

تزکیہ کا مفہوم

قرآن کے لفظ تزکیہ کی علماء ومفسرین نے اپنی اپنی وسعت نظرکے مطابق تشریحات و توجیہات کی ہیں۔ اللہ ان پر کروڑوں، کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے لفظ تزکیہ کا اگر ہم فارسی یا اردو تر جمہ کریں تو وہ تصوف بنتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ غیرملکی زبانوں میں سب سے پہلے فارسی میں ہوا تو فارسی میں تزکیہ کا ترجمہ تصوف کردیا گیا۔ تزکیہ، دل کی پاکیزگی ہے، صفائے قلب ہے، صفائے باطن ہے، تصوف کا معنی بھی یہی ہے۔

یَتْلُوا عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (آل عمران: 164)
 ترجمہ: جوان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ 

نبی ؑجو کچھ فرماتا ہے وہ تھیوری نہیں ہوتی، محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ کیفیات بھی ہوتی ہیں۔ نبی ؑجب کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو جو ایمان لاتا ہے، اسے نظر تو نہیں آتا لیکن وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی ہے۔ ان نگاہوں سے نظر نہیں آتا لیکن ایسی کیفیت اس پر وارد ہوتی ہے کہ ان آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ اسے یقین ہو جاتا ہے۔

 تزکیہ کی اہمیت 

 فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے آپ  ﷺ نے جوتزکیہ فرمایا وہ دلوں کی پاکیز گی تھی۔ نہا دھو کر صاف کپڑے پہن لینا تزکیہ نہیں ہوتا، یہ تو پہلے بھی ہوتا تھا، حضور  ﷺ نے دلوں کو پاک کر دیا۔ فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ ہے کہ پہلے بات دل سے کی جائے پھرعقل کو دلیل سے قائل کیاجائے، پھر کتاب وحکمت کی تعلیم دی جائے تو وہ تعلیم انسان کی عملی زندگی میں رہنمائی کا کام کرے گی، اس لیے کہ دل اس پر عمل کرنے کے لیے پہلے سے تیاربیٹھا ہوگا۔

 تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کے قلب میں وہ کیفیات بھر دی جا ئیں کہ جو اس کی سوچ میں آئے وہ مثبت آئے، اس میں طلب ِحق پیداہو، اس کے دل میں جو جھاڑ جھنکار ہے، خواہشاتِ انسانی ہیں، خود غرضی ہے، بے شمار خرابیاں ہیں، وہ صاف کر دی جائیں۔ انسان صرف وجود مسجد میں نہ لائے، وجود بعد میں آئے دل پہلے مسجد میں ہو۔ اب یہ کس کی ضرورت نہیں ہے کہ دل میں خلوص آ جائے، قرب الٰہی کی آرزو پید ا ہو جائے، سینے کے اندر مدینہ بنالے، برکات نبوت، دل پر ابرِ رحمت کی طرح برستی ہوں، دل نورِ نبوت کی کرنیں منعکس کرتا ہو اوروہ دوسروں کے لیے بھی باعث ہدایت بنتا چلا جائے۔

تصوف کیاہے؟

تصوف کا مطلب ہے ”کچھ بھی نہیں“ یعنی جب کچھ بھی باقی نہ رہے صرف اللہ رہ جائے تو تصوف بن جاتا ہے۔ جب تک کچھ باقی رہے تصوف نہیں ہوتا۔ میں پیر ہوں، میں مولوی ہوں، میں بزرگ ہوں، میں تکڑا ہوں،میں فلاں ہوں، جب تک’میں‘ر ہے تب تک تصوف نہیں ہوتا جب’میں‘نہ رہے، انانہ رہے، کچھ بھی نہ رہے، پھر تصوف ہوتا ہے۔

”سارے کا سارا تصوف یہ ہے کہ اللہ پر اعتماد بحال ہو جائے۔“بندہ اپنے معاملات اپنے رب سے ڈسکس کرے، اپنے رب سے لڑے بھڑے، دعا مانگے اور چیخ کر مانگے، رو رو کر مانگے، گڑ گڑا کر مانگے لڑ کر مانگے، وہ جانے اس کا رب جانے۔

 تصوف صرف یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺکی جو پیروی کی جائے اس میں انتہائی خلوص ہو، دل کی گہرائی سے کی جائے، ان کیفیات کو تصوف کہتے ہیں۔ وہ کون سا تصوف ہے جو اطاعت ہی چھڑوا دے؟ یہ جو تصوف میں بہت سی چیزیں در آئی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دین کے خلاف ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگوں نے اپنی کمزوریوں کے باعث اس کو بھی دنیاکمانے کا ذریعہ بنالیا ہے، تصوف کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے یا مادی فوائد حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تو یوں یہ الزام، یہ بہتان تصوف پہ آ گیا۔

 تصوف دین سے الگ چیز نہیں ہے بلکہ ہم دین پر جو یقین رکھتے ہیں یا عمل کرتے ہیں یا جو ہمارا دعویٰ ہے اس میں خلوص پیدا کرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے، اسے تصوف کہتے ہیں۔ہم دین پر جو عمل  کرتے ہیں اس میں خشوع و خضوع پیداکرنے کے لیے جو محنت کی جاتی ہے،وہ تصوف ہے۔ تصوف سے مراد ہے کہ عظمت الہٰی کا ادر اک، اپنی بے مائیگی اور کم مائیگی کا احساس کہ میں کچھ بھی نہیں، سب کچھ وہی ہے۔
(نقوش حق،حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوانؒ)

تصوف کیا نہیں 

تصوف کے لیے نہ کشف و کرامات شرط ہے، نہ دنیا کے کاروبار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے، نہ تعویذ گنڈوں کا نام تصوف ہے، نہ جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے، نہ مقدمات جیتنے کا نام تصوف ہے، نہ قبروں پر سجدہ کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور چراغ جلانے کا نام تصوف ہے اور نہ آنے والے واقعات کی خبر دینے کا نام تصوف ہے،نہ اولیاء اللہ کو غیبی ندا کرنا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے کا نام تصوف ہے، نہ اس میں ٹھیکیداری ہے کہ پیرکی ایک توجہ سے مرید کی پوری اصلاح ہو جائے گی اور سلوک کی دولت بغیر مجاہدہ اور بدون اتباع سنت  ﷺ حاصل ہو جائے گی نہ اس میں کشف والہام کا صحیح اتر نالازمی ہے اور نہ وجد وتواجد اور رقص وسرود کا نام تصوف ہے۔ یہ سب چیزیں تصوف کا لازمہ بلکہ عین تصوف سمجھی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز پر تصوف اسلامی کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری خرافات اسلامی تصوف کی عین ضد ہیں۔
 (دلائل السلوک، حضرت مولانا اللہ یار خانؒ)

​ذکر اللہ

زندگی میں جسم کی سلامتی کے لیے جو اہمیت سانس کو حاصل ہے، وہی حیثیت روح کے لیے یاد الٰہی کی ہے۔ نماز اور تلاوت کا فائدہ اصلاح قلب پر موقوف ہے۔ قرآن کریم میں 165 مقامات پر ذکر کا حکم آیا ہے۔

فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ(البقرۃ: 152)
 پس تم مجھے یاد کرو،میں تمہیں یاد کروں گا۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
مَثَلُ الَّذِی یَذکُُُُرُ رَبَّہ وَالَّذِی لَا یَذکُرُ رَبَّہ مَثَلُ الحَیِّ وَالمَیِّتِ...(متفق علیہ)
جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر الٰہی نہیں کرتا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ۔

تفسیر مظہری میں حضرت مجددالف ثانی  ؒکے حوالہ سے ذکر کی  وضاحت بیان ہوئی ہے،”تلاوت اور نماز دونوں ہی ذکر ہیں۔ جو ان میں محو ہوگیا اسے کسی اور ذکر کی حاجت نہیں رہی۔ نیز نماز ایسا ذ کر ہے جو اہل ایمان کی معراج ہے۔ لیکن ان دونوں اذ کار کا فائدہ فنائے نفس کے بعد ہی ہوتا ہے اور فنائے نفس کے لیے ذکر نفی اثبات ضروی ہے۔“ اس قول فیصل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تلاوت اور نماز ذکر الٰہی ہیں جن سے فائدہ تو حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح دور نبوی  ﷺ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہوا کہ آن واحد میں زندگیاں بدل گئیں وہ ہمیں کیوں نصیب نہیں ہو رہا؟ اس لیے کہ ہمارے زنگ آلود قلوب پر آج کے ماحول میں پھیلی نحوست کی تہیں جمی ہوئی ہیں جو صرف اور صرف ذکر اسم ذات اور نسبت شیخ سے ہی ختم ہو سکتی ہیں اور یہی کام اہل تصوف تبع تابعین کے بعد سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِیُّﷺ یَذکُرُاللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَا نِہِ(الصحیح المسلم)
نبی کریم  ﷺ ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔

 مندرجہ بالا آیات واحادیث سے مراد ذکر قلبی ہے کیو نکہ ذکر لسانی کو دوام نہیں۔ معارف القرآن میں بھی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رہے، دل سے بھی اور اتباع شریعت سے بھی۔ غرض نماز ختم ہوئی لیکن ذکر ختم نہیں ہوا، سفر اور خوف کی حالت میں نماز میں تخفیف ہے لیکن ذکر میں نہیں۔

ذکر کی اہمت مفسرین کرام کی نگاہ میں 

تفسیر کبیر: نماز سے فارغ ہو جاؤ تو ہر حال میں ذکر میں مشغول ہو جاؤ کیونکہ خوف اور مشکل کا علاج صرف ذکر الٰہی ہے۔ 

تفسیری حقانی: ذکر کی تین اقسام ہیں

ذکر لسانی

زبان سے اللہ کی حمد وثنا،تسبیح اور تحلیل کرنا۔

ذکر قلبی

افضل اور مؤثر ترین عبادت ہے جو لطائف باطنیہ اور اپنی جمیع قویٰ ادراکیہ کواللہ کی طرف متوجہ کر دے یہاں تک کہ محویت حاصل ہو جائے اور اپنی ذات بھول جائے۔ خواہ نفی اثبات، مراقبہ یا توجہ اور قوت شیخ سے یہ بات حاصل ہو جائے۔

عملی ذکر

اعضاء کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرنا اور منہیا ت سے اپنے آپ کو روکنا۔


 کتاب الاذکار: امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ ذکر لسانی بھی ہوتا ہے اور قلبی بھی۔ افضل ذکر وہی ہے جو دونوں سے کیاجائے اور اگر ایک پر ہی اکتفا کرنا ہو تو پھر ذکر قلبی افضل ہے۔

الفتح الربانی شیخ عبدالقادر جیلانی  ؒ فرماتے ہیں کہ ذاکر وہی ہے جو اپنے قلب سے ذکر کرے۔ یعنی ذکر قلبی نصیب ہو۔

حاصل کلام: یہ بات واضح ہوگئی کہ ذکر قلبی،ذکر لسانی سے علیحدہ اور افضل عبادت ہے۔نیزنماز اور تلاوت کے علاوہ بھی اپنے قلوب کو اللہ کی یاد سے آبادکرناضروری ہے۔ غافل قلب کی ساری عبادات اور اعمال بے اثر ہو جاتے ہیں کیونکہ جسم رکوع و سجودمیں ہوتا ہے اوردل دنیاوی کارو بار میں۔ دل چونکہ جسم کا بادشاہ ہے ٰلہٰذا انسان کا جھکاؤ اسی طرف ہو گا جس طرف دل ہو گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم میں حکم  ہے:

 وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا (الکہف:28)
ایسے شخص سے منہ پھیرلو جو ہماری یاد سے غافل ہو گیا۔ 

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیفَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی (طہ:124)
اور جو میر ے ذکر (ہدایت) سے منہ پھیرے گا تو یقیناً اس کے لیے (دنیا میں) تنگی کی زندگی ہوگی اور   قیا مت کے دن ہم اس کو (قبر سے) اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ 

  أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوب (الرعد:28)
 یادرکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینا ن پاتے ہیں۔

فیو ضات و برکا ت نبوی  ﷺ

ذکر قلبی کے بغیر مثبت تبدیلی آنا محال ہے۔ اللہ کی یاد سے غفلت انسان کے اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیتی ہے۔ ایسا انسان طرح طرح کی چیزوں میں سکون تلاش کرتا ہے اور گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ در اصل تعلیما تِ نبوی  ﷺ کے ساتھ وہ کیفیات بھی ضرور ی ہیں جنہیں برکات یا فیوضات نبوی ﷺ کہتے ہیں۔ قلوب انہی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی یہ نعمت شیخ کامل کے روشن قلب اور نسبت سے نصیب ہو سکتی ہے جو انسان کی اصلاح کا سبب بنتی ہے اور یوں وہ عملی زندگی میں من الظلمات الی النور(گناہ سے نیکی کی طرف) سفر شروع کر دیتا ہے۔

               قا ل را بگزار حال شو
               پیش مرد کامل پامال شو