Featured Events


بندگی

بندگی یہ ہے کہ میں کچھ نہیں ، سب کچھ اللہ کریم کی ذات ہے ۔
Being in a state of servitude to Allah means knowing that i am nothing, Allah is all.
Bandgi - 1

قرارداد پاکستان اور ہماری ذمہ داری

Watch Qrardade Pakistan Aur Hamari Zimadari YouTube Video

زندگی میں سکھ اور سکون کیسے حاصل کریں

Watch Zindgi mein sukh aur sakoon kaise hasil karen YouTube Video

فرائض کی ادائیگی

Watch Faraiz ki Adaigi YouTube Video

آخرت کا انحصار اسی دنیا کی زندگی پر ہے


ہمارا وجود،ہماری زندگی کی ہر سانس اس طرح بسرہو جس طرح ہمارے خالق اللہ کریم چاہیں اور اس کی مرضی کے تحت زندگی کی ساعتیں بسر کرنا ہی مقصد تخلیق ہے اور یہی کامیابی ہے۔آج بھی اگر کوئی اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتا ہے تو یہ عمل اُسے اُسی زمانہ جاہلیت کی طرف لے جاتا ہے جو آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے تھا۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ دین اسلام فرائض کی ادائیگی کا حکم فرماتا ہے۔انسانی معاشرے میں خوبصورتی تب پیدا ہوتی ہے جب ہر کوئی اپنے فرائض کی ادائیگی کرے اگر فرائض ادا نہ ہوں اور صرف حقوق کی بات ہوگی تو کسی کو بھی اُس کے حقوق نہیں مل پائیں گے۔کیونکہ ایک کا فرض دوسرے کا حق ہوتا ہے اگر سب اپنے فرائض کی ادائیگی کریں گے تو اس طرح ہر ایک کو ان کے حقوق بھی مل جائیں گے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ یہ فانی جہان ہے ابھی فرصت ہے آخرت کا انحصار اسی دنیا کی زندگی پر ہے جہاں انعامات کی بات ہوتی ہے وہاں سزا کا ذکر بھی ملتا ہے۔ہر ایک خود کو جانتا ہے کہ میں صحیح کر رہا ہوں یا غلط کر رہا ہوں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی جزا و سزا کے بغیرچلا جائے جس نے جتنا کیا ہوگا اتنا وہ جواب دہ بھی ہو گا،آپ ﷺ کا بنیادی فریضہ حق پہنچانا تھا اور یہ فرض آپ ﷺ نے انتہائی خوبصورتی سے ادا کیا تب سے لے کر آج تک غلط اور صحیح کی پہچان ہر بندے تک پہنچ چکی ہے چاہے کوئی پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے اب یہ ہر ایک کا اپنا اختیار ہے کہ وہ حق کی طرف جاتا ہے یا ناحق اختیار کرتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔ امین 
Akhrat ka Inhisaar isi dunia ki zindgi pr hai - 1

روح کو دنیا میں کیسے بلایا جاتا ہے

Watch Rooh ko dunia main kaise bulaya jata hai YouTube Video

قرارداد پاکستان کے اہم محرکات


وطن عزیز انگریز وں نے مسلمانوں سے لیا تھا اور اصول بھی یہی ہے کہ کوئی قوم جس سے وہ ملک لیا گیا ہو۔اگر اس ملک کی سلطنت چھوڑی جاتی ہے، حکومت چھوڑی جاتی ہے توواپس اس کے سپرد کی جاتی ہے۔لیکن حالات ایسے نہیں تھے۔انگریز برصغیر سے اس لیے گیاکیونکہ اس پر ہندو اور مسلم آبادیوں کا پریشر تھا۔ جب جنگ عظیم برپا ہوئی اس جنگ عظیم نے انگریز کو اس حد تک کمزور کردیا کہ نہ صرف یہاں سے بلکہ دنیا کے بے شمار خطوں سے اسے اپنی فوج واپس بلانا پڑی، وہ کمانڈ نہیں کرسکتاتھا، کنٹرول نہیں کرسکتا تھا۔ علامہ اقبال نے آلہ آباد کے جلسے میں دوقومی نظریہ پر بات کی کہ ہندو مذہب الگ ہے۔ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے۔ آج جہاں مینار پاکستان ہے اور اللہ شاہد ہے، شاید میں غلط ہوں، میں سمجھتا ہوں ہمارے بچوں کی کثیر تعدادجو سوائے اس کے کہ یہ ایک  Monumentہے،یہ ایک خوبصورت جگہ ہے، یہ ایک سیر گاہ ہے۔ اس سے آگے کچھ جانتے ہوں کہ اس کی تعمیر میں،اس کی بنیادوں میں کتنی اللہ کی مخلوق ہے۔ جن کا خون اور ہڈیاں صرف ہوئیں؟ہماری آج کی نسل اس کی تعمیرکے فلسفے سے اس طرح آشنا ہی نہیں ہے کہ جس کشت خون پر،جن ظلموں کو سہتے ہوئے افراد نے اس کی بنیادوں میں اپنی زندگیوں کا حصہ ڈالا۔
  بات میں نظریہ پاکستان کے حوالے سے کرنا چاہ رہا ہوں۔23 مارچ 1940کوجو مطالبہ اور Discussion آل مسلم لیگ جو متحدہ مسلم لیگ تھی کے پلیٹ فارم سے دیا گیا۔ میں نے مختلف جگہ سے چنداقتباسات اکھٹے کئے۔ کس نظریے پر ہم نے یہ وطن عزیز حاصل کیاہے؟میں تھوڑا سا وہ حصہ جو اس سے متعلق ہے اختصار سے عرض کرتا ہوں۔ 
  The Lahore Resolution    قراد داد لاہو ر 
The Muslim League helds its annual session at Lahore on 22 to 24 March 1940. The Lahore resolution was moved by Mulvi Fazul Ul Haq and second by Chuhdory Khaleeq Uz Zaman that finally approved on March 24, 1940. Jinah rightly expressed his viewable remarks about the politics circumstances of India 
The muslims stands he said:                                                                                
 آگے وہ الفاظ ہیں جو محترم قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں۔وہ فرماتے ہیں۔
 '' The Indian problem is not tunal but international no consitution can work without recognizing this reality, muslims of India will not accept a constitution that established a Government of Hindu majority on them, if Hindus and Muslims are placed under one democrative system this would means HinduRaj''    
  آگے یہ تحریر لمبی ہے۔اس لئے میں آپ کے سامنے صرف قرار داد کا متن عرض کرتا ہو ں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ
۱۔   وفاقی نظام جو کہ انڈین ایکٹ 1935کے تحت ہو وہ مسلمانوں کونامنظور ہے۔ 
۲۔  کوئی نیا تبدیل کردہ آئینی منصوبہ قابل قبول نہیں۔ جب تک اس کی منصوبہ بندی مسلمانوں کی رضامندی اور منظوری سے نہ ہو۔
۳۔  شمال،  مغرب اور مشرق میں ملحقہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ علیحدہ آزاد مسلمان مملکت بنائی جائے۔ جہاں کا آئین خود مختیار اور آزاد ہو۔
۴۔  مسلم اقلیت کے حقوق کی حفاظت کو اہمیت دی جائے۔
یہ وہ نقاط ہیں جو اس قرارداد کامتن ہیں۔ اس کے ساتھ میں نے عموما ً میڈیا پر یہ دیکھا ہے۔سنا ہے کہ جب وطن عزیز معرض وجود میں آیاتو نفاذاسلام کے لیے جو آج بحث وتمہید ہور ہی ہے۔تب وہ کیوں نہیں ہوئی۔ لیکن اس وقت اس سلسلے میں جو اخذ کردہ نقاط 1956 میں آئین کا حصہ بنے۔ حاضرین محفل ایک لمحے کو ان کو بھی سن لیجئے:
۱۔   حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اس نے مملکت پاکستان کے سپرد کی، اپنے بندوں کے توسط سے ان اصولوں حدود کے درمیان جو کہ اس نے بیان فرمائے جو کہ ایک متبرک ذمہ داری ہے۔
۲۔  مملکت اپنی طاقت اور حاکمیت اپنے منتخب کردہ بندوں سے چلائے گی۔
۳۔  اسلامی قوانین، جمہوریت،آزادی، مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کاپوری طرح عمل ہوگا۔ 
۴۔  مسلمان اپنی ذاتی اور اجتماعی طرز زندگی قرآن اور سنت کے مطابق طے کریں گے۔
۵۔  اقلیتوں کو اپنا مذہب اور تہذیب اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔
۶۔   پاکستان میں ایک فیڈریشن ہوگی۔
۷۔   بنیادی حقوق کی ضمانت ہوگی۔
۸۔اور آخری آٹھوں پوانٹ جسے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ قراد داد مقاصد کے متن کو سامنے رکھتے ہوئے۔ عدلیہ آزاد ہوگی۔
یہاں تک جب آپ اور میں پہنچے ہیں تو ضمناً وہ محرکا ت آپ کے سامنے عرض کردوں کہ جن محرکات کی بناء پر حالات اس نہج کو پہنچے۔   تومتحدہ ہندستان میں پاکستان کو الگ اسلامی بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے جومحرکات میں پہلا محرک ہے وہ فرقہ وارانہ فسادات ہے، ملک آزاد ہو گیا، لاکھوں جانیں قربان ہو گئیں اور آج پھر وہی فرقہ وارانہ فسادات؟ پاکستان بنانے کا دوسرا محرک معاشرتی تقسیم تھایعنی معاشرے میں جو مقام ومرتبے کی تقسیم تھی۔چونکہ ہندو مذہب میں انسانوں میں بے شمار درجے ترتیب دئیے گئے ہیں اوریہ ممکن بھی نہیں ہے کہ جو ہندو اعلیٰ درجے کا ہے،اس کے ساتھ کسی ادنیٰ درجے کے ہندو کا ہاتھ یا اس کا کپڑا یا اس کی کوئی چیزمس کر سکے۔ یعنی معاشرتی حالات اور معاشرتی حالات میں وہ حیثیتوں کی تقسیم۔پاکستان کی تعمیر میں تیسرا محرک مسلم زبان و ثقافت ہے۔زبان وثقافت وہ تقابل جو ہمیں قرب عطا کرتا ہے دین محمد الرسول اللہ ﷺ اوراس وطن عزیز میں اپنی ثقافت دیکھیں، ثقافت کے نام پر آج ان اکہترسالوں میں جو بیج ہم نے بویا ہے اس کا درخت کہاں کھڑا ہے؟ کتنا اس کی چھاؤں میں ہم گرمی سے محفوظ ہیں؟ پھر بات آئی دو قومی نظریہ کی جو حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ نے آلہ آباد کے اپنے خطبہ میں بیان کیا۔ جس نظریے پر ہم نے وطن عزیز حاصل کیا۔ میں یہ سمجھتا ہو کہ جن نظریات پر ہم نے اپنی قوم کو جوان کیا ہے۔ اس میں جذبات بھی بہت شدت رکھتے ہیں۔ Aggression بہت زیادہ ہے اور پھر اوپر سے یہ جتنے points  تھے ان میں کتنی خوشحالی ہم نے حاصل کی ہے؟جو دعوی حق، جو کلمہ حق، جو محبت محمد الرسول اللہ ﷺ کے دعوے دار ہیں اور جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں ہمارے کردار کا حصہ کہاں تک جا رہا ہے؟ چہ جائیکہ معاشرے کی بات کی جائے۔ پھر آگے جو پانچواں پوانٹ ہے وہ آتا ہے 1937 کی کانگرسی وزارتیں کا۔چونکہ انگریزمسلمانوں کو یہ ملک نہیں دینا چاہتا تھا۔اس نے کانگرس کو طاقت دی۔ کانگرس طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے۔Reaction  میں ایک حصہ یہ بھی شامل ہے۔چھٹا اور آخری پوانٹ جو میں نے تحقیق کرتے ہوئے محرکات میں اخذ کیا ہے وہ ہے اسلامی نظام کا قیام۔ 
یہ وہ ساری گزارشات ہیں جو 22 تا 24 مارچ 1940 کو علامہ اقبال پارک میں، جس کی یاداشت کے لیے 1960 میں مینار پاکستان تعمیر کیا گیا،جو صرف اس لیے تعمیر نہیں کیا گیا کہ میرے اور آپ کے بچے وہاں سیر کو جائیں۔اس لیے تعمیر کیا گیا کہ ہماری آنے والی نسل اپنے والدین سے یہ سوال کرے کہ بابا یہ کیا ہے؟اوراس کی تعمیر کا مقصد کیا ہے؟وہا ں پر یہ پیش کی گئی اور تقریباً ایک لاکھ افراد کا مجمہ تھا جنہوں نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔ 
تاریخی اعتبار سے برصغیر وہ خطہ ہے جہاں دنیا بھر سے جو بھی اقوام اس قابل ہوئیں کہ اپنے ملک سے نکل کر کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کر سکیں۔یہاں پر ہر طرف سے مختلف اوقات میں حملہ آور آئے۔ کیا وجہ تھی؟ یہ وہ خطہ زمین ہے جسے اللہ جل شانہ نے ہرطرح کے موسموں سے نوازا ہے۔ہر طرح کے زمین کے زیروبم سے نوازا ہے اور اس خطہ زمین کے زیرزمین حصے میں ہر وہ شے ہے جو رب العالمین نے اس دنیا میں پیدا فرمائی۔اس خطہ زمین کا گرم پانیوں کے ساتھ بھی جوڑ ہے اور برفستان کے ا ن حصوں میں جو دنیا کے Heighest peak  کے ساتھ بھی اس کا جوڑ ہے۔ اس میں دنیا کی زندگی بسر کرنے کے لیے،ضروریات زندگی کو اکھٹا کرنے کے لیے،ضروریات زندگی کو پیدا کرنے کے لیے،بے پناہ وسائل پیدا کیے۔جب بھی یہاں کوئی ایسا حاکم آیا کہ جس نے ملک تعمیر کیا تو اس نے یہاں پر اتنی ترقی کی کہ دنیا کی اقوام جو اس قابل ہوئیں کہ کہیں سے اگر ہمیں کچھ حاصل ہو سکتاہے۔ حملہ آور ہو کریاچالاکی سے یہاں سے حاصل کرے، وہ اس خطہ زمین تک آئے۔یہ دنیا کی تاریخ ہے۔جتنی بھی یہاں فوج کشی کی گئی، ان سب کا مقصد یہی تھا کہ یہاں سے جو مال و زر ہے وہ اکھٹا کیا جائے۔جس وقت تک ان کے اندر قوت قائم تھی کہ تسلط قائم رکھ سکتے تھے۔تب تک ہر حملہ آور قوم نے یہاں تسلط قائم رکھا۔ 
انگریزکمزور ہوا۔یہ بات صرف 1947 کی نہیں ہے۔ جنگ آزادی لڑنے والوں کے بڑے کارنامے ہیں۔آپ تاریخ کھولیں ان کی باتیں سن کر انسانی وجود کا خون گرم ہوجاتا ہے۔ جنہیں ہم ہی میں سے میر جعفر اور میر صادقوں نے انگریز کے سامنے بیچا اور انہوں نے ڈاکو کہہ کرانہیں قتل کیا اور پھانسیاں لگائیں۔ ان کی زندگیوں کے حالات دیکھو۔وہ اپنے ملک،قوم، اپنے دین کی آزادی کے لیے کس طرح لڑے؟اگر 1857 کی جنگ آزادی کو دیکھ لیں توکتنے لوگ تیغ تیغ ہوئے؟کتنے لوگوں کے سینوں پربندوق کی گولی آکرٹھنڈی ہوئی؟ پھر چلتے چلتے بات جب دو قومی نظریہ پر آئی۔ علمائے کرام بھی ساتھ ہوگئے۔جن میں سے کچھ علماء جیسے ابو کلام آزاد رحمۃاللہ جیسے لوگ، انہوں نے اس بات کی مخالفت بھی کی کہ ایسا نہ کرو،آپ کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے۔ پریس والے اگر تلاش کریں تو وہ اخبار بھی کسی نہ کسی لائبریری میں ضرور مل جا ئے گا، پورا صفحہ چھپا تھا۔ جب مولانا آزاد لاہور آئے اور ریلوئے سٹیشن پر لوگوں نے  hesitaion  کی،ان کے خلاف نعرہ بازی کی گئی تو وہ ٹرین سے باہر آگئے۔ انہوں نے فرمایاتم لوگ نعرے لگا رہے ہو۔ میں دین کا مخالف نہیں ہوں۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ ان لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھی جس مقصد کو تم جارہے ہو،اس کا حصول مجھے نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ میں شاید زندہ رہوں یا نہ رہوں، یہ بات یاد رکھنا۔
وطن عزیز دین اسلام کے نام پر بننے والی مدینہ منورہ کے بعد یہ دوسری حکومت ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ ہمارے لیے1947  کی ہجرت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ ہجرت ایسے تھی جیسے کوئی ایک شہر سے دو سرے شہر آگئے ہوں۔ہم ان ٹرینوں کے شاہد نہیں ہیں کہ جس ٹرین کا صرف ایک ڈرئیور سلامت پاکستان پہنچا۔ باقی سارے مرد وزن، بچے، بوڑھے، جوان ہر کوئی تیغ تیغ ہوکر راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ بچوں کو نیزوں پر چڑھا کر پاکستان کے نعرے لگوائے گے کہ یہ لواپنا پاکستان۔ حکومتی حساب کتاب کے مطابق چراسی ہزار ہماری بچیاں ہندووں اور سکھوں کے گھروں میں رہ گئیں۔قابل احترام خواتین و حضرات! ایک لمحے کو سوچوتو سہی کہ میں اور آپ اس طرح ہجرت کررہے ہوں۔ نہ ہمارا گھر ہو، نہ ہمارا مال محفوظ ہو، نہ ہماری جان محفوظ، نہ ہماری عزت محفوظ، نہ ہمارے والدین محفوظ، نہ ہماری بیوی محفوظ، نہ ہماری بیٹی محفوظ، نہ ہمارے جگر گوشے محفوظ،نہ اپنے سینے محفوظ ہوں، اس لمحے کو خیال تو کر کے دیکھو۔تصور بھی اگر کرو گے تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
  آج جو ظلم ہوتا ہے، اس کا ظلم تو ایک طرف اس ظلم کی تشہیر پورے ملک میں ہم کر رہے ہوتے ہیں۔مجھے اندازہ نہیں ہے میں یہاں آیاہوں تو سلامت گھرواپس جاؤں گا یا نہیں۔کیا اندازہ ہے کہ کسی گاڑی میں بیٹھیں گے تو ساتھ بیٹھنے والا جیب نہ کاٹ لے؟کیا اندازہ ہے کہ کسی چوکی پر جو حکومت کے اہلکار بیٹھا ہے وہ کیا سوال کرے گا؟ وہ اہلکارجو ہماری مدد کے لیے ہیں، جو ٹیکس عوام دیتی ہے، اس سے انہیں تنخواہ ملتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ کو خوف محسوس نہ ہو۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟ کہ ہم عام آدمیوں کے لیے قانون اور ہو۔ ہمارے بچے تو بھوک سے مریں اور صاحب اقتدارطبقے کے مور مر جائیں تو بھی اس کے لیے ذمہ دار معطل ہوجائیں۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟کہ امیر کا مقام او ر ہو غریب کا مقام اور ہو۔ امیر کی عزت او ر ہو غریب کی عزت اور ہو۔کیا وطن عزیز اس لیے بنایا تھا؟
ہمیں فرقہ وارانہ،نسلی فسادات میں الجھایادیا گیا۔ہمارا معاشرہ ایک دوسرے کو  زیر کرنے میں مصروف ہے۔ آج لوگوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺکا فرمان کیا ہے؟ ہم اپنی تخلیق کے مقصد سے کتنے دور جا چکے ہیں؟ محمد الرسول اللہ ﷺ اللہ جل شانہ سے شناسائی عطا کرنے کاواحد ذریعہ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْھِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الممتحنۃ:(6 بحثیت بندہ مومن راہنمائی کے لیے حضرت محمد ﷺمبعوث ہوئے ہیں۔ہم عاشقان رسول ﷺ کہلاتے ہیں۔ ہم آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ عشق کرتے ہیں۔ہمارے اعمال جو ہم عملی زندگی میں اختیار کرتے ہیں کیا اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری محبت محمد الرسول اللہ ﷺ سے ہے؟ یاد رکھیے جب مسلمان معاشرے حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دیتے ہیں توقومیں تقسیم ہو جاتی ہیں اور اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ ایک ددسرے کے گلے کاٹتے ہیں۔ جب کہ اللہ جل شانہ نے اس دارفانی میں جو بھی مخلوق پیدا کی ہے ان سب میں انسان کواشرف المخلوقات بنایاہے۔
آج کے اس 23مارچ1940 کے دن کے حوالے سے میری صرف اتنی گزارش ہے کہ میرے اور آپ کے پاس ایک اختیار ہے خدارا اس کا خیال کر لو۔میں اور آپ بائیسواں کروڑواں پاکستان ہے۔ میں، آپ کے سامنے اس پاکستان کی بائیسوایں کروڑواں اکائی بیٹھا ہوں۔ میں اور آپ ایک، ایک پاکستان ہیں۔معاشرے افراد سے بنتے ہیں۔خداراہ اس پاکستان کا خیال کرو۔ انشاء اللہ رب العالمین ہمارے اس وطن عزیزکی بھی حفاظت فرمائے۔اللہ جل شانہ مجھے، آپ کو آج کی اس محفل میں حاضر ہونا قبول فرمائے۔یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اور آپ بائیس کروڑواں پاکستان ہیں۔ اس پر اللہ کا قانون نافذ ہو۔ اس کو اس نہج پر چلائیں کہ اللہ کریم مجھے اور   آپ کواس چھ فٹ کے بدن پر نفاذِ اسلا م کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
         کبھی  نور  بانٹتا  تھا  تیرا قافلہ جہان میں             مگر  آج  تیرا مسلم ظلمت میں گھر گیا ہے
          اسے  اک  نظر عطا کر اسے خود سے آشنا کر         یہی  ہے  علاج  اس کا ورنہ یہ مٹ رہا ہے

ذکر کثیر کیسے ممکن ہے

Watch Zikr-e-Kaseer kaise mumkin hai YouTube Video

حلت و حرمت

Watch Hillat-o-Hurmat YouTube Video

ضروریات دین کا جاننا،ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے


خود سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے دینا بہت بڑا ظلم ہے۔اللہ کریم جو ساری کائنات کے خالق ہیں جو اصول انہوں نے عطا فرمائے ہیں کیسے ممکن ہے کہ کوئی ان سے تجاوز کر ے اور پھر بہتری کی اُمید بھی رکھے۔تمام طرح کے اختیارات اللہ کریم کے پاس ہیں اسباب میں نتائج بھی وہی پیدا کرتے ہیں ہم صرف ایماندار ہیں،امین ہیں ہمیں اپنا ہر کام اُسی کے حکم کے مطابق کرنا ہے۔قیامت تک کے لیے اُس کے احکامات قابل عمل ہیں وہ اصول اختیار کیے جائیں جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں۔ذاتی پسند و ناپسند اختیار کرنے سے انسانی حیات میں شد ت آتی ہے۔ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان  امیر عبدالقدیر اعوان  کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔ 
  انہوں نے کہا کہ اللہ کی یاد اور عبادات بندہ مومن کے لیے تحفظ کا باعث ہوتی ہیں اور اُس کی زندگی میں ٹھہراؤ آتا ہے۔ سکھ اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ تکالیف میں بھی اُس کا دل مطمئن رہتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔یہ ضروری ہے پسند ذاتی کو اللہ کریم کی پسند کے تحت لے آئیں۔کیفیات محمد الرسول اللہ ﷺ سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شئے دین ہے تو چھوڑی نہیں جائے گی اگر بے دینی ہے تو اپنائی نہیں جائے گی۔نیکی دنیا کی زندگی میں بھی ٹھہراؤ لاتی ہے اور برائی خود بھی گناہ ہے اور معاشرے میں فساد کا سبب بنتی ہے۔یعنی برائی دنیا و آخرت کے لیے نقصان دہ ہے۔  ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔اس عملی زندگی میں جو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہم کتنا اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے ضروریات دین کا جاننا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔امین
Zaroryaat-e-deen ka janna, har aik ki bunyadi zimma daari hai - 1