Latest Press Releases


سینوں میں فرعونیت کا در آنا اور دولت کی حرص معاشرے میں فساد کا سبب ہے


معاشرے میں ہر بندے کا عمل اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔انسانی کردار معاشرے میں ایک حدت پیدا کرتا ہے جب یہ بڑھتی ہے تو شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور شدت بڑھنے سے فساد برپا ہوتا ہے۔اللہ کریم کی طرف سے آنے والی تنگی اور امتحان بھی ہمیں واپس اصل راہ پر لانے کے لیے ہوتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوا ن پاکستان کا دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ اس وقت بحیثیت مجموعی معاشرے کی روش درست نہ ہے اور ہماری زندگی میں جو پریشانیاں او ر تکالیف ہیں یہ اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ہمارا رخ کس طرف ہے اور ہمارے اعمال کیسے ہیں۔ہماری نیت،ہمارا کلام او ر ہمارے فعل کو اگر قرآن و سنت کے پیمانے پر رکھا جائے تو پتہ چلے کہ کتنا درست ہے۔روز آخرت ہمارا کیا گیا ہر عمل ہمارے سامنے ہوگا۔اس وقت کی رسوائی سے بہتر ہے کہ آج ہم اپنے گناہوں کو سامنے رکھتے ہوئے معافی کے طلب گار ہوں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر ہم دھیان نہیں دیتے وہ لالچ جن کی وجہ سے ہم دوسروں پر اپنی امیدیں قائم کر لیتے ہیں یہ بھی شرک کی ایک تار بن جاتی ہے۔ہمیں اپنی امیدوں کا مرکز اللہ کریم کی ذات کو رکھنا چاہیے تو نتائج بھی پھر ویسے آئیں گے تو اگر راستہ ہمارا کوئی اور ہے اور منزل کوئی اور چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا جیسی راہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ویسی ہی منزل بھی سامنے آتی ہے۔
  اس کے علاوہ آج انگلینڈ کے ساتھیوں سے بھی حضرت جی مد ظلہ العالی نے ذوم ایپلیکیشن کے زریعے خطاب فرمایا اور انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے کردار کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کردار سے معاشرے میں بہتری آئے لوگوں کے لیے بھلائی ہو جس معاشرے میں ہم رہتے ہوں وہاں کے لوگوں کے لیے ہمارا کردار تبلیغ کا کام کرے تا کہ دین اسلام اصل چہرے کے ساتھ غیر مسلم کے سامنے آئے۔جب ہم ذکر الٰہی کو اپنے معمولات میں شامل رکھیں گے تو اس سے عام آدمی سے زیادہ اسطاعت نصیب ہوتی ہے بندہ عام آدمی سے زیادہ محنت کرتا ہے،حلال حرام کی تمیز کرتا ہے سچ اور جھوٹ کا دھیان رکھتا ہے غرض کہ اس کی زندگی خوبصورت ہوتی چلی جاتی ہے اور نبی کریم ﷺ کے اتباع میں ڈھل جاتی ہے۔
 آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خصوصی دعا بھی فرمائی۔
Seenon mein fraonit ka dar aana aur doulat ki hiras muashray mein fasaad ka sabab hai - 1

عالم وہ ہے جس نے حق کو پہچان لیا پھر اس حق کے اثرات بندہ کو دعوے سے لے کر عمل تک لے جائیں


ہمارا نظام تعلیم انسانیت کی تربیت نہیں کر رہا اسے تقویت نہیں دے رہا صرف سٹاف پورا کر رہا ہے۔وہ کون سا علم ہے جو حقیقت سے آشنا نہ کر سکے۔شب و روز سامنے ہیں اللہ کی واحدانیت کے ہزاروں پہلو موجود ہیں اس کائنات میں پھر بھی اگر کوئی حق نہ پہچان سکے تو وہ جاہل ہے۔علم انسان کو اس دنیا میں اس طرح زندگی گزارنا سکھاتا ہے جس سے آخرت کی تعمیر ہوتی ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ دنیا کا قائم رہنا نور نبوت ﷺ سے ہے،ایمان سے ہے۔انسانی کردار کے مطابق روح کی شکل ہوتی ہے۔اگر اقوام سابقہ کے حالات دیکھیں تو ان کے بد اعمال کے نتیجہ میں ان پر اجتماعی عذاب آتے کسی قوم کی شکلیں بگاڑ دی گئیں کسی پر آگ برسی کسی پر پتھروں کی بارش کی گئی یہ سب ان کے اعمال کی وجہ سے ہوا،کسی میں بے حیائی عام تھی کسی قوم میں جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا کسی قوم کے لوگ لین دین میں ناپ تول میں کمی کرتے تو ان کے اعمال ان پر اجتماعی عذاب کا سبب بن گئے۔
  نبی کریم ﷺ کی بعثت کی برکت کی وجہ سے آپ کی امت سے اجتماعی عذاب اُٹھا لیے گئے اگر دیکھا جائے تو وہ ساری برائیاں آج ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔انسان جس طرح کا راستہ اختیار کرتا ہے ویسے ہی نتائج مرتب ہوں گے۔اگر کہیں کمی بیشی ہوجائے تو اپنے آپ کو اللہ کریم کی پناہ میں دے دینا چاہیے۔بندہ مومن کا ضابطہ حیات اللہ کریم نے طے فرما دیا ہے معاشی معاملات ہوں یا معاشرتی ذاتی نوعیت کے ہوں یا ملکی سطح کے ہر پہلو میں راہنمائی فرما دی گئی ہے۔بس ہمیں اپنے آپ کو اللہ کے احکاما ت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
  یاد رہے کہ دارالعرفان منارہ میں دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد 2,1 جنوری 2022 بروز ہفتہ،اتوار کو منعقد ہو رہا ہے تمام بہن بھائیوں کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ شرکت فرما کر برکات نبوت ﷺ سے اپنے سینوں کو روشن کیجیے۔ اتوار دن 11بجے شیخ المکرم حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی
Aalam woh hai jis ne haq ko pehchan liya phir is haq ke asraat bandah ko daaway se le kar amal tak le jayen - 1

دین اسلام کے ہر حکم کو غیر مشروط ماننا اور پھر اس پر عمل کرناایمان کی مضبوطی کی علامات ہے


 اللہ کریم کے حکم کو اپنی پوری قوت سے اختیار کرنا اور پھر اس پر قائم رہنا، اسے دین کو مضبوطی سے تھامنا کہتے ہیں۔اللہ کریم نے احسان فرمایا کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا فرمایا۔دین کو جاننے کے لیے انتہائی آسان وسائل عطا فرمائے۔ہر کوئی فرائض کو جانتا ہے،حلال حرام کو جانتا ہے،صحیح غلط کو سمجھتا ہے لیکن عمل کوئی نہیں کر رہا۔مانتا ہے لیکن اپنی شرائط پر مانتا ہے یہ کیسا ماننا ہے۔
 امیر عبدالقدیراعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ دین کو اختیار کرنے سے تقوی کی کیفیت نصیب ہوتی ہے۔ایک تعلق اور مضبوط رشتہ اللہ کریم سے قائم ہو تا ہے  قرب الٰہی کی اپنی کیفیات اور حال ہیں۔اللہ کریم کی وہ حقیقی کیفیت نصیب ہو کہ بندہ خود کو اللہ کے روبرو سمجھے اور اس کا اثر اس کے ظاہری کردار تک پہنچے تو یہی تقوی کی کیفیت بن جائے گی۔اتنے ہم خود اپنے قریب نہیں ہیں جتنی قریب اللہ کریم کی ذات ہے۔صالح اعمال سے مزید ترقی نصیب ہوتی ہے۔اُس کی ذات علیم ہے وہ دلوں کے حال سے واقف ہے ہمارے ارادوں کو جانتا ہے جو ہمارے دل میں ہیں عبادات کا اختیار کرنا اللہ پر احسان نہیں بلکہ عبادات اس کی عطا ہیں اس نے ہمیں عبادات عطا فرمائیں عبادات سے تعلق مع اللہ مزید مضبوط ہوتا ہے اور اعمال بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ مخلوق جو لمحے لمحے کی محتاج ہے کیا کر رہی ہے اور وہ جو خالق ہے وہ عطائیں نازل فر ما رہا ہے۔اگر اللہ کا کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت بڑا نقصا ن ہوتا  اگر ایک لحظہ کو اس کی رحمت منقطع ہو جائے تو سب عدم میں چلا جائے کچھ باقی نہ رہے  آج ہم اپنی ضد اور انا میں پھنسے ہوئے ہیں حقائق نہیں دیکھ رہے اپنے اندر شیطنت ہے جو ہم پر غالب ہے ہمیں بھلائی نہیں کرنے دے رہی اور خو ش بختی ہے ان کے لیے جنہیں اسی جہان میں حقائق نظر آنے لگتے ہیں بندہ اس دنیا میں توبہ کرے اور اپنی زندگی کو صراط مستقیم پر لے آئے وہ ایسا رحیم ہے کہ معاف کرنے کے اسباب پیدا فرما دئیے۔اتنی بڑی عطا کے بعدبھی بندہ زیادتی پر قائم رہے تو وہ خود اپنا نقصا ن کر رہا ہے کسی اور کا نہیں۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Deen islam ke har hukum ko ghair mashroot maanna aur phir is par amal Karna Eman ki mazbooti ki alamaat hai - 1

عبادات سے اللہ کریم کی رضا او ر قرب نصیب ہوتا ہے


 جتنا انسان عبادت گزار ہوتاہے اتنی اللہ کریم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ عبادات کا چھوڑ دینا بدبختی ہے اور اس کا سبب بد اعمال ہیں جو ہم کرتے ہیں۔حلال کھانے سے وجود کو بھی فائدہ ملتا ہے اور اس کے ساتھ روح بھی تندرست رہتی ہے لیکن حرام کے لقمے سے بدن کو تو شاید توانائی ملے لیکن روح کا نقصان ہو گا۔جتنی روحانی حیات کمزور ہوتی ہے اتنا بندہ بے دینی کی طرف جاتا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوا ن شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ ہم اپنی طرف سے کوئی نیکی بدی کا پیمانہ نہیں بنا سکتے۔عملِ صالح وہ ہے جسے نبی کریم ﷺ نے صالح فرمایا اور عمل بد وہ عمل ہے جسے آپ ﷺ نے عمل ِ بد ارشاد فرمایا۔جب بھی دین اسلام کی بات آئے گی یہ بنیادی حصے لازم ہیں جو بھی دعوی ایمان رکھتا ہے اس کی شہادت اس کے صالح اعمال ہیں اگر ایسا نہیں تو وہ صرف ایک دعوی ہی ہے اور کچھ نہیں۔ آپ ﷺ کے ارشادات پر سارے دین کی تعمیر ہے۔ایمان صرف ماننے کا نام نہیں عمل بھی ضروری ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ انسانی مزاج ہے اسے جب تک جزاو سزا کا ادراک نہ ہو یہ حدودو قیود میں نہیں رہتاجب بے دینی ہوتی ہے تو زیادتی اور ظلم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ماننا شکر گزاری کی کیفیت ہے اور اعتراض اور انکار نا شکری ہے نا شکری مقابل کھڑا کر دیتی ہے یہ ایسی بد بختی ہے جس سے بندہ مزید گہرائی میں دھنستا چلا جاتا ہے۔۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Ibadaat se Allah kareem ki Raza aur qurb naseeb hota hai - 1

آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں


 آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے کسی حصے میں ہو یا وطن عزیز میں جو دین اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا۔لیکن ہمارے جذبات ہمارا غصہ آپ ﷺ کے احکامات کے تابع ہیں۔جہاں آپ ﷺ کا حکم ہے جان دینے کا وہاں اپنی جان پیش کرنا عین دین ہے اور جہاں جان لینے کا حکم ہے وہاں پر جان لینا دین اسلام ہے۔اس سے باہر اگر کوئی اپنی مرضی سے ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی خواہش کا اسیر ہو کر قدم اُٹھا رہا ہے۔جو دین اسلام کے خلاف ہے۔اسلام ہمیں کسی جانور کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا درس دیتا ہے چہ جائیکہ کسی انسان کی جان لی جائے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستا ن کا ماہانہ اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی جب بنیاد رکھی تو وہ مواخات مدینہ یعنی مہاجرین و انصار کے آپس میں بھائی چارے کے قیام کی بنیاد تھی جس سے معیشت کی مضبوط بنیاد  وجود میں آئی آج ہمارا ملک جو کہ اس کرہ ارض پر دین اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے ہم مہاجرین و انصار لڑ رہے ہیں ہم نے وہاں سے سبق حاصل نہیں کیا۔دوسرابنیادی اقدام میثاق مدینہ یعنی قانون اور عدل کا قیام آج ہم دونوں پر عمل نہیں کر رہے تو ہماری معیشت کیسے مضبوط ہوگی۔ہم نے دنیا کے قوانین اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ نظام عدل جو کہ آپ ﷺ نے ہمیں دیا اس کو نہ اپنایا تو پھر لاقانونیت کا خاتمہ کیسے ہوگا۔وطن عزیز میں ہونے والے اس نا خوش گوار واقعہ نے ہر ایک کے جذبات کو مجروح کیا ہے ہمارے تمام اعمال دین اسلام کے خلاف ہیں اور بحث جو ہر فورم پر ہو رہی ہے اس کا نشانہ بھی اسلام کو رکھا گیا ہے 
 دیکھنا یہ ہے کہ اس سب کا سبب کیا ہے اس کے کونسے محرکات ہیں جس سے یہ سب کچھ عمل میں آیا۔اسلام اس بنیادی جواز کو ختم کرتا ہے اور یہ درس دیتا ہے کہ اپنی ذات سے نکلنے کی ضرورت ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ اس واقعے کے پیچھے جو سبب ہے اس کو ختم کیا جائے اور مساوی عدل کا قیام عمل میں لایا جائے۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
  یاد رہے کہ 7 دسمبر 2017 کو عظیم ہستی حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ کا وصال ہوا جنہوں نے تصوف کے اس بہر بیکراں کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور آج ہم ان کیفیات و برکات سے سر شار ہیں یہ ان کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے۔وہ ایک عظیم مفسر قرآن،مترجم قرآن،شاعر،ادیب اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائیں ان کے وصال کے بعد ان کے مقرر کردہ جانشین حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے اس مشن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ان کے تمام شعبوں کو مزید فعال کر کے دن رات اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔
Aap SAW ki shaan mein gustaakhi ke murtakib badbukhat hain - 1

اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔


 اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔آج معاشرے میں معاشی تنگی اور معاشرتی افراتفری کا سبب آپ ﷺ کے ارشادات کو جانتے ہوئے سمجھتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں اختیار نہ کرنا ہے۔ہمارا کہنا کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو جب تک ہمارا عمل اعلیٰ نہ ہوگا معاشرے میں مثبت نتائج مرتب نہ ہونگے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اجتماعی خرابی اوپر سے شروع ہو کر ایک اکائی تک آتی ہے جو کہ انفرادی طور پر میرا اور آپ کا کردار ہے۔جب درستگی یہاں سے شروع ہو گی تو پھر معاشرے میں وہ امن اور سکون آئے گا جس کی بنیاد آپ ﷺ نے ریاست مدینہ میں رکھی تھی اور اس  کے بنیادی اصول آپ ﷺ نے فرما دئیے تھے۔قول و فعل کے تضاد سے نکل کر اپنے رزق کے اسباب تک کو اسلام کے مطابق کرنا ہو گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں نفسا نفسی کی وجہ ضرورت سے زائد مال جمع کرنا ہے۔ حلال حرام کی تمیز کیے بغیر حق نا حق دیکھے بغیر ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ جو کچھ بھی میرے ہاتھ لگ جائے اس کو جمع کر لوں یہاں سے فساد شروع ہو تا ہے اور یہ سمجھ لینا کے رزق میں اپنے زور بازو حاصل کر رہا ہوں چاہے اس رزق کے لیے کسی کا حق کھانا پڑے کسی پر ظلم کرنا پڑے یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بدولت معاشرہ افراتفری کا شکار ہے۔
  یار رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 5,4 دسمبر بروز ہفتہ،اتوار  دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں ملک بھر سے سالکین اپنی روحانی تربیت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی اتوار دن گیارہ بجے خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔تمام خواتین و حضرات کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ اپنے دلوں کو برکات نبوت ﷺ سے منور کرنے کے لے تشریف لائیے۔
Allah kareem ke ehkamaat ko janna aur phir un par amal nah karna fisq ki soorat ikhtiyar kar jata hai . - 1

صاحب ایمان پر یہ اللہ کا کرم ہوتا ہے کہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور نتیجہ جو بھی ہو اس پر راضی رہتا ہے۔


دین کا ظاہری پہلو ہو یا باطنی ان میں سے کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ دین اسلام ذریعہ معاش کی حقیقت سے آگاہ فرماتا ہے۔اللہ کریم کی ذات رازق ہے اور ہر ایک کا رزق اس کی پیدائش سے پہلے تقسیم فرما دیا ہے۔ہمیں صرف اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے اور نتیجہ اللہ کریم کے دستِ قدرت میں ہے۔مخلوق حاکم نہیں ہوتی بلکہ خالق کی ماتحت ہوتی ہے حکم صرف اللہ کریم کا چلے گا جو ساری مخلوق کا مالک ہے۔اگر ہمیں سجدہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے تو یہ ہماری خوش بختی ہے اس پر تکبرکرنے کی بجائے مزید شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کریم نے توفیق عطا فرمائی۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
 انہوں نے کہا کہ جس نے انکار کیا اور شکر ادا نہیں کیا اس نے خود پر ہی ظلم کیا۔صاحب ایمان پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ بندہ اپنا معاملہ اللہ کریم کے سپرد کر دیتا ہے۔ہو گا وہی جو میرا اللہ چاہے گا بندے کو چاہیے کہ صبر کے وقت صبر کرے اور شکر کے وقت شکر ادا کرتا رہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ عاجزی اور بخشش کو اپنے اوپر لازم کر لو تو تمہیں اور زیادہ ملے گا۔یعنی دنیا و آخرت میں فراخی ہوگی سہولت ہو گی۔آج بھی جو فرد یا قوم اس اصول کو اپنا ئے گی آج بھی اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا جا چکا۔اپنے آپ کو نیکی کی طرف لے آؤ تو آج بھی کامیابی تمہاری ہو گی۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں 
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Sahib imaan par yeh Allah ka karam hota hai ke woh apna maamla Allah ke supurd kar daita hai aur nateeja jo bhi ho is par raazi rehta hai . - 1

بندہ مومن کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بات ہی حتمی بات ہے


کسی نعمت کا نصیب ہونا اور اس کا شکر ادا نہ کرنا سزا تک لے جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نعمت بھی سلب کی جا سکتی ہے۔ نا شکری دنیا میں مصائب میں مبتلا کر دیتی ہے۔اور نعمت کا شکر ادا کرنا بدگمانی سے بچاتا ہے اور اللہ کریم کے مزید انعامات کا سبب بنتا ہے۔دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا کیا جائے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سر براہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی کامیابی دین اسلام میں ہے،اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ میں ہے،بندگی میں ہے۔یہ حیثیتیں یہی رہ جائیں گی جن پر ہم بحث کر رہے ہوتے ہیں۔یہ ثانوی درجہ پر چلی جائیں گی۔اجتماعی توبہ کرنے سے قومیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں تقدیر معلق بدل دی جاتی ہے عذاب ٹال دئیے جاتے ہیں۔جہاں اختیار ہوتا ہے وہاں صبر اختیار نہیں کیا جاتا جو اساتذہ ہیں ان کے لیے صبر بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ کریم نے استاد کا درجہ عطا فرمایا پھر اپنے مقصد کو دیکھیں اپنے کردار کو دیکھیں کہ مجھ سے ایک طبقہ مستفید ہو رہا ہے کہیں میرے کردار میں کوئی کمی نہ ہو اگر سخت مزاجی صرف استاد اور شاگرد کے رشتہ میں ہی ہے اور باقی زندگی کے کسی شعبہ میں نہیں تو یہ درست نہیں ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Bandah momin ke liye Allah aur Allah ke rasool SAW ki baat hi hatmi baat hai - 1

اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نادم ہوتے ہوئے اللہ کے حضور توبہ کریں


 اس وقت بہت بڑی نافرمانی جو کہ مجموعی طور پر ہم سے سرزد ہو رہی ہے وہ سودی معیشت ہے جس کو حکومت وقت سے لے کر عام آدمی تک اختیار کیے ہوئے ہے۔ہمارے اوپر جتنی بھی مشکلات اور تکالیف ہیں چاہے وہ بد امنی کی صورت میں ہو،مہنگائی ہو یا باہم دست و گریباں ہونا ان سب کی وجہ ہمارے اپنے اعمال ہیں جن کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہم نمازیں بھی پڑھ رہے ہیں نیک اعمال بھی کر رہے ہیں اور حرام بھی کھا رہے ہیں ایسے میں ہمارے سجدوں کی شرف قبولیت کیا ہوگی۔بحیثیت مجموعی ایک سقوط ہے کوئی بھی غلط کو غلط نہیں کہہ رہا۔سب اپنی ذات کو بچانے کی فکر کر رہے ہیں۔ معاشرے میں جو اُلجھاؤ اور تضادات ہیں ان کی درستگی کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ قرآن کریم کو دیکھنا،چھونا،پڑھنا اور عمل کرنا اجروثواب ملتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سے راہنمائی لی جائے اور اپنے کردارکوکے اس کے مطابق ڈھالا جائے۔خود کو صرف دنیا کے حوالے کر دینا مقصد حیات نہیں ہے مقصد حیات اللہ کی رضا ہے۔یہ عارضی اور فانی جہان ہے ہر گزرنے والے دن کے اثرات ہم پر مرتب ہوتے ہیں ہماری زندگی شہادت دے رہی ہے کہ وقت گزر رہا ہے۔کتاب الٰہی عمل پیرا ہونے کے لیے ہے ہماری ذمہ داری ہے ہم دین کو سیکھیں،سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ساری کامیابی اور ہدایت اس اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ اپنے اللہ کے حضور توبہ کریں یہ احساس غالب آئے کہ جو میں نے کیا غلط کیا شرمندگی محسوس ہو ندامت ہو اور سچے دل سے اللہ کریم سے توبہ کی جائے ہم اپنی پسندو نا پسند کو جب اللہ کے حکم کے مقابل لاتے ہیں یہ درست نہیں اللہ کے حکم اور اللہ کی پسند پر زندگی گزارنی چاہیے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Apni ghaltion aur kotahiyon par nadim hotay hue Allah ke huzoor tauba karen - 1

نبی کریم ﷺ سے محبت، ماہ و سال کی قید سے آزاد ہے


 پوری دنیا میں ماہ مبارک ربیع الاول میں نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار،عقید ت کا اظہار کیا جاتا ہے اور مختلف انداز میں محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔لیکن آج ربیع الثانی میں محفل کے انعقاد نے اس بات پر مہر ثبت کی ہے کہ اس اظہا ر محبت کوماہ و سال میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ آپ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں۔کیونکہ آپ ﷺ سے اُمتی کے رشتہ کو کوئی لمحات قید نہیں کر سکتے۔بندہ مومن کی زندگی کا لمحہ لمحہ بھی اس محبت میں گزرے تو بھی کم ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا او جی ڈی سی ایل اسلام آبادمیں بعثت رحمت عالم ﷺ کانفرنس سے خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم کا بہت بڑا احسان کہ ہمیں بعثت محمد الرسول اللہ ﷺ سے نوازا۔نبوت کی ابتداء جو کہ حضرت آدمؑ سے ہوئی اس کی تکمیل بعثت عالی ﷺ سے ہوئی۔نبی کریم ﷺ کو سراج منیرا فرمایا گیا اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔کائنات کا وجود اللہ کریم کی رحمت سے ہے یعنی ہرچیز کی بقا اللہ کریم کی رحمت کی مرہون منت ہے اور اللہ کریم نے آپ ﷺکی ذات اقدس کو باعث رحمت پیدا فرمایا تو بات بہت بلند ہو جاتی ہے اور جہاں بات اتنی بلند ہو وہاں رواجات کا دخل نہیں ہوتا۔یہاں ایسی ہی محبت درکار ہو گی کہ ماہ مبارک تو گزر گیا لیکن ہمارے ثناخواں آج بھی نبی کریم ﷺ کی تعریف کر رہے ہیں آپ ﷺ کی عظمتیں بیان کر رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو حدودو قیود اللہ کریم نے مقرر فرمائی ہیں وہ انتہائی ضروری ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کریم کا احسان کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کا اُمتی پیدا فرمایا۔نبی کریم ﷺ نے ہمیں اللہ کریم سے شناسائی عطا فرمائی کہ ذات باری تعا لٰی کیا ہے،اللہ کریم کی واحدانیت کو کیسے ماننا ہے،اللہ کریم کس بات پر راضی ہوتے ہیں کس بات کو نا پسند فرماتے ہیں۔ہم دعوی عشق مصطفے ﷺ کرتے ہیں لیکن کیا ہمارے اعمال ہمارا کردار اس بات کی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے عاشق ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دعوی عشق بھی چلتا رہے اور زندگی کے معاملات میں ہم اس روش کا شکار ہو جائیں جو روش معاشرے میں چل رہی ہو ہمارے امور دنیا سے پتہ چلنا چاہیے کہ یہ بندہ مومن ہے اس کا تعلق اس کااُمتی کا رشتہ نبی کریم ﷺ سے کتنا مضبوط ہے اتباع رسالت ﷺ کس درجہ کا نصیب ہے۔زندگی کے ایک ایک پہلو میں وہ ادائیں نظر آنی چاہیے جو آپ ﷺ نے ہمیں سکھائیں ہیں۔ہمارے تعلقات،ہمارا لین دین ہمارا اُٹھنا بیٹھنااُس اخلاق کریمہ کی جھلک ہوں جو آپ ﷺ نے مخلوق کو سکھائیں۔تو پھر دیکھیں کہ اس معاشرے میں کیسی اخوت پیدا ہو تی ہے کیسی محبت پیدا ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بندہ مومن جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے لیے برذخ میں سلامتی ہو گی،روز محشر سلامتی ہو گی اس سب کی بنیاد عشقِ مصطفے ﷺ ہے۔آئیں اس معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کریں۔کلام ذاتی ہماری راہ ہو،محمد الرسول اللہ ﷺ ہماری طاقت ہو۔اللہ کریم ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔ 
Nabi kareem SAW se mohabbat, mah o saal ki qaid se azad hai - 1