Latest Press Releases


دین اسلام کے کسی بھی حکم کا مذاق اڑانا بہت بڑی گستاخی ہے


 دین اسلام کے کسی بھی حکم کا مذاق اڑانا یا بطور خوش طبعی محافل میں دہرانا بہت بڑی گستاخی ہے۔ ایسی محافل جہاں دین اسلام کے احکامات میں شکوک و شبہات کو فروغ دیا جا رہا ہویا عقائد کا مذاق اڑایا جائے ان سے دور رہنا چاہیے ایسی جگہیں اللہ کے غضب کا شکار ہوتی ہیں۔یاد رکھیں کہ جن کے دل میں شک پیدا ہو جاتا ہے وہ متذبذب کا شکار ہوتے ہوئے عمل سے دور ہو جاتے ہیں اور ایسے قلوب جو یقین اور کیفیات کی دولت سے مزین ہوتے ہیں وہ یہاں اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی برذخ کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ جب بندہ اپنی ضد اور انا پہ ڈٹ جاتا ہے پھر وہ حق دیکھتے ہوئے بھی اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔اللہ کے حبیب ﷺ نے حق بیان فرمایا کسی نے مانا اور کسی نے انکار کیا لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی حق کا انکار کرنے سے دنیا بھی تباہ ہوتی ہے اور اُخروی زندگی جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے وہاں بھی گھاٹا ہی رہا اور اللہ کے عذاب کو بھی دعوت دی۔ذاتی ضد اور انا مزید مسائل سے دوچار کرتی ہے۔معاملات زندگی کے کسی بھی حصے کو دیکھیں ہر پہلو سے اللہ کا حکم اختیار کرنے سے استفادہ حاصل ہوتا ہے دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جو قوت سرف کر رہے ہیں کیا اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ہے۔بنیاد اللہ کریم کا حکم ہے اور ہمارے ذمہ اس حکم کی تعمیل ہے بس یہی بندگی ہے۔نسانی ضروریات و خواہشات کے ہوتے ہوئے انہیں عبور کرکے بندہ اسلام پر ڈٹ جائے۔یہی مسلمانی ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
Deen Islam ke kisi bhi hukum ka mazaaq urana bohat barri gustaakhi hai - 1

اہل مغرب کی مان کر خالق کائنات کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں اور سودی نظام کو ہم نے اپنے گلے کا ہار بنا لیا ہے


موجودہ ملکی صورتحال میں ہم توانائی کے بحران سے گزر رہے ہیں۔عام آدمی اس کی وجہ سے مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ہم نے پیاس بجھانے کے لیے جس برتن سے پانی بہہ رہا ہے جس میں کئی سوراخ ہیں اس سے امید لگارکھی ہے ان سوراخوں کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔ان حالات میں بظاہر جو نظر آرہا ہے اس میں حقیقت نہ ہے بلکہ اصل حالات کچھ اور ہیں جو کہ ہماری نظر سے پوشیدہ ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا 40 روزہ سالانہ روحانی تربیتی اجتماع کے آخری روز خواتین و حضرات کی بہت بڑی تعداد سے خطاب!
  انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت زنا عام ہے اور نکا ح کو مشکل کر دیا گیا ہے۔حلال روزی کمانا مشکل اور اور چوری ڈاکہ کو آسان کر دیا گیا ہے۔ان اعمال کے بعد ہم اللہ کریم سے کیا امید رکھیں کہ ہم پر خوشحالی آئے یا ہم سکو ن کی زندگی گزاریں گے۔سود کے متعلق اللہ کریم نے فرمادیا ہے کہ اُس کا لین دین کرنے والے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کرے گا۔کیا اس جنگ میں وہ جیت سکتا ہے۔ہرگز نہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس وقت تمام نظام کو اپنے عقل و خرد سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالانکہ اللہ کریم نے ہمیں قرآن کریم عطا فرمایا۔جس میں زندگی گزارنے کا مکمل اسلوب موجود ہے۔ہم اس کے سنہری اصولوں کو اپنا کر ہی خوشحال ہو سکتے ہیں۔امن کی بہاریں آسکتی ہیں اب بھی ہر ایک کی عزت محفوظ ہو سکتی ہے۔بشرطیہ کہ ہم ان اصولوں پر ملک کے نظام کو لے آئیں جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے عطا فرمائے ہیں۔
  یاد رہے کہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے مرکز دارالعرفان منارہ میں 40 روزہ سالانہ روحانی اجتماع جاری تھا جس میں ملک کے طول و عرض اور بیرون ممالک سے بھی سالکین کی بہت بڑی تعداد نے جن میں خواتین کی بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی  اپنی روحانی تربیت کے لیے تشریف لائے۔
Ehal-e- maghrib ki maan kar khaaliq kaayenaat ko chore kar makhlooq se umeeden wabasta kar li hain aur soodi nizaam ko hum ne –apne gilaay ka haar bana liya hai - 1

قرآن کریم سے وابستگی باعث برکت ہے


اللہ کریم نے ہمیں عبادات کا سلیقہ عطا فرماتے ہوئے نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔خانہ کعبہ تجلیات باری کا محور ہے اور اس کراہ ارض کا مرکز بھی ہے۔بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔آپ ﷺ نے تعمیل حکم بجا لاتے ہوئے دوران نماز رخ بیت اللہ کی طرف کیا۔اور اللہ کریم نے آپ ﷺ کا آسماں کی طرف دیکھ کر دعا کرنے کے عمل کو شرف قبولیت سے نوازا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا قرآن کریم سے وابستگی باعث برکت ہے۔اسے اپنے پاس اپنے گھر دفتر میں رکھنا،اسے دیکھنا،چھونا،سیکھنا سیکھانا عمل کرنا ہر طرح سے انسان اس کی برکات سے مستفید ہو تا ہے۔اصل مقصد اس کے مطابق زندگی کو ڈھالا جائے کیونکہ یہ زندگی کا نصاب ہے۔جب قرآن کریم ہر پہلو سے راہنمائی فرما رہا ہے تو جس کے لیے راہنمائی ہے اس کے ذمہ نہیں ہے کہ اسے کھولے،اسے سمجھے اس پر عمل پیرا ہو۔ دین اسلام میں خواہشات ذاتی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ خواہشات ذاتی کو دین کے تحت رکھنے کا حکم ہے انسان کو اللہ کریم نے فطرتی طور پر مل جل کر رہنے والا بنایا ہے۔اگر ہم زندگی قرآن کریم کے تحت گزاریں تو ہماری زندگیاں سہل اور آسان ہو جائیں۔بنیادی طور پر قرآن کریم کی تفسیر اخلاق کریمہ ہیں،حدیث مبارکہ،سنت خیر الانام  ہے۔جس بات کو جس کام کو جیسے آپ ﷺ نے فرمایا وہ اسی طرح کی جائے گی تو عنداللہ قبول ہو گی۔ہم اپنی پسند یا اپنے علم کے زور سے کوئی نئی راہ دین میں تلاش نہیں کر سکتے دین وہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمایا صحابہ نے آپ ﷺ کے سامنے اس پر عمل کیا اور آپ ﷺ نے تصدیق فرمائی کہ یہی مراد تھی۔یہی سارا دین اور اس کی عملی تفسیر ہے۔
یادر رہے کہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے مرکز دارالعرفان منارہ میں 40 روزہ سالانہ تربیتی اجتماع جاری ہے جس میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی  3 جولائی بروز اتوار کو دن گیارہ بجے اجتماع کا اختتامی بیان اور اجتماعی دعا فرمائیں گے۔تمام خواتین و حضرات کو اس بابرکت پروگرام میں دعوت عام دی جاتی ہے۔
Quran kareem se wabastagi baais barket hai - 1

ملکی حالات کی بہتری کے لیے ہمیں خوابوں سے نکل کر اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے


 وطن عزیز میں جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام نہیں کر تے اور خواب دیکھتے رہتے ہیں۔بندہ مومن کا یہ مقام نہیں کہ وہ خوابوں میں جی رہا ہو اس دنیا میں وقت مقررہ تک رہنا ہے یہ حقیقت ہے۔اللہ کریم نے دین حق عطا فرمایا یہ بھی حقیقت ہے ہم حقیقت کو چھوڑ کر خوابوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔انبیاء ؑ بھی اپنی اولاد کو یہی نصیحت فرماتے رہے کہ ایمان پر قائم رہنا اور اور حق کی سربلندی کے لیے کوشاں رہنا کیونکہ نتائج عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔جس حال میں ہم ہیں اُسے دیکھنے کی ضرورت ہے جو غلطی ہو چکی آئندہ نہ ہو۔بحیثیت مسلمان جب مانا کہ وہ وحدہ لاشریک ہے پھر مخلوق سے اپنی توقعات وابستہ کر لینا کہ مجھے فلاں بندہ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ دین اسلام تواتر سے ہم تک پہنچا تو ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور اس کے احکامات پر من و عن عمل پیرا ہونا چاہیے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ ایسے خوش بخت بھی اس دنیا سے گزرے ہیں جن کی شہادت اللہ کریم قرآن مجید میں دے رہے ہیں۔اللہ کریم کا احسان کہ نبی کریم ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہر سوال کا جواب ہے۔نبی کریم ﷺ کا زمانہ تمام زمانوں میں افضل ترین ہے۔آج ہم اپنے اجداد کی وصیت بھول چکے ہیں جو جہاں جیسا عمل کرے گا اس کا حساب کتاب بھی اسی کے ذمہ ہے۔وقت گزر رہا ہے اور ہمیں اس کا ادراک نہیں ہے یا ہم ماضی پر بات کر رہے ہوتے ہیں یا پھر آنے والے وقت کو پلان کر رہے ہوتے ہیں۔جہاں ہیں جس حال میں ہیں اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں
Mulki halaat ki behtari ke liye hamein khowaboon se nikal kar –apne hissay ka kirdaar ada karne ki zaroorat hai - 1

جب باطن میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے


بحیثیت مسلمان ہم اللہ کریم کے تمام احکامات کو مانتے ہیں اسی طرح جو ارشادات آپ ﷺ نے فرمائے اُن کو بھی مانتے ہیں لیکن ہمارے اعمال کیسے ہیں کیا ہماری عملی زندگی اس بات کی شہاد ت دیتی ہے کہ واقعی اُن احکاما ت پر ہم اپنی پوری کوشش اور دل کی اتھا گہرائیوں سے عمل پیرا ہیں؟یاد رکھیں جب تک ہمارا باطن اُس درجے کی پاکیزگی حاصل نہ کرے گا کہ ہمارا ظاہر اس کی گواہی دے اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوا ن پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب! 
  انہوں نے کہا کہ جب باطن میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے اور جب صرف ظاہر تبدیل ہو تو وہ وقتی اور لمحاتی ہوتی ہے جزبات ہوتے ہیں جب ان کا اثر ختم ہوتا ہے تو تبدیلی بھی ختم ہو جاتی ہے لیکن جب نہاں خانہ دل میں نور ایمان راسخ ہو جائے پھر جو باطن میں تبدیلی آتی ہے وہ ظاہر پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور دیرتک رہتی ہے۔اسی لیے اللہ کی یاد کو دل میں بسانے کے لیے محنت کرائی جاتی ہے تا کہ اگر کہیں کمی بیشی بھی ہوجائے تو اللہ کی یاد پھر اُس کے حضور معافی کا سبب بنتی ہے بندے کو اس کمی بیشی سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ حضرت ابراھیم ؑ کو اللہ کریم نے ایسی عزت عطا فرمائی کہ رہتی دنیا تک آپ ؑ کا نام عزت و احترام سے رہے گا۔اللہ کریم نے اپنے دوست خلیل اللہ کو بے شمار امتحانات سے گزارا۔اور آپ ؑ تمام امتحانات میں تعمیل حکم بجا لائے۔انبیاء معصو م عن الخطا ہوتے ہیں ان کا مجاہدہ اضطراری ہوتا ہے جس سے ترقی درجات نصیب ہوتی ہے اللہ کریم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔اللہ کریم نے پھر آپ کو ایسی شان عطا فرمائی کہ آپ ؑ کی ادائیں رہتی دنیا تک قائم فرما دیں جیسے قربانی جو ہم کرتے ہیں اس کو رہتی دنیا تک لوگ کرتے رہیں گے یہ حضرت ابراھیم ؑ کی وہ سنت جسے نبی کریم ﷺ کو بھی اپنانے کا ارشاد فرمایا گیا۔مائی صاحبہ کی وہ تڑپ آپ کے قدم اُٹھانا اللہ کے حضور اتنے مقبول ہوئے کہ اللہ کریم نے آپ کی ادا کو حج کا رکن بنا دیا۔یہ وہ معاملے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مابین ہیں۔بندگی نتائج دیکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ بندگی تعمیل حکم کا نام ہے۔بندگی ہر حصے کی استعداد کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔نیک اولاد بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
 حضرت ابراھیم ؑ کو اللہ کریم نے امامت عطا فرمائی اور امامت سے مراد بندگی ہے۔ہر پہلو سے نہاں خانہ دل سے ظاہر تک ہمہ تن پوری توجہ سے تعمیل میں لگ جانا کیونکہ کوئی بھی ذمہ دار عام لوگوں سے زیادہ ذمہ داری ادا کررہا ہوتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائے۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Jab batin mein tabdeeli aati hai to is ka assar der pa hota hai - 1

نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کرے اگر ہم اُسے روک نہیں سکتے تو ہمارے دل کی دھڑکنیں بند ہو جائیں


آئے روز یہ سنتے ہیں کہ کسی نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کر دی ہے وہ تو گستاخ ہیں جو کر رہے ہیں اس کا نتیجہ پا لیں گے لیکن آج جو ہم دعوی ایمانی رکھتے ہیں قیامت کے روز ہمارے پاس جواب نہیں ہوگا کہ ہم دعوی ایمان لے کر بیٹھے رہے اور لوگ یہ جسارت کرتے رہے یہ شیطنت کرتے رہے۔پہلے بھی ایسے جاہل اور گستاخ گزرے ہیں جنہیں اُس دور کے ایمان والوں نے جواب دئیے یہ آسمان اس بات کا گواہ ہے۔اللہ کریم ہمیں توفیق عطا فرمائیں ایمان عطا فرمائیں اس اُمت کو وہ غیرتِ ایمانی عطا فرمائیں کہ کسی کو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی جرات نہ ہوسکے۔ہم جزباتی قوم ہیں اور جزبات وقتی ہوتے ہیں گزرجاتے ہیں ہم دو دن غصہ کرتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں لیکن یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ قیامت والے دن یہ بھولی ہوئی باتوں میں نہیں ہوگا کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہیں وہ باتیں بھی یاد کرائی جائیں گی جو تم بھول چکے ہو۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ پوری دنیامیں اُمت محمد الرسول اللہ ﷺ موجود ہے اور بڑی تعداد میں موجود ہے لیکن ایمان میں وہ مضبوطی نہیں ہے سابقہ ادوار میں مسلمان کم تعدا د میں ہوتے تھے لیکن ایمان مضبوط ہوتے ان کے اندر غیرتِ ایمانی ہوتی تھی کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ کوئی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اگر کوئی کرتا تو اُسے جواب دیا جاتا۔اللہ کریم ہمارے دلوں کوبھی ہمارے اجداد جیسی غیرت ایمانی سے بھر دے۔نیک کاموں میں اجداد جیسی مشابہت عطا فرمائے۔ہماری تکبیروں میں بھی اتنی جان ہو کہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔
 اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے امت مسلمہ کے لیے اتفاق و اتحاد کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Nabi kareem SAW ki shaan mein koi gustaakhi kere agar hum ussay rokk Nahi satke to hamaray dil ki dharkanain band ho jayen - 1

دین کا سیکھنا اور دوسروں تک پہنچانا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے


 وطن عزیز پاکستان میں بسنے والے ہم لوگ باہم تفریق کا شکار ہو گئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سب متحد ہو کر اپنے آپ کو اُس چھتری کے نیچے لے آئیں جو کہ آپ ﷺ کے احکامات کی صورت میں ہمیں عطا ہوئی ہے۔آج بھی اگر معاشرے میں نظام معیشت کو اسلامی اصولوں پر لے آئیں تو یقین رکھیں کہ ملک میں خوشحالی آئے گی ایک دفعہ اس کو آزماکر تو دیکھ لیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ دین کا سیکھنا اور دوسروں تک پہنچانا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔صرف اپنی بات درست سمجھنا اور دوسرے کی بات کو رد کر دینا یہ کوئی معیار نہیں ہے معیار اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں،اسوۃ حسنہ ہے۔پھر بھی اگر کوئی ضد اور انا کا شکار ہے تو اس سے صرف فساد ہو گا۔تعمیر نہیں تخریب کا سبب ہو گا۔آج ہمارے ملک میں ایک ناگہانی سی صورت ہے کچھ معلوم نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہو جائے۔ساری دنیا کی مان رہے ہیں لیکن دنیا کے مالک کی نہیں مان رہے۔ساری کتابوں کے حوالے دئیے جا رہے ہیں کتاب اللہ کا حوالہ نہیں دیا جا رہا۔سارے ماہرین کی بات سنی جا رہی ہے تجربے کیے جا رہے ہیں نبی کریم ﷺ کی بات نہیں سنی جا رہی نہیں آزمائی جا رہی 
 تو پھر بھگتو۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگنے سے بھی اب شرم آ رہی ہے کہ توبہ ہی کر لیں کہ ہم نے جو کیا غلط کیا۔اس طرح کیسے اس کی نعمتیں نصیب ہوں۔کیسے حالات بہتر ہوں۔جب بد کرداری ہو،بے عملی ہو،نفاق ہو پھر نتائج کیسے اچھے مرتب ہوں گے اثرات کیسے مثبت ہوں گے۔جب آگ جل رہی ہو نتیجہ میں تپش ہوتی ہے ٹھنڈک نہیں۔وہ پودا پھل کیسے دے گا جس کی جڑیں ہم خود کاٹ رہے ہوں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں اور ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ ہم دنیاوی امور کے لیے بھی تقسیم ہو رہے ہیں اور دین کی کوئی بات آجائے تو وہاں بھی ہمارا رویہ بہت تلخ ہو چکا ہے۔ہم ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں پوری قوت لگا رہے ہیں۔اس تقسیم میں کتنی سختی اور نفرت پیدا ہو گئی ہے۔آج جس روش پر ہم چل رہے ہیں ہماری طاقت ضائع ہو رہی ہے۔ہم متحد نہیں ہو رہے۔ہمارے معیشت دان ہمیں سارے جہان کی باتیں سنا دیتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ سود چھوڑ دینا چاہیے۔اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائیں ہمیں دوسروں پر اعتراض کرنے کی بجائے سب سے پہلے خود کا محاسبہ کرنا ہو گا کہ میں کیا کر رہا ہوں میرا کردار اس معاشرے کو کیا فائدہ دے رہا ہے۔میری وجہ سے کیا مثبت تبدیلی آرہی ہے۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Deen ka seekhna aur doosron tak pahunchana har aik ki bunyadi zimma daari hai - 1

پیشانیوں کا نور اللہ کے حضور سجدوں سے حاصل ہوتا ہے


نبی کریم ﷺکی زندگی مبارک میں بھی ہر طرح کے سخت حالات آئے جس میں اُمت کے لیے ثابت قدمی کا درس موجود ہے۔ ایسے ہی صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں سے ہمیں ثابت قدمی کا درس ملتا ہے۔پیشانیوں کا نور اللہ کے حضور سجدوں سے حاصل ہوتا ہے اس کے علاوہ ممکن نہیں۔جنہیں معیت محمد الرسول اللہ ﷺ نصیب ہوتی ہے ان کے کردار ایسے ہوجاتے ہیں کہ غیر مسلم کو دین کی طرف لانے کا سبب بن جاتے ہیں۔جہاں حق کا انکار کیا جاتا ہے اُسے اقرار تک لانے کا سبب بن جاتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا گلاسگو (انگلینڈ) میں سراجا منیرا کانفرنس سے خطاب
  انہوں نے کہا کہ کائنات کا کوئی بھی کام اتفاق سے نہیں ہو رہا بلکہ ہر کام ایک مضبوط نظام کے تحت اللہ کریم کے حکم سے ہو رہا ہے 
 ایک ٹہنی سے جو پتہ بھی ٹوٹ کر گرتا ہے اُسے کہاں خاک ہونا ہے سب ایک مضبوط نظام کے تحت ہو رہا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اپنی نگاہ کو اُٹھاؤ آسمانوں کی طرف تھک کر نگاہ لوٹ آئے گی کوئی نقص نہیں تلاش کر سکو گے۔زندگی کا جو لمحہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا وہ قیمتی ترین ہوتا چلا جائے گااور عبادت کا درجہ بھی نصیب ہوگا۔اور یہی زندگی کا مقصد ہے کہ اپنی ہر سوچ اور عمل کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے تابع کر دیا جائے۔اللہ کریم کی رضا ہی اصل کامیابی ہے۔ہر ایک نے ایک دن اللہ کے حضور اپنا حساب دینا ہے جس کی تیاری ہمیں اسی زندگی میں کرنی ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔ آخر میں انہوں امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔ 
  یاد رہے کہ گلاسگو میں حضر ت جی کے دورہ برطانیہ کا آخری پروگرام ہے اس کے بعد آپ کی پاکستان واپسی ہو گی۔مرکز دارالعرفان منارہ میں  35 روزہ سالانہ روحانی اجتماع 28 مئی سے 3 جولائی 2022 تک جاری رہے گا۔جس میں روزانہ دن بارہ بجے آپ کا خصوصی خطاب ہو گا۔سالکین پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی اپنی روحانی تربیت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔
pishanyon ka noor Allah ke huzoor sajdon se haasil hota hai - 1

تزکیہ نفس فرائض ِنبوت کا بنیادی حصہ ہے


  تزکیہ نفس فرائض ِنبوت کا بنیادی حصہ ہے۔جو اقرار کیا اس پر دل بھی گواہی دے دل بھی تصدیق کرے وہ یقین جو دل کی گہرائی تک اثر پیدا کرے۔جو ماننے سے عمل تک لے جائے۔عملی زندگی نبی کریم ﷺ کی سنت میں ڈھل جائے۔انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ہر پہلو میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا  شیفلڈ(انگلینڈ)  میں سراجا منیرا کانفرنس سے خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔کائنات کی ہر شئے اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔جس نے اللہ کا ذکر چھوڑ دیا اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے وہ فنا ہو جاتی ہے۔بندگی ہی انسانیت کا کمال ہے۔زندگی صرف گزارنے کا نام نہیں ہے۔اللہ کریم نے شکر اور انکار کا اختیار انسان کو دے دیا اب فیصلہ اس نے خود کرنا ہے کہ کس راہ کا انتخاب کرتا ہے۔اسم ِ اعظم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی تسبیح نہیں ہے کہ جس کے کرنے سے بندہ جو چاہے ویسا ہو جائے یہ شان صرف اللہ کریم کی ہے وہ خالق ہیں وہ قادر مطلق ہیں جیسا وہ چاہیں گے ویسا ہو گا۔ یہ تو خدائی دعوے کی طرف لے کر جاتا ہے۔کہ جیسا میں چاہوں ویسا ہو جائے۔اللہ کریم کا ذاتی نام اللہ ہے باقی سب صفاتی نام ہیں پھر اسم اعظم اللہ کریم کے ذاتی نام کے سوا اور کونسا نام ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اُس نے اپنا نام لینے کی توفیق عطا فرمائی اپنے نام پر جمع فرمایا یہ اس کا احسان ہے وگرنہ وہ قادرہے ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔اپنی عبادات کو خالص اللہ کے لیے رکھیں جنت بھی اس لیے مانگی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی رضا کامظہر ہے۔جنہیں اللہ کی رضا نصیب ہوگی جنت ان کی رہائش گاہ ہے۔فی ذات جنت مقصود نہیں فی ذات رب العالمین کی ذات مقصود رکھی جائے گی۔
آخر میں آپ نے امت مسلمہ کے اتحادو اتفاق کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
  یاد رہے کہ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ برطانیہ کے دورہ پر ہیں جہاں مختلف شہروں میں سراجا منیرا کانفرنسز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔پروگرام میں آپ کا خطاب ہوتا ہے اور اجتماعی دعا بھی کی جاتی ہے۔
tazkia nafs faraiz Nabuwat ka bunyadi hissa hai - 1

عشق مصطفے ٰ ﷺ کا تقاضہ ہے کہ ہماری سوچ سے لے کر عمل تک ایک ایک پہلو آپ ﷺ کی سنت سے مزین ہوتا چلا جائے۔


 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ نے مانچسٹر (انگلینڈ) میں سراجا منیرا کانفر نس میں خواتین و حضرات کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم ال م سے والناس تک ہمیں سراجا منیرا کا درس دیتا ہے۔آپ ﷺ کی ذات روشنیاں بانٹنے والاچراغ ہے۔قرآن کریم کلام ذاتی ہے جیسی متکلم کی حیثیت ہوتی ہے ویسی ہی کلام کی اہمیت بھی ہوتی ہے۔بادشاہ کا کلام،کلاموں میں بادشاہ ہوتا ہے۔ہماری یہ حیثیت نہیں کہ ہم اللہ کریم کے کلام کی شان بیان کر سکیں۔آپ ﷺ انسانیت کو اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لے کر آئے۔دین اسلام کا ہر حکم ہر جگہ ہر ایک کو استفادہ عطا فرماتا ہے۔ہر سوال کا جوا ب قرآن کریم میں موجود ہے ہر قسم کی راہنمائی موجود ہے جو سوال گزر چکے جو سوال موجود ہیں جو سوال آنے والے زمانے میں پیدا ہوں گے سب کی راہنمائی ہمیں قرآن و سنت سے میسر ہے۔
  انہوں نے کہا کہ قرآن کریم ہمیں مقصد تخلیق سے آگاہ فرماتا ہے اور نتائج کے حوالے سے بھی شناسائی عطا فرماتا ہے۔کائنات کی ہر شئے با مقصد ہے انسان تو اشرف المخلوقات ہے فرشتے جو کہ نوری مخلوق ہے اُسے بھی حکم ہوا جب آدم کی تخلیق مکمل ہو گی تو اس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا۔انسان اس کائنات کا مرکزی کردار ہے تو کیا یہ بامقصد نہیں ہم اس سے غافل ہیں ہمارے شب وروز گزر رہے ہیں اور صرف گزر رہے ہیں ہمیں ادراک نہیں کہ یہ وقت یہ سانسیں کتنی قیمتی ہیں۔اس ادراک کے لیے درِ مصطفے ﷺ کی ضرورت ہے۔رب کائنات نے یہ در عطا فرمایا ہے یہاں سے اس مخلوق کو خالق نے ذاتی آشنائی عطا فرمائی۔آج معاشرہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ عشق مصطفے ﷺ میں تضاد پائے جاتے ہیں یہ تو وہ در ہے جہاں سے حیات نصیب ہوتی ہے۔اور قرآن کریم ایسی کتاب جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اس کے باوجود لوگ قرآن کریم ہا تھ میں پکڑ کر ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے رہے ہیں۔ہمارے سارے جھگڑے اپنی پسند کی وجہ سے ہیں ہمارے اندر سے میں نہیں جا رہی ہر کوئی کہتا ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے باقی سب غلط۔تو اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ اس میں کو مٹا دیتا ہے۔بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے تحت آجاتا ہے۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے تمام ساتھیوں کو قلبی ذکر سکھایا اور اس کی ہمیت بیان فرمائی۔بعد میں حضرت مد ظلہ العالی نے ذکر اللہ بھی کروایا۔یاد رہے کہ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان برطانیہ دورہ پر ہیں جہاں مختلف شہروں میں سراجا منیرا کانفرنسز کا انعقاد ہو رہا ہے۔جس میں آپ خصوصی لیکچر دے رہے ہیں۔آخر میں آپ نے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے لیے اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Ishhq mustfa SAW ka taqaza hai ke hamari soch se le kar amal tak aik aik pehlu aap ki sunnat se muzayyan hota chala jaye . - 1